المحسنين'' 4 '' وہ لوگ جو اپنا غصہ پى كر لوگوں سے درگذر كرتے ہيں اور خدا نيكو كاروں كو دوست ركھتا ہے''_ جب اس آدمى كے گھر كے دروازہ پر پہنچے اور امام (ع) نے اس كو آواز دى تو وہ اس گمان ميں اپنے كو لڑنے كے لئے تيار كركے باہر نكلا كہ امام (ع) گذشتہ باتوں كا بدلہ لينے آئے ہيں_ حضرت سيد سجاد (ع) نے فرمايا: ميرے بھائي تو تھوڑى دير پہلے ميرے پاس آيا تھا اور تو نے كچھ باتيں كہى تھيں، جو باتيں تونے كہى ہيں اگر وہ ميرے اندر ہيں تو ميں خدا سے بخشش كا طلبگار ہوں اور اگر نہيں ہيں تو خدا سے ميرى دعا ہے كہ وہ تجھے معاف كردے_ امام زين العابدين (ع)كى غير متوقع نرمى نے اس شخص كو شرمندہ كرديا وہ قريب آيا اور امام (ع) كى پيشانى كو بوسہ ديكر كہا :'' ميں نے جو باتيں كہيں وہ آپ ميں نہيں تھيں اور ميں اس بات كا اعتراف كرتا ہوں كہ جو كچھ ميں نے كہا تھا ميں اس كا زيادہ سزاوار ہوں''_ 5 2_ زيد بن اسامہ حالت احتضار ميں بستر پر پڑے ہوئے تھے سيد سجاد(ع) ان كى عيادت كے لئے ان كے سرہانے تشريف لائے ،ديكھا كہ زيد رو رہے ہيں آپ نے پوچھا آپ كيوں رو رہے ہيں، انہوں نے كہا پندرہ ہزار دينار ميرے اوپر قرض ہے اور ميرا مال ميرے قرض كے برابر نہيں ہے_ امام (ع) نے فرمايا: '' مت رويئے آپ كے قرض كى ادائيگى ميرے ذمہ ہے''_ پھر جس طرح آپ نے فرمايا تھا اسى طرح ادا بھى كرديا_ 6 3_ راتوں كو امام زين العابدين (ع)مدينہ كے بے سہارا اور ضرورت مندوں ميں اس طرح روٹياں تقسم كرتے تھے كہ پہچانے نہ جائيں اور ان لوگوں كى مالى امداد فرماتے تھے_ جب آپ كا انتقال ہوگيا تب لوگوں كو پتہ چلا كہ وہ نامعلوم شخصيت امام زين العابدين (ع)كى تھي_ آپ كى وفات كے بعد يہ معلوم ہوا كہ آپ ايك سو خاندانوں كا خرچ برداشت كرتے تھے اور ان لوگوں كو يہ نہيں معلوم تھا كہ ان كے گھر كا خرچ چلانے والے امام زين العابدين (ع) ہيں_ 7 |
وليد بن عبدالملك جيسے زمامداران حكومت كا زمانہ آپ(ع) نے ديكھا_ آپ(ع) كى امامت كا دور اور معاشرہ ميں حكومت كرنے والے اس زمانہ كے سياسى حالات تمام ائمہ كى زندگى ميں پيش آنے والے حالات سے زيادہ دشوار اور حساس تھے _ سيرت و روش پيغمبر(ص) سے انحراف، امام زين العابدين (ع)كے زمانہ ميں اپنے عروج پر تھا_ اور اس كى شكل بالكل صاف نظر آتى تھي_ امام زين العابدين (ع)كى روش ان كى امامت كے زمانہ ميں دو حصوں ميں تقسيم كى جاسكتى ہے_ الف : اسيرى كا زمانہ ب: اسيرى كے بعد مدينہ كى زندگي الف:كربلا كے جاں گداز واقعہ ميں امام زين العابدين (ع)اپنے بزرگوار كے ساتھ تھے_ خدا كے لطف و كرم نے دشمن كے گزند سے محفوظ ركھا ليكن باپ كى شہادت كے بعد اسير ہوگئے اور دوسرے لوگوں كے ساتھ كوفہ اور شام تشريف لے گئے_ اس ميں كوئي شك نہيں كہ اہل بيت امام حسين (ع) كا اسير ہونا _ آپ كے مقدس انقلاب كو كاميابى تك پہنچانے ميں بڑا مؤثر ثابت ہوا_ چوتھے امام (ع) نے اسيرى كے زمانہ ميں ہرگز تقيہ نہيں كيا اور كمال بردبارى اور شہامت كے ساتھ تقريروں اور خطبوں ميں واقعہ كربلا كو لوگوں كے سامنے بيان فرمايا اور حق و حقيقت كا اظہار كرتے رہے_ مناسب موقع پر خاندان رسالت كى عظمت كو لوگوں كے كانوں تك پہنچاتے رہے، اپنے پدربزرگوار كى مظلوميت اور بنى اميہ كے ظلم و ستم اور بے رحمى كو لوگوں كے سامنے واضح كرتے رہے_ امام زين العابدين (ع)با وجود اس كے كہ اپنے باپ كى شہادت كے وقت بيمار تھے، باپ ،بھائيوں اور اصحاب كى شہادت پر دل شكستہ اور رنجيدہ بھى تھے ليكن پھر بھى يہ رنج و آلام آپ كے فرائض كى انجام دہى اور خون آلود انقلاب كربلا كے تحفظ ميں ركاوٹ نہ بن سكے_ آپ نے لوگوں كے افكار كو روشن كرنے كے لئے ہر مناسب موقع سے فائدہ اٹھايا_ |
كوفہ ميںاسيروں كا قافلہ كوفہ پہنچا _ جب لوگ جناب زينب (ع) اور ان كى بہن ام كلثوم(ع) كے خطبوں سے پشيمان ہو كر رونے لگے تو امام زين العابدين (ع) نے اشارہ كيا كہ مجمع خاموش ہوجائے پھر پروردگار كى حمد و ثنا اور پيغمبر(ص) پر درود و سلام كے بعد آپ(ع) نے فرمايا: '' اے لوگو ميں على بن الحسين (ع) ہوں، ميں اس كا فرزند ہوں كہ جس كو فرات كے كنارے بغير اس كے كہ انہوں نے كسى كا خون بہايا ہو يا كسى كا حق ان كى گردن پر ہو، ذبح كرديا گيا_ ميں اس كا فرزند ہوں جس كا مال شہادت كے بعد لوٹ ليا گيا اور جس كے خاندان كو اسير بنا كر يہاں لايا گيا_ لوگو كيا تمہيں ياد ہے كہ تم نے ميرے باپ كو خط لكھ كر كوفہ بلايا اور جب وہ تمہارى طرف آئے تو تم نے ان كو قتل كرديا؟ قيامت كے دن پيغمبراكرم(ص) كے سامنے كس منہ سے جاؤگے؟ جب وہ تم سے فرمائيں گے كہ '' كيا تم نے ميرے خاندان كو قتل كرديا اور ميرى حرمت كى رعايت نہيں كى لہذا تم ميرى امت ميں سے نہيں ہو''_ 13 حضرت امام زين العابدين (ع) كى تقرير نے طوفان كى طرح لوگوں كو ہلا كر ركھ ديا_ ہر طرف سے گريہ و زارى كى آوازيں آنے لگيں، لوگ ايك دوسرے كو ملامت كرنے لگے كہ تم ہلاك اور بدبخت ہوگئے اور حالت يہ ہے كہ تم كو خود ہى نہيں معلوم_ امام حسين (ع) كے اہل حرم كو ابن زياد كے دربار ميں لے جايا گيا اور جب ابن زياداور امام زين العابدين (ع)كے درميان گفتگو ہوئي تو آپ(ع) نے نہايت يقين اور شجاعت كے ساتھ ہر موقع پر نہايت دنداں شكن جواب ديا جس سے ابن زياد ايسا غضب ناك ہوا كہ اس نے امام (ع) كے قتل كا حكم ديديا_ اس موقع پر جناب زينب سلام اللہ عليہا نے اعتراض كيا اور فرمايا كہ :'' اگر تم على ابن الحسين (ع) كو قتل كرنا چاہتے ہو تو ان كے ساتھ مجھے بھى قتل كردو''_ امام (ع) نے اپنى پھوپھى سے فرمايا:''آپ |
يزيد كى طرف مخاطب ہوئے اور فرمايا ''تو مجھے بھى اسى لكڑى ( منبر) پر جانے دے اور ايسى بات كہنے دے جس سے ميں خدا كو خوش كروں اور وہ حاضرين كے لئے اجر و ثواب كا باعث ہے''_ يزيد نے پہلے تو اجازت نہيں دى ليكن لوگوں كے اصرار كے جواب ميں بولا كہ '' اگر يہ منبر پر جائيں گے تو مجھ كو اور خاندان ابوسفيان كو ذليل كئے بغير منبر سے نيچے نہيں اتريں گے'' لوگوں نے كہا كہ :'' يہ كيا كرسكتے ہيں؟ يزيد نے كہا كہ '' يہ وہ خاندان ہے جس نے علم ودانش كو بچپنے سے دودھ كے ساتھ پيا ہے''_ لوگوں نے بہت اصرار كيا تو يزيد نے مجبوراً اجازت دے دي، امام(ع) منبر پر تشريف لے گئے اور پيغمبر(ص) پر درود و سلام بھيجنے كے بعد فرمايا: '' اے لوگو خدا نے ہم كو علم، بردباري، سخاوت، فصاحت، دليرى اور مؤمنين كے دلوں ميں ہمارى دوستى عطا كى ہے ... پيغمبر(ص) ہم ميں سے ہيں_ اس امت كے صديق حضرت اميرالمؤمنين علي(ع) ہم ميں سے ہيں،جعفر طيّار ہم ميں سے ہيں، حمزہ سيدالشہداء ہم ميں سے ہيں، امام حسن اور امام حسين عليھما السلام پيغمبر(ص) كے دونوں نواسے ہم ميں سے ہيں_ ميں فرزند مكہ و منى ، فرزند زمزم و صفا ہوں، ميں اس كا بيٹا ہوں جس نے حجر اسود كو عبا ميں ركھ كر اٹھايا_ 18 ميں اس بہترين خلائق شخص كا بيٹا ہوں جس نے احرام باندھا، طواف و سعى كي، حج بجالايا ... ميں خديجة الكبرى كا بيٹا ہو، ميں فاطمہ زہراء (ع) كا بيٹا ہو، ميں اس كا بيٹا ہوں جو اپنے خون ميں غوطہ زن ہوا، ميں اس حسين(ع) كا بيٹا ہوں جس كو كربلا ميں قتل كر ڈالا گيا''_ لوگوں ميں كھلبلى مچ گئي اور امام (ع) كى طرف ديكھ رہے تھے_ آپ(ع) ہر جملہ كے ساتھ بنى اميہ كى حقيقت سے پردہ اٹھاتے جا رہے تھے اور اموى گروہ كى كثيف ماہيت كو آشكار كرتے اور اپنے خاندان كى عظمت اور شہادت حسين _كى زيادہ سے زيادہ قدر و قيمت لوگوں كے سامنے نماياں كرتے جا رہے تھے، رفتہ رفتہ لوگوں كى آنكھيں آنسووںسے ڈبڈبا گئيں، گريہ گلو گير ہوگيا_ پھر ہر گوشہ سے بے تابانہ رونے كى آواز بلند ہوئي_ يزيد كو ڈر لگنے لگا اور امام (ع) كى تقرير كو روكنے كے |
اس كا بيٹا عبدالملك مسند خلافت پر بيٹھا_ عبدالملك نے شام و مصر ميں اپنى پوزيشن مضبوط ہوجانے كے بعد 65 ھ ميں عبداللہ بن زبير كا مكہ ميں محاصرہ كيا اور ان كو قتل كرديا _ 22 عبدالملك كے بڑے جرائم ميں حجاج بن يوسف كو بصرہ اور كوفہ كا حاكم بنانا ہے_ حجاج ايك خون خوار اور جرائم پيشہ شخص تھا اس نے لوگوں كو اذيتيں پہنچائيں اور كشت و خون كا بازار گرم كيا_ خاص كر شيعيان علي(ع) كو ختم كرنے كا اس نے بيڑا اٹھايا اور اپنى حكومت كے زمانہ ميں تقريباً ايك لاكھ بيس ہزار افراد كو قتل كرڈالا _ 23 عبدالملك بڑى سختى سے امام زين العابدين كى نگرانى كرتا تھا اور اس كوشش ميں تھا كہ آپ(ع) كے خلاف كسى بھى طريقہ سے كوئي بہانہ ہاتھ آجائے تو وہ آپ(ع) پر سخت گيرى كرے يا آپ كى توہين كرے_ اس كو جب يہ اطلاع ملى كہ امام زين العابدين (ع) نے اپنى آزاد كردہ كنيز سے عقد كر ليا ہے تو اس نے ايك خط ميں اس كام پر آپ كى شماتت كي_ اس نے چاہا كہ اس طرح وہ حضرت كو يہ سمجھا دے كہ ہم آپ(ع) كے تمام امور حتى كہ داخلى اور ذاتى امور سے بھى باخبر ہيں_ اور اس نے اپنى قرابت دارى كو بھى ياد دلايا، تو امام (ع) نے جواب ميں آئين اسلام كو اس سلسلہ ميں ياد دلاتے ہوئے فرمايا: كہ مسلمان ہوجانا اور خدا پر ايمان لانا ہميشہ دوسرے امتيازات كو ختم كرديتا ہے، امام(ع) نے طنز كے ذريعہ اس كے آبا و اجداد كى گذشتہ جہالت پر ( اور شايد اس كى موجودہ جہالت حالت پر ) سرزنش كى اور فرمايا: فلا لوم على امرئ: مسلم: انّما اللّومُ لوم الجاہلية'' 24 86 ھ ميں عبدالملك كے مرنے كے بعد اس كا بيٹا وليد اس كى جگہ پر مسند خلافت بيٹھا_ 25 سيوطى كے بيان كے مطابق وہ ايك ستمگر اور لا پرواہ شخص تھا اودوسرے بنى اميہ كے حكمرانوںكى طرح يہ بھى امام (ع) كى شہرت اور محبوبيت سے خوف زدہ تھا اور آپ(ع) كى علمى و روحانى شخصيت سے اس كو تكليف تھي، اس وجہ سے وہ شيعوں كے چوتھے پيشوا كا وجود مسلمانوں كے معاشرہ ميں برداشت |
نہيں كر سكتا تھا، اس نے دھوكہ كے ساتھ آپ كو زہر دے ديا_ 26 ايك طرف تو امام زين العابدين (ع)اپنے زمانہ كے ايسے ظالم و جرائم كا ارتكاب كرنے والے بادشاہوں اور ان كى شديد نگرانيوں كو برداشت كر رہے تھے، دوسرى طرف اپنے اطراف ميں ايماندار جاں نثاروں اور مجاہد دوستوں كا فقدان محسوس كرتے تھے_ لہذا آپ(ع) نے مخفى مبارزہ اورجہاد شروع كيا_ اپنے دروازہ كو دوسروں كے لئے بند كرديا، اس طرح آپ(ع) نے اپنى اور اپنے كچھ قابل اعتماد اصحاب كى جان بچالى اور اس محاذ پر صاحب امتياز عناصر كى پرورش، صالح افراد كى تيارى اور مخفى مبارزہ كے ذريعہ شيعى افكار كى تعليم ميں مشغول ہوگئے تا كہ اس راستہ كے سلسلہ كو جو بے شك منزل مقصود سے بہت قريب تھا _ اپنے بعد كے امام كے سپرد كرديں_ امام جعفر صادق _اپنى ايك حديث ميں امام (ع) چہارم كے حالات اور ان كى كردار ساز خدمات كو اس طرح بيان كرتے ہيں: '' حسين ابن على (ع) كے بعد تمام لوگ راستہ سے پلٹ گئے مگر تين افراد: ابو خالد كابلي، يحيى ابن ام طويل اور جبير بن مطعم، اس كے بعد دوسرے لوگ ان سے آملے اور شيعوں كا مجمع بڑھ گيا_ يحيى بن ام طويل مدينہ ميں مسجد پيغمبر (ص) ميں آئے اور تقرير ميں لوگوں سے كہنے لگے: ہم تمہارے ( راستہ اور آئين كے ) مخالف ہيں اور ہمارے اور تمہارے درميان دشمنى اور كينہ ہے''_ 27 مكہ كے راستہ ميں ايك شخص نے اعتراض كرتے ہوئے امام سجاد(ع) سے كہا كہ '' آپ نے جہاد اور اس كى سختى كو چھوڑ ديا اور حج جو آسان ہے اس كے لئے جا رہے ہيں؟ تو آپ(ع) نے فرمايا: اگر باايمان مددگار اور جان نثار اصحاب ہوتے تو جہاد اور مبارزہ حج سے بہتر تھا_ 28 ابوعمر نہدى كا بيان ہے كہ '' امام زين العابدين (ع)نے فرمايا: مكہ اور مدينہ ميں ہمارے بيس دوست (حقيقى اور جاں نثار ) نہيں ہيں_ 29 اس طرح امام زين العابدين (ع)كا كام بے حد دشوار ہمت شكن اور شجاعت كا كام تھا اور |
جو آپ كى يادگار كے طور پر محفوظ رہ گئي ہيں_ صحيفہ سجاديہ كے مضامين اور اس ميں بيان كى گئي باتوں پر غور و فكر نے بہت سے مسائل كو ہمارے لئے روشن كرديا ہے، اسلامى معاشرہ بلكہ انسانى معاشرہ كو اس كتاب نے عالم كى معلومات ،خدا كى معرفت، انسان كى معرفت و غيرہ كے ايك سلسلہ كا تعارف كرايا ہے_ ان حالات ميں جب امام _ كو بيان اور گفتگو كى آزادى ميسر نہ تھي، آپ نے دعا اور مناجات كے ذريعہ اعتقادى اور اخلاقى دستور العمل اور اجتماعى زندگى كے لائحہ عمل كو بيان كيا اور مسلمانوں كے درميان اس كو منتشر كرديا_ صيحفہ سجاديہ كى عظمت كو سمجھنے كے لئے مشہور مصرى مفسر طنطاوى كا قول كافى ہے، وہ كہتے ہيں كہ'' صحيفہ سجاديہ وہ تنہا كتاب ہے جس ميں علوم و معارف اور حكمتيں موجود ہيں اس كے علاوہ كسى كتاب ميں ايسا ذخيرہ نہيں ہے اور يہ مصر كے لوگوں كى بد نصيبى ہے كہ وہ ابھى تك اس كى گراں بہا اور جاودانہ باتوں سے واقف نہيں، ميں اس ميں جتنا بھى غور كرتا چلا جاتا ہوں اس كو مخلوق كے كلام سے بالاتر اور خالق كے كلام سے نيچے ديكھتا ہوں_ 31 امام گوشہ نشينى اور محدوديت كے باوجود دعاؤں كے ذريعہ مسلمانوں كو قيام اور تحريك كا درس ديتے ہيں اور اپنے خدا سے راز و نياز كى باتيں كرتے ہوئے فرماتے ہيں'' خدايا مجھ كو ايسى طاقت اور دست رسى عطا كر كہ جو لوگ مجھ پر ظلم كرتے ہيں ميں ان پر كاميابى حاصل كروں اور ايسى زبان عنايت فرما كہ مقام احتجاج ميں غلبہ حاصل كرسكوں، ايسى فكر اور سمجھ عطا فرما كہ دشمن كے حيلوں كو درہم برہم كردوں اور ظالم كے ہاتھ كو ظلم و تعدى سے روك دوں_ 32 صحيفہ سجاديہ ميں ايسے بہت سارے نمونے موجود ہيں_ |
شہادتامام زين العابدين (ع)57 سال تك رنج و مصيبت برداشت كرنے كے بعد وليد بن عبدالملك كے دور حكومت ميں اس كے حكم سے جس نے اپنى خلافت و حكومت كا محور ظلم و جور اور قتل و غارت بنا ركھا تھا، مسموم ہوكر، 25 محرم 95 ھ ق كو شہادت پائي اور قبرستان بقيع ميں امام حسن مجتبى (ع) كى قبر مطہر كے پہلو ميں سپرد خاك كئے گئے_ 33 |
سوالات1_ امام زين العابدين (ع) كى تاريخ ولادت بيان فرمايئےور ان كى اخلاقى خصوصيات ميں سے دو نمونے بيان كيجئے_ 2_ پيغام عاشوراء كو پہنچا نے اور اس سے حاصل شدہ نتائج كى نگہبانى كرنے ميں آپ نے كيا كردار ادا كيا؟ مختصر طور پر وضاحت كيجئے_ 3_ يزيد نے جو نشست شام كى جامع مسجد ميں منعقد كى تھي، امام (ع) نے اس سے اپنے لئے كس طرح فائدہ حاصل كيا؟ 4_ مدينہ واپسى كے بعد حكومت بنى اميہ كے مد مقابل امام (ع) كا موقف كيوں تبديل ہوگيا؟ اختصار كے ساتھ بيان كيجئے_ 5_ مدينہ واپس آنے كے بعد شہادت كے زمانے تك امام زين العابدين (ع)كے اہم كام كيا تھے؟ 6_ امام سجاد (ع) كس تاريخ كو اور كيسے شہيد ہوئے؟ |
حوالہ جات1 الفصول المہمہ /201- 2 اصول كافى جلد/ 466، ارشاد مفيد /253، اعيان الشيعہ ( دس جلد والى ) جلد 1/629- 3 ارشاد مفيد /253- 4 آل عمران /134- 5 ارشاد مفيد /257، اعيان الشيعہ جلد 1/632- 6 ارشاد مفيد/259، مناقب جلد 4/ 163 ليكن مناقب ميں زيد بن اسامہ كے بجاے '' محمد بن اسامہ '' لكھا ہے_ 7 تذكرة الخواص ابن جوزى / 184، اعيان الشيعہ جلد 1/633، مناقب جلد 4/153- 8 خصال صدوق مطبوعہ غفارى /517، مناقب جلد 4/150- 9 يہ واقعہ، سانحہ كربلا كے بعد يزيد كى حكومت كے دوسرے سال پيش آيا اس ميں يزيد كے حكم سے سپاہ شام نے مدينہ پر حملہ كيا اور تين دن تك مسلمانوں كى جان، مال،عزت و آبرو كو اپنے اوپر مباح سمجھتے رہے_ 10 اعيان الشيعہ ج 1/ 636، بحار ج 46/138،كامل ابن اثير ج 4/112-113- 11 استلام _ہاتھ سے لمس كرنا، چھونا، بوسہ دينا_ 12 امالى سيد مرتضى جلد 1/66، اعيان الشيعہ ( دس جلد والي) جلد 1/634، تذكرة الخواص، بحار ج 46/127-125- 13 احتجاج طبرسى جلد 2/30، اعيان الشيعہ ( دس جلد والي) جلد1/613، بحار جلد 44/112- 14 لہوف سيد ابن طاؤوس /144، مقتل خوارزمى جلد 2/43، بحار جلد 44/117-118- 15 اما ظنّك برسول اللہ لو راناً موثقين فى الحبال- 16 تذكرة الخواص /149، اعيان الشيعہ ( دس جلدي) جلد 1/615، بحار جلد 44/132- 17 ذريعة النجاة /234- 18 عام الفيل كے 35 سال بعد پيغمبراكرم (ص) كے ہاتھوں حجر اسود نصب كئے جانے والے واقعہ كى طرف اشارہ ہے_ 19 كامل بہائي جلد 2/302، بحار جلد 45/137_139- 20 امام حسين كى زندگى كى تاريخ كى تحقيق كے سلسلہ ميں ہم نے بعض شورشوں اور تحريكوں كى طرف اشارہ كيا ہے_ |
21 امام حسين (ع) كى شہادت كے بعد يزيد كى حكومت كے سہ سالہ جرائم كو گذشتہ اسباق ميں بيان كيا گيا ہے اس لئے يہاں پر اس كا تكرار نہيں كيا_ 22 كامل ابن اثير جلد 4/348_356- 23 كامل ابن اثير جلد 4/587- 24 كافى جلد 5/244، مناقب جلد 4،162_ يعنى مسلمان ميں كوئي پستى اور ذلت نہيں ہے بلكہ صرف جاہليت كى فرمايگى ميں پستى ہے_ 25 تاريخ الخلفاء /223_ 26 مناقب ابن شہر آشوب جلد4/176_ 27 بحار جلد 46/144، الاختصاص للمفيد /64، رجال كشى /81_ 28 احتجاج طبرسى جلد 2/44،45، اعيان الشيعہ جلد 1/635، مناقب جلد 4/159_ 29 بحار جلد 46/143، شرح نہج البلاغہ ابن ابى الحديد جلد 4/104_ 30 بحار جلد 46/120_ 31 خاتمہ ترجمہ صحيفہ سجاديہ مطبوعہ آخوندي_ 32 اللہم صلّ على محمّدو آلہ و اجعل لى يداً على من ظلمنى و لساناً على من خاصمنى و ظفراً بمَن عاندنى و ہب لى مكراً على من كادنى '' صحيفہ سجاديہ دعاء /20''_ 33 مصباح كفعمى /509، كافى جلد 1/468، بحار جلد 46/152_ |