شیعہ اجتماعی حیات مضبوط اور پائیدار ہے کیونکہ اس کے تفکرات میں عقیدہ مہدویت کا عنصر شامل ہے اور عقیدہ مہدویت امامت کا تسلسل ہے جبکہ امامت کے عقیدے نے اس مکتب کو زندہ رکھا ہے اور مہدویت اس کی حیات کو دوام بخشتی ہے.
زنجان صوبے کی اسلامی تبلیغات تنظیم کے سربراہ حجت الاسلام والمسلمین علی دشتکی نے کہا ہے کہ امام مہدی علیہ السلام کے ظہور کا انتظار، زمانۂ غیبت میں حیات شیعہ کا بنیادی سبب ہے اور اگر یہ مفاہیم نہ ہوں تو شیعہ کے لئے جینا بےمعنی اور مہمل ہوجائےگا اور اگر یہ مفاہیم اسلامی معاشرے سے سلب کئے جائیں تو اہل تشیع کا مستقل تشخص جاتا رہےگا. کیونکہ شیعہ ظہور کےلئے جیتا ہے؛ ظہور کی خاطر حرکت کرتا ہے اور یہیں سے انتظار کا مفہوم تشکیل پاتا ہے. حیات کا مفہوم انتظار کو جنم دیتا ہے اور انتظار حیات کے لئے سمت کا تعین کرتا ہے؛ اسے جمود اور غفلت سے چھٹکارا دےکر متحرک کردیتا ہے اور شیعہ امام مہدی علیہ السلام کے ظہور و حضور اور عالمی حکومت کی خاطر تمام مصیبتیں جھیل لیتا ہے اور یہ بہت بڑی اور اعلی قدریں ہیں جن کی خاطر ان دشواریوں کو تحمل کیا جاسکتا ہے.
انہوں نے کہا: شیعیان اہل بیت (ع) کی اجتماعی حیات مستحکم اور دائمی اور پائیدار ہے؛ انہوں نے غیبت کے اس طویل عرصے میں ہر قسم کی قابل تصور اور ناقابل تصور صعوبتیں جھیل لی ہیں اور ہرقسم کی ناہمواریوں کو برداشت کیا ہے مگر اپنے تشخص کو کبھی نہیں کھویا ہے. اور جس چیز نے اتنی ساری مشکلات میں اہل تشیع کو زندہ اور پایندہ اور رو بہ ترقی و ارتقاء رکھا ہے وہ مہدی علی علیہ السلام کی حیات و ظہور کا عقیدہ ہے اور اگر یہ عقیدہ نہ ہوتا تو اہل تشیع برسوں نہیں صدیوں قبل نیست و نابود اور تہذیبوں کے قبرستان میں دفن ہوچکے ہوتے.
دیگر ائمہ معصومین علیہم السلام کے دور میں بھی شیعیان اہل بیت (ع) امام مہدی علیہ السلام کے انتظار میں جیتے تھے اور ہمارے ائمہ اسلامی معاشرے کو اپنی امامت کے دنوں سے ہی انتظار مہدی (ع) سے روشناس کراتے رہتے تھے. ائمہ علیہم السلام لوگوں کو ظہور مہدی علیہ السلام کی نوید سنایا کرتے تھے. اور امام مہدی علیہ السلام کا نام اور آپ (ع) کی یاد ائمہ علیہم السلام کے دور میں بھی تشیع کی حیات کا باعث تھی.
انہوں نے کہا: انسان ارتقاء پسند مخلوق ہے؛ انسان با مقصد ہے جو بیہودگی، مہمل پن، اور بےمقصدیت سے گریزان ہے اور ایسی مخلوق کبھی بیہودگی اور بےمقصدیت سے راضی و خوشنود نہیں ہوتی. ایسی مخلوق کی زندگی اگر با مقصد نہ ہو تو اس کے لئے جینا اور زندگی گذارنا ہے بےمعنی ہوجاتا ہے؛ وہ زندہ بھی رہے تو اس کی زندگی کی قدر و قیمت نہ ہوگی اور خداوند متعال سورہ مؤمنون کی آیت 115 میں ارشاد فرماتا ہے: أَفَحَسِبْتُمْ أَنَّمَا خَلَقْنَاکمْ عَبَثًا وَأَنَّکمْ إِلَینَا لَا تُرْجَعُونَ = کیا تو گمان کرتے ہو کہ ہم نے تمہیں بےمعنی اور عبث خلق کیا اور تم ہماری طرف نہیں لوٹوگے؟
چنانچہ ہر معاشرے کی بقاء اور تشخص کی حفاظت و جاویدانگی و پائیداری کے لئے، بقاء و حیات کے لئے معنی و مفہوم کی ضرورت ہے. اور ایک معاشرے کے وجود اور تشخص کی حفاظت کی ضرورت ہے اور یہیں سے اجتماعی حیات معرض وجود میں آتی ہے اور زندگی کا مفہوم علم نفس (Psychology) کی عملداری سے نکل جاتا ہے اور عمرانیات کے دائرے میں داخل ہوجاتا ہے. اجتماعی حیات و تشخص کی بقاء کےلئے مقصدیت کی ضرورت ہے
source : http://itjahan.net