حدیث میں ہرسوسال کے بعد ایک مجدد اسلام کے نمود وشہود کا نشان ملتا ہے یہ ظاہر ہے کہ جواسلام کا مجدد ہوگا اس کے تمام ماننے والے اسی کے مسلک پرگامزن ہوں گے اورمجدد کا جو بنیادی مذہب ہوگا اس کے ماننے والوں کا بھی وہی مذہب ہوگا،حضرت امام رضاعلیہ السلام جوقطعی طورپرفرزندرسول اسلام تھے وہ اسی مسلک پرگامزن تھے جس مسلک کی بنیاد پیغمبراسلام اورعلی خیرالانام کا وجود ذی وجود تھا یہ مسلمات سے ہے کہ آل محمد علیہم السلام پیغمبرعلیہ السلام کے نقش قدم پرچلتے تھے اورانہیں کے خدائی منشاء اوربنیادی مقصد کی تبلیغ فرمایا کرتے تھے یعنی آل محمد کا مسلک وہ تھا جو محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مسلک تھا۔
علامہ ابن اثیرجزری اپنی کتاب جامع الاصول میں لکھتے ہیں کہ حضرت امام رضا علیہ السلام تیسری صدی ہجری میں اورثقة الاسلام علامہ کلینی چوتھی صدی ہجری میں مذہب امامیہ کے مجدد تھے علامہ قونوی اورملامبین نے اسی کو دوسری صدی کے حوالہ سے تحریرفرمایا ہے (وسیلةالنجات ص ۳۷۶ ،شرح جامع صغیر)۔
محدث دہلوی شاہ عبدالعزیزابن اثیرکا قول نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ابن اثیرجذری صاحب جامع الاصول کہ حضرت امام علی بن موسی الرضا مجدد مذہب امامیہ دوقرن ثالث گفتہ است ابن اثیرجذری صاحب جامع الاصول نے حضرت امام رضاعلیہ السلام کوتیسری صدی میں مذہب امامیہ کا مجدد ہونا ظاہرو واضح فرمایا ہے (تحفہ اثناعشریہ کید ۸۵ ص ۸۳)
امام علیہ السلام نے اپنی عمر مبارک کے مختلف حصوں میں اس وقت کے پیچیدہ اور سخت حالات کو دیکھتے ھوئے مختلف انداز سے تبلیغ اسلام کی تھی۔
امام علیہ السلام سے جھاں تک ممکن تھا آپ نے اپنی عمر کے آخری تین سالوں میں لوگوں کو بیدار کرنے اور اسلام کی طرف متوجہ کرنے پر مخصوص روش اپنائی تھی کیونکہ یہ وہ زمانہ تھا جب آپ کو کسی قدر آسودگی اور خلیفہ کی طرف سے تھوڑی بھت آزادی مل گئی تھی لیکن جیسے ھی آپ اپنے مشن پر آگے بڑھے اور لوگوں نے آپ کی طرف جوق در جوق آنا شروع کیا، خلیفہ مامون رشید سے رھا نہ گیا کیونکہ اس کی رعایا اس کے حاکم ھونے کے باوجود امام علیہ السلام کی گرویدہ ھو رھی تھی لھذا اس نے آپ کو زھر دے دیا اور آپ بھی اپنے والد گرامی کی طرح درجۂ شھادت پر فائز ھو گئے۔
آپ کی شھادت ۲۰۳ھء میں ۵۵/سال کی عمر میں ھوئی تھی۔ آپ کا عالیشان روضۂ اقدس جمھوری اسلامی ایران کے شھر” مشھد مقدس “ میں ھے جھاں ھر دن دنیا بھر سے ھزاروں کی تعداد میں آپ کے چاھنے والے زیارت کرنے آتے ھیں۔
source : http://www.tebyan.net