آپ (ع) کا عرفان اور تقوی
امام رضا (ع) کے عرفان کی خصوصیت یہ تھی کہ آپ حق پر پائیدارتھے، اور آپ نے ظلم کے خلاف قیام کیا تھا، اس لئے آپ مامون عباسی کو تقوائے الٰہی کی سفارش فرماتے تھے اور دین سے مناسبت نہ رکھنے والے اس کے افعال کی مذمت فرماتے تھے، جس کی بناء پر مامون آپ کا دشمن ہوگیا اور اس نے آپ کو قتل کرنے کا فیصلہ کیا اگرامام (ع) اس کی روش کی مذمت نہ کرتے جس طرح کہ اس کے اطرافیوں نے اس کے ہرگناہ کی تائید کی تو آ پ کا مقام اس کے نزدیک بہت عظیم ہوتا ۔اسی بناء پرمامون نے بہت جلد ہی آپ کو زہر دے کر آپ (ع) کی حیات ظاہری کا خاتمہ کردیا۔
آپ کے بلند و بالا اخلاق
امام رضا (ع) بلند و بالا اخلاق اور آداب رفیعہ سے آراستہ تھے اور آپ کی سب سے بہترین عادت یہ تھی کہ جب آپ دسترخوان پر بیٹھتے تھے تو اپنے غلاموں یہاں تک کہ اصطبل کے رکھوالوں اور نگہبانوں تک کو بھی اسی دستر خوان پر بٹھاتے تھے۔
ابراہیم بن عباس سے مروی ہے کہ میں نے علی بن موسیٰ رضا (ع)کو یہ فرماتے سنا ہے :
ایک شخص نے آپ سے عرض کیا :خدا کی قسم آپ لوگوں میں سب سے زیادہ اچھے ہیں ۔
امام (ع) نے یہ فرماتے ہوئے جواب دیا:اے فلاں! مت ڈر،مجھ سے وہ شخص زیادہ اچھا ہے جو سب سے زیادہ اللہ کا تقویٰ اختیار کرے اور اس کی سب سے زیادہ اطاعت کرے ۔ خدا کی قسم یہ آیت نسخ نہیں ہوئی ہے۔
امام (ع) اپنے جد رسول اعظم کے مثل بلند اخلاق پر فائز تھے جو اخلاق کے اعتبار سے تمام انبیاء سے ممتاز تھے ۔
آپ (ع) کا زہد
امام (ع) نے اس پرمسرت اورزیب وزینت والی زندگی میں اپنے آباء عظام کے مانند کردار پیش کیا جنھوںنے دنیا میں زہد اختیار کیا، آپ (ع) کے جد بزرگوار امام امیرالمومنین (ع) نے اس دنیا کو تین مرتبہ طلاق دی جس کے بعد اس سے رجوع نہیں کیا جا سکتا۔
محمد بن عباد نے امام کے زہد کے متعلق روایت کی ہے :امام (ع) گرمی کے موسم میں چٹائی پر بیٹھتے ، سردی کے موسم میں ٹاٹ پربیٹھتے تھے، آپ سخت کھر درا لباس پہنتے تھے، یہاں تک کہ جب آپ لوگوں سے ملاقات کے لئے جاتے تو پسینہ سے شرابور ہو جاتے تھے ۔
دنیا میں زہد اختیار کرنا امام (ع)کے بلند اور آشکار اور آپ کے ذاتی صفات میں سے تھا،تمام راویوں اور مورخین کا اتفاق ہے کہ جب امام (ع) کو ولی عہد بنایا گیا تو آپ (ع) نے سلطنت کے مانند کوئی بھی مظاہرہ نہیں فرمایا، حکومت وسلطنت کو کوئی اہمیت نہ دی،اس کے کسی بھی رسمی موقف کی طرف رغبت نہیں فرمائی، آپ کسی بھی ایسے مظاہرے سے شدید کراہت کرتے تھے جس سے حاکم کی لوگوں پر حکومت وبادشاہت کا اظہار ہوتا ہے چنانچہ آپ فرماتے تھے :
""لوگوں کا کسی شخص کی اقتدا کرنا اس شخص کے لئے فتنہ ہے اور اتباع کرنے والے کے لئے ذلت و رسوائی ہے ""۔
آپ (ع) کے علوم کی وسعت
امام رضا (ع) اپنے زمانہ میں سب سے زیادہ اعلم اور افضل تھے اور آپ نے ان (اہل زمانہ) کو مختلف قسم کے علوم جیسے علم فقہ،فلسفہ ،علوم قرآن اور علم طب وغیرہ کی تعلیم دی ۔ ہروی نے آپ کے علوم کی وسعت کے سلسلہ میں یوں کہا ہے : میں نے علی بن موسی رضا (ع)سے زیادہ اعلم کسی کو نہیں دیکھا، مامون نے متعدد جلسوں میں علماء ادیان ،فقہاء شریعت اور متکلمین کو جمع کیا،لیکن آپ ان سب پر غالب آ گئے یہاں تک کہ ان میں کوئی ایسا باقی نہ رہا جس نے آپ کی فضیلت کا اقرار نہ کیا ہو،اور میں نے آپ (ع)کو یہ فرماتے سنا ہے: ""میں ایک مجلس میں موجود تھا اور مدینہ کے متعدد علماء بھی موجود تھے ،جب ان میں سے کوئی کسی مسئلہ کے بارے میں پوچھتا تھا تو اس کو میری طرف اشارہ کردیتے تھے اور مسئلہ میرے پاس بھیج دیتے تھے اور میں اس کا جواب دیتا تھا ""۔
ابراہیم بن عباس سے مروی ہے :میں نے امام رضا (ع)کو نہیں دیکھا مگر یہ کہ آپ (ع) نے ہر سوال کا جواب دیا ہے ۔ ،میں نے آپ کے زمانہ میں کسی کو آپ سے اعلم نہیں دیکھا اور مامون ہر چیز کے متعلق آپ سے سوال کرکے آپ کا امتحان لیتا تھا اورآپ (ع) اس کا جواب عطا فرماتے تھے ۔
مامون سے مروی ہے
میں اُن (یعنی امام رضا (ع))سے افضل کسی کو نہیں جانتا۔
بصرہ،خراسان اور مدینہ میں علماء کے ساتھ آپ کے مناظرے آپ کے علوم کی وسعت پر دلالت کرتے ہیں ۔دنیا کے جن علماء کو مامون آپ کا امتحان لینے کے لئے جمع کرتا تھا وہ ان سب سے زیادہ آپ (ع) پر یقین اور آپ کے فضل وشرف کا اقرار کرتے تھے ،کسی علمی وفدنے امام (ع)سے ملاقات نہیں کی مگر یہ کہ اس نے آپ کے فضل کا اقرار کرلیا۔ مامون آپ کو لوگوں سے دور رکھنے پر مجبور ہوگیا کہ کہیں آپ کی وجہ سے لوگ اس سے بد ظن نہ ہو جائیں۔
source : http://www.tebyan.net