تمام مسلمانوں کے وظائف و تکالیف میں ایک وظیفہ و تکلیف یہ ہے کہ ان کو چاہئے پہلے اپنے زمانے کے امام کو پہچانیں اس کے بعد ان کی اطاعت و پیروی کریں ۔ اس وظیفہ و تکلیف کے اہم ترین نقلی دلائل میں سے ایک مشہور و متواتر روایت : ” مَنْ مَاتَ وَ لَمْ یَعْرِفْ اِمَامَ زَمَانِہِ مَاتَ مَیْتَةً جَاھِلِیَّةً “ہے ۔
تمام مسلمانوں کے وظائف و تکالیف میں ایک وظیفہ و تکلیف یہ ہے کہ ان کو چاہئے پہلے اپنے زمانے کے امام کو پہچانیں اس کے بعد ان کی اطاعت و پیروی کریں ۔ اس وظیفہ و تکلیف کے اہم ترین نقلی دلائل میں سے ایک مشہور و متواتر روایت : ” مَنْ مَاتَ وَ لَمْ یَعْرِفْ اِمَامَ زَمَانِہِ مَاتَ مَیْتَةً جَاھِلِیَّةً “ہے ۔
اس حدیث کی بنا پر جو لوگ اپنے امام زمانہ کی معرفت کے بغیر مر جائیں وہ ایسے ہیں کہ عہد جاہلیت میں مرے ہیں اور اسلام و آئین اسلام سے کوئی رابطہ و نسبت نہیں رکھتے ۔ یہ حدیث نہایت معتبر احادیث میں سے ہے اور شیعہ اور اہلسنت دونوں نے اس کے تواتر پر تصریح کی ہے ۔ علماء شیعہ سے شیخ مفید ان افراد میں سے ہیں جو اپنی عظیم کتاب ” الافصاح “ میں لکھتے ہیں:
یہ حدیث متواتر طور پر حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم سے روایت کی گئی ہے ۔(۱)
شیخ مفیداسی طرح اپنی ایک دوسری کتاب ” الرسالة الاولیٰ فی الغیبة “ میں تحریر فرماتے ہیں :
یہ حدیث: ” مَنْ مَاتَ وَ لَمْ یَعْرِفْ اِمَامَ زَمَانِہِ مَاتَ مَیْتَةً جَاھِلِیَّةً “ صحیح روایت ہے اور اہل آثار کا اجماع اس کی گواہی دیتا ہے (۲) ۔ علماء اہل سنت میں سے سلیمان بن ابراہیم قندوزی حنفی کا نام لے سکتے ہیں کہ جنھوں نے صریحی طور پر لکھا ہے کہ حدیث : ” مَنْ مَاتَ وَ لَمْ یَعْرِفْ اِمَامَ زَمَانِہِ مَاتَ مَیْتَةً جَاھِلِیَّةً “ پر تمام علماء خاصہ و عامہ کا اتفاق ہے ۔ (۳)
حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے امام زمانہ (عج) کی معرفت نہ رکھنے کو شرک و الحاد و کفر کے مرادف قرار دیا ہے ، یہ اس سبب سے ہے کہ انسان جب اپنے حقیقی و واقعی امام کو نہ پہنچانے گا تو وہ صحیح راستے سے بھٹک جائے گا اور صراط مستقیم سے دور ہوجائے گا اور نتیجہ میں جتنا وہ آگے بڑھتا جائے گا اتنا ہی زیادہ مقصد و منزل حق سے دور ہوتا جائے گا۔
پس اس لئے کہ ہم گمراہی کا شکار نہ ہوں اور صراط مستقیم سے ہٹنے نہ پائیں ، پہلے مرحلہ میں ہمیں کوشش کرنا چاہئے کہ اپنے زمانہ کے امام کو پہنچانیں ، اور ہمارا امام ، امام زمانہ حضرت امام مہدی (عج) کے علاوہ کوئی نہیں ہے ، حضرت امام مفترض الطاعہ کی فرد کے تنہا مصداق ہیں کہ خدا کے اذن و امر سے زندہ ہیں اور تمام لوگوں کے خصوصاً شیعوں کے اور بالاخص علماء و طلاب کے اعمال و افعال کے شاہد و ناظر ہیں ۔
افسوس ہے کہ حضرت امام مہدی (عج) کی صحیح معرفت نہ رکھنے اور حضرت کی انفرادی و اجتماعی سیرت سے آشنا نہ ہونے کے باعث ایک گروہ کے اندر غلط فکریں پیدا ہوگئی ہیں اور وہ سب انجانے میں یا جان بوجھ کر حضرت کی ذات پاک پر ایسے ناروا اتہامات لگاتے ہیں جو ایک عالم و معمولی انسان کی شان میں بھی جائز نہیں ہےں۔ ایک کلی تقسیم بندی کے طور پر ان اتہامات کو دو حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے ، ایک حصہ حضرت امام مہدی (عج) کی سیرت اور تشکیل حکومت کی کیفیت کے متعلق ہے اور دوسرا حصہ حضرت کے ظہور اور دنیا پر حاکمیت پانے کے بعد کے زمانہ میں حضرت کی روش حکومت کے متعلق ہے ۔
حکومت کی تشکیل میں حضرت مہدی (عج) کی روش
افسوس ہے کہ مسلمانوں کی عام ذہنیت یہ ہے کہ حضرت امام مہدی (عج) ایک غضب ناک چہرے کے ساتھ ظہور فرمائیں گے اور تلوار کے ذریعہ نیز اپنے مخالفین کے قتل و خون کے ذریعہ حکومت کی تشکیل اور قدرت کی تحصیل میں کامیاب ہوں گے ۔ اس ذہنیت کی جڑ وہ روایات ہیں جو اس انداز سے پائی جاتی ہیں اور کتابوں میں نیز منبروں پر لوگوں کے سامنے بیان کی جاتی ہیں ۔ ان روایات میں سے بعض روایتوں کے اعتبار سے حضرت امام مہدی (عج) ظہور کے وقت لوگوں کے ساتھ اتنی سختی و خشونت سے پیش آئیں گے کہ ان کی اکثریت آرزو کرتی ہے کہ کاش ان کو ہرگز نہ دیکھیں ، اور ان میں سے بہت سارے لوگ حضرت (عج) کے نسب میں شک کرنے لگتے ہیں اور آپ کو آل محمد علیہم السلام سے نہیں سمجھتے ۔
جھوٹی روایتیں اور محمد بن علی کوفی
ان روایتوں کی تعداد پچاس سے زیادہ تک پہنچتی ہے ، ان میں تقریباً تیس روایتوں کی سند ایک شخص بنام محمد بن علی کوفی تک پہنچتی ہے جو کہ بدنام اور جھوٹا ہے اور تمام علمائے رجال نے اس کی روایتوں کی بے اعتباری کا حکم لگایا ہے ، یہ شخص حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کے زمانہ میں تھا اور جناب فضل بن شاذان کے معاصرین میں سے ہے ، اور فضل بن شاذان بزرگان شیعہ میں سے اور عظیم راوی ہیں کہ ان کی جلالت و قدر و منزلت میں کوئی شک نہیں پایا جاتا ۔ یہاں تک کہ حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام ان کی تعریف و توصیف میں فرماتے ہیں کہ :
”انی اغبط اھل الخراسان لمکان الفضل “ یعنی فضل کے خراسانی ہونے کی وجہ سے میں بھی آرزو رکھتا ہوں کہ اہل خراسان میں سے ہوں ۔ اب فضل بن شاذان ، محمد بن علی کوفی کے صفات بیان کرتے ہیں :
”رجل کذاب “ یہ بہت زیادہ جھوٹا شخص ہے ، اور دوسری جگہ اس طرح اظہار خیال فرمایا ہے کہ : ” کدت اقنت علیہ “ یعنی نزدیک تھا کہ میں قنوت نماز میں اس پر بد دعا کروں ۔
اب ہم نمونہ کے طور پر ان چند روایتوں کو پیش کرتے ہیں :
پہلی روایت
وہ روایت ہے کہ بحار الانوار کے ایک صفحہ سے زیادہ پر مشتمل ہے ، اس روایت میں آیا ہے :
” حضرت مہدی (عج) ظہور کے بعد مسلمانوں کے ایک گروہ کا پیچھا کریں گے ، وہ سب بھی بھاگ کر روم کے نصاریٰ کی پناہ لیںگے ، نصاریٰ ان سے کہیں گے کہ اگر چاہتے ہو کہ ہم تمہیں پناہ دیں تو تمہیں صلیب گردن میں لٹکانا پڑے گا اور عیسائی ہونا پڑے گا ، یہ گروہ امام زمانہ (عج) کے خوف سے عیسائی ہوجائے گا ، حضرت (عج) ان بھگوڑے مسلمانوں کو عیسائیوں کے پنجے سے نکالیں گے ، ان کے مردوں کو قتل کرڈالیں گے اور ان کی حاملہ عورتوں کے شکم کو چاک کردیں گے ۔
” فیقتل الرجال و یبقر بطون الحبالیٰ “
معلوم ہونا چاہئے کہ حضرت امام مہدی (عج) مرتبہ امامت کے حامل ہیں ، اور ہر شخص سے زیادہ احکام اسلام کو جانتے ہیں ۔ دین اسلام میں اگر کوئی حاملہ عورت کسی جرم و گناہ کی مرتکب ہو اور اس پر حد جاری کرنا واجب ہو ، مثال کے طور پر اگر زنا کرائے اور چار شاہد عادل اس کے زنا کرانے پر گواہی دیں ( وہ بھی اسلام کے ایسے سخت شرائط کے ساتھ کہ جن کا حصول بہت مشکل ہے ، کیونکہ کوئی ہوشیار زنا کو ملاٴ عام میں انجام نہیں دیتا ) لیکن ان سب کے باوجود اگر ثابت ہوگیا کہ کسی حاملہ عورت نے زنا کرایا ہے اور طے ہوجائے کہ اس پر حد جاری کریں تو جب تک یہ عورت حاملہ ہے اس پر حد جاری کرنا حرام ہے ، لازم ہے کہ بچہ جننے تک صبر کریں اور اس کے بعد اس پر حد جاری کریں ۔ تو پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ حضرت ولی عصر (عج) حاملہ عورت کے شکم کو چاک کریں گے ؟ آیا یہ روایت جھوٹی اور گڑھی ہوئی نہیں ہے ؟
دوسری روایت (۴)
بحار الانوار میں کتاب غیبت نعمانی سے اس سند کے ساتھ ذکر ہوئی ہے :
” عن علی بن الحسین (۵) عن محمد العطار عن محمد بن الحسن الرازی ( مجھول الہویّة ) عن محمد بن علی الکوفی عن البزنطی عن ابن ابی بکیر عن ابیہ عن زرازة عن ابی جعفر علیہ السلام : اٴیسیر ( الحجة ) بسیرة النبی (ص) ؟ فقال : ” ہیہات انّ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سار فی امتہ باللّین و الغائب یسیر بالقتل “
زرارہ نے حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے پوچھا کہ : ” آیا حضرت امام مہدی (عج) حضرت رسول خدا (ص) کی سیرت کے مطابق عمل کریں گے ؟ تو امام نے فرمایا: ” ہرگز نہیں ، حضرت رسول خدا (ص) نے اپنی امت میں نرمی کی روش اختیار کی حالانکہ حضرت امام مہدی (عج) قتل کی روش سے استفادہ کریں گے “ ۔
یہ روایت ایک تو ضعیف السند ہے دوسرے ان صحیح روایتوں سے تعارض رکھتی ہے جو حضرت امام عصر (عج) کی سیرت کے حضرت رسول اکرم (ص) کی سیرت سے شباہت رکھنے کے متعلق پائی جاتی ہیں اور بعد میں بیان کی جائیں گی ۔
تیسری روایت
تیسری روایت بھی اسی قبلی روایت کی سند (۶) کے ساتھ ہے :
” عن محمد بن علی الکوفی عن البزنطی عن العلاء “ اس سند مغیرہ بن سعید بھی آیا ہے ، کہ جس کے متعلق حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ : ” لعن اللہ المغیرة بن سعید انّہ دسّ فی احادیث ابی کثیراً “ یعنی خدا لعنت کرے مغیرہ ابن سعید پر کہ اس نے میرے بابا کی احادیث میں بہت زیادہ تحریف اور پھیر بدل کیا ہے ۔ اس روایت میں بھی پہلے کی روایتوں کی طرح قتل کی بات ذکر ہوئی ہے اور اس بات کو امام (ع) کی طرف نسبت دیتے ہیں کہ : ” سمعت ابا جعفر علیہ السلام یقول : ” لو یعلم الناس ما یصنع الغائب اذا خرج لاٴحب اکثرہم ان لا یروہ مما یقتل الناس “
” اگر لوگ جان لیں کہ حضرت امام مہدی (عج) ظہور کے بعد کیا کریں گے تو ان میں سے اکثر افراد چاہیں گے کہ حضرت کو نہ دیکھیں کیونکہ وہ لوگوں کو قتل کریں گے ۔ “
ایسی بات کی ایک جھوٹے آدمی کی طرف سے امام معصوم کی طرف نسبت دی گئی ہے اور یہ کسی صورت میں قابل قبول نہیں ہے ، کیونکہ عقلمند انسان اگر جھوٹے انسان کی بات فلان مومن کی شراب خواری کے متعلق سنے تو یقین نہ کرے گا اور خود اس بات کو کبھی نقل نہ کرے گا ، تو پھر بھلا امام معصوم کے متعلق جھوٹی بات کو کیسے تسلیم کیا جاسکتا ہے ، اس روایت کے ذیل میں اس طرح آیا ہے کہ :
” یقول کثیر من الناس لیس ھٰذا من آل النبی (ص) لو کان لرحم “ یعنی امام زمانہ (عج) اس قدر قتل کریں گے کہ لوگ کہیں گے وہ آل نبی (ص) سے نہیں ہیں ، کیونکہ اگر آل نبی (ص) سے ہوتے تو رحیم و مہربان ہوتے اور قتل و قتال نہ کرتے ۔
یہ بات کس کے متعلق ہے ؟ آیا حجاج بن یوسف ثقفی کے متعلق بھی ایسی بات کہی جاتی ہے ؟
چھوتی روایت
اسی روایت کے بعد حدیث نمبر ۱۱۴ ہے :
” عن محمد بن علی الکوفی عن لابزنطی عن عاصم بن حمید الحناف عن ابی بصیر قال ابو جعفر علیہ السلام : لیس شانہ الا بالسیف لا یستتیب احداً “
حضرت امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا کہ : ” حضرت امام مہدی (عج) کا سرو کار تلوار کے علاوہ کسی اور چیز سے نہیں ہے اور وہ کسی کی توبہ قبول بھی نہ کریں گے “۔ آیا یہ حضرت رسول خدا (ص) کی سیرت کی شبیہ ہے ؟ اہم نکتہ یہ ہے کہ محمد بن علی کذاب اپنی روایتوں کو ثقہ و معتبر افراد کی طرف نسبت دیتا ہے تا کہ اس کی روایتیں لوگ صحیح تصور کریں ، جیسا کہ یہاں بھی سلسلہٴ سند میں ” حناف “ کا نام آیا ہے جو کہ ثقات میں سے ہیں ۔
پانچویں روایت
اس بار ابن محبوب سے ( اصحاب اجماع سے ) عن البطائنی عن ابی بصیر عن ابی عبد اللہ علیہ السلام “ راوی کہتا ہے میں نے امام (ع) سے پوچھا کہ : امام مہدی (عج) کب ظہور فرمائیں گے ؟ فقال : ” ما تستعجلون بخروج الغائب فو اللہ ما ہو الا السیف و الموت تحت ظل السیف “ (۷) یعنی کیوں غائب ( امام زمانہ ) کے ظہور کے متعلق جلدی کر رہے ہو ، خدا کی قسم وہ فقط تلوار اور موت سے سروکار رکھیں گے ۔
چھٹی روایت
علی بن ابی حمزہ بطائنی شیخ الواقفیہ سے ہے جو کہ حضرت امام موسی بن جعفر علیہما السلام کی امامت کی خاتمیت کا قائل ہے ، وہ کہتا ہے کہ آپ ( امام موسی بن جعفر علیہما السلام) ہی امام غائب ہیں اور اصلاً وہ بارہویں امام کا قائل نہیں ہے ۔ حضرت امام علی الرضا علیہ السلام سے ایک روایت میں نقل ہوا ہے جو کہ اس شخص کے دفن کے بعد فرمایا ہے کہ : منکر و نکیر نے اس پر آگ کا ایک ستون مارا ہے کہ:
” امتلاٴ قبرہ ناراً الیٰ یوم القیامة “
” اس کی قبر قیامت تک آگ سے بھری رہے گی “ ۔ یعنی اب تک کہ تقریباً بارہ سو سال ہورہے ہیں وہ اپنی قبر میں جل رہا ہے ۔ بہر حال وہ روایت یہ ہے :
عن ابی بطائنی عن ابیہ عن ابی بصیر عب عبد اللہ علیہ السلام قال: ” اذا خرج الغائب لم یکن بینہ و بین العرب و قریش الا السیف ما یاٴخذ منہا الا السیف “ (۸)
یعنی جب وہ غائب (امام زمانہ ) آئیں گے تو اس کے اور عرب و قریش کے درمیان تلوار ہی حاکم ہوگی اور وہ قریش سے تلوار کے علاوہ کوئی چیز دریافت نہیں کرےں گے ۔
یہ ان روایتوں کے چند نمونے ہیں جو اس سلسلہ میں وارد ہوئی ہیں ، محمد بن علی الکوفی سے قطع نظر ، ان روایتوں کے دوسرے بہت سارے راوی بھی کسی صورت میں قابل اعتبار نہیں ہیں اور ان کی روایتیں قابل قبول نہیں ہےں۔
سندی اشکالات و اعتراضات کے علاوہ یہ تمام روایتیں دلالت کے اعتبار سے بھی ناتمام ہیں اور قابل قبول نہیں ہیں ۔ اس لئے کہ ان میں سے بہت سی روایتوں کا مفاد و مطلب مذہب و شریعت کے ضروریات سے تعارض و اختلاف رکھتا ہے اور کسی عنوان سے ان کی توجیہ نہیں کی جاسکتی ۔
اصولاً حضرت امام مہدی (عج) اس لئے ظہور فرمائیں گے تا کہ عدالت قائم کریں اور جور و جفا ، ظلم و ستم کی بساط الٹ دیں اس بناپر ممکن نہیں ہے کہ حضرت (عج) ظلم کے راستے سے عدل تک پہنچیں ، یا ایجاد بدعت کے ذریعے ، اپنے جد حضرت محمد مصطفی (ص) کی سنت کو زندہ کریں ۔ حضرت رسول خدا (ص) کی سنت یہ تھی کہ آنحضرت (ص) اس بات کی اجازت نہیں دیتے تھے کہ کسی حاملہ عورت پر حد جاری کریں یا اس سے قصاص لیں ۔ لیکن اس روایت کے مطابق جو محمد بن علی الکوفی نے نقل کیا ہے ، حضرت امام مہدی (عج) ان حاملہ عورتوں کے شکم کو جوکہ ڈر سے اور اپنی جان کی حفاظت کی خاطر عیسائی ہوگئی ہیں ، پارہ کردیں گے ۔
صحیح روایتیں
ایسی روایتوں کے بے اعتبار ہونے کی دوسری دلیل وہ صحیح و معتبر احادیث ہیں جو ان کے مقابل و خلاف مفہوم پر دلالت کرتی ہیں اور واضح طور پر اس بات کی نشاندہی کرتی ہیں کہ حضرت امام ولی عصر (عج) کی حکومتی روش بالکل حضرت رسول خدا (ص) اور امیر الموٴمنین علیہ السلام کی روش کے مانند ہوگی ۔ ان روایتوں کے چند نمونوں کی طرف توجہ فرمائیے :
۱۔ بحار الانوار میں ایک موٴثق و حَسَن روایت کتاب غیبت نعمانی سے ذکر ہوئی ہے :
” عن ابن عقدة عن علی بن الحسن ( ابن فضال ) عن ابیہ عن رفاعة عن عبد اللہ بن عطاء قال : سئلت ابا جعفر الباقر علیہ السلام : ” فقلت اذا قام الحجة بایّ سیرة یسیر فی الناس ؟ فقال علیہ السلام : یھدم ما قبلہ کما صنع رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم و یستاٴنف الاسلام جدیداً “ (۹)
راوی حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے سوال کرتا ہے کہ حضرت حجت (عج) ظہور کے بعد کون سی سیرت و روش حکومت اپنائیں گے ؟ حضرت امام محمد باقر علیہ السلام جواب دیتے ہیں کہ : ” جس طرح کہ حضرت رسول خدا (ص) نے بعثت کے بعد وہ تمام چیزیں جو آنحضرت (ص) سے پہلے دین کے عنوان سے موجود تھیں جیسے یہودیت ، عیسائیت و مجوسیت و غیرہ ، ان سب کو بے اعتبار اعلان کردیا ، اسی طرح حضرت مہدی (عج) بھی ظہور کے بعد جو کچھ بھی دین و اسلام کے نام سے دنیا پر حاکم ہے لیکن دین و اسلام کی بنیاد کے مخالف ہے ، ان سب کو مٹادیں گے اور حقیقی اسلام کو دوبارہ برپا کریں گے “۔
حضرت رسول خدا (ص) نے قرآن مجید کے بقول (۱۰)نرمی اور عدم شدت کے ساتھ اپنی ماقبل چیزوں کو بے اعتبار کیا ، رسول (ص) کی یہ سیرت مسلمانوں سے مخصوص نہ تھی ، حضرت امام زمانہ (عج) بھی کافروں کے متعلق وہی سیرت اور وہی نرمی و مہربانی اختیار کریں گے جو حضرت رسول خدا (ص) کی سیرت تھی مسلمانوں کی بات تو الگ ہے ۔
۲۔ عن ابن عباس عن النبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم قال : ” التاسع منہم ( من اولاد الحسین علیہ السلام ) من اہل بیتی و مہدی امّتی ، اشبہ الناس بی فی شمائلہ و اقوالہ و افعالہ “۔ (۱۱)
ہمارا شاہد و دلیل لفظ ” افعالہ “ ہے ، یعنی حضرت مہدی (عج) کے شمائل و اقوال رسول خدا (ص) کی شبیہ ہونے کے علاوہ حضرت کے افعال و اعمال بھی حضرت رسول خدا (ص) کی شبیہ ہیں ۔
۳۔ بحار الانوار (۱۲) میں تقریباً ایک صفحہ بحوالہ اعلام الوریٰ ، شیخ طبرسی (۱۳) کا بیان اس روایت کے ذیل میں ذکر کیا گیا ہے کہ جس کا ایک حصہ یہ ہے :
اگر حضرت ولی عصر (عج) کی حکومت کی کیفیت کے متعلق سوال ہو کہ کس طرح ہوگی ؟ آیا شدت و سختی کے ساتھ ہوگی تو اس کا جواب یہ دینا چاہئے کہ : ” فان کان ورد بذالک خبر فھو غیر مقطوع بہ “ حضرت کی حکومت ہرگز شدت و سختی کے ساتھ نہ ہوگی پس اگر کوئی روایت اس سلسلہ ( حضرت کی حکومت میں سختی کے بارے ) میں پائی جائے تو وہ صحیح نہیں ہے ، اور ایسی کوئی صحیح روایت وجود نہیں رکھتی کہ حضرت شدت و سختی کے ساتھ عمل کریں گے ۔
علامہ طبرسی مشہور محدثین میں سے اور فن حدیث میں معروف تھے ، ان تمام روایتوں کو جو اس باب میں وارد ہوئی ہیں اس جملہ ” ان کان ․․․ یعنی اگر ایسی روایتیں پائی جائیں تو وہ صحیح نہیں ہیں “کے ذریعہ غلط اور جھوٹی قرار دیا ہے ، اور وہ کہتے ہیں کہ اگر کوئی روایت اس سلسلہ ( حضرت کی حکومت میں شدت یا سختی کے بارے ) میں پائی جائے تو نہ تو اس کا مدلول معتبر ہے اور نہ وہ حجیت رکھتی ہے ۔
۴۔ بحار الانوار (۱۴) میں ایک روایت کتاب کافی سے اس عبارت کے ساتھ نقل ہوئی ہے : ” کلینی عن العدة عن البرقی عن ابیہ عن محمد بن یحییٰ عن حماد عن عثمان عن الصادق علیہ السلام : اذا قام الحجة سار بسیرة امیر الموٴمنین علی علیہ السلام “
یعنی جس وقت حضرت امام مہدی (عج) ظہور فرمائیں گے تو بالکل امیر الموٴمنین علی علیہ السلام کی سیرت پر عمل کریں گے ۔
اس روایت کی سند صحیح ہے ، اور اس میں کوئی شک و شبہہ نہیں ہے کیونکہ اس کے روای ایک دوسرے سے بہتر ہیں اور اس کا متن بھی معصومین علیہم السلام کی سیرت کے موافق ہے ۔
ان روایتوں کا مدلول یہ ہے کہ جس وقت حضرت امام مہدی (عج) ظہور فرمائیں گے تو تمام لوگ خواہ چھوٹے ہوں یا بڑے ، بوڑھے ہوں یا جوان ، حضرت سے محبت رکھیں گے اور تہِ دل سے آپ کو دوست رکھیں گے ، حضرت رسول خدا (ص) نے ارشاد فرمایا ہے کہ :
” میں تم سب کو مہدی (عج) کی ، جو قریش سے ہوگا ، بشارت دیتا ہوں کہ تمام آسمان و زمین کے رہنے والے اس کی خلافت و حکومت سے خوشنود ہوں گے “۔ (۱۵)
اسی طرح آنحضرت (ص) سے روایت ہوئی ہے کہ :
” میری امت سے ایک ایسا شخص قیام کرے گا کہ زمین و آسمان کے تمام لوگ اس کو دوست رکھیں گے “۔ (۱۶)
اسی طرح آنحضرت (ص) سے ایک دوسری روایت ہوئی ہے کہ جس میں آپ نے ارشاد فرمایا:
” میں تم سب کو مہدی (عج) کی بشارت دیتا ہوں جو لوگوں کی طرف مبعوث کیا جائے گا ․․․ اور زمین و آسمان کے تمام ساکنین اس سے خوشنود ہوں گے “۔ (۱۷)
اور حضرت علی علیہ السلام سے بھی نقل ہوا ہے کہ حضرت (ع) نے ارشاد فرمایا :
” جس وقت میرے بیٹوں میں سے ایک بیٹا ظہور کرے گا تو ایسی گشائش ، لوگوں کے کام میں پیدا ہوگی کہ حتیٰ مُردے بھی ایک دوسرے کی زیارت کو جائیں گے اور آپس میں اس کے ظہور کی مبارکباد پیش کریں گے “۔ (۱۸)
جمع روایات
متعارض روایات ( ایک دوسرے کے خلاف روایات ) کے درمیان جمع کے متعلق خود آئمہ علیہم السلام نے ضروری ہدایات دئیے ہیں ۔ البتہ دو مخالف روایتیں اس وقت باہم تعارض میں قرار پائی ہیں جبکہ باب تعارض سے متعلق لازمی شرائط کی حامل ہوں ، اس طرح سے کہ اولاً دونوں روایتوں کی سند معتبر ہو ، نہ یہ کہ ایک طرف محمد بن علی کوفی جیسا جھوٹا ہو اور دوسری طرف علی بن ابراہیم اور محمد بن مسلم جیسے ائمہ علیہم السلام کے معتمد اور ثقہ ہوں ۔
ان دنوں کے درمیان مقایسہ عقلاً و شرعاً جائز نہیں ہے ۔ پس ہم اسے پہلے ہی زینے پر جو کہ سند کی بحث ہے مشکل رکھتے ہیں ، کیونکہ جو روایتیں محمد بن علی کوفی سے نقل ہوئی ہیں ، وہ امام زمانہ (عج) کو معاذ اللہ ایک قاتل و آدم کش کی صورت میں پیش کرتی ہیں کہ ان کے زمانے میں فتنہ و فساد ہوں گے اور فقہاء کہتے ہیں کہ حتیٰ شرعی احکام اگر فتنہ و فساد کے باعث ہوں تو ساقط ہوجاتے ہیں اور پھر واجب نہیں رہ جاتے ، تو بھلا کیسے حضرت امام زمانہ (عج) جو کہ خود دین و احکام دین کے صاحب و مالک ہیں ، فتنہ و فساد اور ہرج و مرج کے باعث ہوں گے ؟
پس اس پہلے ہی مرحلہ میں تعارض کی بحث منتفی و ختم ہوجاتی ہے اس لئے کہ ایک جھوٹا شخص بزرگان حدیث و ثقہ کے معارض نہیں ہوسکتا اور ان سے ٹکّر نہیں لے سکتا ۔
سند صحیح ہونے کے فرض کی بناپر اس مرحلہ سے آگے بڑھیں گے تو دو متعارض روایتوں کے درمیان ترجیح کے ملاحظہ کی باری آئے گی ، اس مرحلہ میں ان دونوں روایتوں کو دوسری صحیح روایتوں سے اور سنت و سیرت و کتاب ( قرآن ) سے مقایسہ کیا جائے گا اور ان دونوں میں سے جو ان کے موافق ہوگی وہ معتبر ہوگی ۔ اس جہت سے بھی جو روایتیں امام زمانہ (عج) کی سیرت حضرت رسول خدا (ص) اور امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام کی سیرت سے مشابہت کو بیان کرتی ہیں ، وہ رجحان و ترجیح کی حامل ہیں ، کیونکہ وہ روایتیں معصومین علیہم السلام کی سیرت کے موافق ہیں اور سچّے قرائن زیادہ رکھتی ہیں ۔ اس مرحلہ کے بعد بالفرض اگر دونوں روایتیں کتاب و سیرت کے مطابق ہوں اور اصطلاح میں ” متکافی “ ہوں ، تو نوبت دلالت و ظہور تک پہنچے گی کہ آیا دونوں روایتیں ظہور و دلالت کے اعتبار سے ایک دوسرے کے مساوی ہیں یا نہیں ۔
اس مرحلہ میں اگر متعارض روایتوں میں سے ایک دلالت کے لحاظ سے زیادہ صریح اور واضح ہوگی ، تو ہم اسی کو اختیار کریں گے ، اور اس صورت میں دلالت کے اعتبار سے بھی دونوں روایتیں یکساں ہوں تو پھر تساقط کی نوبت آجائے گی اور دونوں روایتیں اعتبار سے گرجائیں گی ، گویا اصلاً کوئی روایت وارد ہی نہیں ہوئی ہے ۔ تعارض کے باب میں یہی فقہی مبنیٰ و اصول ہے ۔
․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․
(۱)۔ الافصاح،ص/۳۸
(۲)۔ مصنفات الشیخ المفید ،ج/۷ص/۱۲
(۳)۔ ینابیع المودة ،ج/۳ص/۴۵۶
(۴) ۔ بحار الانوار : ج/۵۲، ص/۳۵۳، حدیث ۱۰۹
(۵)۔ شیخ صدوق کے والد بزرگوار
(۶) ۔ بحار الانوار : ج/۵۲ ، ص/۳۵۳ ، ح/۱۱۳
(۷) ۔ الخرائج ، ج/۳، ص/۱۵۵۔ غیبة الطوسی ، ص/۴۵۹
(۸) ۔ شیخ طوسی ۔ الغیبة ص۴۵۹۔ الخرائج ، ج/۳، ص۱۱۵
(۹) ۔ بحار الانوار : ج/۵۲، ص/ ۳۵۳ ، ح/ ۱۱۲ ، طبع بیروت
(۱۰) ۔ آل عمران /۱۵۹
(۱۱) ۔ بحار الانوار : ج/۵۲ ، ص/۳۷۹، ح/۱۸۷
(۱۲) ۔ بحار الانوار : ج/۵۲ ، ص/۳۷۹، ح/۱۸۷
(۱۳) ۔ امین الدین ، امین الاسلام ابو علی فضل بن حسن بن فضل (۵۴۸ق) شیعہ فقیہ ، محدث ، مفسر اور لغوی ہیں ، آپ شیخ طبرسی کے نام سے مشہور ہیں ، نیز چھٹی صدی ہجری میں عظیم علماء شیعہ میں سے ہیں کہ آپ خود اور آپ کے بیٹے حسن بن فضل صاحب مکارم الاخلاق اور آپ کے پوتے علی بن حسن صاحب مشکاة الانوار یہ تمام حضرات علماء بزرگ میں سے ہیں ، روضات الجنات ، ج/۵ ، ص/۳۴۲ ؛ طبقات اعلام الشیعہ قرن ۶، ص۲۱۶ و ۲۱۷۔
(۱۴) ۔ بحار الانوار : ج/۴۷، ص/۵۴
(۱۵) ۔ ینابیع المودة : ص/۴۳۱ ، اثبات الھداة : ج/۲، ص/۵۲۴
(۱۶) ۔ احقاق الحق : ج۱۹، ص/۶۶۳
(۱۷) ۔ جامع احادیث الشیعة : ج/۱، ص / ۳۴
(۱۸) ۔ صدوق ، کمال الدین :ج۲، ص ۲۵۳۔ مجلسی ، بحار الانوار ، ج/۵۲، ص/ ۳۲۸
امام زمانہ (عج) کی سیرت وہی رسول خدا (ص) کی سیرت ہے
مذکورہ بالا بیانات کی بناپر حضرت امام زمانہ (عج) کی سیرت بالکل وہی حضرت رسول خدا (ص) کی سیرت و روش ہے ، یہاں تک کہ حضرت (عج) کے شمائل (شکل و صورت ) بھی رسول خدا (ص) کے نورانی شمائل کے مانند ہیں ، جیسا کہ شیعہ و سنی کی بہت سی روایتوں میں آیا ہے اور حتی عیسائی مورخین نے بھی لکھا ہے کہ حضرت رسول خدا (ص) کا چہرہ مبارک اس قدر جذاب اور دلکش تھا کہ حتی آنحضرت (ص) کے سخت سے سخت دشمنوں کی نظر بھی جس وقت آپ (ص) کے چہرہٴ منور پر پڑتی تھی تو آنحضرت (ص) کے جمال پُر نور کو دیکھ کر ایسا محو ہوجاتے تھے کہ اپنے تمام ہم و غم بھلا دیتے تھے ، حضرت امام زمانہ (عج) کا چہرہٴ پُر نور بھی ایسا ہی ہے ۔
تاریخ و روایات کے علاوہ سب سے زیادہ اہم سند جو حضرت رسول خدا (ص) کی سیرت و سنت کے متعلق ہمارے پاس ہے ، وہ قرآن کریم ہے ، جو نقشہ قرآن کریم حضرت رسول خدا (ص) کے چہرہٴ مبارک کا کھینچا ہے وہ اس طرح ہے :
” فبما رحمة من اللہ لنت لھم و لو کنت فظا غلیظ القلب لانفضوا من حولک “ (۱)
اے رسول ! رحمت الٰہی ( کی برکت ) سے آپ ان لوگوں پر نرم و مہربان ہیں اور اگر بدمزاج اور سخت دل ہوتے تو وہ سب آپ کے پاس سے بھاگ کھڑے ہوتے ۔
اور دوسر ی جگہ فرماتا ہے :
” لقد جائکم رسول من انفسکم ، عزیز علیہ ما عنتّم حریص علیکم بالموٴمنین رؤف رحیم “ (۲)
یقینا تمہارے پاس وہ رسول آیا ہے جو تم ہی میں سے ہے اور اس پر تمہاری ہر مصیبت شاق ہوتی ہے وہ تمہاری نجات اور ہدایت کے بارے میں حرص رکھتا ہے اور موٴمنین پر بہت ہی مہربان اور رحیم ہے ۔
حضرت رسول خدا (ص) کی شفقت و محبت لوگوں کی نسبت اس حد تک تھی کہ حتیٰ بہت سے لوگوں نے اسی مسئلہ کو آنحضرت (ص) کے آزار کا ایک وسیلہ و ذریعہ بنالیا تھا :
” و منھم الذین یوٴذون النبی و یقولون ھو اذن قل اذن خیر لکم یوٴمن باللہ و یوٴمن للموٴمنین و رحمة للّذین آمنوا منکم ․․․ “ (۳)
ان میں سے وہ بھی ہیں جو پیغمبر (ص) کو اذیت دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ وہ تو صرف کان ( خوش باور ، یعنی سب کی سن لیتے ) ہیں ، آپ کہہ دیجئے کہ تمہارے حق میں بہتری کے کان ہیں ( یعنی خوش باور ہونا تمہارے نفع میں ہے ) ، ( لیکن جان لو کہ ) وہ صرف خدا پر ایمان رکھتے ہیں اور مومنین کی تصدیق کرتے ہیں ( ان کی سن لیتے ہیں ) اور صاحبان ایمان کے لئے رحمت ہیں ، اور جو لوگ رسول خدا (ص) کو اذیت دیتے ہیں ان کے واسطے دردناک عذاب ہے ۔
اس آیت کریمہ کی تفسیر میں وارد ہوا ہے کہ ایک منافق ، حضرت رسول خدا (ص) کا مذاق اور استہزاء کر رہا تھا ، جبرئیل نازل ہوئے اور عرض کیا: یا رسول اللہ (ص) ! فلاں منافق کو بلایئے اور اس سے پوچھئے کہ کیوں ایسے کام کر رہا ہے ۔
یہ ایک استثنائی مورد تھا ، اس کے علاوہ آپ کوئی دوسرا موقع نہیں بتا سکتے کہ پیغمبر (ص) نے کسی کو اپنی شان میں مسخرہ و مذاق کرنے کے سبب طلب کیا ہو ، یہ مورد بھی مصلحت کی بناپر تھا اور پیغمبر (ص) کو حکم ملا تھا ۔
اس قضیہ میں پیغمبر (ص) نے اس شخص کو بلایا اور اس سے توضیح چاہی ، اس نے عرض کیا : ” یا رسول اللہ ! جس نے بھی یہ بات کہی ہے ، جھوٹ کہی ہے ، میں نے ایسا کام نہیں کیا ہے ، ” پیغمبر اسلام (ص) نے کچھ نہیں فرمایا اور خاموش ہوگئے ، یہ منافق بھی یہ سمجھا کہ رسول خدا (ص) نے اس کی بات کو باور کر لیا ہے ، حالانکہ یہ محال ہے کہ حضرت رسول خدا (ص) خداوند تعالیٰ اور جبرئیل امین کی بات کے بر خلاف اس منافق کی بات کو باور کریں ، لیکن پیغمبر (ص) نہیں چاہتے تھے کہ حتیٰ ایسے منافق شخص کے ساتھ بھی ترش روئی اختیار کریں ۔
یہ منافق لوگوں کے درمیان گیا اور کہنے لگا کہ یہ عجیب پیغمبر (ص) ہیں ، جبرئیل ان کے ایک کان میں کہتے ہیں کہ میں نے ان کا مسخرہ کیا ہے ، باور و یقین کرلیتے ہیں ، دوسرے کان میں ، میں کہتا ہوں کہ ایسا کام نہیں کیا ہے یہ بات بھی باور کرلیتے ہیں ۔
خداوند تعالیٰ نے ان بیہودہ گوئیوں اور بکواسوں کے جواب میں قرآن کریم میں فرمایا ہے کہ :
” قل اذن خیر لکم “ (۴) یہ تمھاری باتوں کو ( ظاہراً ) مان لینا اور خاموش ہوجانا خود تمہارے لئے بہتر ہے اور تمہارے فائدے میں ہے ۔
یہ حضرت رسول خدا (ص) کا فعل و عمل ہے اور حضرت امام مہدی (عج) حضرت رسول خدا (ص) سے سب سے زیادہ مشابہ ہیں ۔
پیغمبر اسلام (ص) ” فبما رحمة من اللہ لنت لھم “ (۵) کے مصداق کامل ہیں ۔ لہٰذا حضرت امام مہدی (عج) بھی انہیں صفات کے مالک ہوں گے ، حضرت کافروں کے ساتھ نرم سلوک اختیار کریں گے تو پھر مسلمانوں کی بات تو الگ ہے ۔
اصولاً حضرت امام مہدی (عج) عدل و انصاف برپا کرنے کے لئے ظہور فرمائیں گے ، اور عدالت انسانوں کی ایک فطری اور طبیعی خواہش ہے ، اس بناپر یہ ممکن نہیں ہے کہ حضرت (عج) ایسی روش اپنائیں کہ لوگ آرزو کریں کہ کاش ان کو نہ دیکھتے ، یا ان سختیوں کے سبب جو انجام دیں گے ، لوگ کہیں کہ وہ آل محمد (ص) سے نہیں ہیں اور وہ اہل بیت پیغمبر علیہم السلام سے ربط نہیں رکھتے ۔ اور اسی طرح جب حضرت علی علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں : ” محال ہے کہ میں ظلم کے راستے سے چاہوں کہ کامیابی حاصل کروں اور ظلم کے وسیلہ سے طلب نصرت کروں “ ۔ (۶) ، تو یقیناً حضرت امام مہدی (عج) بھی اسی سیرت و روش کی پیروی کریں گے ، اور یہ ممکن نہیں ہے کہ ظلم و ستم کے ذریعہ لوگوں پر حکومت حاصل کریں ۔
حضرت امام مہدی (عج) کی قضاوتی سیرت
ایک دوسرا مسئلہ جو حضرت امام زمانہ (عج) کے متعلق بیان کیا جاتا ہے ، وہ حضرت کی قضاوت اور فیصلہ کرنے کی کیفیت ہے۔
بعض افراد معتقد ہیں کہ حضرت امام زمانہ (عج) کی خصوصیات میں سے ایک خصوصیت یہ ہے کہ حضرت (عج) قضاوت کے موقع پر طرفین دعویٰ سے شاہد و بینہ ( گواہ و دلیل ) کے بغیر صرف اپنے ( غیبی ) علم کے ذریعہ حکم صادر فرمائیں گے۔
یہ افراد اپنے مدعا کے لئے کچھ دلیلیں بھی پیش کرتے ہیں منجملہ ان دلیلوں کے وہ احادیث ہیں جو اس سلسلہ میں پائی جاتی ہیں اور ان کا مدلول یہ ہے کہ امام مہدی (عج) اپنے علم کے مطابق اور حضرت داود علیہ السلام کے مانند جھگڑوں کو حل اور اختلاف کو دور فرمائیں گے۔
ان روایتوں کا ایک نمونہ مندرجہ ذیل ہیں :
عبد اللہ بن عجلان نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ امام نے فرمایا: ” اذا قام آل محمد علیھم السلام حکم بین الناس بحکم داود لا یحتاج الیٰ بینةٍ یلھمہ اللہ فیحکم بعلمہ “ ۷)
جس وقت قائم آل محمد علیہم السلام قیام فرمائیں گے ، تو حضرت داود نبی علیہ السلام کے مانند لوگوں کے درمیان قضاوت و فیصلہ کریں گے ، اور وہ دلیل و برہان کے محتاج نہ ہوں گے ، خدا ان کو حقیقت کا الہام کرے گا اور وہ اپنے علم کے اعتبار سے حکم دیں گے ۔
اس روایت کے مطابق جو تفسیر نور الثقلین میں مذکور ہے :
اولاً : فقط ایک مرتبہ حضرت داود علیہ السلام نے قضاوت کے موقع پر اپنے علم کے مطابق عمل کیا کہ وہ بھی مشکل سے دوچار ہوگئے اور اس کے بعد ہمیشہ حکم خدا سے طرفین سے گواہ و دلیل مانگتے تھے اور دلیل و قسم ہی کی بنیاد پر حکم صادر فرماتے تھے ۔
دوسرے: یہ روش حضرت رسول خدا (ص) کی قضاوتی روش سے منافات رکھتی ہے ، اس لئے کہ حضرت رسول خدا (ص) ہمیشہ فرماتے تھے کہ :
” انما اقضیٰ بینکم بالبینات و الایمان “ میں فقط شواہد و گواہی اور قسم کی بنیاد پر تمہارے درمیان فیصلہ کرتا ہوں ، اس بناپر اگر کسی موقع پر میں نے حکم صادر کیا کہ مثلاً فلاں زمین فلاں شخص کی ہے ، لیکن واقع میں ایسا نہ ہو تو وہ اس میں حق تصرف نہیں رکھتا اور میرا حکم اس کو زمین کا مالک نہیں بنائے گا ۔
اس بناپر اس بات کے پیش نظر کہ حضرت امام مہدی (عج) حضرت رسول خدا (ص) سے سب سے زیادہ مشابہ ہیں اور حضرت (عج) کا ظہور آنحضرت (ص) کی شریعت و سنت کے اجراء اور احیاء کے لئے ہے ، یہ بات قابل قبول نہیں ہے کہ حضرت رسول خدا (ص) کی روش کے علاوہ کوئی اور روش اختیار کریں گے اور دلیل و شاہد کی طلب کے بغیر لوگوں کے درمیان قضاوت و فیصلہ فرمائیں گے۔
حضرت امام مہدی (عج) کی اجرائی سیرتیں
حضرت امام مہدی (عج) کی اجرائی سیرتوں میں سے ایک سیرت یہ ہے کہ حضرت جتنا لوگوں اور مسکینوں کی نسبت رحیم و مہربان ہیں ، اتنا ہی اپنے حکومتی عہدہ داروں اور کارندوں پر حد سے زیادہ سخت اور حساس ہیں :
” المہدی جواد بالمال ، رحیم بالمساکین ، شدید علی العمّال “ مہدی (عج) حکومت کے عاملوں ، کارگزاروں پر بہت زیادہ سخت گیر ہوں گے ۔ حضرت علی علیہ السلام ایک حدیث میں اس کے متعلق ارشاد فرماتے ہیں :
” الاوفی غد و سیاٴتی غد بما لا تعرفون ، یاٴخذ الوالی من غیرہا عمّا لہا علی مساوی اعمالہا ․․․ “ (۸)
” ․․․آگاہ ہو جاوٴ کہ کل کے دن جب کہ وہ (مہدی ) ظہور فرمائے گا ، وہ کل ( آئندہ ) جس سے تم نا واقف ہو دوسرے حاکموں کے بر خلاف اپنے عاملوں اور کارندوں کو ان کے برے کردار اور جرم کی سزا دے گا ان کی بد اعمالیوں کی نسبت مواخذہ کرے گا “ ۔
البتہ حضرت (عج) خود سب سے پہلے اور سب سے زیادہ اپنے اوپر سختی اختیار کریں گے اور اس بات کے بر خلاف کہ تمام لوگ حضرت کی حکومت کے زیر سایہ رفاہ و آرام میں رہیں گے ، اپنے جد امیر الموٴمنین علیہ السلام کے مانند درشت اور خشن پوشاک اور غیر لذیذ کھانے پر اکتفا فرمائیں گے :
” فو اللہ ما لباسہ الا الغلیظ و لا طعامہ الا الجشب “ (۹) قسم بخدا مہدی (عج) کا لباس درشت اور کھانا سوکھا اور بغیر سالن کے ہوگا۔
میں امید رکھتا ہوں کہ خود حضرت ولی عصر (عج) کی برکت سے خداوند عالم ہم سب کی عمر کو حضرت کے ظہور سے متصل فرمادے گا ، ان شاء اللہ ۔ اس بات کی ذکر ضروری ہے کہ حضرت آیة اللہ العظمیٰ سید صادق شیرازی دام ظلہ العالی نے یہ موضوع ” حضرت امام مہدی (عج) کی حکومتی سیرت “ کو حوزہٴ علمیہٴ قم المقدسہ کے علماء و طلاب محترم کے مجمع کے درمیان چند جلسوں اور نشستوں میں مفصل طور پر علمی تنقید و تحقیق کے ساتھ بیان فرمایا ہے ، اور دسیوں روایتوں سے زیادہ پر چار موضوع (۱۰) کے تحت مفصل طور پر مختلف جہتوں کے ساتھ حجیت روایات کی بحث کی ، جیسے سندی و دلالی جہات ( علم حدیث ، رجال ، درایة ) پر محققانہ تقریر فرمائی ہے۔ لیکن اختصار کے پیش نظر چونکہ افسوس ہے کہ معظم لہ کی تقریروں کو تفصیلاً ٹیپ نہ کرسکے لہٰذا اسی مختصر مقدار پر ہم نے اکتفا کیا ۔ (ناشر)
․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․
(۱) ۔ آل عمران /۵۹
(۲) ۔ توبہ / ۱۲۸
(۳) ۔ توبہ /۶۱
(۴) ۔ توبہ /۶۱
(۵) ۔ آل عمران / ۱۵۹
(۶) ۔ نہج البلاغہ
(۷) ۔ کلینی ، اصول کافی :ج/۱ ، ص/۳۹۷۔ بصائر الدرجات : ج۵، ص۲۵۹
(۸) ۔ نہج البلاغہ : خطبہ ۱۳۸
(۹) ۔ نعمانی ، الغیبة ص/ ۲۳۳ ۔ بحار الانوار : ج/۵۲ ، ص/ ۳۵۴
(۱۰) ۔ وہ چار موضوع یہ ہیں : ۱۔ حضرت امام مہدی (عج) کا ظہور اور تشکیل حکومت کی کیفیت ( اعم از روایات صحیح و غیر صحیح ) ۲۔ حکومت کرنے کی روش ۳۔ حضرت (عج) کے عامل اور کارندے ۴۔ حضرت کی قضاوتی سیرت و روش۔
حضرت امام زمانہ (عج) کا خط شیخ مفید کے نام
جیسا کہ احتجاج میں مرحوم طبرسی نے نقل کیا ہے کہ ماہ صفر ۴۱۰ ھ ق میں شیخ مفید ایک خط امام زمانہ (عج) کی جانب سے دریافت کرتے ہیں کہ جس کا ایک حصہ یہ ہے :
” و انا غیر مہملین لمراعاتکم و لا ناسین لذکرکم و لولا ذالک لنزل بکم البلاء “ (۱) ہم تمھاری رعایت و مراعات کی نسبت بے توجہ نہیں ہیں اور نہ تمہارے ذکر کو بھلانے والے ہیں اور اگر ایسا نہ ہوتا تو تم پر بلاء نازل ہوجاتی ۔
” مراعات “ مصدر میمی ہے بمعنائے رعایت ، اور یہاں پر ” مراعاتکم “ یعنی ” رعایتکم “ مراد ہے ۔ حضرت امام زمانہ (عج) شیخ مفید (۲) کے نام اپنے اس خط میں تحریر فرماتے ہیں کہ :
” ہم تمھاری نسبت اہمال ( بے توجہی ) نہیں کرتے “ معلوم ہونا چاہئے کہ اہمال اور ترک کے درمیان فرق ہے ، ترک کا معنیٰ اہمال سے اعم ہے ، امام (عج) نے فرمایا ہے کہ : ” اہمال نہیں کرتے “ یعنی اگر ہم نے رعایت نہ کی تو اہمال ( بے توجہی ) ہماری طرف سے نہیں ہے بلکہ خود تمہاری جانب سے ہے ۔
دوسرے جملے میں : ” و لا ناسین لذکرکم “ نسیان ( بھلانے ) کی عام و مطلق کی صورت میں نفی کر رہے ہیں ، اس معنیٰ میں کہ ہمیشہ اور ہر جگہ ہم تمھیں یاد رکھتے ہیں کہ اگر ایسا نہ ہوتا تو تم پر بلا نازل ہوجاتی ۔
حضرت امام زمانہ (عج) ہمارے زندہ امام ہیں اور دوسرے ائمہ (ع) اس دنیا سے شہید ہوکر جاچکے ہیں ، اگر چہ شیعوں کا اعتقاد ہے کہ امام معصوم کا حاضر و غائب ہونا اور زندہ و مردہ ہونا کوئی فرق نہیں رکھتا ، لہٰذا ہم زیارت ناموں میں پڑھتے ہیں :
” اشہد انک تشہد مقامی و تسمع کلامی و ترد سلامی “ یعنی میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ مجھے دیکھ رہے ہیں اور میرا کلام سن رہے ہیں اور میرے سلام کا جواب دے رہے ہیں ، یہ مسئلہ قطعی و یقینی ہے اور اس میں کوئی شک و شبہہ نہیں ہے ، لیکن آج شیعہ حضرت امام زمانہ (عج) سے منسوب ہیں اور زمام امور آپ کے ہاتھوں میں ہے ۔
البتہ حضرت امام زمانہ (عج) تمام ہستی و وجود ” ما سوی اللہ “ کے امام ہیں ، یہ مباحث اصول دین کے مباحث میں سے ہیں کہ اپنی جگہ پر ان سے متعلق تفصیل کے ساتھ بحثیں کی گئی ہیں اور ان کی دلیلیں تحقیق کے ساتھ بیان کی گئی ہیں ۔
معصوم علیہ السلام فرماتے ہیں کہ:
” ہلّلنا فھلّت الملائکة ، سبحنا فسبّحت الملائکة ، کنّا معلّقین بالعرش نسبّح و لم یخلق اللہ شیئاً غیرنا “ ۔ (۳)
جس وقت خدا نے مخلوقات میں سے کسی کو خلق نہیں کیا تھا ہم خدا کی تہلیل و تسبیح کرتے تھے۔
مرحوم علامہ مجلسی نے اس موضوع سے متعلق روایتوں کو بخوبی جمع کیا ہے اور ان کو اصول دین اور اسی طرح احوال معصومین علیہم السلام کے ابواب میں ذکر کیا ہے۔
شیخ مفید کا مرتبہ
حضرت امام زمانہ (عج) نے غیبت صغریٰ کے زمانے میں اسی طرح غیبت کبریٰ میں بھی بہت سے خطوط و توقیعات شیعوں اور بزرگان شیعہ کے لئے تحریر فرمائی ہیں ، اسی طرح حضرت (عج) اپنے نمائندوں کو خطوط تحریر فرماتے تھے ، اور کبھی کبھی بعض افراد کو جواب لکھتے تھے ، البتہ افسوس ہے کہ ان خطوط و توقیعات میں سے کچھ ہی ہمارے ہاتھوں تک پہونچی ہیں ، لیکن جو عبارتیں شیخ مفید کے متعلق اس خط میں آئی ہیں وہ کسی دوسرے کے متعلق نہیں آئی ہیں شاید ان تمام خطوط میں جو حضرت نے تحریر فرمائے ہیں کسی کی اس حد تک تعریف و تائید نہیں فرمائی ہے ۔ جیسا کہ ایک دوسرے خط میں جو کہ حضرت (عج) کی جانب سے شیخ مفید کو پہونچا ہے ، تحریر فرمایا ہے کہ :
” ادام اللہ توفیقک لنصرة الحق و اجزل مثوبتک علیٰ نطقک عنا بالصدق “ (۴) اس خط کا لفظ لفظ مفصل بحث کا طالب ہے ، حضرت امام زمانہ (عج) نے شیخ مفید کے علاوہ کسی اور کے لئے اس انداز سے اخلاص کی شہادت نہیں دی ہے ، حضرت شیخ مفید سے فرماتے ہیں کہ : ” اللہ نصرت حق کے لئے تمہاری توفیق کو قائم و دائم رکھے ، اور جو کچھ ہم سے روایت کی ہے سچ کہا ہے ، خداوند تعالیٰ تمہاری باتوں کے سبب تمہارے ثواب کو زیادہ کرے “ ۔
ایک وقت ایک عام شخص کسی دوسرے کے صالح و نیک ہونے کی گواہی دیتا ہے ، اور ایک وقت امام معصوم ایسی گواہی دیتے ہیں اس بات کی قیمت و عظمت تمام دنیا کی قیمت و عظمت سے زیادہ ہے ، کیونکہ دنیا تمام ہوجائے گی لیکن یہ قیمت و عظمت تمام ہونے والی نہیں ہے ۔ شیخ مفید کے انتقال کو ہزار سال سے زیادہ ہوگئے لیکن روز بروز پہلے سے زیادہ زندہ ہوتے جارہے ہیں ۔ آپ علامہ اقبال کے اس شعر کے مصداق کامل تھے :
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
اس مرتبہ و منزلت کے باوجود کوئی جگہ ایسی نہیں ملتی کہ شیخ مفید حضرت امام زمانہ (عج) کی خدمت با برکت میں پہونچے ہوں لیکن اپنے وظائف کو اسی طرح انجام دیتے تھے جیسا کہ امام چاہتے تھے اور اسی وجہ سے حضرت (عج) ان پر عنایت فرماتے تھے۔
شیخ مفید غیبت صغریٰ کے ختم ہونے کے بعد غیبت کبریٰ کے زمانہ میں پیدا ہوئے ہیں ، غیبت صغریٰ ۳۲۷ ھ ق یا ۳۲۹ ھ ق میں ختم ہوئی اور شیخ مفید ۳۳۶ ھ ق یا ۳۳۷ ھ ق میں پیدا ہوئے ہیں ، اور کسی وقت کوئی خط بھی حضرت امام زمانہ (عج) کو نہیں لکھا ہے بلکہ خود حضرت (عج) نے ایسا خط تحریر فرمایا ہے ، اور وہ بھی اس تفصیل کے ساتھ ایسا خط ، کہ جس سے یہ نتیجہ سمجھ میں آتا ہے کہ حضرت امام زمانہ (عج) شیخ مفید سے کلام و گفتگو کرنا چاہتے ہیں جیسا کہ کتابوں میں نقل ہوا ہے اس کی بناپر حضرت (عج) نے تین خطوط شیخ مفید کو تحریر فرمائے ہیں کہ ان میں سے دو خط دستیاب ہیں ، اور گویا تیسرا خط ظاہرا کتب خانوں کے جلانے کے واقعہ میں ناپدید ہوگیا ہے۔
شیخ مفید کون ہیں ؟
شیخ مفید ایک عام جوان تھے کہ آپ کے والد بزرگوار تل عکبری میں ( جو کہ بغداد سے دس فرسخ کے فاصلہ پر واقع ہے ) درس دیتے ، اور اسی وجہ سے آپ کو لوگ ” ابن المعلم “ کہتے تھے ، اس کے بعد آپ کے والد آپ کو بغداد درس حاصل کرنے کے لئے لے آئے ، دھیرے دھیرے اس مرتبہ تک پہونچ گئے کہ آپ کی وفات کے دن با وجود یکہ اہل بغداد کی اکثریت شیعہ نہ تھی آپ کی تشییع جنازہ نہایت شان و شوکت کے ساتھ ہوئی اور مورخین کے نقل کرنے کی بناپر آپ کی تشییع جنازہ تاریخ میں اس زمانہ تک بے نظیر و بے مثال تھی ۔ شیخ مفید کا مرتبہ اتنا رفیع و بلند ہے کہ حتیٰ آپ کے ناصبی دشمن بھی آپ کی تحسین و تعریف کرتے تھے اور اہل سنت کے بزرگ علماء آپ کی مجلس درس میں حاضر ہوتے تھے ۔ یافعی (۵) صاحب کتاب ” ابواب الجنان “ (۶) کہ جس میں بہت سارے جھوٹ نقل کئے ہیں لکھتا ہے کہ :
شیعہ کربلا کو ” حائر “ بھی کہتے ہیں اس لئے کہ جس وقت حضرت سید الشہدا علیہ السلام کی قبر تک پانی لایا گیا تا کہ اسے مٹادیں ، تو پانی حضرت سید الشہداء علیہ السلام کی قبر مطہر کے نزدیک تک بڑھا ، لیکن جب مرقد شریف کے قریب پہونچا تو پھر آگے نہ بڑھا اور اپنا راستہ بدل دیا ، اسی وجہ سے کہتے ہیں :
” حار الماء “ یعنی پانی حضرت سید الشہداء علیہ السلام کے حرم مطہر کے مقابل متحیر ہوگیا اور آگے نہ بڑھا “ ۔
یافعی اپنی کتاب میں اس واقعہ کو نقل کرنے کے بعد شیعوں کا مذاق اڑاتا ہے اور کہتا ہے کہ کیا پانی بھی انسانوں کے مانند تکلیف رکھتا ہے ، یا یہ کہ فرشتہ ہے جو درک و فہم رکھتا ہو ؟ لیکن یہی یافعی جب احمد بن حنبل (۷) کی بات کرتا ہے تو کہتا ہے :
” ایک دو سال دریائے دجلہ میں سیلاب آگیا اور تمام گھروں میں پانی پہونچ گیا ، لیکن جیسے ہی پانی احمد بن حنبل کی قبر تک پہونچا واپس آگیا اور قبر کے نزدیک نہ گیا اور بعد میں لوگوں نے دکھا کہ جو چٹائی اس کی قبر میں ہے ابھی گرد و خاک اس پر موجود ہے اور تر بھی نہ ہوئی ہے “ ۔ یہی پانی جب حضرت امام حسین علیہ السلام تک پہونچتا ہے تو بے عقل ہے ، لیکن احمد بن حنبل کے لئے عاقل ہوجاتا ہے ۔ یافعی شیعوں کے ساتھ اتنی شماتت و دشمنی رکھنے کے باوجود شیخ مفید کی تعریف کرتا ہے ۔
شیخ مفید کی رحلت کے بعد سنی علماء کے ایک گروہ نے کہا : ” اٴراحنا اللہ منہ “ یعنی خدا نے ہم کو ان سے راحت دی ۔ اور یہاں تک کہ ایک سنی نے شیخ مفید کی وفات کی مناسبت سے اپنے گھر کے در و دیوار کو سجایا اور جشن منایا ۔ لیکن بہر حال سنیوں نے بھی قدر دانی کی ہے ۔
حضرت امام زمانہ (عج) کی نظر میں شیخ مفید کا مرتبہ
شیخ مفید کا مرتبہ و منزلت اس حد تک بلند ہے کہ حضرت ولی عصر (عج) آپ کی وفات پر مرثیہ پڑھتے ہیں :
لا صوت الناعی بفقدک انہ
یوم علیٰ آل الرسول عظیم (۸)
یعنی تمہاری وفات کی مصیبت آل رسول (ص) کے لئے بہت بڑی مصیبت ہے ۔
آپ کے لئے اس سے بڑھ کر فخر کی بات کیا ہوسکتی ہے کہ حضرت امام مہدی (عج) آپ کو خطاب کرکے فرماتے ہیں :
” سلام علیک ایہا العبد الصالح الناصر للحق الداعی بکلمة الصدق “ سلام ہو تم پر اے خدا کے نیک بندے ، حق کی مدد کرنے والے اور راہ راست کی طرف دعوت دینے والے۔
شیخ مفید کا نمونہ
یہ جملے امام معصوم کی طرف سے ایک غیر معصوم شخص کے لئے بہت اہم ہیں ، شیخ مفید کیا کام کرتے تھے کہ حضرت امام زمانہ (عج) کی طرف سے ان جملون کے ساتھ توصیف کے لائق ہوگئے ؟ ۔ امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام اس خطبہ میں کہ جس کا ایک حصہ حضرت رسول اکرم (ص) کی تعریف و توصیف میں ہے ، اس بات کے بیان میں کہ حضرت رسول خدا (ص) کے آخری زمانہ حیات میں حالات کیسے پیدا ہوگئے کہ لوگ فوج در فوج دین اسلام میں داخل ہوگئے اور بقول قرآن ” و راٴیت الناس یدخلون فی دین اللہ افواجاً “ (۹) آپ نے دیکھا کہ لوگ دین خدا میں فوج در فوج داخل ہورہے ہیں ، ارشاد فرماتے ہیں :
” وثقوا بالقائد فاتّبعوہ “ یعنی لوگوں نے پیغمبر اسلام (ص) پر اعتماد و اطمینان پیدا کرلیا پس ان کی پیروی کی ۔
شیخ مفید نے اس نکتہ کو درک کیا تھا اور ایسا کام کیا کہ لوگ ان پر اعتماد و اطمینان پیدا کریں ، جو لوگ ، لوگوں کی ہدایت کرنا چاہتے ہیں انہیں اس نکتہ سے غافل نہ ہونا چاہئے اور دوسروں کے لئے قابل اعتماد و اطمینان ہونا چاہئے ۔
شیخ مفید اور امام زمانہ (عج) کا خط دریافت کرنا
سید بحر العلوم (۱۰) اس بحث کے ضمن میں کہ شیخ مفید نے حضرت امام زمانہ (عج) کو نہیں دیکھا تھا اور اس زمانے میں کوئی نائب بھی نہ تھا کہ یہ خط اس کے واسطے سے شیخ مفید کے ہاتھ میں پہونچے پس یہ خط کیسے شیخ مفید کے ہاتھ میں پہونچا ہے ؟ کہتے ہیں :
” چونکہ خط دریافت کرنے کا زمانہ غیبت کبریٰ کا زمانہ تھا ، اور طے نہیں تھا کہ اس زمانہ میں کوئی شخص واسطہ اور خاص نائب کے عنوان سے حضرت امام زمانہ (عج) کی خدمت میں پہونچے اور جس شخص نے خط شیخ مفید کو دیا ہے اس نے بھی نہیں کہا کہ امام زمانہ (عج) نے یہ خط مجھے دیا ہے ، ان تمام اوضاع و احوال کے ساتھ شیخ مفید کا مرتبہ باعث ہوا کہ یہ استثناء ( فضیلت ) انہیں کے بارے میں صورت پذیر ہو “ ۔
خلاصہ یہ کہ شیخ مفید امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام کے ارشاد کے بموجب حضرت رسول اکرم (ص) کے وصف کے حامل تھے ، وہ یہ کہ ” آپ سچے اور امین و معتمد تھے “
ایک سنی عالم جو کہ شیخ مفید سے بہت خار رکھتا تھا ، کہتا ہے کہ:
با وجودیکہ شیخ مفید کا مرتبہ اتنا بلند تھا کہ بادشاہ ، تاجر افراد اور مختلف شخصیتیں ان کے سامنے تواضع کرتی تھیں اور ان کے دیدار کی کوشش کرتی تھیں ، پھر بھی ” کان یلبس الخشن “ شیخ مفید ہمیشہ خشن اور موٹے لباس زیب تن کرتے تھے ۔ مشہور ہے کہ جملہٴ فعلیہ استمرار میں ظہور رکھتا ہے یعنی ایسا نہیں ہے کہ ایک بار یا دوبار دکھاوے کے طور پر موٹے لباس پہن لیں ، بلکہ وہ ہمیشہ ایسا ہی پہنتے تھے ۔
امیر المومنین حضرت علی (ع) شیخ مفید کے مقتدیٰ
جی ہاں ! شیخ مفید اس صفت کے مالک تھے کہ لوگوں کے اعتماد کو اپنے اعمال و اخلاق سے متاٴثر کرلیں ، یہاں تک کہ دوست و دشمن سبھی آپ کی تعریف و تحسین کرتے تھے ، یہ فضیلت آپ کو معصومین علیہم السلام کی اقتدا سے حاصل ہوئی تھی ۔
امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں :
” و اللہ ما کذبت کذبة “ (۱۱) قسم بخدا میں نے ایک جھوٹ بھی نہیں بولا ہے ۔ اور یہ دعویٰ تاریخ کی گواہی سے ثابت ہے ، کیونکہ کبھی کسی جگہ کوئی جھوٹ حضرت علی علیہ السلام سے نہیں سنا گیا ، حتیٰ اس موقع پر بھی کہ ایک چھوٹے سے جھوٹ کے ذریعہ تیرہ سال پہلے ہی روئے زمین کی سب سے بڑی حکومت پر حکمرانی کرتے ، کیونکہ عمر نے اپنے بعد خلیفہ کی تعیین کے لئے چھ افراد کی شوریٰ ( کمیٹی ) بنائی تھی ، عثمان اور امیر الموٴمنین حضرت علی علیہ السلام بھی ان کے درمیان تھے ، اور اس نے وصیت کی کہ میرے بعد ان چھ افراد کے درمیان سے ایک خلیفہ ہو ، اور اگر دو شخص برابر ووٹ حاصل کریں تو خلیفہ وہ شخص ہوگا جس کو عبد الرحمان بن عوف ووٹ دے ، سب کے ووٹ دینے کے بعد عبد الرحمان باقی رہا ، کہ ان میں سے جس کو بھی رای اور ووٹ دیتا وہ خلیفہ ہوجاتا ۔ عبد الرحمان بن عوف نے امیر المومنین علیہ السلام سے عرض کیا:
” اٴبایعک علیٰ کتاب اللہ و سنة رسولہ و سیرة الشیخین “ میں تم سے بیعت کروں گا کتاب خدا و سنت رسول (ص) اور شیخین ( ابوبکر و عمر ) کی سیرت پر ۔ حضرت امیر المومنین علی علیہ السلام نے فرما یا : ” کتاب اللہ و سنة رسولہ “ کتاب خدا اور سنت رسول (ص) قبول ہے ، لیکن سیرت شیخین قبول نہیں کرتا ، کیونکہ میں خود مجتہد ہوں اور اپنی رائے پر عمل کروں گا ۔
پھر عبد الرحمان بن عوف نے یہی بات عثمان سے کہی ، اور اس نے سیرت شیخین کو قبول کرلیا اور خلیفہ بن بیٹھا ، البتہ بعد میں اس نے کسی ایک پر بھی عمل نہ کیا اور مسلمانوں کے ہاتھوں ماراگیا ۔
امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام اس حد تک تیار نہ ہوئے کہ ایک لفظ بھی اپنے عقیدہ کے برخلاف اور جھوٹ زبان پر لائیں اور اسی کام نے حضرت (ع) کو تیرہ سال پھر خلافت سے دور کردیا ، بہت سے لوگوں نے حضرت (ع) سے عرض کیا کہ ٹھیک ہے کہ آپ سیرت شیخین کو قبول نہ کرتے اور اس پر عمل نہ کرتے لیکن اس وقت قبول کرلینا چاہئے تھا ۔ لیکن علی علیہ السلام وہ شخص نہیں ہیں کہ اتنا سا بھی حقیقت سے فاصلہ اختیار کریں ۔
حضرت امام زمانہ (عج) کی امید شیعوں سے
بہت سے شیعہ یہ سوچتے ہیں کہ امام زمانہ (عج) کی خدمت میں کیسے پہنچا جاسکتا ہے اور کیسے حضرت سے ملاقات کی جاسکتی ہے ، حضرت امام زمانہ (عج) سے ملاقات ایک خاص مسئلہ ہے اور اس سے متعلق کتابوں میں ان افراد کے واقعات ذکر ہوئے ہیں جنہوں نے حضرت سے ملاقات کی ہے ، حضرت امام زمانہ (عج) سے ملاقات کرنے والوں میں عالم و عوام ، بوڑھے اور جوان ، مرد و عورت سبھی دکھائی دیتے ہیں ، لیکن آیا امام زمانہ (عج) نے شیعوں سے یہ چاہا ہے کہ غیبت کے زمانہ میں یہ کوشش کریں ؟ یا نہیں ، بلکہ وظیفہ کوئی دوسری چیز ہے ؟ اور آیا ہم اس سے زیادہ اہم وظیفہ نہیں رکھتے ․․․ ؟
جیسا کہ ذکر کیا گیا کہ حضرت امام زمانہ (عج) سے تقرب کاسب سے زیادہ اہم وسیلہ خود اپنے وظیفہ انجام دینا ہے ، وہی چیز کہ جس کے لئے خداوند تعالیٰ نے حضرت کو امامت کو مرتبہ عطا فرمایا ہے ، وہی چیز کہ جس کے لئے حضرت رسول خدا (ص) تشریف لائے ہیں ۔
شیخ مفید کا وظیفہ انجام دینا
مرحوم آیت اللہ نجفی مرعشی رحمة اللہ علیہ جو کہ ایک محقق عالم تھے ، فرماتے تھے کہ:
” شیخ مفید نے خود کو مباحثہ و مناظرہ کے لئے وقف کر رکھا تھا اور مختلف مناظرے دوسرے تمام ادیان و مذاہب کے علماء سے انجام دیتے تھے ، یہاں تک کہ ایک بار ایک گروہ مناظرہ کے لئے آیا اور شیخ مفید سے وقت مانگا ، شیخ مفید نے فرمایا : ” میرے پاس وقت نہیں ہے “ ۔ ان لوگوں نے کہا: اے شیخ ! ہم بڑی دور سے آئے ہیں اور واپس جانا چاہتے ہیں ، شیخ مفید نے تھوڑاسا سوچ کر کہا : ” میرے پاس صرف صبح کی اذان سے پہلے دوگھنٹے وقت ہے اور اس وقت جتنے دن بھی چاہو آسکتے ہو ، ان لوگوں نے بھی کہا کہ کوئی چارہ نہیں ہے ، دن میں سوئیں گے اور رات میں مناظرے کے لئے آئیں گے ۔
کیا شیخ مفید سوتے نہ تھے ؟
آپ کے حالات میں لکھا ہے کہ آپ کی مجلس درس میں ابو العلاء معرّی ( جو کہ اہل سنت کے علماء میں سے ہے ) سے لیکر صوفیوں تک شرکت کرتے تھے آپ اس قدر حضور ذہن اور حاضر جوابی کے مالک تھے کہ خاص و عام کے لئے ضرب المثل تھے ، کسی وقت جلسہٴ درس میں کتاب سے شاہد و دلیل نہ لاتے تھے اور کبھی کبھی جو لغوی استدلالات آپ سے نقل ہوئے ہیں کسی لغوی کتاب میں پائے نہیں جاتے ۔ خلاصہ یہ کہ اپنی عمر اہل بیت (ع) کے نقش قدم پر گزاری اور آیہ ” یہدون باٴمرنا “ (۱۲) یعنی ” وہ لوگ ہماری طرف ہدایت کرتے ہیں “ کا نمونہ عمل تھے ، اور ائمہ علیہم السلام کی تمام روایتیں بھی اسی محور ” یھدون “ ( ہدایت بسوئے حق ) کے اردگرد گھومتی ہیں ۔
عالم کی فضیلت عابد پر
ایک روایت معاویہ بن عمار سے نقل ہوئی ہے کہ :
” قلت لاٴبی عبد اللہ علیہ السلام رجل راویة لحدیثکم یبث ذالک فی الناس و یشدہ فی قلوبھم و قلوب شیعتکم و لعلّ عابداً من شیعتکم لیست لہ ہٰذہ الراویة اٴیھا افضل قال الرّاویة لحدیثنا یشدّ بہ قلوب شیعتنا افضل من اٴلف عابد “ (۱۳) راوی نے امام علیہ السلام سے عرض کیا :
” آیا جو عابد حضرات اہل بیت علیہم السلام سے روایت نہیں کرتا ( آپ حضرات کی روایتیں نقل کرنے کے ذریعہ لوگوں کی ہدایت نہیں کرتا ) وہ افضل و برتر ہے یا جو آپ حضرات کی روایات کو نقل کرتا ہے اور اس کے ذریعہ آپ کے شیعوں کے قلوب و عقائد کو محکم و مضبوط کرتا ہے ؟ حضرت نے فرمایا کہ ہماری احادیث کا راوی ہزار عابد سے افضل و برتر ہے “ ۔
یہ روایت معاویہ بن عمار سے نقل ہوئی ہے جو کہ زرارہ اور محمد بن مسلم کے مانند اصحاب ائمہ علیہم السلام کے بزرگوں میں سے اوثقات میں سے ہیں ۔
حضرت امام زمانہ (عج) شیعوں سے چاہتے ہیں کہ لوگوں کی ہدایت کے لئے کوشش کریں ، البتہ اس کام کے چند مقدمات ہیں جن میں سے ایک حسن معاشرت ( سماج کے ساتھ اچھا برتاوٴ ) اور زیادہ علم کا ہونا ہے ۔ اور پختہ ارادہ رکھیں کہ دوست و دشمن کے ساتھ نرمی و مداوا کریں ۔
ان خطوط میں کئی مرتبہ حضرت امام زمانہ (عج) نے لفظ ” صدق “ ( سچ ) شیخ مفید کو خطاب کرکے استعمال کیا ہے ، وہ ایک ایسا لفظ ہے کہ ہم جیسوں پر صادق آنے کے لئے کئی سال گزر جاتے ہیں ۔
اگر ” میں “ یعنی غرور ختم ہوگیا اور ملاک و معیار ” یہدون باٴمرنا “ ( ہمارے حکم سے ہدایت کرتے ہیں ) رہا تو پھر خشن اور غیر خشن لباس ، لذیذ اور سادہ غذا انسان کے لئے کوئی فرق نہیں رکھتا ، واقعاً شیخ مفید ہونا بہت مشکل ہے۔
شیخ مفید یہ سوچتے تھے کہ حضرت امام زمانہ (عج) ان سے کیا چاہتے ہیں اور اس کو انجام دیا۔
آج علماء پر وثوق و اعتماد حاصل نہ ہونے کے سبب بہت سے یہودی اور عیسائی ہیں ، یا یہ کہ شیعہ ہیں لیکن غفلت میں زندگی بسر کر رہے ہیں ۔
عالم اگر ثقہ و معتمد ہو تو لوگوں کو فوج در فوج دین خدا میں داخل کرسکتا ہے لیکن ( انسان اس قدر بے معتبر ہوجائے ) یہاں تک کہ اس کے بیوی بچے بھی اس پر اطمینان نہ رکھتے ہوں تو کوئی کام انجام نہیں دے سکتا ۔
اب ہم سب کو چاہئے کہ حضرت ولی عصر (عج) کی ولادت باسعادت کی مناسبت سے یہ دو کام انجام دینے کی کوشش کریں :
۱۔ حضرت امام زمانہ (عج) سے عہد باندھیں کہ ہم ایسے ہوں ۔
۲۔ خود حضرت امام زمانہ (عج) سے مدد طلب کریں کہ حضرت (عج) ہمارے لئے دعا کریں اور ہماری کمک فرمائیں کہ ہم ایسے ہی بنیں۔
اور ان کی بنیاد تین چیزیں ہیں :
۱۔ بہت زیادہ تعلیم و تعلم ، اور ہم جانتے ہیں کہ اس مہینے ( ماہ شعبان ) کے بعد ماہ مبارک رمضان ، ماہ عبادت ہے اور سب سے زیادہ بڑی عبادت تعلیم و تعلم ہے۔
۲۔ انسان کو چاہئے کہ اس ” میں ہونے “ یعنی غرور و انانیت پر خط کھینچ دے اور اسے ترک کردے۔
۳۔ ہم کوشش کریں کہ حدیث کے ” راویة “ ہوں ، وہ راویہ جو کہ ” یشد بہ قلوب شیعتنا “ کا مصداق ہو ، یعنی جو راویت حدیث کے ذریعہ ہمارے شیعوں کے قلوب و عقائد کو محکم کرے ۔ ” الرّاویة “ کی تاء ، تاءِ مبالغہ ہے یعنی بہت زیادہ روایت کرنے والا۔
میں دعا کرتا ہوں کہ حضرت ولی عصر (عج) کی برکت سے خداوند تعالیٰ ہم سب پر لطف فرمائے اور ہم سب کو ان تین کاموں کے انجام دینے کی توفیق عطا فرمائے ۔ ( آمین (
و صلی اللہ علیٰ سیدنا محمد و آلہ الطاہرین
․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․
(۱) ۔ الاحتجاج : ج/۲ ، ص/ ۴۹۷ و ۴۹۸
(۲) ۔ محمد بن محمد بن نعمان ( ۳۳۶ ۔ ۴۱۳ ھ ق ) آپ شیخ مفید کے نام سے مشہور ہیں ، آپ عظیم شیعہ فقیہ ، متکلم اور محدث ہیں ، آپ کے اساتذہ ابن قولویہ ، شیخ صدوق ، اور ابوغالب رازی ہیں ، اور آپ نے بہت شاگردوں کی جیسے سید رضی ، سید مرتضیٰ ، شیخ طوسی ، اور سلار بن عبد العزیز دیلمی و غیرہ کی تربیت کی ہے ، شیخ مفید بہت زیادہ حاضر جواب تھے اور کا مناظرہ قاضی عبد الجبار معتزلی کے ساتھ مشہور ہے ، ریحانة الادب : ج/۵ ، ص/۳۶۱ و ۳۶۵ ۔ الاعلام زرکلی : ج/۷ ، ص/۲۱
(۳) ۔ یہ حدیث تھوڑے سے اختلاف کے ساتھ بحار الانوار : ج/۲۴ ، ص/۱۸۸ ۔ اور ج/۲۵ ، ص/ ۲۴ میں مذکور ہے
(۴) ۔ بحار الانوار : ج/۵۳ ، ص/ ۱۷۴ ۔ باب ماخرج عن توقیعاتہ
(۵) ۔ عبد اللہ بن اسعد یافعی (۶۹۸ ، ۷۶۸ ھ ق ) مشائخ و صوفیہ میں سے اور شافعی مذہب تھا ۔ ریحانة الادب : ج/۶ ، ص/۳۸۶ و ۳۸۷
(۶) ۔ ظاہراً مقصود کتاب ” مرآة الجنان و عبرة الیقظان فی معرفة ما یعتبر من حوادث الزمان و تقلب احوال الانسان “ہے جو کہ تاریخ یافعی کے نام سے مشہور ہے
(۷) ۔ احمد بن حنبل اہل سنت کے چار فرقوں میں سے فرقہٴ حنبلی کا رئیس ہے
(۸) ۔ بحار الانوار : ج/۵۳ ، ص/۲۵۶ میں اس طرح آیا ہے : پچیسویں حکایت ، القاضی سید نور اللہ الشوشتری ( ۹۵۶ ۔ ۱۰۱۹ ق ) نے مجالس المومنین میں ذکر فرمایا ہے کہ یہ اشعار حضرت صاحب الامر (عج) کے ساتھ شیخ مفید کی قبر پر لکھے ہوئے پائے گئے :
لا صوت الناعی بفقدک انہ ۔ یوم علیٰ آل الرسول عظیم
سنانی سنانے والے نے تمہاری سنانی سنائی ۔ یقناً یہ دن آل رسول (ص) پر بہت بڑی مصیبت کا دن ہے
ان کنت قد غیبت فی جدث الثریٰ ۔ فالعدل و التوحید فیک مقیم
اگر تم قبر کی خاک نمناک کے اندر چھپ گئے ۔ تو عدل و توحید تیرے اندر قیام پذیر ہیں
و القائم المہدی یفرح کلما ۔ تلیت علیک من الدروس علوم
اور قائم مہدی کو خوشی ہوگی جب بھی ۔ تم پر دروس و علوم کی تلاوت کی جائے گی
(۹) ۔ نصر آیہ ۲
(۱۰) ۔ سید محمد مہدی بن مرتضیٰ بحر العلوم ( ۱۱۵۵ ۔ ۱۲۱۲ ق ) شیخ یوسف بحرانی ، سید حسین قزوینی اور آقا محمد باقر ہزارجریبی کے شاگردوں میں سے ہیں ، ستاون سال کی عمر میں دارِ دنیا کو وداع کہا اور آپ کو نجف اشرف میں شیخ مفید کے پاس سپرد خاک کیا گیا ( ریحانة الادب ج/۱ ، ص/۲۳۵ )
(۱۱) ۔ شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ، ج/۱ ، ص/۲۷۲
(۱۲) ۔ انبیاء آیہ ۷۳
(۱۳) ۔ اصول کافی ، ج/۱ ، ص/۳۳ ، باب صفة العلم و فضلہ و فضل العلماء
امام زمانہ (عج) کی سیرت وہی رسول خدا (ص) کی سیرت ہے
مذکورہ بالا بیانات کی بناپر حضرت امام زمانہ (عج) کی سیرت بالکل وہی حضرت رسول خدا (ص) کی سیرت و روش ہے ، یہاں تک کہ حضرت (عج) کے شمائل (شکل و صورت ) بھی رسول خدا (ص) کے نورانی شمائل کے مانند ہیں ، جیسا کہ شیعہ و سنی کی بہت سی روایتوں مین آیا ہے اور حتی عیسائی مورخین نے بھی لکھا ہے کہ حضرت رسول خدا (ص) کا چہرہ مبارک اس قدر جذاب اور دلکش تھا کہ حتی آنحضرت (ص) کے سخت سے سخت دشمنوں کی نظر بھی جس وقت آپ (ص) کے چہرہٴ منور پر پڑتی تھی تو آنحضرت (ص) کے جمال پُر نور کو دیکھ کر ایسا محو ہوجاتے تھے کہ اپنے تمام ہم و غم بھلا دیتے تھے ، حضرت امام زمانہ (عج) کا چہرہٴ پُر نور بھی ایسا ہی ہے ۔
تاریخ و روایات کے علاوہ سب سے زیادہ اہم سند جو حضرت رسول خدا (ص) کی سیرت و سنت کے متعلق ہمارے پاس ہے ، وہ قرآن کریم ہے ، جو نقشہ قرآن کریم حضرت رسول خدا (ص) کے چہرہٴ مبارک کا کھینچا ہے وہ اس طرح ہے :
” فبما رحمة من اللہ لنت لھم و لو کنت فظا غلیظ القلب لانفضوا من حولک “ (۱)
اے رسول ! رحمت الٰہی ( کی برکت ) سے آپ ان لوگوں پر نرم و مہربان ہیں اور اگر بدمزاج اور سخت دل ہوتے تو وہ سب آپ کے پاس بھاگ کھڑے ہوتے ۔
اور دوسر ی جگہ فرماتا ہے :
” لقد جائکم رسول من انفسکم ، عزیز علیہ ما عنتّم حریص علیکم بالموٴمنین رؤف رحیم “ (۲)
یقینا تمہارے پاس وہ رسول آیا ہے جو تم ہی میں سے ہے اور اس پر تمہاری ہر مصیبت شاق ہوتی ہے وہ تمہاری نجات اور ہدایت کے بارے میں حرض رکھتا ہے اور موٴمنین پر بہت ہی مہربان اور رحیم ہے ۔
حضرت رسول خدا (ص) کی شفقت و محبت لوگوں کی نسبت اس حد تک تھی کہ حتیٰ بہت سے لوگوں نے اسی مسئلہ کو آنحضرت (ص) کے آزار کا ایک وسیلہ و ذریعہ بنالیا تھا :
” و منھم الذین یوٴذون النبی و یقولون ھو اذن قل اذن خیر لکم یوٴمن باللہ و یوٴمن للموٴمنین و رحمة للّذین آمنوا منکم ․․․ “ (۳)
ان میں سے وہ بھی ہیں جو پیغمبر (ص) کو اذیت دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ وہ تو صرف کان ( خوش باور ، یعنی سب کی سن لیتے ) ہیں ، آپ کہہ دیجئے کہ تمہارے حق میں بہتری کے کان ہیں ( یعنی خوش باور ہونا تمہارے نفع میں ہے ) ، ( لیکن جان لو کہ ) وہ صرف خدا پر ایمان رکھتے ہیں اور مومنین کی تصدیق کرتے ہیں ( ان کی سن لیتے ہیں ) اور صاحبان ایمان کے لئے رحمت ہیں ، اور جو لوگ رسول خدا (ص) کو اذیت دیتے ہیں ان کے واسطے دردناک عذاب ہے ۔
اس آیت کریمہ کی تفسیر میں وارد ہوا ہے کہ ایک منافق ، حضرت رسول خدا (ص) کا مذاق اور استہزاء کر رہا تھا ، جبرئیل نازل ہوئے اور عرض کیا: یا رسول اللہ (ص) ! فلاں منافق کو بلایئے اور اس پوچھئے کہ کیوں ایسے کام کر رہا ہے ۔
یہ ایک استثنائی مورد تھا ، اس کے علاوہ آپ کوئی دوسرا موقع نہیں بتا سکتے کہ پیغمبر (ص) نے کسی کو اپنی شان میں مسخرہ و مذاق کرنے کے سبب طلب کیا ہو ، یہ مورد بھی مصلحت کی بناپر تھا اور پیغمبر (ص) کو حکم ملا تھا ۔
اس قضیہ میں پیغمبر (ص) نے اس شخص کو بلایا اور اس سے توضیح چاہی ، اس نے عرض کیا : ” یا رسول اللہ ! جس نے بھی یہ بات کہی ہے ، جھوٹ کہی ہے ، میں نے ایسا کام نہیں کیا ہے ، ” پیغمبر اسلام (ص) نے کچھ نہیں فرمایا اور خاموش ہوگئے ، یہ منافق بھی یہ سمجھا کہ رسول خدا (ص) نے اس کی بات کو باور کر لیا ہے ، حالانکہ یہ محال ہے کہ حضرت رسول خدا (ص) خداوند تعالیٰ اور جبرئیل امین کی بات کے بر خلاف اس منافق کی بات کو باور کریں ، لیکن پیغمبر (ص) نہیں چاہتے تھے کہ حتیٰ ایسے منافق شخص کے ساتھ بھی ترش روئی اختیار کریں ۔
یہ منافق لوگوں کے درمیان گیا اور کہنے لگا کہ یہ عجیب پیغمبر (ص) ہیں ، جبرئیل ان کے ایک کان میں کہتے ہیں کہ میں نے ان کا مسخرہ کیا ہے ، باور و یقین کرلیتے ہیں ، دوسرے کان میں میں کہتا ہوں کہ ایسا کام نہیں کیا ہے یہ بات بھی باور کرلیتے ہیں ۔
خداوند تعالیٰ نے ان بیہودہ گوئیوں اور بکواسوں کے جواب میں قرآن کریم میں فرمایا ہے کہ :
” قل اذن خیر لکم “ (۴) یہ تمھاری باتوں کو ( ظاہراً ) مان لینا اور خاموش ہوجانا خود تمہارے لئے بہتر ہے اور تمہارے فائدے میں ہے ۔
یہ حضرت رسول خدا (ص) کا فعل و عمل ہے اور حضرت امام مہدی (عج) حضرت رسول خدا (ص) سے سب سے زیادہ مشابہ ہیں ۔
پیغمبر اسلام (ص) ” فبما رحمة من اللہ لنت لھم “ (۵) کے مصداق کامل ہیں ۔ لہٰذا حضرت امام مہدی (عج) بھی انہیں صفات کے مالک ہوں گے ، حضرت کافروں کے ساتھ نرم سلوک اختیار کریں گے تو پھر مسلمانوں کی بات تو الگ ہے ۔
اصولاً حضرت امام مہدی (عج) عدل و انصاف برپا کرنے کے لئے ظہور فرمائیں گے ، اور عدالت انسانوں کی ایک فطری اور طبیعی خواہش ہے ، اس بناپر یہ ممکن نہیں ہے کہ حضرت (عج) ایسی روش اپنائیں کہ لوگ آرزو کریں کہ کاش ان کو نہ دیکھتے ، یا ان سختیوں کے سبب جو انجام دیں گے ، لوگ کہیں کہ وہ آل محمد (ص) سے نہیں ہیں اور وہ اہل بیت پیغمبر علیہم السلام سے ربط نہیں رکھتے ۔ اور اسی طرح جب حضرت علی علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں : ” محال ہے کہ میں ظلم کے راستے سے چاہوں کہ کامیابی حاصل کروں اور ظلم کے وسیلہ سے طلب نصرت کروں “ ۔ (۶) ، تو یقیناً حضرت امام مہدی (عج) بھی اسی سیرت و روش کی پیروی کریں گے ، اور یہ ممکن نہیں ہے کہ ظلم و ستم کے ذریعہ لوگوں پر حکومت حاصل کریں ۔
حضرت امام مہدی (عج) کی قضاوتی سیرت
ایک دوسرا مسئلہ جو حضرت امام زمانہ (عج) کے متعلق بیان کیا جاتا ہے ، وہ حضرت کی قضاوت اور فیصلہ کرنے کی کیفیت ہے۔
بعض افراد معتقد ہیں کہ حضرت امام زمانہ (عج) کی خصوصیات میں سے ایک خصوصیت یہ ہے کہ حضرت (عج) قضاوت کے موقع پر طرفین دعویٰ سے شاہد و بینہ ( گواہ و دلیل ) کے بغیر صرف اپنے ( غیبی ) علم کے ذریعہ حکم صادر فرمائیں گے۔
یہ افراد اپنے مدعا کے لئے کچھ دلیلیں بھی پیش کرتے ہیں منجملہ ان دلیلوں کے وہ احادیث ہیں جو اس سلسلہ میں پائی جاتی ہیں اور ان کا مدلول یہ ہے کہ امام مہدی (عج) اپنے علم کے مطابق اور حضرت داوٴود علیہ السلام کے مانند جھگڑوں کو حل اور اختلاف کو دور فرمائیں گے۔
ان روایتوں کا ایک نمونہ مندرجہ ذیل ہیں :
عبد اللہ بن عجلان نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ امام نے فرمایا: ” اذا قام آل محمد علیھم السلام حکم بین الناس بحکم داود لا یحتاج الیٰ بینةٍ یلھمہ اللہ فیحکم بعلمہ “ (۷)
جس وقت قائم آل محمد علیہم السلام قیام فرمائیں گے ، تو حضرت داود نبی علیہ السلام کے مانند لوگوں کے درمیان قضاوت و فیصلہ کریں گے ، اور وہ دلیل و برہان کے محتاج نہ ہوں گے ، خدا ان کو حقیقت کا الہام کرے گا اور وہ اپنے علم کے اعتبار سے حکم دیں گے ۔
اس روایت کے مطابق جو تفسیر نور الثقلین میں مذکور ہے :
اولاً : فقط ایک مرتبہ حضرت داود علیہ السلام نے قضاوت کے موقع پر اپنے علم کے مطابق عمل کیا کہ وہ بھی مشکل سے دوچار ہوگئے اور اس کے بعد ہمیشہ حکم خدا سے طرفین سے گواہ و دلیل مانگتے تھے اور دلیل و قسم ہی کی بنیاد پر حکم صادر فرماتے تھے ۔
دوسرے: یہ روش حضرت رسول خدا (ص) کی قضاوتی روش سے منافات رکھتی ہے ، اس لئے کہ حضرت رسول خدا (ص) ہمیشہ فرماتے تھے کہ :
” انما اقضیٰ بینکم بالبینات و الایمان “ میں فقط شواہد و گواہی اور قسم کی بنیاد پر تمہارے درمیان فیصلہ کرتا ہوں ، اس بناپر اگر کسی موقع پر میں نے حکم صادر کیا کہ مثلاً فلاں زمین فلاں شخص کی ہے ، لیکن واقع میں ایسا نہ ہو تو وہ اس میں حق تصرف نہیں رکھتا اور میرا حکم اس کو زمین کا مالک نہیں بنائے گا ۔
اس بناپر اس بات کے پیش نظر کہ حضرت امام مہدی (عج) حضرت رسول خدا (ص) سے سب سے زیادہ مشابہ ہیں اور حضرت (عج) کا ظہور آنحضرت (ص) کی شریعت و سنت کے اجراء اور احیاء کے لئے ہے ، یہ بات قابل قبول نہیں ہے کہ حضرت رسول خدا (ص) کی روش کے علاوہ کوئی اور روش اختیار کریں گے اور دلیل و شاہد کی طلب کے بغیر لوگوں کے درمیان قضاوت و فیصلہ فرمائیں گے۔
حضرت امام مہدی (عج) کی اجرائی سیرتیں
حضرت امام مہدی (عج) کی اجرائی سیرتوں میں سے ایک سیرت یہ ہے کہ حضرت جتنا لوگوں اور مسکینوں کی نسبت رحیم و مہربان ہیں ، اتنا ہی اپنے حکومتی عہدہ داروں اور کارندوں پر حد سے زیادہ سخت اور حساس ہیں :
” المہدی جواد بالمال ، رحیم بالمساکین ، شدید علی العمّال “ مہدی حکومت کے عاملوں ، کارگزاروں پر بہت زیادہ سخت گیر ہوں گے ۔ حضرت علی علیہ السلام ایک حدیث میں اس کے متعلق ارشاد فرماتے ہیں :
” الاوفی غدو سیاٴتی غدبما لا تعرفون ، یاٴخذ الوالی من غیرہا عمّا لہا علی مساوی اعمالہا ․․․ “(۸)
․․․آگاہ ہو جاوٴ کہ کل کے دن جب کہ وہ (مہدی ) ظہور فرمائے گا ، وہ کل ( آئندہ ) جس سے تم نا واقف ہو دوسرے حاکموں کے بر خلاف اپنے عاملوں اور کارندوں کو ان کے برے کردار اور جرم کی سزا دے گا ان کی بد اعمالیوں کی نسبت مواخذہ کرے گا ۔
البتہ حضرت (عج) خود سب سے پہلے اور سب سے یزادہ اپنے اوپر سختی اختیار کریں گے اور اس بات کے بر خلاف کہ تمام لوگ حضرت کی حکومت کے زیر سایہ رفاہ و اارام میں رہیں گے ، اپنے جد امیر الموٴمنین علیہ السلام کے مانند درشت اور خشن پوشاکج اور غیر لذیذ کھانے پر اکتفا فرمائیں گے :
” فو اللہ ما لباسہ الا الغلیظ و لا طعامہ الا الجشب “ (۹) قسم بخدا مہدی (عج) کا لباس درشت اور کھانا سوکھا اور بغیر سالن کے ہوگا۔
میں امید رکھتا ہوں کہ خود حضرت ولی عصر (عج) کی برکت سے خداوند عالم ہم سب کی عمر کو حضرت کے ظہور سے متصل فرمادے گا ، ان شاء اللہ ۔ اس بات کی ذکر ضروری ہے کہ حضرت آیة اللہ العظمیٰ سید صادق شیرازی دام ظلہ العالی نے یہ موضوع ” حضرت امام مہدی (عج) کی حکومتی سیرت “ کو حوزہٴ علمیہٴ قم المقدسہ کے علماء و طلاب محترم کے مجمع کے درمیان چند جلسوں اور نشستوں میں مفصل طور پر علمی تنقید و تحقیق کے ساتھ بیان فرمایا ہے ، اور دسیوں روایتوں سے زیادہ پر چار موضوع (۱۰) کے تحت مفصل طور پر مختلف جہتوں کے ساتھ حجیت روایات کی بحث کی ، جیسے سندی و دلالی جہات ( علم حدیث ، رجال ، درایة ) پر محققانہ تقریر فرمائی ہے۔ لیکن اختصار کے پیش نظر چونکہ افسوس ہے کہ معظم لہ کی تقریروں کو تفصیلاً ٹیپ نہ کرسکے لہٰذا اسی مختصر مقدار پر ہم نے اکتفا کیا ۔ (ناشر)
․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․
(۱) ۔ آل عمران /۵۹
(۲) ۔ توبہ / ۱۲۸
(۳) ۔ توبہ /۶۱
(۴) ۔ توبہ /۶۱
(۵) ۔ آل عمران / ۱۵۹
(۶) ۔ نہج البلاغہ
(۷) ۔ کلینی ، اصول کافی :ج/۱ ، ص/۳۹۷۔ بصائر الدرجات : ج۵، ص۲۵۹
(۸) ۔ نہج البلاغہ : خطبہ ۱۳۸
(۹) ۔ نعمانی ، الغیبة ص/ ۲۳۳ ۔ بحار الانوار : ج/۵۲ ، ص/ ۳۵۴
(۱۰) ۔ وہ چار موضوع یہ ہیں : ۱۔ حضرت امام مہدی (عج) کا ظہور اور تشکیل حکومت کی کیفیت ( اعم از روایات صحیح و غیر صحیح ) ۲۔ حکومت کرنے کی روش ۳۔ حضرت (عج) کے عامل کارندے ۴۔ حضرت کی قضاوتی سیرت و روش۔
source : http://www.mahdawiat.com/ordo/pages/news.php?nid=595