گزشتہ صدی سے یہ موضوع مسلسل زیرِ بحث ہے کہ معاشرے میں ” کامیاب عورت“ کون ہوتی ہے؟ مغربی معاشرے میں اُس خاتون کو ”کامیاب عورت“ قرار دیا جاتا ہے جو کامیاب معاش رکھتی ہو، جو مالی طور پر خود مختار ہو اور جو گھر اور کارکی مالک ہو۔ لہٰذا ایسی خواتین اس معاشرے میں رول ماڈل (Role model) کے طور پر جانی جاتی ہیں جو مذکورہ بالا معیار پر پوری اترتی ہوں۔ چنانچہ سابقہ برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیئر کی بیوی اور بظاہر چار بچوں کی ماں چیری بلیئر جو ایک کامیاب وکالت کا کیرئیر(Career) رکھتی ہے، اس کا ذکر اکثر رول ماڈل کے طور پر کیا جاتا رہا ہے۔
اسی طرح اُس معاشرے میں یہ رائے بھی عام ہے کہ باپ یا شوہر پر انحصار کرنا عورت کو معاشرے میں کم تر درجے کا مالک بنا دیتا ہے۔
ساتھ ساتھ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وہ عورت جو ماں یا بیوی ہونے کے ساتھ کوئی بھی ذریعہ معاش نہیں رکھتی اس کی کوئی اہمیت نہیں یا یہ کہ وہ ایک ناکام عورت ہوتی ہے۔ اسی لیے اُس معاشرے میں جب کسی عورت سے یہ سوال کیا جاتا ہے کہ ”آپ کا پیشہ کیا ہے؟“ یا ”آپ کیا کرتی ہیں؟“ تو وہ یہ جواب دیتے ہوئے شرمندگی محسوس کرتیں ہیں کہ” میں صرف ماں ہوں“ یا ”میں ایک گھریلو خاتون ہوں“۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ مغربی معاشرے میں ایک پیشہ ور خاتون کو مالِ جنس (Commodity) کے طور پر دیکھا جاتا ہے اور اس کی اہمیت کا دارومدار اِس چیز پر ہے کہ وہ معیشت میں کتنا حصہ ڈال رہی ہے۔
اسی طرح مغربی معاشرے میں تذکیر و تانیث کا معاشرے میں کردار کے حوالے سے بہت بڑی تبدیلی آئی ہے کہ ایک خاندان میں عورت کو بھی کمانے کا اتنا ہی حق ہونا چاہیے جتنا کہ مرد کو ۔
چنانچہ 1996 میں کیمبرج یونیورسٹی کی رپورٹ کے مطابق لوگوں کی اس بارے میں رائے کہ یہ صرف مرد کا کام ہے کہ وہ اپنے خاندان کی کفالت کرے، 1984میں 65فیصد تھی جو کہ 1994میں کم ہوکر 43 فیصد رہ گئی۔ اس وقت برطانیہ میں 45فیصد خواتین کام کرتی ہیں اور امریکہ میں 78.7فیصد خواتین کام کرتی ہیں۔
جبکہ مغربی حکومتیں کامیاب عورت کے اس معیار کی حوصلہ افزائی کرتی نظر آتی ہیں۔ لہٰذا ایسی عورتوں کی تعریف کی جاتی ہے جو کہ اپنی اس زندگی میں ایک کامیاب کیرئیر حاصل کرچکی ہوں۔ مزید برآں ایسی ماﺅں کے لیے معاشی فوائد کا اعلان بھی کرتیں ہیں جو کام کرنے والوں میں شامل ہونا چاہتی ہیں۔ چنانچہ برطانوی حکومت نے ایک پالیسی بعنوان ”قومی سٹریٹیجی برائے بچوں کی دیکھ بھال“ متعارف کرائی ہے کہ جس کے مطابق بچوں کی دیکھ بھال کے لیے بہت سی جگہیں فراہم کی جائیں گی تاکہ وہ عورتیں جو کام کرتی ہیں اپنے بچوں کو دیکھ بھال کے لیے ان جگہوں پر چھوڑ سکیں۔ اسی طرح انہیں مالی فوائد اور ٹیکس میں چھوٹ بھی دی جاتی ہے تاکہ وہ اپنے بچوں کی دیکھ بھال پر اٹھنے والوں اخراجات کو برداشت کرسکیں۔ چنانچہ ”Full Time Mothers“ نامی تنظیم کا سربراہ جِل کِربی کہتا ہے کہ ” ایسی عورتوں کے لیے مالی فوائد ہیں جو کام کرتی ہیں لیکن گھر بیٹھی عورتوں کے لیے کوئی مالی فائدہ نہیں“
بدقسمتی سے وہ مسلم خواتین جو مغرب میں رہ رہی ہیں وہ اس سوچ سے بہت متاثر ہوئی ہیں کہ اپنی اس زندگی میں ایک کامیاب کیرئیر حاصل کرنا باقی تمام مقاصد سے بڑھ کر ہے۔
وہ بھی اب یہ یقین رکھتی ہیں کہ یہ کیرئیر ہی ہے جو کہ عورت کو معاشرے میں مقام اور عزت بخشتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ شادی دیر سے کرتی ہیں یا وہ شادی کرتی ہی نہیں کیونکہ وہ شادی کو اپنے کیرئیر کی راہ میں رکاوٹ سمجھتی ہیں۔ وہ بچوں کی پیدائش بھی دیر سے کرتی ہیں اور تھوڑے بچے پیدا کرتی ہیں یا بچے پیدا ہی نہیں کرتیں۔ اور وہ خواتین جو کوئی کام نہیں کرتیں وہ اپنے معاشرے کی طرف سے مستقل دباﺅ کا شکار رہتی ہیں کہ انہیں بھی کوئی کام کرنا چاہیے۔ چنانچہ وہاں پر موجود مسلمانوں کی بڑی تعداد اس سوچ سے متاثر ہوچکی ہے۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ بہت سے والدین اپنی بیٹیوں کو کامیاب کیرئیر اختیار کرنے کی ترغیب دیتے ہیں، جبکہ ممکن ہے کہ وہ لڑکی جلدی شادی کرنے کے حق میں ہو اور ماں کا کردار نبھانے کو ترجیح دیتی ہو۔
source : http://www.tebyan.net/index.aspx?pid=136403