اردو
Wednesday 13th of November 2024
0
نفر 0

حضرت امام محمد مھدی علیہ السلام

حضرت امام محمد مھدی علیہ السلاممام زمانہ حضرت امام مہدی علیہ السلام سلسلہ عصمت محمدیہ کی چودھوےںاورسلک امامت علویہ کی بارھوےں کڑی ہیں آپ کے والد ماجد حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام اور والدہ ماجدہ جناب نرجس( ۱) خاتون تھےں۔

آپ اپنے آباوٴاجدادکی طرح امام منصوص ،معصوم ،اعلم زمانہ اورافضل کا ئنات ہیں ۔آپ بچپن ہی میں علم وحکمت سے بھرپور تھے۔ (صواعق محرقہ ۲۴۱#  ) آپ کو پانچ سال کی عمرمیں وےسی ہی حکمت دے دی گئی تھی ،جےسی حضرت ےحےی کو ملی تھی اورآپ بطن مادرمیں اسی طرح امام قراردئےے گئے تھے،جس طرح حضرت عیسی علیہ السلام نبی قرارپائے تھے۔(کشف الغمہ ص ۱۳۰ ) آپ انبیاء سے بہترہیں ۔(اسعاف الراغبےن ص ۱۲۸) آپ کے متعلق حضرت رسول کرےم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بے شمار پےشےن گوئیاں فرمائی ہیں اوراس کی وضاحت کی ہے کہ آپ حضورکی عترت اورحضرت فاطمةالزہرا کی اولاد سے ہوں گے۔ ملاحظہ ہوجامع صغےرسیوطی ص ۱۶۰ طبع مصرومسند احمدبن حنبل جلد ۱ ص ۸۴ طبع مصروکنوزالحقائق ص ۱۲۲ ومستدرک جلد ۴ ص ۵۲۰ ومشکوة شرےف ) آپ نے یہ بھی فرمایاہے کہ امام مہدی کا ظہورآخرزمانہ میں ہوگا ۔اورحضرت عیسی ان کے پےچھے نماز پڑھےں گے ۔ملاحظہ ہو صحیح بخاری پ ۱۴ ص ۳۹۹ وصحیح مسلم جلد ۲ ص ۹۵ صحیح ترمذی ص ۲۷۰ وصحیح ابوداؤد جلد ۲ ص ۲۱۰ وصحیح ابن ماجہ ص ۳۴ وص ۳۰۹ وجامع صغےرص ۱۳۴ وکنوزالحقائق ص ۹۰) آپ نے یہ بھی کہاہے کہ امام مہدی میرے خلےفہ کی حیثیت سے ظہورکریں گے اور  ےختم الدےن بہ کما فتح بنا  جس طرح میرے ذرےعہ سے دےن اسلام کا آغاز ہوا ۔ اسی طرح ان کے ذرےعہ سے مہراختتام لگادی جائےگی ۔ ملاحظہ ہوکنوزالحقائق ص ۲۰۹ آپ نے اس کی بھی وضاحت فرمائی ہے کہ امام مہدی کا اصل نام میرے نام کی طرح محمد اورکنےت مےری کنےت کی طرح ابوالقاسم ہوگی وہ جب ظہورکریں گے توساری دنیاکو عدل وانصاف سے اسی طرح پرکردیں گے جس طرح وہ اس وقت ظلم وجورسے بھری ہوگی ۔ ملاحظہ ہو جامع صغےرص ۱۰۴ ومستدرک امام حاکم ص ۴۲۲ و ۴۱۵ ظہورکے بعد ان کی فورابیعت کرنی چاہےے کےونکہ وہ خداکے خلےفہ ہوں گے ۔ (سنن ابن ماجہ اردوص ۲۶۱ طبع کراچی ۱۳۷۷ ھج) ۔

حضرت امام محمد مہدی علیہ السلام کی ولادت باسعادت

مورخین کا اتفاق ہے کہ آپ کی ولادت باسعادت ۱۵ شعبان ۲۵۵ ھج ےوم جمعہ بوقت طلوع فجرواقع ہوئی ہے جےسا کہ (وفیات الاعیان ،روضة الاحباب ،تاریخ ابن الوردی ،ےنابع المودة،تاریخ کامل طبری ،کشف الغمہ ،جلاٴالعےون ،اصول کافی ، نور الا بصار ، ارشاد ، جامع  عباسی ، اعلام الوری ، اور انوار الحسینہ وغےرہ میں موجود ہے (بعض علماٴ کا کہنا ہے کہ ولادت کا سن  ۲۵۶ ھج اور ما دہ ٴ تاریخ نور ہے )یعنی آپ شب برات کے اختتام پر بوقت صبح صادق عالم ظھور وشہود میں تشریف  لائے ہیں  ۔

 ۱#   نرجس ایک ےمنی بوٹی کو کہتے ہیں جس کے پھول کی شعراٴ آنکھوں سے تشبیہ دےتے ہیں (المنجد ص ۸۶۵ ) منتہی الادب جلد ۴ ص ۲۲۲۷ میں ہے کہ یہ جملہ دخےل اورمعرب یعنی کسی دوسری زبان سے لایاگیا ہے ۔ صراح ص ۴۲۵ اورالعماط صدےق حسن ص ۴۷ میں ہے کہ یہ لفظ نرجس ،نرگس سے معرب ہے جوکہ فارسی ہے ۔رسالہ آج کل لکھنؤ کے سالنامہ ۱۹۴۷ کے ص ۱۱۸ میں ہے کہ یہ لفظ ےونانی نرکسوس سے معرب ہے ، جسے لاطےنی میں نرکسس اورانگےرےزی میں نرس سس کہتے ہیں ۔ ۱۲

حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کی پھوپھی جناب حکےمہ خاتون کا بیان ہے کہ ایک روز میں حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کے پاس گئتو آپ نے فرمایا کہ اے پھوپھی آپ آج ہمارے ہی گھر میںرہئے کےونکہ خداوندعالم مجھے آج ایک وارث عطافرماے گا ۔ میں نے کہاکہ یہ فرزند کس کے بطن سے ہوگا ۔آپ نے فرمایاکہ بطن نرجس سے متولد ہوگا ،جناب حکےمہ نے کہا :بےٹے!میں تونرجس میں کچھ بھی حمل کے آثارنہیں پاتی،امام نے فرمایاکہ اسے پھوپھی نرجس کی مثال مادرموسی جےسی ہے جس طرح حضرت موسی کاحمل ولادت کے وقت سے پہلے ظاہرنہیں ہوا ۔اسی طرح میرے فرزند کا حمل بھی بروقت ظاہرہوگا غرضکہ میں امام کے فرمانے سے اس شب وہیں رہی جب آدھی رات گذرگئی تومیں اٹھی اورنمازتہجدمیں مشغول ہوگئی اورنرجس بھی اٹھ کرنمازتہجدپڑھنے لگی ۔ اس کے بعدمیرے دل میں یہ خیال گذراکہ صبح قرےب ہے اورامام حسن عسکری علیہ السلام نے جوکہاتھا وہ ابھی تک ظاہرنہیںہوا ، اس خیال کے دل میں آتے ہی امام علیہ السلام نے اپنے حجرہ سے آوازدی :اے پھوپھی جلدی نہ کےجئے ،حجت خداکے ظہورکا وقت بالکل قرےب ہے یہ سن کرمیں نرجس کے حجرہ کی طرف پلٹی ،نرجس مجھے راستے ہی میں ملےں ، مگران کی حالت اس وقت متغےرتھی ،وہ لرزہ براندام تھیں اوران کا ساراجسم کانپ رہاتھا ،میں نے یہ دےکھ کران کواپنے سےنے سے لپٹالیا ،اورسورہ قل ھواللہ ،اناانزلنا واےة الکرسی  پڑھ کران پردم کیا  بطن مادرسے بچے کی آواز آنے لگی ،یعنی میں جوکچھ پڑھتی تھی ،وہ بچہ بھی بطن مادرمیں وہی کچھ پڑھتا تھا اس کے بعد میں نے دےکھا کہ تمام حجرہ روشن ومنورہوگیا ۔ اب جومیں دےکھتی ہوں تو ایک مولود مسعود زمین پرسجدہ میں پڑاہوا ہے میں نے بچہ کواٹھالیا حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام نے اپنے حجرہ سے آواز دی اے پھوپھی ! میرے فرزند کو میرے پاس لائےے میں لے گئےی آپ نے اسے اپنی گود میں بٹھالیا ،اورزبان دردھان دے کراوراپنی زبان بچے کے منہ میں دےدی اورکہا کہ اے فرزند !خدا کے حکم سے کچھ بات کرو ،بچے نے اس آیت : بسم اللہ الرحمن الرحےم ونرےدان نمن علی اللذےن استضعفوا فی الارض ونجعلھم الوارثین  کی تلاوت کی ، جس کا ترجمہ یہ ہے کہ ہم چاہتے ہیں کہ احسان کریں ان لوگوں پرجوزمین پرکمزورکردئےے گئے ہیں اور ان کوامام بنائےں اورانھےں کوروئے زمین کاوارث قراردیں ۔

 اس کے بعد کچھ سبزطائروں نے آکرہمیں گھےرلیا ،امام حسن عسکری نے ان میں سے ایک طائرکوبلایا اوربچے کودےتے ہوئے کہا کہ خدہ فاحفظہ الخ  اس کولے جاکراس کی حفاظت کرویہاںتک کہ خدا اس کے بارے میں کوئی حکم دے کےونکہ خدا اپنے حکم کوپورا کرکے رہے گآ میں نے امام حسن عسکری سے پوچھا کہ یہ طائرکون تھا اوردوسرے طائر کون تھے ؟ آپ نے فرمایا کہ جبرئےل تھے ،اوردوسرے فرشتگان رحمت تھے اس کے بعد فرمایاکہ اے پھوپھی اس فرزند کواس کی ماں کے پاس لے آوتاکہ اس کی آنکھےں خنک ہوں اورمحزون ومغوم نہ ہو اور یہ جان لے کہ خدا کاوعدہ حق ہے  واکثرھم لاےعلمون  لےکن اکثرلوگ اسے نہیں جانتے ۔ اس کے بعد اس مولود مسعود کو اس کی ماں کے پاس پہنچادیاگیا (شواہدالنبوة  ص ۲۱۲ طبع لکھنؤ ۱۹۰۵ ء علامہ حائری لکھتے ہیں کہ ولادت کے بعد آپ کو جبرئےل پرورش کے لئے اٹھاکرلے گئے (غایۃالمقصود جلد ۱   ص ۷۵) کتاب شواہدالنبوت اوروفیات الاعیان وروضةالاحباب میں ہے کہ جب آپ پےداہوے تومختون اورناف برےدہ تھے اورآپ کے داہنے بازوپریہ آیت منقوش تھی  جاء الحق وزھق الباطل ان الباطل کان زھوقا  یعنی حق آیا اورباطل مٹ گیا اورباطل مٹنے ہی کے قابل تھا ۔ یہ قدرتی طورپربحرمتقارب کے دومصرعے بن گئے ہیں حضرت نسےم امروہوی نے اس پرکیا خوب تضمےن کی ہے وہ لکھتے ہیں    #

ّ ٖ چشم وچراغ دےدہٴ نرجس     عین خداکی آنکھ کاتارا

بدرکمال نےمہٴ شعبان         چودھواں اختراوج بقاکا

حامی ملت ماحیٴ بدعت       کفرمٹانے خلق میں آیا

وقت ولادت ماشاء اللہ       قرآن صورت دےکھ کے بولا

جاء الحق وزھق الباطل        ان الباطل کان زھوقا

 محدث دہلوی شیخ عبدالحق اپنی کتاب مناقب ائمہ اطہارمیں لکھتے ہیں کہ حکےمہ خاتون جب نرجس کے پاس آئےں تودےکھا کہ ایک مولود پےداہوا ہے ،جومختون اورمفروغ منہ ہے یعنی جس کا ختنہ کیا ہوا ہے اورنہلانے دھلانے کے کاموں سے جومولود کے ساتھ ہوتے ہیں بالکل مستغنی ہے ۔ حکےمہ خاتون بچے کو امام حسن عسکری کے پاس لائیں ، امام نے بچے کولیا اوراس کی پشت اقدس اور چشم مبارک پرہاتھ پھےرا اپنی زبان مطہران کے منہ میں ڈالی اورداہنے کان میں اذان اوربائےں میں اقامت کہی یہی مضمون فصل الخطاب اوربحارالانوارمیں بھی ہے ، کتاب روضةالاحباب ےنابع المودة میں ہے کہ آپ کی ولادت بمقام سرمن رائے سامرہ میں ہوئی ہے ۔

 کتاب کشف الغمہ ص ۱۳۰ میں ہے کہ آپ کی ولادت چھپائی گئی اورپوری سعی کی گئی کہ آپ کی پےدائےش کسی کومعلوم نہ ہوسکے ، کتاب دمعہ ساکبہ جلد ۳ ص ۱۹۴ میں ہے کہ آپ کی ولادت اس لئے چھپائی گئی کہ بادشاہ وقت پوری طاقت کے ساتھ آپ کی تلاش میں تھا اسی کتاب کے ص ۱۹۲ میں ہے کہ اس کا مقصد یہ تھا کہ حضرت حجت کوقتل کرکے نسل رسالت کاخاتمہ کردے ۔ تاریخ ابوالفداٴ میں ہے کہ بادشاہ وقت معتزباللہ تھا ، تذکرہ خواص الامة میں ہے کہ اسی کے عہدمیں امام علی نقی کوزہردیاگیاتھا ۔ معتزکے بارے میں مورخےن کی رائے کچھ اچھی نہیں ہے ۔ ترجمہ تاریخ الخلفاٴ علامہ سیوطی کے ص ۳۶۳ میں ہے کہ اس نے اپنے عہد خلافت میں اپنے بھائی کوولی عہدی سے معزول کرنے کے بعد کوڑے لگوائے تھے اورتاحیات قےد میںرکھاتھا ۔ ا کثرتوارےخ میں ہے کہ بادشاہ وقت معتمد بن متوکل تھا جس نے امام حسن عسکری علیہ السلام کوزہرسے شہےد کیا ۔ تاریخ اسلام جلد ۱ ص ۶۷ میں ہے کہ خلےفہ معتمد بن متوکل کمزورمتلون مزاج اورعےش پسند تھا ۔ یہ عیاشی اورشراب نوشی میں بسرکرتاتھا ، اسی کتاب کے صفحہ ۲۹ میں ہے کہ معتمد حضرت امام حسن عسکری کوزہرسے شہےد کرنے کے بعدحضرت امام مہدی کوقتل کرنے کے درپے ہوگیاتھا ۔

آپ کا نسب نامہ

آپ کاپدری نسب نامہ یہ ہے محمد بن حسن بن علی بن محمد بن علی بن موسی ابن جعفربن محمدبن علی بن حسین بن علی وفاطمہ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، یعنی آپ فرزندرسول ،دلبند علی اورنورنظربتول علےھم السلام ہیں ۔ امام احمد بن حنبل کاکہناہے کہ اس سلسہٴ نسب کے اسماٴکو اگر کسی مجنون پردم کردیاجائے تواسے ےقےنا شفاحاصل ہوگی (مسندامام رضاص ۷) آپ سلسہٴ نسب ماں کی طرف سے حضرت شمعون بن حمون الصفاٴوصی حضرت عیسی تک پہنچتاہے ۔ علامہ مجلسی اورعلامہ طبرسی لکھتے ہیں کہ آپ کی والدہ جناب نرجس خاتون تھےں ، جن کاایک نام ”ملےکہ“ بھی تھا ،نرجس خاتون ےشوعا کی بےٹی تھےں ، جوروم کے بادشاہ” قےصر“ کے فرزند تھے جن کاسلسلہٴ نسب وصی حضرت عیسی جناب شمعون تک منتہی ہوتاہے ۔ ۱۳ سال کی عمرمیں قےصرروم نے چاہاتھا کہ نرجس کاعقد اپنے بھتےجے سے کردے لےکن بعض قدرتی حالات کی وجہ سے وہ اس مقصد میں کامیاب نہ ہوسکا، بالاخرایک اےسا وقت آگیا کہ عالم ارواح میں حضرت عیسی ، جناب شمعون حضرت محمد مصطفی ، جناب امیرالمومنین اورحضرت فاطمہ بمقام قصرقےصرجمع ہوئے ، جناب سےدہ نے نرجس خاتون کواسلام کی تلقےن کی اورآنحضرت صلعم نے بتوسط حضرت عیسی جناب شمعون سے امام حسن عسکری کے لئے نرجس خاتون کی خواستگاری کی ،نسبت کی تکمیل کے بعد حضرت محمد مصطفی صلعم نے ایک نوری منبرپربےٹھ کرعقد پڑھا اورکمال مسرت کے ساتھ یہ محفل نشاط برخواست ہوگئی جس کی اطلاع جناب نرجس کوخواب کے طورپرہوئی ، بالاخروہ وقت آیا کہ جناب نرجس خاتون حضرت امام حسن عسکری کی خدمت میں آپہنچےں اورآپ کے بطن مبارک سے نورخدا کاظہور ہوا۔ (کتاب جلاٴالعےون ص ۲۹۸ وغایۃ المقصود ص ۱۷۵) ۔

آپ کا اسم گرامی :

 آپ کانام نامی واسم گرامی ”محمد“ اورمشہورلقب ” مہدی “ ہے علماٴ کاکہنا ہے کہ آپ کانام زبان پرجاری کرنے کی ممانعت ہے علامہ مجلسی اس کی تائےد کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ  ”حکمت آن مخفی است “ اس کی وجہ پوشےدہ اورغےرمعلوم ہے ۔ (جلاٴالعےون ص ۲۹۸) علماء کابیان ہے کہ آپ کایہ نام خود حضرت محمدمصطفی نے رکھا تھا ۔ ملاحظہ ہو روضة الاحباب وےنابع المودة ۔ مورخ اعظم ذاکرحسین تاریخ اسلام جلد ۱ ص ۳۱ میں لکھتے ہیں کہ ”آنحضرت نے فرمایا کہ میرے بعد بارہ خلےفہ قرےش سے ہوں گے آپ نے فرمایا کہ آخرزمانہ میں جب دنیا ظلم وجورسے بھرجائے گی ،تومےری اولاد میں سے مہدی کاظہورہوگا جوظلم وجورکودورکرکے دنیا کوعدل وانصاف سے بھردے گا ۔ شرک وکفرکودنیا سے نابود کردے گا ، نام  ”محمد “ اورلقب ” مہدی “ ہوگا حضرت عیسی آسمان سے اترکر اس کی نصرت کریں گے اوراس کے پےچھے نماز پڑھےں گے ،اوردجال کوقتل کریں گے۔

آپ کی کنیت :

   اس پرعلماٴ فریقین کااتفاق ہے کہ آپ کی کنےت ” ابوالقاسم “ اورآپ ابوعبداللہ تھی اوراس پربھی علماٴ متفق ہیںکہ ابوالقاسم کنےت خود سرورکائنات کی تجوےزکردہ ہے ۔ ملاحظہ ہو جامع صغےرص ۱۰۴ تذکرہ خواص الامة ۲۰۴ روضة الشہداٴ ص ۴۳۹ صواعق محرقہ ص ۱۳۴ شواہدالنبوت ص ۳۱۲ ، کشف الغمہ ص ۱۳۰ جلاٴالعےون ص ۲۹۸ ۔

یہ مسلمات سے ہے کہ آنحضرت صلعم نے ارشادفرمایا ہے کہ مہدی کانام مےرانام اوران کی کنےت مےری کنےت ہوگی ۔ لےکن اس روآیت میں بض اہل اسلام نے یہ اضافہ کیاہے کہ آنحضرت نے یہ بھی فرمایاہے کہ مہدی کے باپ کانام میرے والد محترم کانام ہوگا مگر ہمارے راوےوں نے اس کی روآیت نہیں کی اورخود ترمذی شرےف میںبھی ” ا سم ابیہ اسم ابی “ نہیں ہے ،تاہم بقول صاحب المناقب علامہ کنجی شافعی یہ کہاجاسکتاہے کہ روآیت میں لفظ ”ابیہ“ سے مراد ابوعبداللہ الحسین ہیں ۔ یعنی اس سے اس امرکی طرف اشارہ ہے کہ امام مہدی حضرت امام حسین کی اولادسے ہیں ۔

آپ کے القاب   :

آپ کے القاب مہدی ، حجة اللہ ، خلف الصالح ، صاحب ا لعصر، صاحب الامر ، والزمان القائم ، الباقی اورالمنتظرہیں ۔ ملاحظہ ہو تذکرہ خواص الامة ۲۰۴ ، روضة الشہداٴ ص ۴۳۹ ، کشف الغمہ ۱۳۱ ، صواعق محرقہ ۱۲۴ ،مطالب السؤال ۲۹۴ ،اعلام الوری ۲۴ حضرت دانیال نبی نے حضرت امام مہدی علیہ السلام کی ولادت سے ۱۴۲۰ سال پہلے آپ کالقب منتظرقراردیاہے ۔ ملاحظہ ہو کتاب دانیال باب ۱۲ آیت ۱۲ ۔ علامہ ابن حجرمکی ، المنتظرکی شرح کرتے ہوے لکھتے ہیں کہ انھےں منتظریعنی جس کاانتظارکیاجائے اس لئے کہتے ہیں کہ وہ سرداب میں غائب ہوگئے ہیں اوریہ معلوم نہیں ہوتا کہ کہاں سے گئٴے (مطلب یہ ہے کہ لوگ ان کاانتظارکررہے ہیں ،شیخ العراقےن علامہ شیخ عبدالرضا تحرےرفرماتے ہیں کہ آپ کومنتظراس لئے کہتے ہیں کہ آپ کی غیبت کی وجہ سے آپ کے مخلصےن آپ کاانتظارکررہے ہیں ۔ ملاحظہ ہو۔ (انوارالحسینیہ جلد ۲ ص ۵۷ طبع بمبئی)۔

آپ کاحلیہ مبارک

کتاب اکمال الدےن میں شیخ صدوق فرماتے ہیں کہ سرورکائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کاارشادہے کہ امام مہدی ،شکل وشباہت خلق وخلق شمائل وخصاےل ،اقوال وافعال میں میرے مشابہہ ہوں گے۔

آپ کے حلیہ کے متعلق علماٴ نے لکھا ہے کہ آپ کارنگ گندگون ، قدمیانہ ہے ۔ آپ کی پےشانی کھلی ہوئی ہے اورآپ کے ابرو گھنے اورباہم پےوستہ ہیں ۔ آپ کی ناک بارےک اوربلند ہے آپ کی آنکھےں بڑی اورآپ کا چہر ہ نہآیت نورانی ہے ۔ آپ کے داہنے رخسارہ پرایک تل ہے ”کانہ کوکب دری “ جوستارہ کی مانند چمکتاہے ، آپ کے دانت چمکداراورکھلے ہوئے ہیں ۔ آپ کی زلفےں کندھوں پرپڑی رہتی ہیں ۔ آپ کاسےنہ چوڑا اورآپ کے کندھے کھلے ہوئے ہیں آپ کی پشت پراسی طرح مہرامامت ثبت ہے جس طرح پشت رسالت مآب پرمہرنبوت ثبت تھی (اعلام الوری ص ۲۶۵ وغایۃ المقصود جلد ۱ ص ۶۴ ونورالابصارص ۱۵۲) ۔

تین سال کی عمرمیں حجت اللہ ہونے کادعوی  :کتب توراےخ وسےر سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کی پرورش کاکام جناب جبرئےل علیہ ا لسلام کے سپرد تھا اوروہ ہی آپ کی پرورش وپرداخت کرتے تھے  ظاہرہے کہ جوبچہ ولادت کے وقت کلام کرچکاہو اورجس کی پرورش جبرئےل جےسے مقرب فرشتہ کے سپرد ہووہ ےقےنا دنیا میں چنددن گزارنے کے بعد بہرصورت اس صلاحےت کامالک ہوسکتاہے کہ وہ اپنی زبان سے حجت اللہ ہونے کادعوی کرسکے ۔ علامہ اربلی لکھتے ہیں کہ احمد ابن اسحاق اورسعدالاشقری ایک دن حضرت امام حسن عسکری کی خدمت میں حاضرہوئے اورانھوںنے خیال کیا کہ آج امام علیہ السلام سے یہ دریافت کریں گے کہ آپ کے بعد حجت اللہ فی الارض کون ہوگا ، جب سامناہوا توامام حسن عسکری نے فرمایا کہ اے احمد !تم جودل میں لے کرآئے ہو میں اس کا جواب تمہیں دےئے دےتاہوں ،یہ فرماکرآپ اپنے مقام سے اٹھے اوراندجاکرےوں واپس آئے کہ آپ کے کندھے پرایک نہآیت خوب صورت بچہ تھا ،جس کی عمرتین سال کی تھی ۔ آپ نے فرمایا کہ اے احمد !میرے بعد حجت خدایہ ہوگا اس کانام محمد اوراس کی کنےت ابوالقاسم ہے یہ خضرکی طرح زندہ رہے گا ۔ اورذوالقرنےن کی طرح ساری دنیاپرحکومت کرے گا ۔احمدبن اسحاق نے کہا مولا! کوئی اےسی علامت بتادےجئے کہ جس سے دل کواطمےنان کامل ہوجائے ۔ آپ نے امام مہدی کی طرف متوجہ ہوکرفرمایا ،بےٹا ! اس کوتم جواب دو ۔ ا مام مہدی علیہ السلام نے کمسنی کے باوجود بزبان فصےح فرمایا  : ”اناحجة اللہ وانا بقےةاللہ “ ۔ میں ہی خدا کی حجت اورحکم خداسے باقی رہنے والاہوں، ایک وہ دن آئے گاجس میں دشمن خداسے بدلہ لوں گا ، یہ سن کراحمدخوش ومسروراورمطمئن ہوگئے (کشف الغمہ ۱۳۸ )

پانچ سال کی عمرمیں خاص الخاص اصحاب سے آپ کی ملاقات

 یعقوب بن منقوش ومحمد بن عثمان عمری وابی ہاشم جعفری اورموسی بن جعفربن وہب بغدادی کابیان ہے کہ ہم حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کی خدمت میں حاضرہوئے اورہم نے عرض کی مولا! آپ کے بعد امرامامت کس کے سپرد ہوگا اورکون حجت خداقرارپائے گا ۔ آپ نے فرمایا کہ مےرا فرزند محمدمیرے بعد حجت اللہ فی الارض ہوگا ہم نے عرض کی مولا ہمیں ان کی زیارت کروادےجئے آپ نے فرمایا وہ پردہ جوسامنے آوےختہ ہے اسے اٹھاؤ ۔ ہم نے پردہ اٹھا یا ، تواس سے ایک نہآیت خوب صورت بچہ جس کی عمرپانچ سال تھی برآمدہوا ،اور وہ آکر امام حسن عسکری کی آغوش میں بےٹھ گیا۔ ا مام نے فرمایاکہ یہی مےرافرزند میرے بعد حجت اللہ ہوگا محمد بن عثمان کا کہناہے کہ ہم اس وقت چالےس افراد تھے اورہم سب نے ان کی زیارت کی ۔ امام حسن عسکری نے اپنے فرزند امام مہدی کوحکم دیا کہ وہ اندرواپس چلے جائیں اورہم سے فرمایا : ”شمااورا نخواھےد دےد غےرازامروز “ کہ اب تم آج کے بعد پھراسے نہ دےکھ سکوگے ۔ چنانچہ اےساہی ہوا ، پھرغیبت شروع ہوگئی (کشف الغمہ ص ۱۳۹ وشواہدالنبوت ص ۲۱۳) علامہ طبرسی اعلام الوری کے ص ۲۴۳ میں تحرےرفرماتے ہیں کہ آئمہ کے نزدےک محمد اورعثمان عمری  دونوں ثقہ ہیں ۔ پھراسی صفحہ میں فرماتے ہیں کہ ابوہارون کاکہنا ہے کہ میں نے بچپن میں صاحب الزمان کودےکھا ہے ” کانہ القمرلےلة البدر “ ان کا چہرہ چودھوےں رات کے چاند کی طرح چمکتاتھا ۔

امام مہدی نبوت کے آئینہ میں

 علامہ طبرسی ۺ بحوالہ حضرات معصومےن علیہم السلام تحرےرفرماتے ہیں کہ حضرت امام مہدی علیہ ا لسلام میں بہت سے انبیاٴ کے حالات وکےفیات نظرآتے ہیں ۔ اورجن واقعات سے مختلف انبیاٴ کودوچارہوناپڑا ۔ وہ تمام واقعات آپ کی ذات ستودہ صفات میں دکھا ئی دےتے ہیں مثال کے لئے حضرت نوح ،حضرت ابراہےم ، حضرت موسی ،حضرت عیسی ، حضرت اےوب ،حضرت ےونس ، حضرت محمدمصطفی صلعم کولے لےجئے اور ان کے حالات پرغورکےجئے ، آپ کوحضرت نوح کی طویل زندگی نصےب ہوئی حضرت ابراہےم کی طرح آپ کی ولادت چھپائی گئی ۔ اورلوگوں سے کنارہ کش ہوکر روپوش ہونا پڑا ۔ حضرت موسی کی طرح حجت کے زمین سے اٹھ جانے کا خوف لاحق ہوا ، اورانھےں کی ولادت کی طرح آپ کی ولادت بھی پوشےدہ رکھی گئی ، اورانھےں کے ماننے والوں کی طرح آپ کے ماننے والوں کو آپ کی غیبت کے بعد ستایا گیا ۔ حضرت عیسی کی طرح آپ کے بارے میں لوگوں نے اختلاف کیا حضرت اےوب کی طرح تمام امتحانات کے بعد آپ کوفرج وکشائش نصےب ہوگی ۔حضرت ےوسف کی طرح عوام اورخواص سے آپ کی غیبت ہوگئی حضرت ےونس کی طرح غیبت کے بعد آپ کا ظہورہوگا یعنی جس طرح وہ اپنی قوم سے غائب ہوکربڑھاپے کے باوجود نوجوان تھے ۔ ا سی طرح آپ کا جب ظہورہوگا توآپ چالےس سالہ جوان ہوں گے اورحضرت محمد مصطفی کی طرح آپ صاحب السےف ہوں گے ۔ (اعلام الوری ص ۲۶۴ طبع بمبئی ۱۳۱۲ ہجری )

امام حسن عسکری کی شہادت   :

امام مہدی علیہ السلام کی عمرابھی صرف پانچ سال کی ہوئی تھی کہ خلےفہ معتمد بن متوکل عباسی نے مدتوں قےد رکھنے کے بعد امام حسن عسکری کوزہردےدیا ۔ جس کی وجہ سے آپ بتاریخ ۸   ربےع  الاول ۲۶۰ ہجری  مطابق ۸۷۳ ء  بعمر ۲۸ سال رحلت فرماگئے ”وخلف من الولد ابنہ محمد “ اورآپ نے اولاد میں صرف امام محمد مہدی کوچھوڑا ۔ (نورالابصارص ۱۵۲ دمعة الساکبة ص ۱۹۱ ) علامہ شلنجبی لکھتے ہیں کہ جب آپ کی شہادت کی خبرمشہورہوئی ، توسارے شہرسامرہ میں ہلچل مچ گئی ، فریاد وفغاں کی آوازےں بلند ہوگئےں ، سارس شہرمیں ہڑتال کردی گئی ۔ یعنی ساری دکانےں بند ہوگئےں ۔ لوگوں نے اپنے کاوربارچھوڑدئےے۔  تمام بنی ہاشم حکام دولت ، منشی ،قاضی ، ارکان عدالت اعیان حکومت اور عامہ خلائق حضرت کے جنازے کے لئے دوڑپڑے ،حالت یہ تھی کہ شہرسامرہ قیامت کامنظرپےش کررہاتھا ۔تجہےزاورنماز سے فراغت کے بعد آپ کواسی مکان میں دفن کردیاگیا جس میں حضرت امام علی نقی علیہ مدفون تھے ۔  نورالابصار ص ۱۵۲ وتاریخ کامل صواعق محرقہ وفصول مہمہ،جلاٴالعےون ص ۲۹۶)  علامہ محمد باقرفرماتے ہیںکہ امام حسن عسکری کی وفات کے بعد نمازجنازہ حضرت امام مہدی علیہ السلام نے پڑھائی ،ملاحظہ ہو ، دمعہ ساکبہ جلد ۳ ص ۱۹۲   وجلاٴالعےون ص ۲۹۷ ) علامہ طبرسی لکھتے ہیں کہ نمازکے بعد آپ کوبہت سے لوگوں نے دےکھا اور آپ کے ہاتھوں کا بوسہ دیا (اعلام الوری ص ۲۴۲ ) علامہ ابن طاؤس کابیان ہے کہ ۸ ربےع الاول کوامام حسن عسکری کی وفات واقع ہوئی اور ۹ ربےع الاول سے حضرت حجت کی امامت کا آغازہوا ہم ۹ ربےع الاول کوجوخوشی مناتے ہیں اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے (کتاب اقبال) علامہ مجلسی لکھتے ہیں کہ ۹ ربےع الاول کوعمربن سعد بدست مختارآل محمد قتل ہواہے ۔(زادالمعاد ص ۵۸۵) جوعبےداللہ بن زیاد کا سپہ سالارتھا جس کے قتل کے بعد آل محمد نے پورے طورپرخوشی منائی ۔ (بحارالانوارومختارآل محمد) کتاب دمعہ ساکبہ کے ص ۱۹۲ میں ہے کہ حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام نے ۲۵۹ ہجری میں اپنی والدہ کوحج کے لئے بھےج دیاتھا ،اورفرمادیاتھا کہ ۲۶۰ ہجری میں مےری شہادت ہوجائے گی اسی سن میں آپ نے حضرت امام مہدی کوجملہ تبرکات دےدئےے تھے اوراسم اعظم وغےرہ تعلےم کردیاتھا (دمعہ ساکبہ وجلاٴالعےون ص ۲۹۸ ) انھےں تبرکات میں حضرت علی کا جمع کیاہوا وہ قرآن بھی تھا جوترتےب نزولی پرسرورکائنات کی زندگی میں مرتب کیاگیاتھا ۔ (تاریخ الخلفاٴ واتقان) اورجسے حضرت علی نے اپنے عہد خلافت میں بھی اس لئے رائج نہ کیاتھا کہ اسلام میں دوقرآن رواج پاجائیں گے ۔ اوراسلام میں تفرقہ پڑجائے گا (ازالةالخلفاٴ ۲۷۳) میرے نزدےک اسی سن میں حضرت نرجس خاتون کاانتقال بھی ہواہے اوراسی سن میں حضرت نے غیبت اختیارفرمائی ہے۔

حضرت امام مہدی علیہ السلام کی غیبت اوراس کی ضرورت   :

بادشاہ وقت خلےفہ معتمدبن متوکل عباسی جواپنے آباؤاجداد کی طرح ظلم وستم کاخوگراورآل محمد کاجانی دشمن تھا ۔ اس کے کانوں میں مہدی کی ولادت کی بھنک پڑچکی تھی ۔ اس نے حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کی شہادت کے بعد تکفےن وتدفےن سے پہلے بقول علامہ مجلسی حضرت کے گھرپرپولےس کاچھاپہ ڈلوایااورچاہاکہ امام مہدی علیہ السلام کو گرفتارکرالے لےکن چونکہ وہ بحکم خدا ۲۳ رمضان المبارک ۲۵۹ ہجری  کوسرداب میں جاکرغائب ہوچکے تھے۔ جےسا کہ شواہدالنبوت ،نورالابصار،دمعة ساکبہ ،روضة الشہداٴ ،مناقب الا ئمہ ،انوارالحسینیہ وغےرہ سے مستفاد ومستنبط ہوتاہے ۔ اس لئے وہ اسے دستیاب نہ ہوسکے ۔اس نے اس کے رد عمل میں حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کی تمام بےبےوں کوگرفتارکرالیا اورحکم دیا کہ اس امرکی تحقےق کی جائے کہ آیاکوئی ان میں سے حاملہ تونہیں ہے اگرکوئی حاملہ ہو تواس کاحمل ضائع کردیاجائے ،کےونکہ وہ حضرت سرورکائنات صلعم کی پےشےن گوئی سے خائف تھا کہ آخری زمانہ میں مےرا ایک فرزند جس کانام مہدی ہوگا ۔ کائنات عالم کے انقلاب کا ضامن ہوگا ۔ اوراسے یہ معلوم تھا کہ وہ فرزند امام حسن عسکر ی علیہ السلام کی اولاد سے ہوگا لہذا اس نے آپ کی تلاش اورآپ کے قتل کی پوری کوشش کی ۔تاریخ اسلام جلد ۱ ص ۳۱ میں ہے کہ ۲۶۰ میں امام حسن عسکری کی شہادت کے بعد جب معتمد خلےفہٴ عباسی نے آپ کے قتل کرنے کے لئے آدمی بھےجے توآپ سرداب ( ۱) ” سرمن رائے “میں غائب ہوگئے بعض اکابرعلماٴ اہل سنت بھی اس امرمیں شےعوں کے ہم زبان ہیں ۔ چنانچہ ملاجامی نے شواہدالنبوت میں امام عبدالوہاب شعرانی نے لواقع الانواروالےواقےت والجواہرمیں اورشیخ احمدمحی الدےن ابن عربی نے فتوحات مکہ میں اورخواجہ پارسانے فصل الخطاب میں اورعبدالحق محدث دہلوی نے رسالہٴ ا ئمہ طاہرین میں اورجمال الدےن محدث نے روضةالاحباب میں ،اورابوعبداللہ شامی صاحب کفاےةالطالب نے کتاب التبیان فی اخبارصاحب الزمان میں اورسبط ابن جوزی نے تذکرة خواص الامہ میں اورابن صباغ نورالدےن علی مالکی نے فصول المہمہ میں اورکمال الدےن ابن طلحہ ٴشافعی نے مطالب السؤل میں اورشاہ ولی اللہ نے فضل المبےن میں اورشیخ سلےمان حنفی نے ےنابع المودة میں اوربعض دیگرعلماٴ نے بھی اےساہی لکھا ہے اورجولوگ ان حضرت کے طول عمرمیں تعجب کرکب انکارکرتے ہیں ۔ ان کویہ جواب دےتے ہیں کہ خدا کی قدرت سے کچھ بعےدنہیں ہے جس نے آدم کوبغیرماں باپ کے اورعیسی کوبغیرباپ کے پےداکیا ،تمام اہل اسلام نے حضرت خضرکواب تک زندہ ماناہوا ہے ،ادرےس بہشت میں اورحضرت عیسی آسمان پراب تک زندہ مانے جاتے ہیں اگرخدائے تعالی نے آل محمد میں سے ایک شخص کوعمرعنآیت کیاتوتعجب کیاہے ؟حالانکہ اہل اسلام کودجال کے موجود ہونے اورقرےب قیامت ظہورکرنے سے بھی انکارنہیں ہے ۔

( ۱ )  یہ سرداب ،مقام  ”سرمن رائے“ میں واقع ہے جسے اصل میں سامراٴکہتے ہیں

سامراٴکی آبادی بہت ہی قدےمی ہے اوردنیاکے قدےم ترین شہروں میں سے ایک ہے ، اس سام بن نوح نے آبادکیاتھا (معجم البلدان) اس کی اصل سام راہ تھی  بعدمیں سامراٴہوگیا ، آب وہواکی عمدگی کی وجہ سے خلےفہ معتصم نے فوجی کےمپ بناکرآبادکیاتھا اوراسی کو دارالسلطنت بھی بنادیاتھا ، اس کی آبادی ۸ فرسخ لمبی تھی ، اسے اس نے نہآیت خوبصورت شہربنادیاتھا ۔ ا سی لئے اس کانام سرمن رائے رکھ دیاتھا یعنی وہ شہرجسے جوبھی دےکھے خوش ہوجائے ،عسکری اسی کاایک محلہ ہے جس میں امام علی نقی علیہ السلام نظربندتھے بعد میں انھوں نے دلےل بن ےعقوب نصرانی سے ایک مکان خرےدلیاتھا جس میں اب بھی آپ کامزارمقدس واقع ہے ۔

 سامراٴمیں ہمےشہ غےرشےعہ آبادی رہی ہے اس لئے اب تک وہاں شےعہ آباد نہیں ہیں وہاں کے جملہ خدام بھی غےرشےعہ ہیں ۔

حضرت حجت علیہ السلام کے غائب ہونے کاسرداب وہیں ایک مسجدکے کنارے واقع ہے جوکہ حضرت امام علی نقی اورحضرت امام حسن عسکری کے مزاراقدس کے قرےب ہے ۱۲ منہ۔

کتاب شواہدالنبوت کے ص ۶۸ میں ہے کہ خاندان نبوت کے گیارہوےں امام حسن عسکری ۲۶۰ میں زہرسے شہےدکردےئے گئے تھے ان کی وفات پران کے صاحبزادے محمد ملقب بہ مہدی شےعوں کے آخری امام ہوئے۔مولوی امیرعلی لکھتے ہیں کہ خاندان رسالت کے ان اماموں کے حالات نہآیت دردناک ہیں ۔ ظالم متوکل نے حضرت امام حسن عسکری کے والدماجد امام علی نقی کومدینہ سے سامرہ پکڑبلایاتھا ۔اوروہاں ان کی وفات تک ان کونظربندرکھا تھا ۔ (پھرزہرسے ہلاک کردیاتھا ) اسی طرح متوکل کے جانشےنوں نے بدگمانی اورحسدکے مارے حضرت امام حسن عسکری کوقےدرکھاتھا ،ان کے کمسن صاحبزادے محمدالمہدی جن کی عمراپنے والدکی وفات کے وقت پانچ سال کی تھی ۔ خوف کے مارے اپنے گھرکے قرےب ہی ایک غارمیں چھپ گئے اورغائے ہوگئے ۔الخ  ابن بطوطہ نے اپنے سفرنامہ میں لکھا ہے کہ جس غارمیں امام مہدی کی غیبت بتائی جاتی ہے ۔ اسے میں نے اپنی آنکھوں سے دےکھا ہے ۔(نورالابصارجلد ۱ ص ۱۵۲) علامہ ابن حجرمکی کاارشادہے، کہ امام مہدی سرداب میں غائب ہوے ہیں ۔” فلم ےعرف اےن ذھب “ پھرمعلوم نہیں کہاں تشریف لے گئے۔ (صواعق محرقہ ص ۱۲۴) ۔

غیبت امام مہدی پرعلماٴاہل سنت کااجماع :

 جمہورعلماٴ اسلام امام مہدی کے وجودکوتسلےم کرتے ہیں ، اس میں شےعہ اورسنی کاسوال نہیں ۔ ہرفرقہ کے علماء یہ مانتے ہیںکہ آپ پےدا ہوچکے ہیں اورموجودہیں ۔ہم علماء اہل سنت کے اسماء مع ان کی کتابوں اورمختصراقوال کے درج کرتے ہیں   :

( ۱ ) ۔ علامہ محمدبن طلحہ ٴشافعی کتاب مطالب السوال میں فرماتے ہیں کہ امام مہدی سامرہ میں پےداہوئے ہیں جوبغداد سے ۲۰ فرسخ کے فاصلہ پرہے۔

( ۲ ) ۔ علامہ علی بن محمدصباغ مالکی کی کتاب فصول المہمہ میں لکھتے ہیں کہ امام حسن عسکری گیارہوےں امام نے اپنے بےٹے امام مہدی کی ولادت بادشاہ وقت کے خوف سے پرشےدہ رکھی ۔

( ۳ ) ۔علامہ شیخ عبداللہ بن احمد خشاب کی کتاب تاریخ موالےد میں ہے کہ امام مہدی کانام محمد اورکنےت ابوالقاسم ہے ۔آپ آخری زمانہ میں ظہوروخروج کریں گے ۔

( ۴ ) ۔ علامہ محی الدےن ابن عربی حنبلی کی کتاب فتوحات مکہ میں ہے کہ جب دنیا ظلو وجورسے بھرجائے گی توامام مہدی ظہورکریں گے۔

( ۵ ) ۔علامہ شیخ عبدالوہاب شعرانی کی کتاب الےواقےت والجواہرمیں ہے کہ امام مہدی ۱۵ شعبان ۲۵۵ ہجری میں پےداہوئے اب اس وقت یعنی ۹۵۸ ہجری میں ان کی عمر ۷۰۶ سال کی ہے ،یہی مضمون علامہ بدخشانی کی کتاب مفتاح النجاة میں بھی ہے ۔

( ۶ ) ۔ علامہ عبدالرحمن جامی حنفی کی کتاب شواہدالنبوت میں ہے کہ امام مہدی سامرہ میں پےداہوئے ہیں اوران کی ولادت پوشےدہ رکھی گئی ہے وہ امام حسن عسکری کی موجودگی میں غائب ہوگئے تھے ۔اسی کتاب میں ولادت کاپوراواقعہ حکےمہ خاتون کی زبانی مندرج ہے ۔

( ۷ ) ۔ علامہ شیخ عبدالحق محدث دہلوی کی کتاب مناقب الائمہ ہے کہ امام مہدی ۱۵ شعبان ۲۵۵ میں پےداہوئے ہیں امام حسن عسکری نے ان کے اذان واقامت کہی ہے اورتھوڑے عرصہ کے بعد آپ نے فرمایا کہ وہ اس مالک کے سپردہوگئے جن کے پاس حضرت موسی بچپنے میںتھے۔

( ۸ ) ۔ علامہ جمال الدےن محدث کی کتاب روضةالاحباب میں ہے کہ امام مہدی ۱۵ شعبان ۲۵۵ میں پےداہوئے اورزمانہ معتمد عباسی میں بمقام ”سرمن رائے“ ازنظربرایاغائب شد لوگوں کی نظرسے سرداب میں غائب ہوگئے ۔

( ۹ ) ۔ علامہ عبدالرحمن صوفی کی کتاب مراٴةالاسرارمیں ہے کہ آپ بطن نرجس سے ۱۵ شعبان ۲۵۵ میں پےداہوئے ۔

( ۱۰ ) ۔ علامہ شہاب الدےن دولت آبادی صاحب تفسیربحرمواج کی کتاب ہداےة السعداء میں ہے کہ خلافت رسول حضرت علی کے واسطہ سے امام مہدی تک پہونچی آپ ہی آخری امام ہیں ۔( ۱۱ ) ۔ علامہ نصربن علی جھمنی کی کتاب موالےدالائمہ میں ہے کہ امام مہدی نرجس خاتون کے بطن سے پےداہوئے ۔

( ۱۲ ) ۔ علامہ ملا علی قاری کی کتاب مرقات شرح مشکوة میں ہے کہ امام مہدی باہوےں امام ہیں شےعوں کایہ کہناغلط ہے کہ اہل سنب اہل بےت کے دشمن ہےن۔

( ۱۳ ) ۔ علامہ جواد ساباطی کی کتاب براہےن ساباطیہ میں ہے کہ امام مہدی اولادفاطمہ میں سے ہیں ، وہ بقولے ۲۵۵ میں متولد ہوکرایک عرصہ کے بعد غائب ہوگئے ہیں ۔

( ۱۴ ) ۔ علامہ شیخ حسن عراقی کی تعرےف کتاب الواقع میں ہے کہ انھوںنے امام مہدی سے ملاقات کی ہے ۔

( ۱۵ ) ۔ علامہ علی خواص جن کے متعلق شعرانی نے الےواقےت میں لکھا ہے کہ انھوںنے امام مہدی سے ملاقات کی ہے ۔

( ۱۶ ) ۔ علامہ شیخ سعدالدےن کاکہناہے کہ امام مہدی پےداہوکرغائب ہوگئے ہیں ”دورآخرزمانہ آشکارگردد“ اوروہ آخرزمانہ میں ظاہرہوں گے ۔جےساکہ کتاب مقصداقصی میں لکھا ہے ۔

( ۱۷ ) ۔ علامہ علی اکبرابن اسعداللہ کی کتاب مکاشفات میں ہے کہ آپ پےداہوکرقطب ہوگئے ہیں ۔

( ۱۸ ) ۔ علامہ احمدبلاذری ااحادےث لکھتے ہیں کہ آپ پےداہوکرمحجوب ہوگئے ہیں ۔

( ۱۹ ) ۔ علامہ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے رسالہ نوارد میں ہے، محمد بن حسن( المہدی ) کے بارے میں شےعوں کاکہنا درست ہے ۔

( ۲۰ ) ۔ علامہ شمس الدےن جزری نے بحوالہ مسلسلات بلاذری اعتراف کیاہے ۔

( ۲۱ ) ۔علامہ علاٴالدولہ احمدمنانی صاحب تاریخ خمےس دراحوالی النفس نفےس اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ امام مہدی غیبت کے بعد ابدال پھرقطب ہوگئے۔

علامہ نوراللہ بحوالہ کتابیان الاحسان لکھتے ہیں کہ امام مہدی تکمیل صفات کے لئے غائب ہوئے ہیں

۲۴ علامہ ذہبی اپنی تاریخ اسلام میں لکھتے ہیں کہ امام مہدی ۲۵۶ میں پےداہوکرمعدوم ہوگئے ہیں

۲۵ علامہ ابن حجرمکی کی کتاب صواعق محرقہ میں ہے کہ امام مہدی المنتظرپےداہوکرسرداب میں غائب ہوگئے ہیں ۔

۲۶ علامہ عصرکی کتاب وفیات الا عیان کی جلد۲ ص۴۵۱میں ہے کہ امام مہدی کی عمرامام حسن عسکری کی وفات کے وقت ۵سال تھی وہ سرداب میں غائب ہوکرپھرواپس نہیں ہوے ۔

۲۷ علامہ سبط ابن جوزی کی کتاب تذکرةالخواص الامہ کے ص ۲۰۴ میںہے کہ آپ کالقب القائم ، المنتظر،الباقی ہے ۔

۲۸ علامہ عبےداللہ امرتسری کی کتاب ارجح المطالب کے ص ۳۷۷ میں بحوالہ کتاب البیان فی اخبارصاحب الزمان مرقوم ہے کہ آپ اسی طرح زندہ باقی ہیں جس طرح عیسی ، خضر، الیاس وغےرہ ہم زندہ اورباقی ہیں ۔

۲۹ علامہ شیخ سلےمان تمندوزی نے کتاب ےنابع المودة ص ۳۹۳میں

۳۰ علامہ ابن خشاب نے کتاب موالےداہل بےت میں

۳۱علامہ شبلنجی نے نورالابصارکے ص۱۵۲ طبع مصر۱۲۲۲میںبحوالہ کتاب البیان لکھا ہے کہ امام مہدی  غائب ہونے کے بعد اب تک زندہ اورباقی ہیں اوران کے وجود کے باقی ،اورزندہ ہونے میں کوئی شبہ نہیں ہے وہ اسی طرح زندہ اورباقی ہیں جس طرح حضرت عیسی ،حضرت خضراورحضرت الیاس وغےرہم زندہ اورباقی ہیں ان اللہ والوں کے علاوہ دجال ،ابلےس بھی زندہ ہیں جےسا کہ قرآن مجید صحیح مسلم ،تاریخ طبری وغےرہ سے ثابت ہے لہذا  ”لاامتناع فی بقائہ“ان کے باقی اورزندہ ہونے میں کوئی شک وشبہ کی گنجائش نہیں ہے علامہ چلپی کتاب کشف الظنون کے ص۲۰۸ میں لکھتے ہیں کہ کتاب البیان فی اخبارصاحب الزمان ابوعبداللہ محمد بن ےوسف کنجی شافعی کی تصنےف ہے ۔ (علامہ فاضل روزبہان کی ابطال الباطل میں ہے کہ امام مہدی قائم ومنتظرہیں وہ آفتاب کی مانند ظاہرہوکردنیاکی تارےکی ،کفرزائل کردے گے ۔

۳۱ علامہ علی متقی کی کتاب کنزالعمال کی جلد۷ کے ص۱۱۴ میں ہے کہ آپ غائب ہیں ظہورکرکے ۹سال حکزمت کریں گے ۔

۳۲علامہ جلال الدےن سیوطی کی کتاب درمنشورجلد۳ص ۲۳میں ہے کہ امام مہدی کے ظہورکے بعد عیسی نازل ہوںگے وغےرہ۔

امام مہدی کی غیبت اورآپ کاوجود وظہورقرآن مجیدکی روشنی میں   :

 حضرت امام مہدی علیہ السلام کی غیبت اورآپ کے موجودہونے اورآپ کے طول عمرنےزآپ کے ظہوروشہود اورظہورکے بعد سارے دےن کوایک کردےنے کے متعلق ۹۴ آیتےں قرآن مجید میں موجود ہیں جن میں سے اکثردونوں فرےق نے تسلےم کیاہے ۔اسی طرح بے شمارخصوصی احادےث بھی ہیںتفصےل کے لئے ملاحظہ ہو غایۃ المقصود وغایۃالمرام علامہ ہاشم بحرانی اورےنابع المودة ،میں اس مقام پرصرف دوتین آیتےں لکھتاہوں :

۱ ) آپ کی غیبت کے متعلق  : آلم ذلک الکتاب لارےب فیہ ھدی للمتقےن الذےن ےومنون بالغےب ہے حضرت محمدمصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم فرماتے ہیںکہ اےمان بالغےب سے امام مہدی کی غیبت مراد ہے ۔نےک بخت ہیں وہ لوگ جوان کی غیبت پرصبرکریں گے اورمبارک باد کے قابل ہیں ۔ وہ سمجھدار لوگ جوغیبت میں بھی ان کی محبت پرقائم رہیں گے ۔(ےنابع المودة ص۳۷۰طبع بمےئی )

۲ ) آپ کے موجود اورباقی ہونے کے متعلق  ”جعلھا کلمةباقےة فی عقبہ  “ ہے ابراھےم کی نسل میں کلمہ باقیہ کوقراردیاہے جوباقی اورزندہ رہے گا اس کلمہ باقیہ سے امام مہدی کاباقی رہنا مراد ہے اوروہی آل محمد میں باقی ہیں ۔(تفسیرحسینی علامہ حسین واعظ کاشفی ص۲۲۶) ۔

۳)    آپ کے ظہوراورغلبہ کے متعلق  ”ےظہرہ علی الدےن کلہ  “ جب امام مہدی بحکم خداظہورفرمائےں گے توتمام دےنوں پرغلبہ حاصل کرلےں گے یعنی دنیا میں سوا ایک دےن ا سلام کے کوئی اوردےن نہ ہوگا ۔(نورالابصارص۱۵۳ طبع مصر)۔

1)امام مہدی کاذکرکتب آسمانی میں

حضرت داؤد کی زبورکی آیت ۴# مرموز ۹۷ میں ہے کہ آخری زمانہ میں جوانصاف کامجسمہ انسان آئے گا ، اس کے سر پرابرسایہ فگن ہوگا ۔ کتاب صفیائے پےغمبرکے فصل ۳ آیت ۹ میں ہے آخری زمانے میں تمام دنیا موحدہوجائے گی ۔کتاب زبورمرموز ۱۲۰ میں ہے جوآخرالزماں آئے گا، اس پرآفتاب اثراندازنہ ہوگا۔صحےفہ شعیاپےغمبرکے فصل ۱۱ میں ہے کہ جب نورخداظہورکرے گا توعدل وانصاف کا ڈنکا بجے گا ۔شےراوربکری ایک جگہ رہیں گے چےتااوربزغالہ ایک ساتھ چرےں گے شےراورگوسالہ ایک ساتھ رہیں گے ،گوسالہ اورمرغ ایک ساتھ ہوںگے شےراورگائے میں دوستی ہوگی ۔ طفل شےرخوارسانپ کب بل میں ہاتھ ڈالے گااوروہ کاٹے گانہیں پھراسی صفحہ کے فصل ۲۷ میںہے کہ یہ نورخدا جب ظاہرہوگا، توتلوارکے ذرےعہ سے تمام دشمنوں سے بدلہ لے گا صحےفہ تنجاس حرف الف میں ہے کہ ظہورکے بعد ساری دنیا کے بت مٹادئےے جائیں گے ،ظالم اورمنافق ختم کردئےے جائیں گے یہ ظہورکرنے والاکنےزخدا (نرجس) کابےٹاہوگا ۔ تورےت کے سفرانبیاٴمیں ہے کہ مہدی ظہورکریں گے عیسی آسمان سے اترےں گے ،دجال کوقتل کریں گے انجےل میں ہے کہ مہدی اورعیسی دجال اورشیطان کوقتل کریں گے ۔ اسی طرح مکمل واقعہ جس میں شہادت امام حسین اورظہورمہدی علیہ السلام کااشارہ ہے ۔انجےل کتاب دانیال باب ۱۲ فصل ۹ آیت ۲۴ رویائے ۲# میں موجود ہے (کتاب الوسائل س ۱۲۹ طبع بمبئی ۱۳۳۹ ہجری )۔

امام مہدی کی غیبت کی وجہ :

مذکورہ بالاتحرےروں سے علماٴاسلام کااعتراف ثابت ہوچکا یعنی واضح ہوگیا کہ امام مہدی کے متعلق جوعقائد اہل تشےع کے ہیں وہی منصف مزاج اورغےرمتعصب اہل تسنن کے علماء کے بھی ہیں اورمقصد اصل کی تائےد قرآن کی آیتوں نے بھی کردی ،اب رہی غیبت امام مہدی کی ضرورت اس کے متعلق عرض ہے کہ :

۱ ) اخلاق عالم نے ہدآیت خلق کے لئے ایک لاکھ چوبیس ہزارپےغمبراورکثیرالتعداد ان کے اوصیاٴ بھےجے ۔پےغمبروں میں سے ایک لاکھ تےٴس ہزار نوسو ننانوےں انبیاء کے بعد چونکہ حضوررسول کرےم تشریف لائے تھے ۔لہذا ان کے جملہ صفات وکمالات ومعجزات حضرت محمدمصطفی صلعم میں جمع کردئےے تھے اورآپ کوخدانے تمام انبیاء کے صفات کا جلوہ برواربنایا بلکہ خود اپنی ذات کامظہرقراردیا تھا اورچونکہ آپ کوبھی اس دنیائے فانی سے ظاہری طورپرجاناتھا اس لئے آپ نے اپنی زندگی ہی میں حضرت علی کوہرقسم کے کمالات سے بھرپورکردیاتھا یعنی حضرت علی اپنے ذاتی کمالات کے علاوہ نبوی کمالات سے بھی ممتازہوگئے تھے ۔سرورکائنات کے بعد کائنات عالم صرف ایک علی کی ہستی تھی جوکمالات انبیاء کی حامل تھی آپ کے بعد سے یہ کمالات اوصیاٴمیں منتقل ہوتے ہوئے امام مہدی تک پہونچے بادشاہ وقت امام مہدی کوقتل کرنا چاہتاتھا اگروہ قتل ہوجاتے تودنیاسے انبیاء واوصیاء کا نام ونشان مٹ جاتا اورسب کی یادگاربےک ضرب شمشےرختم ہوجاتی اورچونکہ انھےں انبیاء کے ذرےعہ سے خداوند عالم متعارف ہواتھا لہذا اس کابھی ذکرختم ہوجاتا اس لئے ضرورت تھی کہ اےسی ہستی کومحفوظ رکھا جائے جوجملہ انبیاء اوراوصیاء کی یادگاراورتمام کے کمالات کی مظہرہو ۔

۲ ) خداوندے عالم نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا ہے ” وجعلھا کلمة باقےة فی عقبہ “ ابراہےم کی نسل میں کلمہ باقیہ قراردیاہے نسل ابراہےم دوفرزندوں سے چلی ہے ایک اسحاق اوردوسرے اسماعےل ۔ اسحاق کی نسل سے خداوندعالم جناب عیسی کوزندہ وباقی قراردے کر آسمان پرمحفوظ کرچکاتھا ۔ اب بہ مقتضائے انصاف ضرورت تھی کہ نسل اسماعےل سے کسی ایک کوباقی رکھے اوروہ بھی زمین پرکےونکہ آسمان پرایک باقی موجودتھا ،لہذا امام مہدی کوجونسل اسماعےل سے ہیں زمین پرزندہ اورباقی رکھا اورانھےں بھی اسی طرح دشمنوں کے شرسے محفوظ کردیا جس طرح حضرت عیسی کومحفوظ کیاتھا ۔

۳ ) یہ مسلمات اسلامی سے ہے کہ زمین حجت خدا اورامام زمانہ سے خالی نہیں رہ سکتی (اصول کافی ۱۰۳طبع نولکشور) چونکہ حجت خدا اس وقت امام مہدی کے سوا کوئی نہ تھا اورانھےں دشمن قتل کردےنے پرتلے ہوئے تھے اس لئے انھےں محفوظ ومستورکردیاگیا ۔حدےث میں ہے کہ حجت خدا کی وجہ سے بارش ہوتی ہے اورانھےں کے ذرےعہ سے روزی تقسیر کی جاتی ہے (بحار)۔

۴ ) یہ مسلم ہے کہ حضرت امام مہدی جملہ انبیاء کے مظہرتھے اس لئے ضرورت تھی کہ انھےں کی طرح ان کی غیبت بھی ہوتی یعنی جس طرح بادشاہ وقت کے مظالم کی وجہ سے حضرت نوح ،حضرت ابراہےم ،حضرت موسی ،حضرت عیسی اورحضرت محمدمصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم اپنے عہدحیات میں مناسب مدت تک غائب رہ چکے تھے اسی طرح یہ بھی غائب رہتے ۔

۵ ) قیامت کاآنا مسلم ہے اورواقعہ قیامت میں امام مہدی کا ذکربتاتاہے کہ آپ کی غیبت مصلحت خداوندی کی بناء پرہوئی ہے ۔

۶ ) سور ہ اناانزلنا سے معلوم ہوتاہے کہ نزول ملائکہ شب قدرمیں ہوتا رہتاہے یہ ظاہرہے کہ نزول ملائکہ انبیاء واوصیاء ہی پرہواکرتاہے ۔امام مہدی کواس لئے موجود اورباقی رکھا گیاہے تاکہ نزول ملائکہ کی مرکزی غرض پوری ہوسکے ،اورشب قدرمیں انھےںپرنزول ملائکہ ہوسکے حدےث میں ہے کہ شب قدرمیں سال بھرکی روزی وغےرہ امام مہدی تک پہونچادی جاتی ہے اوروہی اس تقسےم کرتے رہتے ہیں ۔

۷ ) حکےم کافعل حکمت سے خالی نہیں ہوتا یہ دوسری بات ہے کے عام لوگ اس حکمت ومصلحت سے واقف نہ ہوں غیبت امام مہدی اسی طرح مصلحت وحکمت خداوندی کی بناپرعمل میں آئی ہے جس طرح طواف کعبہ ،رمی جمرہ وغےرہ ہے جس کی اصل مصلحت خداوندعالم ہی کومعلوم ہے ۔

۸ ) امام جعفرصادق علیہ السلام کافرماناہے کہ امام مہدی کواس لئے غائب کیاجائے گا تاکہ خداوندعالم اپنی ساری مخلوق کا امتحان کرکے یہ جانچے کہ نےک بندے کون ہیں اورباطل پرست کون لوگ ہیں (اکمال الدےن )۔

۹ ) چونکہ آپ کواپنی جان کاخوف تھا اوریہ طے شدہ ہے کہ ” من خاف علی نفسہ احتاج الی الاستتار“ کہ جسے اپنے نفس اوراپنی جان کاخوف ہو وہ پوشےدہ ہونے کولازمی جانتاہے (المرتضی )۔

0)        آپ کی غیبت اس لئے واقع ہوئی ہے کہ خداوندعالم ایک وقت معےن میں آل محمد پرجومظالم کےے گئے ہیں ۔ ان کابدلہ امام مہدی کے ذرےعہ سے لے گا یعنی آپ عہد اول سے لے کربنی امیہ اوربنی عباس کے ظالموں سے مکمل بدلہ لےں گے ۔ (اکمال الدےن )۔

1)  غیبت امام مہدی جفرجامعہ کی روشنی میں   :

 علامہ شیخ قندوزی بلخی حنفی رقمطرازہیں کے سدےرصےرفی کابیان ہے کہ ہم اورمفضل بن عمر،ابوبصےر،ابان بن تغلب ایک دن صادق آل محمد کی خدمت میں حاضرہوئے تودےکھا کہ آپ زمین پربےٹھے ہوئے رورہے ہیں ، اورکہتے ہیں کہ ” اے محمد!تمہاری غیبت کی خبرنے مےرا دل بے چےن کردیاہے “ میں نے عرض کی حضورخدا آپ کی آنکھوں کوبھی نہ رلائے بات کیا ہے کس لئے حضورگریہ کناںہیں فرمایا ۔ ا ے سدےر!میں نے آج کتاب ”جعفرجامع“ میں بوقت صبح امام مہدی کی غیبت کا مطالعہ کیاہے ،اے سدےر!یہ وہ کتاب ہے جس میں ”علم ماکان ومایکون“ کااندراج ہے اورجوکچھ قیامت تک ہونے والا ہے سب اس میں لکھا ہواہے اے سدےر! میں نے اس کتاب میں یہ دےکھا ہے کہ ہماری نسل سے امام مہدی ہوں گے ۔ پھروہ غائب ہوجائیں گے اور ان کی غیبت نےزعمر بہت طویل ہوگی ان کی غیبت کے زمانہ میں مومنین مصائب میں مبتلا ہوںگے اور ان کے امتحانات ہوتے رہیں گے اورغیبت میں تاخےرکی وجہ سے ان  کے دلوں میں شکوک پےداہوتے ہوں گے پھرفرمایا : اے سدےرسنو! ان کی ولادت حضرت موسی کی طرح ہوگی اوران غیبت عیسی کی مانندہوگی اوران کے ظہورکا حال حضرت نوح کے مانند ہوگا اوران کی عمرحضرت خضرکی عمرجےسی ہوگی (ےنابع المودة) اس حدےث کی مختصرشرح یہ ہے کہ :

۱ ) تاریخ میں ہے کہ جب فرعون کومعلوم ہوا کہ مےری سلطنت کا زوال ایک مولود بنی اسرائےل کے ذرےعہ ہوگا تواس نے حکم جاری کردیا کہ ملک میں کوئی عورت حاملہ نہ رہنے پائے اورکوئی بچہ باقی نہ رکھا جائے چنانچہ اسی سلسلہ میں ۴۰ ہزاربچے ضائع کئے گئے لےکن نے خدا حضرت موسی کوفرعون کی تمام ترکےبوں کے باوجود پےداکیا،باقی رکھا اورانھےں کے ہاتھوں سے اس کی سلطنت کاتختہ الٹوایا ۔ اسی طرح امام مہدی کے لئے ہوا کہ تمام بنی امیہ اوربنی عباسیہ کی سعی بلےغ کے باوجود آپ بطن نرجس خاتون سے پےداہوئے اورکوئی آپ کودےکھ تک نہ سکا۔

۲ ) حضرت عیسی کے بارے میں تمام یہودی اورنصرانی متفق ہیں کہ آپ کو سولی دےد ی گئی اور آپ قتل کئے جاچکے ،لےکن خدا وندعالم نے اس کی ردفرمادی اورکہ دیا کہ وہ نہ قتل ہوئے ہیں اورنہ ان کوسولی دی گئی ہے یعنی خداوندعالم نے اپنے پاس بلالیاہے اوروہ آسمان پرامن وامان خدا میں ہیں ۔اسی طرح حضرت امام مہدی علیہ السلام کے بارے میں بھی لوگوں کایہ کہنا ہے کہ پےداہی نہیں ہوئے حالانکہ وہ پےداہوکر حضرت عیسی کی طرح غائب ہوچکے ہیں ۔

۳حضرت نوح نے لوگوں کی نافرمانی سے عاجزآکرخداکے عذاب کے نزول کی درخواست کی خداوند عالم نے فرمایا کہ پہلے ایک درخت لگاؤوہ پھل لائے گاتب عذاب کروںگا اسی طرح نوح نے سات مرتبہ کیا بالاخراس تاخےرکی وجہ سے آپ کے تمام دوست وموالی اوراےمان دار کافرہوگئے اورصرف سترمومن رہ گئے ۔ اسی طرح غیبت امام مہدی اورتاخےرظہورکی وجہ سے ہورہا ہے ۔ لوگ فرامےن پےغمبراور آئمہ علیہم السلام کی تکذےب کررہے ہیں اورعوام مسلم بلاوجہ اعتراضات کرکے اپنی عاقبت خراب کررہے ہیں اورشاےد اسی وجہ سے مشہور ہے کہ جب دنیا میں چالےس مومن کامل رہ جائیں گے تب آپ کا ظہورہوگا ۔

0)    حضرت خضرجوزندہ اورباقی ہیں اورقیامت تک موجود رہیں گے اورجب کہ حضرت خضرکے زندہ اورباقی رہنے میں مسلمانوں کوکوئی اختلاف نہیں ہے حضرت امام مہدی کے زندہ اورباقی رہنے میں بھی کوئی اختلاف کی وجہ نہیں ہے ۔

1)     غیبت صغری وکبری اورآپ کے سفراٴ

 آپ کی غیبت کی دوحیثیت تھی ، ایک صغری اوردوسری کبری ، غیبت صغری کی مدت ۷۵ یا ۷۳ سال تھی ۔ اس کے بعد غیبت کبری شروع ہوگئی غیبت صغری کے زمانے میں آپ کاایک نائب خاص ہوتا تھا جس کے ذرےعہ اہتمام ہرقسم کانظام چلتاتھا سوال وجواب، خمس وزکوة اوردیگرمراحل اسی کے واسطہ طے ہوتے تھے خصوصی مقامات محروسہ میں اسی کے ذرےعہ اورسفارش سے سفراٴ مقررکئے جاتے تھے ۔

  سب سے پہلے جنہیں نائب خاص ہونے کی سعادت نصےب ہوئی ۔ان کانام نامی واسم گرامی حضرت عثمان بن سعےدعمری تھا آپ حضرت امام علی نقی علیہ السلام اورامام حسن عسکری علیہ السلام کے معتمد خاص اوراصحاب خلص میںسے تھے آپ قبےلہ بنی اسد سے تھے آپ کی کنےت ابوعمرتھی ،آپ سامرہ کے قریہ عسکرکے رہنے والے تھے وفات کے بعد  آپ بغداد میں دروازہ جبلہ کے قرےب مسجد میں دفن کئے گئے آپ ک وفات کے بعد بحکم امام علیہ السلام آپ کے فرزند،حضرت محمد بن عثمان بن سعےد اس عظیم منزلت پرفائزہوئے ، آپ کی کنےت ابوجعفرتھی آپ نے اپنی وفات سے ۲ ماہ قبل اپنی قبرکھدوادی تھی آپ کاکہناتھا کہ میں یہ اس لئے کررہاہوں کہ مجھے امام علیہ السلام نے بتادیاہے اورمیں اپنی تاریخ وفات سے واقف ہوں آپ کی وفات جمادی الاول ۳۰۵ ہجری میں واقع ہوئی ہے اورآپ ماں کے قرےب بمقام دروازہ کوفہ سرراہ دفن ہوئے ۔ پھرآپ کی وفات کے بعد بواسطہٴ مرحوم حضرت امام علیہ السلام کے حکم سے حضرت حسین بن روحۺ اس منصب عظیم پرفائزہوئے ۔جعفربن محمد بن عثمان سعےدکاکہناہے ،کہ میرے والد حضرت محمد بن عثمان نے میرے سامنے حضرت حسین بن روح کواپنے بعد اس منصب کی ذمہ داری کے متعلق امام علیہ السلام کا پےغام پہنچایا تھا ۔حضرت حسین بن روح کی کنےت ابوقاسم تھی آپ محلہ نوبخت کے رہنے والے تھے آپ خفیہ طورپرجملہ ممالک اسلامیہ کادورہ کیاکرتے تھے آپ دونوں فرقوں کے نزدےک معتمد ،ثقہ ،صالحاورامےن قراردئے گئے ہیں آپ کی وفات شعبان ۳۲۶ میں ہوئی اورآپ محلہ نوبخت کوفہ میں مدفون ہوئے ہیں آپ کی وفات کے بعد بحکم امام علیہ السلام حضرت علی بن محمد السمری اس عہدہ ٴجلےلہ پرفائزہوئے آپ کی کنےت ابوالحسن تھی ،آپ اپنے فرائض انجام دئے رہے تھے ،جب وقت قرےب آیاتوآپ سے کہاگیا کہ آپ اپنے بعد کاکیاانتظام کریںگے ۔ آپ نے فرمایا کہ اب آئندہ یہ سلسہ قائم نہ رہے گا ۔ (مجالس المومنین ص ۸۹ وجزےزہ خضرا ص ۶ وانوارالحسینیہ ص ۵۵) ۔ ملاجامی اپنی کتاب شواہدالنبوت کے ص ۲۱۴ میں لکھتے ہیں کہ محمد السمری کے انتقال سے ۶ ےوم قبل امام علیہ السلام کا ایک فرمان ناحیہ مقدسہ سے برآمد ہوا ۔ جس میں ان کی وفات کا ذکراورسلسہٴ سفارت کے ختم ہونے کا تذکرہ تھا ۔ امام مہدی کے خط کے عےون الفاظ یہ ہیں

بسم اللہ الرحمن ا لرحیم

”  یاعلی بن محمد عظم اللہ اجراخرانک فےک فانک مےت مابےنک وبےن ستة ایام فاجمع امرک ولاترض الی احد ےقوم مقامک بعدوفاتک فقد وقعت الغےبة السامة فلاظہورالا بعداذن اللہ تعالی وذلک بعد طول الامد الخ“۔

ترجمہ  :  اے علی بن محمد ! خداوند عالم تمھارے بارے میں تمھارے بھائےوں اورتمھارے اوردوستوں کواجرجزےل عطاکرے ،تمہیں معلوم ہو کہ تم چھ ےوم میں وفات پانے والے ہو،تم اپنے انتظامات کرلو۔ اورآئندہ کے لئے اپنا کوئی قائم مقام تجوےز وتلاش نہ کرو۔ اس لئے کہ غیبت کبری واقع ہوگئی ہے اور اذن خدا کے بغیرظہورناممکن ہوگا ۔ یہ ظہوربہت طویل عرصہ کے بعد ہوگا ۔

غرضکہ چھ ےوم گذرنے کے بعد حضرت ابوالحسن علی بن محمدالسمری بتاریخ ۱۵ شعبان ۳۲۹ انتقال فرماگئے ۔اورپھرکوئی خصوصی سفےرمقررنہیں ہوا اورغیبت کبری شروع ہوگئی ۔

سفراٴ عمومی کے اسماء

 مناسب معلوم ہوتاہے کہ ان سفراٴ کے اسماء بھی درج ذےل کردئے جائیں جوانھےں نواب خاص کے ذرےعہ اورسفارش سے بحکم امام ممالک محروسہ مخصوصہ میں امام علیہ السلام کاکام کرتے تھے اورحضرت کی خدمت میں حاضرہوتے رہتے تھے ۔

0)    بغداد سے حاجز،بلالی ،عطار ۔  کوفہ سے عاصمی ۔ اہوازسے محمد بن ابراہےم بن مہریار ۔ ہمدان سے محمد بن صالح ۔ رے سے بسامی واسدی ۔ آذربائےجان سے قسم بن علاٴ۔ نےشاپورسے محمد بن شاذان ۔ قسم سے احمد بن اسحاق۔ (غایۃ المقصود جلد۱ ص ۱۲۰)۔

1)     

حضرت امام مہدی علیہ السلام کی غیبت کے بعد :

  حضرت امام مہدی علیہ السلام کی غیبت چونکہ خداوندعالم کی طرف سے بطورلطف خاص عمل میں آئی تھی ،اس لئے آپ خدائی خدمت میں ہمہ تن منہمک ہوگئے اورغائب ہونے کے بعد آپ نے دےن اسلام کی خدمت شروع فرمادی ۔ مسلمانوں، مومنوں کے خطوط کے جوابات دےنے ، ا ن کی بوقت ضرورت رہبری کرنے اورانھےں راہ راست دکھانے کا فرےضہ اداکرنا شروع کردیا ضروری خدمات آپ زمانہٴ غیبت صغری میں بواسطہ ٴسفراٴ یابلاوسطہ اورزمانہ غیبت کبری میں بلاواسطہ انجام دےتے رہے اورقیامت تک انجام دےتے رہیںگے۔

۳۰۷ ہجری  میں آپ کا حجراسود نصب کرنا   :

 علامہ اربلی لکھتے ہیں کہ زمانہٴ نیابت میں بعہد حسین بن روح ،ابوالقاسم جعفربن محمد بن قولویہ بارادہٴ حج بغداد گئے اوروہ مکہ معظمہ پہنچ کرحج کرنے کافےصلہ کئے ہوئے تھے ۔ لےکن وہ بغداد پہنچ کرسخت علےل ہوگئے ۔ اسی دوران میں آپ نے سناکہ قرامطہ نے حجراسود کونکال لیاہے اوروہ اسے کچھ درست کرکے ایام حج میں پھرنصب کریںگے ۔ کتابوں میںچونکہ پڑھ چکے تھے کہ حجراسود صرف امام زمانہ ہی نصب کرسکتاہے جےساکہ پہلے آنحضرت صلعم نے نصب کیاتھا ،پھرزمانہٴ حجاج میں امام زےن العابدےن نے نصب کیاتھا ۔ اسی بناء پرانھوں نے اپنے ایک کرم فرما” ابن ھشام “ کے ذرےعہ سے ایک خط ارسال کیا اوراسے کہ دیا کہ جوحجراسود نصب کرے اسے یہ خط دےدےنا ۔ نصب حجرکی لوگ سعی کررہے تھے ۔لےکن وہ اپنی جگہ پرقرارنہیں لےتاتھا کہ اتنے میں ایک خوبصورت نوجوان ایک طرف سے سامنے آیا اور اس نے اسے نصب کردیا اوروہ اپنی جگہ پرمستقرہوگیا ۔جب وہ وہاںسے روانہ ہوا توابن ہشام ان کے پےچھے ہولئے ۔راستہ میں انھوںنے پلٹ کرکہا اے ابن ہشام ،توجعفربن محمد کاخط مجھے دےدے ۔دےکھ اس میں اس نے مجھ سے سوال کیاہے کہ وہ کب تک زندہ رہے گا ۔ ا س سے یہ کہدےنا کہ وہ ابھی تےس سال اورزندہ رہے گا یہ کہہ کروہ ونظروں سے غائب ہوگئے ۔ ابن ہشام نے ساراواقعہ بغداد پہنچ کرجعفربن قولویہ سے بیان کردیا ۔ غرضکہ وہ تےس سال کے بعد وفات پاگئے ۔(کشف الغمہ ص ۱۳۳) اسی قسم کے کئی واقعات کتاب مذکورمیں موجودہیں ۔

  علامہ عبدالرحمن ملاجامی رقمطرازہیں کہ ایک شخص اسماعےل بن حسن ہرقلی جونواحی حلہ میں مقےم تھا اس کی ران پرایک زخم نمودارہوگیاتھا  جوہرزمانہٴ بحارمیں ابل آتاتھا جس کے علاج سے تمام دنیا کے اطباٴ عاجزاورقاصرہوگئے تھے وہ ایک دن اپنے بےٹے شمس الدےن کوہمراہ لے کرسےدرضی الدےن علی بن طاؤس کی خدمت میں گیا ۔انھوں نے پہلے توبڑی سعی کی ،لےکن کوئی چارہ کارنہ ہوا ہرطبےب یہ کہتاتھا کہ یہ پھوڑا ”رگ اکحل “ پرہے اگراسے نشتر دیاجائے توجان کاخطرہ ہے اس لئے اس کاعلاج ناممکن ہے ۔اسماعےل کابیان ہے کہ  ”چون ازاطباٴماےوس شدم عزےمت مشہدشرےف سرمن رائے کردم“ جب میں تمام اطباء سے ماےوس ہوگیا توسامرہ کے سرداب کے قرےب گیا،اوروہاں پرحضرت صاحب الامرکومتوجہ کیا ،ایک شب دریائے دجلہ سے غسل کرکے واپس آرہاتھا کہ چارسوارنظرآئے ،ان میں سے ایک نے میرے زخم کے قرےب ہاتھ پھےرا اورمیں بالکل اچھا ہوگیا میں ابھی اپنی صحت پرتعجب ہی کررہاتھا کہ ان میں سے ایک سوارنے جوسفےد رےش تھے کہا کہ تعجب کیا ہے تجھے شفادےنے والے امام مہدی علیہ السلام ہیں یہ سن کرمیں نے ان کے قدموں کا بوسہ دیا اوروہ لوگ نظروں سے غائب ہوگئے ۔ (شواہدالنبوت ص ۲۱۴ وکشف الغمہ ص ۱۳۲) ۔

اسحاق بن یعقوب کے نام امام عصرکاخط :

  علامہ طبرسی بحوالہ محمد بن ےعقوب کلےنی لکھتے ہیں کہ اسحق بن ےعقوب نے بذرےعہ محمد بن عثمان عمری حضرت امام مہدی علیہ السلام کی خدمت ایک خط ارسال کیا جس میں کئی سوالات مندرج تھے ۔حضرت نے بخط خود جواب تحرےرفرمایا اورتمام سوالات کے جوابات تحرےرا عنآیت فرمائے جس کے اجزاٴ یہ ہیں   :

۱ ) جوہمارامنکرہے ،وہ ہم سے نہیں ۔

۲ ) میرے عزےزوں میں سے جومخالفت کرتے ہیں ،ان کی مثال ابن نوح اوربرادران ےوسف کی ہے ۔

۳ ) فقاع یعنی جوکی شراب کاپےنا حرام ہے ۔

۴ ) ہم تمہارے مال صرف اس لئے (بطورخمس قبول کرتے ہیں کہ تم پاک ہوجاؤ اورعذاب سے نجات حاصل کرسکو۔

۵ ) میرے ظہورکرنے اورنہ کرنے کا تعلق صرف خداسے ہے جولوگ وقت ظہورمقررکرتے ہیں وہ غلطی پرہیں جھوٹ بولتے ہیں ۔

۶ ) جولوگ یہ کہتے ہیں کہ امام حسین قتل نہیں ہوئے وہ کافرجھوٹے ا ورگمراہ ہیں ۔

۷ ) تمام واقع ہونے والے حوادث میں میرے سفراٴپراعتماد کرو ،وہ مےری طرف سے تمھارے لئے حجت ہیں اورمیں حجت اللہ ہوں ۔

۸ ) ” محمد بن عثمان “ امےن اورثقہ ہیں اوران کی تحرےرمےری تحرےرہے ۔

۹ )  محمد بن علی مہریاراہوازی کادل انشاء اللہ بہت صاف ہوجائے گا اورانھےں کوئی شک نہ رہے گا ۔

۱۰ )  گانے والی کی اجرت و قیمت حرام ہے ۔

۱۱ )  محمد بن شاذان بن نےعم ہمارے شےعوں میں سے ہے ۔

۱۲ )  ابوالخطاب محمدبن ابی زےنب اجدع ملعون ہے اوران کے ماننے والے بھی ملعون ہیں ۔ میں اورمیرے باپ دادا اس سے اور اس کے باپ دادا سے ہمےشہ بے زاررہے ہیں ۔

۱۳ )  جوہمارا مال کھاتے ہیں وہ اپنے پےٹوں میں آگ بھررہے ہیں ۔

۱۴ )  خمس ہمارے سادات شےعہ کے لئے حلال ہے ۔

۱۵ )  جولوگ دےن خدامیں شک کرتے ہیں وہ اپنے خود ذمہ دارہیں ۔

۱۶ )  مےری غیبت کےوں واقع ہوئی ہے ۔ یہ بات خداکی مصلحت سے متعلق ہے اس کے متعلق سوال بےکارہے۔ میرے آباؤاجداد دنیا والوں کے شکنجہ میں رہے ہیں لےکن خدانے مجھے اس شکنجہ سے بچالیاہے جب میں ظہورکروںگا بالکل آزاد ہوںگا ۔

0)          زمانہ ٴ غیبت میں مجھ سے فائدہ کیاہے ؟ اس کے متعلق یہ سمجھ لوکہ مےری مثال غیبت میں وےسی ہے جےسے ابرمیں چھپے ہوئے آفتاب کی ۔ میں ستاروں کی مانند اہل ارض کے لئے امان ہوں تم لوگ غیبت اورظہورسے متعلق سوالات کا سلسلہ بندکرواورخداوندعالم کی بارگاہ میں دعاکرو کہ وہ جلد میرے ظہورکاحکم دے ،اے اسحاق ! تم پراوران لوگوں پرمےراسلام ہو جوہدآیت کی اتباع کرتے ہیں ۔ (اعلام الوری ص ۲۵۸ مجالس المومنین ص۱۹۰، کشف الغمہ ص۱۴۰)۔

1)  شیخ محمدبن محمد کے نام امام زمانہ کامکتوب گرامی

 علماٴ کابیان ہے کہ حضرت امام عصرعلیہ السلام نے جناب شیخ مفید ابوعبداللہ محمد بن محمد بن نعمان کے نام ایک مکتوب ارسال فرمایا ہے ۔ جس میں انھوں نے شیخ مفید کی مدح فرمائی ہے اوربہت سے واقعات سے موصوف کوآگاہ کیا ہے ان کے مکتوب گرامی کا ترجمہ یہ ہے :

  میرےے نےک برادراورلائق محب، تم پرمےراسلام ہو ۔ تمہیں دےنی معاملہ میں خلوص حاصل ہے اورتم ہمارے بارے میں ےقےن کامل رکھتے ہو ۔ہم اس خداکی تعرےف کرتے ہیں جس کے سواکوئی معبود نہیں ہے ۔  ہم درود بھےجتے ہیں حضرت محمد مصطفی اوران کی پاک آل پرہماری دعاء ہے کہ خداتمہاری توفےقات دےنی ہمےشہ قائم رکھے اورتمہیںنصرت حق کی طرف ہمےشہ متوجہ رکھے ۔تم جوہمارے بارے میں صدق بیانی کرتے رہتے ہو ،خدا تم کواس کااجرعطافرمائے ۔تم نے جوہم سے خط وکتابت کاسلسہ جاری رکھا اوردوستوں کوفائدہ پہونچایا ، وہ قابل مدح وستائش ہے ۔ ہماری دعاہے کہ خداتم کو دشمنوں کے مقابلہ میں کامیاب رکھے ۔ اب ذرا ٹہرجاؤ ۔ اورجےساہم کہتے ہیں اس پرعمل کرو ۔ اگرچہ ہم ظالموں کے امکانات سے دورہیں لےکن ہمارے لئے خداکافی ہے جس نے ہم کوہمارے شےعہ مومنین کی بہتری کے لئے ذرائع دکھائے دئےے ہیں ۔ جب تک دولت دنیا فاسقوں کے ہاتھ میں رہے گی ۔ ہم کوتمہاری خبرےں پہونچتی رہیں گی اورتمہارے معاملات کے متعلق کوئی بات ہم سے پوشےدہ نہ رہے گی ۔ ہم ان لغزشوں کوجانتے ہیں جولوگوں سے اپنے نےک اسلاف کے خلاف ظاہرہورہی ہیں ۔ (شاےد اس سے اپنے چچا جعفرکی طرف اشارہ فرمایاہے ) انھوںنے اپنے عہدوں کوپس پشت ڈال دیاہے ،گویاوہ کچھ جانتے ہی نہیں ۔ تاہم ہم ان کی رعآیتوں کوچھوڑنے والے نہیں اورنہ ان کے ذکربھولنے والے ہیں اگراےساہوتا توان پرمصےبتےں نازل ہوجاتےں اوردشمنوں کوغلبہ حاصل ہوجاتا ،پس ان سے کہو کہ خداسے ڈرواورہمارے امرونہی کی حفاظت کرو اوراللہ اپنے نورکاکامل کرنے والاہے ،چاہے مشرک کےسے ہی کراہت کریں ۔ تقیہ کوپکڑے رہو ،میں اس کی نجات کاضامن ہوں جوخداکی مرضی کاراستہ چلے گا ۔ ا س سال جمادی الاول کامہےنہ آئے گا تواس کے واقعات سے عبرت حاصل کرنا تمہارے لئے زمین وآسمان سے روشن آیتےں ظاہرہوںگی ۔مسلمانوں کے گروہ حزن وقلق میں بمقام عراق پھنس جائیں گے اور ان کی بداعمالےوں کی وجہ سے رزق میں تنگی ہوجائے گی پھریہ ذلت ومصےبت شرےروںکی ھلاکت کے بعد دورہوجائےگی ۔ ان کی ھلاکت سے نےک اورمتقی لوگ خوش ہوں گے لوگوں کوچاہےے کہ وہ ا ےسے کام کریں جن سے ان میں ہماری محبت زیادہ ہو ۔یہ معلوم ہوناچاہےے کہ جب موت ےکایک آجائے گی توباب توبہ بند ہوجائے گا اورخدائی قہرسے نجات نہ ملے گی خدا تم کونےکی پرقائم رکھے ،اورتم پررحمت نازل کرے ۔ “

 میرے خیال میں یہ خط عہد غیبت کبری کاہے ،کےونکہ شیخ مفید کی ولادت ۱۱ ذیقعدہ ۳۳۶ ہجری ہے اوروفات ۳ رمضان ۴۱۳ میں ہوئی ہے اورغیبت صغری کااختتام ۱۵ شعبان ۳۲۹ میں ہواہے علامہ کبےرحضرت شہےد ثالث علامہ نوراللہ شوشتری مجالس المومنین کے ص ۲۰۶ میں لکھتے ہیں کہ شیخ مفید کے مرنے کے بعد حضرت امام عصرنے تین شعر ارسال فرمائے تھے جومرحوم کی قبرپرکندہ ہیں ۔

ان حضرات کے نام جنھوں نے زمانہٴ غیبت صغری میں امام کودیکھا ہے

 چاروکلائے خصوصی اورسات وکلائے عمومی کے علاوہ جن لوگوں نے حضرت امام عصرعلیہ السلام کودےکھا ہے ان کے اسماء میں سے بعض کے نام یہ ہیں   :

بغداد کے رہنے والوں میں سے  ( ۱) ابوالقاسم بن رئےس  ( ۲) ابوعبداللہ ابن فروخ  ( ۳) مسرورالطباخ( ۴ ۔ ۵)  احمدومحمدپسران حسن  ( ۶) اسحاق کاتب ازنوبخت  ( ۷) صاحب الفراٴ ( ۸) صاحب الصرة المختومہ ( ۹) ابوالقاسم بن ابی جلےس  ( ۱۰) ابوعبداللہ الکندی  ( ۱۱) ابوعبداللہ الجنےدی ( ۱۲) ہارون الفراز ( ۱۳) النےلی (ہمدان کے باشندوں میںسے)  ( ۱۴) محمد بن کشمر( ۱۵) و جعفربن ہمدان (دےنورکے رہنے والوں میں سے )  ( ۱۶) حسن بن ہروان( ۱۷)  احمدبن ہروان  (ازاصفہان )  ( ۱۸) ابن بازشالہ  (ازضےمر)  ( ۱۹) زےدان (ازقم)  ( ۲۰) حسن بن نصر ( ۲۱) محمدبن محمد ( ۲۲)  علی بن محمد بن اسحاق  ( ۲۳) محمدبن اسحاق  ( ۲۴) حسن بن ےعقوب  (ازری )  ( ۲۵) قسم بن موسی  ( ۲۶) فرزند قسم بن موسی  ( ۹۲۷ ابن محمد بن ہارون  ( ۲۸) صاحب الحصاقہ  ( ۲۹) علی بن محمد  ( ۳۰) محمد بن ےعقوب کلےنی ( ۳۱) ابوجعفرالرقاٴ (ازقزوےن)  ( ۳۲) مرواس  ( ۳۳) علی بن احمد (ازفارس ) ( ۳۴) المجروح  (ازشہزور)  ( ۳۵) ابن الجمال (ازقدس)  ( ۳۶) مجروح (ازمرو)  ( ۳۷) صاحب الالف دےنار  ( ۳۸) صاحب المال والرقة البےضاٴ  ( ۳۹) ابوثابت (ازنےشابور)  ( ۴۰) محمدبن شعےب بن صالح (ازےمن)  ( ۴۱) فضل بن برےد  ( ۴۲) حسن بن فضل  ( ۴۳) جعفری  ( ۴۴) ابن الاعجمی ( ۴۵) شمشاطی (ازمصر)  ( ۴۶) صاحب المولودےن  ( ۴۷) صاحب ا لمال  ( ۴۸) ابورحاٴ (ازنصےبےن)  ( ۴۹) ابومحمدابن الوجنا(ازاہواز) ( ۵۰) الحصےنی (عاےة المقصود جلد ۱ ص ۱۲۱) ۔

ِِزیارت ناحیہ اوراصول کافی   :

 کہتے ہیں کہ اسی زمانہ غیبت صغری میں ناحیہ مقدسہ سے ایک اےسی زیارت برآمد ہوئی ہے جس میںتمام شہداٴ کربلا کے نام اورانکے قاتلوں کے آسماٴہیں ۔ اس  ”زیارت ناحیہ “ کے نام سے موسوم کیاجاتاہے ۔ اسی طرح یہ بھی کہاجاتاہے کہ اصول کافی جوکہ حضرت ثقة الاسلام علامہ کلےنی المتوفی ۳۲۸ کی ۲۰ سالہ تصنےف ہے وہ جب ا مام عصرکی خدمت میں پےش ہوئی توآپ نے فرمایا : ” ھذا کاف لشےعتنا۔“  یہ ہمارے شےعوں کے لئے کافی ہے زیارت ناحیہ کی توثےق بہت سے علماء نے کی ہے جن میں علامہ طبرسی اورمجلسی بھی ہیں دعائے سباسب بھی آپ ہی سے مروی ہے ۔

غیبت کبری میں امام مہدی کامرکزی مقام :

 امام مہدی علیہ السلام چونکہ اسی طرح زندہ اورباقی ہیں جس طرح حضرت عیسی ،حضرت ادرےس ،حضرت خضر،حضرت الیاس ۔ نےز دجال بطال ، یاجوج ماجوج اورابلےس لعےن زندہ اورباقی ہیں  اوران سب کامرکزی مقام موجود ہے ۔ جہاں یہ رہتے ہیں مثلا حضرت عیسی چوتھے آسمان پر(قرآن مجید)  حضرت ادرےس جنت میں (قرآن مجید) حضرت خضراورالیاس ،مجمع البحرین یعنی دریائے فارس وروم کے درمیان پانی کے قصرمیں (عجائب القصص علامہ عبدالواحد ص ۱۷۶)  اوردجال بطال طبرستان کے جزیرہ مغرب میں (کتاب غایۃ المقصود جلد ۱ ص ۱۰۲)  اوریاجوج ماجوج بحےرہٴ روم کے عقب میں دوپہاڑوں کے درمیان (کتاب غایۃ المقصود جلد ۲ ص ۴۷)  اورابلےس لعےن ،استعمارارضی کے وقت والے پایہٴ تخت ملتان میں(کتاب ارشادالطالبین علامہ اخوند دروےزہ ص ۲۴۳)  تو لامحالہ حضرت امام مہدی علیہ السلام کابھی کوئی مرکزی مقام ہوناضروری ہے جہاں آپ تشریف فرماہوں اوروہاں سے ساری کائنات میں اپنے فرائض انجام دےتے ہوں اسی لئے کہاجاتاہے کہ زمانہ غیبت میں حضرت امام مہدی علیہ السلام (جزیرہ خضراٴاوربحرابےض)  میں اپنی اولاد اپنے اصحاب سمےت قیام فرماہیں اوروہیں سے باعجازتمام کام کیاکرتے اورہرجگہ پہنچاکرتے ہیں ،یہ جزیرہ خضراٴ سرزمین ولآیت بربرمیں درمیان دریائے اندلس واقع ہے یہ جزیرہ معموروآبادہے ، اس دریاکے ساحل میں ایک موضع بھی ہے جوبشکل جزیرہ ہے اسے اندلس والے (جزیرہ رفضہ ) کہتے ہیں ،کےونکہ اس میں ساری آبادی شےعوںکی ہے اس تمام آبادی کی خوراک وغےرہ جزیرہ خضراسے براہ بحرابےض سال میں دوبار ارسال کی جاتی ہے ۔ملاحظہ ہو(تاریخ جہاں آرا۔ ریاض العماء ،کفاےة المہدی ،کشف القناع ، ریاض المومنین ،غایۃ المقصود ،رسالہ جزیرہ خضراء وبحرابےض اورمجالس المومنین علامہ نوراللہ شوشتری وبحارالانوار،علامہ مجلسی کتاب روضة الشہداء  علامہ حسین واعظ کاشفی ص ۴۳۹ میں امام مہدی کے اقصائے بلاد مغرب میں ہونے اوران کے شہروں پرتصرف رکھنے اورصاحب اولادوغےرہ ہونے کاحوالہ ہے ۔ امام شبلنجی علامہ عبدالمومن نے بھی اپنی کتاب نورالابصارکے ص ۱۵۲ میں اس کی طرف بحوالہ کتاب جامع الفنون اشارہ کیاہے ، غیاث اللغاث کے ص ۷۲ میں ہے کہ یہ وہ دریاہے جس کے جانب مشرق چےن ،جانب غربی ےمن ، جانب شمالی ہند، جانب جنوبی دریائے محےط واقع ہے ۔ اس بحرابےض واخضرکاطول ۲ ہزارفرسخ اورعرض پانچ سوفرسخ ہے اس میںبہت سے جزےزے آباد ہیں جن میں ایک سراندےب بھی ہے اس کتاب کے ص ۲۹۵ میں ہے کہ ”صاحب الزمان“ حضرت امام مہدی علیہ السلام کالقب ہے علامہ طبرسی لکھتے ہیں کہ آپ جس مکان میں رہتے ہیں اسے  ”بےت الحمد“ کہتے ہیں ۔ (اعلام الوری ص ۲۶۳) ۔

جزیرہ خضراٴ میں امام علیہ السلام سے ملاقات

  حضرت امام مہدی علیہ السلام کی قیام گاہ جزیرہ خضراٴ میں جولوگ پہنچے ہیں۔ ا ن میں سے شیخ صالح ،شیخ زےن العابدےن ملی بن فاضل مازندرانی کانام نمایاں طورپرنظرآتاہے ۔ آپ کی ملاقات کی تصدےق ، فضل بن ےحےی بن علی طبےعی کوفی وشیخ عالم عامل شیخ شمس الدےن نجح حلی وشیخ جلال الدےن ، عبداللہ ابن عوام حلی نے فرمائی ہے ۔ علامہ مجلسی نے آپ کے سفرکی ساری وؤےداد ایک رسالہ کی صورت میں ضبط کیاہے ۔ جس کامفصل ذکربحارالانوار میں موجود ہے رسالہ جزیرہ خضراء  کے ص ۱ میں ہے کہ شیخ اجل سعےدشہےد بن محمد مکی اورمےرشمس الدےن محمد اسداللہ شوشتری نے بھی تصدےق کی ہے۔

مؤلف کتاب ہذا کہتاہے کہ حضرت کی ولادت حضرت کی غیبت ،حضرت کاظہوروغےرہ جس طرح رمزخداوندی اوررازالہی ہے اسی طرح آپ کی جائے قیام بھی ایک رازہے جس کی اطلاع عام ضروری نہیں ہے ،واضح ہوکہ کولمبس کے ادراک سے قبل بھی امرےکہ کاوجود تھا۔

امام غائب کاہرجگہ حاضرہونا

احادیث سے ثابت ہے کہ امام علیہ السلام جوکہ مظہرالعجائب حضرت علی کے پوتے ،ہرمقام پرپہونچتے اورہرجگہ اپنے ماننے والوں کے کام آتے ہیں ۔  علماٴ نے لکھا ہے کہ آپ بوقت ضرورت مذہبی لوگوں سے ملتے ہیں لوگ انھےں دےکھتے ہیں یہ اوربات ہے کہ انھےں پہچان نہ سکےں ۔(غایۃ المقصود)۔

امام مہدی اورحج کعبہ

یہ مسلمات میںسے ہے کہ حضرت امام مہدی علیہ السلام ہرسال حج کعبہ کے لئے مکہ معظمہ اسی طرح تشریف لے جاتے ہیں جس طرح حضرت خضروالیاس جاتے ہیں (سراج القلوب ۷۷)  علی احمد کوفی کابیان ہے کہ میں طواف کعبہ میں مصروف ومشغول تھا کہ مےری نظرایک نہآیت خوبصورت نوجوان پرپڑی ،میں نے پوچھا آپ کون ہیں ؟ اورکہاںسے تشریف لائے ہیں ؟ آپ نے فرمایا  ”انا المھدی وانا القائم۔“ میں مہدی آخرالزماں اورقائم آل محمد ہوں ۔ غانم ہندی کابیان ہے کہ میں امام مہدی کی تلاش میں ایک مرتبہ بغداد گیا،ایک پل سے گزرتے ہوئے مجھے ایک صاحب ملے اور وہ مجھے ایک باغ میں لے گئے اورانھوںنے مجھ سے ہندی زبان میں کلام کیا اورفرمایاکہ تم امسال حج کے لئے نہ جاؤ،ورنہ نقصان پہونچے گا محمد بن شاذان کاکہنا ہے کہ میں ایک دفعہ مدینہ میں داخل ہوا توحضرت امام مہدی علیہ السلام سے ملاقات ہوئی ،انھوں نے مےراپورانام لے کرمجھے پکارا ،چونکہ میرے پورے نام سے کوئی واقف نہ تھا اس لئے مجھے تعجب ہوا۔ میں نے پوچھا آپ کون ہیں ؟فرمایا میں امام زمانہ ہوں ۔ علامہ شیخ سلےمان قندوزی بلخی تحرےرفرماتے ہیں کہ عبداللہ بن صالح نے کہا کہ میں نے غیبت کبری کے بعد امام مہدی علیہ السلام کوحجراسود کے نزدےک اس  حال میں کھڑے ہوئے دےکھاکہ انھےں لوگ چاروں طرف سے گھےرے ہوئے ہیں ۔ (ےنابع المودة )۔

زمانہ غیبت کبری میں امام مہدی کی بیعت   :

 حضرت شیخ عبداللطےف حلبی حنفی کاکہناہے کہ میرے والد شیخ ابراہےم حسین کاشمارحلب کے مشائخ عظام میں تھا ۔وہ فرماتے ہیں کہ میرے مصری استاد نے بیان کیا ہے کہ میں نے حضر ت امام مہدی علیہ السلام کے ہاتھ پربیعت کی ہے۔ (ےنابع المودةباب ۸۵ ص ۳۹۲ )

امام مہدی کی مومنین سے ملاقات   :

رسالہ جزیرہ خضرا کے ص ۱۶ میں بحوالہ احادےث آل محمد مرقوم ہے کہ حضرت امام مہدی علیہ السلام سے ہرمومن کی ملاقات ہوتی ہے۔ یہ اوربات ہے کہ مومنین انھےں مصلحت خداوندی کی بناء پراس طرح نہ پہچان سکےن جس طرح پہچاننا چاہےے مناسب معلوم ہوتاہے اس مقام پرمیں اپناایک خواب لکھ دوں ۔ واقعہ یہ ہے کہ آج کل جبکہ میں امام زمانہ کے حالات لکھ رہاہوں حدےث مذکورہ پرنظرڈالنے کے بعد فورا ذہن میں یہ خیال پےداہواکہ مولا سب کودکھائی دےتے ہیں ،لےکن مجھے آج تک نظرنہیں آئے ،اس کے بعد میں استراحت پرگیا اورسونے کے ارادے سے لےٹاابھی نےند نہ آئی تھی اورقطعی طورپرنےم بےداری کی حالت میں تھا کہ ناگاہ میں نے دےکھا کہ میرے کان سے جانب مشرق تابحد نظرایک قوسی خط پڑاہواہے یعنی شمال کی جانب کاسارا حصہ عالم پہاڑہے اوراس پرامام مہدی علیہ السلام برہنہ تلوارلئے کھڑے ہیں اوریہ کہتے ہوئے کہ ”نصف دنیاآج ہی فتح کرلوں گا ۔“ شمال کی جانب ایک پاؤں بڑھارہے ہیں آپ کاقد عام انسانوں کے قد سے ڈیوڑھا اورجسم دوہراہے ،بڑی بڑی سرمگےن آنکھےں اورچہرہ انتہائی روشن ہے آپ کے پٹے کٹے ہوئے ہیں اورسارا لباس سفےد ہے اوروقت عصرکاہے۔

یہ واقعہ ۳۰ نومبر ۱۹۵۸ شب ےکشنبہ بوقت ساڑھے چاربجے شب کاہے۔

ملامحمد باقرداماد کاامام عصرسے استفادہ کرنا :

ہمارے اکثرعلماٴ علمی مسائل اورمذہبی ومعاشرتی مراحل حضرت امام مہدی ہی سے طے کرتے آئے ہیں ملامحمد باقرداماد جوہمارے عظیم القدرمجتہد تھے ان کے متعلق ہے کہ ایک شب آپ نے ضرےح نجف اشرف میں ایک مسئلہ لکھ کرڈالا اس کے جواب میں ان سے تحرےرا کہاگیاکہ تمھارا امام زمانہ اس وقت مسجدکوفہ میں نمازگذارہے تم وہاں جاؤ،وہ وہاں جاپہونچے ،خود بخود دروازہ مسجد کھل گیا ۔ اورآپ اندرداخل ہوگئے آپ نے مسئلہ کاجواب حاصل کیا اواآپ مطمئن ہوکر برآمد ہوئے۔

جناب بحرالعلوم کا امام زمانہ سے ملاقات کرنا :

کتاب قصص العلماٴ مولفہ علامہ تنکابنی ص ۵۵ میں مجتہد اعظم کربلائے معلی جناب آقا محمدمہدی بحرالعلوم کے تذکرہ میں مرقوم ہے کہ ایک شب آپ نماز میں اندرون حرم مشغول تھے کہ اتنے میں امام عصراپنے اب وجدکی زیارت کے لئے تشریف لائے جس کی وجہ سے ان کی زبان میں لکنت ہوئی اوربدن میں ایک قسم کا رعشہ پےداہوگیا پھرجب وہ واپس تشریف لے گئے توان پرجوایک خاص قسم کی کےفےت طاری تھی وہ جاتی رہی ۔اس کے علاوہ آپ کے اسی قسم کے کئی واقعات کتاب مذکورہ میں مندرج ہیں ۔

امام مہدی علیہ السلام کاحمایت مذہب فرمانا  واقعہ ٴانار   :

کتاب کشف الغمہ ۱۳۳ میں ہے کہ سےد باقی بن عطوہ امامیہ مذہب کے تھے اوران کے والدزےدیہ خیال رکھتے تھے ایک دن ان کے والدعطوہ نے کہا کہ میں سخت علےل ہوگیاہوں اوراب بچنے کی کوئی امےدنہیں ۔ہرقسم کے اطباٴ کاعلاج کراچکاہوں، اے نورنظر ! میں تم سے وعدہ کرتاہوں کہ اگرمجھے تمہارے امام نے شفادےدی ،تومیں مذہب امامیہ اختیارکرلوںگا یہ کہنے کے بعد جب یہ رات کوبسترپرگئے توامام زمانہ کاان پرظہورہوا،امام نے مقام مرض کواپناہاتھ سے مس کردیا اوروہ مرض جاتارہا عطوہ نے اسی وقت مذہب امامیہ اختیارکرلیا اور رات ہی میں جاکر اپنے فرزند باقی علوی کوخوشخبری دےدی ۔

اسی طرح کتاب جواہرالبیان میں ہے کہ بحرین کاوالی نصرانی اوراس کاوزیرخارجی تھا ،وزیرنے بادشاہ کے سامنے چند تازہ انار پےش کئے جن پرخلفاٴ کے نام علی الترتےب کندہ تھے اوربادشاہ کوےقےن دلایاکہ ہمارامذہب حق ہے اورترتےب خلافت منشاٴقدرت کے مطابق درست ہے بادشاہ کے دل میں یہ بات کچھ اس طرح بےٹھ گئی کہ وہ یہ سمجھنے پرمجبور ہوگیا کہ وزیرکامذہب حق ہے اورامامیہ راہ باطل پرگامزن ہیں ،چنانچہ اس نے اپنے خیال کی تکمیل کے لئے جملہ علماٴ امامیہ کو جواس کے عہد حکومت تھے بلابھےجا اورانھےں اناردکھاکر ان سے کہاکہ اس کی رد میں کوئی معقول دلےل لاؤ ورنہ ہم تمہیںقتل کرکے تمام مذہب کوبےخ وبن سے اکھاڑدیں گے ،اس واقعہ نے علماٴکرام میںایک عجےب قسم کاہےجان پےداکردیا ، بالاخرسب علماء آپس میں مشورہ کے بعد اےسے دس علماٴ پرمتفق ہوگئے جوان میں نسبتا مقدس تھے اورپروگرام یہ بنایا کہ جنگل میں ایک ایک عالم بوقت شب جاکرامام زمانہ سے استعانت کرے ،چونکہ ایک شب کی مہلت ومدت ملی تھی ،اس لئے پرےشانی زیادہ تھی غرضکہ علماء نے جنگل میں جاکرامام زمانہ سے فریاد کاسلسلہ شروع کیا۔دوعالم اپنی اپنی مدت ،فریادوفغاں ختم ہونے پرجب واپس آئے اورتےسرے عالم حضرت محمدبن علی کی باری آئی توآپ نے بدستورصحرامیں جاکرمصلی بچھادیا ،اورنماز کے بعد امام زمانہ کواپنی طرف متوجہ کرنے کی کوشش کی لےکن ناکام ہوکر واپس آتے ہوئے انھےں ایک شخص راستے میں ملا اس نے پوچھا ۔ کیابات ہے کےوں پرےشان ہو،آپ نے عرض کی امام زمانہ کی تلاش ہے اوروہ تشریف لانہیں رہے ۔ اس شخص نے کہا  :” اناصاحب العصرفاذکرحاجتک “ میں ہی تمہارا امام زمانہ ہوں ،کہوکیاکہتے ہو محمدبن علی نے کہا کہ اگرآپ صاحب العصرہیں توآپ سے حاجت بیان کرنے کی ضرورت کیا،آپ کوخود ہی علم ہوگا ۔

اس کے جواب میں انھوں نے فرمایا کہ سنو ! وزیرکے فلاں کمرہ میں ایک لکڑی کا صندوق ہے اس مٹی کے چند سانچے رکھے ہوئے ہیں جب انارچھوٹاہوتاہے وزیراس پرسانچہ چڑھادےتاہے ۔ اورجب وہ بڑھتاہے تواس پروہ نام کندہ ہوجاتے ہیں جوسانچہ میں کندہ ہیں محمد بن علی ! تم بادشاہ کواپنے ہمراہ لے جاکروزیرکے دجل وفریب کوواضح کردو،وہ اپنے ارادہ سے بازآجائے گا اوروزیرکوسزا دے گا چنانچہ اےساہی کیاگیا اوروزیربرخواست کردیا گیا ۔ (کتاب بداےع الاخبارملا اسماعےل سبزواری ص ۱۵۰ وسفےنة البحارجلد ۱ ص ۵۳۶ طبع نجف اشرف)۔

امام عصرکا واقعہٴ کربلابیان کرنا   :

حضرت امام مہدی علیہ السلام سے پوچھاگیا کہ ” کھےعص  “ کاکیامطلب ہے توفرمایا کہ اس میں (ک)سے کربلا (ہ) سے ہلاکت عترت (ی ) سے ےزےدملعون (ع) سے عطش حسینی (ص ) سے صبرآل محمدمراد ہے ۔ آپ نے فرمایا کہ آیت میں جناب زکریاکاذکر کیاگیا ہے ۔جب زکریاکوواقعہٴ کربلاکی اطلاع ہوئی تووہ تین روزتک مسلسل روتے رہے ۔(تفسیرصافی ص ۲۷۹) ۔

حضرت امام مہدی علیہ السلام کے طول عمرکی بحث   :

بعض مستشرقےن وماہرےن اعمارکاکہناہے کہ  ”جن کے اعمال وکرداراچھے ہوتے ہیں اورجن کا صفائے باطن کامل ہوتاہے ان کی عمرےں طویل ہوتی ہیں یہی وجہ ہے کہ علماٴ فقہاء اورصلحاٴکی عمرےں اکثرطویل دےکھی گئی ہیں اورہوسکتاہے کہ طول عمرمہدی علیہ السلام کی یہ بھی ایک وجہ ہو ،ان سے قبل جوآئمہ علہےم السلام گزرے وہ شہےدکردئےے گئے ،اوران پردشمنوں کادسترس نہ ہوا ،تویہ زندہ رہ گئے اوراب تک باقی ہیں لےکن میرے نزدےک عمرکاتقرر وتعےن دست ایزد میں ہے اسے اختیارہے کہ کسی کی عمرکم رکھے کسی کی زیادہ اس کی معین کردہ مدت عمر میںایک پل کابھی تفرقہ نہیں ہوسکتا ۔

توارےخ واحادےث سے معلوم ہوتاہے کہ خداوندعالم نے بعض لوگوں کوکافی طویل عمرےں عطاکی ہیں ۔ عمرکی طوالت مصلحت خداوندی پرمبنی ہے اس سے اس نے اپنے دوست اوردشمن دونوں کونوازاہے ۔دوستوں میں حضرت عیسی ،حضرت ادرےس ،حضرت خضروحضرت الیاس ، اوردشمنوں میں سے ابلےس لعےن ،دجال بطال ،یاجوج ماجوج وغےرہ ہیں اورہوسکتاہے کہ چونکہ قیامت اصول دےن اسلام سے ہے اور اس کی آمد میں امام مہدی کاظہورخاص حیثیت رکھتاہے لہذا ان کازندہ وباقی رکھنامقصودہاہو ،اوران کے طول عمرکے اعتراض کورداوررفع ودفع کرنے کے لئے اس نے بہت سے افراد کی عمرےں طویل کردی ہوں مذکورہ ا فراد کوجانے دےجئے ۔ عام انسانوں کی عمروں کودےکھئے بہت سے اےسے لوگ ملےں گے جن کی عمرےں کافی طویل رہی ہیں ،مثال کے لئے ملاحظہ ہو :

۱ ) ۔ لقمان کی عمر ۳۵۰۰ سال ۔(۲) عوج بن عنق کی عمر ۳۳۰۰ سال اوربقولے ۳۶۰۰ سال ۔  (۳)  ذوالقرنےن کی عمر۳۰۰۰ سال۔  (۴)  حضرت نوح و(۵)  ضحاک و(۶)  طمہورث کی عمرےں ۱۰۰۰ سال۔(۷)  قےنان کی عمر۹۰۰ سال ۔ (۸)  مہلائےل کی عمر۸۰۰سال  (۹)  نفےل بن عبداللہ کی عمر۷۰۰ سال۔ (۱۰)  ربےعہ بن عمرعرف سطےع کاہن کی عمر۶۰۰ سال ۔ (۱۱)  حاکم عرب عامربن ضرب کی عمر۵۰۰ سال ۔ (۱۲)  سام بن نوح کی عمر۵۰۰ سال۔ (۱۳)  حرث بن مضاض جرہمی کی عمر۴۰۰ سال ۔ (۱۴)  ارفخشد کی عمر۴۰۰ سال ۔ (۱۵) درےدبن زےدکی عمر۴۵۶ سال۔ (۱۶)  سلمان فارسی کی عمر۴۰۰ سال۔ (۱۷)  عمروبن روسی کی عمر۴۰۰ سال۔ (۱۸)  زہےربن جناب بن عبداللہ کی عمر۴۳۰سال۔ (۱۹)  حرث بن ضیاص کی عمر۴۰۰ سال۔ (۲۰) کعب بن جمجہ کی عمر۳۹۰ سال ۔ (۲۱)  نصربن دھمان بن سلےمان کی عمر۳۹۰ سال۔ (۲۲)  قےس بن ساعدہ کی عمر۳۸۰سال ۔ (۲۳)  عمربن ربےعہ کی عمر۳۳۳سال۔ (۲۴)  اکثم بن ضےفی کی عمر۳۳۶ سال ۔ (۲۵)  عمربن طفےل عدوانی کی عمر۲۰۰ سال تھی (غایۃ المقصود ص۱۰۳  اعلام الوری ص۲۷۰ )  ان لوگوں کی طویل عمروں کودےکھنے کے بعدہرگزنہیں کہاجاسکتا کہ ”چونکہ اتنی عمرکاانسان نہیں ہوتا ،اس لئے امام مہدی کاوجود ہم تسلےم نہیں کرتے ۔ کےونکہ امام مہدی علیہ السلام کی عمراس وقت ۱۳۹۳ہجری میں صرف گیارہ سواڑتالےس سال کی ہوتی ہے جومذکورہ عمروں میں سے لقمان حکےم اورذوالقرنےن جےسے مقدس لوگوں کی عمروں سے بہت کم ہے ۔

  الغرض قرآن مجید ،اقوال علماٴاسلام اوراحادےث سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ امام مہدی پےداہوکر غائب ہوگئے ہیں اورقیامت کے قرےب ظہورکریں گے ،اورآپ اسی طرح زمانہٴ غیبت میں بھی حجت خداہیں جس طرح بعض انبیاء اپنے عہدنبوت میں غائب ہونے کے دوران میں بھی حجت تھے (عجائب القصص ص ۱۹۱ ) اورعقل بھی یہی کہتی ہے کہ آپ زندہ اورباقی موجودہیں کےونکہ جس کے پےداہونے پرعلماٴکااتفاق ہواوروفات کاکوئی ایک بھی غےرمتعصب عالم قائل نہ ہو اورطویل العمرانسانوں کے ہونے کی مثالےں بھی موجود ہوں تولامحالہ اس کاموجود اورباقی ہونا ماننا پڑے گا ۔ دلیل منطقی سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے لہذا امام مہدی زندہ اورباقی ہیں ۔

ان تماشواہد اوردلائل کی موجودگی میں جن کا ہم نے اس کتاب میں ذکرکیاہے ،مولوی محمد امےن مصری کا رسالہ  ”طلوع اسلام “ کراچی جلد ۱۴ ص ۵۴# و ۹۴#   میں یہ کہناکہ   :  ” شےعوں کو ابتداء روی زمین پر کوئی ظاہری مملکت قائم کرنے میں کامیابی نہ ہوسکی ،ان کوتکلےفےں دی گئےں اورپراکندہ اورمنتشر کردیا گیا توانھوں نے ہمارے خیال کے مطابق امام منتظراورمہدی وغیرہ کے پرامےدعقائد ایجاد کرلئے تاکہ عوام کی ڈھارس بندھی رہے۔ “

اورملا اخوند دروےزہ کاکتاب ارشادالطالبین ص ۳۹۶ میں یہ فرمانا کہ   :”  ہندوستان میں ایک شخص عبداللہ نامی پےداہوگا جس کی بےوی کا ایمنہ (آمنہ) ہوگی ، اس کے ایک لڑکاپےداہوگاجس کانان محمد ہوگاوہی کوفہ جاکرحکومت کرے گا …

لوگوں کایہ کہنا درست نہیں کہ امام مہدی وہی ہیں جوامام حسن عسکری کے فرزندہیں ۔ ا لخ  حددرجہ مضحکہ خےز،افسوس ناک اورحےرت انگےز ہے ،کےونکہ علماٴ فریقین کااتفاق ہے کہ  ”المھدی من ولدالامام الحسن العسکری ۔“ امام مہدی حضرت امام حسن عسکری کے بےٹے ہیں اور ۱۵ شعبان ۲۵۵ کوپےداہوچکے ہیں ،ملاحظہ ہو ،اسعاف الراغبےن ،وفیات الاعیان ،روضة الاحباب ،تاریخ ابن ا لوردی ،ےنابع المودة ، تاریخ کامل ،تاریخ طبری ،نورالابصار،اصول کافی ،کشف الغمہ ،جلاٴالعےون ،ارشادمفید ،اعلام الوری ،جامع عباسی ،صواعق محرقہ ،مطالب السول ،شواہدالنبوت ،ارجح المطالب ،بحارالانوار ومناقب وغےرہ۔

حدیث نعثل اورامام عصر   :

نعثل ایک یہودی تھا جس سے حضرت عائشہ ،حضرت عثمان کوتشبیہ دیاکرتی تھےں ،اوررسول اسلام علیہ السلام کب بعد فرمایا کرتی تھےں  :  اس نعثل اسلامی کو عثمان کوقتل کردو ۔ (ملاحظہ ہو،نہاےةاللغة علامہ ابن اثےرجزری ص ۳۲۱) یہی نعثل ایک دن حضوررسول کرےم کی خدمت میں حاضرہوکر عرض پردازہوا مجھے اپنے خدا ،اپنے دےن ،اپنے خلفاٴ کاتعارف کرائےے اگر میں آپ کے جواب سے مطمئن ہوگیا تومسلمان ہوجاؤں گا ۔ حضرت نے نہآیت بلےغ اوربہترین انداز میں خلاق عالم کاتعارف کرایا،اس کے بعد دےن اسلام کی وضاحت کی ۔ ”قال صدقت ۔“ نعثل نے کہا آپ نے بالکل درست فرمایا پھراس نے عرض کی مجھے اپنے وصی سے آگاہ کےجئے اوربتائےے کہ وہ کون ہے یعنی جس طرح ہمارے نبی حضرت موسی کے وصی ےوشع بن نون ہیں اس طرح آپ کے وصی کون ہیں ؟ آپ نے فرمایا میرے وصی علی بن ابی طالب اور ان کے فرزند حسن وحسین پھرحسین کے صلب سے نوبےٹے قیامت تک ہوں گے ۔ اس نے کہا سب کے نام بتائےے آپ نے بارہ اماموں کے نام بتائے ناموں کوسننے کے بعد وہ مسلمان ہوگیا اورکہنے لگا کہ میں نے کتب آسمانی میں ان بارہ ناموں کو اسی زبان کے الفاظ میں دےکھا ہے ،پھراس نے ہروصی کے حالات بیان کئے ،کربلا کاہونے والا واقعہ بتایا ،امام مہدی کی غیبت کی خبردی اورکہا کہ ہمارے بارہ اسباط میںسے لادی بن برخیاغائب ہوگئے تھے پھرمدتوں کے بعد ظاہر ہوئے اورازسرنودےن کی بنیادیں استوارکےں ۔حضرت نے فرمایا اسی طرح ہمارابارہواں جانشےن امام مہدی محمدبن حسن طویل مدت تک غائب رہ کر ظہورکرے گا ۔ اوردنیا کو عدل وانصاف سے بھردے گا ۔ (غایۃ المقصود ص ۱۳۴ بحوالہ فرائدالسمطین حموینی )۔

حضرت امام مہدی علیہ السلام کاظہورموفورالسرور   :

 حضرت امام مہدی علیہ السلام کے ظہورسے پہلے حوعلامات ظاہرہوں گے ان کی تکمیل کے دوران ہی نصاری فتح ممالک عالم کا ارادہ کرکے اٹھ کھڑے ہوں گے اوربےشمار ممالک پرقابوحاصل کرنے کے بعد ان پرحکمرانی کریں گے اسی زمانہ میں ابوسفیان کی نسل سے ایک ظالم پےداہوگا جوعرب وشام پرحکمرانی کرے گا ۔اس کی دلی تمنا یہ ہوگی کہ سادات کے وجود سے ممالک محروسہ خالی کردئےے جائیں اور نسل محمدی کا ایک فرزند بھی باقی نہ رہے ۔چنانچہ وہ سادات کو نہآیت بے دردی سے قتل کرے گا ۔ پھراسی اثناٴ میں بادشاہ روم کو نصاری کے ایک فرقہ سے جنگ کرنا پڑے گی شاہ روم ایک فرقہ کوہمنوابناکر دوسرے فرقہ سے جنگ کرے گا اورشہر قسطنطنیہ پرقبضہ کرلے گا ۔ قسطنطنیہ کا بادشاہ وہاں سے بھاگ کر شام میں پناہ لے گا ،پھروہ نصاری کے دوسرے فرقہ کی معاونت سے فرقہ مخالف کے ساتھ نبرد آزماہوگا یہاں تک کہ اسلام کی زبردست فتح نصےب ہوگی فتح اسلام کے باوجود نصاری شہرت دیں گے کہ  ”صلےب “ غالب آگئی ،اس پرنصاری اور مسلمانوں میں جنگ ہوگی اورنصاری غالب آجائیں گے ۔ بادشاہ اسلام قتل ہوجائے گا ۔ اورملک شام پربھی نصرانی جھنڈا لہرانے لگے گا اور مسلمانوں کاقتل عام ہوگا ۔ مسلمان اپنی جان بچاکر مدینہ کی طرف کوچ کریں گے اورنصرانی اپنی حکومت کو وسعت دےتے ہوئے خےبر تک پہونچ جائیں گے اسلامیان عالم کے لئے کوئی پناہ نہ ہوگی ۔مسلمان اپنی جان بچانے سے عاجزہوں گے اس وقت وہ گروہ درگروہ سارے عالم میں امام مہدی علیہ السلام کوتلاش کریں گے ،تاکہ اسلام محفوظ رہ سکے اوران کی جانےں بچ سکےں اورعوام ہی نہیں بلکہ قطب ،ابدال ،اور اولیا ٴ جستجومیں مشغول ومصروف ہوں گے کہ ناگاہ آپ مکہ معظمہ میں رکن ومقام کے درمیان سے برآمد ہوں گے ۔ (قیامت نامہ قدوة المحدثےن شاہ رفےع الدےن دہلوی ص ۳ طبع پشاور ۱۹۲۶)  علماٴ فریقین کاکہنا ہے کہ آپ قریہ  ”کرعہ  “ سے روانہ ہوکر مکہ معظمہ سے ظہورفرمائےں گے (غایۃ المقصود ص ۱۶۵ ،نورالابصار ۱۵۴)  علامہ کنجی شافعی اورعلی بن محمد صاحب کفاےة الاثر کابحوالہ ابوہرےرہ بیان ہے کہ حضرت سرورکائنات نے ارشاد فرمایا ہے کہ امام مہدی قریہٴ کرعہ  جومدینہ سے بطرف مکہ تےس میل کے فاصلہ پرواقع ہے (مجمع البحرین ۴۳۵) نکل کر مکہ معظمہ سے ظہورکریں گے ،وہ مےری ذرہ پہنے ہوںگے اورمےرا عمامہ باندھے ہوں گے ان کے سر پرابرکاسایہ ہوگا اور ملک آواز دےتاہوگا کہ یہی امام مہدی ہیں ان کی اتباع کرو ایک روآیت میں ہے کہ جبرئےل آوازدیں گے اور ”ہوا“ اس کو ساری کائنات میں پہنچا دے گی اورلوگ آپ کی خدمت میں حاضر ہوجائیں گے (غایۃ المقصود ۱۶۵) ۔

 لغت سروری ۵۳۰ میں ہے کہ آپ قصبہ خےرواں سے ظہورفرمائےں گے ۔ معصوم کافرماناہے کہ امام مہدی کے ظہورکے متعلق کسی کاکوئی وقت معےن کرنا فی الحقےقت اپنے آپ کوعلم غےب میں خداکاشرےک قراردےنا ہے ۔ وہ مکہ میں بے خبرظہورکریں گے ،ان کے سرپرزرد رنگ کاعمامہ ہوگا بدن پررسالت مآب صلعم کی چادر اورپاؤں میں انھےں کی نعلےن مبارک ہوگی ۔ وہ اپنے سامنے چند بھےڑےں رکھےں گے ،کوئی انھےں پہچان نہ سکے گا ۔ اوراسی حالت میں ےکہ وتنہا بغیرکسی رفےق کے کعبة اللہ میں آجائیں گے جس وقت عالم سیاہی شب کی چادر اوڑھ لے گا اورلوگ سوجائیں گے اس وقت ملائکہ صف بہ صف ان پراترےں گے اورحضرت جبرئےل ومےکائےل انھےں نوےدالھی سنائےں گے کہ ان کا حکم تمام دنیاپرجاری وساری ہے ۔ یہ بشارت پاتے ہی امام علیہ السلام شکرخدابجالائیںگے اوررکن حجراسود اورمقام ا براہےم کے درمیان کھڑے ہوکر بآواز بلند ندادیں گے کہ اے وہ گروہ جومیرے مخصوصوں اوربزرگوں سے ہوا اوروہ لوگو! جن کی حق تعالی نے روئے زمین پرمیرے ظاہرہونے سے پہلے مےری مدد کے لئے جمع کیاہے ۔”آجاؤ۔“ یہ ندا حضرت کے ان لوگوںتک خواہ وہ مشرق میں ہوںیامغرب میں پہنچ جائے گی اوروہ لوگ یہ آواز سن کر چشم زدن میںحضرت کے پاس جمع ہوجائیںگے یہ لوگ ۳۱۳ ہوں گے ،اورنقےب امام کہلائیںگے ۔اسی وقت ایک نورزمین سے آسمان تک بلند ہوگا جوصفحہ دنیامیں ہرمومن کے گھرمیں داخل ہوگا جس سے ان کی طبیعتےں مسرورہوجائیںگی مگرمومنین کومعلوم نہ ہوگا کہ امام علیہ السلام کا ظہور ہواہے صبح ا مام علیہ السلام مع ان ۳۱۳ ،اشخاص کے جورات کوان کے پاس جمع ہوگئے تھے کعبہ میں کھڑے ہوںگے اوردےوار سے تکیہ لگاکر اپنا ہاتھ کھولےں گے جوموسی کے ےدبےضا کی مانند ہوگا اورکہیں گے کہ جوکوئی اس ہاتھ پربیعت کرے گا وہ اےساہے گویا اس نے ”ےداللہ “ پربیعت کی ۔ سب سے پہلے جبرئےل شرف بیعت سے مشرف ہوںگے ۔ان کے بعد ملائکہ بیعت کریں گے ۔ پھرمقدم الذکرنقباٴ ( ۳۱۳) بیعت سے مشرف ہوں گے اس ہلچل اوراژدھام میں مکہ میں تہلکہ مچ جائے گا اورلوگ حےرت زدہ ہوکر ہرسمت سے استفسارکریں گے کہ یہ کون شخص ہے،یہ تمام واقعات طلوع آفتاب سے پہلے سرانجام ہوجائیںگے پھرجب سورج چڑھے گا توقرص آفتاب کے سامنے ایک منادی کرنے والا ظاہرہوگا اورباآوازبلند کہے گا جس کوتمام ساکنان زمین وآسمان سنےں گے کہ  ”اے گروہ خلائق یہ مہدی آل محمد ہیں ،ان کی بیعت کرو ،پھرملائکہ اور( ۳۱۳) آدمی تصدےق کریں گے اوردنیا کے ہرگوشہ سے جوق درجوق آپ کی زیارت کے لئے لوگ روانہ ہوجائیں گے ،اورعالم پرحجت قائم ہوجائے گی ،اس کے بعد دس ہزار افراد بیعت کریںگے ۔اورکوئی یہودی اورنصرانی باقی نہ چھوڑاجائے گا ۔ صرف اللہ کانام ہوگا اورامام مہدی کاکام ہوگا جومخالفت کرے گا اس پرآسمان سے آگ برسے گی اوراسے جلاکر خاکستر کردے گی ۔“ (نورالابصارامام شبلنجی شافعی ۱۵۵ ،اعلام الوری ۲۶۴) ۔

علماٴ نے لکھا ہے کہ ۲۷ مخلصےن آپ کی خدمت میں کوفہ سے اس قسم کے پہونچ جائیںگے جوحاکم بنائےں جائیں گے جن کے اسماٴ(کتاب منتخب بصائر)  یہ ہیں  : ےوشع بن نون ،سلمان فارسی ، ابودجانہ انصاری ،مقداد بن اسود، مالک اشتر، اورقوم موسی کے ۱۵ افراد اورسات اصحاب کہف (اعلام الوری ۲۶۴ ، ارشاد مفید ۵۳۶) علامہ عبدالرحمن جامی کاکہنا ہے کہ قطب ،ابدال ،عرفاٴ سب آپ کی بیعت کریں گے ، ﷼ آپ جانوروں کی زبان سے بھی واقف ہوں گے اور آپ انسانوں اورجنوں میںعدل وانصاف کریں گے ۔(شواہدالنبوت ۲۱۶) علامہ طبرسی کاکہنا ہے کہ آپ حضرت داؤد کے اصول پراحکام جاری کریں گے ،آپ کو گواہ کی ضرورت نہ ہوگی آپ ہرایک کے عمل سے بالہام خداوندی واقف ہوں گے ۔ (اعلام الوری ۲۶۴) امام شبلنجی شافعی کابیان ہے کہ جب امام مہدی کاظہورہوگا توتمام مسلمان خواص اورعوام خوش ومسرورہوجائیں گے ان کے کچھ وزراٴ ہوںگے جوآپ کے احکام پرلوگوں سے عمل کروائےں گے ۔ (نورالابصار ۱۵۳ بحوالہ فتوحات مکیہ ) علامہ حلبی کاکہنا ہے کہ اصحاب کہف آپ کے وزراٴہوںگے (سےرت حلبیہ) حموےنی کابیان ہے کہ آپ کے جسم کاسایہ نہ ہوگا ۔(غایۃ المقصود جلد ۲ ص ۱۵۰) حضرت علی کافرمانا ہے کہ انصارواصحاب امام مہدی ،خالص اللہ والے ہوںگے (ارجح المطالب ۴۶۹ ا)ورآپ کے گرد لوگ اس طرح جمع ہوجائیںگے جس طرح شہد کی مکھی اپنے ”ےعسوب “ بادشاہ کے گرد جمع ہوجاتی ہیں ۔ ارجح المطالب ۴۶۹ ا  ایک روآیت میں ہے کہ ظہورکے بعد آپ سب سے پہلے کوفہ تشریف لے جائیںگے اوروہاں کے کثیرافراد قتل کریں گے ۔

امام مہدی کے  ظہور کاسن   :

خلاق عالم نے پانچ چےزوں کاعلم اپنے لئے مخصوص رکھا ہے جن میں ایک قیامت بھی ہے (قرآن مجید) ظہورامامہدی علیہ السلام چونکہ لازمہ قیامت سے ہے ،لہذا اس کاعلم بھی خداہی کوہے کہ آپ کب ظہورفرمائےںگے کونسی تاریخ ہوگی ۔ کونسا سن ہوگا ،تاہم احادےث معصومےن جوالہام اورقرآن سے مستنبط ہوتی ہیں ان میں اشارے موجود ہیں ۔علامہ شیخ مفید ،علامہ سےد علی ،علامہ طبرسی ،علامہ شبلنجی رقمطرازہیں کہ حضرت امام جعفرصادق علیہ السلام نے اس کی وضاحت فرمائی ہے کہ آپ طاق سن میں ظہورفرمائےںگے جو ۱ ، ۳ ،  ۵ ،  ۷ ، ۹ سے مل کر بنے گا ۔ مثلا ۱۳ سو ، ۱۵ سو ، ۱۷ سو ، ۱۹ سو یا ایک ہزار ۳ ہزار ، ۵ ہزار ، ۷ ہزار ، ۹ ہزار ۔ ا سی کے ساتھ ہی ساتھ آپ نے فرمایاہے کہ آپ کے اسم گرامی کااعلان بذرےعہ جناب جبرئےل ۲۳ تاریخ کوکردیاجائے گا اورظہورےوم عاشورہ کوہوگا جس دن امام حسین علیہ السلام بمقام کربلا شہےد ہوئے ہیں (شرح ارشاد مفید ۵۳۲ ،غایۃ المقصود جلد ۱ ص ۱۶۱ ،اعلام الوری ۲۶۲ ،نورالابصار ۱۵۵) میرے نزدےک ذی الحجہ کی ۲۳ تاریخ ہوگی کےونکہ نفس زکیہ کے قتل اورظہورمیں ۱۵ راتوں کافاصلہ ہونامسلم ہے امکان ہے کہ قتل نفس زکیہ کے بعد ہی نام کااعلان کردیا جائے ،پھراس کے بعد ظہورہو، ملاجواد ساباطی کاکہنا ہے کہ امام مہدی علیہ السلام ےوم جمعہ بوقت صبح بتاریخ ۱۰ محرم الحرام ۷۱۰۰ میںظہو ر فرمائےں گے۔غایۃ المقصود ۱۶۱ بحوالہ براھےن ساباطیہ )  امام جعفر صادق علیہ السلام کاارشاد ہے کہ امام مہدی کاظہوربوقت عصرہوگا اور وہی عصرآےة ”والعصران الانسان لفی خسر “ سے مراد ہے شاہ نعمت اللہ ولی کاظمی المتوفی ۸۲۷ ( مجالس المومنین ۲۷۶)  جوشاعرہونے کے علاوہ عالم اورمنجم بھی تھے آپ کوعلم جفرمیں بھی دخل تھا ۔ آپ نے اپنی مشہورپےشےن گوئی میں ۱۳۸۰ ہجری کاحوالہ دیاہے جس کاغلط ہونا ثابت ہے کےونکہ ۱۳۹۳ ہے (قیامت نامہ قدوة المحدثےن شاہ رفےع الدےن ص ۳۸) ۔(والعلم عنداللہ )۔

ظہورکے وقت امام علیہ السلام کی عمر   :

  یوم ولادت سے تابظہورآپ کی کیاعمرہوگی ؟ اسے توخداہی جانے لےکن یہ مسلمات سے ہے کہ جس وقت آپ ظہورفرمائےں گے مثل حضرت عیسی آپ چالےس سالہ جوان کی حیثیت میں ہوں گے ،(اعلام الوری ۲۶۵ ،وغایۃ المقصود ص ۷۶،۱۱۹) ۔

آپ کاپرچم

حضرت امام مہدی علیہ السلام کے جھنڈ ے پر ” البعےة اللہ  “ لکھا ہوگا اورآپ اپنے ہاتھوں پرخداکے لئے بیعت لےں گے اورکائنات میں صرف دےن اسلام کاپرچم لہرائے گا ۔ (ےنابع المودة ۴۳۴) ۔  

ظہورکے بعد   :

ظہورکے بعد حضرت امام مہدی علیہ السلام کعبہ کی دےوارسے ٹےک لگاکرکھڑے ہوں گے ۔ ابرکاسایہ آپ کے سرمبارک پرہوگا ، آسمان سے آوازآتی ہوگی کہ  ”یہی امام مہدی ہیں “ اس کے بعدآپ ایک منبرپرجلوہ افروزہوںگے لوگوں کی خداکی طرف دعوت دیں گے اوردےن حق کی طرف آنے کی سب کوہدآیت فرمائےں گے آپ کی تمام سےرت پےغمبراسلام کی سےرت ہوگی اورانھےں کے طرےقہ پرعمل پےرا ہوں گے ابھی آپ کاخطبہ جاری ہوگا کہ آسمان سے جبرئےل ومکائےل آکربیعت کریں گے ،پھرملائکہ آسمانی کی عام بیعت ہوگی ہزاروں ملائکہ کی بیعت کے بعد وہ ۳۱۳ مومن بیعت کریںگے ۔ جوآپ کی خدمت میں حاضرہوچکے ہوںگے پھرعام بیعت کاسلسہ شروع ہوگا دس ہزار افراد کی بیعت کے بعد آپ سب سے پہلے کوفہ تشریف لے جائیںگے ،اوردشمنان آل محمد کاقلع قمع کریں گے آپ کے ہاتھ میں عصاٴموسی ہوگا جواژدھے کاکام کرے گا اورتلوارحمائل ہوگی ۔(عےن الحیات مجلسی ۹۲) توارےخ میں ہے کہ جب آپ کوفہ پہونچےں گے توکئی ہزار کاایک گروہ آپ کی مخالفت کے لئے نکل پڑے گا ،اورکہے گا کہ ہمیں بنی فاطمہ کی ضرورت نہیں ،آپ واپس چلے جائےے یہ سن کر آپ تلوار سے ان سب کاقصہ پاک کردیں گے اورکسی کوبھی زندہ نہ چھوڑےں گے جب کوئی دشمن آل محمد اورمنافق وہاں باقی نہ رہے گا توآپ ایک منبرپرتشریف لے جائیں گے اورکئی گھنٹے تک رونے کاسلسہ جاری رہے گا پھرآپ حکم دیں گے کہ مشہد حسین تک نہرفرات کاٹ کرلائی جائے اورایک مسجد کی تعمےرکی جائے ۔ جس کے ایک ہزار درہوں ،چنانچہ اےساہی کیاجائے گا اس کے بعد آپ زیارت سرورکائنات کے لئے مدینہ منورہ تشریف لے جائیں گے ۔ (اعلام الوری ۲۶۳ ،ارشادمفید ۵۳۲ ،نورالابصار ۱۵۵) ۔

قدوة المحدثےن شاہ رفےع الدےن رقمطرازہیں کہ حضرت امام مہدی جوعلم لدنی سے بھرپورہوںگے تجب مکہ سے آپ کاظہورہوگا اور اس ظہورکی شہرت اطراف واکناف عالم میں پھےلے گی توافواج مدینہ ومکہ آپ کی خدمت میں حاضرہوںگی اورشام وعراق وےمن کے ابدال اوراولیاٴ خدمت شرےف میں حاضرہوںگے اورعرب کی فوجےں جمع ہوجائیں گی ،آپ ان تمام لوگو ں کو اس خزانہ سے مال دیں گے جوکعبہ سے برآمد ہوگا ۔ اورمقام خزانہ کو  ” تاج الکعبہ“ کہتے ہوں گے ،اسی اثناٴ میں ایک شخص خراسانی عظیم فوج لے کر حضرت کی مدد کے لئے مکہ معظمہ کوروانہ ہوگا ،راستے اس لشکرخراسانی کے مقدمہ الجےش کے کمانڈر منصورسے نصرانی فوج کی ٹکرہوگی ،اورخراسانی لشکرنصرانی فوج کوپسپا کرکے حضرت کی خدمت میں پہنچ جائے گا اس کے بعد ایک شخص سفیانی جوبنی کلب سے ہوگا حضرت سے مقابلہ کے لئے لشکرعظیم ارسال کرے گا لےکن بحکم خدا جب وہ لشکر مکہ معظمہ اورکعبہ منورہ کے درمیان پہنچے گا اورپہاڑمیں قیام کرے گا توزمین میں وہیں دھنس جائے گاپھرسفیانی جودشمن آل محمد ہوگا نصاری سے سازبازکرکے امام مہدی سے مقابلہ کے لئے زبردست فوج فراہم کرے گا نصرانی اورسفیانی فوج کے اسی نشان ہوں گے اورہرنشان کے نےچے ۱۲ ہزار کی فوج ہوگی ۔ ان کا دارالخلافہ شام ہوگاحضرت امام مہدی علیہ السلام بھی مدینہ منورہ ہوتے ہوے جلد سے جلد شام پہنچےں گے جب آپ کاورود مسعود دمشق میں ہوگا ،تودشمن آل محمد سفیانی اوردشمن اسلام نصرانی آپ سے مقابلہ کے لئے صف آراہوںگے ،اس جنگ میں فریقین کے بے شمار افراد قتل ہوںگے بالاخر امام علیہ السلام کوفتح کامل ہوگی ،اورایک نصرانی بھی زمین شام پر باقی نہ رہے گا اس کے بعد امام علیہ السلام اپنے لشکرےوں میں انعام کوتقسےم کریں گے اوران مسلمانوں کو مدینہ منورہ سے واپس بلالےں گے جونصرانی بادشاہ کے ظلم وجورسے عاجزآکر شام سے ہجرت کرگئے تھے ۔(قیامت نامہ ۴) اس کے بعد مکہ معظمہ واپس تشریف لے جائیںگے اورمسجد سہلہ میں قیام فرمائےں گے ے(ارشاد ۵۲۳) اس کے بعد مسجد الحرام کوازسرنوبنائےں گے اوردنیا کی تمام مساجد کو شرعی اصول پرکردیں گے ہر بدعت کوختم کریںگے اورہرسنت کوقائم کریں گے ،نظام عالم درست کریں گے اورشہروں میں فوجےں ارسال کریںگے ،انصرام وانتظام کے لئے وزراء روانہ ہوںگے ۔(اعلام الوری ۲۶۲،۲۶۴) ۔

اس کے بعد آپ مومنین ،کاملےن اورکافرےن کوزندہ کریں گے ،اوراس ز ندگی کامقصد یہ ہوگا کہ مومنین اسلامی عروج سے خوش ہوں اورکافرےن سے بدلہ لیاجائے ۔ ان زندہ کئے جانے والوں میں قابےل سے لے کر امت محمدیہ کے فراعنہ تک زندہ کئے جائیں گے ،اوران کے کئے کاپورا پورا بدلہ انھےں دیاجائے گا جوجوظلم انھوں نے کئے ان کامزہ چکھےں گے غرےبوں ،مظلوموں اوربےکسوں پرجوظلم ہواہے اس کی (ظالم کو) سزادی جائے گی ،سب سے پہلے جوواپس لایاجائے گا وہ ےزےدبن معاویہ ملعون ہوگا اورامام حسین علیہ السلام تشریف لائیں گے ۔ (غایۃ المقصود)۔

دجال اوراس کا خروج   :

  دجال ،دجل سے مشتق ہے جس کے معنی فریب کے ہیں ،اس کا اصل نام صائف ،باپ کانام صائد ،ماں کانام ہستہ عرف قطامہ ہے ، یہ عہد رسالت مآب میں بمقام تیہ جومدینہ سے تین میل کے فاصلہ پرواقع ہے ، چہارشنبہ کے دن بوقت غروب آفتاب پےدا ہواہے ، پےدائش کے بعد آنافانا بڑھ رہاتھا ،اس کی داہنی آنکھ پھوٹی تھی   اوربائےں آنکھ پےشانی پرچمک رہی تھی ،وہ چند دنوں میں کافی بڑھ کردعوی خدائی کرنے لگا ،سروکائنات جوحالات سے برابر مطلع ہورہے تھے ۔ انھوں نے سلمان فارسی اورچند اصحاب کولیا اوربمقام تہیہ جاکراس کوتبلےغ کرناچاہی ،اس نے بہت برا بھلاکہا اورچاہا کہ حضرت پرحملہ کردے ۔لےکن آپ کے اصحاب نے مدافعت کی ،آپ نے اس سے یہ فرمایاتھا کہ خدائی کا دعوی چھوڑ دئے اورمےری نبوت کومان لے علماء نے لکھا ہے کہ دجال کی پےشانی پر بخط ےزدانی  ”الکافرباللہ “ لکھاہوا تھا اورآنکھ کے ڈھےلے پربھی (ک،ف ،ر) مرقوم تھا غرضکہ آپ نے وہاں سے مدینہ منورہ واپس تشریف لانے کاارادہ کیا دجال نے ایک سنگ گراں جوپہاڑکی مانند تھا حضرت کی راہ میںرکھ دیا یہ دےکھ کرحضرت جبرئےل آسمان سے آئے اوراسے ہٹادیا ابھی آپ مدینہ پہونچے ہی تھے کہ دجال لشکرعظیم لے کرمدینہ کے قرےب جاپہنچا حضرت نے بارگاہ احدےت میں عرض کی ،خدایا ! اسے اس وقت تک کے لئے محبوس کردے جب تک اسے زندہ رکھنا مقصود ہے ،اسی دوران میں حضرت جبرئےل آئے اورانھوں نے دجال کی گردن کو پشت کی طرف سے پکڑکر اٹھا لیا اوراسے لے جاکر جزیرہ طبرستان میں محبوس کردیاہے ۔لطےفہ یہ ہے کہ جبرئےل اسے لے کرجانے لگے تواس نے زمین پردونوں ہاتھ مارکرتحت الثری تک کی دومٹھی خاک لے لی ،اوراسے طبرستان میںڈال دیا جبرئےل نے حضرت سرورکائنات کے سوال کے جواب میں کہاکہ آپ کی وفات سے ۹۷۰ سال بعد یہ خاک عالم میںپھےلے گی اوراسی وقت سے آثارقیامت شروع ہوجائیں گے ۔ (غایۃالمقصود ۶۴ ، ارشادالطالبین ۳۹۴ ) پےغمبراسلام کاارشاد ہے کہ دجال کومحبوس ہونے کے بعد تمےم دارمی نے جوپہلے نصرانی تھا ،جزیرہ طبرستان میں بچشم خود دےکھا ہے۔ اس کی ملاقات کی تفصےل کتاب صحاح المصابےح ،زہرة الریاض ،صحیح بخاری ،صحیح مسلم میں موجودہے ۔

 غرضکہ اکثرروایات کے مطابق دجال حضرت امام مہدی کے ظہورفرمانے کے ۱۸ یوم بعد خروج کرے گا (مجمع البحرین ۵۶۰)  وغایۃ المقصود جلد ۲ ص ۶۹)  ظہور امام ا ورخروج دجال سے پہلے تین سال تک سخت قحط پڑے گا ۔ پہلے سال ۱            زراعت ختم ہوجائےگی دوسرے سال آسمان وزمین کی برکت ورحمت ختم ہوجائے گا تےسرے سال بالکل بارش نہ ہوگی ،اورساری دنیا والے موت کی آغوش میں پہنچنے کے قرےب ہوجائیں گے دنیا ظلم وجو ر،اضطراب وپرےشانی سے بالکل پرہوگی ۔ ا ما م مہدی کے ظہورکے بعد ۱۸ ہی دن میںکائنات نہآیت اچھی سطح پرپہنچی ہوگی کہ ناگاہ دجال ملعون کے خروج کاغلغلہ اٹھے گا وہ بروآیت اخوند دروےزہ ہندوستان کے ایک پہاڑپر نمودارہوگا اوروہاں سے بآواز بلند کہے گا ۔” میں خدائے بزرگ ہوں ،مےری اطاعت کرو۔“ یہ آوازمشرق ومغرب میں پہنچے گی ۔ اس کے بعد تین ےوم یابروآیت ۴۰ ےوم اسی مقےم رہ کر لشکرتیارکرے گا ۔پھرشام وعراق ہوتا ہوا اصفہان کے ایک قریہ ”یہودیہ “ سے خروج کرے گا ۔ اس کے ہمراہ بہت بڑا لشکرہوگا ،جس کی تعداد سترلاکھ مرقوم ہے جن ،دےو،پری ،شیطان ان کے علاوہ ہوں گے ۔ وہ ایک گدھے پرسوارہوگا ۔ جوابلق رنگ کا ہوگا اس کے جسم کا بالائی حصہ سرخ ،ہاتھ پاؤں تازانوسیاہ اس کے بعد سے سم تک سفےد ہوگا ۔ اس کے دونوں کانوں کے درمیان ۴۰ میل کافاصلہ ہوگا ۔وہ ۲۱ میل اونچااور ۹۰ میل لمبا ہوگا اس کاہرقدم ایک میل کاہوگا اس کے دونوں کانوںمیں خلق کثیربےٹھی ہوگی چلنے میں اس کے بالوں سے ہرقسم کے باجوں کی آوازآئے گی ،وہ اسی گدھے پرسوارہوگا ۔ سواری کے بعد جب وہ روانہ ہوگا تواس کے داہنے طرف ایک پہاڑہوگا جس میں ہرقسم کے سانپ بچھوہوں گے ،وہ لوگوں کو انھےں چےزوں کے ذرےعہ سے بہکائے گا اورکہے گا کہ میں خداہوں جومےراحکم ماننے گا جنت میں رکھوں گا جونہ مانے گا اس جہنم میں ڈال دوںگا ۔ اسی طرح چالےس ےوم میں ساری دنیا کا چکرلگاکراور سب کوبہکاکرامام مہدی علیہ السلام کی اسکےم کوناکامیاب بنانے کی سعی میں وہ خانہ کعبہ کوگرانا چاہے گا اورایک عظیم لشکربھےج کر کعبہ اورمدینہ کوتباہ کرنے پرمامورکرے گا اورخود باارادہ کوفہ روانہ ہوگا اس کامقصد یہ ہوگا کہ کوفہ جوامام مہدی کی آماجگاہ ہے اسے تباہ کردے ”چون آن لعےن نزدےک کوفہ برسد امام مہدی باستےصال اوبرسد “لےکن خداکاکرنا دےکھئے کہ جب وہ کوفہ کے نزدےک پہنچے گا ،توحضرت امام مہدی علیہ السلام خود وہاں پہنچ جائیں گے ،اوراسے بحکم خدا بےخ وبن سے اکھاڑدیں گے غرضکہ گھمسان کی جنگ ہوگی اورشام تک پھےلے ہوئے لشکر پرامام مہدی علیہ السلام زبردست حملے کریں گے ،بالاخروہ ملعون آپ کی ضربوں کی تاب نہ لاکرشام کے مقام عقبہٴ رفےق یابمقام لد جمعہ کے دن تین گھڑی دن چڑھے ماراجائے گا اس کے مرنے کے بعد دس میل تک دجال اوراس کے گدھے اورلشکرکاخون زمین پرجاری رہے گا علماٴکاکہنا ہے کہ قتل دجال کے بعد امام علیہ السلام اس کے لشکرےوں پرایک زبردست حملہ کریں گے اورسب کوقتل کرڈالےں گے ۔اس وقت جوکافر زمین کے کسی گوشہ میں چھپے گا ،وہ آوازدے گا کہ فلاں کافریہاں روپوش ہے ۔امام علیہ السلام اسے قتل کردیں گے آخرکارزمین پرکوئی دجال کاماننے والا نہ رہے گا ۔(ارشادالطالبین ۳۹۷ ،معارف الملة ۳۴۸ ،صحیح مسلم ،لمعات شرح مشکوةعبدالحق ،مرقات شرح مشکوة مجمع البحار)  بعض روایات میں ہے کہ دجال کوحضرت عیسی بحکم حضرت مہدی علیہ السلام قتل کریں گے ۔

نزول حضرت عیسی علیہ السلام   :

حضرت مہدی علیہ السلام سنت کے قائم کرنے اوربدعت کومٹانے نےزانصرام وانتظام عالم میں مشغول ومصروف ہوںگے کہ ایک دن نمازصبح کے وقت بروآیتے نمازعصرکے وقت حضرت عیسی علیہ السلام دوفرشتوں کے کندھوں پرہاتھ رکھے ہوئے دمشق کی جامع مسجد کےم منارہ ٴشرقی پرنزول فرمائےں گے حضرت امام مہدی ان کااستقبال کریں گے اورفرمائےںگے کہ آپ نمازپڑھئے ،حضرت عیسی کہیںگے کہ یہ ناممکن ہے ،نمازآپ کوپڑھانی ہوگی ۔چنانچہ حضرت مہدی علیہ السلام امامت کریں گے اورحضرت عیسی علیہ السلام ان کے پےچھے نمازپڑھےں گے اوران کی تصدےق کریںگے ۔(نورالابصار ۱۵۴ ،غایۃالمقصود ۱۰۴ ۔ ۱۰۵ ،بحوالہ مسلم وابن ماجہ ،مشکوة ۴۵۸)  اس وقت حضرت عیسی کی عمرچالےس سالہ جوان جےسی ہوگی ۔وہ اس دنیامیںشادی کریں گے ،اوران کے دولڑکے پےداہوںگے ایک کانام احمداوردوسرے کانام موسی ہوگا ۔(اسعاف الراغبےن برحاشیہ نورالابصار ۱۳۵ ،قیامت نامہ ۹ بحوالہ کتاب الوفاابن جوزی ،مشکوة ۴۶۵ وسراج القلوب ۷۷) ۔

امام مہدی اورعیسی ابن مریم کادورہ   :

اس کے بعد حضرت امام مہدی علیہ السلام اورحضرت عیسی علیہ السلام بلاد ،ممالک کادورہ کرنے اورحالات کاجائزہ لےنے کے لئے برآمد ہوںگے اوردجال ملعون کے پہنچائے ہوئے نقصانات اوراس کے پےدکئے ہوئے بدترین حالات کوبہترین سطح پرلائیںگے ،حضرت عیسی خنزیرکوقتل کرنے ،صلےبوں کوتوڑنے اورلوگوںکے اسلام قبول کرنے کاانصرام وبندوبست فرمائےںگے ۔ عدل مہدی سے بلاد عالم میں اسلام کاڈنکا بجے گا اورظلم وستم کاتختہ بتاہ ہوجائے گا ۔(قیامت نامہ قدوة المحدثےن ۸ بحوالہ صحیح مسلم)۔

حضرت امام مہدی کاقسطنطنیہ کوفتح کرنا   :

روآیت میں ہے کہ امام مہدی علیہ السلام قسطنطنیہ ،چےن اورجبل وےلم کوفتح کریںگے ،یہ وہی قسطنطنیہ ہے جسے استنبول کہتے ہیں اورجس پراس زمانہ میں نصاری کاقبضہ ہوگا ۔ اوران کاقبضہ بھی مسلمان بادشاہ کوقتل کرنے کے بعد ہواہوگا ۔چےن اورجبل دےلم پربھی نصاری کا قبضہ ہوگااوروہ حضرت امام مہدی سے مقابلہ کاپوراانتظام کریں گے ،چےن جس کوعربی میں  ”صےن“ کہتے ہیں اس کے بارے میں روآیت کے حوالہ سے علامہ طرےحی نے مجمع البحرین کے ۶۱۵ میںلکھا ہے کہ: ( ۱) صےن ایک پہاڑی ہے( ۲) مشرق میں ایک مملکت ہے ( ۳) کوفہ میں ایک موضع ہے ۔پتہ یہ چلتاہے کہ ساری چےزےں فتح کی جائیں گی ،ان کے علاوہ سندھ اورہندکے مکانات کی طرف بھی اشارہ ہے ، بہرحال امام مہدی علیہ السلام شہرقسطنطنیہ کوفتح کرنے کے لئے روانہ ہوںگے اوران کے ہمرا ہجوسترہزاربنواسحاق کے نوجوان ہوںگے انھےں دریائے روم کے کنارے شہرمیںجاکراسے فتح کرنے کاحکم ہوگا ،جب وہاں پہنچ کرفصےل کے کنارے نعرہٴ تکبےرلگائےںگے توخود بخود راستہ پےداہوجائے گا اوریہ داخل ہوکر اسے فتح کرلےںگے ،کفارقتل ہوںگے اوراس پرپوراپورا قبضہ ہوجائے گا ۔(نورالابصار ۱۵۵ بحوالہ طبرانی ،غایۃ المقصود جلد ۱ ص ۱۵۲ وبحوالہ ابونعےم ،اعلام الوری  بحوالہ امام جعفرصادق ۲۶۴ ،قیامت نامہ ،بحوالہ صحیح مسلم )۔

یاجوج ماجوج اوران کاخروج   :

قیامت صغری یعنی ظہورآل محمداورقیامت کبری کے درمیان دجال کے بعد یاجوج اورماجوج کاخروج ہوگا ۔یہ سد سکندری سے نکل کرسارے عالم میں پھےل جائیںگے اوردنیاکے امن وامان کوتباہ وبربادکردےنے میںپوری سعی کریںگے ۔

یاجوج ماجوج حضرت نوح کے بےٹے یافث کی اولاد سے ہیں ،یہ دونوںچارسوقبےلہ اورامتوںکے سرداراورسربرآورہ ہیں ،ان کی کثرت کاکئی اندازہ نہیںلگایاجاسکتا ۔مخلوقات میں ملائکہ کے بعد انھےں کثرت دی گئی ہے ،ان میں کوئی اےسانہیں جس کے ایک ایک ہزار اولاد نہ ہو ۔یعنی یہ اس وقت تک مرتے نہیں جب تک ایک ایک ہزاربہادرپےدانہ کردیں ۔یہ تین قسم کے لوگ ہیں ،ایک وہ جوتاڑسے زیادہ لمبے ہیں ،دوسرے وہ جولمبے اورچوڑے برابرہیں جن کی مثال بہت بڑے ہاتھی سے دی جاسکتی ہے ،تےسرے وہ جواپناایک کان بچھاتے اوردوسرا اوڑھتے ہیںان کے سامنے لوہا ،پتھر،پہاڑتووہ کوئی چےزنہیںہے ۔یہ حضرت نوح کے زمانہ میں دنیاکے اخےرمیںا س جگہ پےداہوئے ، جہاں سے پہلے سورج نے طلوع کیاتھا زمانہ فطرت سے پہلے یہ لوگ اپنی جگہ سے نکل پڑے تھے اوراپنے قرےب کی ساری دنیا کوکھا پی جاتے تھے یعنی ہاتھی ،گھوڑا ،اونٹ،انسان ،جانور،کھےتی باڑی غرضکہ جوکچھ سامنے آتاتھا سب کوہضم کرجاتے تھے ۔ وہاں کے لوگ ان سے سخت تنگ اورعاجزتھے ۔یہاں تک زمانہ فطرت میں حضرت عیسی کے بعد بروائتی جب ذوالقرنےن اس منزل تک پہنچے توانھےں وہاں کاسارا واقعہ معلوم ہوا اوروہاں کی مخلوق نے ان سے درخواست کی کہ ہمیں اس بلائے بے درمان یاجوج ماجوج سے بچائے ۔چنانچہ انھوں نے دوپہاڑوں کے اس درمیانی راستے کوجس سے وہ آیاکرتے تھے بحکم خدالوہے کی دےوارسے جودوسوگزاونچی اورپچاس یاساٹھ گزچوڑی تھی بند کردیا ۔اسی دےوارکوسد سکندری کہتے ہیں ۔کےونکہ ذوالقرنےن کااصل نام سکندراعظم تھا ،سدسکندری کے لگ جانے کے بعد ان کی خوراک سانپ قراردی گئی ،جوآسمان سے برستے ہیں یہ تابظہورامام مہدی علیہ السلام اسی میں محصوررہیںگے ان کااصول اورطرےقہ یہ ہے کہ یہ لوگ اپنی زبان سے سد سکندری کو رات چاٹ کرکاٹتے ہیں ،جب صبح ہوتی ہے اوردھوپ لگتی ہے توہٹ جاتے ہیں ،پھردوسری رات کٹی ہوئی دےواربھی پرہوجاتی ہے اوروہ پھراسے کاٹنے میں لگ جاتے ہیں ۔

 بحکم خداسے یہ لوگ امام مہدی علیہ السلام کے زمانہ میں خروج کریں گے دےوارکٹ جائے گی اوریہ نکل پڑےں گے ۔اس وقت کاعالم یہ ہوگا کہ یہ لوگ اپنی ساری تعداد سمےت ساری دنیامیں پھےل کر نظام عالم کودرہم برہم کرنا شروع کردیں گے،لاکھوں جانےں ضائع ہوں گی اوردنیاکی کوئی چےزاےسی باقی نہ رہے گی جوکھائی اورپی جاسکے ،اوریہ اس پرتصرف نہ کریں۔ یہ بلاکے جنگجولوگ ہوںگے دنیاکومارکر کھاجائیںگے اوراپنے تےرآسمان کی طرف پھےنک کرآسمانی مخلوق کومارنے کاحوصلہ کریں گے اورجب ادھرسے بحکم خدا تےرخون آلود آئے گا تویہ بہت خوش ہوںگے اورآپس میں کہیں گے کہ اب ہمارااقتدارزمین سے بلند ہوکر آسمان پرپہنچ گیاہے ۔اسی دوران میںامام مہدی علیہ السلام کی برکت اورحضرت عیسی کی دعا کی وجہ سے خداوندعالم ایک بےماری بھےج دے گا جس کوعربی میں  ”نغف “ کہتے ہیں یہ بےماری ناک سے شروع ہوکر طاعون کیطرح ایک ہی شب میں ان سب کاکام تمام کردے گی پھران کے مردارکوکھانے کے لئے ”عنقا “ نامی پرندہ پےداہوگا ،جوزمین کوان کی گندگی سے صاف کرے گا ۔اورانسان ان کے تےروکمان اورقابل سوختنی آلات حرب کو سات سال تک جلائیں گے (تفسیرصافی ۲۷۸ ،مشکوة ۳۶۶ ،صحیح مسلم ،ترمذی ،ارشادالطالبین ۳۹۸ ،غایۃ المقصودجلد ۲ ص ۷۶ ،مجمع البحرین ۴۶۶ ،قیامت نامہ ۸) ۔

امام مہدی علیہ السلام کی مدت حکومت اورخاتمہ دنیا   :

حضرت امام مہدی علیہ السلام کاپایہٴ تخت شہرکوفہ ہوگا مکہ میں آپ کے نائب کاتقررہوگا ۔آپ کادےوان خانہ اورآپ کے اجراٴ حکم کی جگہ مسجد کوفہ ہوگی۔بےت المال ،مسجد سہلہ قراردی جائےگی اورخلوت کدہ نجف اشرف ہوگا ۔(حق الیقین ۱۴۵)  آپکے عہد حکومت میں مکمل امن وسکون ہوگا ۔بکری اوربھےڑ،گائے اورشےر،انسان اورسانپ ،زنبےل اورچوہے سب ایک دوسرے سے بے خوف ہوںگے (درمنثورسیوطی جلد ۳ ص ۲۳) ۔معاصی کاارتکاب بالکل بندہوجائے گااورتمام لوگ پاک بازہوجائیںگے ۔ جہل ،جبن ،بخل کافورہو جائیں گے ۔عاجزوں،ضعیفوں کی دادرسی ہوگی ۔ظلم دنیا سے مٹ جائے گا اسلام کے قالب بے جان میں روح تازہ پےدہوگی دنیاکے تمام مذاہب ختم ہوجائیںگے ۔نہ عیسائی ہوں گے نہ یہودی ،نہ کوئی اورمسلک ہوگا ۔صرف اسلام ہوگا ۔اوراسی کاڈنکابجتاہوگا آپ دعوت بالسیف دیں گے جوآپ کے درپئے نزاع ہوگا قتل کردیاجائے گا ۔جزیہ موقوف ہوگا خداکی جانب سے شہر عکاکے ہرے بھرے مےدان میں مہمانی ہوگی ،ساری کائنات مسرتوں سے مملوہوگی ۔غرضکہ عدل وانصاف سے دنیا بھرجائے گی ،(الیواقت الجواہرجلد ۲ ص ۱۲۷) ۔            

دنیاکے تمام مظلوم بلائیں جائیںگے اوران پرظلم کرنے والے حاضرکئے جائیں گے ،حتی کہ آل محمد تشریف لائیں گے اوران پرظلم کے پہاڑتوڑنے والے بلائے جائیںگے حضرت امام علیہ السلام مظلوم کی فریادرسی فرمائےںگے اورظالم کوکےفروکردارتک پہنچائےں گے ۔ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان تمام امورمیںنگرانی کافرےضہ اداکرنے کے لئے جلوہ افروزہوںگے اسی دوران میں حضرت عیسی علیہ السلام اپنی سابقہ ارضی ۲۳ سالہ زندگی میں ۷ سالہ موجودہ ارضی زندگی کااضافہ کرکے چالےس سال کی عمرمیں انتقال کرجائیںگے اور آپ کوروضہٴ حضرت محمد مصطفی صلعم میں دفن کردیاجائے گا ۔(حاشیہ مشکوة ۴۶۳) ،سراج القلزب ۷۷ ،عجائب القصص ۲۳)  اس کے بعدحضرت امام مہدی علیہ السلاکی حکومت کاخاتمہ ہوجائے گا اورحضرت امیرالمومنین نظام کائنات پرحکمرانی کریں گے جس کی طرف قرآن مجید میں  ”دابة الارض “ سے اشارہ کیاگیاہے اب رہ گیا یہ کہ حضرت امام مہدی علیہ السلام کی مدت حکومت کیاہوگی ؟اس کے متعلق سخت اختلاف ہے ارشاد مفید کے ۵۳۳ میں سات سال اور ۵۳۷ میں انےس سال اوراعلام الوری کے ۳۶۵ میں ۱۹ سال ،مشکوة کے ۴۶۲ میں ۷ ، ۸ ، ۹   سال ،نورالابصارکے ۱۵۴ میں  ۷ ، ۸ ، ۹ ، ۱۰ سال ۔ غایۃ المقصود جلد ۲ ص ۱۶۲ میں بحوالہ حلےةالاولیاٴ ۷ ، ۸ ، ۹ سال اورےنابع المودة شیخ سلےمان قندوزی بلخی کے ۴۳۳ میں بیس سال مرقوم ہے میںنے حالات احادےث ،اقوال علماٴ سے استنباط کرکے بیس سال کوترجےح دی ہے ہوسکتاہے کہ ایک سال دس سال کے برابرہوں (ارشادمفید ۵۳۳ ،نورالابصار ۱۵۵) غرضکہ آپ کی وفات کے بعد حضرت امام حسین علیہ السلام آپ کوغسل وکفن دیںگے اورنمازپڑھاکر دفن فرمائےں گے ،جےساکہ علامہ سےدعلی بن عبدالحمیدنے کتاب انوارالمضئیہ میں تحرےرفرمایا ہے حضرت امام مہدی علیہ السلام کے عہدظہورمیں قیامت سے پہلے زندہ ہونے کورجعت کہتے ہیں ۔یہ رجعت ضروریات مذھب امامیہ سے ہے (مجمع البحرین ۴۲۲) اس کامطلب یہ ہے کہ ظہورکے بعد بحکم خداشدےدترین کافراورمنافق اورکامل ترین مومنین حضرت رسول کرےم اورآئمہ طاہرین ،بعض انبیاٴ سلف برائے اظہاردولت حق محمدی دنیامیں پلٹ کرآئےں گے۔(تکلےف المکلفین فی اصول الدےن ۲۵) اس میں ظالموں کاظلم کابدلہ اورمظلوموں کوانتقام کاموقع دیاجائے گا اوراسلام کواتنافروغ دے دیاجائے گا کہ ”لےظہرہ علی الدےن کلہ “ دنیا میں صرف ایک اسلام رہ جائےگا (معارف الملة الناجیہ والناریہ ۳۸۰) امام حسین علیہ السلام کا مکمل بدلہ لیاجائے گا (غایۃ المقصود جلد ۱ ص ۱۸۴ بحوالہ تفسیرعیاشی ) اوردشمنان آل محمد کوقیامت میں عذاب اکبرسے پہلے رجعت میں عذاب ادنی کامزہ چکھایاجائے گا (حق الیقین ۱۴۷ بحوالہ قرآن مجید) ۔شیطان سرورکائنات کے ہاتھوں سے نہرفرات پرایک عظیم جنگ کے بعد قتل ہوگا ۔آئمہ طاہرین کے ہرعہدحکومت میں  اچھے برے زندہ کئے جائیں گے اورحضرت امام مہدی علیہ السلام کے عہدمیں جولوگ زندہ ہوں  گے ان کی تعداد چارہزارہوگی (غایۃ المقصود جلد ۱ ص ۱۷۸) شہداء کوبھی رجعت میں ظاہری زندگی دی جائے گی تاکہ اس کے بعد جوموت آئے اس سے آیت کے حکم ” کل نفس ذائقة الموت  “ کی تکمیل ہوسکے اورانھےں موت کامزہ نصےب ہوجائے (غایۃ المقصود جلد ۱ ص ۱۷۳) اسی رجعت میں بوعدہٴ قرآنی آل محمد کوحکومت عامہ عالم دی جائے گی ،اورزمین کاکوئی گوشہ اےسانہ ہوگا جس پرآل محمد کی حکومت نہ ہو ،اس کے متعلق قرآن مجید میں  : ” ان الارض ےرثھا عبادی الصالحون “ و ”نرےدان نمن علی الذےن استضعفوا فی الارض ونجعلھم الوارثین ۔“ موجود ہے (حق الیقین ۱۴۶) ۔

  اب رہ گیاکہ یہ کائنات کی ظاہی حکومت ووراثت آل محمد کے پاس کب تک رہے گی ،اس کے متعلق ایک روآیت آٹھ ہزارسال کاحوالہ دے رہی ہے اورپتہ یہ چلتاہے کہ امیرالمومنین ،حضرت محمدمصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیرنگرانی حکومت کریں گے اوردیگرآئمہ طاہرین ان کے وزراٴ اورسفراٴ کی حیثیت سے ممالک عالم میں انتظام وانصرام فرمائےں گے اورایک روآیت میں یہ بھی ہے کہ ہرامام علی الترتےب حکومت کریںگے حق الیقین وغایۃ المقصود ۔حضرت علی کے ظہوراورنظام عالم پرحکمرانی کے متعلق قرآن مجید میں بصراحت موجود ہے ۔ارشادہوتاہے   :”  اخرجنالھم دابة  من الارض ۔“(پارہ ۲۰ رکوع ۱ )   علماء فریقین یعنی شےعہ وسنی کااتفاق ہے کہ اس آیت سے مراد حضرت  علی علیہ السلام ہیں ۔ملاحظہ ہو۔مےزان الاعتدال علامہ ذہبی ومعالم التنزےل علامہ بغوی وحق الیقین علامہ مجلسی وتفسیرصافی علامہ محسن فےض کاشانی اس کی طرف تورےت میں بھی اشارہ موجودہے ۔(تذکرة المعصومین ۲۴۶) آپ کاکام یہ ہوگا کہ آپ اےسے لوگوںکی تصدےق نہ کریں گے جوخداکے مخالف اوراس کی آیتوں پرےقےن نہ رکھنے والے ہوںگے وہ صفااورمروہ کے درمیان سے برآمد ہوںگے ،ان کے  ہاتھ میں حضرت سلےمان کی انگوٹھی اورحضرت موسی کاعصا ہوگا جب قیامت قرےب ہوگی توآپ عصا اورانگشتری سے ہرمومن وکافرکی پےشانی پرنشان لگائےں گے ۔مومن کی پےشانی پر ”ھذا مومن حقا “ اور کافرکی پےشانی پر” ھذا کافرحقا“ تحرےرہوجائے گا ۔ملاحظہ ہو(کتاب ارشادالطالبین اخوند دروےزہ ۴۰۰ وقیامت نامہ قدوةالمحدثےن علامہ رفےع الدےن ص ۱۰)  علامہ لغوی کتاب مشکوة المصابےح کے ص ۴۶۴ میں تحرےرفرماتے ہیں کہ دابة الارض دوپہرکے وقت نکلے گا ،اورجب اس دابة الارض کا عمل درآمد شروع ہوجائے گا توباب توبہ بند ہوجائے گا اوراس وقت کسی کااےمان لانا کارگرنہ ہوگا حضرت امام جعفرصادق علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت علی مسجد میں سورہے تھے ،اتنے میں حضرت رسول کرےم تشریف لائے ،اورآپ نے فرمایا ”قم یادابة اللہ ۔“ اس کے بعد ایک دن فرمایا : ” یاعلی اذا کان اخرجک اللہ  الخ ۔“ اے علی ! جب دنیاکاآخری زمانہ آئے گا توخداوند عالم تمہیں برآمد کرےگا اس وقت تم اپنے دشمنوں کی پےشانےوں پرنشان لگاؤگے ۔ (مجمع البحرین ۱۲۷) آپ نے یہ بھی فرمایا کہ ” علی دابة ا لجنة “ ہیں لغت میںہے کہ دابہ کے معنی پےروںسے چلنے پھرنے والے کے ہیں ۔(مجمع البحرین ۱۲۷) ۔

  کثیرروایات سے معلوم ہوتاہے کہ آل کی حکمرانی جسے صاحب ارجح المطالب نے بادشاہی لکھاہے اس وقت تک قائم رہے گی جب تک دنیا کے ختم ہونے میںچالےس ےوم باقی رہیں گے ۔( ارشادمفید ۱۳۷ ،واعلام الوری ۲۶۵) اس کامطلب یہ ہے کہ وہ چالےس دن کی مدت قبروں سے مردوں کے نکلنے اورقیامت کبری کے لئے ہوگی ۔حشرونشر،حساب وکتاب ،صورپھونکنا اوردیگرلوازمات کبری اسی میں اداہوںگے ۔(اعلام الوری ۲۶۵) اس کے بعد حضرت علی علیہ السلام لوگوں کوجنت کاپروانہ دیں گے ۔لوگ اس لے کرپل صراط پرسے گزریں گے ۔(صواعق محرقہ علامہ ابن حجرمکی ۷۵) واسعاف الراغبےن ۷۵ برحاشیہ نورالابصار) پھرآپ جوض کوثرکی نگرانی کریںگے جو دشمن آل محمدحوض کوثرپرہوگا ،اسے آپ اٹھادیںگے ۔(ارجح ا لمطالب ۷۶۷) پھرآپ لواء الحمد یعنی محمدی جھنڈا لے کرجنت کی طرف چلےں گے ،پےغمبراسلام آگے آگے ہوںگے انبیاء اورشہداء وصالحےن اوردیگرآل محمدکے ماننے والے پےچھے ہوںگے ۔(مناقب اخطب خوارزمی قلمی وارجح المطالب ۷۷۴) پھرآپ جنت کے دروازہ پرجائیںگے اوراپنے دوستوںکوبغیرحساب داخل جنت کریںگے اوردشمنوںکوجہنم میںجھونک دیںگے (کتاب شفاقاضی عیاض وصواعق محرقہ) اسی لئے حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت ابوبکر،حضرت عمر حضرت عثمان اوربہت سے اصحاب کوجمع کرکے فرمادیاتھاکہ علی زمین اورآسمان دونوںمیںمیرے وزیرہیں اگرتم لوگ خداکوراضی کرنا چاہتے ہو توعلی کوراضی کرو،اس لئے کہ علی کی رضا خداکی رضا اورعلی کاغضب خداکا غضب ہے ۔(مودة القربی ص ۵۵ ۔ ۶۲) علی کی محبت کے بارے میںتم سب کوخداکے سامنے جواب دےناپڑے گااورتم علی کی مرضی کے بغیرجنت میں نہ جاسکوگے اورعلی سے کہ دیا کہ تم اورتمہارے شےعہ  ”خےرالبریہ “ یعنی خداکی نظرمیں اچھے لوگ ہیں ۔یہ قیامت میںخوش ہوںگے اورتمہارے دشمن ناشاد ونامراد ہوںگے ،ملاحظہ ہو (کنزالعمال جلد ۶ ص ۲۱۸ وتحفہٴ اثناعشریہ ۶۰۴ تفسیرفتح البیان جلد ۱ ص ۳۲۳) ۔

 


source : http://www.islaminurdu.com/chapter.php?chapterID=1060
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

رسولِ اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کا زندگی ...
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآله وسلم کے خطوط بادشاہوں ...
اخلاقیات کے بارے میں امام حسین کے اقوال
اقوال حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام
حضرت علی (ع) کی وصیت دوست کے انتخاب کے بارے میں
حضرت امام علی علیہ السلام
انتظار فرج اور ظہور ميں تاخير کي وجوہات
نبی اکرم(ص) کی حسین بن علی(ع) سے محبت
سیدالشہداء کے لئے گریہ و بکاء کے آثار و برکات
فاطمہ زھرا (س) رسالت و عصمت کا نایاب گوہر

 
user comment