رجمه و تکمیل : ف.ح.مهدوی
مذہب شیعہ کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس کا بانی کوئی فقیہ یا مجتہد نہیں ہے جبکہ دیگر اسلامی مذاہب کے بانی محدثین یا فقہاء تھے جنہوں نے دیگر مجتہدین کے ظہور کا راستہ روکتے ہوئے اپنے بعد اجتہاد کا باب بند کردیا.
مذہب شیعہ کے بانی رسول اللہ (ص) ہیں جنہوں نے دعوت ذوالعشیرہ میں علی علیہ السلام کی جانشینی کا اعلان کیا اور بنو ہاشم کو امر کیا کہ «میرے بعد علی کی پیروی کرو».
یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ کوئی بھی کسی کو ناحق ثابت کرکے اپنی حقانیت کا ثبوت پیش نہیں کرسکتا. بالفاظ دیگر اگر آپ اپنی حقانیت ثابت کرنا چاہتے ہیں تو آپ کو اپنی خصوصیات و عقائد بیان کرنا ہونگے اور اپنی حقانیت کی دلیلیں دینی ہونگی کیوں کہ اگر آپ کسی اور باطل ثابت کریں گے بھی تو اس سے اس کا بطلان تو شاید ثابت ہوجائے مگر آپ کی حقانیت ثابت نہیں ہوگی. اگر زید برا ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ خالد اچھا ہے کیونکہ اچھائی کے اپنے معیارات اور پیمانے ہیں اور حضرت امیر المؤمنین علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ اہل حق کو پہنچاننے سے پہلے حق کو پہچاننا ضروری ہے اور جب آپ حق کو پہچان لیں گے اہل حق کی پہچان بڑی سادہ ہوجائے گی.
بہرحال بعض لوگ بعض لوگوں کو بڑا اور عظیم ثابت کرنے کے لئے بعض بڑے اور عظیم لوگوں پر کیچڑ اچھالتے رہے ہیں مگر ان کے کیچڑ اچھالنے سے ان عظیم لوگوں کی حقیقت جاننے کی تشنگی پیدا ہوجاتی ہے اور اس طرح تحقیق کا بہتر بہانہ ملتا ہے اور وہ لوگ جو ان بڑے لوگوں کو نہیں پہچانتے، بھی انہیں پہچان لیتے ہیں جبکہ کیچڑ اچھالنے والوں کو اپنے مقصد میں نہ صرف کامیابی حاصل نہیں ہوتی بلکہ با انصاف لوگ ان کے بارے میں بھی تحقیق کرلیتے ہیں اور تعصب سے پاک محققین ان کی حقیقت سے بھی آگہی حاصل کرلیتے ہیں اور ان کی یہ آگہی ان لوگوں کی حقانیت کے اثبات پر منتج نہیں ہوتی.
بعض لوگ اسلام کے اصلی ترین اور بنیادی ترین مذہب پر کیچڑ اچھال کر اپنے راستے کو حق ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں مگر پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا
بعض حضرات کا کہنا ہے کہ مذہب شیعہ علی علیہ السلام کی شہادت کے بعد کچھ افسانوی شخصیات کے توسط سے معرض وجود میں آیا ہے اور ہم کسی پر کیچڑ اچھالے بغیر اپنے مذہب کی بات کرتے ہیں اور انصاف کا تقاضا یہی ہے کہ ہمارے مذہب سے آگہی حاصل کرنے کے لئے اس کا تعارف ہماری زبان سے ہی سنا جائے کیونکہ اگر مخالفین ہمارا تعارف کرائیں تو اس میں غیرجانبداری ملحوظ نہیں ہوگی اور مخالفین تو اپنے اثبات کے لئے ہمارے مذہب پر یلغار کرنے کے عادی ہیں.
یہاں ہمارا ہدف یہ ثابت کرنا ہے کہ مذہب شیعہ کی بنیاد دوسری صدی ہجری یا تیسری صدی ہجری میں نہیں بلکہ ابتدائے اسلام میں رکھی گئی ہے اور ہمارا مذہب دنیا کا واحد زندہ مذہب ہے جس کا بلاواسطہ تعلق منبع وحی سے ہے اور بلاواسطہ طور پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے اخذ ہؤا ہے.
مذہب شیعہ باب مدینة العلم امام علی (ع) کے زمانے سے
سوال: کیا مذہب شیعہ علی علیہ السلام کے زمانے سے تھا ؟
جواب: شیعہ لغت میں پیروکار اور مددگار کو کہا جاتا ہے مگر اصطلاح میں اس سے مراد وہ لوگ ہیں جو امام علی علیہ السلام کی امامت اور خلافت بلافصل کا عقیدہ رکھتے ہیں. شیعیان علی (ع) کا عقیدہ ہے کہ رسول خدا (ص) کے بعد سیاسی، دینی اور علمی مرجعیت کے عہدیدار امیرالمؤمنین علی علیہ السلام اور آپ (ع)کے گیارہ معصوم فرزند ہیں اور یہ کہ علی علیہ السلام اور آپ (ع) کے معصوم فرزندوں کی امامت جلیّ اور خفیّ دلیلوں اور نصوص سے ثابت ہے اور بالآخر یہ کہ شیعوں کا عقیدہ ہے کہ امامت صرف اور صرف علی اور فرزندان علی علیہم الصلواة و السلام کا حق ہے. (1)
جب یہ آیات نازل ہوئین:
«إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ أُوْلَئِكَ هُمْ خَيْرُ الْبَرِيَّةِ * جَزَاؤُهُمْ عِندَ رَبِّهِمْ جَنَّاتُ عَدْنٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا رَّضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ ذَلِكَ لِمَنْ خَشِيَ رَبَّهُ» (2)
«بتحقیق وہ لوگ جو ایمان لائے اور اعمال صالح بجالائے خدا کی بہترین مخلوقات ہیں * ان کی جزا ان کے پروردگار کے نزدیک بہشت جاویدان کے باغ ہیں جن کے درختوں کے نیچے نہریں جاری ہیں اور یہ لوگ ہمیشہ کے لئے وہیں رہیں گے اور خدا ان سے راضی و خوشنود ہے اور وہ بھی خدا سے راضی اور خوشنود ہیں اور یہ اونچا مقام اس شخص کے لئے ہے جو اپنے پروردگار سے ڈرے ». تو رسول اللہ (ص) نے علی علیہ السلام سے مخاطب ہوکر فرمایا:«انت و شيعتک یوم القیامة راضین مرضیین»؛(3) یا علی! آپ اور آپ کے شیعہ روز قیامت خدا سے راضی ہونگے اور خدا بھی آپ سے اور آپ کے شیعوں سے راضی ہوگا ». نیز علی (ع) کو اشارہ کرکے فرمایا: «ان هذا و شیعته لهم الفائزون یوم القیامة»؛(4)
«یہ علی اور ان کے شیعہ روز قیامت کامیاب اور اہل سعادت ہیں».
سوال: کیا رسول اللہ کے زمانے میں بھی شیعہ تھے؟
جواب: جی ہاں! بالکل تھے؛ رسول اللہ (ص) کے زمانے میں چار افراد شیعیان علی کی عنوان سے پہچانے جاتے تھے: 1- حضرت سلمان فارسی (ع) 2- حضرت ابوذر غفاری (ع) 3- حضرت عمار یاسر (ع) 4- حضرت مقداد بن اسود (ع)
(5)
1- حضرت سلمان فارسی (ع)
سلمان فارسی واحد صحابی تھے جنہیں رسول اللہ (ص) «السلمان منا اهل البیت = سلمان ہم اہل بیت میں سے ہیں» کا اعزاز بخشا تھا اور رسول اللہ (ص) نے ہی فرمایا تھا کہ سلمان ایمان کے دس درجوں میں سے9درجوں پر فائز ہیں!
2- حضرت ابوذر غفاری (ع)
رسول اللہ (ص) نے فرمایا کہ آسمانوں نے ابوذر سے زیادہ سچا آدمی نہیں دیکھا.
3- حضرت عمار یاسر (ع)
عمار کی والد «حضرت یاسر (رض)» اسلام کے پہلے شہید اور ان کی والدہ «حضرت سمیہ (رض)» اسلام کی پہلی شہیدہ ہیں. سورہ نحل کی آیت 106 عمار کے ایمان کی تصدیق میں اتری ہے اور رسول اکرم (ص) نے انہیں فرمایا تھا: «ويحك يا بن سمية تقتلك الفئة الباغية (6) اے سمیه کے فرزند! آفرین ہے تم پر! تم کو باغی گروہ قتل کرےگا» اور جب عمار صفین کے مقام پر معاویہ کے سپاہیوں کے ہاتھوں شہید ہوئے تو بہت سے لوگ جو امام علی علیہ السلام کی حمایت کے حوالی سے دو دل اور متردد تھے بھی علی علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ اب حق اور باطل کے درمیان فرق واضح ہوگیا ہے اور عمار کے قاتل اہل باطل ہیں.
4- حضرت مقداد بن اسود (ع)
رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر ایمان لانے والوں میں چھٹے نمبر پر اور سابقین اولین میں سے تھے.
سیدعلی خان شیرازی اور سیدمحسن امین جبل عاملی جیسے کئی دیگر علماء نے بہت سے صحابہ رسول(ص) کا نام لیا ہے اور لکھا ہے کہ یہ صحابہ کرام علی علیہ السلام کے شیعہ تھے. (7)
صحابہ کے بعد تابعین کی باری آتی ہے اور تابعین وہ مسلمان ہیں جو نسل صحابہ کے خاتمے کے بعد آئے ہیں اور ان میں شیعیان علی علیہ السلام کی تعداد بہت زیادہ ہوئی یہاں تک کہ میزان الاعتدال کے مؤلف «ذہنی» نے لکھا ہے کہ تابعین میں پیروان تشیع کی تعداد اتنی بڑھ گئی کہ اگر وہ لوگ نہ ہوتے تو پیغمبر اسلام (ص)کے آثار اور ان سے باقیماندہ علمی میراث نیست و نابود ہوکر رہ جاتی.(8)
رسول اللہ (ص) کی رحلت کے بعد اسلامی سیاست کے میدان میں دو قسم کی تفکرات ابھر گئے؛ ایک تفکر کا تعلق عقیدہ خلافت پر استوار تھا اور یہ وہی خلافت تھی جس کی بنیاد سقیفہ بنی ساعدہ میں رکھی گئی اور اس تفکر کے حامیوں نے سیاسی اقتدار ابوبکر بن ابی قحافہ کو سونپا. یہ تفکر امامت کے تفکر کے مدمقابل کھڑا ہوگیا اور تفکر امامت کی بنیاد «حدیث ثقلین» اور حدیث غدیر پر مبنی ہے. اس تفکر کے پیروکار نص صریح کی بنیاد پر حضرت امیر المؤمنین علی علیہ السلام کی امامت و خلافت کا عقیدہ رکھتے تھے.
یہ دو تفکرات گوناگوں نشیب و فراز کے ساتھ آج تک اور ایک دوسرے کے آمنے سامنے ہیں.
سوال: گو کہ اکثریت حقانیت کی دلیل نہیں ہے مگر پھر بھی سوال یہ ہے کہ تفکر خلافت کے پیروکاروں کی تعداد کیوں تفکر امامت کی نسبت زیادہ ہے؟
جواب: تفکر خلافت اگر چہ طلحہ کے ہاتھوں عثمان بن عفان کے قتل کے بعد تقریبا ختم ہوکر رہ گئی اور معاویہ نے اپنے فاسق و فاجر بیٹے "یزید" کی ولیعہدی کا اعلان کرکے اس طرز فکر کا گلا گھونٹ دیا مگر بنو امیہ اور ان کے بعد بنو عباس نے اپنی بادشاہت کا سلسلہ خلافت کا لبادہ اوڑھ کر جاری رکھا اور یوں اہل خلافت کو بہت لمبے عرصے تک حکومت و اقتدار کا موقع میسر رہا جس کی وجہ سے تفکر خلافت یا مکتب خلافت کے پیروکاروں کی کمّیت میں اچھا خاصا اضافہ ہوا.
سوال: شیعیان اہل بیت (ع) کی تعداد میں کب اضافہ ہوا؟
جواب: خلفائے ثلاثہ یعنی ابوبکر، عمر اور عثمان کے زمانے میں شیعیان اہل بیت (ع) کمیت کے لحاظ سے کافی قلیل تھے مگر جب اہل مدینہ و مصر و عراق نے علی علیہ السلام کی بیعت کی اور علی علیہ السلام نے امت اسلامی کی خلافت کا ظاہری عہدہ سنبھالا تو کمّیت کے لحاظ سے اہل تشیع نے قدرے ترقی کی اور سنہ35 ہجری کے بعد اہل عراق نے مذہب تشیع اختیار کیا اور جب امام حسن علیہ السلام نے معاویہ کے ساتھ صلحنامے پر دستخط کئے تو معاویہ نے شیعیان اہل بیت (ع) کے لئے گھٹن کی فضا قائم کی اور انہیں سماجی حقوق سے محروم کردیا.
امام حسین علیہ السلام اور آپ (ع) کے اصحاب و انصار کی شہادت کے بعد، تھوڑی مدت کے لئے تشیع کی فکری اور اعتقادی حرکت رکاؤ کا شکار ہوئی مگر کوفہ اور بصرہ کے شیعیان اہل بیت (ع) نے اپنی تحریکوں کے ذریعے شیعہ سیاسی حرکت کو زندہ رکھا. اس کے برعکس بنو امیہ کے بادشاہوں اور ان کے والیوں نے – جن میں سے بعض تو بالفطرہ مجرم اور قاتل تھے اور قتل انسان سے لذت اٹھاتے تھے – شیعوں کے لئے زندگی اجیرن بنادی حتی کہ بنو مروان کی بادشاہی میں تو شیعیان اہل بیت (ع) کی تعداد گھٹ بھی گئی مگر قیام عاشورا کے شعلی ابھی بھڑک رہے تھے[اور آج بھی بھڑک رہے ہیں] اور پھر عاشورا کے انقلاب کا جذباتی پہلو بھی بہت ہے مؤثر تھا جس کی وجہ سے اہل تشیع کی آبادی کم ہوجانے کا سلسلہ بہت جلد رک گیا اور جب موقع ملا تو تشیع کی کلیاں کھلنے لگیں اور شیعوں کی آبادی نے ترقی کے منازل طے کرنا شروع کردئیے.
عباسیوں نے اموی بادشاہت کے خلاف قیام کیا تو امام محمد باقر اور امام جعفر صادق علیہما السلام کا دور تھا اور ان دو معصوم اماموں نے اس موقع سے استفادہ کرکے تفکر شیعہ کو زندہ کیا اور تشیع بالیدگی اور ترقی کے راستے پر گامزن ہوا اور تشیع کے پیروکاروں میں اضافہ ہوا. «سدیر صیرفی» امام صادق علیہ السلام کے اعوان و اصحاب میں سے تھے اور تشیع کی عددی افزودگی دیکھ کر ان پر وجد و ہیجان کی کیفیت طاری ہوئی اور امام صادق علیہ السلام کی خدمت میں سرور و شادمانی کا اظہار کرتے ہوئے عرض کیا: لگتا ہے کہ نصف دنیا نے تشیع اختیار کیا ہے.(9) اس زمانے میں شام و مصر وفلسطین اور ایران کے بہت سے بڑے صوبوں کے عوام نے مذہب تشیع اختیار کیا تھا.
سوال: بنو امیہ نے اہل بیت (ع) اور پیروان اہل بیت (ع) پر مظالم کے پہاڑ توڑ دئیے تھے؛ کیا تشیع کے پیروکاروں کی جمعیت میں اضافے کا بنو امیہ کے تسلط کے خاتمے میں کوئی کردار تھا؟
جواب: حقیقت یہ ہے کہ بنو عباس نے مکر و حیلہ کرکے اہل بیت (ع) کا حق انہیں لوٹانے اور اہل بیت (ع) کے خون کا بدلہ لینے کا نعرہ لگا کر بنو امیہ کے خلاف اپنی تحریک کا آغاز کیا تھا اور ایسا انہوں نے اس لئے کیا تھا کہ وہ دیکھ رہے تھے کہ جہان اسلام میں شیعیان اہل بیت (ع) کی تعداد و آبادی میں اضافہ ہورہا ہے اور مسلم امہ اس مرحلے میں اہل بیت (ع) کے حقوق کے احیاء اور ان کے خون کا بدلہ لینے کے حوالے سے بنو امیہ کے خلاف ان کے ساتھ تعاون کرے گی چنانچہ اہل تشیع کی آبادی میں اضافہ بنوامیہ کی بادشاہت کے زوال کا اہم ترین سبب گردانا جاتا ہے.
یہ سلسلہ بنو عباس کے دور میں بھی جاری رہا اور امام صادق (ع) اور امام موسی کاظم و دیگر امامان معصوم علیہم السلام کی قید و بند و شہادت کی وجہ بھی یہی تھی کہ بنو عباس کے بادشاہ ان کے پیروکاروں کی کثرت اور ان کی منطق و علم و دانش کی قوت سے خائف رہتے تھے.
مأمون عباسی نے اپنے بھائی امین کے خلاف قیام کرکے بھی اہل تشیع کو وعدے دے کر ان کا تعاون حاصل کیا اور جب مأمون نے اپنے بھائی کو قتل کر ڈالا اور اقتدار پر قبضہ کیا تو حجاز و عراق و ایران کے شیعوں کی تحریکوں سے چھٹکارا پانے کے لئے اس نے امام علی ابن موسی الرضا علیہ السلام کو مکر و فریب اور دھونس دھمکی کے ذریعے امام رضا علیہ السلام کو ولیعہدی کا عہدہ سونپنے کا ارادہ کیا. چنانچہ اس نے امام علیہ السلام کو مدینہ سے اپنے دارالخلافہ «مرو = Marv» بلوایا مگر امام علیہ السلام نے ولیعہدی کا عہدہ بادل ناخواستہ قبول کرنے کے باوجود ایسے متعدد اقدامات کئے جن کی بنا پر مأمون اپنے مقصد میں ناکام ہوا. مآمون امام کو ولیعہد بنا کر دو مقاصد حاصل کرنا چاہتا تھا:
1- شیعہ تحریکوں کا خاتمہ ہو اور سادہ دل شیعہ بنوعباس کی بادشاہت کو اپنی بادشاہت کے طور پر قبول کریں.
2- اہل دانش و فکر شیعہ امام علیہ السلام سے بدظن ہوجائیں اور تشیع کی وسعت و ترقی کا سلسلہ رک جائے.
مگر امام علیہ السلام نے پہلے مرحلے میں مأمون کی طرف سے خلافت کی پیشکش کے جواب میں فرمایا: اگر یہ حکومت واقعی خلافت الہیہ ہے جو تمہیں سونپ دی گئی ہے تو تمہیں یہ حق کس نے دیا ہے کہ تم اسے دوسروں کی سپرد کردو؟ اور اگر ایسا نہیں ہے اور یہ خلافت تمہاری نہیں ہے اور تم نے اس پر قبضہ کیا ہے تو یہ حق تم کو کس نے دیا ہے کہ پرائی چیز پر قابض ہوکر اسے دوسروں کے حوالے کردو؟
اور جب امام علیہ السلام نے یہ عہدہ قبول کیا تو یہ شرط لگا دی کہ: میں کسی کو منصوب نہ کروں گا اور کسی کو معزول نہ کروں گا اور سرکاری امور میں مداخلت نہیں کروں گا.
امام علیہ السلام نے ہر موقع و مناسبت سے اپنا موقف بیان کیا اور پھر مأمون نے امام علیہ السلام کے علم و امامت کو داغدار کرنے کی غرض سے مختلف مذاہب کے علماء کے ساتھ آپ (ع) کے مناظرے کرائے جو امام علیہ السلام کی مکمل کامیابی پر ختم ہوئے اور یوں تشیع کے پیروکاروں میں روز بروز اضافہ ہوتا گیا اور یہ سلسلہ متوکل عباسی کے دور تک جاری رہا. متوکل عباسی نے اپنے دور میں تشیع کے خلاف اموی طرز عمل اپنایا اور اہل تشیع کی سرکوبی کی پالیسی پر گامزن ہوا مگر عباسی بادشاہوں کا یہ طرز عمل ایران اور عراق پر آل بویہ اور دیلمی شیعہ حکمرانوں کی حاکمیت کے آغاز پر ہی ختم ہوا. آل بویہ کیے دور میں تشیع کو کافی وسعت ملی اور غزنوی دور میں بھی یہ سلسلہ جاری رہا مگر جب شدت پسندانہ سنی رویّے کے حامل ترک سلجوقیوں کی سلطنت کا آغاز ہوا تو سلجوقیوں نے تشیع کے پیروکاروں کی سرکوبی کے اموی اور عباسی سلسلے کا از سرنو آغاز کیا.
سلجوقیوں کیے خلاف کئی شیعہ تحریکیں اٹھیں جن میں بعض تحریکیں کامیاب بھی ہوئیں؛ مثلاً مصر میں فاطمی سلاطین کی بادشاہت قائم ہوئی جو شمالی افریقہ تک پہیل گئی اور یہ حکومت کئی صدیوں تک جاری رہی. فاطمی سلاطین نے ہی جامعة الازہر کی بنیاد رکھی اور مصر و افریقہ میں علمی تحریک کا آغاز کیا مگر یہ حکومت فاطمی سلاطین کے ایک سنی سپہ سالار صلاح الدین ایوبی کے ہاتھوں زوال پذیر ہوئی اور صلاح الدین نے مصر و فلسطین، شام و ترکی اور شمالی افریقہ میں تشیع کی سرکوبی کا سلسلہ شروع کیا جس کی وجہ سے تشیع زیر زمین چلاگیا اور آج کے علوی شیعہ اسی گھٹن کے دور کی پیداوار ہیں جنہیں صرف اتنا معلوم ہے کہ وہ علی علیہ السلام کو ماننے والے ہیں اور درحقیقت انہیں شیعہ فقہ و تاریخ سے کوئی واقفیت حاصل نہیں ہے.
فاطمیوں کے ساتھ ساتھ ایران کے شمالی علاقے طبرستان [آج کے گلستان، مازندران اور گیلان] میں سادات علوی کی حکومت قائم ہوئی اور خراسان کے سنی منگولوں کے خلاف شیعہ علماء کی قیادت میں «سربداران» کی تحریک نے بعد کی صدیوں میں تشیع کی ترقی میں اہم کردار ادا کیا.
شیعہ علماء نے اس حوالے سے نہایت اہم کردار ادا کیا اور جب ایران پر چنگیز کے سنی پوتوں کی حکمرانی تھی تو وہ بعض فقہی مسائل کے سلسلی میں سنی مکاتب کے علماء کے جوابات سے مطمئن نہ ہوئے چنانچہ انہوں نے عراق کے شیعہ علماء سے ان مسائل کے بارے میں استفسار کیا. اس عہد کے مشہور و معروف شیعہ مرجع تقلید علامہ یوسف بن مطہر حلی رحمة اللہ نے انہیں شیعہ فقہ کے مطابق جوابات دئیے جس کے نتیجے میں ایران کے گیارہویں مغل بادشاہ «سلطان خدا بندہ» نے سنہ 709 ہجری میں مذہب تشیع اختیار کیا اور ایران میں پہلی بار تشیع نے سرکاری مذہب کی حیثیت حاصل کرلی اور 907 ہجری میں صفویوں کی بادشاہت کا آغاز ہوا تو ایران میں تشیع کو مزید تقویت ملی اور مکتب امامت ایران کے ملک گیر مکتب میں تبدیل ہوا اور اسی دور (سنہ 709 ہجری) سے آج تک ایران کا سرکاری مذہب تشیع ہے.(10)
اہل تشیع کے اصول عقائد:
شیعہ توحید و نبوت و معاد کے علاوہ عدل الہی اور امامت کو اصول دین قراردیتے ہیں اور ان اصولوں میں تقلید کو جائز نہیں سمجھتے بلکہ ان اصولوں میں تحقیق کے قائل ہیں. رسول اللہ (ص) کو خاتم النبیین مانتے ہیں اور انکار ختم نبوت کو اسلام سے خارج ہونے کا عقیدہ رکھتے ہیں؛ رسول اللہ (ص) کے بعد اہل تشیع کے بارہ امام ہیں جن کے قول و فعل میں فرق نہیں ہے اور ان کے تعدد کی وجہ سے فرقے نہیں بنتے بلکہ سب کے سب ایک ہی دین کے شارح و مفسر اور ایک ہی مذہب کے امام ہیں.
بارہ امام:
1- حضرت امام علی علیہ السلام
2- حضرت امام حسن علیہ السلام
3- حضرت امام حسین علیہ السلام
4- حضرت امام علی زین العابدین علیہ السلام
5- حضرت امام محمد باقر علیہ السلام
6- حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام
7- حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام
8- حضرت امام علی بن موسی الرضا علیہ السلام
9- حضرت امام محمد تقی الجواد علیہ السلام
10- حضرت امام علی النقی آلہادی علیہ السلام
11- حضرت امام حسن الزکی العسکری علیہ السلام
12- حضرت امام قائم المہدی علیہ السلام
شیعہ تفکر کے مطابق ائمہ علیہم السلام رسول اللہ کی طرح معصوم ہیں. تقیہ سنت رسول اللہ ہے جس پر آپ(ص) نے دعوت اخفاء کے دوران اور دعوت ذوالعشیرہ سے پہلے تین سال تک عملدرآمد کیا اور شیعہ مکتب میں تقیہ ایک بنیادی حکم ہے؛ شیعہ بداء و رجعت رسول و ائمہ (ع) کے قائل ہیں جن کی تفصیل دیکھیں گے تو دلیلیں بھی دیکھنے کو ملیں گی.
شیعہ مکتب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور ائمہ معصومین علیہم السلام کی احادیث کے مطابق امام دوازدہم غائب ہیں جو مشیت الہیہ کے مطابق ظہور فرمائیں گے اور دنیا کو اسی طرح عدل و انصاف سے بھردیں گے جس طرح کہ یہ ظلم و ستم سے بھرگئی ہے.(11)
شیعه مکتب کی ہاں فروع دین دس ہیں جو قرآن و حدیث سے مأخوذ ہیں:
1. نماز
2. روزہ
3. حج
4. زکواة
5. خمس
6. جہاد
7. امر بالمعروف
8. نہی عن المنکر
9. تولّی
10. تبرّی
فروع دین میں اجتہاد و تحقیق کا باب الی الابد کھلا ہے اور شیعہ محدثین و فقہاء کو ہی اجتہاد کا حق حاصل ہس مگر اجتہاد تشیع کس ہاں قرآن و سنت و عقل و اجماع پر مبنی ہے اور اجماع بھی صرف اسی وقت حجت ہے کہ معصوم (ع) کے قول کا انکشاف کرے. فروع دین کا انکار کفر ہے اور ان میں جامع الشرائط مجتہد کی تقلید واجب ہے.
موضوع سے خارج ایک واقعہ صرف طراوت ایمان کی خاطر
خاندان علی کی اولویت پر مأمون کا اعتراف
ایک روز مأمون نے منصوبہ بنایا کہ امام رضا علیہ السلام سے اقرار کرادے کہ عباسی اور علوی دونوں پیغمبر(ص) کی قرابت کے حوالے سے یکسان درجے کے حامل ہیں؛ تا کہ اس طرح بزعم خویش ثابت کردے کہ اس کے اسلاف کی خلافت صحیح اور حق ہے. لیکن بحث کا نتیجہ برعکس ہؤا اور امام علیہ السلام نے مأمون سے اقرار کروایا کہ علوی رسول اللہ (ص) کے قریب تر ہیں چنانچہ مأمون اور اس کے اسلاف کی اپنی رائے کے مطابق خلافت بھی علویوں کے پاس ہونی چاہئے اور یہ کہ عباسی غاصب اور جارح تھے. ماجرا کچھ یوں تھا کہ ایک روز مأمون اور امام رضا علیہ السلام سیر کو نکلے تھے؛ مأمون نے امام رضا علیہ السلام سے مخاطب ہوکر کہا:
اے ابالحسن! میری اپنی ایک سوچ ہے اور آخر کار اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ یہ سوچ درست بھی ہے. اور وہ سوچ یہ ہے کہ ہم اور آپ (عباسی اور علوی) رسول اللہ (ص) کی قرابت کے حوالے سے یکسان ہیں. چنانچہ ہمارے شیعیان (شیعیان بنی عباس اور شیعیان علی (ع)) کے درمیان سارے اختلافات تعصب اور کوتہ اندیشی پر مبنی ہیں...
امام (ع) نے فرمایا: تمہاری اس بات کا جواب موجود ہے اور اگر چاہو تو بتاؤں گا ورنہ خاموش رہنا پسند کروں گا.
مأمون نے اصرار کیا: میں بھی سننا چاہتا ہوں کہ آپ اس مسئلے کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟
امام نے سوال اٹھایا کہ: یہ بتاؤ کہ اگر اسی وقت رسول اللہ (ص) ظاہر ہوجائیں اور تم سے تمہاری بیٹی کا رشتہ مانگیں تو کیا تم یہ رشتہ دوگے یا نہیں؟
مأمون نے کہا: سبحان اللہ میں یہ رشتہ ضرور قبول کروں گا کیا کوئی رسول اللہ (ص) کا رشتہ رد کرسکتا ہے؟
امام علیہ السلام نے فورا فرمایا: اچھا یہ بتاؤ کہ کیا رسول اللہ (ص) مجھ سے میری بیٹی کا رشتہ مانگ سکتے ہیں؟
مأمون دریائے سکوت میں ڈوب گیا اور پھر خود ہی اقرار کیا: ہاں خدا کی قسم! آپ ہماری نسبت رسول اللہ سے کہیں زیادہ قریب ہیں۔ (12)
مآخذ:
1. توضیح الملل، ج 1، ص 191.
2. سوره بینه (98) آیات 7 و 8.
3. سیوطى، تفسیر در المنثور، ج 8، ص 538.
4. سیوطى، تفسیر در المنثور، ج 8، ص 538.
5. اعیان الشیعہ، سید محسن امینى، ج 1، ص 20.
6. المسند للطیالسی ص 84.
7. اعیان الشیعہ، سید محسن امینى، ج 1، ص29.
8. اعیان الشیعہ، سید محسن امینى، ج 1، ص30.
9. کلینى، اصول کافى، ج 2، س 242 و 243.
10. مزید جاننے کے لئے رجوع کریں: علامه طباطبایى، شیعہ در اسلام، ص 27 - 75.
11. مزید جاننے کے لئے رجوع کریں: شیعہ در اسلام ، ص 117 - 239؛ على ربانى گلپایگانى، فرق و مذاهب کلامى، ص 137 - 162 و محمد جواد مشکور، مقدمه ترجمه فرق الشیعہ نوبختى، ص 137 - 154.
12.كنز الفوائد، كراجكي/ص 166 ـ الفصول المختارة من العيون و المحاسن/ص 15 و 16 ـ بحار/49/ص 188 ـ مسند الامام الرّضا/1/ص 100.
source : http://abna.ir/data.asp?lang=6&Id=120552