اردو
Thursday 14th of November 2024
0
نفر 0

جھوٹی گواہی

انیسواں ایسا گناہ جس کے کبیرہ ہونے کی صراحت موجود ہے، جھوٹی گواہی دے دینا ہے۔ حضرت عبدلعظیم نے امام تقی علیہ السَّلام سے جو روایت نقل فرمائی ہے اس سے بھی یہی بات ثابت ہے۔ فضل ابن شاذان نے امام علی رضا علیہ السَّلام سے بھی ایسی ہی روایت نقل کی ہے۔ اور اعمش نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السَّلام سے گناہانِ کبیرہ کی جو فہرست حاصل کی ہے اس سے بھی جھوٹی گواہی کا گناہِ کبیرہ ہونا ثابت ہے۔ جھوٹ کے موضوع میں پہلے ہی ذکر ہوچکا ہے کہ جھوٹ ایک گناہِ کبیرہ ہے اور اسی کی ایک شاخ جھوٹی گواہی ہے۔

حضرت عبدالعظیم نے جو صحیح روایت نقل فرمائی ہے اس میں امام علیہ السَّلام نے جھوٹی گواہی کے گناہِ کبیرہ ہونے کی دلیل کے طور پر مندرجہ ذیل آیت بیان فرمائی تھی: وَالَّذِیْنَ لَا یَشْھَدُوْن الزُّوْر (سورئہ فرقان ۲۵: آیت ۷۲) یعنی "اور جو لوگ جھوٹی گواہی نہیں دیتے (ایسے ہی لوگوں کی جزاء جنت کے اعلیٰ درجات ہیں)" اس آیت میں لفظ "ذُوْر" کے معنٰی ہے۔ "باطل کو حق ظاہر کرنا"

ایک اور جگہ ارشاد ہے کہ

" فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْاَوْثَانِ وَاجْتَنِبُواقَوْلَ الزُّورِ(سورئہ حج ۲۲: آیت ۳۰)

یعنی" بتوں کی پرستش سے بچو اور جھوٹی بات کہنے سے بچو۔"

حضرت رسولِ خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ) فرماتے ہیں: عَدَلَتْ شَھَادَةُ الزُّوْرِ الشِّرْکَ بِاللهِ " جھوٹی گواہی دینا کسی کو خدا کا شریک قرار دیے دینے کے برابر ہے!" تفسیر ابوالفتح رازی میں لکھا ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے یہ جملہ مسلسل تین مرتبہ ارشاد فرمایا اور پھر یہ (سورئہ حج ۲۲: آیت ۳۰والی) آیت تلاوت فرمائی۔

ایسی ہی مستدرک الوسائل میں حضرت امام محمد باقر علیہ السَّلام سے بھی حدیث منسوب ہے کہ : خداوند تعالیٰ نے قرآنِ مجید میں جھوٹی گواہی کو شرک کے مساوی قرار دیا ہے!" یعنی بتوں سے پرہیز کرنے کے بیان کے ساتھ ہی جھوٹ اور جھوٹی گواہی سے بھی پرہیز کا حکم آیا ہے۔

"قولِ زور" سے مراد غنا اور جھوٹ

ابھی جو روایتیں ذکر ہوئی ہیں ، اُن سے ظاہر ہوتا ہے کہ قرآنِ مجید میں جہاں لفظِ "زُور" آیا ہے، اس سے مراد "جھوٹ" ہے۔ جب کہ ایسی ہی آیتیں غنا اور گانے کے موضوع میں بھی آچکی ہیں اور لفظ "زور" کے معنی بعض روایتوں کی رو سے غنا یا گانے بجانے کے بھی ہیں۔ ان دونوں قسموں کی روایتوں میں کوئی تضاد نہیں ہے۔ دراصل لفظ "زور" ہر باطل اور ناپسندیدہ چیز کو کہتے ہیں۔ اور ان میں سرِ فہرست گانے بجانے کے علاوہ جھوٹ اور جھوٹی گواہی بھی ہے۔

جھوٹی گواہی دینے والے پر عذابِ جہنم

حضرت امام با محمد باقر علیہ السَّلام کا ارشاد ہے: مَا مِنْ رَجُلٍ یَّشْھَدُ بِشَھَادَةِ ذُوْرٍ عَلیٰ مَالِ رَجُلٍ مُّسْلِمٍ لِیَقْطَعَہُ اِلَّا کَتَبَ اللهُ لَہُ مَکَانَہُ صَکاًّ اِلَی النَّارِ (کتابِ کافی) "جب کوئی شخص کسی مسلمان آدمی کا مال اس سے چھین لینے کے لئے جھوٹی گواہی دیتا ہے تو خدا اُسی وقت اس جھوٹی گواہی دینے والے کے لئے سخت شعلوں والی آگ کا عذاب لکھ دیتا ہے!"

حضرت امام جعفر صادق علیہ السَّلام فرماتے ہیں: شَاھِدُ الزُّوْرِ لَا تَزُوْلُ قَدَمَاہُ حَتَّی تَجِبَ لَہُ النَّارُ (کتاب "کافی") "جھوٹی گواہی دینے والا آدمی ایسی گواہی دینے کے بعد اپنی جگہ سے قدم نہیں بڑھا پاتا کہ اس پر جہنم واجب ہو جاتا ہے۔"

قَالَ رَسُوْلُ اللهِ لَا یَنْقَضِی کَلَامُ شَاھِدِ الزُّوْرِ مِنْ بَیْنِ یَدَیِ الْحَاکِم حَتَّی یَتَبَوَّءَ مَقْعَدُہُ مِنَ النَّارِ (کتاب "کافی") حضرت رسول اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے فرمایا: حاکم کے سامنے جھوٹی گواہی دینے والے کی گواہی ابھی پوری بھی نہیں ہوتی کہ اس کا ٹھکانا جہنم میں طے پاجاتا ہے۔"

آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ) کا ارشاد ہے کہ (قَالَ) مَنْ شَھِدَ شَھَادَةَ زُوْرٍ عَلٰٓی اَحَدٍ مِّنَ النَّاسِ عُلِّقَ بِلِسَانِہ مَعَ الْمُنَا فِقیْنَ فِیْ الدَّرْکِ الْاَسْفَلِ مِنْ النَّارِ "کسی بھی انسان کے خلاف جو شخص جھوٹی گواہی دے گا اسے جہنم کے سب سے نچلے طبقے میں منافقوں کے ساتھ اس کی زبان سے لٹکا دیا جائے گا۔" وَمن حَبسَ مِنْ اَخِیْہِ الْمُسْلِمِ شَیْاً مِّنْ حَقِّہ حَرَّمَ اللهُ عَلَیْہِ بَرَکَةَ الرِّزقِ اِلَّا اَنْ یَّتُوْبَ (وسائل الشیعہ) "اور جو شخص اپنے مسلمان بھائی کا کوئی حق ضبط کرے گا تو خدائے تعالیٰ اس وقت تک اس کے رزق سے برکت ہٹا لے گا جب تک کہ وہ توبہ نہ کرے۔"

حضرت امام محمد باقر علیہ السَّلام رسولِ خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی یہ حدیث نقل فرماتے ہیں کہ ( عَنْ اَبیْ جَعْفَرٍ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللهِ) مَنْ کَتَمَ شَھَادَةً اَوْشَھِدَ بِھَا لِیَھْدِ رَبِھَادَمُ امْرِءٍ مُّسْلِمٍ اَوْ لِیَزْوِیَ بِھَا مَالَ امْرِءٍ مُّسْلِمٍ اَتیٰ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ وَلِوَجْھِہ ظَلَمَةُ مَدَّ البَصَرِ وَفِیْ وَجْھِہ کُدُوْحُ تَعْرِفُہُ الْخَلائِقُ بِاسْمِہ وَنَسَبِہ (وسائل الشیعہ، گواہی کے ابواب ، باب۲) یعنی "جو شخص شرعی حاکم کے سامنے گواہی چھپائے گا یا کسی مسلمان آدمی کا خون بہانے یا اس کا مال چھین لینے کی نیت سے جھوٹی گواہی دے گا وہ قیامت کے دن اس حال میں محشور ہوگا کہ اس کی آنکھوں کے سامنے حدِّ نگاہ تک اندھیرا ہی اندھیرا ہوگا اور اس کے چہرے پر خراشیں لگی ہوں گی اور لوگ اُسے اس نام اور نسب سے پہچانیں گے۔

آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ) ہی کا یہ ارشاد ہے (قَالَ) اَلَآ اُنَبِّئکُمْ بِاَلْبَرِ الْکبائِرِ؟ کیا میں تمہیں سب سے بڑا گناہِ کبیرہ بتاؤں؟" قُلْنابَلیٰ یَا رَسُوْلَ اللهِ اصحاب کہتے ہیں کہ ہم نے کہا "کیوں نہیں اے الله کے رسول!" قَالَ اَلْاِشْرَاکُ بِااللهِ تعالیٰ وَعُقُوْقُ الْوَالِدَیْنِ "خدائے تعالیٰ کا کسی کو شریک قرار دے دینا اور والدین کے ہاتھوں عاق ہو جانا۔" وَکَانَ مُتّکِاً فَجَلَسَ ثُمَّ قَالَ آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ) آرام سے ٹیک لگائے ہوئے تھے کہ اٹھ بیٹھے اور فرمایا: اَلَا وَقَوْلُ الزُّوْرِ "آگاہ ہوجاؤ اور ہر جھوٹی بات بھی سب سے بڑا گناہِ کبیرہ ہے!"

راوی کہتے ہیں کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے جھوٹ کی مذمت میں اتنی بار تاکید کی تھی کہ ہم سوچتے تھے کہ اے کاش وہ اتنی تاکید نہ فرماتے۔ (مستدرک الوسائل)

ظاہر ہے قَوْل زُوْر میں یا ہر جھوٹی بات میں جھوٹی گواہی بھی شامل ہے اور رسولِ خدا نے اسے ایک سب سے بڑے گناہِ کبیرہ قرار دیا ہے۔ ایک تو خود جھوٹ گناہِ کبیرہ ہے۔ دوسرے ایک مسلمان پر بہتان بھی جھوٹی گواہی میں ہوتا ہے۔ بہتان بھی گناہِ کبیرہ ہے۔ تیسرے یہ کہ جھوٹی گواہی کی بنیاد پر کسی مظلوم پر ظلم ہو جاتا ہے اور ظلم خود ایک گناہِ کبیرہ ہے۔ اس کے علاوہ یہ ہے کہ جھوٹی گواہی کے ذریعے آدمی نا جائز مال کو اپنے لئے ظاہری طور پر جائز ثابت کرنا چاہتا ہے۔ حرام خدا کو حلال ظاہر کرنا خود ایک گناہِ کبیرہ ہے، اور دوسروں کا حق غضب کرنا بھی ایک گناہِ کبیرہ ہے۔ بہر حال بات سمجھ میں آتی ہے کہ جھوٹی گواہی اس لئے ایک سب سے بڑا گناہِ کبیرہ ہے کہ یہ کئی گناہانِ کبیرہ کا مجموعہ ہے۔

کسی چیز کا علم ہونے کے بعد گواہی دی جائے

جھوٹی گواہی دینے کے سلسلے میں فرق نہیں ہے کہ آدمی جھوٹ کو جھوٹ جانتے ہوئے جھوٹی گواہی دے یا بغیر یقین کے یونہی گواہی دے ڈالے جو حقیقت میں جھوٹی ہو۔ یہ بھی گناہِ کبیرہ ہے۔ آدمی پر واجب ہے کہ وہ اس وقت گواہی نہ دے جب تک اسے اپنے سچّا ہونے کا یقین نہ ہو۔

حضرت امام جعفر صادق علیہ السَّلام فرماتے ہیں : لَا تَشْھَدْ بِشَھَادَةٍ حَتَّی تَعْرِفَھَا کَمَا تَعْرِفُ کَفَّکَ (وسائل الشیعہ) " اس وقت تک کوئی گواہی مت دو جب تک کہ تمہیں اس کے بارے میں ایسا یقین حاصل نہ ہو جیسا یقین تمہیں اپنی ہتھیلی کے وجود کے بارے میں ہے۔"

وَقَالَ النَّبِیُّ لِمَنْ سَأَلَہُ عَنِ الشَّھَادَةِ ایک شخص نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ و آلہ) سے گواہی دینے یا نہ دینے کے بارے میں پوچھا تو آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے فرمایا: تَرَی الشَّمْسَ؟ "کیا تم سورج کو دیکھ رہے ہو؟ " قَالَ نَعَمْ اس شخص نے عرض کیا "جی ہاں!" فَقَالَ پھر آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے فرمایا: اَلَا مِثْلِھَا فَشْھَدْ اَوْدَعْ (وسائل الشیعہ ، گواہی کے ابواب ، باب ۲۰)" ایسی سورج کی سی گواہی دے دیاکرو، اور اگر ایسا آنکھوں دیکھایا اس جیسا یقین نہ ہوتو گواہی مت دو"

اور حضرت امام محمد باقر علیہ السّلام کا ارشاد ہے : لَیُوٴَدِّ الشَّا ھِدُ مَا یَشْھَدْ عَلَیْہ وَلْیَتّقِ اللّٰہَ رَبَّہ فَمَنِ الزُّوْرِاَنْ عَّشْھَدَ الرَّجُلُ بِمَا لَا یَعْلَمُ اَوْ یُنْکِرَمَا یَعْلَمُ "گواہ کو صرف وہی گواہی دینی چاہیئے جو وہ یقین سے جانتا ہو۔ اسے اپنے پروگرام یعنی الله سے ڈرتے رہنا چاہیئے۔ زُوْر (جھوٹی بات) یہ بھی ہے کہ آدمی یقین کے بغیر ہی گواہی دے ڈالے یا ایک چیز کایقین ہے مگر وہ اس سے انکا ر کربیٹھے ۔"وَقَدْ قَالَ اللّٰہُ عَزَّوجَلَّ وَاجْتَنِبُواْ قُوْلَ الزُّوْرِ حُنَفَآءَ لِلّٰہِ غیْرَ مُشْرِکِیْنَ بِہ " خدائے عزّوجل فرماتا ہے کہ ہر جھوٹی بات سے پرہیز کرو ۔خداکی خاطر خود کو برائیوں سے پاک رکھو اور شرک نہ کرو۔" فَعَدَلَ تَبَرَکَ اسْمُہ شَھَا دَةَ الزُّوْرِ بِا لشِرْکِ(مستدرک الوسائل) " پس خدا ونِد تعالیٰ نے جھوٹی گواہی کو شرک کے ہم پلہ قرار دے دیا ہے!"

جھوٹی گوا ہی دینے والے کی رسوائی

ہوتا یہ ہے کہ شرعی حاکم کے پاس اگر گواہ اپنی گواہی کے جھوٹے ہونے کا اقرار کر بیٹھے تو یہ دیکھا جاتا ہے کہ آیا اس نے جان بوجھ کر جھوٹ کو جھوٹ سمجھتے ہوئے گواہی دی تھی یا نہیں۔ اگر اس نے عمداً جھوٹی گواہی دی تھی تو اس کوفاسق قرار دے دیا جاتا ہے ۔ لیکن اگر خطا اور اشتباہ کا احتمال ہو تو گواہ کو فاسق شمار نہیں کیا جاتا۔ یعنی بعد میں بھی اس کی گواہی قابل ِقبول نہیں رہتی ۔ خواہ گواہ فاسق شمار ہویا نہ ہو، دونوں صورتوں میں اگر اس کی تلافی کرنا گواہ پر واجب ہوجاتا ہے ۔ مزید تفصیلات فقہی کتابوں میں دیکھی جاسکتی ہیں ۔

گواہی کے جھوٹے ثابت ہونیکا ایک طریقہ خود اقرار ہے یعنی گواہ اپنی گواہی کے جھوٹا ہونے کا اقرار کرے۔ گواہی کے جھوٹے ثابت ہونے کا دوسرا طریقہ بَیِّنہ کہلاتا ہے۔ یعنی دو عادل آدمی گواہ کے خلاف گواہی دیں تو بھی گواہی کا جھوٹا ہونا ثابت ہوجاتا ہے۔ ان دونوں طریقوں کے علاوہ بھی گواہ کو جھوٹا قرار دینے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ شرعی حاکم کو کسی بنیاد پر یقین ہوجائے کہ گواہ نے دھوکہ کیا ہے اور جھوٹبولا ہے۔ پس اپنے یقین کی بنیاد پر حاکمِ شرع گواہ کو مستر دکردے گا۔ اگر جھوٹی گواہی کی وجہ سے کسی کو نقصان ہوا ہے تو گواہ سے اس کا عوض دلوائے گا، اور گواہ کو تعزیر کرے گا۔ یعنی ڈانٹے گایا جس حد تک مصلحت ہو کوڑے مارے گا تاکہ آئندہ وہ جھوٹی گواہی سے بازرہے۔ حاکمِ شرع والا ہے تاکہ کوئی شخص اس کی گواہی سے دھوکہ نہ کھائے اور کسی سلسلے میں اس پراعتماد نہ کرے ۔ اس طرح جوٹی گواہی دینے والا شخص معاشرے میں رسوا ہوکر رہ جاتا ہے اور اس طرح معاشرے کا نظام محفوظ ہوجاتاہے ۔ تعزیر اور گواہ کے خلاف اعلان عام دونوں صورتوں میں ہوتا ہے خواہ اس کی گواہی کی بنیاد پر حاکم شرع حکم سُنا چکا ہو یا نہیں۔

ان کی گواہی کو کبھی قبول نہ کیا جائے

حضرت امام جعفر صادق علیہ اسلَّام فرماتے ہیں : اِنَّ شُھُوْ دَ الزُّوْرِ یُجْلَدُوْنَ جَلْدًا لَیْسَ لُہ وَقْتُ ذٰلِکَ اِ لَی الِاْ مَامِ وَیُطَافُ بِھِمْ حَتَّی یَعْرِ فَھْمُ النّاسُ " جھوٹی گواہی دینے والوں کو ڑے لگائے جانے چاہئیں، اور کوڑوں کی تعداد معین کرنا امام علیہ السَّلام (یا حاکِم شرع) کی مرضی پر ہے اور جھوٹی گواہی دنے والوں کو شہر میں گھمایا جانا چاہیئے تاکہ لوگ ان کو اچھی طرح پہچان لیں (اور آئندہ ان پر بھروسہ نہ کریں ") پھر امام علیہ السَّلام نے یہ آیت شریفہ کی تلاوت فرمائی :وَلَا تَقْبَلُ لَھُمْ سُھَا دَةً اَبدًا وَ اُولٓئِکَ ھُمْ الْفَا سِقُوْنَ اِلّاَ الَّذِیْنَ تَابُوْا (سورئہ نور اایت نمبر ۴) اور پھر آئندہ کبھی ان کی گواہی قبول نہ کرو اور یا د رکھو کہ یہ لوگ فاسق ہیں ، ہاں مگر جن لوگوں نے اس کے بعد توبہ کرلی " (تو خدا بڑا مہربان ہے یعنی توبہ اور اصلاح کے بعد ان کی گواہی پھر قابلِ قبول ہے۔ ) روای کہتا ہے کہ قُلْتُ میں نے امام علیہ السَّلام سے دریافت کیا بِمَ یُعْرَفُ تَوْبَتُہ؟ "کس طرح معلوم ہوگا کہ اس نے توبہ کرلی ہے؟ "قَالَ یُکَذِّبُ نَفْسَہ عَلٰی رُوٴسِ الَا شُھَارِ حَیْثُ یُضْرَبُ وَیَسْتَغْفِرُ رَبَّہ فَاِذَا فَعَلَ ذٰلِکَ فَثَمَّ ظَھَرَتْ تُوْبَتُہ (وسائل الشیعہ ) " جس جگہ پر اس کو تعزیر کے سلسلے میں کڑے لگائے گئے ہوں وہیں وہ گواہوں کے مجمع کے سامنے اپنی گواہی کو جھوٹا قرار دے اور اپنے پروردگار سے مغفرت طلب کرے۔ جب وہ ایسا کرے گا تو اس طرح اس کی توبہ ظاہر ہوجائے گی۔

خسا رے کو پورا کرے

اگر جھوٹی گواہی کی وجہ سے کسی مسلمان کی جان مال یا عزت کا نقصان ہو ہو تو خود جھوٹے گواہ سے قصاص لیا جاتا ہے اور نقصان کی تلافی کی جاتی ہے ۔ جمیل نامی راوی حضرت امام جعفر صاد ق علیہ السَّلام سے جھوٹی گواہی دینے والے شخص کے بارے میں یہ صحیح روایت نقل کرتے ہیں انھوں نے فرمایا (قَالَ) اِنْ کاَنَ الشَّیْیٴُ قَآئِمًا بِعَیْنِہ رَوَّ عَلٰٰٰی صَاحِِبِہ، وَاِنْ لَّمْ یَکُنْ ضَمِنِ بِقَدْرِ مَآاَتْلَفَ مِنْ مَّالِ الرّجُلِ (کتاب مسالک ) یعنی " اگر چیز بعینہ باقی ہے تو اس ے مالک کو واپس لوٹادے ۔ اور اگر چیز باقی نہیں ہے تو جس حد تک اس نے دوسرے آدمی کا مال تلف کیا ہے اُس حد تک وہ (جھوٹاگواہ) ضامن ہے۔" یعنی وہ اسی جیسی دوسری چیز اصل مالک کو لا کردے گا یا اس کی قیمت ادا کریگا ۔ مزید معلومات کے لئے فقہی کتابو ں کا مطالعہ کیا جائے۔

اسِ گناہ سے توبہ

جھوٹی گواہی جِسے گناہِ کبیر ہ کی توبہ کا طریقہ بھی معلوم ہوگیا ۔ توبہ کرنے کے لئے ، خواہ وہ کسی گناہ کی ہو، آدمی کواپنے کئے پر پہلے سخت پشیمان ہوجانا چاہیئے۔ پروردگار سے اس کے حکم کی مخالفت پر استغفا ر کرنا چاہیئے، اور جس مسلمان کونقصان پہنچاہو۔ اس کی تلافی کردے۔ خدا وندِ تعالیٰ نے خود فرمایا ہے۔ اِلَّا الَّذِیْنَ تَابُوْا وَاَصْلَحُوْا فَاِنَّ اللّٰہَ غَفُورُ رِّحَیمُ (سورئہ نور ۲۴: آیت ۵)

ہاں مگر جو لوگ توبہ کر لیتے ہیں اور اپنی اصلاح کرلیتے ہیں (یامعاملے کی اصلاح کرلیتے ہیں اورتلافی کردیتے ہیں) تو خدا بڑا بخشنے والا اور مہربان


source : http://www.islaminurdu.com/chapter.php?chapterID=635
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

امام محمد باقر(ع) اور اسلامی سماج میں علمی تبدیلی
سبق آموز شادی
قرآن کریم میں گفتگو کے طریقے
قرآن کی نظر میں حضرت علی(علیہ السّلام) کا مقام
زندگی میں قرآن کا اثر
پھل اور فروٹ کی خصوصیات(حصہ ششم)
ائمہ طاہرين عليہم السلام سے منسوب دن کے اوقات کي ...
نیکی اور بدی کی تعریف
امام مہدی (عج) کے عقیدہ پر مسلمانوں کا اجماع
قرآن مجید کی آیات میں محکم اور متشابہ سے کیا مراد ...

 
user comment