اردو
Friday 27th of December 2024
0
نفر 0

عزاداری اور حکومت صالحین کا قیام

زمانہ گذرنے کے ساتھ ساتھ واضح ہوچکا ہے کہ کربلا میں یزیدی لشکر کے مقابلے میں جان کی بازی لگانے والے امام حسین علیہ السلام اور آپ (ع) کے اصحاب و انصار اس جنگ کے حقیقی فاتح تھے۔

بقول اقبال:

قتل حسین اصل میں مرگ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد

کربلا میں امام حسین (ع) اور احیائے اسلام کے دیگر شہداء جان سے ہاتھ دھو بیٹھے مگر اسلام کو حیات نو ملی. عاشورا کے مختصر سے لشکر کے قائد اور اس کے ہر سپاہی نے دنیا والوں کو ظلم کے خلاف پورے قد سے کھڑے ہونے کا درس دیا اور انہیں بتایا کہ اس راہ میں مرنے والے مرتے نہیں بلکہ ان کے دشمن لعن دائم کے حقدار ٹہرتے اور وہ خود ابد تک زندہ و جاوید ہوجاتے ہیں اس کا سبب یہ ہے کہ ان کے خون نے اسلام کو زندہ کیا ہوتا ہے اور جب تک اسلام زندہ و پائیدار ہے اسلام کی راہ میں مرنے والوں کو بھی زندہ ہی رکھتا ہے۔
یہاں یہ نکتہ خاص طور پر ذکر کرنا مناسب ہے کہ انسان بہرصورت مرتا ہے بلکہ ہر زندہ شیئے کو موت ضرور آتی ہے اور کیا خوب ہے کہ انسان اپنی پسند کی موت مرے اور شہادت کو گلے لگادے اور ہمیشہ کے لئے زندہ رہے. (*)
کربلا اس قرآنی قاعدے کا عملی نمونہ ہے۔ 
امام حسین علیہ السلام اور آپ (ع) کے انصار و اعوان شہید ہوگئے تو یزید اور اس کے گورنر ابن زیاد نے فتح کا جشن منایا مگر ان کا یہ جشن زیادہ طویل عرصے تک جاری نہ رہ سکا۔
عقیلۂ بنی ہاشم کوفہ میں داخل ہوتے ہی عزاداری کا اہتمام کیا. اونٹ کی پشت پر سے خطبہ پڑھا؛ کوفی جو "خوارج کے اسیروں" کا تماشا دیکھنے آئے تھے اچانک نئی صورت حال کا سامنا کررہے تھے اور انھوں نے دیکھا تھا کہ ان کے نبی (ص) کے خاندان کو اسیر کرکے لایا گیا ہے چنانچہ وہ گریہ و بکاء میں مصروف ہوگئے تھے؛ سیدہ زینب (س) نے عزاداری کا نمونہ پیش کرکے کوفیوں کو خواب غفلت سے بیدار کردیا تھا اور ہمیں بتادیا تھا کہ عزاداری کا مقصد غفلتوں کا خاتمہ اور لوگوں کو صالحین کی صلاحیت کی طرف رجوع کرنے کی ترغیب دلانا ہے۔
اہل بیت علیہم السلام کے حرم کی اسیری کی پہلی رات سے ہی قیام امام حسین (ع) کا رد عمل شروع ہوگیا اور اسی رات جنگ جمل اور جنگ صفین میں دونوں آنکھوں کا نذرانہ پیش کرنے والے بزرگ شیعہ رہنما عبداللہ بن عفیف ازدی نے اپنے بیٹوں اور غلاموں کے ہمراہ ابن زیاد کے خلاف قیام کیا۔ وہ پوری رات نابینا ہونے کے باوجود اپنی بیٹی کی مدد سے یزیدی فوجیوں کے خلاف لڑے اور ابن زیاد کے متعدد فوجیوں کو فی النار کرنے کے بعد شہید ہوئے اور یوں فتح کا جشن اموی بادشاہت کے لئے ڈراؤنے سپنے میں تبدیل ہوگیا اور یہی سلسلہ شام کی طرف جاتے ہوئے مختلف شہروں اور قصبوں میں بھی عوامی تحریکوں کی صورت میں جاری رہا۔ 
امام حسین علیہ السلام ہمیشہ کے لئے دینداروں اور حریت پسندوں کے نزدیک اعلی و ارفع مقام پر فائز ہوئے اور عدل و انصاف کے علمبرداروں کے لئے عملی نمونہ بن گئے اور مؤمنوں کے دلوں کا دھڑکن بن گئے۔ 
ابھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے وصال کے پچاس برس بھی پورے نہیں ہوئے تھے کہ سنہ 61 ہجری میں ذی القربی کا حق ادا کرتے ہوئے خلافت کے دعویداروں نے امام حسین علیہ السلام کو شہید کردیا، امام (ع) نے اپنے عزیز قربان کردیئے، خاندان رسول اللہ (ص) بے چین، دختران رسول اللہ (ص) بے پناہ، فرزندان رسول اللہ (ص) اسیر، مصیبت و مظلومیت کے مناظر تاریخ کی آنکھوں میں ثبت اور صدائے ہل من ناصر ابدیت کی سماعتوں میں ضبط ہوگئی اور ان سب واقعات و حقائق کی یادآوری ـ جسے عزاداری کہتے ہیں ـ قیام خونین کی یادآوری ـ جسے شعائر حسینی کا احیاء کہتے ہیں ـ قیام عاشورا کو تسلسل کے ساتھ دنیا والوں کو گوش گزار کرانا ـ جسے نوحہ و ماتمداری کہتے ہیں ـ، نہ صرف مسلمان کو سوچنے کی دعوت دیتا ہے بلکہ غیر مسلموں کو بھی سوچنے پر مجبور کرتا ہے اور لوگوں کو عزاداری کی اہمیت سے آگاہ کردیتا ہے۔ 
کربلا کی یادآوری نے تاریخ میں بہت سوں کو متأثر کردیا ہے اور اس کے دروس، عبرتوں اور پیغامات کا سلسلہ جاری و ساری ہے تو دوسری طرف سے کئی گروہوں نے مختلف قسم کے محرکات کی بنا پر امام حسین علیہ السلام کے قیام کی حقانیت کا انکار کیا ہے:
بعض لوگ اعتقادی طور پر اموی خاندان سے وابستگی کی بنا پر ان کی اہداف کے لئے، بعض لوگ دوسرے مکاتب کے نام نہاد راہنما ہونے کی حیثیت سے اپنا مقام و منصب کھونے کے خوف سے، بعض لوگ باطل قوتوں کے مأمورین کی حیثیت سے اور بعض دیگر، انسانوں کی بیداری اور اپنے سیاسی و معاشی مفادات کھونے کے خوف سے امام حسین علیہ السلام کے قیام کے مخالف اور آپ (ع) کی یاد مٹانے کے درپے ہیں۔ 
ان سب قوتوں کے محرکات مختلف ہیں لیکن ان کا ہدف ایک ہی ہے اور وہ یہ کہ وہ عزاداری کا خاتمہ چاہتے ہیں یا اسے بگاڑنا اور اس کی شکل و صورت منحرف کرنا چاہتے ہیں یا پھر اس کو پیروان اہل بیت (ع) کے ہدف و مقصد میں تبدیل کرکے مکتب اہل بیت (ع) کو جمود سے دوچار کرنا چاہتے ہیں؛ جبکہ عزاداری وسیلہ ہے جس کے ذریعے ہم امام حسین علیہ السلام کی تعلیمات اور آپ (ع) کے اہداف و مقاصد سے روشناس ہوتے ہیں اور اس کے ذریعے قیام عاشورا کا پیغام پہنچاتے ہیں مگر بعض عالمی اور اندرونی قوتیں عزاداری کو تشیع کا مقصد قرار دینے پر بضد ہیں اور وہ پیروان اہل بیت (ع) کو ایسا مکتب دینا چاہتے ہیں جس کے لئے دینی اصولوں پر ایمان اور فروعات دین پر عمل کرنے کی ضرورت نہیں ہے! 
ہم میں سے بعض لوگ عزادار کہلاتے ہیں لیکن ان کی ذاتی زندگی میں امام حسین علیہ السلام کی روش دیکھنے کو نہیں ملتی حالانکہ دنیا والوں کا اعتراف ہے کہ عزاداری، مرجعیت اور ولایت دین اسلام کی بقاء کے وسائل ہیں اور کہتے ہیں کہ مرجعیت اور عزاداری امام حسین علیہ السلام کی وجہ سے "اسلام زندہ" اور "تشیع زندہ ترین مذہب" ہے؛ لیکن اگر عزاداری کو ہدف قرار دیا جائے تو ایسی صورت میں یہ خود ہی ہدف ہے اور اسلام و تشیع کی بقاء کی ضامن نہیں ہوسکے گی کیونکہ یہ وسیلہ تو نہیں ہدف ہے!
سوال: کیا ہمیں ہمیشہ کے لئے امام حسین علیہ السلام کے لئے رونا چاہئے؟ کیا کوچہ و بازار کو سیاہ پوش کرنا چاہئے؟ کیا ہمیں ہمیشہ کے لئے ماتم و عزا کا اہتمام کرنا چاہئے؟ 
جواب: بالکل درست ہے، لیکن رونا بھی مقصد نہیں ہے بلکہ گریہ و بکاء بیداری اور مقصدیت کا پیش خیمہ ہے۔ گریہ و بکاء اگر انسان کو نیا مقصد اور نیا عزم دے تو بہت اچھا ہے اور اسی صورت میں اس پر ثواب مرتب ہوتا ہے۔
سوال:کیا نئے زمانے میں عزاداری و ماتم داری کی بجائے پریس کانفرنس، سیمینار اور نشست و اجلاس جیسی جدید روشوں سے استفادہ نہیں کرنا چاہئے؟
جواب: امام حسین علیہ السلام کی عزاداری کی کیفیت علماء و مراجع تقلید نے بیان کی ہے اور وہ سارے اعمال جو امام حسین علیہ السلام کی یاد تازہ کرتے ہیں، درست ہیں سوائے ان اعمال کے جو عزاداری کو مخدوش کردیتے ہیں. عزاداری، سوگواری، مجالس و محافل، سیاہ پوشی اور پرچم و بینر نصب کرنے کے ساتھ ساتھ پریس کانفرنس، اجلاس، ٹی وی، انٹرنیٹ، سیٹلائٹ اور تمام جدید وسائل سے بھی استفادہ کیا جاسکتا ہے بلکہ استفادہ کرنا چاہئے۔   
سوال: اگر امام حسین علیہ السلام کربلا کے فاتح تھے تو شیعیان حسین (ع) جشن منانے کی بجائے عزاداری اور ماتم داری کیوں کرتے ہیں؟ 
جواب: رسول اللہ (ص) کے وصال کی نصف صدی بعد ہی اتنا عظیم المیہ رونما ہونا؛ خود بخود باعث غم و الم ہے.
اللہ تعالی نے فرمایا: قُل لَّا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْرًا إِلَّا الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبَى. (سورہ شوری آیت 23)
ترجمہ: کہئے کہ میں تم سے اس پر کوئی معاوضہ نہیں مانگتا سوا صاحبان قرابت کی محبت کے۔
مگر اتنا کم عرصے میں حضرت فاطمہ زہراء (س)، حضرت امیرالمؤمنین (ع)، حضرت امام حسن مجتبی (ع) کی مظلومانہ شہادت کے بعد امام حسین (ع) کے ہمراہ خاندان اور بچوں کا وحشیانہ قتل، ششماہہ بچے پر تیر چلانا، شہداء کے جسموں پر گھوڑے دوڑانا، ان کے سر نوک سناں پر کربلا سے شام تک کوچہ و بازار میں پھرانا، حرم رسول اللہ (ص) کو اسیر بنا کر سر دربار لے کر جانا اور تمام مصائب و مسائل جو نواسۂ رسول (ص) پر وارد کئے گئے ہیں، باعث غم و الم ہیں جن کے لئے گریہ و بکاء بالکل فطری عمل ہے اور پھر محض سیمینار یا کانفرنس یا نیوز کانفرنس کے ذریعے مکتب کی حفاظت ممکن نہیں ہے بلکہ ستم کے حکمرانوں کے اس جرم کی صدا دنیا والوں تک پہنچانی کے لئے عزاداری کی ضرورت ہے اور کانفرنس و سیمینار بھی عزاداری ہی کی محافل ہوں تو مفید ہونگے۔ خلاصہ یہ کہ یہ کربلا کی صدا بآواز بلند دنیا والوں تک پہنچانی ہے اور کوچہ و بازار میں جاکر دنیا والوں کو امام حسین علیہ السلام کی حقانیت، مکتب اہل بیت (ع) کی عظمت، حرم رسول اللہ (ص) کی مظلومیت، حکومت صالحین کی ضرورت اور بالآخر روشن مستقبل اور ظہور حضرت بقیۃ‍اللہ (عج) کے انتظار کی ضرورت جتانی ہے۔
سوال: عزاداری کیوں؟ 
جواب: اس کا جواب مندرجہ ذیل سطور میں مفصل طور پر بیان کیا گیا ہے جبکہ مندرجہ بالا سطور میں بھی اجمالی طور پر بیان گیا گیا ہے۔ 
عزاداری وسیلہ ہے؛ اور ہدف۔۔۔!
کسی بھی روداد میں وسیلہ اور ہدف دو اہم رکن ہیں اور عزاداری کے موضوع میں وسیلہ اور ہدف کا جائزہ لے کر ہم عزاداری کے فلسفے کا ادراک کرسکتے ہیں۔
وسیلہ ہدف کا تابع ہے اور وسیلے کا اعتبار ہدف کے اعتبار سے ہے اور وسیلہ اور ہدف دونوں اہم ہیں۔ وسیلے کا وجود تبعی ہے اور ہدف کا وجود استقلالی ہے۔ اور ہاں ہدف کی اہمیت بہت زیادہ ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ وسیلہ غیر اہم ہے بلکہ ایک لحاظ سے ہدف بھی اپنا اعتبار وسیلے سے ہی حاصل کرتا ہے۔ اور یہ کہ بڑے اور مقدس ہدف کے حصول کا وسیلہ عظیم و مقدس ہوتا ہے۔
اب ہم کربلا جاکر اس قاعدے سے استفادہ کرتے ہیں۔ اور اگر ہم ہدف اور وسیلے کے درمیان ربط کا امام حسین (ع) کے قیام اور فلسفہ عزاداری سے موازنہ کریں تو ہمیں کہنا پڑے گا کہ امام حسین (ع) کے قیام کا اعلی ترین ہدف ـ جو فلسفہ عزاداری میں بھی ہدف ہی سمجھا جاتا ہے ـ یہ تھا کہ اسلامی معاشرے کی زعامت و قیادت اور امامت صالحین کے ہاتھوں میں ہونی چاہئے۔ یہ قرآن کا بیان اور اللہ کا ارشاد ہے جہاں فرماتا ہے:

وَلَقَدْ كَتَبْنَا فِي الزَّبُورِ مِن بَعْدِ الذِّكْرِ أَنَّ الْأَرْضَ يَرِثُهَا عِبَادِيَ الصَّالِحُونَ * إِنَّ فِي هَذَا لَبَلَاغًا لِّقَوْمٍ عَابِدِينَ.

(سوره انبیاء آیات 105 و 106)

ترجمہ: 
اور بے شک ہم نے توریت کے بعد زبور میں بھی یہ لکھ دیا ہے کہ زمین کے ورثہ دار میرے نیک بندے ہوں گے * بلاشبہ اس میں ایک پیغام ہے ان کے لیے جو عبودیت خالق کا احساس رکھتے ہوں۔
چنانچہ امام حسین علیہ السلام کا ہدف بہت بڑا ہے اور اس کے احیاء و تحفظ کا وسیلہ بھی بہت بڑا ہونا چاہئے اور عزاداری اس کا وسیلہ ہے۔ البتہ عزاداری کے سوا کئی اور وسائل بھی ہیں جن سے قیام امام حسین علیہ السلام کے اہداف کا تحفظ کیا جاسکتا ہے یوں عزاداری صرف امام حسین علیہ السلام کی یاد تازہ رکھنی ہی کا نہیں دین کی حفاظت اور صالحین کی حکومت کے قیام کا وسیلہ بھی ہے۔ 
مسلمان عزاداری کرتے ہیں اور اس سلسلے میں مختلف قسم کے مراسمات بپا کرتے ہیں تا کہ ہدف زندہ رہے اور مسلمانوں کے ذہن میں کربلا کا قیام پائندہ رہے اور لوگ نہ بھولیں کہ امام حسین (ع) کس مقصد کے لئے حکومت ظلم کے خلاف سینہ سپر ہوکر شہید ہوئے۔ 
ہاں! شیعیان اہل بیت (ع) محرم اور صفر میں امام حسین علیہ السلام کی یاد مناتے، آپ (ع) کی تعلیمات بیان کرتے، آپ (ع) کے اہداف و مقاصد کی تشریح کرتے اور مکتب امام (ع) کے احیاء کے لئے مختلف النوع مراسمات مناتے ہیں۔ 
امام حسین علیہ السلام نے ستمگر بادشاہ کے خلاف قیام کیا تا کہ اسلامی امت کی باگ ڈور نااہلوں کے ہاتھ میں نہ پڑے۔ اور ہم عزاداری کرتے ہیں تا کہ یہ عظیم ہدف زندہ رہے لیکن یہ ہدف بہت عظیم ہے اسلام کا احیاء اور امت کو نااہلوں کی حکمرانی سے بچانا بہت اہم ہے چنانچہ ہمیں کبھی بھی ہدف سے غافل نہیں ہونا چاہئے اور ہمیں احیائے تحریک عاشورا کے علمبردار ہونے کی حیثیت سے کبھی بھی اس ہدف سے غافل نہیں ہونا چاہئے اور عزاداری ہی کو ہدف قرار نہیں دینا چاہئے۔ 
اگر عزا و ماتم معتبر ٹہریں اور عزاداری کا فلسفہ بھلا دیا جائے اور فلسفۂ عاشورا کی وضاحت بے فائدہ ٹہرے اور عزاداری کے مراسمات کو ہے مقصد قرار دیا جائے تو تشیع مراسمات کے اندر محدود اور جامد ہوکر رہ جائے گا اور عاشورا کا پیغام ختم ہوکر رہ جائے گا اور زنجیر و ماتم جیسے عزاداری کی مراسمات فلسفہ عزاداری کی جگہ لے لیں گے جبکہ یہ سارے مراسمات اس فلسفے کے تحفظ کے لئے ہیں. اور ان کی اہمیت فلسفہ عزاداری کی اہمیت کی وجہ سے ہے۔ 
ہاں! یہ مراسمات بہت اہم ہیں مسئلہ صرف یہ ہے کہ انہیں ہدف نہیں بننا چاہئے اور ان کا تحفظ ہونا چاہئے تا کہ فلسفہ عاشورا کی حفاظت ممکن ہوسکے۔ 
صالحین کی حکومت دین کی حفاظت کی شرط اول ہے اور اگر صالحین اقتدار سے دور رہیں تو فاسقین و ظالمین اقتدار سنبھالیں گے اور ہم دیکھ رہے ہیں کہ فاسق حکمران بیگانہ قوتوں کو مسلمانوں کے مقدر پر مسلط ہونے کے مواقع فراہم کرتے ہیں اور وہ دین اسلام کے احیاء اور اس کی حفاظت کو دشوار کردیتے ہیں اور ان نئے حقائق کے اثبات کے لئے کوئی دلیل و سند پیش کرنے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ ہمارے گرد و پیش دسیوں مثالوں کا مشاہدہ کیا جاسکتا ہے۔
حکومت کے مخالفین
مسلمانوں میں بالعموم اور اہل تشیع میں بالخصوص ایسے افراد پائے جاتے ہیں جو کسی جعلی روایت کا سہارا لے کر کہتے ہیں کہ ظہور سے پہلے حکومت کے لئے اٹھنے والا ہر پرچم باطل کا پرچم ہے چنانچہ وہ اسلامی حکومت کے قیام کے خلاف ہیں! لیکن ہم ان سے پوچھتے ہیں کہ تو پھر کیا اسرائیل، امریکہ اور یورپی گوروں کی حکمرانی جائز ہے؟ کیا ان کا پرچم حق کا پرچم ہے؟ کیا مسلمان قومیں حکومت نہ ہونے کی صورت میں اپنے دین و قرآن کی حفاظت کی صلاحیت رکھتے ہیں؟ کیا حکومت کے بغیر اللہ کی حدود کا قیام ممکن ہوسکتا ہے؟ کیا جمعہ و جماعت اور مسجد و حسینیہ کی حفاظت کی ضمانت فراہم کی جاسکتی ہے؟ 
اور ہاں! اگر ہم کہیں دیکھتے ہیں کہ مسلم معاشرے میں رہ کر بھی مسلمانوں کو مساجد اور امامبارگاہوں میں نماز جمعہ و جماعت کے دوران خطرات لاحق ہیں تو اس کا سبب بھی یہی ہے کہ وہاں بھی حکومت صالحین کے پاس نہیں بلکہ اجنبی قوتوں کے منظور نظر افراد کے پاس ہے۔
چنانچہ ہماری عزاداری ظلم کے خلاف جدوجہد، صالحین کی حکمرانی، احیائے دین اور دین کے تحفظ کے حوالے سے پیغام رسانی سے سرشار ہونی چاہئے اور عزاداروں کو منتظر بنانا چاہئے؛ انہیں انتظار ظہور یا صالحین کی حکومت کے انتظار کا سبق سکھانا چاہئے۔ 
ایک بہت اہم بات یہاں قابل توجہ ہے؛ وہ یہ کہ ہدف و مقصد کبھی بھی تغیر پذیر نہیں ہے، یہی ہدف کی خصوصیت ہے۔ 
زمانی گذرتے ہیں، نئے نئے حوادث و واقعات رونما ہوتے ہیں، صدیاں بیت جاتی ہیں لیکن ہدف میں تبدیلی نہیں آتی لیکن وسائل میں زمان و مکان کی مناسبت سے تبدیلیاں آتی ہیں گوکہ تبدیلی کا مطلب منفی نہیں ہے بلکہ ہدف تک پہنچنے کے لئے راستے اور وسیلے تبدیل ہوتے ہیں یا ان کی روش میں تبدیلی آتی ہے۔ مثال کے طور پر اگر ہم ایک تاریک کمرے میں مطالعہ کرنا چاہیں تو اس کے لئے روشنی کی ضرورت پڑتی ہے جس کے لئے کسی زمانے میں دیئے اور موم بتی سے استفادہ کیا جاتا تھا اور کبھی تیل کا چراغ استعمال ہوتا تھا اور پھر وسائل نے ترقی کرلی اور آخرکار بجلی کے بلب استعمال ہونے لگے لیکن روشنی روشنی رہے صرف وسائل تبدیل ہوتے گئے۔ ابتدائی مراحل سے لے کر اب تک ایجاد ہونے والے روشنی کے تمام وسائل کا کام ایک ہی رہا اور ان وسائل نے اس مقصد کی برآری میں بطور احسن کردار ادا کیا۔ عزاداری بھی اس روشنی کی مانند ہے جس کے حصول کی روشیں مختلف اور متنوع ہیں اور اس کی روشوں کا ارتقائی عمل بھی جاری رہتا ہے۔ 
عزاداری کے لئے سینہ زنی اور زنجیر زنی نوحہ خوانی اور مرثیہ سرائی ہوتی ہے اور مجالس بھی منعقد ہوتی ہیں اور لوگ گریہ و بکاء بھی کرتے ہیں اور ان سب کا مقصد ایک ہی ہے کہ عاشورا کا پیغام زندہ و پائندہ رہے اور امام حسیں علیہ السلام اور خاندان رسالت کی مظلومیت بھی سب کو یاد رہے۔ اب اگر ہم سینہ زنی، زنجیر زنی، نوحہ خوانی اور مرثیہ سرائی اور گریہ و بکاء اور عزاداری کی دیگر روشیں ہدف ٹہریں تو مکتب عاشورا انحراف کا شکار ہوجائے گا اور ہم عاشورا کے اصل ہدف تک نہ پہنچ سکیں گے۔ 
قیام عاشورا اور عزاداری کے فلسفے کے سلسلے میں ہدف اور وسیلے کی طرف توجہ ایک پرمغز نکتہ ہے جس کی طرف توجہ دینا واجب ہے اور یہ مؤمنین کا بنیادی حق ہے کہ علمائے دین، واعظین، ذاکرین، نوحہ سرا اور مرثیہ سرا شعراء، ذاکرین، نوحہ خوانوں اور مرثیہ خوانوں کو قیام عاشورا کے اہداف و مقاصد کی طرف متوجہ کریں اور انہیں ان مقاصد کی طرف توجہ دینے پر مجبور کریں۔ تا کہ مؤمنین کی عزاداری با معنی ہو اور حتی اگر کوئی شخص شیعہ نہیں ہے یا حتی مسلمان نہیں ہے اور وہ آکر ہماری مجالس میں شرکت کرتا ہے اور ہماری سوگواری کا سبب پوچھتا ہے تو ہر عزادار امام حسین علیہ السلام اس کے سوال کا منطقی جواب دے سکے۔
........
 (*) بعض نکات:
شہید و شہادت قرآن کی روشنی میں:
وَلاَ تَقُولُواْ لِمَنْ يُقْتَلُ فِي سَبيلِ اللّهِ أَمْوَاتٌ بَلْ أَحْيَاء وَلَكِن لاَّ تَشْعُرُونَ * وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِّنَ الْخَوفِ وَالْجُوعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الأَمَوَالِ وَالأنفُسِ وَالثَّمَرَاتِ وَبَشِّرِ الصَّابِرِينَ * الَّذِينَ إِذَا أَصَابَتْهُم مُّصِيبَةٌ قَالُواْ إِنَّا لِلّهِ وَإِنَّـا إِلَيْهِ رَاجِعونَ * أُولَـئِكَ عَلَيْهِمْ صَلَوَاتٌ مِّن رَّبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ وَأُولَـئِكَ هُمُ الْمُهْتَدُونَ.

(سورہ بقرہ آیات 154 تا ا57)

اور تم اللہ کی راہ میں قتل کئے جانے والوں کو یہ نہ کہو کہ وہ مردہ ہیں،بلکہ وہ زندہ ہیں مگر تمہیں شعور نہیں ہے۔ (یعنی تمہیں ان کی حیات بعد از شہادت سمجھ نہیں آتی) *  اور ضرور بالضرور ہم تمہیں خوف، دہشت، بھوک اور مال و جان اور پھلوں کی کمی میں سے کسی نہ کسی چیز کے ساتھ، آزمائیں گے؛ اور خوشخبری دیجئے ان صبر کرنے والوں کو۔ * کہ جب کوئی تکلیف دہ بات ان کے سامنے آئے، ان کا قول یہ ہو کہ بلاشبہ ہم اللہ کے ہیں اور بلاشبہ ہمیں اسی کی طرف پلٹ کر جانا ہے۔ * یہ وہ ہیں کہ ان پر خاص عنایتیں ہیں ان کے پروردگارکی طرف سے اور مہربانی ہے اور یہی ہدایت پانے والے ہیں۔

وَلاَ تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُواْ فِي سَبِيلِ اللّهِ أَمْوَاتًا بَلْ أَحْيَاء عِندَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُونَ * فَرِحِينَ بِمَا آتَاهُمُ اللّهُ مِن فَضْلِهِ وَيَسْتَبْشِرُونَ بِالَّذِينَ لَمْ يَلْحَقُواْ بِهِم مِّنْ خَلْفِهِمْ أَلاَّ خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلاَ هُمْ يَحْزَنُونَ * يَسْتَبْشِرُونَ بِنِعْمَةٍ مِّنَ اللّهِ وَفَضْلٍ وَأَنَّ اللّهَ لاَ يُضِيعُ أَجْرَ الْمُؤْمِنِينَ * الَّذِينَ اسْتَجَابُواْ لِلّهِ وَالرَّسُولِ مِن بَعْدِ مَآ أَصَابَهُمُ الْقَرْحُ لِلَّذِينَ أَحْسَنُواْ مِنْهُمْ وَاتَّقَواْ أَجْرٌ عَظِيمٌ * الَّذِينَ قَالَ لَهُمُ النَّاسُ إِنَّ النَّاسَ قَدْ جَمَعُواْ لَكُمْ فَاخْشَوْهُمْ فَزَادَهُمْ إِيمَاناً وَقَالُواْ حَسْبُنَا اللّهُ وَنِعْمَ الْوَكِيلُ * فَانقَلَبُواْ بِنِعْمَةٍ مِّنَ اللّهِ وَفَضْلٍ لَّمْ يَمْسَسْهُمْ سُوءٌ وَاتَّبَعُواْ رِضْوَانَ اللّهِ وَاللّهُ ذُو فَضْلٍ عَظِيمٍ. ٭ إِنَّمَا ذَلِكُمُ الشَّيْطَانُ يُخَوِّفُ أَوْلِيَاءهُ فَلاَ تَخَافُوهُمْ وَخَافُونِ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ۔

(آل عمران آیات 169 تا 174)

اور انہیں جو اللہ کی راہ میں مارے گئے ہیں‘ ہر گز مردہ نہ سمجھو بلکہ وہ زندہ ہیں ‘ اپنے پروردگار کے یہاں رزق پاتے ہیں ٭ خوش خوش اس پر جو اللہ نے اپنے فضل وکرم سے انہیں دیا ہے اور اپنے پسماند گان کے حال سے جو ان کے پاس نہیں پہنچے ہیں‘وہ خوش ہوتے ہیں کہ انہیں کوئی خوف نہیں ہے اور نہ کوئی انہیں افسوس ہونے والا ہے ٭ اللہ کی بڑی عنایت اور کرم سے خوش ہوتے ہیں اور اس سے کہ اللہ ایمان والوں کے ثواب کو برباد نہیں کرتا ٭ وہ جنہوں نے زخم کھانے کے بعد بھی اللہ اور رسول کی آواز پر لبیک کہی‘ ان میں سے جنہوں نے حسن عمل سے کام لیا اور بچتے رہے‘ ان کے لیے بڑا ثواب ہے ٭ وہ کہ جن سے لوگوں نے کہا کہ لوگوں نے تمہارے مقابلہ کے لیے بڑا لشکر جمع کیا ہے‘ ان سے ڈرو تو اس سے ان کے ایمان میں اور اضافہ ہوا اور انہوں نے کہا کہ ہمارے لیے اللہ کافی ہے اور بڑا اچھا کارساز ٭ تو وہ پھرے اللہ کی عنایت اور فضل کے ساتھاس طرح کہ انہیں کوئی برائی چھو بھی نہیں گئی اور وہ اللہ کی خوشنودی کے درپے رہے اور اللہ بڑے فضل وکرم والا ہے ٭ یہ تو شیطان ہے جو اپنے حوالی موالی کو ڈراتا ہے‘ تو تم ان سے نہ ڈرو‘صرف مجھ سے ڈرو‘اگر واقعی مومن ہو۔
ایک نکتہ اور قرآن کی نگاہ میں:
جب آپ ظلم کے خلاف قیام کرتے ہیں تو اس میں زخم لگنے، بھوک پیاس میں مبتلا ہونے اور مختلف قسم کے خطرات میں گھرجانے کا خطرہ ہوتا ہے اور یہ فطری طور پر انسان خطرات سے بچنے کا عادی ہے لیکن جب اتنا بڑا مقصد لے کر قیام کرتا ہے تو مقصد سامنے آکر ان چھوٹے موٹے مسائل کی اہمیت کو کم کردیتا ہے اور مقصد کی عظمت کے ساتھ ساتھ جب اللہ کے وعدوں کو سامنے رکھا جاتا ہے تو صبر و استقامت آسان ہوجاتی ہے۔ قرآن مجید میں خداوند متعال مسلمانوں کو اعلی اور غالب و فاتح قرار دیا ہے اور یادآوری کرائی ہے کہ اگر تمہیں تکلیف پہنچتی ہے تو تمہارے دشمن کو بھی تکلیف پہنچتی ہے اور یہ سب آزمائش کے لئے بھی ہے تا کہ معلوم ہوجائے کون مؤمن ہے اور خدا تم میں سے گواہ بھی لینا چاہتا ہے... 
ارشاد ہوتا ہے:
وَلاَ تَهِنُوا وَلاَ تَحْزَنُوا وَأَنتُمُ الأَعْلَوْنَ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ * إِن يَمْسَسْكُمْ قَرْحٌ فَقَدْ مَسَّ الْقَوْمَ قَرْحٌ مِّثْلُهُ وَتِلْكَ الأيَّامُ نُدَاوِلُهَا بَيْنَ النَّاسِ وَلِيَعْلَمَ اللّهُ الَّذِينَ آمَنُواْ وَيَتَّخِذَ مِنكُمْ شُهَدَاء وَاللّهُ لاَ يُحِبُّ الظَّالِمِينَ * وَلِيُمَحِّصَ اللّهُ الَّذِينَ آمَنُواْ وَيَمْحَقَ الْكَافِرِينَ * أَمْ حَسِبْتُمْ أَن تَدْخُلُواْ الْجَنَّةَ وَلَمَّا يَعْلَمِ اللّهُ الَّذِينَ جَاهَدُواْ مِنكُمْ وَيَعْلَمَ الصَّابِرِينَ * وَلَقَدْ كُنتُمْ تَمَنَّوْنَ الْمَوْتَ مِن قَبْلِ أَن تَلْقَوْهُ فَقَدْ رَأَيْتُمُوهُ وَأَنتُمْ تَنظُرُونَ.

(آل عمران آیات 139 تا 143)

اور کمزوری نہ دکھاؤ اور رنجیدہ نہ ہو اور تم برتری رکھتے ہوا اگر تم ایمان رکھتے ہو۔ 
اگر تمہیں کچھ صدمہ پہنچ گیا تو ان لوگوں کو بھی تو ویسی ہی تکلیف پیش آئی ہے اور یہ دنیا کا غلبہ ہے جسے باری باری لوگوں میں ہم ادلتے بدلتے رہتے ہیں اور اس لیے کہ اللہ ایمان والوں کو جان لے اور تم میں سے کچھ کومثالی حیثیت والا بنائے اور اللہ ظالموں کودوست نہیں رکھتا ۔ 
اور اس لیے کہ اللہ ایمان والو ں کو نکھار دے اورکافروں کو رفتہ رفتہ نیست و نابودکر دے۔
کیا تم سمجھتے ہو کہ تم بہشت میں چلے جاؤ گے حالانکہ ابھی اللہ نے معلوم نہیں کیا کہ تم میں واقعی مجاہدکون ہیں اور نہ یہ معلوم کیا کہ ثابت قدم کون ہے۔ 
اور تم تو ان کاسامنا ہونے سے پہلے مرنے کے آرزومند رہا کرتے تھے ۔ اور اب تو تم نے اپنی آنکھوں سے اس کا سماں دیکھ لیا۔


source : http://abna.ir
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

حضرت آیت اللہ بہجت (رح) کا یادنامہ شائع ہوا
نہج البلاغہ کا تعارفی جائزہ
انبیا اور صالحین کی قرآنی دعائیں
قرآن میں وقت کی اہمیت کا ذکر
انبیاء کی خصوصیات
حضرت امام محمد مہدی علیہ السلام(حصہ ششم)
حضرت علی علیہ السلام کا علم شہودی خود اپنی زبانی
جَنَّت البَقیع مستندتاریخی دستاویزات کی روشنی ...
جنگ تبوك
صبرو رضا کا پیکر

 
user comment