اردو
Sunday 24th of November 2024
0
نفر 0

مراحل تطھیر و طریقہ تطھیر

مراحل تطھیر و طریقہ تطھیر

 

 تطھیر کوئی ذھنی اور مفھومی شئی نھیں  ھے کہ انسان ذھن میں  یہ تصور کر لے کہ میں  پاک ھونا چاھتا ھوں  اور وہ پاک ھو جائے بلکہ تطھیر کے لئے انسان کو چند مراحل سے گزرنا ھوتا ھے ۔

 

 

لباس و بدن کی تطھیر

 

 تطھیر کا سب سے ابتدائی اور آسان مرحلہ یہ ھے کہ انسان اپنے ظاھر یعنی اپنے لباس اور بدن کو پاک وصاف کرے۔ اتفاقاً اسلام نے اسی پھلے مرحلے کے لئے بھت تاکید کی ھے حتی کہ نظافت کو نصف ایمان قرار دیا ھے کیونکہ یہ بعد کے مراحل کو طے کرنے کے لئے ایک آغاز ھے۔ انسان جس طرح لباس و بدن کے ظاھرکی تطھیر کو اھمیت دیتا ھے اسی طرح اسے باطنِ بدن کی بھی تطھیر کرنی چاھئے اور باطن بدن کی تطھیر کا بھترین وسیلہ روزہ ھے۔اسی لیے روایات میں  روزہ کو زکات بدن سے تعبیر کیا گیا ھے۔

رسول اللہ(ص) نے فرمایاھے:”لِکُلِّ شَیٴٍ زَکَاةٌ وَ زَکَاةُ الْاَبْدَانِ الصِّیَامُ(۲۲)ھر شی کی ایک زکات ھے اور بدن کی زکات روزہ ھے۔

 یعنی جس طرح زکاة مال کو پاک کرتی ھے اسی طرح روزہ بدن کو پاک وسالم کرتا ھے ۔

 

 

 حواس کی تطھیر

 

 دوسرے مرحلہ میں  انسان کو اپنے حواس کی تطھیر کرنی ھے ، حواس سے مراد انسان کی سماعت، بصارت، زبان اور دیگر حواس کی تطھیر ھے ۔ انسان اپنی آنکہ یعنی بصارت کی تطھیر کرے تاکہ” خائنة الاعین“ (۲۳)یعنی خیانتکار آنکھوں کا مصداق نہ بن جائے ، انسان اپنی سماعت کی تطھیر کرے تاکہ آلودہ سماعت سے خدا کا کلام نہ سنے ، ماہ رمضان میں  خدا کی طرف انسانوں  کو دعوت دی جاتی ھے لیکن گناھوں  سے آلودہ سماعتیں  اس دعوت کو نھیں  سن سکتیں  ۔انسان اپنی زبان اور قوت گویائی کی تطھیر کرے تاکہ غیبت ،فحش ، چاپلوسی ، اور غیر منطقی باتوں  سے آلودہ زبان پر نام خدا نہ آئے کیوں  کہ انسان کبھی اس بات پر راضی نھیں  ھوتا کہ وہ ایک نھایت پاک و پاکیزہ چیز کو کسی گندے اور نجس ھاتہ میں  پکڑا دے ۔

ماہ رمضان میں  حواس کی تطھیر کے لئے کثرت سے روایات وارد ھوئی ھیں ۔

حضرت زھرا سلام اللہ علیھا فرماتی ھیں :”مَا یَصْنَعُ الصَّائِمُ بِصِیَامِہ اِذَا لَمْ یُصِنْ لِسَانَہ وَسَمْعَہ وَبَصَرَہ وَ جَوَارِحَھ“(۲۴)روزہ دار اپنے اس روزے کا کیا کرے گاجس میں  وہ اپنی زبان، سماعت،بصارت اوراعضاء کو محفوظ نہ رکھے۔

 

 

 خیال کی تطھیر

 

انسان کی ایک بھت بڑی اورباطنی آلودگی تخیّل کی آلودگی ھے ۔ آلودہ تخیّلات راہ علم و کمال میں  ایک سنگین رکاوٹ ھوتے ھیں  لھذا انسان کے لئے اھم ھے کہ وہ اپنے تخیلات کو پاک کرے اور اگر انسان کو اپنے خیالات کی پاکیزگی کا اندازہ لگانا ھے تو یہ دیکھے کہ وہ حالت خواب میں  کیا دیکھتا ھے کیوں  کہ حالت خواب میں  حواس کے سو جانے کے بعد تخیل زیادہ فعّال ھو جاتا ھے اور حالت بیداری کے تخیلات کو مجسم شکل میں  پیش کرتا ھے ۔

 

 

فکر کی تطھیر

 

یہ ایک بالاتر مرحلہ ھے لھذا سابقہ مراحل سے سخت تر بھی ھے۔ انسان خدا کی مدد کے بغیران مراحل تطھیر کو طے نھیں  کر سکتا اور مرحلہ جتنا سخت تر ھو اسی مقدار میں  خدا سے استمداد کی ضرورت بھی زیادہ ھے ۔ شیطان مسلسل فکر انسانی میں  وسواس ڈالتا رھتا ھے ”یُوَسْوِسُ فِیْ صُدُوْرِ النَّاسِ “  (۲۵)اور انسان پر شیطانی وحی کا سلسلہ جاری رھتا ھے ” اِنَّ الشَّیَاطِیْنَ لَیُوحُونَ اِلی اَوْلْیَائِھِمْ “(۲۶) تاکہ انسان کے اندر فکری انحراف پیدا کر دے اور فکری انحراف انسان کے دین ،مذھب اور اعتقادات سب کو منحرف کر دیتا ھے یھاں  تک کہ یھی فکری انحراف لشکر امام علی علیہ السلام کے مقدس سپاھیوں  کو خوارج کی شکل میں  تبدیل کر کے خود امیر الموئمنین علیہ السلام کے مقابلے میں لا کر کھڑا کر دیتا ھے ۔ لھذا اس شیطانی شر سے بچنے کے لئے خدا نے جو طریقہ بتایاھے وہ یہ ھے کہ اپنے پروردگار کے ذریعے شیطانی وسواس سے پناہ طلب کرو: ”قُلْ اَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ مَلِکِ النَّاسِ اِلٰہ النَّاسِ مِنْ شَرِّ الْوَسْوَاسِ الخَنَّاسِ “ (۲۷)یعنی خدا سے مدد طلب کرو ۔

جب انسان کی فکر پاک ھوجاتی ھے تو اسکے تعقّل، ادراک اور طرز فکر میں  بھی طھارت پیدا ھو جاتی ھے اور انسان افواھوں  و تخیلات کے بجائے عقل و وحی کو اپنے ادراک کا منبع قرار دیتا ھے ۔

 

 

تطھیر قلب

 

یھاں  قلب سے مراد دھڑکتا ھو ا دل نھیں  بلکہ اس سے مرادحقیقت انسان اور روح انسان ھے ۔ ان تمام مراحل سے گزرنے کے بعد انسان کا دل عرش خدا اور حرم خدا بن جاتا ھے:” اَلْقَلْبُ عَرْشُ الرَّحْمٰن “ قلب انسان عرش خدا ھے۔

” اَلْقَلْبُ حَرَمُ اللّہ وَ لَا تُسْکِنْ فِی حَرَمِ اللّٰہ غَیْرَہ “

”تمھارا دل حرم خدا ھے ۔اس میں  غیر خدا کوسکونت نہ دو۔“

 

 

تقویٰ

 

روزہ کے اھم ترین اسرار میں  سے ایک تقویٰ ھے بلکہ اگر تقویٰ کو اپنے وسیع معنی کے تناظر میں  دیکھا جائے تو تمام اسرار کی بازگشت تقویٰ کی طرف ھوتی ھے۔ شاید اسی لئے قرآن نے جب فلسفہٴ روزہ بیان کیا تو اسی مطلوبہ صفت کو روزہ کا فلسفہ قرار دیا۔”یَا اَیُّھاالَّذِیْنَ اٰمَنُوا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْن“(۲۸)دیگر امّتوں  کی طرح تم پر روزہ واجب قرار دیا گیاکہ شاید تم صاحب تقویٰ بن جاؤ۔لیکن تقویٰ قرآن اور معارف اسلامی کے ان مظلوم ترین الفاظ میں  سے ھے جسکے معنی میں  اس حد تک تحریف کی گئی ھے کہ اس لفظ کو تقویٰ کے بالکل بر عکس معنی میں  استعمال کیا جانے لگاھے ۔سستی ، جمود اور سادہ لوحی کو تقویٰ کا نام دیدیاگیاھے۔

 

0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

نیک اخلاق کا صحیح مفہوم
حقيقي اور خيالي حق
لڑکیوں کی تربیت
احتضار
نماز میت
عیب تلاش کرنے والا گروہ
اسلامی تربیت ایک تحقیقی مقالہ
حدیث ثقلین کی سند
رمضان المبارک کے سترہویں دن کی دعا
۔خود شناسی

 
user comment