(۱)۔خود شناسی
روزمرّہ زندگی کی گرفتاریاں انسان کو اجازت نھیں دیتی تھیں کہ وہ اپنے اندر جھانک کر دیکھے اور اپنے آپ کو پھچاننے کی کوشش کرے ۔اب اسے روزہ کے ذریعے اپنے روٹین سے نکالا گیا ھے تا کہ اپنے آپ کو پانے کی کوشش کرے، اپنے اندر جھانک کر دیکھے کہ اسے اتنی قوّتوں ،صلاحیتوں اور استعداد(Abilities)کے ساتھ کیوں پیدا کیا گیا؟
(۲)۔جھان شناسی
انسان اپنے باھر کی دنیاکو دیکھے کہ اتنی وسیع کائنات اور اس میں موجود لا محدود نعمتیں کس لئے ھیں اور ان سب کو کیوں انسان کی خدمت میں قرار دیا گیا ھے؟
(۳)۔ھدف شناسی
انسان اگر اپنے اندر موجود صلاحیتوں و قوتوں اور اس عظیم کائنات کی وسعتوں کو کسی حد تک پھچان لے گا تو لا محالہ اپنی منزل اور اپنے اھداف کو بھی پھچان لے گا کہ ان فوق العادّہ صلاحیتوں اور ان بے شمار نعمتوں کے ذریعے اسے کن اھداف تک پھونچنا ھے، پھر ایک خود شناختہ انسان کی حرکت کا رخ اس مذکورہ شھوانی مثلث کی طرف نھیں ھو گا کیونکہ یہ شھوات وخواھشات خدا نے انسان کے اندراس لئے رکھی ھیں تا کہ یہ ناقص مخلوق اپنے اندر تکامل پیدا کر سکے مثلاً شھوت جنسی کو اس لئے قرار دیاھے تا کہ انسان وجود میں آسکے یعنی اسکے ذریعے تولید نسل کا سلسلہ جاری رھے ۔خواھش آب و غذا اس لئے رکھی گئی تا کہ انسان انھیں استعمال کر کے اپنے آپ کو باقی رکہ سکے لیکن صرف تو لید نسل اور اپنے وجود کی بقاھی انسان کا کل ھدف نھیں ھے ،بلکہ اسکا اصل ھدف اپنے اس ناقص وجود کو کمال تک پھونچانا ھے ۔اسطرح خود شناسی ،جھان شناسی اور ھدف شناسی کے بعد انسان کی حرکت کا رخ کمالات کی طرف مڑ جاتا ھے جو اسکے اندر کا ایک فطری تقاضا ھے ۔
(۴)۔خدا شناسی
کسب کمالات بھی انسان کا آخری ھدف نھیں ھے ۔اسکا آخری ھدف ان کمالات سے متصّف ھو کر کمال مطلق یعنی ذات خدا تک پھونچنا ھے ----”یَا اَیُّھَا الْاِنْسَانُ اِنَّکَ کَادِحٌ اِلَی رَبِّکَ کَدْحاً فَمُلَاقِیْھ“(۹)انسان کا سفر خدا کی طرف ھے اور اسے خدا سے ملاقات کرنی ھے ۔یہ انسان کا نھائی ھدف (Last Target)ھے،یہ ھدف کثرت عبادات سے نھیں بلکہ عبادات کے باطن اور اسرار سے حاصل ھوتا ھے ،عبادات کا باطن اپنی تطھیرکرکے کمالات کو حاصل کرنا ھے ،پس انسان اپنے عمل کے ذریعے جتنا پاکیزہ اور با کمال ھو گا اتنا ھی ذات خدا سے قریب ترھوگا”اِلَیْہ یَصْعَدُ الْکَلِمُ الطَّیِّبُ وَ الْعَمَلُ الصَّالِحُ یَرْفَعُھ“(۱۰)خدا کی طرف پاکیزہ نفوس بلند ھوتے ھیں اور ان کے بلندکرنے کا وسیلہ اسکے اعمال صالحہ ھیں ۔عمل صالح یعنی ایسا عمل جس میں انسان کو باکمال اور بلند کرنے کی صلاحیت پائی جاتی ھو ،اسطرح خودشناسی و جھان شناسی انسان کو ھدف شناسی اور کمال طلبی کے راستے سے خدا شناسی تک لے آتی ھے ۔
روزہ در حقیقت خود شناسی سے خدا شناسی تک سفر کرنے کی ایک مشق ھے اورایک مھینہ مشق کرنے کے بعدانسان کو پورے سال اسی سفر کو جاری رکھنا ھے۔
(۵)۔دشمن شناسی
اس سفر کی راہ میں ایک بھت قوی اورنامرئی دشمن بھی موجود ھے جس نے خدا کی عزّت کی قسم کھا کر اعلان کیا ھے کہ صراط مستقیم پر بیٹھ کر اس راہ کے مسافروں کو گمراہ کرے گا”۔ ۔ ۔ ۔ لَاَقْعُدَنَّ صِرَاطَکَ الْمُسْتَقِیْمَ ثُمَّ لَآتِیَنَّھُمْ مِنْ بَیْنِ اَیْدِیْھِمْ وَمِنْ خَلْفِھِمْ وَ عَنْ شَمَائِلِھِمْ ۔ ۔ ۔ ۔“(۱۱) صراط مستقیم پر بیٹھ کرمیں بندگان خدا کو ھر سمت سے گمراہ کروں گا، لھٰذا ایسے دشمن کی عمیق شناخت کے بغیرانسان اس سفر کو طے نھیں کر سکتا ،یہ ایک ایسا دشمن ھے جسکا سب سے بڑا اسلحہ خود انسان کے اندر موجود ھے ”اعدی عدوک نفسک التی بین جنبک“(۱۲)تمھارا سب سے بڑا دشمن خودتمھارا نفس ھے جوخود تمھارے اندر موجود ھے ،یہ شیطان کا اندرونی اسلحہ ھے ، اور اگر اپنے وجودسے باھر نگاہ کریں تو اسکے فراوان لشکر موجود ھیں جن میں انسان اور جنّات دونوں شامل ھیں ”من الجنّة و النّاس “(۱۳)پس اتنے بڑے دشمن جن کا قرآن نے ”عدو مبین“ (۱۴)کہہ کرتعارف کرایا،کے ھوتے ھوئے اس سفر کو طے کرنا بھت آسان نھیں ھے ۔
آج شیطانی طاقتوں نے میڈیا ،سٹ لائٹ ،انٹرنیٹ اور یوروپین کلچر کے ذریعے انسان سے اسکے کمال کا راستہ چھین لیا ھے آج کا انسان یہ اچھی طرح محسوس کر رھا ھے کہ انٹرنیٹ کے عھد کی نسلیں انسانی اقدار (Human Values)سے خالی ھوتی جا رھی ھیں مثلاًغیرت ایک قدر (Value)ھے جو انسان کے کمال میں دخیل ھے لیکن ایک جوان جس نے ساری رات انٹرنٹ کی فحش سائٹوں میں گزاری ھے اسے اگر صبح کے وقت عراق کے ابو غریب جیل کی تصویریں دکھائی جائیں تو اسے ذرا بھی غیرت نھیں آتی ،جبکہ انسانی غیرت کا معیار یہ ھے کہ لشکر معاویہ نے یمن میں یھودی عورت کے پیروں سے پازیب اتارا تو امام علی علیہ السلام نے فرمایا کہ اگر اس عمل پر ایک انسان غیرت سے مر جائے تو وہ اسکا مستحق ھے ۔(۱5)
روزہ کا ایک فلسفہ یہ ھے کہ انسان اس مھینہ میں اپنے ان دشمنوں کے خلاف آمادہ ھو جنھوں نے اس سے اس کے تکامل کا راستہ چھین لیا ھے ،دشمن سے مقابلہ کرنے اور اس پر غلبہ پانے کے لئے صبر و استقامت کی مشق کرے ،شیطانی فریب سے بچنے وھوائے نفس پر غالب ھونے کے لئے جھاداکبر کی مشق کرے ، شایداسی لئے اس مبارک مھینے میں شیطان کو سخت زنجیروں میں مقیّد کر دیا جاتا ھے تا کہ انسان کی اس آمادگی میں رکاوٹ ایجاد نہ کر سکے ۔
یھیں سے اب ھم دوسرے سوال کی طرف متوجہ ھوتے ھیں کہ کیا روزہ انسان کے اندر ضعف ایجاد کرتا ھے ؟