اردو
Thursday 26th of December 2024
0
نفر 0

کعبہ میں امام علی علیہ السلام کی ولادت

امام علی ابن ابی طالب علیہ السلام بن عبد المطلب بن ھاشم بن عبد مناف 13 رجب ،30 عام الفیل ، یعنی ہجرت نبوی سے 23 سال پہلے کعبہ کے اندر پیدا ہوئے(1)

آپکے والد گرامی حضرت ابوطالب بن عبد المطلب حضرت عبداللہ پیغمبر اسلام حضرت محمد (ص) کے حقیقی بھائی تھے اور انکی والدہ ماجدہ فاطمہ بنت عمر وبن عایذ مخزومی تھیں ۔(2)

حضرت علی کی والدہ ماجدہ فاطمہ بنت اسد بن ہاشم بن عبد مناف تھیں جو کہ ان خواتین سے ھے جنہوں نے پیغمبر اسلام پرایمان لانےمیں سبقت حاصل کی ھے ۔ ایام حضور کی تلخ دورکی سختیاں شوھر اور اھل خانوادہ کے ھمراہ جھیلیں اور پیغمبر اسلام کی ھجرت کے وقت انہوں نے بھی مدینہ ھجرت کی اور اسی مقدس شہر میں وفات پائی ۔ اور پیغمبر (ص) نے اپنی قمیض کو کفن کے طور انکو دفن کیا تاکہ زمین اور قبر کے آزار سے امان میں رہے اور اپنے بیٹے حضرت علی ابن ابی طالب کی ولادت کے اقرار کی تلقین کرائی تاکہ نکیرین کے سوالات کے وقت آسانی کے ساتھ جواب دیے سکے ۔ رسول خدا (ص) نے اس طرح انکا احترام کیا اور اس عظیم فضل کا اھل قرار دیا ۔(3)

حضرت ابوطالب (ع) اور ان کی اہلیہ حضرت فاطمہ بنت اسد (س) پیغمبر اسلام اور دین مبین اسلام کے پھیلانے کے خاطر بہت زیادہ محنت کی اور اس راستے میں بہت ہی رنج ومصائب جھیلے۔

حضرت عبدالمطلب کے وفات کے بعد ان کے یتیم پوتے حضرت محمد بن عبداللہ کی کفالت انکے چچا حضرت ابوطالب (ع) پرعائد ہوئی اور آنجناب نے ساری عمر (44) سال انکی سرپرستی اور انکے افکار اور عقائد کی حمایت کی ۔

حضرت ابوطالب اور حضرت فاطمہ بنت اسد پیغمبر اسلام (ص) کے ساتھ اپنے بیٹوں سے بڑھ کر پیار کرتے تھے اورانکو اپنی اولاد پر ترجیح دیتے اور زیادہ انکا خیا ل رکھتے تھے ۔

اسی لئے پیغمبر (ص) ان دونوں کی محبت اورمہربانی کی وجہ سے احساس یتیمی نہیں کرتے تھے ۔ ماں باپ کی کمی محسوس نہیں کرتے تھے،

امیر مومنان حضرت علی علیہ السلام اورانکے بھائی بہن ایسے پہلے اشخاص ہیں جو ماں اور باپ دونوں کی طرف سے ھاشمی تھے ۔(4)

امیرا لمومنین علی (ع) کی کنیت عبارت ہے ۔ ابوالحسن ، ابوالحسین ، ابوالحسنین ، ابوالسبطین ، والرحانشین اورابوتراب ۔

ان میں سے زیادہ معروف کنیت ابوالحسن اور ابوتراب ہیں ۔

آنحضرت کے القاب عبارت ہیں : امیرالمومنین ، سید الوصین ، سیدالمرسلین ، سید الاوصیا ، سید العرب ، خلیفۃ الرسول ، امام المتقین ، یعسوب الدین ، مصر رسول اللہ ، حیدر ، مرتضی ، وصی وغیرہ ۔

آپ شہر مکہ معظمہ اور کعبہ کے اندر پیدا ہوئے ۔ 

خدا کے گھر کعبہ میں آپکی پیدائش آپکی خاص فضیلت ھے اور خدای متعال نے اس فضیلت کو صرف آپکے لئے مخصوص کیا ھے نہ ان سے پہلے اور نہ ان کے بعد کسی ایک کو یہ فضیلت نصیب ہوئی ۔ صاحب مفاتیح الجنان مرحوم شیح عباس قمی نے آنحضرت (ع) کی ولادت کی کیفیت کو یوں بیان کیا ہے: جوکچھ بہت ساری روایتوں میں آیا ہے وہ یوں ہے کہ ایک دن عباس بن عبدالمطلب ، یزید بن قعنب ، بنی ھاشم کے کچھ لوگ ، قبیلہ بنی العزی کی ایک جماعت کے ھمراہ خانہ کعبہ کے برابر میں بیٹھے تھے اچانک مسجد کے دروازے سے داخل ہوئيں جو کہ حاملہ تھیں حضرت امیر ان کے بطن میں پل رہے تھے نواں مہینہ تھا حضرت فاطمہ بنت اسد کے چہرے سےدرد زایمان نمایا تھا اسی حالت میں خانہ کعبہ کے دروازے کے برابر میں کھڑی ہوگئی ، آسمان کی طرف رخ کیا اور کہنے لگی : خدایا مین تجھ پر ایمان لاچکی ہوں اور تمہارے ہر پیغمبر اوررسول پر اور ہر اس کتاب پر جو تمہارے جانب سے نازل ہوئی ہے اور اپنے جد ابراہیم خلیل کہ جس نے خانہ کعبہ کو بنایا ہے، کے باتوں کی تصدیق کرتی ھوں پس تجھ سے سوال کرتی ھوں اس گھر کے واسطے اور جس نے اس گھر کوبنایا اسکے واسطے اوراس فرزند کے واسطے جومیرے بطن میں پل رہا ہے اور میرے ساتھ باتیں کررہا ہے اور اپنی باتیں کرنے میں میرا مونس بن چکا ہے اور میرا یقین ہے وہ تمہاری جلال و عظمت کی نشانی ہے میرے اوپر اسکی ولادت آسان فرما ۔

عباس اور یزید بن قعنب نے کہا جب فاطمہ یہ دعا کرنے سے فارغ ھوئیں ہم نے دیکھا خانہ کعبہ کی پچھلی دیوار میں شکاف پیدا ہوا اور فاطمہ اس کے اندر چلی گئی اور پھر خدا کے حکم سےیہ شکاف آپس میں مل گیا ، ھم نے جب دروازہ کھولنے کی کوشش کی ناکام رہے کسی بھی حالت میں دروازہ نہ کھل سکا ، ھم جان گئے کہ یہ کا م خدا کی طرف سے واقع ہوا ہے اور اس طرح فاطمہ تین روز کعبہ کے اندر رہی ، مکہ کے لوگ کوچوں اور بازاروں میں اس واقعہ کو نقل کرتے تھے اور عورتیں اس حکایت کو یاد کرکے تعجب کرتے تھے تا اینکہ چوتھا دن آنکلا ، تو وہی شکاف کی جگہ پھر کھل گئی فاطمہ بنت اسد اپنے بیٹے اسداللہ غالب علی ابن ابی طالب کو ہاتھوں میں لئے باھر آئی اور کہہ رہی تھی کے لوگو ! حق تعالی نے مجھے اپنی مخلوق میں فضیلت دی اور مجھ سے پھلے جن خواتین کو انتخات کیا تھا ان پر برتری عطا کی حق تعالی نے آسیہ بنت مزاحم کو انتخاب کیا اور وہ حق تعالی کی چھپ کر وھاں عبادت کرتی تھیں جہاں خدا کی عبادت کرنا جائز نہ تھا مگر صرف ضرورت کے وقت یعنی فرعون کاگھراور مریم بنت عمران کو حق تعالی نے انتخاب کیا اور حضرت عیسی کی ولادت کو اس پر آسان کیا اور بیابان میں خشک درخت کو تروتازہ کیا اس پر تازہ کھجور اگ کر گرنے لگے اور حق تعالی نے مجھے دونوں پر سبقت دی اسی طرح ان تمام خواتین پر جو میرے پھلے دنیامیں آئیں ہیں ۔ کیونکہ میں نے اپنے فرزند کو اسکے منتخب گھرمیں جنم دیا اور تین دن میں وہاں بڑی احترام سے رہی اور بہشت کے میوے اور کھانا تناول کرتی رہی ، اور جب فرزند کو ہاتھوں میں لئے خانہ کعبہ سے خارج ہونا چاہا تو ھاتفی نے غیب سے آواز دی ، ای فاطمہ ! اس بزرگوار فرزند کا نام علی رکھو ، بدر ستیکہ میں خداوندعلی و اعلی ہوں ، اسکو اپنی عزت و جلال وقدرت سے پیدا کیا اور اپنی عدالت کامل کا فا ئدہ اسکو بخشا اوراپنے مقدس نام سے اسکا نام اشتقاق کیا اور اپنی خجستہ آداب کے ساتھ تادیب کیا اور اپنے امور اسکو تفویز کئے اور اسکو اپنے چھپے ھوئے علوم سے خبر دار کیا اور میرے گھر کے اندر پیدا ھوا ہے اور یہ میر گھر پر اذان دینے والا اور بت توڑنے والا پھلا شخص ھوگا ، کعبہ کی بلندیوں سے بتوں کو نیچے اتار کرمیری عظمت و مجد اور بزرگواری وحدانیت کے ساتھ یاد کرے گا اور میرے حبیب کے بعد میرا منتخب اور پیشوا ھے، محمد (ص) جو کہ میرا رسول ہے وہ اسکا وصی ہوگا ، مرحبا اسکو جو اسکو مدد کرے گا اسکے ساتھ محبت رکھے گا ۔ افسوس اس پر جو اسکی فرمانبرداری نہ کرے اور حق کا انکا ر کرے ۔ (6)

جی ہاں حضرت علی علیہ السلام ایسے مبارک دن ایسی مبارک جگہ اور خدا کی میزبانی میں پیدا ہوئے اور عالم کو انوار الہی سے روشن کیا ۔ حضرت ابوطالب (ع) اور حضرت فاطمہ بنت اسد (س) نے اپنے اس فرزند ارجمند کی تربیت کی اور پرورش میں کمال کی کوشش انجام دی مگر ابھی انکی ولادت کے کچھ ہی سال گذر گئے تھے کہ حضرت محمد (ص) اور حضرت خدیجہ (س) نے حضرت ابوطالب (ع) اور فاطمہ بنت اسد (س) سے چاہا کہ حضرت علی (ع) کو ان کو دیں جناب ابوطالب (ع) اور جناب فاطمہ بنت اسد (س) چونکہ حضرت محمد (ص) کو نہایت عزیز اور محترم جانتے تھے ۔ اس لئے انکار نہ کرسکے اورعلی (ع) کی پرورش کی ذمہ داری ان کے سپرد کی ۔ اس کے بعد علی (ع) پیغمبر اسلام (ص) کے مہربان اور ملکوتی نظارت میں پرورش پاگے ۔ اور تکامل کے مراحل طے کرتے گئے ۔ حضرت علی علیہ السلام پہلے شخص ہیں جنہوں نے خدا اور اسکے پیغمبر پر ایمان لایا اور آخری دم تک کلمہ لاالہ الا اللہ اورعدالت اسلامی کی بالا دستی کیلئے ایک لمحہ کو بھی کوتاہی نہ کی ۔

زید بن ارقم سے روایت ہے کہ " اول من صلی مع رسول اللہ علی ابن ابی طالب (ع) " جس نے سب سے پہلے رسول خدا کے پیچھے نماز پڑھی وہ علی ابن ابی طالب تھے (7) 

1_ خصائص الائمه(ع) (سيد رضي)، ص 39؛ الارشاد (شيخ مفيد)، ص 8 

2_ منتهي الآمال (شيخ عباس قمي)، ج1، ص 11 

3_ الارشاد، ص 8؛ بحارالانوار (علامه مجلسي)، ج 35، ص 179؛ اهل بيت (نوفيق ابوعلم)، ص 191 

4_ خصائص الائمه(ع)، ص 39 

5_ الارشاد، ص 8؛ خصائص الائمه(ع)، ص 39؛ منتهي الآمال، ج1، ص 143 

6_ منتهي الآمال، ج1، ص 141 

7_ أنساب الأشراف (احمد بن يحيي بلاذري)، ج2، ص 8


source : http://www.al-hadj.com
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

امام حسن(ع) کی شہادت کے وقت کے اہم واقعات
امام محمد تقی الجواد علیہ السلام کی چالیس حدیثیں
خوشبوئے حیات حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام
نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے بعد آپ(ص) سے ...
امام باقر علیہ السلام کی شخصیت اور انکے علمی ...
حضرات آئمہ معصومین [ع]
امامت ائمۂ اطہار علیھم السلام کی نگاہ میں
حضرت علی کی شہادت اورامام حسن کی بیعت
حضرت امام حسن علیہ السلام
حضرت علی علیه السلام کے چند منتخب خطبے

 
user comment