اردو
Tuesday 23rd of July 2024
0
نفر 0

محرومین و مستضعفین کی رسیدگی

۳۔محرومین و مستضعفین کی رسیدگی

 

 رسول خدا   فرماتے ہیں :” اس زمانے میں مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ) ظہور کریں گے اور وہ اِس شخص (حضرت علی ابن ابی طالب (علیہ السلام) کی نسل سے ہوں گے۔

 

خدا وندعالم ان کے ذریعہ جھوٹ کا خاتمہ ،بُرے ایام ،اورغلامی کی زنجیروں سے تمہیں نجات دے گا “(۱)

 

حضرت امیر الموٴ منین (علیہ السلام) فرماتے ہیں :”جب حضرت مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ)

 

 

 

(۱)طوسی، غیبة، ص۱۱۴؛اثبات الہداة ،ج۳،ص۵۰۲؛بحار الانوار،ج ۵۱،ص۷۵

 

 ظہور کریں گے، توکوئی مسلمان غلام نہیں ہوگا مگر یہ کہ حضرت اسے خرید کر آزاد کر دیں گے نیز کوئی قرضدار باقی نہیں بچے گاکیونکہ حضرت اس کے قرض کو ادا کردیں گے “(۱)

 

امام محمد باقر(علیہ السلام) فرماتے ہیں :جب مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ) ظہور کریں گے، تو سب سے پہلے مدینہ جائیں گے اور وہاں ہاشمی قیدیوں کو آزاد کریں گے ،(۲)پھر ابن ارطاة کہتا ہے :-وہ کوفہ جائیں گے اور وہاں جاکر بنی ہاشم کے قیدیوں کو آزاد کریں گے ۔

 

 طاوٴوس یمانی کہتے ہیں : حضرت مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ) کی خصوصیت یہ ہے کہ اپنے حکام و کار گذار وں کی بہ نسبت سخت اور بخشش اموال میں ہاتھ کھلے ،اور بے چارہ ،بے نوا و مسکین افراد کی بنسبت مہربان و کریم ہیں(۳)

 

ابو روبہ کہتا ہے :حضرت بینواوٴں کو اپنے ہاتھوں سے عطا کریں گے۔( ۴)

 

احتمال ہے کہ اس سے مراد یہ ہو کہ حضرت محرومین و بے چارہ افراد پر بخشش کرنے میں خصوصی توجہ رکھیں اور انھیں زیادہ سے زیادہ مال عطا کریں گے ،جو بیت المال میں ہر مسلمان کا حق ہے اس کے علاوہ بھی صلاح کے مطابق عطا کریں گے ۔

 

 

 

ب)آبادی

 

حضرت مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ) کے زمانے کی آبادی کی اہمیت و عظمت سمجھنے کے لئے

 

 

 

(۱)عیاشی، تفسیر ،ج۱،ص۶۴؛بحار الانوار،ج۵۲،ص۲۲۴

 

(۲)ابن حماد، فتن، ص۸۳؛الحاوی للفتاوی، ج۲،ص۶۷؛متقی ہندی، برہان، ص۱۱۸

 

(۳)عقد الدرر، ص۱۶۷

 

(۴)ابن طاوٴ س، ملاحم، ص۶۸؛عقدالدرر، ص۲۲۷

 

 ضروری ہے کہ ظہور سے قبل ویرانی و تباہی نظر میں ہو یقینا جب دنیا تباہ کن جنگوں ، متعدد افراد کی ہواو ہوس کا لقمہ بنی ہو اور مدتوں آتش جنگ میں جلی اور کشتوں پہ کشتے د یا ہو تو اسے آبادی کی زیاد ہ ضرورت ہے حضرت مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ)اسے آباد کرنے کے لئے آئیں گے اور پوری دنیا میں آبادی کو قابل دید بنا دیں گے ۔

 

حضرت علی(علیہ السلام) فرماتے ہیں : ”اپنے دوستوں کو مختلف سر زمینوں کی جانب روانہ کریں گے جو حضرت کی بیعت کر چکے ہوں گے انھیں شہروں کی طرف بھیج کر عدل و احسان کا حکم دیں گے ان میں سے ہر ایک کسی نہ کسی سر زمین کا حاکم ہوگا پھر اس کے بعد دنیا کے تمام شہر عدل و احسان کے ساتھ آباد ہو جائیں گے“(۱)

 

امام محمدباقر(علیہ السلام) اس سلسلے میں فرماتے ہیں :”حضرت مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ) کے دوران حکومت میں غیرآباد و ویران جگہیں نہیں ہوں گی “(۲)

 

نیز آنحضرت فرماتے ہیں :” حضرت مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ) کو فہ میں وارد ہونے کے بعد ایک گروہ کو حکم دیں گے کہ امام حسین(علیہ السلام) کے روضہ مبارک کی پشت سے(شہر کربلا کے باہر)غریین کی طرف نہر کھودیں تاکہ شہر نجف تک پانی پہنچے اور اس نہر پر پُل بنائیں گے“(۳)

 

امام صادق(علیہ السلام) فرماتے ہیں:کہ جب ہمارے قائم(علیہ السلام) قیام

 

 

 

(۱)الشیعہ والرجعہ ،ج۱،ص۱۶۸

 

(۲)کما ل الدین ،ج۱،ص۳۳۱؛الفصول المھمہ، ص۲۸۴؛اسعاف الراغبین، ص۱۵۲؛وافی، ج۲،ص۱۱۲؛ نورالثقلین ، ج۲،ص۱۲۱؛احقا ق الحق ،ج۱۳،ص۳۴۲

 

(۳)مفید ،ارشاد، ص۳۶۲؛طوسی، غیبة، ص۲۸۰؛روضة الواعظین، ج۲،ص۲۶۳؛الصراط المستقیم ،ج۲،ص۲۶۲؛ اعلام الوری، ص۴۳۰؛المستجاد، ص۵۰۹؛کشف الغمہ، ج۳،ص۲۵۳؛بحار الانوار،ج ۵۲،ص۳۳۱؛وج۹۷،ص۳۸۵

 

کریں گے، تو کوفہ کے مکانات کربلا اور حیرہ کی نہر سے متصل ہو جائیں گے“(۱)

 

یہ روایت شہر کوفہ کی آبادی میں وسعت کی خبر دیتی ہے ایک طرف حیرہ ،جو فی الحال کوفہ سے ۶۰/ کیلو میٹر دور ہے اور دوسری سمت سے کربلا سے متصل ہوگا جس کا فاصلہ اتنا ہی ہے۔

 

حبہ عرنی کہتے ہیں : ”حضرت امیر الموٴ منین (علیہ السلام) حیرہ شہر کی جانب روانہ ہوئے تو وہاں پر شہر کوفہ کی طرف اپنے ہاتھوں سے اشارہ کر کے کہا: قطعی طور پر شہر کوفہ حیرہ شہر سے متصل ہو جائے گا اور اتنا قیمتی و گراں شہر ہوگا کہ یہا ں کی ایک میٹر(۲)زمین، مہنگی و گران قیمت پر خرید و فروش ہو گی“(۳)

 

شاید کوفہ کی وسعت اور اس کی زمینوں کی گرانی اس وجہ سے ہوگی کہ وہاں اسلامی حکومت کا مرکز(پایہ تخت ) بنے گا روایات کے مطابق مومنین وہاں چلے جائیں گے ۔

 

اسی طرح حضرت مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ) کے دوران حکومت راستے کشادہ ہو جائیں گے اور خاص قوانین اس سلسلے میں وضع کئے جائیں گے ،امام محمد باقر(علیہ السلام) اس سلسلے میں فرماتے ہیں :

 

جب حضرت قائم (عجل اللہ تعالی فرجہ)قیام کریں گے، تو شہر کوفہ جائیں گے اس وقت کوئی مسجد مینار،اورگنگرہ والی نہیں ہوگی سب کو حضرت ویران و خراب کر ڈالیں گے اور اسے اس طرح بنائیں گے کہ بلندی نہ ہو نیز راستے کشادہ کر دیں گے“(۴)

 

 

 

(۱)طوسی، غیبة، ص۲۹۵؛بحار الانوار،ج ۵۲،ص۳۳۰،۳۳۷وج۹۷،ص۳۸۵ارشاد، مفید، میں اسی طرح آیا ہے ”اتصلت بیوت الکوفہ بنھری کربلا “ملاحظہ ہو:روضةا لواعظین، ج۲، ص۲۶۴؛ اعلام الوری ،ص۴۳۴؛خرائج ، ج۳،ص۱۱۷۶؛صراط المستقیم ،ج۲،ص۲۵۱؛المحجہ، ص۱۸۴

 

(۲)ہر ذراع ۵۰/اور ۷۰/ سینٹی میٹر کے درمیان ہے

 

(۳)التہذیب ،ج۳،ص۲۵۳؛ملاذالاخیار ،ج۵،ص۴۷۸؛بحار الانوار،ج۵۲،ص۳۷۴

 

(۴)مفید ،ارشاد، ص۳۴۵؛بحار الانوار،ج۵۲،ص۳۳۹

 

امام موسیٰ کاظم (علیہ السلام) فرماتے ہیں :” حضرت قائم (عجل اللہ تعالی فرجہ) کے قیام کے وقت آگاہ افراد سواری لے کر پہنچیں گے تاکہ راستے اور جادوں کے درمیان راستہ چلیں جس طرح لوگوں کو حکم دیں گے کہ سڑکوں کی دونوں طرف پیادہ چلیں اس کے سڑ ک کے کنارہ چلنے سے اگر کسی کو کوئی نقصان ہوگا تو اسے دیہ اور خون بہا دینے پر مجبور کریں گے اسی طرح کوئی سڑکوں کے درمیان پیادہ چل رہا ہو اور اسے کوئی نقصان ہو جائے تو دیة لینے کا حق نہیں ہوگا“(۱)

 

ہم اس روایت سے یہی سمجھتے ہیں کہ شہروں میں کشادگی اور عبور و مرور کے وسائل میں فراوانی ہوگی صرف نقل و انتقال کے ذرائع کے لئے قانون گذاری نہیں ہوگی بلکہ پیدل چلنے والوں کے لئے بھی قانون وضع ہوں گے یقینا جو حکومت علم و دانش اور صنعت و ٹکنالوجی سے اسفتادہ کرے گی اورراستوں کو کشادہ ،اور سڑکوں کو چوڑا کرے گی قطعا ً وہ ڈرائیوری اور جانوں کی ضمانت کا بھی قانون بنائے گی۔

 

ج)زراعت

 

 امام زمانہ (عجل اللہ تعالی فرجہ) کے دوران حکومت جو چیز شایان ذکر و قابل توجہ ہے وہ کھیتی اور جانوروں کی تجارت ہے اس کے بعد جن لوگوں نے بارش کی کمی، پے در پے قحط و خشکسالی، اشیاء خورد ونوش کی قلت کھیتوں کی بربادی ،سے کبھی ایک لقمہ روٹی کے لئے گراں قیمت چیزوں کو فدیہ بنایا ہو یعنی ناموس و آبرو ،وہی افراد حیرت انگیز ، خیرہ کن کسانی اورجانوروں کی تجارت میں تبدیلی محسوس کریں گے معاشرہ میں اشیاء خورد ونوش کی فراوانی ہو جائے گی ۔

 

اگر امام کے ظہور سے پہلے کبھی بارش ہوئی، بھی تو زمین نے اسے قبول نہیں کیا اور کبھی

 

 

 

(۱)التہذیب ،ج۱۰،ص۳۱۴؛وسائل الشیعہ، ج۱۹،ص۱۸۱؛ملاذ الاخیار، ج۱۶،ص۶۸۵؛اثبا ت الہداة، ج۳، ص۴۵۵

 

قبول کیا تو بارش نہیں ہوئی کسانی کی محصولات (نتیجہ) بر باد ہوئیں تو کبھی نا وقت بارش نے کھیتیوں اور حاصل کو بر باد کر ڈالا حضرت کے دورمیں بارش کی حالت بدل جائے گی پہلی ہی جیسی بارش ہوگی اور اس درجہ کہ لوگوں نے اپنی زندگی میں نہیں دیکھی ہوگی اس کے بعد رحمت الٰہی کاانسان پر نزول ہوگا نتیجہ کے طور پر انسانوں پر رحمت الٰہی کی فراوانی ہوگی اس طرح سے کہ دسیوں سال کا حاصل ایک سال میں جمع کر لیں گے اور روایات میں آیا ہے کہ ایک من (تین کیلوگرام ) گیہوں سے سو من نتیجہ حاصل ہوجائے گا۔

 

روایات چو بیس بارش کی خبر دیتی ہیں کہ ظہور کے بعد آسمان سے نازل ہوں گی اسی کے پیچھے بہت ساری بر کتیں لوگوں کے شامل حال ہوں گی ، پہاڑ ،جنگل، بیابان سر سبز ہو جائیں گے بے آب و گیاہ ،خشک و بنجر بیابان ہرے بھرے ہو جائیں گے اور نعمت الٰہی اسقدر فراوان ہوجائے گی کہ لوگ اپنے مردوں کے دوبارہ زندہ ہونے کی تمنا کریں گے ۔

 

۱۔بارش کی زیادتی

 

رسول خدا   فرماتے ہیں :” ان پر آسمان سے مو سلادھار بارش ہوگی “(۱)

 

دوسری روایت میں فرماتے ہیں : خدا وند عالم ان کے لئے (مہدی) آسمان سے بر کت نازل کرے گا “(۲)نیز فرماتے ہیں:” زمین عدل وانصاف سے پُر ہو گی اور آسمان بر سے گا نتیجہ کے طور پر زمین اپنا حاصل ظاہر کردے گی اور میری امت حضرت مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ) کے زمانہ میں اس درجہ نعمتوں سے بہرہ مند ہوگی کہ اس سے پہلے کبھی نہیں ہوئی ہوگی “(۳)

 

 

 

(۱)مجمع الزوائد ،ج۷،ص۳۱۷؛حقاق الحق ،ج۱۳،ص۱۳۹

 

(۲)عقدالدرر، ص۱۶۹؛ابن طاوٴس، ملاحم، ص۷۱و۱۴۱

 

(۳)المطالب العالیہ ،ج۴،ص۲۴۲؛ابن طاوٴس، ملاحم، ص۱۳۹؛اثبات الہداة،ج۳،ص۵۲۴؛احقا ق الحق، ج۱۹، ص۶۵۵؛ملاحظہ ہو:احمد، مسند، ج۲،ص۲۶۲ ؛بحا رالانوار، ج۵۲، ص۳۴۵؛احقاق الحق ،ج۱۹،ص۱۶۹،۶۶۳

 

حضرت امیر الموٴ منین (علیہ السلام) اس سلسلے میں فرماتے ہیں : کہ خداوند عظیم واکبر،نے ہمارے وجود سے خلقت کی ابتداء کی اور ہم ہی پر ختم کرے گا جو چاہے گا میرے ذریعہ نیست و نابود کرے گا اور جو چاہے گا میرے ذریعہ ثابت و باقی رکھے گا میرے وجود سے بُرے دن ختم ہوں گے اور بارش نازل کرے گا لہٰذ ا تمہیں دھوکہ دینے والا راہ خدا سے دھوکہ دے کر نہ ہٹا سکے گا جس دن سے خدا وند عالم نے آسمان کے دروازے بند کئے ہیں اس دن سے ایک قطرہ نہیں برسا اور جب ہمارے قائم (عجل اللہ تعالی فرجہ)قیام کریں گے تو آسمان سے رحمت الٰہی کی بارش ہوگی ۔(۱)

 

 امام جعفر صادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں : کہ جب قائم (عجل اللہ تعالی فرجہ)کے ظہور کا زمانہ آئے گا تو جمادی الثانیہ اور رجب میں دس روز ایسی بارش ہوگی کہ لوگوں نے کبھی ایسی بارش نہیں دیکھی ہوگی“(۲)

 

 سعید بن جبیر کہتے ہیں :جس سال حضرت قیام کریں گے ۳۲۴ دن بارش ہوگی جس کے آثار و بر کتیں آشکار ہوں گی۔(۳)

 

حضرت قائم( (عجل اللہ تعالی فرجہ)کے زمانہ میں بارش کی کثرت کے بارے میں رسول گرامی فرماتے ہیں : ”ان(مہدی) کی حکومت میں پانی کی زیادتی ہوگی نہریں چھلک اٹھیں گی“(۴)

 

دوسری روایت میں فرماتے ہیں ”نہریں پانی سے بھری ہوئی ہوں گی چشمے جوش کھائیں گے اور زمین کئی گنا حاصل دے گی ۔(۵)

 

 

 

(۱)منن الرحمن ،ج۲،ص۴۲

 

(۲)بحار الانوار،ج۵۲،ص۳۳۷؛وافی، ج۲،ص۱۱۳

 

(۳)احقا ق الحق ،ج۱۳،ص۱۶۹

 

(۴)عقدالدرر ،ص۸۴

 

(۵)مفید، اختصاص ،ص۲۰۸؛بحار الانوار،ج۵۲،ص۳۰۴

 

 

0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

امام مہدی عج ابن خلد و ن کی نگاہ میں
آسمانی ادیان میں انتظار فرج کا عقیده
حکومت مهدي پر طايرانه نظر
حضرت زھرا (س) اور حضرت مہدی (عج)
عصر غیبت میں ہماری ذمہ داریاں
زمانہٴغیبت میں ہماری ذمہ داریاں
امام حسین علیہ السلام اورامام زمانہ(عج)کےاصحاب ...
معرفت امام کے بغیر موت جاہلیت کی موت/ ایک مناظرہ ...
ظہور مہدی (ع) کا عقیدہ اسلامی عقیدہ ہے
حضرت امام مہدی کی معرفت کی ضرورت

 
user comment