اردو
Sunday 13th of October 2024
0
نفر 0

صہیونیت، فسطائیت کا دوسرا رخ

فلسطین کا بحران اس وقت سے شروع ہوا جب سے صہیونیوں نے انیس سو اڑتالیس 1984 میں سرزمیں قدس پرقبضہ کیا۔

اسی زمانے سے یہ بحران لوگوں اور حکومتوں خاص طورسے عالم اسلام کی توجہ کا مرکز بناہواہے۔ گرچہ صہیونی ریاست اور اس کے مغربی حامیوں کا کہنا ہے کہ اب فلسطین کا بحران ختم ہوگیا ہے اور اسرائیلی ریاست قائم ہوچکی ہے لیکن ملت فلسطین کی جدوجہد بالخصوص تحریک انتفاضہ اور ملت فلسطین کےحق  میں امت اسلامی کی حمایت اس بات کا باعث ہوئی ہےکہ فلسطین کا مسئلہ عالمی سطح پرزندہ اور عالم اسلام کے اہم ترین مسائل کی حیثیت سے باقی رہے۔ 

رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای مسئلۂ فلسطین کی اہمیت کے بارےمیں فرماتےہیں:

" حقیقت میں آج مسلمانوں کا اور اسلامی ملکوں کا کوئی مسئلہ فلسطین کےبرابر اہم نہیں ہے۔ یہ سب سے بڑی مصیبت ہےجو حالیہ عشروں میں تمام مسلمانوں پرنازل ہوئی ہے"۔

آپ نے فرمایا: "اسلام کے عالمی دشمنوں نے مسلمانوں کی سرزمین کے ایک حصے پرقبضہ کرلیا ہے اور اسے مسلمانوں کی تحریکوں کے مطالبات کا مقابلہ کرنے اور ان کی صفوں پرحملہ کرنے کا مرکز بنالیاہے"۔

چند ہفتے قبل ایک واقعہ ایسا پیش آیا ہے جس سے مسئلہ فلسطین ایک بار پھر اھل عالم کی نظروں میں آگیا ہے۔ یہ واقعہ غزہ کے لئے امداد لے جانے والے کاروان آزادی پرحملہ تھا۔ 

صہیونی فوج کے وحشی کمانڈوز نے اس امدادی کاروان پربین الاقوامی سمندر میں فضا اور سمندر سے حملے کئے اور انیس امدادی کارکنوں کو شہید کردیا جبکہ دسیوں افراد زخمی ہوئے۔ 

رہبرانقلاب اسلامی نے اس واقعے پرپیغام جاری کرتے ہوئے فرمایا ہے: "غزہ کے لئے امدادی کاروان دراصل عالمی رائے عامہ اور ضمیر انسانیت کے نمایندے ہیں"۔ 

آپ نے اسی بناپرکارواں آزادی پرصہیونی فوج کےحملوں کے بارےمیں فرمایا: "اس مجرمانہ حملے سے سب پر واضح ہوگیا ہوگا کہ صہیونیزم فسطائیت کا مزید تشدد پسند نیا چہرہ ہے اور اس بار انسانی حقوق اور آزادی کی دعویدار حکومتیں خاص طور سے اس کی حمایت ومدد امریکہ کررہاہے"۔ 

گذشتہ چند برسوں میں صہیونی ریاست کے ہاتھوں فلسطینی عوام کا قتل عام اور تشدد پسند پالیسیاں ظاہر کرتی ہیں کہ صہیونیت فسطائیت کے سکے کا دوسرا رخ ہے۔ 

اس وقت صہیونی ریاست نے دوسرے ملکوں کے افراد کا قتل عام کیا جن کا گناہ صرف غزہ کے عوام کی مدد کرنا تھا اور یوں اس نے اپنا کریھ چہرہ مزید آشکار کردیا۔

غزہ کا بحران اس وقت شروع ہوا جب تحریک حماس دوہزآر چھےمیں فلسطین کے عام انتخابات میں بھاری مینڈیٹ سے کامیاب ہوئی۔ اسی وقت سے صہیونی ریاست اور اس کے مغربی حامیوں نے حماس پردباو ڈالنا شروع کیا اور جیسا کہ آپ جانتے ہیں غزہ حماس کا مرکز ہے۔ صہیونی ریاست اور اس کے مغربی آقاؤں نے اپنے غیر انسانی اھداف کے تحت آخرکار غزہ پٹی کا شدید محاصرہ کردیا۔ رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای غزہ کے محصور عوام کی افسوسناک حالت کے بارےمیں فرماتےہیں کہ تین برسوں سے پندرہ لاکھ افراد کی آبادی کا محاصرہ کیا گیاہے، یہاں نہ دوائیں لانے کی اجازت ہے نہ غذائی اشیاء لانے دی جاتی ہیں ان کے پینے کے پانی کی سپلائی میں رکاوٹیں کھڑی کی جاتی ہیں، بجلی کی سپلائی مختل کی جاتی ہے، جنگ کی تباہیوں کو مٹانے کے لئے ضروری سیمنٹ اور تعمیراتی سازوسامان کی ترسیل میں بھی خلل ڈالا جاتاہے۔ آپ نےصہیونی ریاست کی اس حرکت کو وحشیانہ اور شقاوت آمیز قراردیا اور کہا کہ بڑے افسوس کی بات ہےکہ بعض عرب حکومتیں بھی اس کا ساتھ دے رہی ہیں۔

صہیونی ریاست نے دوہزآر آٹھ کے آخری دنوں میں غزہ پربائیس روزہ جارحیت شروع کی تھی لیکن فلسطینی مجاھدین نے ڈٹ کرصہیونی فوج کا مقابلہ کیا۔ اور آخر کار بائیس روزبعد صہیونی ریاست کو کسی کامیابی کےبغیر یہ جنگ ختم کرنی پڑی۔ رہبر انقلاب اسلامی نے بائیس روزہ جارحیت کے دوران غزہ کے عوام کی دلیرانہ استقامت کےبارےمیں فرمایا ہےکہ حق و انصاف یہ ہےکہ فلسطین اور غزہ کے عوام نے تاریخ میں پائدارترین قوم کی حیثیت سے اپنا نام ثبت کردیاہے۔ آپ فرماتےہیں کہ غزہ کا مسئلہ کسی زمین کے ایک ٹکڑے کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ انسانیت اور انسانی اصولوں پر،مل اور ان کی مخالفت کرنے کا معیار ہے۔ رہبر انقلاب اسلامی نے اپنے پیغام میں فلسطین کی قانونی حکومت کے وزیر اعظم اسماعیل ہنیہ کو مخاطب کرکے کہا کہ اب تک آپ کے جہاد نے امریکہ اور صہیونی ریاست اور اسکے حامیوں کو نیز اقوام متحدہ اور امت اسلامی میں موجود منافقوں کو رسوا کردیاہے ۔ امت اسلامی کےمنافقین سے آپ کی مراد بعض عرب حکومتیں ہیں جو فلسطینوں کی حمایت کا دکھاوا کرنے کے ساتھ ساتھ فلسطین کے ساتھ خیانت کرتی ہیں یہانتک کہ فلسطینی عوام پرمظالم ڈھانے میں صہیونی ریاست کا ساتھ بھی دیتی ہیں۔

رہبرانقلاب اسلامی نے کاروان آزادی پرصہیونی ریاست کے حملوں کے بعد اپنے پیغام میں فرمایا ہےکہ صہیونی ریاست کا یہ اقدام اس کی بوکھلاہٹ اور پریشانی کی علامت ہے۔ آپ نے حال ہی میں تہران میں نماز جمعہ کے خطبوں میں اس مسئلے پرروشنی ڈالتےہوئے فرمایا کہ صہیونی ریاست نے کھلے سمندر میں امدادی کارواں پرحملہ کیوں کیا، ان کا قتل عام کیوں کیا؟ اور ایک بڑی تعداد کو قید کیوں کیا؟ اس وجہ سے کہ صہیونی ریاست کی ماہیت میں وحشی پن ہے۔ یہ وہی چیز ہے جس پراسلامی جہموریہ ایران تیس برسوں سے تاکید کررہا ہے لیکن مغرب جوکہ دوغلہ اور جھوٹا اور ریا کار ہے اسے نظرانداز کررہا ہے، آج دنیا نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا کہ یہ لوگ کس قدر وحشی ہیں۔

رہبرانقلاب اسلامی نے کاروان آزادی پرصہیونی ریاست کے حملوں کی وجوہات کا تجزیہ پیش کرتےہوئے ایک اور اہم نکتے کی طرف اشارہ کیا ہے۔ آپ فرماتےہیں کہ سنت الھی یہ ہےکہ ستمگر( صہیونی ) اپنے شرمناک دورکے آخر میں اپنے ہی ہاتھوں سے اپنے حتمی زوال و فناکے قریب پہنچتے جائیں گے ۔ لبنان پرحملہ اور اس کے بعد غزہ پرحملہ ان ہی جنونی اقدامات میں سے ہیں جنہوں نے صہیونی دہشتگردوں کرحتمی زوال سے قریب کردیاہے اور مڈیٹرینین سمندر میں بین الاقوامی امدادی کارواں پرحملہ بھی اسی طرح کا احمقانہ اقدام ہے۔

غزہ امدادی کارواں پرحملہ اور امدادی کارکنوں کے قتل عام کے واقعے پر قوموں اور بہت سے ملکوں نے شدید رد عمل ظاہرکیا جس سے معلوم ہوتاہےکہ اس واقعے کی وجہ سے صہیونی ریاست کی وحشیانہ ماہیت پہلے سے زیادہ آشکار ہوگئی ہے ۔

رہبرانقلاب اسلامی نے اس بات پربھی تاکید کی ہےکہ غزہ کے لئے امدادی کاروانوں کا سلسلہ جاری رہنا چاہیے۔ آپ فرماتےہیں کہ غزہ کے لئے امدادی کاروانوں کے بھیجے جانے کا علامتی اور درخشان کام مختلف صورتوں اور طریقوں سے جاری رہنا چاہیے اور یہ کام بار بار کیا جائے۔ سفاک صہیونی ریاست اور اس کے حامی بالخصوص امریکہ اور برطانیہ اپنے مقابل انسانیت کے ضمیر کی ناقابل تسخیر طاقت کو دیکھیں اور احساس کریں۔

اس وقت ایران سمیت بہت سے ملکوں نے غزہ کے لئے امدادی کارواں بھیجنے پرآمادگی ظاہرکی ہے اور اس کےنتیجے میں صہیونی ریاست کے خلاف وسیع پیمانے پر قوموں کی آواز سنائی دینے لگی۔ غزہ کے لئے کارواں آزادی پرصہیونی جارحیت کے بعد ایک اور امدادی کاروان غزہ کے لئےروانہ ہوا لیکن غزہ کے قریب صہیونی ریاست نے اس امدادی کارواں کو بھی ضبط کرلیا۔

رہبر انقلاب اسلامی نے ہمیشہ تاکید فرمائی ہےکہ فلسطین کی آزادی کا واحد راستہ صہیونی جارحین کے مقابل استقامت ہے۔ لبنان اور فلسطین میں اس استقامت کے مفید نتائج برامد ہوئےہیں اور اس سے ظاہرہواہےکہ صہیونی ریاست کو اب نقصان پہنچ سکتاہے۔ آپ فرماتے ہیں کہ راہ قدس، راہ فلسطین، راہ نجات فلسطین و مسئلہ فلسطین کا حل استقامت کے بغیر حاصل نہیں ہوسکتا۔ رہبر انقلاب اسلامی مسلمانوں کو فلسطین کی مدد کرنے کی دعوت دیتےہوئے فرماتےہیں کہ فلسطین کے اسلامی قیام کا دفاع، واجب عینی اور دفاعی جہاد کے واضح ترین مصادیق میں سےہے جس پرتمام فقہاء تاکید کرتےہیں۔ آپ فرماتےہیں کہ فلسطینی عوام کی مدد کرنا تمام آزاد ضمیر انسانوں کی ذمہ داری ہے۔ آپ فرماتےہیں کہ تمام قوموں پر فلسطین کے تعلق سے ذمہ داری عائد ہوتی ہے، تمام حکومتوں پرذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ خواہ مسلمان ہوں یا غیر مسلمان، ہروہ حکومت جو انسانیت کی حمایت کا دعوی کرتی ہے اس پرذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ البتہ مسلمانوں کی ذمہ داری زیادہ سنگین ہے ۔

رہبرانقلاب اسلامی کی نگاہ میں خدا پرتوکل کرنا ملت فلسطین کی کامیابی اور رہائی کا ضامن ہے البتہ مجموعی طورسے ہر جدوجہد میں کامیابی کا ضامن ہے ۔گذشتہ دھائیوں میں انقلاب اسلامی کی کامیابی اور ترقی ، لبنان میں حزب اللہ کی کامیابیاں اور فلسطینی عوام کی انتفاضہ تحریک، جدوجھد میں خدا پر بھروسہ کرنے کے تین کامیاب نمونے ہیں۔

رہبرانقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای فلسطین کی تحریک انتفاضہ کےبارےمیں فرماتےہیں ان برسوں کے دوران جب تحریک انتفاضہ شروع ہوئی اور حقیقی مزاحمت کا آغاز ہوا فلسطینیوں پرجوکچھ گذرا وہ کوئی عجیب بات نہیں ہے یہ خدا کی ھدایت اور دستگیری کےعلاوہ کچھ نہیں ہے ۔ انسان جب یہ دیکھتاہےکہ غزہ میں اس قدر مصیبتیں اس قدر تلخیاں ، اس قد دباو خواہ وہ بائیس روزہ جارحیت کے دوران رہاہو یاپھر اس کےبعد غزہ کے عوام پرآج تک جاری مصائب ہوں، ان مصائب کے باوجود غزہ کے عوام پہاڑ کی طرح ڈٹے ہیں، یہ ایک عظیم حقیقت ہے اس کو ہرگز نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ رہبرانقلاب اسلامی نے ان غیبی امدادوں کےپیش نظر فلسطینیوں کو روشن مستقبل کی بشارت دی ہے۔ آپ فرماتےہیں فلسطینی بھائیوں اور بہنوں خدائے قادر وحکیم پراعتماد کریں، اپنی طاقت پرباور کریں اور اس میں اضافہ کریں اور حتمی کامیابی پریقین رکھیں۔


source : http://www.abna.ir/data.asp?lang=6&Id=196424
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

عصر بعثت اور الله پر ایمان و اعتقاد
عظیم مسلمان سا‏ئنسدان " ابو علی سینا "
مثالی معاشرے کی اہم خصوصیات۔
امام خمینی (رہ)کی قرآن سے انسیت کے بعض نمونے
شیعہ شرک سے دوری کرتا ہے
اسلام ، ملیشیا میں
قرآن جلانے کے منصوبے کی وسیع پیمانے پر مذمت
گناھوں سے آلودہ معاشرہ
اسلامی اتحاد اور یکجہتی کی فکر
کربلا اور اصلاح معاشرہ

 
user comment