ولادت اور بچپن كا زمانہہمارے پانچويںپيشوا امام محمد باقر (ع)جمعہ كے دن پہلى رجب 57 ھ ق كو شہر مدينہ ميں پيدا ہوئے_ 1 آپ كا نام محمد، كنيت ابوجعفر اور مشہورترين لقب باقر ہے_ روايت ہے كہ حضرت رسول مقبول صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم نے اس لقب سے ملقب فرمايا تھا_ امام محمد باقر (ع)_ ماں اور باپ _ دونوں طرف سے فاطمى اور علوى تھے_ اس لئے كہ ان كے والد امام زين العابدين _ امام حسين(ع) كے فرزند تھے_ اور ان كى والدہ گرامى '' ام عبداللہ'' امام مجتبى _كى بيٹى تھيں_ آپ نے امام زين العابدين _جيسے باپ كى پر مہر آغوش ميں پرورش پائي اور با فضيلت ماں كى چھاتى سے دودھ پيا_ وہ ماں جو عالمہ اور مقدسہ تھيں، امام جعفر صادق عليہ اسلام سے منقول ہے كہ '' ميرى جدّہ ماجدہ ايسى صديقہ تھيں كہ اولاد امام حسن مجتبى _ميں كوئي عورت انكى فضيلت كے پايہ كو نہ پہونچ سكي_ 2 امام محمد باقر (ع)كى عمر چار سال سے كم تھى كہ جب كربلا كا خونين واقعہ پيش آيا_ آپ(ع) اپنے جد حضرت اباعبداللہ الحسين (ع) كے پاس موجود تھے_ واقعہ كربلا كے بعد 34 برس آپ (ع) نے اپنے پدر بزرگوار كے ساتھ زندگى گذاري، آپ جوانى ہى كے زمانہ سے علم و دانش، فضيلت و تقوى ميں مشہور تھے اور آئندہ چل كر مسلمانوں كے علمى مشكلات كے حل كا مرجع سمجھے جانے لگے_ جہاں كہيں بھى ہاشميين، علويين اور فاطميين كى بلندى كا ذكر ہوتا، آپ(ع) كو ان تمام مقدسات، شجاعت اور بزرگى كا لوگ تنہا وارث جانتے تھے_ |
آتاجاتا ہوں تو يہ اس لئے ہے كہ تم ايك سخن ور اور خوش بيان اديب ہو اس كے باوجود امام (ع) اس كے ساتھ حسن سلوك سے پيش آتے تھے اور اس سے بڑى نرمى سے بات كرتے تھے كچھ دنوں كے بعد وہ شخص بيمار ہوااس نے وصيت كى كہ جب ميں مرجاؤں تو امام محمد باقر(ع) ميرى نماز جنازہ پڑھائيں_ جب اس كے متعلقين نے اسے مردہ ديكھا تو امام (ع) كے پاس پہنچ كر عرض كى كہ وہ شامى مرگيا اور اس نے وصيت كى ہے كہ آپ اس كى نماز جنازہ پڑھائيں_ امام نے فرمايا: مرا نہيں ہے ... جلدى نہ كرو يہاں تك كہ ميں پہونچ جاؤں اس كے بعد آپ اٹھے اور آپ نے دو ركعت نماز پڑھى اور ہاتھوں كو دعا كے لئے بلند كيا اور تھوڑى دير تك سر بسجدہ رہے، پھر شامى كے گھر گئے اور بيمار كے سر ہانے بيٹھ گئے، اس كو اٹھا كر بٹھايا_ اس كى پشت كو ديوار كا سہارا ديا اور شربت منگواكر اس كے منہ ميں ڈالا اور اس كے متعلقين سے فرمايا كہ اس كو ٹھنڈى غذائيں دى جائيں اور خود واپس چلے گئے_ ابھى تھوڑى دير نہ گذرى تھى كہ شامى كو شفا مل گئي وہ امام (ع) كے پاس آيا اور عرض كرنے لگا:'' ميں گواہى ديتا ہوں كہ آپ، لوگوں پر خدا كى حجت ہيں ...''_ 4 اس زمانے كے صوفيوں ميں سے ايك شخص محمد بن مُنكَدر كا بيان ہے كہ ايك دن ميں بہت گرمى ميں مدينہ سے باہر نكلا وہاں ميں نے محمد باقر (ع) كو ديكھا كہ دو غلاموں پر تكيہ كئے ہوئے ہيں_ ميں نے اپنے دل ميں كہا كہ قريش كے بزرگوں ميں سے ايك بزرگ ايسے وقت ميں دنيا كى ہوس اور لالچ ميں پڑے ہوئے ہيں، ميں ان كو كچھ نصيحت كروں_ ميں ان كے قريب گيااور سلام كيا_ ان كے سر اور داڑھى سے پسينہ بہہ رہا تھا_ امام (ع) نے اسى حالت ميں ميرے سلام كا جواب ديا_ ميں نے عرض كي: خدا آپ كو سلامت ركھے آپ كى جيسى شخصيت والا انسان اس وقت اس حالت ميں دنيا حاصل كرنے ميں لگا ہوا ہے اگر اسى حالت ميں موت آجائے تو آپ(ع) كيا كريں گے؟ |
مسعودى كا بيان ہے كہ وليد ايك ہٹ دھرم، جابر اور ظالم بادشاہ تھا _ 12 اس كے باپ نے اس كو وصيت كى تھى كہ حجاج بن يوسف كا اكرام كرے اور چيتے كى كھال پہنے _ 13 تلوار آمادہ ركھے اور جو اس كى مخالفت كرے اس كو قتل كردے _ 14 اس نے بھى باپ كى وصيت كو پورا كيا اور حجاج كے ہاتھوں كو اپنے باپ كى طرح مسلمانوں كو ستانے اور ان كو قتل كرنے كے لئے آزاد چھوڑ ديا_ عمر بن عبدالعزيز، وليد كى طرف سے مدينہ كا حاكم تھا، حجاج كے ظلم سے تنگ آكر جو بھى بھاگتا تھا اس كے پاس پناہ ليتا تھا_ عمر نے وليد كو ايك خط لكھااور لوگوں كے ساتھ حجاج كے ظلم كى شكايت كى _ وليد نے حاكم مدينہ كى شكايت سننے كى بجائے، حجاج كى خوشنودى كے لئے عمر بن عبدالعزيز كو مدينہ كى گورنرى سے معزول كرديا اور حجاج كو لكھا'' تم جس كو بھى چاہو حجاز كا حاكم بنادو_ حجاج نے بھى خالد بن عبداللہ قسرى كے لئے سفارش كى جو خود اسى جيسا ايك خونخوار شخص تھا وليد نے يہ سفارش قبول كر لي_ 15 وليد كا حجاج پر اعتماد كرنا اور اپنے باپ عبدالملك كى تائيد، وليد كے طغيان اور اس كى تباہ كارى پر بہترين دليل ہے_ اپنے بھائي كے بعد سليمان بن عبدالملك نے زمام حكومت اپنے ہاتھوں ميں لى اور جمعہ كے دن 10 ماہ صفر 99 ھ كو مرگيا_ وہ بڑا پرخور اور عورتوں كا دلدادہ تھا_ اس كے دور خلافت ميں عياشى اور دربار ميں عيش و نشاط كى محفل اپنے اوج پر تھي_ متعدد خواجہ سراؤں كو اس نے اپنے دربار ميں ركھ چھوڑا تھا اور اور اپنا زيادہ وقت حرم سراء كى عورتوں كے ساتھ گذارتا تھا_ آہستہ آہستہ برى باتيں ملك كے كارندوں ميں بھى سرايت كر گئيں اور يہ باتيں ملك گير پيمانہ پر پھيل گئيں _ 16 اس نے دو سال چند مہينے حكومت كى _ شروع ميں اس نے نرمى كا مظاہرہ كيا_ عراق كے قيد خانوں كے دروازے كھول ديئے اور بے گناہوں كو آزاد كرديا جبكہ اس كى زندگى كے لمحات ظلم و ستم سے خالى نہ تھے_ اس نے خالد بن عبداللہ قسرى كو جو ظلم اور جرائم ميں حجاج كا ثانى تھا، اس كے |
مقام پر باقى ركھا_ اس كے بعد عمر بن عبدالعزيز مسند حكومت پر متمكن ہوا_ اس كا انتقال 25 رجب 101 ھ ق كو ہوا_ يہ كسى حد تك پريشانيوں اور دشواريوں پر قابو پانے ، برائيوں اور تفريق كے ساتھ جنگ كرنے، اس ننگ و عار كے دھبہ كو جو اس وقت كى حكومت كے دامن پر لگا ہوا تھا _ يعنى على _پر سب و شتم كرنا _ دھونے، فدك كو اولاد فاطمہ عليہا السلام كو واپس دے دينے اور امام محمد باقر(ع) كے حوالے كرنے ميں كامياب ہوئے_ اس كے بعد يزيد بن عبدالملك ان كى جگہ مسند حكومت پر متمكن ہوا_ اور اپنے حكام كو مندرجہ ذيل خط لكھ كر اپنى حكومت كا آغاز كيا: '' عمر بن عبدالعزيز نے دھو كہ كھايا، تم اور تمہارے اطراف كے لوگوں نے اس كو دھو كہ ديا ... خط ملتے ہى سابق معاونين اور اپنے دوستوں كو جمع كرو اور لوگوں كو ان كى سابقہ حالت پر پلٹا دو، چاہے وہ ماليات كو ادا كرنے كى طاقت ركھتے ہوں يا نہ ركھتے ہوں، زندہ رہيں يا مرجائيں، لازم ہے كہ وہ ٹيكس ادا كريں''_ 17 يزيد بن عبدالملك كا اپنے ہم نام يزيد بن معاويہ كى طرح سوائے عياشي، جرائم، مستى اور عورتوں كے ساتھ عشق بازى كے اور كوئي دوسرا كام نہ تھا_ وہ اخلاقى اور دينى اصول كا ہرگز پابند نہ تھا_ اس كى خلافت كا زمانہ بنى اميہ كى حكومت كا ايك سياہ ترين اور تاريك ترين دور شمار كيا جاتا ہے اس كے زمانہ ميں قصائد اوراشعار كى جگہ ساز اور آواز نے لے لى تھى اور اس شعبہ كو اتنى وسعت دے دى تھى كہ مختلف شہروں سے گانے بجانے والے دمشق بلائے جاتے تھے اور اس طرح عياشي، ہوس راني، شطرنج اور تاش نے عربى معاشرہ ميں رواج پايا_ 18 اس كے بعد ہشام بن عبدالملك نے حكومت كى باگ ڈور سنبھالي_ وہ بخيل، بداخلاق، ستمگر اور بے رحم تھا_ نہ صرف يہ كہ اس نے برائيوں كى اصلاح كيلئے كوئي قدم نہيں اٹھايا بلكہ اس نے بنى اميہ كى خطاؤں كو تقويت بخشي_ اپنے گورنروں كو اس نے لكھا كہ شيعوں كے ساتھ سختى كركے ان پر |
امام محمد باقر (ع)وارد ہوئے اور معمول كے مطابق جو طريقہ تھا كہ ہر آنيوالا '' امير المؤمنين'' كے مخصوص لقب كے ساتھ خليفہ كو سلام كرتا تھا_ اس كے برخلاف آپ(ع) نے تمام حاضرين كى طرف رخ كركے'' سلامٌ عليكم'' كہا، پھر اجازت كا انتظار كئے بغير بيٹھ گئے_ اس روش كى بنا پر ہشام كے دل ميں كينہ اور حسد كى آگ بھڑك اٹھى اور اس نے اپنا پروگرام شروع كرديا_ اس نے كہا'' تم اولاد على ہميشہ مسلمانوں كے اتحاد كو توڑتے ہو اور اپنى طرف دعوت ديكر ان كے درميان رخنہ اور نفاق ڈالتے ہو، نادانى كى بنا پر ( معاذاللہ) اپنے كو پيشوا اور امام سمجھتے ہو'' ہشام تھوڑى دير تك ايسى ياوہ گوئي كر تا رہا پھر چپ ہوگيا_ اس كے بعد اس كے نوكروں ميں سے ہر ايك نے ايك بات كہى اور آپ كو مورد تہمت قرار ديا_ امام محمد باقر (ع)اس تمام مدت ميں خاموشى اور اطمينان سے بيٹھے رہے_ جب سب چپ ہوگئے تو آپ(ع) اٹھے اور حاضرين كى طرف مخاطب ہوئے، حمد و ثنائے خدا اور پيغمبر (ص) پر درود كے بعد ان كى گمراہى اور بے راہ روى كو واضح اور اپنى حيثيت نيز اپنے خاندان كے سابقہ افتخار كو بيان كرتے ہوئے فرمايا: '' اے لوگو تم كہاں جا رہے ہو اور ان لوگوں نے تمہارا كيا انجام سوچ ركھا ہے؟ ہمارا ہى وسيلہ تھا جس كے ذريعہ خدا نے تمہارے اسلاف كى ہدايت كى اور ہمارے ہى ہاتھوں سے تمہارے كام كے اختتام پر مہر لگائي جائے گى اگر تمہارے پاس آج يہ تھوڑے دنوں كى حكومت ہے تو ہمارے پاس دير پا حكومت ہوگي_ ہمارى حكومت كے بعد كسى كى حكومت نہيں ہوگى ہم ہى وہ اہل عاقبت ہيں جن كے بارے ميں خدا نے فرمايا ہے كہ عاقبت صاحبان تقوى كے لئے ہے''_19 امام _كى مختصر اور ہلا دينے والى تقرير سے ہشام كو ايسا غصہ آيا كہ سختى كے سوا اور كچھ اس كى سمجھ ميں نہ آيا اس نے امام (ع) كو قيد كر دينے كا حكم ديا_ |
ميں ہوں كہ آپ كى كاميابى كا زمانہ قريب آئے، كيا اب ہمارے لئے كوئي اميد ہے؟ امام (ع) نے اس بوڑھے آدمى كو اپنے پہلو ميں بٹھايا اور فرمايا اے پيرمرد كسى نے ميرے والد على ابن الحسين (ع) سے يہى پوچھا تھا، ميرے والد نے اس سے كہا تھا كہ '' اگر اسى انتظار ميں مرجاؤگے تو پيغمبراكرم(ص) ، على (ع) ، حسن(ع) ، حسين(ع) اور على بن الحسين كى بارگاہ ميں پہنچو گے ... اور اگر زندہ رہ جاؤگے تو اسى دنيا ميں وہ دن ديكھو گے كہ تمہارى آنكھيں روشن ہوجائيں گى اور اس دنيا ميں ہمارے ساتھ ہمارے پہلو ميں بلند ترين جگہ پاؤگے ... 21 اس طرح كے بيانات اس كھٹن ماحول ميں دل انگيز خواب كى طرح نظام اسلامى اور حكومت علوى كى تشكيل كے لئے شيعوں كے ستم رسيدہ دلوں ميں اميد كى كرن اور متحرك كرنے والى لہر پيدا كرتے اور آئندہ كے لئے اس بات كو يقينى اور نہ ٹلنے والى صورت ميں پيش كرتے تھے_ امام (ع) كى يہ روش اس بات كا نمونہ ہے كہ حضرت كا تعلق اپنے نزديكى اصحاب سے كيسا تھا، اور يہ روش ايك دوسرے سے منظم اور مرتب رابطہ كى نشاندہى بھى كرتى ہے_ يہى وہ حقيقت تھى جو خلافت كى مشينرى كو ردّ عمل ظاہر كرنے پر ابھارتى تھي_ ہشام كى خلافت كى مشينرى جس كو بلاذرى اموى خلفاء ميں مقتدر ترين خليفہ جانتا ہے _ اگر امام محمد باقر (ع)كے ساتھ سختى سے پيش آتى تھى تو اس كى وجہ يہ تھى كہ آپ كى روش اورعمل ميں ہشام اپنے لئے ايك قسم كى تہديد ديكھ رہا تھا اور آپ كا وجو اس كے لئے ناقابل تحمل تھا_ يہ بات ناقابل ترديد ہے كہ اگر امام محمد باقر (ع)فقط علمى زندگى ميں سرگرم عمل رہتے اور تنظيم سازى كى فكر نہ كرتے تو خليفہ اپنے لئے اس بات ميں صلاح نہيں سمجھتا كہ وہ سخت گيرى اور شدّت كے ساتھ آپ كو سخت مقابلہ كے لئے بھڑ كائے اور نتيجتاً آپ كے دوستوں اور معتقدين كو _ جن كى تعداد كم بھى نہ تھى _ اپنے اوپر ناراض اور اپنى مشينرى سے ناخوش كر لے_ |
آپ نے اپنى آخرى برق اموى سلطنت كى بنياد پر گرداي_ امام نے اپنے بيٹے امام جعفر صادق _كو حكم ديا كہ ان كے پيسوں ميں سے ايك حصہ ( 800 درہم) دس سال كى مدت تك عزادارى اور ان پر گريہ كرنے ميں صرف كريں_ عزادارى كى جگہ ميدان منى اور عزادارى كا زمانہ حج كا زمانہ ہے_ 28 حج كا زمانہ دور افتادہ اور نا آشنا دوستوں كى وعدہ گاہ ہے_ اگر كوئي پيغام ايسا ہو كہ جسے تمام عالم اسلام تك پہنچانا ہو تو اس سے بہتر موقع اور كوئي نہيں ہے_ حج كے اعمال مسلسل چند دنوں تك متعدد مقامات پر انجام پاتے ہيں اور يہ ظاہر ہے كہ سب سے زيادہ مناسب جگہ منى ہے چونكہ عرفات سے واپسى پر حاجى تين راتوں تك وہاں ٹھہرتے ہيں، اس لئے آشنائي اور ہمدردى كے لئے سب جگہوں سے زيادہ موقع وہيں ملتا ہے_ اور يہ طبيعى بات ہے كہ اگر ان تين دنوں ميں اس بيابان ميں ہر سال مجلس عزا برپا ہو تو ہر آدمى كى نظر اس پر پڑے گى اور آہستہ آہستہ لوگ اس سے آشنا ہوجائيں گے اور خود ہى سوال كرنا شروع كرديں گے كہ '' كئي برسوں سے مدينہ كے كچھ لوگ _ وہ مدينہ جو مركز اسلام اور مركز صحابہ ہے _ حج كے زمانہ ميں منى ميں مجلس عزا برپا كرتے ہيں وہ بھى عالم اسلام كى بلند شخصيت محمد ابن على ابن الحسين كے لئے تو كيا ان كى موت طبيعى نہ تھي؟ ان كو كس نے قتل كيا يا زہر ديا ہے؟ اور كيوں؟ آخر انہوں نے كيا كہا اور كيا كيا؟ كيا اس كا كوئي سبب تھا اور ان كى كوئي دعوت تھي؟ كيا ان كا وجود خليفہ كے لئے خطرہ كا باعث تھا؟ دسيوں ابہام اس كے پيچھے دسيوں سوالات اور جستجو والى باتيں اور پھر صاحبان عزا يا اطلاع ركھنے والے ان لوگوں كى طرف سے، جو اس پراگندہ جمعيت ميں شريك تھے، جوابات كا ايك سيلاب_ يہ تھا امام محمد باقر (ع)كا كامياب نقشہ، شہادت كے بعد جہاد كا نقشہ اور يہ ہے اس پُر بركت زندگى كا وجود جن كى موت اور زندگى خدا كے لئے ہے_ |
امام _كى شہادت7 ذى الحجہ 114 ھ ق كو 57 برس كى عمر ميں ظالم اموى بادشاہ ہشام بن عبدالملك كے ہاتھوں سے حضرت امام محمد باقر (ع)مسموم اورشہيد ہوئے_ 29 شہادت كى رات آپ نے اپنے فرزند حضرت جعفر ابن محمد _سے فرمايا كہ '' ميں آج كى رات اس دنيا كو چھوڑ دونگا_ ميں نے ابھى اپنے پدر بزرگوار كو ديكھا ہے كہ وہ خوشگوار شربت كا جام ميرے پاس لائے ہيں اور ميں نے اس كو پيا اور انہوں نے مجھے سرائے جاويد اور ديدار حق كى بشارت دي_ امام جعفر صادق _نے اس خدا داد علم كے دريائے بيكراں كے تن پاك كو امام حسن مجتبى (ع) اور امام زين العابدين كے پہلو ميں قبرستان بقيع ميں سپرد خاك كيا_ 30 |
سوالات:1_ امام محمد باقر (ع) كس تاريخ كو پيدا ہوئے اور آپ نے اپنے جدحسين بن على _اور اپنے پدر گرامى قدر امام زين العابدين _كے ساتھ كتنے دنوں تك زندگى بسر كي؟ 2_ امام محمد باقر (ع)كے بارے ميں پيغمبر(ص) كى كيا پشين گوئي تھي؟ 3_ اخلاق امام محمد باقر (ع)ميں سے ايك نمونہ بيان فرمايئے 4_ كن كن اموى خلفاء كے زمانہ ميں امام (ع) تھے اور امام (ع) كے بارے ميں انكى عمومى روش كيا تھي؟ 5_ خلافت ہشام كے بارے ميں امام (ع) كاموقف بيان كيجئے_ 6_ اسلامى تہذيب و ثقافت كے احياء ميں امام محمد باقر (ع)كى كيا خدمات تھيں؟ 7_ اسلامى تہذيب وثقافت كى نشر و اشاعت جو خليفہ كے غيظ و غضب كو بھڑ كانے كا اصلى سبب تھي، اس ميں امام كى اہم ترين فعاليت كيا تھي؟ 8_ امام محمد باقر(ع) كے مكتب فكر كے تين اصحاب اور شاگردوں كا نام بتايئے 9_ حضرت امام محمد باقر (ع)كس تاريخ كو اور كيسے شہيد ہوئے؟ |
حوالہ جات1 مصباح المتھجدشيخ طوسي/ 557، بحار الانوار جلد 46/ 213_ 2 كافى جلد 1/ 469'' كانت صديقہ لم تدرك فى آل الحسن امراة مثلہا''_ 3 امالى شيخ صدوق /211، بحار الانوار جلد 46/223_ 4 امالى شيخ طوسى /261، بحار الانوار جلد 46/ 233_ 234 اختصار كے ساتھ _ 5 ارشاد مفيد /264، بحار جلد 46/287، مناقب جلد 4/201_ 6 علل الشرائع جلد 1/ 222، بحار جلد 46/225_ 7 ارشاد مفيد/363 مطبوعہ بصيرتى قم_ 8 ارشاد مفيد /263، بحار جلد 46/286،289_ 9 مناقب ابن شہر آشوب جلد 4/197، بحار جلد 46/289_ 10 الصواقع المحرقہ /120_ 11 مناقب جلد 4/195، بحار جلد 46/294_ 295_ 12 مروج الذہب جلد 3/157_ 13 سياست ميں خشونت اور سختى كے لئے كنايہ ہے_ 14 مروج الذہب 3/160_161_ 15 كامل ابن اثير جلد 4/577_ 16 تاريخ سياسى اسلام جلد 1/324_ 17 العقد الفريد جلد 5/176_ 18 تاريخ سياسى اسلام جلد 1/331_ 19 ناقب ابن شہر آشوب ج 4/189'' ايہا الناس اين تذہبون و اين يراد بكم؟بنا ہدى اللہ اولكم و بنا يختم آخركم فان يكن لكم ملك معجل'' فانّ لنا ملكا موجلاً و ليس من بعد ملكنا ملكٌ لانا اہل العاقبہ، يقول اللہ تعالى '' و العاقبة للمتقين''_ 20 مناقب ابن شہر آشوب جلد 4/190، بحار جلد 46/312، دلائل الامامہ للطبرى /108_ |
21 بحار الانوار جلد 46/361 _ 362_ 22 جامع الرواة جلد 1/9، معجم رجال الحديث جلد 1/147_ 23 جامع الرواة جلد 1/ 9، معجم الرجال الحديث جلد 1/147_ 24 جامع الرواة جلد 1/171_ 25 سفينة البحار جلد 2/496، مناقب ابن شہر آشوب جلد 4/197_ 26 جامع الرواة 2/164_ 27 رجال كشى /162 چاپ دانشگاہ مشہد_ 28 بحار الانوار جلد 46/215، 220 ''عن ابى عبداللہ قال : قال لى ابي: يا جعفر اوقف لى من مالى كذا و كذا النوادب تند بنى عشر سنين بمنى ايام مني''_ 29 بحار الانوار جلد 46/217_ 30 بحار الانوار جلد 46/213_ 215_ |