البوصيري کہتے ہيں :زبور ميں خداوند عالم حضرت داؤدعلیہ السلام سے ارشادفرماتا ہے :تمھارے ايک ايسا بچہ پيدا ہوگا کہ مجھے اس کا باپ اور اس کو ميرا بيٹا کہا جائے گا.
حضرت داؤد علیہ السلام نے عرض کيا :خدايا!سنت پر عمل کرنے والے کو مبعوث فرما تا کہ سب لو گ يہ جان ليں کہ وہ انسانوں کي جنس سے ہے [١]حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ان کي امت کے لئے جو عظيم اجرو ثواب کے لئے روايت ہے اور اس شريعت کي عظمت و شرافت کے سلسلے میں جس کے متعلق خدا نے وحي کي يوں وارد ہے :حضرت داؤد علیہ السلام نے کہا :پروردگارا!حضرت محمدصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کي امت کا کوئي شخص قرباني کرے تو اسے کيا ثواب ملے گا؟ خدا نے فرمايا:اس کا ثواب يہ ہے کہ اس قرباني کے ہر بال کے برابر ميں اس کے لئے دس (١٠) نيکيا ں لکھي جائيں گي،دس(١٠) گناہ مٹائے جائيں گے اور اس کے دس (١٠)درجے بلند کئے جائيں گے .اس کے بعد کہا :جو شخص قرباني کا شکم پارہ کرے گا تو اسے کيا ثواب ملے گا :فرمايا:اس کا ثواب يہ ہوگا کہ جب اس کي قبر شگافتہ ہوگي تو خدا اسے ايسي حالت ميں قبر سے باہر نکالے گا کہ وہ قيامت کي بھوک پياس اور خوف و ہول و ہراس سے اما ن میں ہوگا۔اے داؤد!اس قرباني کے ہر گوشت کے ٹکڑے کے بدلے ميں اسے جنت ميں ايسا پرندہ ملے گا جس کے ہر بازو پر جنتي سواريو ں ميں سے ايک سواري ہوگي اور اس کے بدن کے ہر پر کے اوپر جنتي محل ہوگا اور اس کے سر کے ہر بال کے اوپر ايک حور ہوگي ۔اے داؤد!کيا تم جانتے ہو کہ يہ قربانياں چوپائے ہيں اور قربانياں تمام گناہوں کو پاک کرديتي ہيں اور ساري بلاؤ ں کو دور کرديتي ہیں؟پس تم کثرت کے ساتھ قرباني کرو کيونکہ قربانياں مومن کے لئے فديہ بنتي ہيں اور وہ اسحاق کي قرباني کا بدلہ ہیں.[٢]
بعض احاديث ميں يہ ذکر ہے کہ زبور ميں حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے يہ نام ہيں:الماحي يہ نام ’’صحف ابراہيم‘‘ ميں بھي آيا ہے کيونکہ ابن بابويہ قمي نے اپنی سند کے ذريعہ ابوجعفر محمد بن علي باقر عليہما السلام سے روايت کي ہے :صحف ابراہيم ميں جناب رسول خداصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نام الماحي ہے ،توريت ميں الحاد،انجيل ميں احمد اور فرقان(قرآن )ميں محمدہے .آپ سے پوچھا گيا ہے :الماحي کے کيا معني ہيں:فرمايا:تصويريں اور بتوں کو مٹانے والے ،نیز دور جاہليت ميں قسمت کو آزمانے والے تيروں اور خدا ئے رحمن کے علاوہ تمام معبودوں کو مٹانے والے .پوچھا گيا :الحاد کے کيا معني ہيں؟فرمايا:دور يا نزديک کا جو شخص خدا اور اس کے دين سے دشمنی کرے گا آپ بھي اس سے دشمنی کريں گے. پوچھاگيا : احمد کے کيا معني ہيں؟ فرمايا:جس کي بہت زيادہ تعريف کي گئي ہو کيونکہ خدا نے قرآن ميں آپ کے پسنديدہ امور کي تعريف کي ہے .پوچھا گيا:محمد(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے کيا معني ہيں؟ فرمايا:خداوند عالم اس کے سارے فرشتے ،تمام انبيا ء اور تمام امتيں آپ کي تعريف کرتي ہيں اور آپ پر صلوات بھيجتي ہيں ،عرش الٰہي پر آپ کا نام اس طرح لکھا ہوا ہے :محمد رسول اللہ صلي اللہ عليہ و آلہ وسلَّم...[١]
يہ معلوم ہونا چاہئے کہ ''عہد قديم'' ميں جو زبور موجود ہے علمائے اسلام نے اس کے ساتھ دو قسم کے رويے اختيار کئے ہيں:
اَوّل:عربي ترجموں پر اعتماد کيا جن ميں محمد يا محمود يا ان دونوں کے مشتقات وارد ہيں [١]منجملہ وہ پيشين گوئياں جن کا ذکر مزا مير نمبر ٤٨[٢]۵۰ [۳ ]۷۲ [۴ ]اور ۹ ۴ ۱ [۵ ]میں ہے۔
دوم : متون کي تاوي ل و تفسير اس طرح سے بيان کي گئي ہے جس کے معني يہ ہيں کہ حضرت محمدصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کي نبوت کي بشارت دي گئي ہے اور کچھ ايسے صفات کي طرف اشارہ کيا گيا ہے جو صرف آپ ہي سے مخصوص ہيں[٦]نيز آپ کي امت کي فضيلت کا بھي تذکرہ ہے منجملہ مز امير ميں چند پيشين گوئياں ہيں :نمبر ٢[١]٨[٢]٤٥[٣]١١٠[٤]١٥٢[٥]جب ہم اس زبور کے اس قلمی نسخے کو ديکھتے ہيں جو اس وقت ہمارے پاس ہے تو دو(۲)مقامات پر سرو ر کائنات حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کي طرف اشارہ ملتا ہے :
پہلا اشارہ :بڑي صراحت کے ساتھ دوسرے سورہ ميں ہے :خداوند تبارک و تعاليٰ نے فرمايا :ميں نے خود اپنے لئے گواہي دي ہے کہ ميرے علاوہ کوئي دوسراپروردگار نہيں ہے ميں تنہا ہوں ميرا کوئي شريک نہيں ہے اور محمد(ص) ميرے بندے ہيں.
دوسرا اشارہ :يہ تلويحي(اورضمني)ہے يہ قرآن کريم کي آيت سے اقتباس کي صورت ميں ہے يعني :اِنَّمَا المُوْمِنُوْنَ الَّذِيْنَ آمَنُوا بِاللّٰہِ و رَسُوْلِہ.(سورۂ نور :آيت ٦٢۔سورۂ حجرات :آيت ١٥)
يہ وصيت اپنے قرآني سياق ميں بڑي صراحت کے ساتھ آشکارا طور پر دلالت کرتي ہے کہ ’’رسول ‘‘سے مراد وہي حضرت محمدصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہيں ليکن جب اقتباس کي صورت ميں آتي ہے اور ’’زبور‘‘ ميں دوسرے سيا ق ميں قرار پاتي ہے تو ’’رسول‘‘ سے مراد کيا ہے بات مبہم ہوجاتي ہے ہو سکتا ہے کہ اس سے مراد حضرت داؤد علیہ السلام ہوں يا حضرت محمدصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہوں يا عام انبياء ہوں کيونکہ اس پر جو ’’لام تعريف‘‘داخل ہے وہ شمول جنس کے لئے ہے ۔بنابریں اگر يہ کہا جائے کہ حضرت داؤد علیہ السلام پيغمبر توتھے رسول نہ تھے جيسا کہ فرشتہ ان کے پاس آيا تو صراحت سے فرمايا:اس ذات کي قسم جس نے مجھے پيغمبر بنايا ہے .[١]اور خود اپنے بارے ميں فرمايا:ميں داؤد ہوں خدا کا پيغمبر ہوں ۔[٢]اور ان کے فرزند حضرت سليمان علیہ السلام نے بھي انھيں خطاب کرتے ہوئے یوں فرمايا:یہ بات خدا کے پيغمبر سے پوچھنا چاہئے کہ ان کے اوپر کيا گزري ہے .[٣]اس کے علاوہ علمائے اسلام نے بھي آپ کو پيغمبر بتايا ہے ۔[٤]پس ہم اس بات کو ترجيح ديتے ہيں کہ زبور ميں جو آيت وارد ہوئي ہے اس ميں ’’رسول سے ‘‘ مراد حضرت محمد ہيں کيونکہ آپ ايک ساتھ دو(۲)الٰہي عہدوں پر فائز تھے :نبي بھي تھے اور رسول بھي .
جواب يہ ہے کہ کچھ علماءایسے بھي ہيں جو حضرت داؤدعلیہ السلام کو خدا کا رسول تسليم کرتے ہيں منجملہ يہ دو(۲)علماء آپ کو خدا کا رسول مانتے ہيں:ابن کثير(تفسير القرآن العظيم ،جلد ٧،ص ٣٥)اور ابن حزم (الفصل في الملل والاھواء والنحل،جلد ٤ ،ص ٤٠)اگر يہ کہا جائے کہ جو لوگ اس رسالت کے قائل ہيں ان کي نظر ميں نبوت اس کے مترادف ہے [٥]تو ابن حزم نے رسالت کي جو تعريف کي ہے اور ان کو جو پيغمبر بلکہ اس سے بھي بڑھا کر [٦]بتايا ہے تو اس اعتراض کا جواب اس تعريف کے ذريعہ ديا جاسکتا ہے ۔البتہ پھر ايک سوال يہ باقي رہ جائے گا کہ کيا حضرت داؤد علیہ السلام پر رسالت کے اوصاف منطبق ہوتے ہيں؟ اس سلسلہ ميں قاضي عياض کا نظريہ، يہ ہے کہ نبوت و رسالت ميں فرق يہ ہے کہ رسالت ميں نبوت کے علاوہ ڈرانے کي بھي ذمہ داري ہوتي ہے۔[١]اور حکیم ترمذی نے نبي اور رسول کے درميا ن جو اہم فرق ہيں انھيں يوں بيان کيا ہے :
١۔ رسول :نبوت کا دعويٰ کرتاہے وہ کچھ لوگوں کے لئے مبعوث کيا جاتا ہے وہ رسالت کا منصب دار ہوتا ہے ،رسول صاحب شريعت ہوتا ہے اور خدا اسے شريعت کا منصب ديتاہے وہ اپني قوم کو اس کي دعوت ديتا ہے .
٢۔ نبي :نبوت کا دعويٰ کرتا ہے ليکن کسي کے لئے مبعوث نہيں کيا جاتا اگر اس سے سوال کيا جائے تو خبر دے گا وہ مخلوق کو خدا کي طرف دعوت ديتا ہے وہ اس پيغمبر کي شريعت کےتابع ہوتا ہے جو اس سے پہلے تھا يا اسي کے زمانہ ميں موجود ہوتا ہے وہ مخلوق کو اس شريعت کي دعوت ديتا ہے جسے رسول لے کر آيا ہے [٢]بنابرايں نبوت اور رسالت کے درميان سب سے اہم فرق دو(۲) نکتو ں ميں ہے :
اس کے پاس رسالت کا عہدہ ہوتا ہے در حقيقت و ہ لوگوں کو عذاب سے ڈراتا ہے اور اس کا اعلان کرتا ہے .
رسول کي خود اپنی شريعت ہوتي ہے .[٣]
قصص الانبياء جيسي کتابوں کے مطالعہ کے بعد يہ اندازہ ہوتا ہے کہ تمام مولفين نے حضرت داؤد علیہ السلام کے لئے رسالت کو تسليم کيا ہے اس سے وہ دعويٰ کمزور ثابت ہوتا ہے جس ميں يہ کہا گيا ہے کہ آپ صرف نبي تھے رسول نہ تھے البتہ اس سے اہم نکتہ يہ ہے کہ قرآن ميں (جيسا کہ ہم عنقريب ہي بيان کريں گے )ايسے بہت سے موارد ہيں جن سے آپ کي يہ خصوصيت ثابت ہوتي ہے ۔ايک مشہور قاعدہ ہے :عدم الووجود لايدل علي عدم الوجدان، اس کو دليل بناکر ہم کہتے ہيں:اگر آپ کو کوئي رسول نہ بتائے تو آپ کے رسول نہ ہونے پر کوئي دليل نہيں بن سکتي .
قرآن حضرت داؤد علیہ السلام کي صفات بیان کرتےہوئے کھ رہاہے کہ آپ کو فرزانگي عطا کي گئي بہر حال يہ ايک ايسي صفت ہے جس سے تمام ابنياء اور رسل برابر برابر بہرہ مند تھے تو پھر اس صورت ميں کسي نبي کو رسالت کے عنوان سے ترجيح دينا ترجيح بلا مرجح ہوگا.
اس کے علا وہ مذ کو رہ آيت[١]کے معني ميں سياق اصلي سے دو سرے سيا ق کي طر ف انتقا ل کر نے کے بعد احتما ل دينا اس کے استد لالي پہلو کو کمزور وضعيف کر تا ہے کيو نکہ جب کسي دليل ميں احتمال پيدا ہو جا تا ہے تو پھر اس سے استدلال نہيں کيا جا سکتا اور جب تفسير و تا ويل متعدد ہوں تو ايک قطعي دليل کي طرح اس پر اعتما د نہيں کيا جا سکتا ہے۔
اب پھر ہم اصل موضوع کي طرف آ ر ہے ہيں:جس کتا ب کے بارے ميں يہ دعويٰ ہے کہ وہ آسما ني ہے کيا اس کے صحيح ہو نے کے سلسلے ميں صرف يہي کا في ہے کہ اس ميں حضرت محمدصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کي رسا لت کي بشا رت ہے؟ اور آپ کي امت کي فضيلت ہے؟ کيا واقعاً محققين اور علما ئے اسلام کي نظر ميں احاديث کے صحيح يا غلط ہو نے کے سلسلے میں يہي معيا ر کافي ہے؟
جو شخص اسلا می کتب و متون سے واقف ہوگا وہ يہ سمجھ جا ئے گا کہ مذ کو رہ اخبا ر وروايات کے صحيح ہو نے کا حکم لگا نے کے لئےقطعاً يہ معيا ر کا في نہيں ہے اور اس کي دليل وہ واضح اور شفاف و ٹھوس قوا عد ہيں جو اخبا ر وروايات کی جانچ پڑتال کر نے کے لئے اس فن کي کتا بوں ميں بيا ن کئے گئے ہيں کہ کس طرح سے صحيح اور غلط روا يا ت کے در ميا ن تميز دي جا تي ہے۔
اگر چہ ہميں افسو س کے سا تھ يہ کہنا پڑ رہا ہے کہ ہما ری بہت سی اسلا مي کتابوں ميں تنقیدي نظر يا ت بہت کم ديکھنے کو ملتے ہيں چو نکہ وہ لو گ حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عا شق ہو تے ہيں ان کے سلسلے ميں بشارت سن کر علمي تنقید و تبصر ہ نہيں کر تے ہيں وہ لوگ اس طرح کے مطا لب کو با لکل مسلم سمجھتے ہيں اور انھيں صحيح سمجھ کر انپے نظر يا ت پر دلیل قائم کرتے ہيں۔
ہم ابھي’’انجيل برنابا‘‘کي داستا ن کو فرامو ش نہيں کرپائے ہيں کيو نکہ جب مورخ’’خليل سعادہ‘‘نے اس کا تر جمہ عر بي ميں کيا تو بہت سے اسلا مي مفکرين نے انتقا دي نظر يہ کے بغير بڑے ہي تعجب و شو ق سے تسليم کر ليا اور يقين کے سا تھ يہ اعلان بھي کر ديا کہ يہ وہي انجيل ہے جو صحيح اور تحريف سے پا ک صاف ہے۔[١]ان لوگوں کي دليل صرف يہ تھي کہ اس ميں حضرت رسو ل اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے با رے ميں بہت سي بشا رتيں تھيں۔[٢]اور وہ بہت سے اسلا مي عقا ئد کے مطابق بھي تھيں، منجملہ خدا کي ذات منزہ ہے اور اس کے صفات تشبيہ وتبديلي سے منزہ ہيں، نہ خدا کے کو ئي او لاد ہے اورنہ وہ کسي کي او لادہےاور اس کا کو ئي مثل ونظير نہيں ہے ۔[٣]
مردار اور سور کاگو شت کھا نا حرا م ہے[٤]شراب نوشي حرام ہے[٥]قر با ني ہو نے وا لے اسما عيل ہيں[٦]جب کہ يہ بات يہودي و مسيحي نظر يہ کے خلا ف ہے کيو نکہ يہ لوگ’’اسحاق ‘‘کو قر با ني ہو نے وا لا جا نتے ہيں[٧]اس لحاظ سے يہ بات اسلا مي نظر يہ کے موا فق نہيں ہے کيو نکہ حضرت عيسيٰ علیہ السلام کو سو لي پر لٹکايا گيا[٨]ليکن سو لي نہيں دي جاسکي[٩]جسے سو لي دي گئي وہ’’يہودا اسخر يوطي‘‘تھا وہ ايک خا ئن تھا[١]حضرت عيسيٰ علیہ السلام خدا کے نبي ہيں خدا نہيں ہيں وہ خدا کے بيٹے بھي نہيں ہيں[٢]اور اس کے علاوہ اس انجيل ميں کچھ ايسي دا ستا نيں ہيں جن کا تعلق حضرت رسو ل اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کي حيات طيبہ سے ہے۔[٣]ان امور کے علا وہ کچھ توحيدي مسائل بھي ہيں جن کا ذکر قرآن مجيد ميں بھي مجازي واستعا ري طور پر ہے۔[١]اسي طرح حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جو بعض بہتر ين کلما ت ہيں ان کے بھي موافق ہے[٢]وہ موارد جو’’انجيل بر نابا‘‘ميں ہيں ان سے مسلمان محققين کي آ نکھيں خیرہ ہوگئيں پڑ ھنے وا لے اس قدر وجد ميں آ گئے کہ اسي کتا ب کے اندر دوسرے مطا لب و مسائل کو نہ ديکھ سکے۔ ہم نے جو مطالب بيا ن کئے ہيں ان کے پيش نظر يہ انجيل تحر يف شدہ اور جھوٹي ہے اور حقيقت بھي يہي ہے کہ بعض اسلا مي حقائق کاکسي غير اسلا مي متن کے اندر مو جو د ہو نا اس با ت پر دليل نہيں بن سکتا کہ وہ متن حق و صحيح ہے اور تحر يف سے بھی پا ک ہے۔
قرآن مجيد ميں با لکل صراحت کے سا تھ خصوصي طو ر پر اصحاب حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کي فضيلت اور عمو مي طو ر پر آسما ني کتا بوں ميں آپ کي امت کي فضيلت بيا ن کي گئي ہے چنا نچہ مندر جہ ذيل آ يت ميں غو ر کر نے سے يہي سمجھ ميں آتا ہے:
مُحَمَّد رَّسُولُ اللّٰہِ وَالَّذِيْنَ مَعَہ اَشِدَّآءُ عَلَي الْکُفارِ رُحَمَآء ُ بَيْنَھُمْ تَرَاھُمْ رُکَّعاً سُجَّداً يَبْتَغُوْنَ فَضْلاً مِّنَ اللّٰہِ وَرِضْوَاناً سِيْمَاھُمْ فِي وُجُوھِھِمْ مِنْ اَثَرِ السُّجُودِ ذٰلِکَ مَثَلُھُمْ فِي التَّورَاۃِ وَ مَثَلُھُمْ فِي الْاِنْجِيْلِ کَزَرْعٍ اَخْرَجَ شَطْئَہ فَآزَرَہ فَاسْتَغْلَظَ فَاْسَتَوٰي عَلٰي سُوقِہ يُعْجِبُ الزُّرَّاعَ لِيَغِيْظَ بِھِمُ الْکُفَّارَ:محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خدا کے رسو ل ہيں اور جو لو گ ان کے سا تھ ہيں کا فروں پر بڑے سخت اور آپس ميں رحم دل ہيں تو ان کو ديکھے گا( کہ خدا کے سا منے)جھکے سر بسجو د ہيں خدا کے فضل اور اس کي خوشنودي کے خواستگا ر ہيں کثرت سجو د کے اثر سے ان کي پيشا نيوں ميں گھٹے پڑے ہو ئے ہيں يہي اوصا ف ا ن کے توريت ميں بھي ہيں اور يہي حالات انجيل ميں (بھي مذ کور)ہيں وہ گو يا ايک کھيتي ہيں جس نے(پہلے زمين سے)اپني سوئي نکا لي پھر (اجزا ئے زمين کو غذا بنا کر)اسي سو ئي کو مضبو ط کيا تو وہ موٹي ہو ئي پھر اپني جڑ پر سيدھي کھڑي ہو گئي اور اپني تا زگي سے کسا نوں کو خو ش کرنے لگي (اور جلد تر قي اس لئے دي )تا کہ ا ن کے ذ ريعہ کا فرو ں کا جي جلا ئے۔(فتح:٢٩)
ہما رے پا س زبور کا جو نسخہ ہے اس ميں امت کی فضيلت کا ذکر ہونا يا نہ ہو نا ممکن ہے کہ اس کے صحيح يا غلط ہونے پر اسے معيار قرار ديا جاسکتاہے ،کيا يہ مطلب اس زبورميں آيا ہے؟
اس کا کوئي ذکرنہیں ہے مگر يہ کہ چو دہويں سو رہ ميں ہے:’’بہتر ين چيز جو دل کے اندر را سخ ہو تي ہے وہ يقين ہے۔‘‘
نيز ايک حديث شر يف نبو ي ہے جس کي روا يت حکيم ترمذي نے کي ہے:’’ميں نے اپني امت کو ايسا يقين عطا کيا ہے جو کسي دو سري امت کو نہيں ديا گيا ہے۔‘‘[١]ان دونوں سے يہ نتيجہ نکالاجاسکتا ہے کہ يقين کا بہتر ين ہو نا امتي(امت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )کے بہتر ین ہو نے پر حکايت کر تا ہے جسے يہ يقين ديا گيا ہے ليکن يہ تا ويل بہت بعيد ہے لہٰذا مذ کورہ امت کي فضيلت پر نہ تو دليل بن سکتي ہے اور نہ شا ہد۔
اس زبو ر ميں جو مطا لب، احا ديث کے خلا ف ہيں ان ميں سے ايک مطلب يہ ہے کہ اس کو جمع کر نے وا لے شخص نے تمام سوروں کو’’بسم اللہ‘‘سے شرو ع کيا ہے ليکن الطيراني نے کتا ب الاوائل ميں ابن عبا س سے روا يت کي ہے کہ سب سے پہلے جس نے بسم اللہ الرحمن الرحيم کو لکھا وہ حضرت سليما ن علیہ السلام تھے۔[١]
يہ حديث ان دو(۲)حديثوں کے منا في ہے جنھيں خو د طيرا ني ہي نے اسي کتا ب ميں نقل کيا ہے وہ دونوں حديثيں يہ بتا تي ہيں کہ سب سے پہلے بسم اللہ تو ريت يا قرآ ن ميں نا زل ہو ئي ہے۔
پہلي حديث کو ابن جرير نے ابن عباس سے اور’’واحدي‘‘نے عکرمہ و حسن سے نقل کيا ہے:قرآ ن کي سب سے پہلي آيت جو نا زل ہو ئي وہ بسم اللہ الرحمن الرحيم تھي۔[٢]اور دو سري حديث کعب الاحبار سے منقو ل ہے:تو ريت ميں سب سے پہلي چيز جونا زل ہو ئي وہ يہ آ يت تھي:بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحمٰنِ الرَّحِيْمِ، قُلْ تَعَالَوا اَتْلُ مَاحَرَّمَ رَبُّکُمْ عَلَيْکُمْ:خدا کے نا م سے جو رحمن ورحيم ہے...کہہ دو کہ آؤ تا کہ خدا نے تم پر جو چيزيں حرا م کي ہيں ميں انھيں تمھارے لئے پڑھوں[اور ان کي خبر دوں]۔(انعام:١٥١)پس اگر ان دونوں حديثوں يعني حديث موسيٰ علیہ السلام اور حديث سليما ن علیہ السلام کے در ميا ن جمع کيا جا سکتا ہے اور دونوں کو تسليم کيا جا سکتا ہے وہ اس طرح کہ حضرت داؤد علیہ السلام کو شفا ہي او لو يت[بيا ن بسم اللہ]حاصل تھي اور حضرت سليما ن علیہ السلام کو کتا بي اولويت حاصل تھي تب بھي اس سے يہ اندازہ ہو گا کہ حضرت داؤدعلیہ السلام نے زبو ر کے اندر بسم اللہ الرحمن الرحيم کو نہيں لکھا ہے۔
الطيراني نے ابو مو سيٰ سے اور انھوں نے حضرت رسو ل اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روا يت کي ہے:سب سے پہلے حضرت داؤدعلیہ السلام نے’’اما بعد‘‘ کہا جس کے معني ہيں کلام کا اگلا حصہ۔[٣]يہاں پر ايک سوا ل اور اعتراض يہ پيدا ہو تا ہے کہ اگر’’اما بعد‘‘کي اس قدر اہميت ہے تو کيوں اس زبو رميں نہيں ہے جو ہما رے پا س مو جو د ہے؟!
اسي طرح بہت سي نصيحتيں اور حکمتيں نيز بہترين کلمات جو اسلام کي حديثي ميراث ميں مو جو د ہيں ہما رے پا س دليليں موجود ہيں کہ وہ تو ريت سے ماخوذ ہيں ليکن زبو ر کا جو نسخہ ہما رے پا س مو جو د ہے اس کو جمع کر نے وا لے شخص نے انھيں زبور ميں شمار کيا ہے منجملہ سب سے پہلا سو رہ جس کے با رے ميں ’’عبدبن حميد‘‘و"ابن مر دويہ‘‘او’ابن عساکرنے جناب ابوذر سے روا يت کي ہے کہ يہ ساري با تيں’’صحف موسيٰ‘‘ميں تھيں۔[١]
دوسرے سورہ ميں وارد ہے:جو شخص دنيا کے با رے ميں غم کرے گا وہ خدا سے بہت زيادہ فاصلہ اختيا ر کرے گا گويا ميرے او پر غصہ ہو گا اور جو شخص کسي مصيبت کے نا زل ہو نے سے شکا يت کرے اس نے ميري شکا يت کي اور جو شخص کسي مالدا ر کے پا س جا ئے اس کے ما ل کي وجہ سے تواضع کرے تواس کا ايک تہا ئي دين بر با د ہو جا ئے گا۔
يہ ساري با تيں توريت کي ہيں زبور کي نہيں ہيں احمد نے الزہد ميں اور بيہقي نے وہب بن منیہ سے روا يت کي ہے:اس نے تو ريت ميں ديکھا کہ يہ چا ر(٤)سطر يں( بغير فاصلے کے)لکھي ہو ئي ہيں:
۔جس نے کسي مصيبت کا شکوہ کيا اس نے اپنے خدا کا شکو ہ کيا۔
جس نے کسي ما لدا ر کے سا منے تواضع کيا اس کا ايک تہا ئي دين بر با د ہو گيا۔
جو شخص ان چيزوں کے با رے ميں غمگين ہوا جو دو سروں کے پا س ہيں تو گو يا وہ خدا کي قضا سے غصہ ہوا۔
جس نے خدا کي کتا ب کو پڑھا اور اس کا گما ن يہ ر ہا کہ وہ بخشا نہيں جا ئے گا تو اس نے آيا ت الٰہي کا مذاق اڑايا۔ (الدرالمنثور:ج٤،ص٦٠)
اٹھارہويں سو رہ ميں ہے:اے آدم کي اولاد!ميري عبا دت کر ميں تيرے دل کو دولت سے سر شا ر کر دوں گا تمھيں روزي عطا کروں گا تمھا رے جسم کو چين و سکو ن بخشوں گا اور اگر تم ميري يا د سے غا فل ہو گئے تو تيرے دل کو فقر سے بھر دوں گا تيرے ہا تھ کو خستہ اورتيرے سينہ کو درد و غم سے بھر دوں گا۔ يہ ساري با تيں اسلا م کي حديثي ميراث کے لحاظ سے تو ريت کي ہيں زبو ر کي نہيں ہيں،احمد اور ابونعيم نے خيثمہ سے روايت کي ہے کہ تو ريت ميں لکھا ہوا ہے:اے فر زند آدم!تم ميري عبادت کروتو تمھا رے دل کو ثروت سے بھر دوں گا تمھار غربت کو ختم کردو ں گا اور اگر ايسا نہيں کروں گا تو تمھارے دل کو ہميشہ مبتلائےغم ر کھوں گا اور فقر کو بھي دو ر نہ کروں گا۔(الدر المنثور،ج ٣،ص٢٣١)
نويں سو رہ ميں ہے:تمھا رے سخت دل ايسے ہيں کہ ميري کتاب کي ہزاروں نصيحتوں سے بھي صحيح نہیں ہو نے وا لے ہيں، اے فر زند آدم!جس طرح پا نی سے پتھر پر کو ئي اثر نہيں پڑ تا اسي طرح تمھا رے سخت دلو ں پر پندو نصیحت کا کوئي اثر نہيں ہوتا۔
جب کہ حقيقت يہ ہے کہ قرآ ن اور اسرا ئيلی روایات ميں اس خطا ب کو حضرت داؤدعلیہ السلام نے نہيں بلکہ حضرت موسيٰ علیہ السلام نے اپنی قو م سے کيا تھا اور سو رہ بقرہ کي آ يت نمبر ٧٤بھي اس کي صراحت کر تي ہے:ثُمَّ قَسَتْ قُلُوْبُکُمْ مِنْ بَعْدِ ذٰلِکَ فَھِيَ کَالْحِجَارَۃِ اَوْ اَشَدُّ قَسْوَۃً وَ اِنَّ مِنَ الْحِجَارَۃِ لَمَا يَتَفَجَّرُ مِنْہُ الْاَنْھَارُ وَ اِنَّ مِنْھَا لَمَا يَشَّقَّقُ فَيَخْرُجُ مِنْہُ الْمَآءُ وَ اِنَّ مِنْھَا لَمَا يَھْبطُ مِنْ خَشْيَۃِ اللّٰہِ وَ مَا اللّٰہُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونَ:پھر اس کے بعد تمھارے دل سخت ہو گئے پس وہ مثل پتھر کے (سخت)تھے يا اس سے بھي زيا دہ کرخت کيو نکہ پتھروں ميں بعض ايسے ہو تے ہيں کہ ان سے نہريں جا ري ہو جا تي ہيں اور بعض ايسے ہو تے ہيں کہ ان ميں دراڑ پڑ جا تي ہے اور ان ميں سے پا ني نکل پڑ تا ہے اور بعض پتھر تو ايسے ہو تے ہيں کہ خدا کے خو ف سے گرپڑتے ہيں اور جو کچھ تم کر رہے ہو اس سے خدا غا فل نہيں ہے۔(بقرہ:٧٤)حضرت موسيٰ علیہ السلام بھي خو د يہ نہيں چاہتے تھے کہ آپ کا دل ان لوگوں سے سخت ہو جا ئے ۔ احمد نے الزہد ميں کعب الاحبار سے روا يت کي ہے کہ حضرت مو سيٰ علیہ السلام اپني دعا ميں عرض کر تے تھے:خدا يا!ميرے دل کو تو ريت کے ذ ريعہ نرم کردے اور اسے پتھر کي طرح سخت نہ کر۔[١]
پندرہويں سو رہ ميں ہے:اے فر زند آ دم !جنت ميں نہيں جاسکتا مگر وہ شخص جو ميري عظمت کے سا منے تواضع کرے اور مجھے يا د کر کے اپنے دن کو گزار دے اور ميري خا طر شہوتوں سے دو ري اختيا ر کرے۔
پس يہ با ت واضح ہو گئي کہ در اصل يہ با ت حضرت موسيٰ علیہ السلام کي ہے جيسا کہ ميراث اسلا مي ميں بھي يہي ہے چنانچہ ابن بابويہ قمی نے اپني سند کے ذ ريعہ’’حفص بن غياث نخعي قاضي‘‘سے روا يت کي ہے ان کا بيا ن ہے کہ ميں نے حضرت اما م جعفر صا دق علیہ السلام کو فر ما تے ہو ئے سنا:ايک مر تبہ ابليس حضرت موسيٰ بن عمران کے پا س آيا آپ خدا سے منا جا ت ميں مشغو ل تھے ايک فر شتہ نے اس سے کہا:تم ان سے کيا چا ہتے ہو؟ کيا يہ نہيں ديکھ ر ہے ہو کہ خدا سے منا جا ت ميں مشغو ل ہيں؟ اس نے کہا:ميں ا ن سے وہي چاہتا ہوں جو ان کے با پ آدم سے (جب وہ جنت ميں تھے)چاہتا تھا۔ خدا نے ان سے جو بہت سا ري با تيں بيا ن کيں ان ميں سے ايک با ت يہ تھي:اے مو سيٰ !ميں صرف اسي کي نما ز قبول کروں گا جو ميري عظمت کے سا منے توا ضع کرے گا اور دل ميں ميرا خو ف ر کھے گا ميري يا د ميں اپنا دن بسر کرے گا اور وہ اپنے گنا ہوں پر اصرا رنہ کرے گا نيز ميرے اوليا ءکے حق کو پہچا نتا ہوگا۔[١]
ہاں!ہم نے تو يہ مشا ہدہ کيا کہ اس زبو ر کو جمع کر نے وا لے نے ايک آسما ني کتا ب يعني انجيل سے(جو زبور سے مد تو ں کے بعد نازل ہو ئي تھي ) ايک بات کو ليا پھر اسے اسلا مي پيرا يہ ميں ڈھا لا اسے قرآ ني سو روں طٰہٰ اور حجرات کي دو آ يتوں ميں مخلوط کيا جيسا کہ نويں سو رہ ميں اس طرح کے جملا ت و عبا را ت کا نمو نہ ديکھا جا سکتا ہے اور وہ يہ ہے :اے بنی آدم! صرف ا ن لوگوں کے سا تھ نيکي کرو جن لوگوں نے تمھا رے ساتھ نيکي کي ہے اور ان لوگو ں سے را بطہ بر قرار کرو جو تم سے را بطہ بر قرار ر کھے ہو ئے ہيں، ان لوگوں سے گفتگو کرو جو تم سے گفتگو کر تے ہيں، ان لوگوں کو کھا نا کھلاؤ جو تمھيں کھلا تے ہيں، ان لوگوں کا احترا م کرو جو تمھا را احترا م کرتے ہيں کيو نکہ کو ئي بھي دو سرے پر فضيلت نہيں رکھتا۔ اِنَّمَا الْمُوْمِنُونَِ الَّذِيْنَ آمَنُوا بِاللّٰہِ وَ رَسُولِہ[٢]کچھ ايسے افرا د ہيں کہ جن لوگوں نے ان کے سا تھ برا ئي کي ہے وہ ان کے سا تھ نيکي کر تے ہيں ،جن لوگوں نے ان سے اپنا را بطہ ختم کر ليا ہے ان سے را بطہ بر قرار کر تے ہيں ، جن لوگوں نے انھيں محرو م کيا ہے انھيں کھانا کھلا تے ہيں، جن لوگوں نے ان کے سا تھ خيا نت کي ہے انھيں نصيحت کر تے ہيں، جن لوگوں نے انھي چھوڑ ديا ہے ان سےگفتگو کر تے ہيں جن لوگوں نے ان کي تو ہين کي ہے ان کا احترا م کر تے ہيں اور جن لوگوں نے ان کے او پر ظلم کيا ہے انھيں معا ف کر ديتے ہيں عَلِيْم خَبِيْر:(ميں آگاہ وخبر دار)ہوں وَ اِنِّي لَغَفَّار لِّمَنْ تَابَ وَ آمَنَ وَ عَمِلَ صَالِحاً ثُمَّ اھْتَدٰي:بيشک ميں اس کو بخش دينے والا ہوں جو تو بہ کرے اور ايمان لا ئے اور نيک کا م انجا م دے پھر وہ را ہ ہدا يت پر آ جا ئے۔(سورہ طہٰ:آيت ٨٢)يہاں پر ہما رے نسخہ کے مطابق زبو ر کا نواں سورہ ختم ہو گيا۔ ايسي ہي با تيں انجيل ميں بھي لکھي ہو ئي ہيں:ليکن اے سننے وا لو!ميں تم سے کہتا ہوں کہ اپنے دشمنوں سے محبت کرو، جن سے تمھيں نفرت ہو ان کے سا تھ احسا ن و نيکي کرو، جو تمھيں برا بھلاکہے اس کے لئے برکت طلب کرو،جوتم سے کینہ رکھے اس کے لئے دعائے خیرکرو،جوتمھارے ایک رخسارپرمارےتو دوسرے رخسا ر کو بھي اس کي طر ف بڑھادو، جو تمھا ري ردا پکڑے اس کي طر ف اپني قبا کو بھي بڑھا دو، جو تم سے کچھ مانگے اسے عطا کرو، جو تمھا راما ل لے لے اس سے وا پس نہ لو ، جس طرح تمھيں يہ پسند ہو کہ لو گ تمھا رے سا تھ اچھا بر تاؤ کر يں تم بھي اسي طرح ان کے سا تھ اچھا بر تا ؤ کرو کيو نکہ اگر اپنے چا ہنے وا لوں سے محبت کرو گے تو پھر تمھا ري فضيلت ہي کيا ہو گي؟اس وجہ سے کہ گناہگا ر افراد بھي انپے چا ہنے وا لوں سے محبت کرتے ہيں، اگر تم اس کے سا تھ احسان و نيکي کرو جو تمھا رے ساتھ احسا ن کر تا ہے تو تمھا ري فضيلت ہي کيا ہو گي کيو نکہ گنا ہگا ر افرا د بھي ايسا ہي بر تاؤکرتے ہيں ، اگر ايسے افرا د کو قرض دو جن سے وا پس لينے کي اميد ہو تو تمھا ري فضيلت ہي کيا ہو گي؟کيو نکہ گنا ہگا ر افرا د بھي گنا ہگا ر کو قرض ديتے ہيں تا کہ ان سے اس کا بد لہ ليں حق تو يہ ہے کہ اپنے دشمنوں سے محبت کرو ا ن کے سا تھ احسان کرو اور بد لہ لينے کي اميد نہ رکھتے ہو ئے قر ض دو اس وقت تمھيں عظيم اجر ملے گا اور تم حضرتِ اعليٰ کے فر زند بن جا ؤ گے کيو نکہ وہ نا شکرے اور بدکا ر لوگوں کے سا تھ مہر با ن ہے پس تم رحيم و مہر بان بنو جيسا کہ تمھا را با پ بھي رحيم ہے۔[٢]
مشاہدہ ہو ر ہا ہے کہ ان دونوں کتا بوں کي عبا رتوں ميں سوا ئے طر ز بيا ن کے اور کو ئي فر ق نہيں ہے چنا نچہ زبو ر کي عبارت يوں شرو ع ہو تي ہے:’’صرف ان لوگوں کے سا تھ نيکي کرو جنھوں نے تمھا رے ساتھ نيکي کي ہے۔‘‘يہ بعينہ وہي عبا رت ہے جس سے انجيل کا آغاز ہو تا ہے:’’اپنے دشمنوں کودو ست ر کھو اور جو لو گ تم سے نفرت کر يں ان کے سا تھ احسا ن کرو۔‘‘انجيل کے متن کے آخر ي جملا ت يہ ہيں:’’پس تم رحيم بنو جيسا کہ تمھا را با پ رحيم ہے۔‘‘
زبور کو جمع کر نے وا لے شخص نے اسي معني ميں جو قرآ ني آيت ہے انپے متن کو اختتا م کے مر حلہ ميں پہنچا يا ہے:وَ اِنِّي لَغَفَّار لِّمَنْ تَابَ وَ آمَنَ وَعَمِلَ صَالِحاً ثُمَّ اھْتَديٰ:يقينا ميں اس کو بخش دينے والا ہوں جو تو بہ کرے ، ايما ن لائے اور نيک عمل انجا م دے پھر را ہ ہدا يت پر آ جا ئے۔(طٰہٰ:٨٢)آمرزش اور رحمت ايک ہي چيز ہے، بيا ن آغاز اور انجام بھي ايسا متن ہے کہ دونوں ميں يکساں ہے اور انجيل کے متن ميں مترا دفا ت کے سا تھ مزيد تفصيل ہے جسے زبو ر جمع کر نے وا لے نے نظر اندا ز کيا ہے۔
اس کے بعد زبو ر جمع کر نے وا لے شخص نے اسي عقيدہ کو مختصر کر کے انيسويں سورہ کے آخري حصہ ميں پھر يہ لکھا ہے: ’’اے فر زندان آدم!ميں نے تمھيں جو کچھ حکم ديا تھا کيا تم نے اسے انجا م ديا؟جن لوگوں نے تمھا رے ساتھ برا ئي کي تھي کيا تم نے ان کے سا تھ نيکي کي؟ جن لوگوں نے تمھا رے او پر ظلم کيا تھا کيا تم نے انھيں معا ف کيا؟ جن لوگوں نے تم سے اپنا را بطہ ختم کر ليا تھا کيا تم نے ان سے گفتگو کي؟ اور کيا تم نے اپنے پڑوسيوں کے سا تھ آ مدو رفت جا ري رکھي؟’’خلاصہ يہ کہ یہ متن، زبو ر کا نہيں ہے۔
دو سرے فر عي سوالات کے جوابات :
ان سوالات کا تعلق ہما رے پا س زبو ر کا جو نسخہ ہے اس کي سند سے ہے ہو سکتا ہے کہ يہ سوالات پہلے حصہ(اصلي سوالات)سے بھي زيا دہ اہم ہوں کيو نکہ اگر ان کے با رے ميں منفي جوا ب ديا جا ئے تو پھر پہلے حصہ کے سوالات کے جواب دينے کي کو ئي ضرو رت ہي نہ ہو گي اس لئے کہ اس متن کي سند ہي با طل ہو جا ئے تو پھر متن کي کو ئي اہميت نہيں رہ جا ئے گي مگر يہ کہ سند کي صحت اور اس کا اثبا ت بھي ايسا نہيں کہ اس کے متن ميں جس بحث کي ضرو رت ہے اسے منتفي کر دے کيو نکہ ممکن ہے کہ اس کي سند در ست ہو ليکن متن غلط ہو اور ايسے نکات پر مشتمل ہو جن کا کو ئي اعتبار نہ ہو ليکن ہم نے اس کے بر خلا ف يہ تر جيح دي کہ سب سے پہلے سوال او ل کو بيا ن کر يں اس کا جوا ب ديں پھر سند کے با رے ميں بحث کريں تا کہ قوت استد لال ميں مزيد استحکام پيدا ہو جا ئے ۔ اس کي ايک دوسري علت يہ بھي ہے کہ غا لباً ديني متون سے استدلال کر نے وا لے افرا د اور انھيں نقل کر نے وا لے سند کي طرف کم ہي تو جہ ديتے ہيں عا م طو ر سے ان کي پوري تو جہ صرف متن کي طرف ہوتي ہے۔
پس مذ کو رہ دلا ئل کے پيش نظر اورمورد نظر سوال کے با رے ميں ہم کہتے ہيں:
اولاً:ہما رے پا س زبو ر کا جو خطي نسخہ ہے اس ميں نسخہ برداری کرنےوالے کا نام ہي نہيں ہے اور نسخےاور کتا بت کي بھي تا ريخ غا ئب ہے ۔ ہرچند ان دونوں نکتوں کي اس قدر اہميت ہے کہ علمي بحث کے لئے اور خاص طو ر سے تا ريخي قديمي متون واسناد کے لئے ان کا جا ننا ضرو ري ہو تا ہے ہو تا ہے گرچہ ديني مقدس متو ن کے سلسلہ ميں اس کي اتني زيا دہ اہميت نہیں ہوتی ۔
مثال کے طو ر پر متوا تر سند کے ذ ريعہ ہما رے لئے يہ با ت ثابت ہو چکي ہے کہ جس قرآن کا تعلق حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ہے اسے جبر ئيل خدا کي جا نب سے وحي کي صو رت ميں لائے ہيں تو جب تک ہما رے لئے يہ ثا بت ہے کہ يہ قرآ ن متوا تر قرآ ني نسخوں اور سينوں کے اندر جو قرآن محفوظ ہے ان کے با لکل مطا بق ہے تو اس بنا پر ہميں يہ جا ننے کا کو ئي فا ئد ہ نہ ہوگا کہ سارے قرآ ن کي نسخہ بر دا ري کس نے کي ہے؟ ليکن زبور کے با رے ميں يہ با ت نہيں ہے کيو نکہ اس کي سند کا جاننا ضرو ري ہے جس سے يہ با ت ثا بت ہو سکے گاکہ يہ زبور حضرت داؤد علیہ السلام سے متعلق ہے يا کم سے کم ا ن کے کسي شا گر د يا ان کے زما نہ کے کسي مو من يا ان کے بعد ہي سہي کسي مو من سے متعلق ہے ۔
جن دو(۲) نسخوں تک ميري دسترسي ہو سکي ان ميں سے کسي ايک ميں بھي يہ اشا رہ تک نہيں ہے کہ راوي يا کن راويوں سے يہ با تيں نقل کی ہيں۔ اس سلسلے ميں ناسخ نے الحسنيہ کتب خا نہ کے خطي نسخہ کے شرو ع ميں جو عبا رت لکھي ہے اس کے علا وہ اور کچھ بھي نہيں ملتا بہر حا ل وہ عبارت يہ ہے۔
’’يہ حضرت دا ؤد علیہ السلام کي زبو ر کا نسخہ ہے۔‘‘دو سري عبا رت جو اس کے آخر ميں ہے وہ يہ ہے:’’خدا وند متعال کي مدد اور اس کي بہتر ين تو فيقات کے ذ ريعہ کتا ب زبو ر کامل ہوئي يہ دونوں عبا رتيں صرف نا سخين کي جا نب سے ہيں ان کو متن کي صحت کے لئے دليل نہيں بنا يا جا سکتا اور تا ريخي لحاظ سے اس پر اعتما د نہيں کيا جا سکتا۔
اس زبو ر کے مطا لب کو جمع کر نے کي بھي کو ئي صحیح اور ٹھیک تا ريخ معين نہيں کي جا سکتي ہے ليکن جو با ت با لکل مسلم ہے وہ يہ کہ يہ نسخہ حضرت داؤدعلیہ السلام کے زما نہ ميں يا حضرت عيسيٰ علیہ السلام اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے در ميان جو فاصلہ ہوا ہے اس دور ميں مرتب کيا گيا ہے
بلکہ اسلا مي عہد ميں لکھا گيا ہے کيو نکہ ہم اس سے پہلے بھي يہ اشا رہ کر چکے ہيں کہ اسلا مي جذ با ت کے پيش نظر اسلاميات سے متا ثر ہو کر لکھا گيا ہے۔
ان دو(۲) فر عي سوالوں کے جوا ب کے بعد اب ہم ايک محوري سوال کا جوا ب دے سکتے ہيں اور وہ يہ ہے کہ کيا اسلا مي نقطۂ نظر سے يہ و ہي حقيقي زبو ر ہے۔
جوا ب يہ ہے کہ اسلا مي مفہو م کے لحاظ سے حقيقي زبو ر نہيں ہے کيو نکہ اس کے متن ميں بھي کچھ ايسي با تيں پا ئي جا تي ہيں جو اس با ت کي نفي کر تي ہيں اور اس کے او پر کو ئي قابل اعتما د سند بھي نہيں ہے ۔ پس اس کے با رے ميں جو کچھ کہا جا سکتا ہے وہ يہ ہے:ايک تحر يف شدہ اور جھوٹي ’’زبور‘‘ہے جس کے جمع کر نے وا لے نے يہ کو شش کي ہے کہ اسرا ئيلي روايات کو بعض اسلا مي اخلا قيات کے سا تھ جمع کر دے اور اس کو منظم کر نے کے بعد ايسي صو رت ميں پيش کرے کہ قرآن کے جو اہم خصوصيات ہيں اس ميں بھي ر ہيں منجملہ يہ کہ زبو ر کو کئي سو روں ميں تقسيم کيا ہے اور ہر سو رہ کو بسم اللہ الر حمن الرحيم سے شرو ع کيا ہے اس طرح اس نے بعض قر آ ني آيا ت کو بھي بيچ ميں کہيں کہيں شا مل کر ليا ہے جس سے يہ اندا زہ ہو تا ہے کہ اس مر تب کر نے و الے کو آسما ني کتا بوں کے با رے ميں وسيع طو ر پر آشنا ئي نہ تھي اس نے اپنے نسخہ کو تو ريت و انجيل اور قرآ ن ہر ايک کے متن سے مخلوط کر ديا ہے اسي وجہ سے وہ بہت سے تنا قضا ت ميں گر فتا ر ہوگيا ہے مثلاً زبو ر کے پا نچويں سورہ ميں ہے کہ جنت ميں سات(٧) دروازے ہيں پھر چھبيسويں سورہ ميں ہے کہ آٹھ(٨)دروازے ہيں!
حواشي مقالہ نمبر ٤
ص٩١/١:ابن کثير ،قصص القرآن، جلد ٢ ،ص٤٤٤۔
ص٩١/٢:البدايہ والنھايہ ، ج٢،ص١٦۔
ص۹۲/١:مثال کے طو ر پر ديکھئے:سو رہ نمبر ۶ ،۰ ۱ ،۸ ۱۔(اس خطي نسخہ ميں)
ص۹۲/۲ :وَاذْکُرْ عَبْدَ نَا دَاؤد ذَا الْاَيْدِ اِنَّہ اَوَّاب،اِنَّا سَخَّرْنَا الْجِبَالَ مَعَہ يُسَبِّحْنَ بِالْعَشِيِّ وَ الْاِشْرَاقِ:اور ہما رے بندے داؤد کو يا د کرو جوبڑے قوت وا لے تھے(مگر صبر کيا)بيشک وہ(ہما ري با ر گا ہ ميں)بڑے رجوع کر نے و الے تھے ہم نے پہاڑوں کو بھي تابعدار بنا ديا تھا کہ ان کے سا تھ صبح اور شام (خدا کي)تسبيح کرتے تھے۔(سورہ ص:١٧،١٨)
ص٩٣/١:تاريخ طبري،ج ١،ص٤٧٨۔٤٧٩؛التاريخ الکبير،ج٥،ص ١٩٢۔١٨٩و١٩٤؛عرائس المجالس،ص ١٧٤،١٧٣؛ البدايہ، والنھايہ،ج٢،ص ١٥۔١٤۔
ص٩٣/۲:عرائس المجالس:ص ١٧٩۔
ص٩٣/٣:اتقان في علوم القرآن، جلد ٢،ص١٤٠:حضرت پيغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فر مايا:حضرت داؤد علیہ السلام کي نما ز تما م نمازوں سے بہتر تھي اور ان کا رو زہ خدا کے نزديک تما م روزوں سے زيا دہ پسنديدہ تھا...( الشفا، جلد١، ص٣٠٠۔٢٩٩)
ص٩٣/٤:ديکھئے: کتاب رياض الانس، ثعالبي، خطي نسخہ کتب خا نہ الحسنيہ رباط(مراکش)شمارہ ١١٤٦٨، ورق ٤٣۔الف۔
ص٩٤/١:ديکھئے:آپ کي منا جات کي تفصيل’’عرائس المجالس‘‘،ص١٧٩۔١٧٥۔
ص۹۴/۲:مفتاح السعادہ، جلد٣،ص٤٥٢، نيز ديکھئے:الغنيہ الطالبي طر يق الحق،ج٢،ص ٤٨٣۔
ص ٩٤/٣:دلالۃ الحائرين:ج٣،ص٥٣٦۔
ص٩٦/١:امالي شيخ صدوق:ص١٠٠،٩٩؛ مجلس ٢١۔
ص۹۶/۲:سيو طي کہتے ہيں:يہ دنيا دلہن کے ما نند ہے کہ جب بہترين لبا س اور زيورات سے آراستہ ہو تي ہے تو اپنے شو ہر کے پا س آ تي ہے ليکن اسے پسند نہيں آ تي دنيا بھي ايسي ہي ہے اگر دنيا پر ست لوگ اس خيا ل ميں ہوں کہ اس سے اپنا مقصد حاصل کر سکتے ہيں تو وہ لو گ طرح طرح کي بلاؤں اور مشکلوں ميں گر فتا ر ہوں گے۔(معترک الاقران، حصہ دوم،ص ١٤٥)
ص٩٧/۱:جو لوگ اس نظر يہ سے متاثر ہو ئے ہيں اور انھوں نے دنيا کو’’بدکارہ ‘‘سے تشبيہ دي ہے ان ميں سے بعض افرا د يہ ہيں:حکيم تر مذي( کتا ب ختم الاولياء،ص ٤٢٩۔٤٢٧،جواب کتاب من الري،ص ٤٢٩۔٤٢٧،مسئلۃ في خلق الانسان،ص٤٧)ابو العلاالمعري(رسالۃ الغفران،ص٣١٨)مذ کو رہ بالا عبا رتوں کو پيش نظر رکھتے ہو ئے اور دنيا کو’’بدکارہ ‘‘سے تشبيہ ديتے ہوئے ايک ہي وقت ميں دنيا اور عو رتوں سے پر ہيز کر نے کي علت کو معلو م کيا جا سکتا ہے:’’دنيا شيريں و شا داب ہے اور خدا نے تمھيں دنيا ميں اس لئے قرارديا ہے تا کہ وہ يہ ديکھ سکے کہ تم کيا کر تے ہو پس تم دنيا سے دو ري اور عو رتوں سے پرہيز کرو کيو نکہ بني اسرا ئيل ميں جو سب سے پہلا فتنہ بر پا ہوا وہ عو رتوں ہي کي جا نب سے اٹھا تھا۔‘‘(اس حديث کو مسلم نے ابو سعيد خدري سے نقل کيا ہے)۔
ص۹۷/۲:سفر امثال:اصحاح پنجم،شمارہ ہا ئے ٦۔١۔
ص۹۷/۳:التاريخ الکبير:ج ٥،ص ١٩٣۔
ص٩٨/١:امالي الشيخ الصدوق:ص ١٠١؛مجلس ٢٢۔
۹۸/٢:التاريخ الکبير:ج٥،ص ١٩٠۔
ص٩٨/٣:قصص الانبياء:ج ٢،ص٤٢٣۔
ص٩٨/۴:معاني الاخبار:ص٣٧٤،باب معني الحسنہ التي تد خل العبد الجنۃ۔
ص٩٩/۱:التاريخ الکبير،ج٥ ص ١٩٤۔
ص١٠٠/۱:عرائس المجالس:ص١٦٩۔
ص١٠٠/۲:عرائس المجالس:ص١٧٧۔
ص١٠٠/۳:غيث المواہب العليۃ،ج٣،ص ٢٣٨۔
ص١٠١/۱:صحيح البخاري،ج٢،ص ١٠١،کتاب الکسوف،ابواب العمل في الصلاۃ، باب ماجاء في عذاب القبر؛’’نوادر الاصول‘‘ج١،ص ١٧٨۔١٧٥،اصل بيست وششم، ذکر فتنہ ھاي قبر؛احياء علوم الدين، ج٤،ص ٥٣٥۔٥٣٠،کتاب ذ کر الموت وپس از آن، با ب ہفتم۔
ص١٠١/۲:نوادر الاصول، ج ٢ ص١٠٥ ،اصل شمارہ ١٢٤۔
ص١٠١/۳:نوادر الاصول، ج٤،ص ١٤٢،اصل ٢٧٤۔
ص١٠٢/۱:نوادر الاصول،ج ٤،ص ١٤٧،اصل ٢٧٤۔
ص١٠٢/۲:قاضي عياض کہتے ہيں:مفسرين نے کہا ہے کہ خداوند عا لم نے اس ميثاق وعہد و پيما ن کو وحي کے وقت ليا ہے اور ہر ايک کو جب نبو ت کے لئے مبعوث کيا ہے تو اس سے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذ کر کيا ہے اور ان کي تعريف کي اور اس سے عہد ليا کہ اگرآنحضرت کے زما نہ کو در ک کرے گا تو ان پر ضرو ر ايما ن لا ئے۔(الشفاء،ج ١، ص ١١٢۔١١١)نيز کہتے ہيں:حضرت علي بن ابي طا لب رضي اللہ عنہ نے فرمایا:خدا نے حضرت آدمسے حضرت خاتم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک کسي پيغمبر کو مبعوث نہيں کيا مگر يہ کہ اس سے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے با رے ميں يہ پيما ن ليا کہ جب وہ حضرت مبعوث ہوں(تو اگر وہ نبي اس وقت تک زندہ رہا)تو ان پر ايما ن لا ئے ، ان کي مدد کرے اور وہ اپني قو م سے بھي اس طرح کا پيمان لے۔وہ قرآني آيات جن ميں گز شتہ آسما ني کتابوں کاذکرکیاگيا ہے يہ ہيں:سو رہ بقرہ کي آيات ۸۹، ۱۴۴، ۱۴۶؛سورہ ما ئدہ کي آيت ٨٣؛ سورہ اعراف کي آ يت ١٥٧؛سو رہ يونس کي آ يت ٩٤؛سورہ رعد کي آ يت ٤٣؛ سورہ اسراء کي آيات ١٠٩۔١٠٧؛سورہ شعراءکي آ يت ١٩٧۔ نيز جن احاديث ميں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کي نبو ت کے با رے ميں گزشتہ آسما ني کتا بوں ميں بشا رت وہ يہ ہيں:التاريخ الکبير،ج١،ص ٣٤٥۔۳۳۹۔باب ما جاء في الکتب من نعتہ وصفتہ وما يشرف الانبياء بہ اممھا من بعثتہ ؛الدرالمنثور،ج٣،ص٢٣١۔٢٢٧؛اعلام الدين،ص٢١٨؛الشفا،ج١،ص ٤٨٨،٤٥٠ ،٤٥٤تا٤٥٧؛ابو فارس عبد العزيز الملزوزي المريني انپے اشعا ر ميں کہتے ہيں:احمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے معجزے ان گنت ہيں، ميں صرف بعض معجزات کو بيا ن کر رہا ہوں۔ تو ريت و انجيل آسما ني کتا بوں ميں ان کے بہت سے اوصاف کا تذ کر ہ ہے۔(نظم السلوک في الانبياء والخلفاء والملوک،ص١٨)
ص١٠٣/۱:ابن ہشام نے’’سماک يہودي‘‘کا ايک شعر نقل کيا ہے جسے در حقيقت اس نے کعب بن اشرف کے جواب ميں کہا ہے اس کا آغاز اس طرح ہوتا ہے :ميں بہت زيادہ غم ميں گرفتار ہوں اور ميں بہت سنگين صدمہ میں مبتلا ہوں ايسي رات ميں جو بہت طولاني ہے ۔ميں ديکھ رہا ہوں کہ سارے يہودي اس کا انکار کررہے ہيں جب کہ وہ سب لوگ بڑٰی اچھي طرح اس سے باخبر ہيں ...۔(السيرۃ النبويۃ.،ج٣،ص ٦٠٠)
ص ١٠٤/۱:ھدايۃ الحياري،ص ٩٦ ۔ سيوطي نے اس حديث کي نسبت بيہقي کي طرف دي ہے .(الخصائص الکبريٰ،ج١،ص ١٤)
ص ١٠٤/۲:الشفا،ج١،ص ٤٥٠؛مطالع المسرات،ص ١١٩۔اسي نکتہ کےپيش نظر بہت سے مسلمان علماء نے مقيم السنۃ(سنت کو بجالانے والے)نام کو حضرت پيغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ناموں ميں شمار کيا ہے ،ديکھئے:الشفاء،ج١،ص ٤٥٥؛دلائل الخيرات،ص ٦٢)
ص ١٠٥/۱:المخرج والمردود،ص ١٣٩۔ابن قيم جوزي نے اس حديث کو مختصر اختلاف الفاظ کے ساتھ بيان کيا ہے اور اس کي تفسير کے ضمن ميں لکھا ہے :ان کي مراد يہ ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مبعوث فرماتاکہ لوگ يہ جان ليں کہ مسيح بھي خدا نہيں ہيں بلکہ بشر اور بشر کي اولاد ہيں وہ خالق بشر کي اولاد نہيں ہيں خدا نے بھي امتوں کے لئے ہادي اور تمام غموں کو دور کرنے والے کو مبعوث کيا اور حضرت مسيح کي حقيقت کو سب کے لئے واضح کرديا کہ وہ ايک بزرگوار بندے اور رسول تھے مسيحيو ں اور يہوديو ں کا ان کے بارے ميں جو دعويٰ تھا وہ غلط تھا ۔(ہدايۃ الحياري ،ص ٧٢۔نيز ديکھئے :المخرج و المردود،ص ١٣٩)
ص١٠٥/۲:الغنیہ لطالبي طر يق الحق،ج٢ ،ص ٣٦٨،فصل في فضيلۃ يوم النحر والاضحيۃ۔
ص١٠٦/۱:امالي شيخ صدوق:ص ٧١، المجلس ١٧۔
ص ١٠٦/۲:ميري مراد ’’سفر مزامير‘‘ہے جسے مسلمان ’’زبور داؤد‘‘ کہتے ہيں ۔(الجواب الصحيح،ج٢،ص ٢٧٧؛المخرج والمردود،ص ١٣٩؛ارشاد الثقات،ص ١١؛مع الانبياء في القرآن الکريم،ص ٢٨٧؛دروس في تاريخ الاديان،ص ١١٢)
ليکن اہل کتاب (عيسائيوں اور يہوديوں )کي نظر ميں زبور ميں يہ سب کتابيں شامل ہيں:ايوب ،مزامير ،امثال ،جامعہ اور غزل غزلہا۔يہ معلوم ہونا چاہئے کہ ’’زبور داؤد‘‘ کا اطلاق ’’سفر مزامير‘‘پر صحیح نہيں ہے کيونکہ عہد قديم ميں ’’سفرمزامير‘‘١٥٠ مزبور پر مشتمل ہے جن میں سے صرف ٧٣ يا ۴ ۷حضرت داؤدعلیہ السلام سے مربوط ہيں اور بقيہ ’’ہيمان‘‘ ،’’ايتان‘‘ "سلیمان"،’’آساف‘‘ ،’’يدتون‘‘و ’’موسيٰ‘‘ اور ’’بني قورح‘‘سے متعلق ہيں.(مع الانبياء في القرآن الکريم،ص ٢٨٧)اگر چہ موسي بن ميمون کے کلام سے يہ ظاہر ہوتا ہے کہ ’’سفر مزامير‘‘حضرت داؤدعلیہ السلام کي تاليف ہے وہ کہتے ہيں:’’...اور اس طرح روح القدس سے داؤد علیہ السلام نے مزامير کو تاليف کيا۔ ‘‘ (دلالۃالحائرين،ج٢،ص ٤٣٥)
ص ۱۰۷/۱:قاضي عياض کہتے ہيں:اور خداوند عالم نے اپنے انبياء کي کتابوں ميں اپني امت کا نام ’’حمادين‘‘ رکھا ہے يعني پيغمبر اسلام کا ’’محمد‘‘اور’’احمد ‘‘نام رکھنا چاہئے ۔(الشفاءج١،ص ٤٤٥)وہ کہتے ہيں:پيغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا محمد اور احمد نام رکھا گيا ہے،محمد کے معني محمود کے ہيں زبور ميں بھي آپ کا يہي نام ہے ۔(گزشتہ حوالہ ،ج١،ص ۰ ۶ ۴)
ص ١٠٧/۲:الدين و الدولۃ،ص ١٣٩؛الاجوبۃ الفاخرۃ،ص ٢٠٨؛الجواب الصحيح ج۲، ۲۷۹۔ ۲۷۷؛ارشاد الثقات،ص ۲۹ ومقابلہ کیاجائے عہد قدیم کا،سفر مزامیر، مزمور شما رہ ۴۸،آیات ۱، ۲۔
ص١٠٧/۳:الدين والدولۃ:ص١٤٠؛المخرج والمردود علي اليھود،ص:١٣٩۔١٣٨؛ النبي الامي في التوراۃ والانجيل ،ص١٧٨؛ھدايۃ الحياري،ص ٧١؛مقائسہ شود با عھد قديم ،سفر مزا مير، مزمور،٥٠،آيات ٣۔١۔
ص١٠٧/۴:الدين والدولۃ :ص ١٤٢، ۱۴۰؛الاجوابۃ الفاخرۃ،ص ٢٠٨؛ الجواب الصحيح،ج ٢، ص ۲۸۰ ؛المخرج والمردود ص ۱۳۸، ۱۳۹؛ النبی الامی فی التورات الانجیل ،ص ۱۷۹۔ ۱۷۸؛ ہدایۃ الحیاری، ص ۷۱، ارشاد الثقات،ص ۲۹ ومقائسہ شود با عہد قدیم، سفر مزامير،مزمور ٧٢،آيات ١٧۔٨۔
ص١٠٧/۵:الدين والدولۃ:ص ١٤٣ ۔١٤٢؛ الاجوبۃ الفاخرۃ،ص۲۰۸؛ الجواب الصحيح‘‘ج٢،ص ٢٧٧۔٢٧٤؛ النبي الامي في التوراۃ والانجيل،ص١٧٧۔١٧٥؛المخرج والمردود،ص ١٣٩۔١٣٨؛ہدايۃ الحياري‘‘ص ٧١۔٧٠؛اظہار الحق،ص ٤٣٦ ومقابلہ شود با عہد قديم، سفر مزامير، مز مور ١٤٩، آيات ٩۔٤۔
ص ١٠٧/۶:البو صيري انپے شعر ميں کہتے ہيں :آپ پر ہميشہ سلام و درود ہو اور تم پيغمبر کے اوصاف زبور کي زبا ن سے سنو (المخرج و المردود،ص ١٣٩؛قاضي عياض کہتے ہيں :آنحضرت کے اوصاف اور خصوصیات آسماني کتابوں ميں بڑي کثرت سے ہيں۔(الشفا،ج۱،ص ٤٥٧)
ص ١٠٨/۱:الاجوبۃ الفاخرۃ،ص ٢٠٩۔عہد قديم سے موازنہ کيا جائے،سفرمزامير ،مزمور دوم ،آيات ٧تا ٩۔قاضي عياض کو غلطي سے يہ گمان ہوگياکہ اس مزمور کي نويں آيت وہي ہے انجيل ميں جس کي تفسير بيان کي گئي ہے ۔(الشفاء،ج١،ص ٤٥٧۔٤٥٦)
ص۱۰۸/۲:الاجوبۃ الفاخرۃ،ص ٢٠٩۔عہد قديم سے موازنہ کيا جائے،سفر مزامير ،مزمور ہشتم ،آيات٤تا ٦۔
ص١٠٨/۳:الدين والدولۃ:ص ١٣٩؛الشفا :ج١،ص ٤٦٣؛الجواب الصحيح، ج ٢،ص ٢٧٧؛النبي الامي في التوراۃ والانجيل،ص١٧٧۔١٧٨؛المخرج والمردود،ص ١٣٩،۱۳۸؛ہدايۃ الحياري،ص٧١؛ارشاد الثقات،ص٢٩؛مطالع المسرات،ص ١١٤، ١١٣ و١٢٤؛اظہار الحق،ص٤٣٥۔ ۴۳۳ومقا يسہ شود باعہد قديم، سفر مزامير، مزمور ٤٥،آيات ٢تا٥۔
ص١٠٨/۴:الدين والدولۃ:ص١٤٢،ومقايسہ شود باعہد قديم، سفر مزامير، مزمور يکصد ودہم،آيات ٥ تا٧۔
ص١٠٨/۵:الدين والدولۃ،ص ١٤٣؛الاجوبۃ الفاخرۃ،صفحات ٢٠٩۔٢٠٨؛الجواب الصحيح،ج۲ ، ص ۲۷۹۔ہدایۃ الحیاری،ص۷۲عہد قديم ميں يہ مزمور موجود نہيں ہے کيونکہ موجودہ عہد قديم کے مزامير کي تعداد کیتھولک اورپروٹسٹنٹ روايت کے مطابق ١٥٠سے زيادہ نہيں ہے ۔
ص١٠٩/۱:التاريخ الکبير :ج ٥ ،ص١٩٢۔
ص١٠٩/۲:عرائس المجالس،ص١٧٩۔
ص١٠٩/۳:حضرت سليما ن علیہ السلام نے اس وقت يہ کہا جب ان کے والد حضرت داؤد علیہ السلام نے انھيں اپنا جانشين بنايا تھا ۔(عرائس المجالس ،صفحات ١٨٢۔١٨١)
ص ۱۰۹/۴: مثال کے طورپردیکھئے:التاریخ الکبیر،ج۵،ص ۱۸۷، ۱۹۱؛ عرائس المجا لس،ص ۱۷۲ و ۱۷۵ ؛البدایۃ والنھایۃ،ج۲ ص ۹و۱۰۔
ص۱۰۹/۵: جن لوگوں نے پيغمبر اور رسول کو مترادف بتايا ہے ان کے بہت سے دلائل ہيں منجملہ اس آيت سے استدلال کيا ہے :وَ مَا اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ مِنْ رَّسُوْلٍ وَّ لَا نَبِيٍّ:اور ہم نے تم سے پہلے کسي رسول اور نبي کو نہ بھيجا ۔(حج :٥٢)يہ آيت ثابت کرتي ہے کہ دونوں بھيجے جاتے ہيں ہرپيغمبر بھيجا جاتا ہے اور ہر بھيجا ہوا پيغمبر ہے ۔ (شفا ،ج١،ص ٤٨٨)ابو حامد غزالي نے پيغمبر اور رسول کو پيغمبر بتايا ہے ليکن اس پيغمبر ميں فرق ہے جسے بھيجا گيا اور جسے نہيں بھيجا گيا ہے۔(الرد الجميل لالھيۃ عيسي بصريح الانجيل،ص ٩٦)
ص۱۰۹/۶:علم الکلام علی مذھب اھل السنۃ والجماعۃ،ص۹۹ ۔
ص۱۱۰/۱:الشفاء،ج ۱،ص ۴۸۸،نیز دیکھئے:مطا لع المسرات،ص۱۰۵۔۱۰۴۔
ص۱۱۰/۲:کتاب "ختم اولیاء"،ص۳۵۲۔
ص ١۱٠/۳:الشفا،ج١،ص ٤٨٨،قاضي عياض کہتے ہيں :صحيح بات اور جس کے اکثر علماء قائل ہيں وہ يہ ہے کہ ہر رسول ،پيغمبر ہوتا ہے ليکن ہر پيغمبر، رسول نہيں ہوتا ۔(شفا، ج١،ص ٤٨٩۔٤٨٨)
ص ١١١/۱:آيت اِنَّمَا المُوْمِنُوْنَ الَّذِيْنَ آمَنُوا بِاللّٰہِ وَ رَسُوْلِہ:مومنين صرف وہي ہيں جو خدا اور اس کے پيغمبر پر ايما ن رکھتے ہيں... ۔(نور :٦٢)
ص ١١٢/۱:جن لوگوں نے بڑے يقين کے ساتھ ’’انجيل برنابا‘‘کے صحيح ہونے کي تصديق و تائيد کي ہے ان ميں سے بعض افراد يہ ہيں:محمد ابو زہرہ (محاضرات في النصرانيۃ،ص ٦٢۔٥٦)احمد شبلي (النصرايہ ،ص ٢٢٦۔٢١٧)اور جعفر حسين عتريسي ۔(التوراۃ و الانجيل و القرآن،ص ٣٤١)
ص١١٢/۲:انجيل برنابا،فصل ١٧ شما رہ ١٣؛ فصل ٣٦،شمارہ ٦؛فصل ٣٩ شمارہ ہا ئے٢٨۔ ١٤؛ فصل ٤١ شما رہ ہا ئے٣١، ٢٨؛ فصل ٤٢ شما رہ ہا ئے١٥۔۱۰؛فصل ٤٣ شما رہ ہا ئے١٥۔١٩؛فصل ٤٤ شما رہ ہا ئے٣٢۔ ١٩؛ فصل ٥٢ شما رہ ہا ئے ٩۔٧؛فصل ٥٤ شما رہ ہا ئے٢٤۔١؛فصل ٥٥، شما رہ ہا ئے٣٨۔١؛فصل ٧٢، شما رہ ہا ئے٢٤۔۱۱؛فصل ٨٢ شما رہ ہائے ١٨۔١٣؛ فصل۸۴شما رہ ہا ئے٢۔۳؛فصل٩٠ شما رہ ہا ئے٣و٤؛ فصل ٩٦ شما رہ ہا ئے١٥۔٣؛ فصل ١١٢ شما رہ ہا ئے ١١٢؛فصل ١٢٤شما رہ ١٠؛ فصل ١٣٦ شمارہ ہائے٢١۔١٠؛ فصل ١٤٠، شما رہ١؛ فصل ١٦٣، شما رہ ہا ئے١٣۔١١؛فصل ١٦٧ شما رہ ٩١؛فصل ١٧٦ شما رہ ٧؛فصل ١٩١، شما رہ ہا ئے١٠۔٥)؛فصل ٢٠٨، شما رہ ٧،فصل ٢٢٠ شما رہ ہا ئے٢٠،۲۱۔
ص١١٢/۳:انجيل برنابا:فصل ١٧ شمارہ ہا ئے٢٢۔١۔
ص١١٢/۴:انجيل برنابا:فصل٣٢،شما رہ ہائے٣٤۔٣٢۔
ص١١٢/۵:انجيل برنابا:فصل٣٣،شما رہ٢۔
ص١١٢/۶:انجيل برنابا:فصل٤٤،شما رہ ہائے١٠،۱۱؛فصل ٩٩،شما رہ ١٠۔
ص١١٢/۷:سفر تکوين:اصحاح،٢٢، شمارہ ہائے١٣۔١۔
ص١١٢/۸:انجيل برنابا:فصل٢١٥،شما ر ہا ئے٣۔٦، فصل ٢١٩، شما رہ ہا ئے٦۔٥۔
ص١١٢/۹:سورہ نساء[قرآن مجيد]،آيات ١٥٧،۱۵۸۔
ص ١١٣/۱:انجيل بر نا با،فصل ١٤،شمارہ١٠؛فصل۱۱۲، شمارہ ١٥۔١٣؛فصل ١١٧؛فصل ١٩٨، شما رہ ١٦؛ فصل ٢١٦،شما رہ ١٣۔١؛فصل ٢١٧،شمارہ ٨٨۔١؛فصل ٢١٨،شما رہ ٩۔١؛فصل ٢١٩، شما رہ ٤،فصل ٢٢١،شما رہ ٥۔١۔اگر چہ دو سري اسلا مي روا يا ت يہ بتاتی ہيں کہ جسے حضرت عيسيٰ علیہ السلام کي شبيہ بنا کر سو لي دي گئي وہ آپ کا ايک مخلص تھا چنا نچہ ابن جريح اس کے با رے ميں کہتے ہيں:کہا جا تا ہے کہ عيسيٰ بن مر يم نے اپنے اصحاب سے کہا:تم ميں سے کو ن اس با ت پر راضي ہے کہ وہ ميرا ہمشکل بنے اور پھر قتل کر ديا جا ئے؟ ان کے ايک صحا بي نے کيا:اے خدا کے نبي!ميں حاضر ہوں۔ پھر بعد ميں ويسا ہي ہوا کہ وہ قتل کر ديا گيا اور خدا نے انپے نبي کو اپنے پا س او پر بلا يا۔(تفسير ابن جر يح،ص ١٠٧،١٠٨)فخر را زی نے اس سلسلہ ميں شک کيا ہے کہ جو شخص حضرت عيسيٰ علیہ السلام کا ہمشکل بنا تھا وہ شيطا ن تھا يا انسان ۔(منا ظرۃ في الرد علي النصاري،ص ٤٩)
ص١١٣/۲:انجيل برنابا:فصل٥٢، شما رہ ہا ئے١٤۔١٠؛فصل ٥٣، شما رہ ہا ئے٣٦۔٣٤؛فصل ٧٠،شما رہ ہائے١٧۔٤؛ فصل ٨٣شما رہ ہا ئے٣١۔٢٧؛فصل ٩٠ شما رہ ہا ئے٣ و٤؛فصل ٩١،شما رہ ہا ئے١٢۔١؛فصل ٩٢،شما رہ ہا ئے٢٠۔٤؛فصل ٩٣شما رہ ہائے۱۰۔۹؛فصل ٩٥،شما رہ ہائے١١و٢۔١٨؛فصل ٩٧، شمارہ ہا ئے١٨۔ ١؛ فصل ٩٨،شما رہ ہا ئے٣، ٤؛فصل ١٢٨، شما رہ ہائے١٠،۱؛فصل ١٦١، شما رہ ہائے١٤۔١٣،فصل ١٩٨، شما رہ ہا ئے١٥،۱۴۔
ص١١٣/۳:انجيل بر نا با ميں يہ دا ستا ن ہے کہ يشوع کے ہا تھوں سے سو رج کو رو ک ديا گيا۔(فصل ٢٤، شما رہ ١٣؛ فصل ١٩١، شما رہ٣؛فصل ٣٨، شما رہ١٥)
يہ با ت اس روا يت کے مطا بق ہے جس ميں حضرت رسو ل اکرم ﷺنے حضرت علي علیہ السلام کے لئے دعا کي تو سورج ڈوبنے کے بعد پلٹ آيا اس وقت حضرت علي علیہ السلام نے نما ز عصر ادا کي اس کے بعد پھر ڈو ب گيا۔ (باب في تفسير قول رسول اللہؐ:’’اني تارک فيکم الثقلين کتاب اللہ وعترتي۔‘‘ کتاب منا زل القويۃ،تا ليف حکيم تر مذي،ص ٩٤ ضميمہ شما رہ ٢؛مجا لس العرائس،ص٢٢٠؛الرد الجميل،ص٩٦؛الموضوع في معرفۃ الموضوع،ص٢٦٤، حديث ٤٧١؛الموضوعات،ج١،ص ٣٥٧۔٣٥٥؛المنا ر المنيف،ص٥٧،حديث ٨٣؛المقاصد الحسنہ،ص ٢٧٠، حديث ٥١٩؛الشفا،ج١،ص ٥٤٩؛قصص الانبياء،ج٢،ص ٣٨٢۔٣٨١؛کتاب الفضائل،ص٦٩۔٦٨؛انس الفقير وعز الحقير،ص٥)
ص١١٤/۱:قرآن کر يم کہتا ہے:وَ اِنْ يَّسْلُبْھُمُ الذُّبَابُ شَيْئاً لَايَسْتَنْقِذُوْہُ مِنْہُ ضَعُفَ الطَّالِبُ وَ الْمَطْلُوْبُ:اگر کہيں مکھي کچھ ان سے چھين لے جا ئے تو اس سے اس کو چھڑا نہيں سکتے(عجب لطف ہے)کہ ما نگنے والا(عابد)اور جس سے ما نگا گيا(معبو د يہ دونوں)کمزو ر ہيں۔(حج:٧٣)انجيل بر نا با ميں ہے:اگر تما م لو گ جمع ہوجا ئيں تو وہ لو گ کسي چيز سے بھي ايک مکھي تک کو پيدا نہيں کر سکتے۔(فصل ٦٣، شما رہ ١٤۔نيز ديکھئے:فصل ١١٦،شما رہ ١٠؛ فصل ١٥٢، شما رہ ٢٠؛فصل ١٨٢، شما رہ ١٦)قرآن کر يم ميں ہے:وَلَاتَقُولَنَّ لِشَيء اِنِيّ فَاعِلٌ ذٰلِکَ غَداً اِلَّا اَنْ يَّشَآء اللہ:تم قطعاً کبھي کسي کا م کے لئے يہ نہ کہو کہ کل ميں اسے انجا م دے دو ں گا مگر اس کے سا تھ يہ کہو کہ اگر خدا کي مشيت ہو گي تب انجا م دے سکوں گا۔(کہف:٢٣، ٢٤)
بعينہ يہي چيز انجيل بر نا با ميں ہے:اسي لئے تم سے کہتا ہوں اس خدا کي قسم جس کے سا منے ميں حا ضر ہوں جب تم اس طرح کي با تيں کہو:’’ميں کل فلاں کا م انجا م دوں گا۔‘‘،’’فلاں با ت کہوں گا۔‘‘،’’فلاں جگہ جاؤں گا‘‘اگر اس کے ساتھ ان شااللہ نہ کہو(اگر خدا کي مشيت ہو گي تو تم چو ر کہلاوگے۔(فصل ١٥٣،شما رہ ٢٥)
حضرت دا ؤد علیہ السلام سے جو روا يت ہے اس ميں بھي اسي طرح کي با ت ہے ثعلبي کہتے ہيں:قتا دہ نے حسن بن محمد سے نقل کيا ہے کہ جب حضرت دا ؤد علیہ اسلام کو سلطنت ملي تو آپ نے بني اسرا ئيل سے فر ما يا:خدا کي قسم ميں تمھارے حق ميں عدل وانصا ف سے کا م لوں گا آ پ کسي استثنا کے قا ئل نہ ہو ئے اسي لئے(مشکلا ت ميں )گر فتا ر ہوگئے۔( عرائس المجالس،١٧٥)
ص ١١٤/۲:حديث ميں وارد ہے: آخري علا ج داغنا ہو تا ہے۔(المقاصد الحسنہ،ص ٢٣،حديث١)
بعينہ يہي با ت انجيل بر نا با ميں بھی ہے:پرا نے مرض کے علا ج کا طر یقہ داغنا ہو تا ہے ۔(فصل ٧٢،شما رہ٢١)
حديث ميں ہے:سات(٧)بدن ايسے ہيں کہ خدا ان پر اس د ن سايہ کرے گا جس دن اس کے سا يہ کے علا وہ کو ئي دوسرا سا يہ نہ ہو گا:ايک آ دمي نے صد قہ ديا اور اسے چھپا يا تا کہ اس کے داہنے ہا تھ نے جو کچھ انفا ق کيا ہے با ئيں ہاتھ تک کو خبر نہ ہونے پا ئے۔ اس حديث کو ما لک اور تر مذي نے ابو ہر يرہ اور ابو سعيد سے نقل کيا ہے، احمد نے المسند ميں نيز بخا ري و مسلم اور نسا ئي نے ابو ہر يرہ سے اور مسلم نے ابو ہر يرہ اور ابو سعيد دونوں سے نقل کيا ہے ،سيوطي نے اسے’’صحيح‘‘بتايا ہے۔(الجامع الصغير:ج٢،ص ٢٨٥۔حديث ٤٦٤٥)
يہ بعينہ وہ حديث ہے جو انجيل بر نا با(فصل ١٢٤، شما رہ ٦)ميں وارد ہو ئي ہے:تم چو کنا ر ہو کہ دا ہنا ہا تھ جو کا م انجام دے با ئيں ہا تھ کو اس کي خبر نہ ہو نے پا ئے ۔
ص١١٥/۱:نوادر الاصول:ج ١،ص۱۴۴،۱۴۷، ۱۵۱، ۱۸۱، ۳۴۶،ج۳ ،ص ۱۵۰ و۱۷۰،ج ۴، ص۵، ۱۲۶؛ختم الاولياء،ص ٤١٥؛کتاب اثبات العلل،ص١٤٤۔
ص١١٦/۱:الطيراني، کتاب الاوائل:ص٨٠۔
ص١١٦/۲:کتاب الاوائل:ص١٤٨۔
ص١١٦/۳:کتاب الاوائل:ص١٤٧۔
ص١١٧/۱:الدر المنثور:ج ٦،ص٥٧١،نيز دیکھئے:اعلام الدين،ص ٢٠٤۔
ص١١٨/۱:الدر المنثور:ج٣،ص ٢٣٣۔
ص١١٩/۱:صدوق، اما لي،ص:٦٦٧۔٦٦٦؛مجلس ٩٥۔
ص١١٩/۲:سورہ نور،آيہ ٦٢ وسورہ حجرات،آيہ ١٥۔
ص١٢٠/۱:سورہ طٰہٰ،آيت ٨٢:يقيناً ميں اس شخص کو بخش دينے والاہوں جو تو بہ کرے، ايما ن لا ئے اور عمل صالح انجام دے پھر ہدا يت کي را ہ پر آ جا ئے۔
ص١٢٠/۲:انجيل لوقا،اصحاح ٦، شما رہ ٢٧ تا ٣٦، نيز ديکھئے:انجيل متي،اصحاح٥،شما رہ ٤٨۔ ٣٨۔
فہرست منا بع ومآخذ
۔قرآن کريم.
۔کتاب مقدس.
۔انجيل بر نا با.
۔ابن با بويہ، القمي ، ابو جعفر محمد بن علي بن الحسين(ت .٣٨١/ ۹۹۱)
۔اما لي شيخ صدوق، تحقيق و تر جمہ الي الفارسيۃ گمرہ اي المکتبۃ الاسلاميۃ،ايران.١٤٠٤.
۔معاني الاخبار،تصحيح علي اکبر الغفاري، دار المعرفۃ، بيروت،١٣٩٩/۱۹۷۹.
۔ابن تيميۃ، تقي الدين ابو العبا س احمد بن عبد الحليم الحرا ني الدمشقي الحنبلي.(ت.٧٢٨/۱۳۲۸)
۔الجواب الصحيح لمن بد ل دين المسيح ،تحقيق محمد حسن اسما عيل، المکتبۃ العلميۃ،ط.۱،٤٢٣/۲۰۰۳.
۔ابن جريج، ابو الوليد(ابوخالد)عبد الملک بن عبد العزيز الاموي المکي(ت.١٥٠/۷۶۷)
۔تفسير ابن حريج، جمعہ علي حسن عبد الغني، مکتبۃ التراث الاسلا مي، القاھرۃ،ط.۱ .۱۴۱۳ /۱۹۹۲.
۔ابن الجوزي، جما ل الدين ابو الفرج عبد الرحم البغدادي.(ت۔ ٥٩٧/۱۲۰۱)
۔الموضوعات، تحقيق عبد الرحمن محمد عثمان ، المکتبۃ السلفيۃ ، المدينہ المنورۃ،ط.١،۱۳۸۸/ ۱۹۶۸۔
۔ابن حزم الاند لسي، ابو محمد علي بن احمد الفا رسي القرطي.(ت. ٤٥٦/ ۱۰۶۴)
۔الفصل في الملل والاھواء والنحل، تحقيق محمد ابرا ہيم نصر، عبد الرحمن عميرہ، دار الجيل بيروت،ط.۱۴۱۶ ،۲/۱۹۹۶۔
۔علم الکلا م علي مذھب اھل السنۃ والجماعۃ، تحقيق احمد حجا زي السقا، المکتب الثقافي القاھرہ،ط.١،۱۹۸۹۔
۔ابن حنبل ، ابو عبد اللّٰہ احمد بن محمد الشيباني.(ت. ٢٤١/۸۵۵)
۔المسند، موسسۃ التا ريخ العر بي۔دار احياء التراث العر بي، بيروت،ط.١،۱۴۱۲/ ۱۹۹۱۔
۔ابن الصديق، ابو الفضل عبد اللّٰہ بن الصديق الغماري الحسيني.
۔الاعلام بان لتصوف من شر يعۃ الاسلام، دار لوران، الاسکندريۃ، ١٩٧٨۔
۔ابن عباد ابو اعبد اللّٰہ محمد بن ابرا ہيم النفزي الرندي.(ت.٧٩٢/۱۳۹۰)
۔غيث المواھب العليۃ في شرح الحکم العطا ئيۃ ،تحقيق عبد الحليم محمود بن الشر يف ،دار المعارف، القاھرہ،١٩٩٢۔١٩٩٣۔
۔ابن عسا کر،ثقۃ الدين ابو القا سم علي بن الحسن الدمشقي.(ت.٥٧١/۱۱۷۶)
۔التاريخ الکبير، تر بيت وتصحيح وتھذيب ،عبد القادر افندي بدران،مطبعہ روضۃ الشام،١٣٢٩۔١٣٣٢۔
۔ابن قنفذ، ابن الخطيب، ابو العبا س احمد بن حسن(ت۔ ٨١٠/۱۴۰۸)
۔انس الفقير وعز الحقير، تصحيح محمد الفاسي ،وادولف فور، المر کز الجا معي للبحث العلمي، الر باط،١٩٦٥۔
۔ابن القيم، برھان الدين ابراہيم بن محمد۔(ت.٧٦٧/۱۳۶۵)
۔ہدايۃ الحياري في اجوبۃ اليھود والنصاري،’’مطبوعات الجامعۃ الاسلاميۃ با لمدينہ المنورۃ۔٢’’موسسۃ مکہ للطباعۃ والاعلام،١٣٩٦۔
۔المنار المنيف في الصحيح والضعيف، تحقيق عبد الفتاح ابو غدۃ، دار البشائر الاسلا میہ، بيروت،ط.٦،۱۴۱۴/ ۱۹۹۴۔
۔النبي الامي في التوراۃ والانجيل،تحقيق احمد حجازي السقا، مکتبۃ مد بو لي الصغير، القا ھرۃ،ط.١، ۱۴۲۱/۲۰۰۰۔
۔ابن کثير، عماد الدين ابو الفداء اسما عيل بن عمر القر شي الد مشقي.(٧٧٤/۱۳۷۳)
۔البدايۃ والنھايۃ، مکتبۃ المعارف، بيرو ت، د.ت۔
۔تفسير القرآن العظيم، تحقيق محمدناصر الدين الالبا ني، مکتبۃ الصفا، القا ھرۃ،ط.١، ۱۴۲۲ /۲۰۰۲۔
۔قصص الانبياء، تحقيق محمد احمد عبد العزيز زيدا ن ، دا ر الحديث،دار مصر للطباعۃ،١٩٨٢۔
۔ابن ميمون، ابو عمرا ن مو سي بن ميمو ن الاسرا ئيلي القر طبي الاندلسي.(ت. ٦٠٥/ ١٢٠٨)
۔دلا لۃ الحائرين، تحقيق حسين آتاي، ابن ہشام، ابو محمد عبد الملک بن ہشا م الحميري البصري.(ت.٢١٣/۸۲۸)
۔السيرۃ النبوۃ،تحقيق مصطفيٰ السقا،وآخرين، دار الرشاد الحديثہ،دار الفکر، د.ت .ابوزھرۃ،محمد۔
۔محاضرات في النصرانيۃ،دار الفکرالعربي،مطبعۃ المدني القاھرۃ،ط.٣،۱۳۸۱/۱۹۶۱۔
۔ابو نعيم احمد بن عبد اللّٰہ الاصبھا ني.(ت. ٤٣٠/۱۰۳۸)
۔حليۃ الاولياء وطبقات الاصفياء، تحقيق مصطفي عبد القادر عطا، دار الکتب العلميۃ، بيروت،ط.٢، ۱۴۲۳/۲۰۰۲۔
۔البخاري ابو عبد اللّٰہ محمد بن اسما عيل الجعفي.(ت. ٢٥٦/ ٨٧٠)
۔صحيح البخاري(الجامع الصحيح)دار الفکر،١٤٠١،١٩٨١،طبعۃ بالاوفست، عن طبعۃ دار السعادۃ باستنبول۔
۔البوصيري، شرف الدين ابو عبد اللّٰہ محمد بن سعيد الصنھاجي۔(ص.٦٩٤/۱۲۹۴)
۔المخرج المردود علي النصاري واليھود، ضمن ’’ديوان البوصيري‘‘، تعليق احمد حسن بسج، دا ر الکتب العلميۃ، بيروت،ط.١، ۱۴۱۶ /۱۹۹۵)
۔التر مذي الحکيم، ابو عبد اللّٰہ محمد بن علي الخراساني( من اھل ق۔٣ ھ/ ٩م)
۔کتاب اثبات العلل، تحقيق خالد زھري، منشورات کليۃ الاداب والعلوم الانسانيۃ بالرباط، سلسلۃ نصوص ووثائق۔رقم ٢،ط ۔ ١،۱۹۹۸۔
۔باب في تفسير قول رسول اللّٰہ صلي اللّٰہ عليہ وآ لہ وسلم:’’اني تارک فيکم الثقلين: کتاب اللّٰہ وعترتي‘‘، الملحق رقم٢، من ملاحق کتاب ’’منازل القربۃ‘‘للحکیم الترمذي، تحقيق خالد زھري، منشورات کليۃ الآداب والعلوم الانسا نيۃ با لر باط، سلسلۃ نصوص ووثائق۔ رقم ۳،ط . ١، ١٤٢٣/۲۰۰۲۔
۔جواب کتاب من الري، منشور ضمن کتاب’’ثلاثۃ مصنفات للحکيم الترمذي‘‘، تحقيق بيرند را تکہ ، منشورات’’جمعیۃ المستشر قين الالما نيۃ‘‘، بيروت،١٤١٢/۱۹۹۲۔
۔کتاب ختم الاولياء، تحقيق عثمان اسما عيل يحيي، منشورات’’بحوث ودراسات بادارۃ معھد الآداب الشر قيۃ في بيروت‘‘، المطبوعۃ الکاتوليکيۃ، بيروت،١٩٦٥۔
۔مسألۃ في خلق الانسان، منشورۃ ضمن کتاب’’رسالتان منسوبتان للحکيم الترمذي‘‘، تحقيق خا لد زھري، وجنفيف جو بيو، دار الکتب العلميۃ، بيروت،ط.١،۱۴۲۶،۲۰۰۵ .
۔نوادر الاصول في احاديث الرسول، نشر عبد الرحمن عميرہ،دار الجيل، بيروت، ط.١، ۱۴۱۲/۱۹۹۲.توفيقي، حسين۔
۔دروس في تاريخ الاديان،تعريب انور الرصافي،المرکز العالمي للدراسات الاسلاميۃ،مطبعۃ التوحيد،قم،ط.١٤٢٣،۱۔
۔الثعلبي، ابواسحاق احمد بن محمد نيسابوري.(ت.۴۲۷/۱۰۳۵)
۔کتاب قصص الانبياء المسميٰ بعرائس المجالس،بھامشہ’’مختصر روض الرياحين في مناقب الصالحين‘‘لليافعي،تصحيح محمدالاسيوطي،المطبعۃ الخيريۃ،القاہرۃ،١٣١٠۔
۔الجزولي،ابوعبداللّٰہ محمد ابن سليمان.(ت.٨٧٠/۱۴۶۵)
۔دلائل الخيرات وشوارق الانوار في ذکر الصلاۃ علي النبي المختار،مطبعۃ النجاح الجديدۃ،الدار البيضاء،١٩٩٨۔
۔الجيلاني،محي الدين عبدالقادر بن موسي الحسني.(ت.٥٦١/۱۱۶۶)
۔الغنيہ لطالبي طريق الحق،دار احياءالتراث العربي،بيروت،ط.١، ۱۴۱۶ /۱۹۹۶۔
۔الجيلي،قطب الدين عبدالکريم بن ابراہيم القادري.(ت.٨٣٢/۱۴۲۸)۔
۔الانسان الکامل في معرفۃ الاواخر والاوائل،تحقيق ابوعبدالرحمن صلاح بن محمد عويضۃ،دار الکتب العلميۃ،بيروت،ط.١، ۱۴۱۸/۱۹۹۸۔
۔الدہلوي،رحمۃ اللّٰہ بن خليل الرحمن ہندي.(ت.١٣٠٦/۱۸۸۹)
۔اظہار الحق،دارالکتب العلميۃ،بيروت،ط.٢،۲۰۰۳/۱۴۲۴۔
۔الديلمي،الحسن بن محمد.
۔اعلام الدين في صفات المومنين،تحقيق ونشر موسسۃ آل بيت عليہم السلام لاحياء التراث،ضمن’’سلسلۃ مصادر بحار الانوار،۵‘‘،ط.٢،۱۴۰۹/۱۹۸۸۔
۔الرازي،ابن خطيب الري،فخر الدين ابوعبداللّٰہ(ابو المعالي)محمد بن عمر.(ت.٦٠٦/۱۲۱۰)
۔مناظرۃ في الرد علي النصاري،تحقيق عبد المجيد النجار،دار الغرب الاسلامي،بيروت،١٩٨٦۔
۔الزمخشري،جار اللّٰہ ابو القاسم محمود بن عمر الخوارزمي.(ت.٥٣٨/۱۱۴۴)
۔الکشاف عن حقائق التزيل وعيون الاقاويل في وجوہ التاويل،مطبعۃ مصطفي البابي الحلي،القاہرۃ،د.ت۔
۔السخاوي،شمس الدين ابوالخيرمحمدبن عبدالرحمن.(ت.٩٠٢/۱۴۹۷)۔
۔المقاصد الحسنہ في بيان کثير من الاحاديث المشتھرۃ علي الالسنۃ،تحقيق محمدعثمان الخشت،دار الکتاب العربي،بيروت،ط.٣، ۱۴۱۷/۱۹۹۶۔
۔السموال المغربي،ابو نصرالسموال بن يحيي عباس.(ت.٥٧٠/۱۱۷۴)
۔بذل المجہود في افحام اليہود،علق عليہ: عبد الوہاب طويلۃ،دارالقلم،دمشق،الدار الشاميہ،بيروت،ط.۱۴۱۰،۱۹۸۹۔
۔السيوطي،جلال الدين عبدالرحمن بن ابي بکر.(ت.٩١١/۱۵۰۵)۔
۔الاتقان في علوم القرآن.
۔الجامع الصغيرفي احاديث البشير النذير،دار الکتب العلميۃ،بيروت،ط.١،۱۴۱۰/۱۹۹۰۔
۔الدر المنثورفي تفسيربالماثور،دارالکتب العلميۃ،بيروت،ط.١،۱۴۲۱/۲۰۰۰۔
۔کفايۃ الطالب اللبيب في خصائص الحبيب،المعروف ب’’الخصائص الکبري‘‘،دائرۃ المعارف النظاميہ،حيدر آباد الدکن،ط.١،۱۳۱۹۔١٣٢٠۔
۔معترک الاقران في اعجاز القرآن،تحقيق: علي محمد البجاوي،دار الفکر العربي،دار الثقافۃ العربيۃ للطباعۃ،١٩٦٩۔١٩٧٣۔
شلبي،احمد
۔المسيحيۃ،ضمن موسوعۃ’’مقارنۃ الاديان‘‘(٢)،مکتبۃ النھضۃ المصريۃ،القاہرۃ،ط.١٩٩۰،۸۔
۔الشوکاني،ابوعبداللّٰہ محمدبن علي الصنعاني.(ت.١٢٥٠/۱۸۳۴)۔
۔ارشادالثقات الي اتفاق الشرائع علي التوحيد والمعاد والنبوات،دار الکتب العلميۃ،بيروت،ط.١، ۱۴۰۴/۱۹۸۴۔
۔طاش کبري زادہ،عصام الدين ابو الخير احمد بن مصطفي الرومي.(ت.٩٦٨/۱۵۶۱)
۔مفتاح السعادۃ ومصباح السيادۃ في موضوعات العلوم،دار الکتب العلميۃ،بيروت،ط.١،۱۴۰۵ /۱۹۸۵۔طبارۃ،عفيف۔
۔مع الانبياء في القرآن الکريم ۔
الطبري،ابو الحسن علي بن سہم بن ربن(کان حيا قبل٢٢۷/۸۴۱)
۔الدين والدولۃ في اثبات نبوۃ النبي محمد صلي اللّٰہ عليہ وآلہ وسلم،تحقيق: عادل نويہض،سلسلۃ’’ذخائر التراث العربي‘‘دارالآفاق الجديدۃ،بيروت،ط.٤،۱۴۰۲/۱۹۸۲۔
۔الطبري،ابوجعفرمحمدبن جرير(ت.٣١۰/۹۲۳)
۔تاريخ الطبري(تاريخ الرسل والملوک)،تحقيق: محمد ابو الفضل ابراہيم،سلسلۃ’’ذخائر العرب ۔٣٠‘‘ ،دارالمعارف،القاہرۃ،ط.٤،۱۹۷۹۔عتريسي،جعفرحسن۔
۔التوراۃ والانجيل والقرآن بين الشہادات التاريخيۃ والمعطيعات العلميۃ،دارالہادي،بيروت،ط.١، ۱۴۲۴/۲۰۰۳۔
الغزالي،حجۃ الاسلام ابوحامد محمدبن محمد الطوسي.(ت.٥٠٥/۱۱۱۲)
۔احياء علوم الدين،بھامشہ’’المغني عن حمل الاسفار‘‘لزين الدين عبد الرحيم العراقي،دار الکتب العلميۃ،بيروت،د.ت۔
۔الرد الجميل لالٰہيۃعيسيٰ بصريح الانجيل،تحقيق: محمد عبد اللّٰہ الشرقاوي،دار الجيل،بيروت،مکتبۃ الزہراء،القاہرۃ،ط.٣،ص.١٤١٠/۱۹۹۰۔
الفاسي،ابوعيسي محمد المہدي بن احمد القصري.(ت.١١٠٩/۱۶۹۸)
۔مطالع المسرات بجلاء دلائل الخيرات،المطبعۃ الشرفيۃ المصريۃ،القاہرۃ،.١٢٩٨۔
۔القاري نور الدين علي بن سلطان محمد الہروي.(ت.١٠١٤/۱۶۰۶)
۔المصنوع في معرفۃ الحديث الموضوع(وہو’’الموضوعات الصغري‘‘)،تحقيق: عبد الفتاح ابو غدۃ، دار السلام،بيروت،د.ت۔
۔القاضي عياض،ابو الفضل عياض بن موسي اليحصبي الاندلسي.(ت.٥٤٤/۱۱۴۹)
۔الشفا بتعريف حقوق المصطفي،تحقيق: محمد امين قرہ علي،وآخرين،دار الفيحاء،عمان،ط.٢، ۱۴۰۷/۱۹۸۶۔
۔القرافي،شہاب الدين ابو العباس احمد بن ادريس.(ت.٦٨٤/۱۲۸۵)
۔الاجوبۃ الفاخرۃ عن الاسئلۃ الفاجرۃ في الرد علي اليہود والنصاري، تحقيق: مجدي محمد الشہاوي،مکتبۃ القرآن،القاہرۃ،١٩٩٢۔
۔القمی، سدید الدین ابو الفضل شاذان بن جبرائیل(کان حیافی حدود ۶۵۰/۱۲۵۲)
۔کتاب الفضائل،دار الکاتب للجمیع، بیروت،د.ت۔
۔المسعودی، ابو الحسن علی بن الحسین(ت ۳۴۵/ ۹۵۶)
۔مروج الذھب ومعادن الجوہر ،تحقیق: محمد محی الدین عبد الحمید، دار الفکر،ط۵، ۱۳۹۳/ ۱۹۷۳۔
۔مسلم ،ابو الحسن مسلم بن الحجاج القشیری نیشاپوری(ت۔۲۶۱ / ۸۷۵)
۔صحیح مسلم، تحقیق: فواد عبد الباقی،دار الحدیث ،القاہرہ،ط.۱، ۱۴۱۲ / ۱۹۹۱۔
۔المعری، ابو العلاء احمد بن عبد اللہ التنوخی(ت۔۴۴۹ / ۱۰۵۷ )
۔رسالۃ الغفران، دار صادر، بیروت، د.ت۔
۔الملزوزی، ابو فارس عبد العزیزبن عبد الواحد المرینی(ت۔۶۹۷/ ۱۲۹۸)۔
۔نظم السلوک فی الانبیاء والخلفاء والملوک،المطبعۃ الملکیۃ، الرباط، ۱۳۸۲/ ۱۹۶۳ ۔
۔باب ذکر تا ریخ الانبیاء۔ علیہم السلام۔،مخطوط محفوظ فی الخزانۃ الحسنیہ بالرباط، مسجل تحت رقم"۱۲۷۳۲"، ضمن مجموع، فی الورقۃ ۱۷۴ ب۔
source : http://www.taghrib.ir/urdu/index.php?option=com_content&view=article&id=179:1389-02-21-17-23-58&catid=34:1388-06-09-06-50-26&Itemid=55