تو ہم ابو الفضل العباس سميت سب جوانوں کو کربلا کے ريگزار پر بے غسل و کفن چھوڑ آئے هيں تو نے اولاد حسين (ع)کے متعلق پوچھا هے تو ان کے سب جوان مارے گئے هيں صرف ايک علي ابن الحسين(ع) باقي هيں جو تيرے سامنے هيں اور بيماري کي وجہ سے اٹھ بيٹھ نهيں سکتے هيں اور جو تو نے زينب کے متعلق دريافت کيا هے تو دل پر ہاتھ رکھ کر سن کہ ميں زينب هو ں اور يہ ميري بہن ام کلثوم هے زينب کا دردناک جواب سن کر ہند کي چيخ نکل گئي اور منہ پيٹ کر کہنے لگي ہائے ميري آقا زادي يہ کيا هو گيا هے ہائے ميرے مولا کا حال کيسا هے ہائے ميرے مظلوم آقا حسين کاش ميں اس سے پہلے اندھي هو جاتي اور فاطمہ کي بيٹيوں کو اس حال ميں نہ ديکھتي ، روتے روتے ہند بے قابو هوگئي اور ايک پتھر اٹھا کر اپنے سر پر اتنے زور سے مارا کہ اس کا سارا بند خون خون هو گيا اور وہ گر يہ کر کے بے هوش هو گئي جب هوش ميں آئي تو زينب اس کي طرف متوجہ هو کر فرمانے لگيں اے ہند تم کھڑي هو جاۆ اور اب اپنے گھر چلي جاۆ کيونکہ تمہارا شوہر يزيد ، بڑا ظالم شخص هے ممکن هے تمهيں اذيت و آزار پهو نچا ئے ہم اپني مصيبت کا وقت گزار ليں گے ہم يہ نهيں چاہتے کہ ہماري وجہ سے تمہارا سکون تباہ هو جائے ہند نے جواب ديا ،کہ خدا مجھے اپنے آقا و مولا حسين سے زيادہ کو ئي چيز عزيز نهيں هے ميري زندگي کا سکون ختم هو چکا هے اور اب ميں اپني زندگي کے باقي لمحات اسي طرح روتے هو ئے گزاروں گي اور اے ميري آقا زاديوں ميں آپ سے درخواست کرتي هوں آپ سب ميرے گھر آئيں ورنہ ميں بھي آپ کے ساتھ يهيں بيٹھي رهوں گي اور قطعاً اپنے گھر نهيں جاۆں گي يہ کہہ کر ہند اٹھ کھڑي هوئي اور اپني چادر اتار کر منہ پيٹتي هو ئي سر برہنہ يزيد کے پاس آگئي يزيد اس وقت سات سو کرسي نشين بيرون ملک کے سفيروں کے ساتھ بيٹھا هوا تھا اپني تعريف ميں محو تھا ہند نے يزيد سے کہا اے يزيد کيا تو نے حکم ديا هے کہ ميرے آقا زادے حسين (ع) کا سر نوک نيزہ پر بلند کرکے دروازے پر لٹکايا جائے نواسہ رسول کا سر ميرے گھر کے دروازے پر ،يزيد نے اپني زوجہ کو اس حالت ميں ديکھا تو فوراً اٹھ کھڑا هوا اور بھرے مجمع ميں اسے سربرہنہ ديکھ کر برداشت نہ کرسکا اسے چادر پنہائي اور کہنے لگا ہاں يہ حکم ميں نے ديا هے اب تو نواسہ رسول پر گريہ و ماتم کرنا چاہتي هے تو بے شک کرلے ليکن حقيقت يہ هے کہ ابن زياد نے جلد بازي سے کام ليتے هوئے حسين کو قتل کرڈالا هے جب يزيد نے يہ چاپلوسي و مکر فريب سے يہ بھرے هوئے جملے کہہ چکا تواس وقت اس نے ہند کو چادر اڑھائي تو ہند نے کہا اے يزيد خدا تجھے تباہ وبربادکرے اپني زوجہ کو بھرے مجمع ميں سربرہنہ ديکھ کرتيري غيرت جاگ اٹھي هے مگر تو رسول زاديوں کو کھلے عام سربرہنہ کرکے بازاروں اور درباروں ميں لايا هے اوران کي چادريں چھين کر انھيں نا محرموں کے سامنے لاتے وقت تيري غيرت کہاں گئي تھي وائے هو اے يزيد تجھ پراسي زينب نے جب چند دنوں کے بعد رہائي پائيں توزندان شام ميں ايک ننھي سي قبر پر سلام کيا اور کہا سکينہ بہت وطن ياد آتا تھا وطن جارهے هيں خداحافظ بيبياں روتي هو ئيں رخصت هو گئيں ہائے سکينہ ہائے سکينہ وامصيبتاہ واغربتاہ.[4]
حوالہ جات :
[1] (خصائص زينبيہ ص 79 وزينب زينب ہے ص.سفينةالبحار جلد 1ص558.)
[2] خصائص زينبيہ :ص52زينب زينب ہے73
[3] صحيفہ وفا :ص113
[4] مصائب زينب زينب ہے ص340تا 359.
تحرير : مولانا سيد اشتياق حسين کربلائي
پيشکش : الحسنين ڈاٹ کام
source : www.tebyan.net