ا۔الله اپنے بندوں کو دوست رکھتا ہے
بیشک الله اپنے بندوں کو دوست رکھتا ہے ،ان کو رزق دیتا ہے ،ان کو کپڑا پہناتا ہے ، ان کو بے انتہا مال ودولت عطا کرتا ہے ،ان کو معاف کرتا ہے ،ان کی توبہ قبول کرتا ہے ،ان کو سیدھا راستہ دکھاتا ہے ،ان کو توفیق عطا کرتا ہے ،ان کو اپنے صراط مستقیم کی طرف ہدایت کرتا ہے ،ان کو اپنی رعایاکا ولی بنا تا ہے اور ان پر فضیلت دیتا ہے ،ان سے برائی اور شر کو دور کرتا ہے یہ سب محبت کی نشانیاں ہیں۔
۲۔ان کو اپنی محبت والفت عطا کرتا ہے
الله کی بندوں کےلئے یہ محبت ہے کہ وہ ان (بندوں)سے محبت کرتا ہے اور ان کو اپنی محبت کا رزق عطا کرتا ہے ۔محبت کا یہ حکم بڑا عجیب و غریب ہے بیشک محبت کا دینے والا وہ خداہے جو اپنے بندوں سے محبت سے ملاقات کرتا ہے ان کو جذبہ عطا کرتا ہے پھر اس جذبہ کے ذریعہ ان کو مجذوب کرتا ہے ۔
ہم یہ مشاہدہ کرچکے ہیں کہ ماثورہ روایات اور دعاؤں میں اس مطلب کی طرف متعدد مرتبہ ارشارہ کیاگیاہے حضرت امام زین العابدین علیہ السلام بارہوےں مناجات میں فرماتے ہیں :
<اِلٰھِي فَاجْعَلْنَامِنَ الَّذِیْنَ تَرَسَّخَتْ اَشْجَا رُالشَّوْقِ اِلَیْکَ فِيْ حَدَائِقِ صُدُوْرِھِمْ وَاَخَذَتْ لَوْعَتُ مُحَبّّتِکَ بِمَجَامِعِ قُلُوْبِھِم>
”خدا یا !ہمیں ان لوگوں میں قرار دے جن کے دلوں کے باغات میںتیرے شوق کے درخت راسخ ہو گئے ہیں اور تیری محبت کے سوز وگدازنے جن کے دلوں پرقبضہ کر لیا ہے “
ہم اس دعا کی پہلے شرح بیان کرچکے ہیں ۔
چودھویں مناجات میں آیا ہے :<اَسْاٴَلُکَ اَنْ تَجْعَلَ عَلَیْنَاوَاقِیَةًتُنْجِیْنَا مِنَ الْھَلَکٰاتِ،وَتُجَنِّبُنَامِنَ الْآفٰاتِ،وَ تُکِنُّنَامِنْ دَواھِي الْمُصیبٰاتِ،وَاَنْ تُنْزِلَ عَلَیْنٰامِنْ سَکینَتِکَ،وَاَنْ تُغَشِّيَ وُجُوھَنٰابِاَنْوٰارِمَحَبَّتِکَ،وَاَنْ تُوٴوِیَنٰااِلٰی شَدیدِرُکْنِکَ،وَاَنْ تَحْوِیَنٰافَي اَکْنٰافِ ِعصْمَتِکَ،بِرَاٴفَتِکَ وَرَحْمَتِکَ یٰااَرْحَمَ الرّٰاحِمیْنَ>
” ہمارے لئے وہ تحفظ قراردےدے جو ہمیں ہلاکتوں سے بچا لے اور آفتوں سے محفوظ کرکے مصیبتوں سے اپنی پناہ میںرکھے ۔ ہم پر اپنا سکون نازل کردے اور ہمارے چہر وںپر اپنی محبت کی تابانیوں کا غلبہ کردے۔ ہم کو اپنے مستحکم رکن کی پناہ میں لے لے اور ہم کو اپنی مہربانیوںکی عصمت کے زیرسایہ محفوظ بنادے“
پندرھویں مناجات (زاہدین )میں آیا ہے :
<اِلٰھِي فَزَھِّد ْنٰافیھٰاوَسَلِّمْنٰافیھٰا،وَ سَلِّمْنٰامِنْھٰابِتَوْفیقِکَ وَ عِصْمَتِکَ،وَاْنزَعْ عَنّٰاجَلاٰبیبَ مُخٰالَفَتِکَ،وَتَولَّ اُمُورَنٰا بِحُسْنِ کِفٰایَتِکَ،وَاَجْمِلْ صِلٰاتِنٰامِنْ فَیْضِ مَوٰاھِبِکَ،وَاَغْرِسْفِيْ اَفْئِدَتِنٰااَشْجٰارَمَحَبَّتِکَ وَاَتْمِمْ لَنٰااَنْوٰارَمَعْرِفَتِکَ،وَاَذِقْنٰاحَلٰاوَةَعَفْوِکَ وَلَذَّةَمَغْفِرَتِکَ،وَاَقْرِرْاَعْیُنَنٰایَوْمَ لِقٰائِکَ بِرُوْٴیَتِکَ،وَاَخْرِجْ حُبَّ الدُّنْیٰامِنْ قُلوُبِنٰاکَمٰافَعَلْتَ بِالصّٰالِحینَ مِنْ صَفْوَتِکَ،وَالْاَبْرٰارِمِنْ خٰاصَّتِکَ بِرَحْمَتِکَ یٰااَرْحَمَ الرّٰاحِمینَ>
”خدا یا ہم کو اس دنیامیں زہد عطا فرما اور اس کے شرسے محفوظ فرما اپنی توفیق اور عصمت کے ذریعہ ہم سے اپنی مخالفت کے لباس اتر وادے اور ہمارے امور کا تو ہی ذمہ دار بن کر ان کی بہترین کفایت فرمااپنی وسیع رحمت سے مزید عطافرمااور اپنے بہترین عطایا سے ہمارے ساتھ اچھے اچھے برتاٴو کرنا اور ہمارے دلوں میں اشجار محبت بٹھا دے اور ہمارے لئے انوار معرفت کو مکمل کردے اور ہمیں اپنی معافی کی حلاوت عطا فرمااور ہمیں مغفرت کی لذت سے آشنابنا دے ہماری آنکھوں کوروز قیامت اپنے دیدار سے ٹھنڈاکر دےنا اور ہمارے دلوں سے دنیا کی محبت نکال دےنا جیسے تونے اپنے نیک اور منتخب اورتمام مخلوقات میں نیک کردار لوگوں کے ساتھ سلوک کیا ہے اور اپنی رحمت کے سہارے اے ارحم الراحمین “
آخر میں ہم اس مطلب کی تکمیل کےلئے سید ابن طاوؤس کی نقل کی ہوئی روز عرفہ پڑھی جانے والی امام حسین علیہ السلام کی دعا نقل کررہے ہیں :
<کیف یستدل علیک بماھو فی وجودہ مفتقر الیک اَیَکُوْنُ لِغَیْرِکَ مِنَ الظُّہُوْرِمَالَیْسَ لَکَ حَتیّٰ یَکُوْنَ ھُوَالْمُظْھِرَلَکَ مَتیٰ غِبْتَ حَتّیٰ تَحْتَاجَ اِلیٰ دَلِیْلٍ یَدُلُّ عَلَیْکَ وَمَتیٰ بَعُدَتْ حَتیّٰ تَکُوْنَ الآثَارُھِیٍ الَّتِیْ تُوْصِلُ اِلَیْکَ عَمِیَتْ عَیْنٌ لَاتَرَاکَ عَلَیْھَارَقِیْباًوَخَسِرَتْ صَفْقَتُہُ عَبْدٍ لَمْ تَجْعَلْ لَّہُ مِنْ حُبِّکَ نَصِیْبا۔۔۔فَاھْدِنِیْ بِنُوْرِکَ اِلَیْکَ،وَاَقِمْنِیْ بِصِدْقِ الْعُبُوْدِیَّةِ بَیْنَ یَدَیْکَ ۔۔۔وَصُنَّیْ بِسِتْرِکَ الْمَصُوْنِ ۔۔۔وَاسْلُکْ بِیْ مَسْلَکَ اَھْلَ الْجَذْبِ،اِلٰھِیْ اَغْنِنِیْ بِتَدْبِیْرِکَ لِیْ عَنْ تَدْبِیْرِیْ،وَبِاِخْتِیَارِکَ عَنْ اِخْتِیَارِیْ وَاَوْقِفْنِیْ عَنْ مَرَاکِزِ اِضْطِرَارِیْ ۔۔۔اٴَنْتَ الَّذِیْ اَشْرَقَتَ الْاَنْوَارَ فِیْ قُلُوْبِ اٴَوْلِیَائِکَ حَتّٰی عَرَفُوْکَ وَوَحَّدُوْکَ ۔وَاَنْتَ الَّذِیْ اٴَزَلْتَ الْاَغْیَارَعَنْ قُلُوْبِ اَحِبَّائِکَ حَتّیٰ لَمْ یُحِبُّواسِوَاکَ وَلَمْ یَلْجَوٴُااِلیٰ غَیْرِکَ اَنْتَ الْمُوْنِسُ لَھُمْ حَیْثُ اَوْحَشْتَھُمُ الْعَوَالِمُ وَاَنْتَ الَّذِیْ ھَدَیْتَھُمْ حَیْثُ اِسْتِبَانَتْ لَھُمُ الْمَعَالِمُ ۔مَاذَاوَجَدَمَنْ فَقَدَکَ ؟وَمَاالَّذِیْ فَقَدَ مَنْ وَجَدَکْ ؟لَقَدْ خَابَ مَنْ رَضِیَ دُوْنَکَ بَدَلاً،وَلَقَدْخَسِرَمَنْ بَغیٰ عَنْکَ مُتَحَوِّلاً کَیْفَ یُرْجیٰ سِوَاکَ وَاَنْتَ مَاقَطَعْتَ الْاِحْسَانَ؟وَکَیْفَ یُطْلَبُ مِنْ غَیْرِکَ وَاَنْتَ مَابَدَّلْتَ عَادَةَ الْاِمْتِنَانِ ؟یَامَنْ اَذَاقَ اَحِبَّائَہُ حَلَاوَةَ الْمُوَانَسَةَ فَقَامُوْابَیْنَ یَدَیْہِ مُتَمَلِّقِیْنَ وَیَامَنْ اَلْبَسَ اَوْلِیَائَہُ مَلَبَسَ ھَیْبَتِہِ فَقَامُوْابَیْنَ یَدَیْہِ مُسْتَغْفِرِیْنَ ۔۔۔اِلٰھِیْ اَطْلُبْنِیْ بِرَحْمَتِکَ حَتّیٰ اَصِلَ اِلَیْکَ،وَاجْذُبْنِیْ بِمَنِّکَ حَتّیٰ اَقْبَلَ عَلَیْکَ >(۱)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(۱)بحارالانوار ج۹۸ص۲۲۶۔
”میں ان چیز وںکو کس طرح راہنمابناوٴںجو خود ہی اپنے جود میںتیری محتاج ہیں کیا تیرے کسی شی ٴ کوتجھ سے بھی زیادہ ظہورحاصل ہے کہ وہ دلیل بن کر تجھ کو ظاہر کرسکے تو کب ہم سے غائب رہا ہے کہ تیرے لٴے کسی دلیل اور راہنمائی کی ضرورت ہو ،اور کب ہم سے دور رہا ہے کہ آثار تیری بارگاہ تک پہنچا نے کا ذریعہ بنیں وہ آنکھیں اندھی ہیں جو تجھے اپنا نگراں نہیںسمجھ رہی ہیں اور وہ بندہ اپنے معاملات ِحیات میں سخت خسارہ میں ہے جسے تیری محبت کاکوئی حصہ نہیں ملا ۔۔۔تو اپنی طرف اپنے نور سے میری ہدایت فرما، اور مجھ کو اپنی سچی بندگی کے ساتھ اپنی بارگاہ میںحاضری کی سعادت کرامت فرما ۔۔۔اور اپنے محفوظ پردوں سے میری حفاظت فرما ۔۔۔اور جذب و کشش رکھنے والوں کے مسلک پر چلنے کی توفیق عطا فرما اپنی تدبیر کے ذریعہ مجھے میری تدبیر سے بے نیاز کردے اوراپنے اختیار کے ذریعہ میرے اختیار اورانتخاب سے مستغنی بنا دے اوراضطرارواضطراب کے مواقع کی اطلاع اورآگاہی عطافرما۔۔۔تو ہی وہ ہے جس نے اپنے دوستوں کے دلوں میں انوارالوہیت کی روشنی پیدا کر دی تووہ تجھے پہچان گئے اور تیری وحدانیت کا اقرار کرنے لگے اور توہی وہ ہے جس نے اپنے محبوں کے دلوں سے اغیار کو نکال کرباہرکردیا تواب تیرے علا وہ کسی کے چاہنے والے نہیں ہیں، اور کسی کی پناہ نہیں مانگتے تو نے اس وقت ان کا سمان فراہم کیاجب سارے عالم سبب وحشت بنے ہو ئے تھے اور تو نے ان کی اس طرح ہدایت کی کہ سارے راستے روشن ہو گئے پروردگارجس نے تجھ کو کھو دیا اس نے کیاپایا؟اور جس نے تجھ کو پالیا اس نے کیا کھویا؟جو تیرے بدل پر راضی ہوگیاوہ نا مراد ہوگیا،اور جس نے تجھ سے رو گردانی کی وہ گھاٹے میں رہا ،تیرے علاوہ غیرسے امید کیوں کی جائے جبکہ تونے احسان کاسلسلہ روکانہیں اور تیرے علاوہ دوسرے سے مانگا ہی کیوں جا ئے جبکہ تیرے فضل و کرم کی عادت میں فرق نہیں ایا ہے وہ پرور دگارجس نے اپنے دو ستوں کو انس و محبت کی حلاوت کا مزہ چکھا دیاہے تو اس کی بارگاہ میں ہاتھ پھیلائے کھڑے ہوئے ہیں اور اپنے اولیاء کو ہیبت کا لباس پہنا دیاہے تو اس کے سامنے استغفار کرنے کے لئے استادہ ہیں۔۔۔میرے معبود مجھ کو اپنی رحمت سے طلب کر لے تا کہ میں تیری بارگاہ تک پہونچ جا ؤں اور مجھے اپنے احسان کے سہارے اپنی طرف کھینچ لے تا کہ میں تیری طرف متوجہ ہوجاؤں “
۳۔بندوں سے خداوندعالم کا اظہاردوستی
خداوندعالم اپنے بندوں سے دوستی کا اظہار کرتا ہے اور بندوں کو اپنی ذات سے محبت کرانے کےلئے نعمتوں سے مالامال کردیتا ہے بیشک پروردگار عالم دلوں پر نعمت اس لئے نازل کرتاہے کہ خداوندعالم نے جن پر نعمت نازل کی ہے وہ الله کو دوست رکھیں ۔
حضرت امام زین العابدین علیہ السلام سے دعائے سحر میں آیا ہے :
<تَتَحَبَّبُ اِلَیْنَابِالنِّعَمِ وَنُعَارِضُکَ بِالذُّنُوْبِ خَیْرُکَ اِلَیْنَانَازِلٌ وَشَرُنَا اِلَیْکَ صَاعِدٌ وَلَمْ یَزَلْ وَلَایَزَالُ مَلَکٌ کَرِیْمٌ یَاْتِیْکَ عَنَّابِعَمَلٍ قَبِیْحٍ فَلَا یَمْنَعُکَ ذٰلِکَ مِنْ اَنْ تَحُوْطَنَابِرَحْمَتِکَ وَتَتَفَضَّلْ عَلَیْنَابِآلَائِکَ فَسُبْحَانَکَ مَااَحْلَمَکَ وَاَعْظَمَکَ وَاَکْرَمَکَ مُبْدِئاًوَمُعِیْد اً>(۱)
”تو نعمتیں دے کرہم سے محبت کرتا ہے اور ہم گناہ کر کے اس کا مقابلہ کرتے ہیں تیراخیربرابر ہما ری طرف آرہا ہے اور ہما راشر برابر تیری طرف جارہا ہے فرشتہ برابر تیری بارگاہ میں ہماری بد اعمالیوں کادفتر لے کر حاضر ہوتاہے لیکن اس کے باوجود تیری نعمتوں میںکمی نہیں اتی اورتو برابر فضل و کرم کر رہاہے تو پاک پاکیزہ ہے تو تجھ جیسا حلیم عظیم اور کریم کون ہے ابتدا اور انتہا میں تیرے نام پاکیزہ ہیں “
الله کا اپنے بندے پر نعمت فضل ،بھلائی عفواور ستر (عیب پوشی)نازل کرنے اور بندہ کی طرف سے الله کی طرف سے جوبرائی اور شر صعود کرتا ہے ان دونوںکے درمیان مقائسہ سے اس بات
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(۱)بحارالانوار جلد ۹۸ صفحہ ۸۵ ۔
کا پتہ چلتا ہے کہ بندہ اپنے مولا سے شرمندہ ہے ،وہ الله کی طرف سے اس محبت اور دوستی کا روگردانی اور دشمنی کے ذریعہ جواب دیتا ہے ۔
انسان کتنا شقی اور بدبخت ہے کہ الله کی محبت اوردوستی کا جواب ردگردانی اور دشمنی سے دیتا ہے ۔
امام زمانہ حضرت حجة علیہ السلام کے دعاء افتتاح میں ان کلمات کے سلسلہ میں غوروفکر کریں
<اِنَّکَ تَدْعُوْنِیْ فَاٴُوَلِّيْ عَنْکَ وَتَتَحَبَّبُ اِلَيَّ فَاَتَبَغَّضُ اِلَیْکَ،وَتَتَوَدَّدُاِلَيَّ فَلاَاَقْبَلُ مِنْکَ،کَانَّ لِیَ التَّطَوُّلَ عَلَیْکَ،فَلَمْ یَمْنَعُکَ ذٰلِکَ مِنَ الرَّحْمَةِلِي وَ الاِحْسَانِ اِلَيَّ وَالتُّفَضُّلِ عَليَّ >(۱)
”اے پروردگار بیشک تو نے مجھ کو دعوت دی اور میں نے تجھ سے رو گر دانی کی اور تونے محبت کی اور میں نے تجھ سے بغض و عناد رکھا اور تومیرے ساتھ دو ستی کرتا ہے تو میں اس کو قبول نہیں کرتا ہوں گویا کہ میرا تیرے اوپر حق ہے اور اس کے باوجود اس نے تجھ کو میرے اوپر احسا ن کر نے اور فضل کر نے سے نہیں رو کا “
<خیرک الینانازل وشَرُّنَااِلَیْکَ صَاعِدٌ>(۲)
”تیراخیربرابر ہما ری طرف آرہا ہے اور ہما راشر برابر تیری طرف جارہا ہے“
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(۱)مفاتیح الجنان دعائے افتتاح ۔
(۲)بحارالانوار جلد ۸ا صفحہ ۸۵ ۔