غیر اسلامی خیالات نے آج مسلمان کے ذہن پر اتنا قبضہ کر لیا ہے کہ ہم دین کو ہلکا سمجھتے ہیں ہم کو اس کا احساس بھی نہیں ہوتا کہ ہم دین ہلکا سمجھتے ہیں۔ چناچہ احکام اسلامی خصوصاً عبادات کا ذکر ہمارے درمیان اس طرح ہوتا ہے کہ جب خدا کا حکم ہے تو اس کا کوئی نہ کوئی فائدہ ضرور ہونا چاہئے لہذا اس عبادت کا فائدہ کیا ہے۔ اس حکم خدا کا سبب کیا ہے۔ اس کے بعد ہمارا دوسرا قدم اٹھتا ہے کہ ہم احکام الہیٰ کا فلسفہ بیان کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ نماز کا فلسفہ ۔ روزہ کا فلسفہ حج کا فلسفہ سود ۔ گانا ۔ لہو لعب وغیرہ کے حرام ہونے کے فلسفے۔ وغیرہ وغیرہ۔ بات جب فلسفہ پر آ گئی تو ہر انسان کو بولنے ۔ سوچنے کا موقع مل گیا اور دین کھولنا بن گیا۔ حالانکہ ۹۹ فیصدی صرف احکام بیان ہوتے ہیں اور ایک فیصدی احکام کے اسباب و نتائج بیان ہوئے ہیں۔ جبکہ اسباب و نتائج کی روشنی میں ہی فلسفہ ے اور بغیر اسباب و نتائج کے تذکرہ کے کیاں بیان ہوتے ہیں ساری دنیا کا نظام اسی اصول اور انداز پر ہے ہر معمار۔ ہر بڑھئی۔ ہر مستری ۔ ہر انجینیر ۔ ہر ڈاکٹر ۔ ہر وکیل ۔ ہر منتظم مختصر یہ کہ ہر کام کرنے والا۔ ہر ماہر صرف احکام صادر کرتا ہے کہ یہ لا کر دو۔ اس طرح کرو۔ اس طرح بولو مگر اپنے عمل اور حکم کی وجہ ہر قدم پر بیان نہیں کرتا۔ بلکہ جب کبھی کوئی ایسا مسئلہ آ جاتا ہے کہ وجہ بتلائے بغیر عمل نہ ہوگا یا عملسست ہوگا یا خرابی پیدا ہوگی تو وجہ بیان کی جاتی ہے اور نتائج سے آگاہ کیا جاتا ہے۔ مذہب بھی اسی اصول پر صرف احکام دیتا ہے اور اپنے ماننے والوں سے یہ امید رکھتا ہے کہ ایمان کی بنیاد پر ان کو حکم دینا کافی ہے۔ اسباب ق نتائج سے آگاہ کرنا نہ ضروری ہے نہ ممکن ہے نہ مناسب ہے۔ البتہ جب ضرورت ہوتی ہے تو اسباب اور نتائج بھی بیان کر دیتا ہے۔ ورنہ ہر عبادت کی بنیاد صرف حکم الہیٰ ہے احکام الہیٰ کے مجموعہ کا نام شریعت ہے۔ ہم جب معاملات میں عمل کی بنیاد صرف حکم خدا کو قرار دیتے ہیں تو وبادات میں بدرجہ اولیٰ پورے عمل کی بنیاد کو صرف حکم خدا ہونا چاہئے مشلاً ہم سودی معاملات نہیں کر سکتے۔ نکاح اور طلاق میں صیغہ کا جاری کرنا ضروری سمجھتے ہیں۔ طلاق میں گواہوں کا ہونا لازم جانتے ہیں۔ بوقت طلاق وعرت کا پاک ہونا ضروری جانتے ہیں۔ جب ان سارے معملات کی وجہ اور بنیاد صرف حکم خدا ہے تو پھر کیا وجہ ہے کہ نماز ، روزہ ، حج ، زکوٰۃ ، خمس ، جہاد ، امر بالمعروف ، نہی عنالمنکر ، تولا ، تبرا ، اعتکاف ، ومرہ ، قربانی وغیرہ میں ہم وجہ تلاش کریں اور وجہ کی بنیاد عبادت قرار دے کر ایک کرور کی چیز کو ایک کوڑی میں فروخت کر دیں۔ اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے سے بڑی کون چیز ہو سکتی ہے۔ ہم اس اس دنیا میں مالداروں ، افسروں ، مزہور افراد ، باثر حضرات علما ، دانشور والدین ، اعزپ ، احباب ، پڑوسی حتیٰ کہ اپنے ملازم اور نوکر کی خوشنودی کو حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور جس کی جیسی حیشیت ہوتی ہے اتنی اہمیت اس کی خوشنودی حاصل کرنے کو دیتے ہیں تو پھر خدا جو سب سے بڑا ہے اس کی خوشنودی حاصل کرنے کو ساری دنیا کے کاموں میں سب سے زیادہ اپہم کیوں نہ قرار دیں جبکہ خدا کے بعد جتنے بڑے ہیں نبی ۔ امام سب کی خوشنودی بھی خدا کی خوشنودی کے حاصل ہونے کے بعد ہی حاصل ہو سکتی ہے۔
لہذا عبادت کی وجہ صرف حکم خدا ہونا چاہئے اور عبادت کی انجام دہی صرف خوشنودی خدا حاصل کرنے کے لئے ہونا چاہئے۔ جب کہ یہ خوشنودی نور بالائے نور اور خوشنودی بالائے خوشنودی بھی ہے۔ کہ خدا خوش تو نبیؐ و امامؐ سب خوش ورنہ سب ناراض۔ ایسی صورت میں مشلاً نماز صبح جلد اٹھنے اور سہانے موسم سے لطف اندرونی کے لئے پڑھنا اور روزہ درستی صحت کے لئے رکھنا کروروں کی چیز رکو کوڑیوں کے کے مول کر دینا نہیں ہے تو پھر کیا ہے ؟ ایک کرور کی کرنسی کے ساتھ اگر ایک کوڑی بھی ہم رکھدیں تو اس نازیبا حرکت کو عقل اپنی توہین قرار دیگی۔ اسی بنا پر اگر عبادت میں خوشنودی خدا کے ساتھ کوئی دوسری نیت و جزبہ و خیال و احساس شامل ہو جائے تو خدا ایسی عبادت کو واپس کر دیتا ہے اور ہر گز قبول نہیں کرتا ہے۔
ہم صرف خدا کے بندے ہیں۔ اس کے علاوہ نہ کسی نے ہم کو عقل دی ہے نہ حیات۔ نہ احساس دیے ہیں نہ جزبات، نہ آج خدا کے علاوہ کوئی روزی دیتا ہے ن کل اس کے علاوہ کسی کے قبضہ میں موت ہوگی۔ہماری حاضری بھی اسی کے سامنے ہوگی اس وقت صرف اس کی خوشنودی ہمارے کام آئےگی نہ کوئی فلسفہ کام دےگا نہ کسی کی عقل۔ نہ کسی کی تقریر و نکتہ آفترنی نہ کسی کی تحریر اور علمی موشگانی۔ نہ کسی کا شعت کام آئےگا نہ کسی کا ادبی شہپارہ۔ بلکہ ان سب کی حالت عام لوگوں سے بھی بدتر ہوگی۔ لہذا ہر حکم خدا کی تعمیل کیجئے۔ واجب کو ادا کیجئے حرام سے بشیئے مستحب ہو تو شوق ادائگی پیدا کیجئے۔ مکرہ ہو تو احساس کراہت تازہ دم رکھئے۔ ماہ مبارک آ گیا ہے جو کچھ بن سکے اس ماہ میں کر ڈالئے جو کچھ حاصل کر سکتے ہیں اس سے غفلت نہ برتئے۔ روزہدار کی نیند عبادت ہے۔ خاموشی تسبیح ہے۔ اس ماہ میں دعائیں قبول ہوتی ہیں۔ ہر عمل کا ظواب کئی گنا ملتا ہے۔یہ مہینہ صبر کی مشق کراتا ہے۔ امیر کو غریب کے دکھ کا احساس دلاتا ہے۔ مومنین میں قوت ایثار کو ابھارتا ہے اس مہینہ میں روزی زیاد کی جاتی ہے مگر صرف مومنین کی روزی نہ کہ بد عقیدہ و بد عمل افراد کی روزی اس ماہ میں ۳/ تاریخ کو مصحف ابراہیم۔ ۶/ کو توریت ۔ ۱۳ / کو انجیل ۔ ۱۸/ کئ زبور اور شب قدر میں قرآن مجید نازل ہوا ہے۔ اس ماہ کے پہلے دس دن رحمت کے ہیں ورآن مجید نازل ہوا ہے۔ اس ماہ کے پہلے دس رحمت کے ہین۔ دوسرے دس دن مغفرت کے ہیں اور آخری دس دن دعاؤں کے قبول ہونے کے ہیں اور دوزخ کے نجات حاصل کرنے کا زمانہ ہیں۔
اوپر لکھی تمام باتیں ارشاد رسول و ائمہ علیہم السلام کے مطابق لکھی گئی ہیں تاکہ اس ماہ میں جم کر عبادت کرنے ۔ ثواب لوٹنے ، دوزخ سے نجات حاصل کرنے اور دعاؤں کو قبول کرانے کا جزبہ ہر روزہ کے ساتھ بڑھتا جائے۔
source : http://www.islaminurdu.com/chapter.php?chapterID=1742