فريضہ ادا كيا_ (14) امام حسين (ع)كى شخصيت ايسى پر شكوہ اور باعظمت تھى كہ جب آپ (ع) اپنے بھائي امام حسن مجتبى _كے ساتھ حج كے لئے پيدل جارہے تھے تو تمام بزرگ اور اسلام كے نماياں افراد آپ(ع) كے احترام ميں مركب اور سوارى سے اتر پڑتے اور آپ(ع) كے ہمراہ پيدل راستہ طے كرتے_ (15) امام حسين (ع) كا ا حترام اور ان كى قدردانى كا معاشرہ اس لئے قائل تھا كہ آپ(ع) ہميشہ لوگوں كے ساتھ زندگى بسر كرتے اور دوسروں كى طرح ايك معاشرہ كى نعمتوں اور مصيبتوں ميں شامل رہتے تھے اور خداوند عالم پر پُر خلوص اعيان كى بناپر آپ عوام كے غم خوار اور مددگار تھے_ آپ ايك ايسى جگہ سے گذر ے جہاں كچھ فقير اپنى اپنى چارديں بچھائے ہوئے بيٹھے تھے اور سوكھى روٹيوں كے ٹكڑے كھارہے تھے _ امام حسين (ع) كو ان لوگوں نے دعوت دى تو آپ نے ان كى دعوت قبول كى اور ان كے پہلو ميں بيٹھ گئے اور پھر آپ نے يہ آيت پڑھي: انَّہ لا يحب المستكبرين_ (16) اس كے بعد آپ (ع) نے فرمايا كہ : '' ميں نے تمہارى دعوت قبول كى اب تم بھى ميرى دعوت قبول كرو_ وہ لوگ امام حسين (ع) كے ساتھ ان كے گھر آئے_ امام (ع) نے حكم ديا كہ جو كچھ گھر ميں ہے وہ مہانوں كے لئے لايا جائے_(17) اس طرح آپ نے معاشرہ كو تواضع اور انسان دوستى كا د رس ديا_ اس حصّہ كو علائلى كى اس بات كے خلاصہ كے ساتھ ختم كرتا ہوں جو انہوں نے اپنى كتاب ميں ابا عبداللہ الحسين (ع)كے بارے ميں كہى ہے وہ فرماتے ہيں كہ : '' تاريخ ميں ہم كو ايسے بزرگ افراد نظر آتے ہيں جن ميں ہر ايك نے كسى نہ كسى جہت اور كسى نہ كسى محاذ پر اپنى عظمت و بزرگى كو عالمى حيثيت دى ہے_ ايك شجاعت ميں تو دوسرا زہد ميں تو تيسرا سخاوت ميں ... ليكن ا مام حسين كى عظمت و بزرگى كا ہر پہلو فراز تاريخ كى عظمت كو دوبالا كرنے والا ہے_ گويا آپ(ع) ميں تمام خوبياں اور بلندياں جمع ہوگئي تھيں_ (18) |
مدينہ كے گورنر نے حكم كے مطابق بيعت كا سوال امام (ع) كے سامنے ركھا، امام حسين (ع) نے فرمايا: ''اناللہ و انا اليہ راجعون و على الاسلام السلام اذا بليت الامة براع: مثل يزيد (20) '' يعنى جب يزيد جيسے لوگ ( شراب خوار، جواري، بے ايمان اور ناپاك) حكومت اسلامى كى مسند پر بيٹھ جائيں تو اسلام پر فاتحہ پڑھ دينا چاہيے_ امام (ع) نے بيعت كى پيش كش كو ٹھكرانے كے بعد يہ سمجھ ليا كہ اگر مدينہ ميں رہے تو آپ(ع) كو قتل كرديا جائے گا_ لہذا رات كے وقت پوشيدہ طور پر 28 رجب 60 ھ كو اپنے يار و انصار كے ساتھ مكہ كى طرف روانہ ہوگئے_(21) آپ كے مكہ ميں پہنچنے اور يزيد كى بيعت سے انكار كرنے كى خبر مكہ اور مدينہ كے لوگوں كے درميان پھيل گئي اور يہ خبر كوفہ بھى پہنچ گئي _ اس طرح لوگوں كو امام حسين (ع) كى مدد اور ان كى موافقت كے لئے اپنے كوآمادہ كرنے كا موقع نظر آيا كہ شايد اس طرح بنى اميہ كے ظلم سے نجات مل جائے_ كوفيوں نے_ مندرجہ بالا نكات كے پيش نظر _ مكہ پہنچنے كى خبر سنتے ہى بہت سے خطوط كے ذريعہ آپ(ع) كو دعوت دى كہ آپ كوفہ تشريف لايئےور ہمارى رہنمائي كى ذمہ دارى قبول كرليجئے_ حضرت ابو عبداللہ الحسين (ع) نے جناب مسلم كو روانہ كرنے كے ساتھ ان تمام خطوط كا جواب مختصر جملوں ميں اس طرح لكھا'' اما بعد يہ خط حسين بن على (عليہما السلام) كى طرف سے عراق كے مسلمانوں اور مؤمنوں كى جماعت كى طرف بھيجا جار ہا ہے_ تم يہ جان لو كہ ہانى اور سعيد جو تمہارے بھيجے ہوئے آخرى افراد تمہارے خطوط لے كر آئے_ ان تمام باتوں كى جو تمہارى تحريروں سے عياں تھيں مجھے اطلاع ملي_ خلاصہ يہ كہ تمہارا مطلب يہ تھا كہ '' ہمارے پاس كوئي لائق رہبر اور امام نہيں ہے ہمارے پاس آجايئےايد خدا ہم كو آپ كے ذريعہ ہدايت تك پہنچا دے_ فورى طور پرميں حضرت مسلم كو جو ميرے چچا كے بيٹے اور ميرے معتمد ہيں، تمہارے پاس بھيج رہا ہوں اگر انہوں نے لكھا كہ تمہارے آخرى نظريات عملى طور پر اسى طرح ہيں جيسا كہ تم نے |
آپ(ع) كى شہادت كے بعد دشمن كا لشكر آپ(ع) كے پسماندگان كے خيمہ ميں گھس آيا، تمام مال و اسباب لوٹ ليا اور آپ(ع) كے اہل بيت كو اسير كركے شہداء كے كٹے ہوئے سروں كے ساتھ كوفہ اور وہاں سے شام لے گيا_ |
سوالات1_ حسين (ع) ابن على (ع) كس تاريخ كو پيدا ہوئے اور پيغمبر(ص) اكرم كے ساتھ كتنے دنوں تك رہے؟ 2_ صلح كے بارے ميں امام حسين (ع) كا موقف كيا تھا؟ اس كا ايك نمونہ بيان فرمايئے 3_ امام حسين (ع) كى تواضع اور فروتنى كے ايك نمونہ كا ذكر كيجئے_ 4_امام حسين (ع) كا قيام كس زمانہ ميں اور كس طرح شروع ہوا؟ 5_ امام (ع) نے مكہ سے كوفہ جانے كا كيوں ارادہ كيا اور كوفہ جانے سے پہلے آپ(ع) نے كون سا اقدام كيا ؟ 6_ دشمن كے لشكر سے امام حسين (ع) كس جگہ ملے؟ دونوں لشكروں كے حالات اور آپ(ع) كى اور آپ(ع) كے اصحاب كى تاريخ شہادت بيان كيجئے؟ |
حوالہ جات1 اعلام الورى / 213، بحار جلد 44/ 201_ 2 بحار جلد 43/ 241_ 3 فروع كافى جلد 6/33 بحار جلد 43/ 257_ 4 '' ... انت سيد بن سيد ابوالسادات انت امام ابن امام ابوالائمہ ، انت حجة اللہ بن حجتہ و ابو حجج تسعة من صلبك و تاسعہم قائمہم'' مقتل خوارزمى جلد 1 / 146، كمال الدين صدوق جلد 1/ 262 بحار جلد 43/ 290_ 5 ''سئل رسول اللہ اى اہل البيت احب اليك ؟ قال : الحسن والحسين ''سنن ترمذى جلد5/ 323 ، بحار جلد 43/ 264، 265_ 6 الحسن والحسين سيد الشباب اہل الجنہ، بحار جلد 43 / 264 ، 265، سنن ترمذى جلد 5/ 323 بحار جلد 43/299_ 7 '' حسين منى و انا من حسين'' سنن ترمذى جلد 5/ 324، بحار جلد 43/ 270 _ 272 مقتل خوارزمى جلد 1 / 146، انساب الاشراب بلاذرى جلد 3 / 142_ 8 الاصابہ جلد 1 ص 333_ 9 كافى ميں منقول ہے كہ جس نشست ميں امام حسن (ع) بيٹھے رہتے تھے اس ميں امام حسين (ع) بھائي كے احترام كى بناپر باتيں نہيں كرتے تھے يہاں تك كہ بخشش و عطا ميں بھى اس بات كا خيال ركھتے تھے كہ امام حسن (ع) سے ذرا كم ہو_ 10 ارشاد مفيد / 173 ، شرح نہج البلاغہ ابن ابى الحديد جلد 16 / 47_ 11 بحار جلد 44/ 196 ، منقول از فلاح السائل و عقد الفريد_ 12 ارشاد مفيد / 230 مطبوعہ مكبة بصيرتي'' فہو يعلم اَنّى قد كنت احبُّ الصلوة و تلاوة كتابہ و كثرة الدعا و الاستغار'' 13 اسد الغابہ جلد 2/20_ 14 انساب الاشراف بلاذري_ |
15 سورہ نحل / 23_ 16 تفسير سياسى جلد 2/257 ، مناقب جلد 4/ 66 ، جلاء العيون مرحوم شبر جلد 2/ 24_ 17 سمو المعنى / 104_ 18 رجال كشى / 94_ 19 مقتل خوارزمى جلد 1 /184، لہوف / 20 بحار جلد 44/ 326_ 20 ارشاد مفيد / 201 ، تاريخ طبرى جلد 341، بحار جلد 44/ 326_ 21 مناقب ابن شہر آشوب جلد 4/90 ،ارشاد مفيد / 204 بحار جلد 44/ 334 كامل ابن اثير جلد 4/21 22 ارشاد مفيد / 205 ،بحار جلد 44/ 336_ 23 مناقب ابن شہر آشوب جلد 4/ 91 ،بحار جلد 44 / 366 24 8ذى الحجة كو منى جانا ايك مستحب عمل ہے اس زمانہ ميں اس استحبابى حكم پر عمل ہوتا تھا ليكن اس زمانہ ميں حجاج ايك ساتھ عرفات جاتے ہيں_ 25 ارشاد مفيد /281 ،بحار جلد 44/ 363 ،اعلام الوري/ 227 ،اعيان الشيعہ ( دس جلد والي) جلد 1 / 593، نہضت الحسين مصنفہ ہية الذين شہرستانى /165 مقتل ابى مخنف / 66 ، ليكن بعض صحيح روايات سے استفادہ ہوتاہے كہ امام حسين(ع) نے حج تمتع كا احرام نہيں باندھا تھا كہ اس كو عمرہ مفردہ سے تبديل كرديں ملاحظہ ہو وسائل الشيعہ جلد 10 باب 7 از ابواب عمرہ حديث 2،3_ 26 ارشاد مفيد / 206 ،بحارجلد 44/ 340 مقاتل الطالبين /63_ 27 ارشاد مفيد / 212_ 28 ارشاد مفيد / 213 _216_ 29 '' قلوبہم معك و سيوف مع بنى اميہ ...'' تاريخ طبرى جلد 5/384 ، كامل ابن اثير جلد 4/ 40 ارشاد مفيد / 618 بحار ،جلد 44/ 195_ 30 بحار جلد 44/ 386_ البتہ لشكر يزيد كى تعداد كے بارے ميں دوسرى روايتيں بھى ہيں جن ميں سب سے كم بارہ ہزار كى روايت ہے _ مناقب جلد 4/98پر 35 ہزار افراد كى تعداد بھى لكھى گئي ہے_ |