حضرت علی(ع) کی خلافت ۳۵ ھ کے آخر میں شروع ھوئی اور تقریباً چار سال نو مھینے جاری رھی ۔ حضرت علی(ع) نے اپنی خلافت کے دوران پیغمبر اکرم (ص)کی سنت کو رائج کیا اور خود بھی اسی طریقہ پر کار بندرھے (1)۔ اسلام میں ان اکثر تبدیلیوں کو جو پھلے خلفائے راشدین کے زمانہ میں پیدا ھوگئی تھیں ،اپنی اصلی حالت میں واپس لائے اور اس کے ساتھ ھی ظالم اور نالائق حاکموں کو جو ایک مدت سے عنان حکومت اپنے ھاتھوں میں لئے ھوئے تھے معزول کردیا (2)یعنی حقیقت میں آپ کی حکومت ایک انقلابی تحریک تھی مگر آپ کے سامنے مشکلات ومسائل کا ایک ڈھیر موجود تھا ۔
حضرت علی(ع) نے اپنی خلافت کے پھلے ھی دن تقریر کرتے ھوئے یوں خطاب فرمایا تھا :
”خبر دار !تم لوگ جن مشکلات و مصائب میں پیغمبر اکرم کی بعثت کے موقع پر گرفتار تھے آج دوبارہ وھی مشکلات تمھیں در پیش ھیں اور انھی مشکلات نے پھر تمھیںگھیرلیا ھے ۔تمھیں چاھئے کہ اپنے آپ کو ٹھیک کرلو صاحبان علم و فضیلت کو سامنے آنا چاھئے جو پیچھے ڈھکیل دئیے گئے ھیں اور وہ لوگ جو ناجائز اور بےجا طور پر سامنے آگئے ھیں ان کو پیچھے ھٹا دینا چاھئے آج حق وباطل کا مقابلہ ھے ، جو شخص اھلیت و صلاحیت رکھتاھے اسے حق کی پیروی کرنی چاھئے اگر آج ھر جگہ باطل کا زور ھے تو یہ کوئی نئی چیز نھیں ھے اور اگر حق کم ھوچکا ھے تو کبھی کبھی ھوتا ھے کہ جو چیز ایک دفعہ ھاتہ سے نکل جائے وہ پھر دوبارہ واپس آجائے ۔،،(نھج البلاغہ خطبہ ۱۵)
حضرت علی(ع) نے اپنی انقلابی حکومت جاری رکھی او رجیسا کہ ھر انقلابی تحریک کا خاصہ ھے کہ مخالف عناصر جن کے مفادات خطرے میں پڑ جاتے ھیں ،ھر طرف سے اس تحریک کے خلاف اٹھ کھڑے ھوتے ھیں ، بالکل ایسے ھی مخالفین نے خلیفہ ٴسوم کے قصاص کے نام پر داخلی انتشار اور خونی جنگوں کا ایک طویل سلسلہ شروع کردیا اور حضرت علی(ع) کے تقریبا ً تمام عھد خلافت کے دوران یہ سلسلہ جار ی رھا۔ شیعوں کے مطابق ان جنگوں کے شروع کرنے والوں کے سامنے ذاتی فوائد اور مفادات کے سوا اور کوئی مقصد نہ تھا اورخلیفہٴسوم کا قصاص صرف ایک عوام فریب حربہ تھا اور اس میں حتی کہ کسی قسم کی غلط فہمی بھی موجود نہ تھی ۔
پھلی جنگ کی وجہ جو جنگ جمل کے نام سے یاد کی جاتی ھے ، طبقاتی امتیازات کے بارے میں مظاھرے تھے جو خلیفہ ٴاول کے زمانے میں بیت المال کی تقسیم میں اختلاف اور فرق کی وجہ سے پیداھوئے تھے ۔ حضرت علی(ع) نے خلیفہ بننے کے بعد بیت المال کو برابر اور مساوی طور پر لوگوں میں تقسیم کیا (3)جیسا کہ پیغمبر اکرم (ص) کی سیرت اور روش بھی یھی تھی ۔اس طریقے سے زبیر اور طلحہ بھت برھم ھوئے اور نافرمانی کی بنیاد ڈالی اور خانۂ کعبہ کی زیارت کے بھانے مدینہ سے مکے چلے گئے ۔ انھوں نے حضر ت عائشہ کو جواس وقت مکہ میں تھیں اور حضرت علی(ع) کے ساتھ ان کے اختلافات موجود تھے ، اپنے ساتھ ملا لیا اوراس طرح خلیفہ سوم کے قصاص کے نام پر خونی تحریک اورجنگ کا آغاز کیا جو جنگ جمل کے نام سے مشھور ھے ۔(4)
حالانکہ یھی طلحہ او رزبیر خلیفہ ٴسوم کے مکان کے محاصرے اور قتل کے وقت مدینہ میں موجود تھے ۔ اس وقت انھوں نے خلیفہ کا ھرگز دفاع نھیں کیا تھا ۔ (5)خلیفہ ٴسوم کے قتل کے فوراً بعد یھی لوگ تھے جنھوں نے سب سے پھلے اپنی اور مھاجرین کی طرف سے حضرت علی(ع) کی بیعت کی تھی ۔(6) اسی طرح حضرت عائشہ بھی خود ان لوگوں میں سے تھیں جنھوں نے خلیفۂ سوم کے قتل پرلوگوں کو ابھارا تھا (7) اورجونھی انھوں نے خلیفۂ سوم کے قتل کی خبر سنی تو ان کو گالیاں دی تھیں او ر خوشی کا اظھار کیا تھا ۔ بنیادی طور پر خلیفہ ٴسوم کے قتل کا اصلی سبب وہ صحابہ تھے جنھوں نے مدینہ سے دوسرے شھروں میں خطوط لکھ کر لوگوں کو خلیفہ کے خلاف ابھارا تھا ۔
دوسری جنگ کی وجہ جس کا نام جنگ صفین تھا او رتقریبا ًڈیڑھ سال تک جاری رھی ،وہ خواھش اور آرزو تھی جو معاویہ اپنی خلافت کے لئے رکھتا تھا ۔ خلیفۂ سوم کے قصاص کے عنوان سے اس نے اس جنگ کو شروع کیا تھا۔ اس جنگ میں ایک لاکہ سے زیادہ افراد ناحق ھلاک ھوگئے تھے۔ البتہ اس جنگ میں معاویہ نے حملہ کیاتھا نہ کہ دفاع کیونکہ قصاص ھرگز دفاع کی صورت میں نھیں ھوسکتا ۔
اس جنگ کا عنوان او رسبب خلیفۂ سوم کا قصاص تھا ۔ حالانکہ خود خلیفۂ سوم نے اپنی زندگی کے آخری ایام اور شورش و بغاوت کے زمانے میں معاویہ سے مدد کی درخواست کی تھی اور اس نے بھی ایک جرار لشکر کے ساتھ مدینہ کی طرف حرکت کی تھی لیکن راستے میں جان بوجہ کر اس قدر دیر کی کہ ادھر خلیفہ کو قتل کردیا گیا ۔ پھر اس واقعہ کے بعد وہ راستے سے ھی شام کی طرف لوٹ گیا اوروھاں جاکر خلیفہ کے قصاص کا دعوی شروع کردیا ۔(8)
افسوس تویہ ھے کہ جب حضرت علی(ع) شھید ھوگئے اورمعاویہ نے خلافت پرقبضہ کرلیا تو اس وقت اس نے خلیفہ کے قصاص کو فراموش کردیا تھا اور خلیفہ کے قاتلوں کو سزا نھیں دی تھی اور نہ ھی ان پر مقدمہ چلایا تھا ۔
جنگ صفین کے بعدجنگ نھروان شروع ھوگئی۔اس جنگ میںلوگوں کی ایک بھت بڑی تعداد جن میں بعض اصحاب رسول بھی تھے، معاویہ کی تحریص وترغیب کی وجہ سے حضرت علی(ع) کے خلاف اٹھ کھڑے ھوئے تھے ۔ انھوں نے اسلامی ممالک میں ھنگامے اور آشوب برپا کردیئے تھے لھذا جھاں کھیں حضرت علی(ع) کے پیروکاروں یا جانبداروں کو دیکھتے فورا ً ان کو قتل کردیتے تھے حتیٰ کہ حاملہ عورتوں کے پیٹ پھاڑ کر بچوں کونکال کران کا سر قلم کردیتے تھے ۔ حضرت علی(ع) نے اس آشوب کا بھی خاتمہ کردیا تھا لیکن تھوڑے ھی عرصے کے بعد کوفہ کی مسجد میں نماز پڑھتے ھوئے ایک خارجی کے ھاتھوں شھید ھوگئے ۔
حوالہ
۱۔ تاریخ یعقوبی ج / ۲ ص / ۱۵۴
۲۔ تاریخ یعقوبی ج / ۲ ص / ۱۵۵ ، مروج الذہب ج / ۲ ص / ۳۶
۳۔ نہج البلاغہ خطبہ /۱۵
۴۔ مروج الذہب ج / ۲ ص / ۳۹۲ ، نہج البلاغہ خطبہ / ۱۲۲ ، تاریخ یعقوبی ج / ۲ ص / ۱۶۰ ، تاریخ ابن ابی الحدید ج / ۱ ص / ۱۸۰
۵۔ تاریخ یعقوبی ج / ۲ ، تاریخ ابی الفداء ج / ۱ ص / ۱۷۲ ، مروج الذہب ج / ۲ ص / ۳۶۶
۶۔ تاریخ یعقوبی ج / ۲ ص / ۱۵۲
۷۔ تاریخ یعقوبی ج / ۲ ص / ۱۵۲ ، تاریخ ابی الفداء ج / ۱ ص / ۱۷۱، تاریخ یعقوبی ج / ۲ ص / ۱۵۲
۸۔ تاریخ یعقوبی ج / ۲ ص / ۱۵۲ ، مروج الذہب ج / ۳ ص / ۲۵ ، تاریخ طبری ص / ۴۰۲ ، مروج الذہب ج / ۲ ص / ۴۱۵
source : http://www.alhassanain.com/urdu/show_articles.php?articles_id=684&link_articles=holy_prophet_and_ahlulbayit_library/lmam_ali/ali_ki_khilafat_ka_tareeqa