اردو
Monday 19th of August 2024
0
نفر 0

حضرت امام جعفرصادق (علیہ السلام

 

علماء فریقین کااتفاق ہے کہ بتاریخ ۲۵/ شوال ۱۴۸ ھ بعمر ۶۵ سال آپ نے اس دار فانی سے بطرف ملک جاودانی رحلت فرمائی ہے، یوم وفات دوشنبہ تھا اور مقام دفن جنت البقیع ہے ۔علماء اہل تشیع کااتفاق ہے کہ آپ کو منصور دوانقی نے زہر سے شہید کرایا تھا....

آپ کی ولادت باسعادت

آپ بتاریخ ۱۷/ ربیع الاول ۸۳ ھ مطابق ۲۰۷ ءیوم دوشنبہ مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے (ارشادمفیدفارسی ص ۴۱۳ ،اعلام الوری ص ۱۵۹ ،جامع عباسی ص ۶۰ وغیرہ) ۔

آپ کی ولادت کی تاریخ کوخداوندعالم نے بڑی عزت دے رکھی ہے احادیث میں ہے کہ اس تاریخ کوروزہ رکھناایک سال کے روزہ کے برابرہے ولادت کے بعدایک دن حضرت امام محمدباقرعلیہ السلام نے فرمایاکہ

آپ کی ولادت کی تاریخ کوخداوندعالم نے بڑی عزت دے رکھی ہے احادیث میں ہے کہ اس تاریخ کوروزہ رکھناایک سال کے روزہ کے برابرہے ولادت کے بعدایک دن حضرت امام محمدباقرعلیہ السلام نے فرمایاکہ میرایہ فرزندان چندمخصوص افراد میں سے ہے جن کے وجود سے خدانے بندوں پراحسان فرمایاہے اوریہی میرے بعد میراجانشین ہوگا(جنات الخلوج ص ۲۷) ۔

علامہ مجلسی لکھتے ہیں کہ جب آپ بطن مادرمیں تھے تب کلام فرمایاکرتے تھے ولادت کے بعدآپ نے کلمہ شہادتین زبان پرجاری فرمایاآپ بھی ناف بریدہ اورختنہ شدہ پیداہوئے ہیں (جلاء العیون ص ۲۶۵) ۔ آپ تمام نبوتوں کے خلاصہ تھے ۔

اسم گرامی ،کنیت ،القاب

آپ کااسم گرامی جعفر، آپ کی کنیت ابوعبداللہ ،ابواسماعیل اورآپ کے القاب صادق،صابروفاضل، طاہروغیرہ ہیں علامہ مجلسی رقمطرازہیں کہ آنحضرت نے اپنی ظاہری زندگی میں حضرت جعفربن محمدکولقب صادق سے موسوم وملقب فرمایاتھا اوراس کی وجہ بظاہریہ تھی کہ اہل آسمان کے نزدیک آپ کالقب پہلے ہی سے صادق تھا (جلاء العیون ص ۲۶۴) ۔

علامہ ابن خلکان کاکہناہے کہ صدق مقال کی وجہ سے آپ کے نام نامی کاجزو”صادق“ قرارپایاہے  (وفیات الاعیان جلد ۱ ص ۱۰۵) ۔

جعفرکے متعلق علماء کابیان ہے کہ جنت میں جعفرنامی ایک شیرین نہرہے اسی کی مناسبت سے آپ کایہ لقب رکھاگیاہے چونکہ آپ کافیض عام   نہرجاری کی طرح تھا اسی لیے اس لقب سے ملقب ہوئے (ارجح المطالب ص ۳۶۱ ،بحوالہ تذکرة الخواص الامة) ۔

علامہ ابن حجرمکی اورعلامہ شبلنجی رقمطرازہیں کہ اعیان آئمہ میں سے ایک جماعت مثل یحی بن سعیدبن جریح، امام مالک، امام سفیان ثوری بن عینیہ،امام ابوحنیفہ ،ایوب سجستانی نے آپ سے حدیث اخذکی ہے ،ابوحاتم کاقول ہے کہ امام جعفرصادق  ایسے ثقہ هیں لایسئل عنہ مثلہ کہ آپ ایسے شخصوں کی نسبت کچھ تحقیق اوراستفساروتفحص کی ضرورت ہی نہیں ،آپ ریاست کی طلب سے بے نیازتھے اورہمیشہ عبادت گزاری میں بسرکرتے رہے ،عمرابن مقدام کاکہناہے کہ جب میں امام جعفرصادق علیہ السلام کودیکھتاہوں تومجھے معاخیال ہوتاہے کہ یہ جوہر رسالت کی اصل وبنیادہیں (صواعق محرقہ ص ۱۲۰ ،نورالابصار، ص ۱۳۱ ،حلیة الابرارتاریخ آئمہ ص ۴۳۳) ۔

بادشاہان وقت

آپ کی ولادت ۸۳ ھ میں ہوئی ہے اس وقت عبدالملک بن مروان بادشاہ وقت تھا پھرولید،سلیمان،عمربن عبدالعزیز،یزیدبن عبدالملک ،ہشام بن عبدالملک،ولیدبن یزیدبن عبدالملک ،یزیدالناقص، ابراہیم ابن ولید،اورمروان الحمار،علی الترتیب خلیفہ مقررہوئے مروان الحمارکے بعدسلطنت بنی امیہ کاچراغ گل ہوگیا اوربن عباس نے حکومت پرقبضہ کرلیا،بنی عباس کاپہلابادشاہ ابوالعباس ،سفاح اوردوسرا منصور دوانقی ہواہے ۔ملاحظہ ہو(اعلام الوری) تاریخ ابن الوردی ،تاریخ ائمہ ص ۴۳۶) ۔

اسی منصورنے ابنی حکومت کے دوسال گزرنے کے بعدامام جعفرصادق علیہ السلام کوزہرسے شہیدکردیا(انوارالحسینہ جلد ۱ ص ۵۰) ۔

عبدالملک بن مروان کے عہدمیں آپ کاایک مناظرہ

حضرت امام جعفرصادق علیہ السلام نے بے شمارعلمی مناظرے فرمائے ہیں آپ نے دہریوں، قدریوں،کافروں اوریہودیوں ونصاری کوہمیشہ شکست فاش دی ہے کسی ایک مناظرہ میں بھی آپ پرکوئی غلبہ حاصل نہیں کرسکا،عہدعبدالملک بن مروان کاذکرہے کہ ایک قدریہ مذہب کامناظراس کے دربارمیں آکرعلماء سے مناظرہ کاخوہشمندہوا،بادشاہ نے حسب عادت اپنے علماء کوطلب کیااوران سے کہاکہ اس قدریہ مناظرسے مناظرہ کروعلماء نے اس سے کافی زورآزمائی کی مگروہ میدان مناظرہ کاکھلاڑی ان سے نہ ہارسکا، اورتمام علماء عاجزآگئے اسلام کی شکست ہوتے ہوئے دیکھ کر عبدالملک بن مروان نے فورا ایک خط حضرت امام محمدباقرعلیہ السلام کی خدمت میں مدینہ روانہ کیااوراس میں تاکیدکی کہ آپ ضرورتشریف لائیں حضرت امام محمدباقرکی خدمت میں جب اس کاخط پہنچاتوآپ نے اپنے فرزندحضرت امام جعفرصادق علیہ السلام سے فرمایاکہ بیٹامیں ضعیف ہوچکاہوں تم مناظرہ کے لیے شام چلے جاؤ حضرت اما م جعفرصادق علیہ السلام اپنے پدربزرگوارکے حسب الحکم مدینہ سے روانہ ہوکرشام پہنچ گئے ۔

عبدالملک بن مروان نے جب امام محمدباقرعلیہ السلام کے بجائے امام جعفرصادق علیہ السلام کودیکھاتوکہنے لگاکہ آپ ابھی کم سن ہیں اوروہ بڑاپرانامناظر ہے ،ہوسکتاہے کہ آپ بھی اورعلماء کی طرح شکست کھاجائیں ،اس لیے مناسب نہیں کہ مجلس مناظرہ منعقدکی جائے حضرت نے ارشادفرمایا،بادشاہ توگھبرا نہیں، اگرخدانے چاہاتومیں صرف چندمنٹ میں مناظرہ ختم کردوں گاآپ کے ارشادکی تائیددرباریوں نے بھی کی اورموقعہ مناظرہ پرفریقین آگیے ۔

چونکہ قدریوں کااعتقادہے کہ بندہ ہی سب کچھ ہے، خداکوبندوں کے معاملہ میں کوئی دخل نہیں،اورنہ خداکچھ کرسکتاہے یعنی خداکے حکم اورقضاوقدروارادہ کوبندوں کے کسی امرمیں دخل نہیں لہذا حضرت نے اس کی پہلی کرنے کی خواہش پرفرمایاکہ میں تم سے صرف ایک بات کہنی چاہتاہوں اوروہ یہ ہے کہ تم ”سورہ حمد“پڑھو،اس نے پڑھناشروع کیا جب وہ ”ایاک نعبدوایاک نستعین“ پرپہنچاجس کاترجمہ یہ ہے کہ میں صرف تیری عبادت کرتاہوں اوربس تھجی سے مدد چاہتاہوں توآپ نے فرمایا،ٹہرجاؤاورمجھے اس کاجواب دوکہ جب خداکوتمہارے اعتقاد کے مطابق تمہارے کسی معاملہ میں دخل دینے کاحق نہیں توپھرتم اس سے مدد کیوں مانگتے ہو، یہ سن کروہ خاموش ہوگیااورکوئی جواب نہ دے سکا،بالآخرمجلس مناظرہ برخواست ہوگئی اوربادشاہ نے بے حدخوش ہوا(تفسیر برہان جلد ۱ ص ۳۳) ۔

ابوشاکردیصانی کاجواب

ابوشاکردیصانی جولامذہب تھا حضرت سے کہنے لگاکہ کیاآپ خداکاتعارف کراسکتے ہیں اوراس کی طرف میری رہبری فرماسکتے ہیں آپ نے ایک طاؤس کا انڈا ہاتھ میں لے کرفرمایادیکھواس کی بالائی ساخت پرغورکرو،اوراندرکی بہتی ہوئی زردی اورسفیدی کابنظرغائردیکھواوراس پرتوجہ دوکہ اس میں رنگ برنگ کے طائرکیوں کرپیداہوجاتے ہیں کیاتمہاری عقل سلیم اس کوتسلیم نہیں کرتی کہ اس انڈے کااچھوتے اندازمیں بنانے والااوراس سے پیداکرنے والاکوئی ہے، یہ سن کروہ خاموش ہوگیااوردہریت سے بازآیا ۔

اسی دیصانی کاواقعہ ہے کہ اس نے ایک دفعہ آپ کے صحابی ہشام بن حکم کے ذریعہ سے سوال کیاکہ کیایہ ممکن ہے ؟کہ خداساری دنیاکوایک انڈے میں سمودے اورنہ انڈابڑھے اورنہ دنیاگھٹے آپ نے فرمایابے شک وہ ہرچیزپرقادرہے اس نے کہاکوئی مثال؟ فرمایامثال کے لیے مردمک چشم آنکھ کی چھوٹی پتلی کافی ہے اس میں ساری دنیاسماجاتی ہے ،نہ پتلی بڑھتی ہے نہ دنیاگھٹتی ہے (اصول کافی ص ۴۳۳ ،جامع الاخبار) ۔

۱۱۳ ھ میں امام جعفرصادق کاحج

علامہ ابن حجرمکی لکھتے ہیں کہ آپ نے ۱۱۳ ھئمیں حج کیااوروہاں خداسے دعا کی، خدا نے بلافصل انگوراوردوبہترین ردائیں بھیجیں آپ نے انگورخودبھی کھایااور لوگوں کوبھی کھلایا اورردائیں ایک سائل کودیدیں۔

اس وقعہ کی مختصرتفصیل یہ ہے کہ بعث بن سعدسنہ مذکورہ میں حج کے لیے گئے وہ نماز عصرپڑھ کرایک دن کوہ ابوقبیس پرگئے وہاں پہنچ کردیکھاکہ ایک نہایت مقدس شخص مشغول نمازہے، پھرنمازکے بعدوہ سجدہ میں گیااوریارب یارب کہہ کرخاموش ہوگیا،پھریاحی یاحی کہااورچپ ہوگیا،پھریارحیم یارحیم کہااورخاموش ہوگیا پھریاارحم الراحمین کہہ کرچپ ہوگیا پھربولاخدایامجھے انگورچاہئے اورمیری ردابوسیدہ ہوگئی ہے دوردائیں درکارہیں ۔

راوی حدیث بعث کہتاہے کہ یہ الفاظ ابھی تمام نہ ہوئے تھے کہایک تازہ انگوروں سے بھری ہوئی زنبیل آموجوہوئی دراس پردوبہترین چادریں رکھی ہوئی تھیں اس عابدنے جب انگورکھاناچاہاتومیں نے عرض کی حضورمیں امین کہہ رہاتھا مجھے بھی کھلائیے ،انہوں نے حکم دیامیں نے کھاناشروع کیا،خداکی قسم ایسے انگور ساری عمرخواب میں بھی نہ نظرآئے تھے پھرآپ نے ایک چادرمجھے دی میں نے کہامجھے ضرورت نہیں ہے اس کے بعدآپ نے ایک چادرپہن لی اورایک اوڑھ لی پھرپہاڑسے اترکرمقام سعی کی طرف گئے میں ان کے ہمراہ تھاراستے میں ایک سائل نے کہا،مولامجھے چادردیجئے خداآپ کوجنت لباس سے آراستہ کرے گاآپ نے فورادونوں چادریں اس کے حوالے کردیں میں نے اس سائل سے پوچھایہ کون ہیں؟ اس نے کہاامام زمانہ حضرت امام جعفرصادق علیہ السلام یہ سن کرمیں ان کے پیچھے دوڑاکہ ان سے مل کرکچھ استفادہ کروں لیکن پھروہ مجھے نہ مل سکے (صواعق محرقہ ص ۱۲۱ ،کشف الغمہ ص ۶۶ ، مطالب السؤل ص ۲۷۷) ۔

حضرت صادق آل محمدکے فلک وقارشاگرد

حضرت امام جعفرصادق علیہ السلام کے شاگردوں کاشمارمشکل ہے بہت ممکن ہے کہ آئندہ سلسلہ تحریرمیں اپ کے بعض شاگردوں کاذکرآتاجائے ، عام مورخین نے بعض ناموں کوخصوصی طورپرپیش کرکے آپ کی شاگردی کی سلک میں پروکرانہیں معززبتایاہے ۔

مطالب السؤل،صواعق محرقہ،نورالابصار وغیرہ میں ہے کہ امام ابوحنیفہ، یحی بن سعیدانصاری،ابن جریح، امام مالک ابن انس ،امام سفیان ثوری،سفیان بن عینیہ،ایوب سجستانی وغیرہ کاآپ کے شاگردوں میں خاص طورپرذکرہے(تاریخ ابن خلکان جلد ۱ ص ۱۳۰ ،خیرالدین زرکلی کی الاعلام ص ۱۸۳ ،طبع مصر محمدفرید وجدی کی ادارہ معارف القرآن کی جلد ۳ ص ۱۰۹/ طبع مصرمیں ہے  وکان تلمیذہ ابوموسی جابربن حیان الصوفی الطرسوسی  آپ کے شاگردوں میں جابربن حیان صوفی طرسوسی بھی ہیں۔

آپ کے بعض شاگردوں کی جلالت قدراوران کی تصانیف اورعلمی خدمات پرروشنی ڈالنی توبے انتہادشوارہے اس لیے اس مقام پرصرف جابربن حیان طرسوسی جوکہ انتہائی باکمال ہونے کے باوجودشاگردامام کی حیثیت سے عوام کی نظروں سے پوشیدہ ہیں کاذکرکیاجاتاہے ۔

امام الکیمیاجناب جابرابن حیان طرسوسی ۔

آپ کاپورانام  ابوموسی جابربن حیان بن عبدالصمد الصوفی الطرسوسی الکوفی ہے آپ ۷۴۲ ءء میں پیداہوئے اور ۸۰۳ ءء میں انتقال فرماگئے بعض محققین نے آپ کی وفات ۸۱۳ ءء بتائی ہے لیکن ابن ندیم نے ۷۷۷ ءء لکھاہے انسائیکلوپیڈیا آف اسلامک ہسٹری میں ہے کہ استاداعظم جابربن حیان بن عبداللہ ،عبدالصمد کوفہ میں پیداہوئے وہ طوسی النسل تھے اورآزادنامی قبیلہ سے تعلق رکھتے تھے خیالات میں صوف تھا اوریمن کارہنے والاتھا،اوئل عمرمیں علم طبیعیات کی تعلیم اچھی طرح حاصل کرلی اورامام جعفرصادق ابن امام محمدباقرکی فیض صحبت سے امام الفن ہوگیا ۔

تاریخ کے دیکھنے سے معلوم ہوتاہے کہ جابربن حیان نے امام جعفرصادق علیہ السلام کی عظمت کااعتراف کرتے ہوئے کہاہے کہ ساری کائنات میں کوئی ایسا نہیں جوامام کی طرح سارے علوم پربول سکے الخ ۔

تاریخ آئمہ میں حضرت امام جعفرصادق علیہ السلام کی تصنیفات کاذکرکرتے ہوئے لکھاہے کہ حضرت امام جعفرصادق علیہ السلام نے ایک کتاب کیمیاجفررمل پرلکھی تھی حضرت کے شاگردومشہورومعروف کیمیاگرجابربن حیان جویورپ میں جبرکے نام سے مشہورہیں جابرصوفی کالقب دیاگیاتھا اورذوالنون مصری کی طرح وہ بھی علم باطن سے ذوق رکھتے تھے، ان جابرابن حیان نے ہزاروں ورق کی ایک کتاب تالیف کی تھی جس میں حضرت امام جعفرصادق کے پانچ سو رسالوں کوجمع کیاتھا،علامہ ابن خلکان کتاب وفیات الاعیان جلد ۱ ص ۱۳۰ طبع مصر میں حضرت امام جعفرصادق علیہ السلام کاذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ :

حضرت امام جعفرصادق علیہ السلام کے مقالات علم کیمیااورعلم جفروفال میں موجودہیں اورجابربن حیان طرسوسی آپ کے شاگردتھے، جنہوں نے ایک ہزار ورق کی کتاب تالیف کی تھی، جس میں امام جعفرصادق علیہ السلام کے پانچ سورسالوں کوجمع کیاتھا ،علامہ خیرالدین زرکلی نے بھی الاعلام جلد ۱ ص ۱۸۲ طبع مصرمیں یہی کچھ لکھاہے ،اس کے بعدتحریرکیاہے کہ ان کی بے شمارتصانیف ہیں جن کاذکرابن ندیم نے اپنی فہرست میں کیاہے علامہ محمدفریدوجدی نے دائرئہ معارف القرآن الرابع عشر کی ج ۳ ص ۹۰۱ طبع مصرمیں بھی لکھاہے کہ جابربن حیان نے امام جعفرصادق کے پانچ سو رسائل کوجمع کرکے ایک کتاب ہزارصفحے کی تالیف کی تھی ،علامہ ابن خلدون نے بھی مقدمہ ابن خلدون مطبوعہ مصرص ۳۸۵ میں علم کیمیامیں علم کیمیاکاذکرکرتے ہوئے جابربن حیان کاذکرکیاہے اورفاضل ہنسوی نے اپنی ضخیم کتاب اورکتاب خانہ غیرمطبوعہ میں بحوالہ مقدمہ ابن خلدون ص ۵۷۹ طبع مصرمیں لکھاہے کہ جابربن حیان علم کیمیاکے مدون کرنے والوں کاامام ہے، بلکہ اس علم کے ماہرین نے اس کو جابرسے اتنامخصوص کردیاہے کہ ا س علم کانام ہی ”علم جابر“ رکھ دیاہے (الجوادشمارہ ۱۱ جلد ۱ ص ۹) ۔

مورخ ابن القطفی لکھتے ہیں کہ جابربن حیان کوعلم طبیعات اورکیمیامیں تقدم حاصل ہے ان علوم میں اس نے شہرئہ افاق کتابیں تالیف کی ہیں ان کے علاوہ علوم فلسلہ وغیرہ میں شرف کمال پرفائزتھے اوریہ تمام کمالات سے بھرپورہونا علم باطن کی پیروی کانتیجہ تھا ملاحظہ ہو (طبقات الامم ص ۹۵ واخبارالحکماص ۱۱۱ طبع مصر) ۔

پیام اسلام جلد ۷ ص ۱۵ میں ہے کہ یہ وہی خوش قسمت مسلمان ہے جسے حضرت امام جعفرصادق علیہ السلام کی شاگردی کاشرف حاصل تھا،اس کے متعلق جنوری ۲۵ ء میں سائنس پروگریس نوشتہ جے ہولم یارڈایم ائے ایف آئی سی آفیسر اعلی شعبئہ سائنس کفٹن کالج برسٹل نے لکھاہے کہ علم کیمیا کے متعلق زمانہ وسطی کی اکثرتصانیف ملتی ہیں جن میں گیبرکاذکرآتاہے اورعام طورپرگیبرابن حین اوربعض دفعہ گیبرکی بجائے جیبربھی دیکھاگیاہے اورگیبریاجیبردراصل جابرہے، چنانچہ جہاں کہیں بھی لاطینی کتب میں گیبرکاذکرآتاہے وہاں مرادعربی ماہرکیمیاجابربن حیان ہی ہے جسے() کے بجائے() کاآناجانا آسانی سے سمجھ میں آجاتاہے لاطینی میں جے کے مترادف کوئی آوازاوربعض علاقوں مثلا مصر وغیرہ میں جے کواب بھی بطور(جی) یعنی (گ) استعمال کیاجاتا ہے اس کے علاوہ خلیفہ ہارون رشیدکے زمانے میں سائنس کیمسٹری وغیرہ کاچرچہ بہت ہوچکاہے اوراس علم کے جاننے والے دنیاکے گوشہ گوشہ سے کھینچ کر دربارخلافت سے منسلک ہورہے تھے جابربن حیان کازمانہ بھی کم وبیش اس ہی دورمیں پھیلاتھا پچھلے بیس پچیس سال میں انگلستان اورجرمنی میں جابرکے متعلق بہت سی تحقیقات ہوئی ہیں لاطینی زبان میں علم کیمیاکے متعلق چندکتب سینکڑوں سال سے اس مفکرکے نام سے منسوب ہیں جس میں مخصوص ۱ ۔ سما ۲ ۔ برفیکشن ۳ ۔ ڈی انویسٹی پرفیکشن ۴ ۔ڈی انویسٹی گیشن ورٹیلس ۵ ۔ ٹٹیابہن لیکن ان کتابوں کے متعلق اب تک ایک طولانی بحث ہے اوراس وقت مفکرین یورپ انہیں اپنے یہاں کی پیداواربتاتے ہیں اس لیے انہیں اس کی ضرورت محسوس ہوتی ہے جابرکوحرف (جی)(گ) سے پکاریں اوربجائے عربی النسل کے اسے یورپین ثابت کریں۔

حالانکہ سماکے کئی طبع شدہ ایڈیشنوں میں گیبرکوعربی ہی کہاگیاہے رسل کے انگریزی ترجمہ میں اسے ایک مشہورعربی شہزادہ اورمنطقی کہاگیاہے ۱۵۴۱ ء میں کی نورن برگ کے ایڈیشن میں وہ صرف عرب ہے اسی طرح اوربہت سے قلمی نسخے ایسے مل جاتے ہیں جن میں کہیں اسے ایرانیوں کے بادشاہ سے یادکیاگیاہے کسی جگہ اسے شاہ بندکہاگیاہے ان اختلافات سے سمجھ میں آتاہے کہ جابربراعظم ایشیاسے نہ تھا بلکہ اسلامی عرب کاایک درخشندہ ستارہ تھا ۔

انسائکلوپیڈیاآف اسلامک کیمسٹری کے مطابق جعفربرمکی کے ذریعہ سے جابربن حیان کاخلیفہ ہارون الرشیدکے دربارمیں آناجاناشروع ہوگیاچنانچہ انہوں نے خلیفہ کے نام سے علم کیمیامیں ایک کتاب لکھی جس کانام ”شگوفہ“ رکھااس کتاب میں اس نے علم کیمیاکے جلی وخفی پہلوؤں کے متعلق نہایت مختصرطریقے نہایت ستھراطریق عمل اورعجیب وغریب تجربات بیان کئے جابرکی وجہ ہی سے قسطنطنیہ سے دوسری دفعہ یونانی کتب بڑی تعدادمیں لائی گئیں ۔

منطق میں علامہ دہرمشہورہوگیا اورنوے سال سے کچھ زائدعمرمیں اس نے تین ہزارکتابیں لکھیں اوران کتابوں میں سے وہ بعض پرنازکرتاتھا اپنی کسی تصنیف کے بارے میں اس نے لکھا ہے کہ ”روئے زمین پرہماری اس کتاب کے مثل ایک کتاب بھی نہیں ہے نہ آج تک ایسی کتاب لکھی گئی ہے اورنہ قیامت تک لکھی جائے گی (سرفراز ۲/ دسمبر ۱۹۵۲ ء) ۔

فاضل ہنسوی اپنی کتاب”وکتاب خانہ“ میں لکھتے ہیں کہ جابرکے انتقال کے بعد دوبرس بعدعزالدودولہ ابن معزالدولہ کے عہدمیں کوفہ کے شارع باب الشام کے قریب جابرکی تجربہ گاہ کاانکشاف ہواچکاتھا جس کوکھودنے کے بعدبعض کیمیاوی چیزیں اورآلات بھی دستیاب ہوئے ہیں(فہرست ابن الندیم ۴۹۹) ۔

جابرکے بعض قدیمی مخطوطات برٹش میوزیم میں اب تک موجودہیں جن میں سے کتاب الخواص قابل ذکرہے اسی طرح قرون وسطی میں بعض کتابوں کاترجمہ لاطینی میں کیاگیامنجملہ ”ان تراجم کے کتاب“ سبعین بھی ہے جوناقص وناتمام ہے اسی طرح ”البحث عن الکمال“ کاترجمہ بھی لاطینی میں کیاجاچکاہے یہ کتاب لاطینی زبان میں کیمیاپریورپ کی زبان میں سب سے پہلی کتاب ہے اسی طرح اوردوسری کتابیں بھی مترجم ہوئیں جابرنے کیمیاکے علاوہ طبیعیات،ہیئت،علم رویا،منطق،طب اوردوسرے علوم پربھی کتابیں لکھیں اس کی ایک کتاب سمیات پربھی ہے ۔

یوسف الیاس سرکس صاحب معجم المطبوعات بتلاتے ہیں کہ جابربن حیان کی ایک نفیس کتاب سمیات بربھی ہے جوکتب خانہ تیموریہ قاہرہ مصرمیں بہ ضمن مخطوطات ہے ان میں چندایسے مقالات کوجوبہت مفیدتھے بعدکرئہ حروف نے رسالہ مقتطف جلد ۵۸،۵۹ میں شائع کیاہے ملاحظہ ہو(معجم ا لمطبوعات العربیہ المعربہ جلد ۳ حرف جیم ص ۶۶۵) ۔

جابربحیثیت ایک طبیب کے کام کرتاتھا لیکن اس کی طبی تصانیف ہم تک نہ پہنچ سکیں ،حالانکہ اس مقالہ کا لکھنے والایعنی ڈاکٹر ماکس می یرہاف نے جابرکی کتاب کوجوسموم پرہے حال ہی میں معلوم کرلیاہے ۔

جابرکی ایک کتاب جس کومع متن عربی اورترجمہ فرانسیسی پول کراؤ متشرق نے ۱۹۳۵ ء میں شائع کیاہے ایسی بھی ہے جس میں اس نے تاریخ انتشارآراوعقائد وافکارہندی ،یونانی اوران تغیرات کاذکرکیاہے جومسلمانوں نے کئے ہیں اس کتاب کانام ”اخراج مافی القوة الی الفعل “ ہے (الجوادج ۹،۱۰ ص ۱۰ طبع بنارس) ۔

امام جعفرصادق علیہ السلام کادربارمنصورمیں ایک طبیب ہندی سے تبادلہ خیالات

علامہ رشیدالدین ابوعبداللہ محمدبن علی بن شہرآشوب مازندرانی المتوفی ۵۸۸ ء نے دربارمنصورکاایک اہم واقعہ نقل فرمایاہے جس میں مفصل طورپریہ واضح کیاہے کہ ایک طبیب جس کواپنی قابلیت پربڑابھروسہ اورغرورتھا وہ امام جعفرصادق علیہ السلام کے سامنے کس طرح سپرانداختہ ہوکرآپ کے کمالات کامعترف ہوگیاہم موصوف کی عربی عبارت کاترجمہ اپنے فاضل معاصرکے الفاظ میں پیش کرتے ہیں:

ایک بارحضرت امام جعفرصادق علیہ السلام منصوردوانقی کے دربارمیں تشریف فرماتھے، وہاں ایک طبیب ہندی کی باتیں بیان کررہاتھا اورحضرت خاموش بیٹھے سن رہے تھے جب وہ کہہ چکاتوحضرت سے مخاطب ہوکرکہنے لگا اگرکچھ پوچناچاہیں توشوق سے پوچھیں، آپ نے فرمایا،میں کیاپوچھوں ،مجھے تجھ سے زیاد ہ معلوم ہے (طبیب اگریہ بات ہے تومیں بھی کچھ سنوں ۔

امام : جب کسی مرض کاغلبہ ہوتواس کاعلاج ضدسے کرناچاہئے یعنی حارگرم کاعلاج سردسے ترکاخشک سے ،خشک کاترسے اورہرحالت میں اپنے خداپربھروسہ رکھے یادرکھ معدہ تمام بیماریوں کاگھرہے اورپرہیزسودواں کی ایک دواہے جس چیزکاانسان عادی ہوجاتاہے اس کے مزاج کے موافق اورا سکی صحت کاسبب بن جاتی ہے ۔

طبیب: بے شک آپ نے جوبیان فرمایاہے اصلی طب ہے ۔

امام : اچھامیں چندسوال کرتاہوں،ان کاجواب دے : آنسووں اوررطوبتوں کی جگہ سرمیں کیوں ہے؟ سرپربال کیوں ہے؟ پیشانی بالوں سے خالی کیوں ہے؟ پیشانی پرخط اورشکن کیوں ہے؟ دونوں پلکیں آنکھوں کے اوپرکیوں ہیں؟ ناک کاسوراخ نیچے کی طرف کیوں ہے؟ منہ پردوہونٹ کیوں بنائے گئے ہیں؟ سامنے کے دانت تیزاورڈاڈھ چوڑی کیوں ہے؟ اوران دونوں کے درمیان میں لمبے دانت کیوں ہیں؟ دونوں ہتھیلیاں بالوں سے خالی کیوں ہیں؟

مردوں کے ڈاڈھی کیوں ہوتی ہے؟ ناخن اوربالوں میں جان کیوں نہیں؟ دل صنبوری شکل کاکیوں ہوتاہے؟ پھیپڑے کے دوٹکڑے کیوں ہوتے ہیں،اوروہ اپنی جگہ حرکت کیوں کرتاہے ؟ جگرکی شکل محدب کیوں ہے ،گردے کی شکل لوبئے کے دانے کی طرح کیوں ہوتی ہے گھٹنے آگے کوجھکتے ہیں پیچھے کوکیوں نہیں جھکتے؟ دونوں پاوں کے تلوے بیچ سے خالی کیوں ہیں؟

طبیب: میں ان باتوں کاجواب نہیں دے سکتا ۔

امام : بفضل خدامیں ان سب باتوں کاجواب جانتاہوں ۔ طبیب بیان فرمائیے ۔

امام علیہ السلام : ۱ ۔ سراگرآنسوؤں اوررطبوتوں کامرکزنہ ہوتاتوخشکی کی وجہ سے ٹکڑے ٹکڑے ہوجاتا ۔

۲ ۔  بال اس لیے سرپرہیں کہ ان کی جڑوں سے تیل وغیرہ دماغ تک پہنچتارہے اوربہت سے دماغی انجرے نکلتے رہیںدماغ گرمی اورزیادہ سردی سے محفوظ رہے ۔

۳ ۔  پیشانی اس لیے بالوں سے خالی ہے کہ اس جگہ سے آنکھوں میں نور پہنچتاہے ۔

۴ ۔  پیشانی میں خطوط اورشکن اس لیے ہیں کہ سرسے جوپشینہ گرے وہ آنکھوں میں نہ پڑجائے ،جب شکنوں میں پسینہ جمع ہوتوانسان اسے پونچھ کرپھینک دے جس طرح زمین پرپانی جاری ہوتاہے توگڑھوں میں جمع ہوجاتاہے ۔

۵ ۔  پلکیں اس لیے آنکھوں پرقراردی گئی ہیں کہ آفتاب کی روشنی اسی قدران پر پڑے جتنی کہ ضرورت ہے اوربوقت ضرورت بندہوکرمردمک چشم کی حفاظت کرسکیں نیزسونے میں مدد دے سکیں، تم نے دیکھاہوگاکہ جب انسان زیادہ روشنی میں بلندی کی طرف کسی طرف کسی چیزکودیکھناچاہتاہے توہاتھ کوآنکھوں کے اوپررکھ کرسایہ کرلیتاہے ۔

۶ ۔  ناک دونوں آنکھوں کے بیچ میں اس لیے قراردیاہے کہ مجمع نورسے روشنی تقسیم ہوکربرابردونوں آنکھوں کوپہنچے ۔

۷ ۔  آنکھوں کوبادامی شکل کااس لیے بنایاہے کہ بوقت ضرورت سلائی کے ذریعہ سے دوا(سرمہ وغیرہ) اس میں آسانی سے پہنچ جائے،اگرآنکھ چوکور یاگول ہوتی توسلائی کااس میں پھرنامشکل ہوتادوااس میں بخوبی نہ پہنچ سکتی اوربیماری دفع نہ ہوتی۔

۸ ۔  ناک کاسوراخ نیچے کواس لیے بنایاکہ دماغی رطوبتیں آسانی سے نکل سکیں ،اگراوپرکوہوتاتویہ بات نہ ہوتی اوردماغ تک کسی چیزکی بوبھی جلدی نہ پہنچ سکتی

۹ ۔  ہونٹ اس لیے منہ پرلگائے گئے کہ جورطوبتیں دماغ سے منہ میں آئیں وہ رکی رہیں اورکھانابھی انسان کے اختیارمیں رہے جب چاہے پھینک اورتھوک دے ۔

۱۰ ۔  داڑھی مردوں کواس لیے دی کہ مرداورعورت میں تمیزہوجائے ۔

۱۱ ۔  اگلے دانت اس لیے تیزہیں کہ کسی چیزکاکاٹنایاکھٹکھٹاسہل ہو، اورڈاڈھ کوچوڑا اس لیے بنایاکہ غذاپیسنااورچباناآسان ہو،ان دونوں کے درمیان لمبے دانت اس لیے بنائے کہ ان دونوں کے استحکام کے باعث ہوں، جس طرح مکان کی مضبوطی کے لیے ستون (کھمبے) ہوتے ہیں۔

۱۲ ۔ ہتھیلوں پربال اس لیے نہیں کہ کسی چیزکوچھونے سے اس کی نرمی سختی،گرمی،سردی وغیرہ آسانی سے معلوم ہوجائے، بالوں کی صورت میں یہ بات حاصل نہ ہوتی۔

۱۳ ۔ بال اورناخن میں جان اس لیے نہیں ہے کہ ان چیزوں کابڑھنابرامعلوم ہوتاہے اورنقصان رساں ہے،اگران میں جان ہوتی توکاٹنے میں تکلیف ہوتی

۱۴ ۔  دل صنوبری شکل یعنی سرپتلااوردم چوڑی (نچلاحصہ) اس لیے ہے کہ بآسانی پھیپڑے میں داخل ہوسکے اوراس کی ہواسے ٹھنڈک پاتارہے تاکہ اس کے بخارات دماغ کی طرف چڑھ کربیماریاں پیدانہ کرے ۔

۱۵ ۔  پھیپڑے کے دوٹکڑے اس لیے ہوے کہ دل ان کے درمیان ہے اوروہ اس کوہوادیں۔

۱۶ ۔  جگرمحدب اس لیے ہواہے کہ اچھی طرح معدے کے اوپرجگہ پکڑے اوراپنی گرانی اورگرمی سے غذا کوہضم کرے ۔

۱۷ ۔  کردہ لوبئے کے دانہ کی شکل کااس لیے ہواکہ (منی) یعنی نفطفہ انسانی پشت کی جانب سے اس میں آتاہے اوراس کے پھیلنے اورسکڑنے کی وجہ سے آہستہ آہستہ نکلتاہے جوسبب لذت ہے 

۱۸ ۔  گھٹنے پیچھے کی طرف اس لیے نہیں جھکتے کہ چلنے میں آسانی میں ہواگرایسانہ ہوتاتوآدمی چلتے وقت گرگرپڑتا،آگے چلناآسان نہ ہوتا ۔

۱۹ ۔  دونوں پیروں کے تلوے بیچ میں سے اس لیے خالی ہیں کہ دونوں کناروں پربوجھ پڑنے سے باسانی پیراٹھ سکیں اگرایسانہ ہوتااورپورے بدن کابوجھ پیروں پرپڑتاتوسارے بدن کابوجھ اٹھانادشوارہوتا ۔

یہ جوابات سن کرہندوستانی طبیب حیران رہ گیااورکہنے لگاکہ آپ نے یہ علم کس سے سیکھاہے فرمایااپنے داداسے انہوں نے رسول خداسے حاصل کیاتھا اورانہوں نے خداسے سیکھاہے اس نے کہا ”اشہدان لاالہ الااللہ وان محمدارسول اللہ وعبدہ“ میں گواہی دیتاہوں کہ خداایک ہے اورمحمداس کے رسول اورعبد خاص ہیں ،”وانک اعلم اہل زمانہ“ اورآپ اپنے زمانہ میں سب سے بڑے عالم ہیں (مناقب جلد ۵ ص ۴۶ طبع بمبئی وسوانح چہاردہ معصومین حصہ ۲ ص ۲۵) ۔

امام جعفرصادق علیہ السلام کوبال بچوں سمیت جلادینے کامنصوبہ

طبیب ہندی سے گفتگوکے بعدامام علیہ السلام کاعام شہرہ ہوگیااورلوگوں کے قلوب پہلے سے زیادہ آپ کی طرف مائل ہوگئے،دوست اوردشمن آپ کے علمی کمالات کاذکرکرنے لگے یہ دیکھ کرمنصورکے دل میں آگ لگ گئی ،اوروہ اپنی شرارت کے تقاضوں سے مجبورہوکریہ منصوبہ بنانے لگاکہ اب

جلدسے جلدانہیں ہلاک کردیناچاہئے،چنانچہ اس نے ظاہری قدرومنزلت کے ساتھ آپ کومدینہ روانہ کرکے حاکم مدینہ حسین بن زیدکوحکم دیا ۔

ان احرق جعفربن محمدفی دارہ “ امام جعفرصادق علیہ السلام کوبال بچوں سمیت گھرکے اندرجلادیاجائے، یہ حکم پاکر والی مدینہ نے چندغنڈوں کے ذریعہ سے رات کے وقت جبکہ سب محو خواب تھے آپ کے مکان میں آگ لگوادی،اورگھرجلنے لگا آپ کے اصحاب اگرچہ اسے بجھانے کی پوری سعی کررہے تھے،لیکن بجھنے کونہ آتی تھی ،بالاخرہ آپ انہیں شعلوں میں کہتے ہوئے کہ ”اناابن اعراق الثری اناابن ابراہیم الخلیل“ اے آگ میں وہ ہوں جس کے آباو اجداد زمین آسمان کی بنیادوں کے سبب ہیں اور میں خلیل خدا ابرہیم نبی کا فرزندہوں،نکل پڑے ۔

اپنی عباکے دامن سے آگ بجھادی،(تذکرة المصومین ص ۱۸۱ بحوالہ اصول کافی آقائے کلینی علیہ الرحمة) ۔

۱۴۷ ھ میں منصورکاحج اورامام جعفرصادق کے قتل کاعزم بالجزم

علامہ شبلنجی اورعلامہ محمدبن طلحہ شافعی رقمطرازہیں کہ ۱۴۷ ھ میں منصورحج کوگیا،اسے چونکہ امام کے دشمنوں کی طرف سے برابریہ خبردی جاچکی تھی کہ امام جعفرصادق تیری مخالفت کرتے رہتے ہیں،اورتیری حکومت کاتختہ پلٹنے کی سعی میں ہیں،لہذا اس نے حج سے فراغت کے بعدمدینہ کاقصدکیااوروہاں پہنچ کراپنے مصاحب خاص،ربیع سے کہاکہ جعفربن محمدکوبلوادو،ربیع نے وعدہ کے باوجودٹال مٹول کی اس نے پھردوسرے دن سختی کے ساتھ کہاکہ انہیں بلواو،میں کہتاہوں کہ خدامجھے قتل کرے اگرمیں انہیں قتل نہ کرسکوں، ربیع نے امام جعفرصادق کی خدمت میں حاضرہوکرعرض کی، مولاآپ کومنصوربلارہاہے، اوراس کے تیوربہت خراب ہیں،مجھے یقین ہے کہ وہ اس ملاقات میں آپ کوقتل کردے گا، حضرت نے فرمایا”لاحول ولاقوة الاباللہ العلی العظیم“ یہ اس دفعہ ناممکن ہے غرضکہ ربیع آنحضرت کولے کرحاضردربارہوا،منصورکی نظرجیسے ہی آپ پرپڑی توآگ بگولہ ہوکربولا”یاعدواللہ“ اے دشمن خداتم کواہل عراق امام مانتے ہیں اورتمہیں زکواة اموال وغیرہ دیتے ہیں اورمیری طرف ان کاکوئی دھیان نہیں، یادرکھو،میں آج تمہیں قتل کرکے چھوڑوں گا اوراس کے لیے میں نے قسم کھالی ہے ہے یہ رنگ دیکھ کرامام جعفرصادق نے ارشادفرمایا ایے امیرجناب سلیمان کوعظیم سلطنت دی گئی توانہوں نے شکرکیا، جناب ایوب بلا میں مبتلا کیاگیاتوانہوں نے صبرکیا، جناب یوسف پرظلم کیاگیاتوانہوں نے ظالموں کومعاف کردیا، اے بادشاہ یہ سب انبیاء تھے اورانہیں کی طرف تیرانسب بھی پہنچتاہے تجھے توان کی پیروی لازم ہے، یہ سن کراس کاغصہ ٹھنڈاہوگیا(نورالابصار ص ۱۲۳ ،مطالب السول ص ۲۶۷) ۔

حضرت امام جعفرصادق علیہ السلام کی شہادت

علماء فریقین کااتفاق ہے کہ بتاریخ ۲۵/ شوال ۱۴۸ ھ بعمر ۶۵ سال آپ نے اس دارفانی سے بطرف ملک جاودانی رحلت فرمائی ہے،ارشادمفید ص ۴۱۳ ،اعلام الوری ص ۱۵۹ ،نورالابصار ص ۱۲۳ ،مطالب السول ص ۲۷۷ ،یوم وفات دوشنبہ تھا اورمقام دفن جنت البقیع ہے ۔

علامہ ابن حجرعلامہ علامہ ابن جوزی علامہ شبلنجی علامہ ابن طلحہ شافعی تحریر رقمطراز ہیں کہ مات مسموما ایام المنصور، منصورکے زمانہ میں آپ زہر سے شہید ہوئے ہیں (صواعق محرقہ ص ۱۲۱ ،تذکرةخواص الامتہ ،نورالابصار ص ۱۳۳ ، ارجح المطالب ص ۴۵۰) ۔

علماء اہل تشیع کااتفاق ہے کہ آپ کومنصوردوانقی نے زہرسے شہیدکرایاتھا، اور نماز حضرت امام موسی کاظم علیہ اسلام نے پڑھائی تھی علامہ کلینی اورعلامہ مجلسی کا ارشادہے کہ آپ کونہایت کفن دیاگیااورآپ کے مقام وقات پرہرشب چراغ جلایاجاتارہا ۔ کتاب کافی وجلاء العیون مجلسی ص ۲۶۹ ۔

آپ کی اولاد

آپ کے مختلف بیویوں سے دس اولادتھیں جن میں سے سات لڑکے اورتین لڑکیاں تھیں لڑکوں کے نام یہ ہیں :

۱ ۔جناب اسماعیل ۲ ۔حضرت امام موسی کاظم ۳ ۔عبداللہ ۴ ۔ اسحاق ۵ ۔ محمد ۶ ۔عباس ۷ ۔ علی ۔ اورلڑکیوں کے اسماء یہ ہیں : ۱ ۔ام فروہ ۲ ۔ اسماء ۳ ۔فاطمہ (ارشادوجنات الخلود) علامہ شبلنجی نے سات اولادتحریرکیاہے جن میں صرف ایک لڑکی کاحوالہ دیاہے جس کانام ”ام فروہ“ تھا(نورالابصار ص ۱۳۳) ۔

آپ ہی کی اولادسے خلفاء فاطمیہ گزرے ہیں جن کی سلطنت ۲۹۷ ئسے ۵۶۷ ء تک دو سو سترسال قائم رہی، ان کی تعدادچودہ تھی ۔

 


source : http://www.taghrib.ir
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

زندگی نامہ حضرت امام حسین علیہ السلام
پیغمبر (ص) امامت کو الٰہی منصب سمجھتے ہیں
چنداقوال از حضرت امام جواد علیہ السلام
سيد المرسلين ص کي علمي ميراث کے چند نمونے ( حصّہ ...
خصائص اہلبیت (ع)
امام حسین (ع)کی زیارت عرش پر اللہ کی زیارت ہے
عورتوں کی تعلیم کے سلسلے میں حضرت زہرا کا کردار
فاطمہ (س) کی معرفت لیلۃ القدر کی معرفت ہے
ائمہ معصومین علیہم السلام نے ایسے دورحکومت -5
اقوال حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام

 
user comment