الہي رہبروں کي جو بات ان کو دوسروں سے ممتاز کرتي ہے، وہ انساني اقدار کي جامعيت اور ان کي وسعت ہے۔ کبھي آپ ان کو عشقِ يار ميں اس طرح بے تاب ديکھتے ہيں کہ ان کي دل انگيز مناجات تمام قدرتي مناظر کو عالمِ ملکوت کا مہمان اور انہيں خلوتِ اُنس کا ہمنوا بنا ديتي ہے۔ قرآن کريم کي تعبير کے مطابق ہم نے پہاڑوں ااور پرندوں کو حضرت داودٴ کي تسبيح و تنزيہ کے نغموں سے مسخر کر ديا تھا۔ اور کبھي آپ انہيں ايسا اَن تھک مجاہد پاتے ہيں ، کہ جن کي پکار نے ايک پوري ملت کو زندگي بخشي اور پستي پر مبني افکار و اعمال کو ذليل و رسوا کرديا۔ جبکہ انہي کے پُرمہر و پُرشفقت ہاتھ محروموں اور بے کسوں کے لئے اميد و رحمت کي ايک دنيا لے کر آتے ہيں اور خود دنيا کو تين طلاقيں دے کر زاہدانہ ترين زندگي گذارتے ہيں۔
کاظمِ آلِ محمد عليہم السلام يعني امام موسيٰ کاظم عليہ السلام اسي آسمان کے ايک ستارے ہيں جن کے وجود کي روشني تاريخ کے تمام نيک سيرت افراد کي فضيلتوں کا عکس تھي۔ آپٴ کے طويل سجدے اور اشک برساتي آنکھيں بارگاہِ ربوبي سے آپٴ کے بھرپور عشق اور گہرے ايمان کي نشاندہي کرتي ہيں جيسا کہ امام کاظمٴ کي زيارت ميں آيا ہے: ’’حليف السجدۃ الطويلۃ و الدموع الغريزۃ‘‘ يعني آپٴ کي زندگي طويل سجدوں اور بہتي آنکھوں کے ہمراہ تھي۔
آپٴ نے ميدانِ جہاد ميں انقلاب کي ايک دنيا بسا دي اور خودپسند مقتدر طبقوں سے بے پرواہ ہوکر دين و ايمان کا راستہ حق کے متلاشيوں کے سامنے کھولا۔ آپٴ کي ذات کے مختلف پہلووں پر مشتمل دلچسپ اور قابلِ لحاظ واقعات ہيں جو عام انسانوں کي محدود فکر ميں پورے طور پر جمع نہيں ہوسکتے ليکن ہماري ذمہ داري يہ بنتي ہے کہ آپٴ کي ذات کے اتھاہ سمندر کے ساحل پر بيٹھ جائيں۔ شايد نسيمِ صبح قلبِ منتظر پر چل جائے اور ايک جانا پہچانا پيغام ہماري روح کو تازہ کردے۔
اسي ذمہ داري کو محسوس کرتے ہوئے امام موسيٰ کاظمٴ کي سياسي جدوجہد کو سمجھنے کے لئے مطالعہ کا آغاز کرتے ہيں اور ايک اسلامي حکومت کي تشکيل کے لئے آپ کي جو جدوجہد تھي اور اس جدوجہد نے جو انقلابي اور دلکش صورت اختيار کرلي تھي، اس کا نظارہ کرتے ہيں۔ ہم اس جدوجہد کا جلوہ پانچ عنوانات کے تحت پيش کريں گے۔
الف: اسلامي حکومت کي آرزو کي تجلي ہارون رشيد کے ساتھ گفتگو کے دوران:
امام موسيٰ کاظم عليہ السلام کي کئي بار ہارون رشيد سے گفتگو ہوئي، جس کے دوران بعض مقامات پر ہارون کي حکومت کا انکار اور معصوم امامٴ کي قيادت ميں ايک الہي حکومت کا قيام کا ذکر واضح طور پر بيان ہوا ہے۔ تاريخ ميں آيا ہے:
’’ايک دن ہارون امام کاظمٴ سے کہتا ہے کہ فدک کي حدود بيان کريں تاکہ ميں اسے آپ کے حوالے کردوں۔ امامٴ نے ٹالنے کي کوشش کي ليکن اس نے اصرار کيا جس کے بعد امامٴ نے فرمايا: ’’ميں اسے اس کي اصلي حدود کے علاوہ نہيں لوں گا۔‘‘ اس کے باوجود جب اس نے اپنا اصرار جاري رکھا تو امامٴ نے فرمايا: ’’اگر ميں نے اس کي حدود بتا ديں تو يقينا موافقت نہيں کرو گے۔‘‘ ہارون نے قسم کھائي کہ اگر آپٴ معين کرديں گے تو ميں فدک لوٹا دوں گا۔
امامٴ نے فرمايا: ’’اس کي پہلي حد سرزمينِ عدن ہے۔‘‘ اس موقع پر ہارون کا چہرہ بگڑ گيا اور حيرت سے کہنے لگا: اور بتائيں۔
امامٴ نے فرمايا: ’’اور اس کي دوسري حد سمرقند ہے۔‘‘ ايک بار پھر ہارون رشيد کا چہرہ بگڑ گيا۔ امامٴ نے مزيد فرمايا: ’’اور اس کي تيسري حد افريقا ہے۔‘‘
ہارون کا چہرہ سياہ ہوچکا تھا، امامٴ نے مزيد فرمايا: ’’اور اس کي چوتھي حد دريائے خزر کے ساحلي علاقے اور ارمنستان ہے۔‘‘
يعني امامٴ نے اس زمانے کي اسلامي حکومت کي حدود بيان کرديں جس پر ہارون کي حکومت تھي۔
ہارون نے کہا: ’’فلم يبق لنا شيئ¾ فتحوّل الي مجلسي۔ ‘‘ پھر ہمارے لئے تو کچھ بھي نہيں بچے گا۔ آئيں ميري جگہ پر بيٹھ جائيں۔‘‘
امامٴ نے فرمايا: ’’ميں نے تم سے کہا تھا کہ اگر حدود کا تعين کرديا تو ہرگز نہيں دو گے۔‘‘
جس سال ہارون مکہ مکرمہ گيا تو خانہ کعبہ کے نزديک اس نے امامٴ کو ديکھا تو کہنے لگا: ’’تم ہو کہ جس سے لوگ خفيہ طور پر بيعت کر تے ہيں اور تمہيں قيادت کے لئے منتخب کرتے ہيں؟ ‘‘
امامٴ نے فرمايا: ’’انا امام القلوب و انت امام الجسوم۔ ميں لوگوں کے دلوں پر حکومت کرتا ہوں اور تم ان کے جسموں پر حکومت کرتے ہو۔‘‘
اسي بات کي جانب مرحوم مجلسي کي بيان کردہ وہ روايت اشارہ کرتي ہے جس ميں وہ کہتے ہيں کہ ايک دن ہارون رشيد کے محل ميں امامٴ کي اس سے ملاقات ہوئي۔ ہارون نے امامٴ سے پوچھا يہ گھر کيسا ہے؟
امامٴ نے جواب ميں فرمايا: ’’ہذا دار الفاسقين۔‘‘ يہ فاسقوں کا گھر ہے۔‘‘ اس کے بعد اس آيت کي تلاوت فرمائي: ’’جلد ہي ميں ان لوگوں کو اپني نشانيوں سے دور کردوں گا جو ناحق زمين پر اپنے لئے بڑائي کا دعويٰ کرتے ہيں کہ خدا کي کوئي بڑي سے بڑي نشاني ديکھ ليں تو بھي اس پر ايمان نہ لائيں اور اگر راہِ ہدايت کو ديکھ ليں تو اس پر نہ چليں۔ اس کے برعکس اگر گمراہي کو ديکھيں تو اس پر فوراً چلنے لگيں۔ يہ اس لئے ہے کہ وہ آياتِ الہي کو جھوٹ سمجھتے ہيں اور اس سے غفلت کرتے ہيں۔‘‘
ہارون کہتا ہے: پھر يہ گھر کس کا ہے؟
امامٴ نے جواب ديا: ’’ہمارے شيعوں کے لئے سکون کا سبب اور ہمارے دشمنوں کے لئے آزمائش کا باعث ہے۔ ‘‘
پھر ہارون بولا: ’’گھر کا مالک اسے ہم سے لے کيوں نہيں ليتا۔‘‘
امامٴ نے فرمايا: ’’وہ کہتا ہے کہ تم نے اسے آباد حالت ميں ہم سے ليا تھا وہ بھي اسے آباد حالت ہي ميں ليں گے۔ ‘‘
يعني ہم اس وقت اسے ليں گے جب اس کو آباد کرنا ممکن ہوگا اور ابھي وہ موقع نہيں آيا ہے۔ يہي وہ بات تھي جو ہارون کے لئے پريشاني کا باعث تھي اور وہ اپنے نزديکي ساتھيوں کے سامنے اس کا اظہار بھي کرتا رہتا تھا۔ چنانچہ جب مامون نے اس سے پوچھا کہ آپ نے تو امام کي مالي امداد کا وعدہ کيا ہوا تھا اب وہ ديتے کيوں نہيں ہيں؟ تو اس نے کہا: اپني حکومت کے لئے موسيٰ بن جعفرٴ کو خطرہ سمجھتا ہوں۔
بنوعباس کے نعروں کا انکار:
بنو عباس نے رسولِ گرامي اسلام۰ سے نسبت کي بنياد پر اپني حکومت کے لئے جواز تراشا تھا۔ امامٴ نے اسي نسبت کي بنياد پر اور قرآن کے مضبوط دلائل اور شرعي حوالوں سے ثابت کيا کہ عترتِ رسول۰ اس اعتبار سے زيادہ لياقت رکھتے ہيں کيونکہ ان کا شمار فرزندانِ رسول۰ ميں ہوتا ہے۔ چنانچہ ايک بحث کے دوران ہارون امام کاظمٴ سے پوچھتا ہے: ’’آپ لوگ اپنے آپ کو فرزندِ رسول۰ کيوں قرار ديتے ہيں حالانکہ آپ لوگ رسول اللہ کي بيٹي کي اولاد ہيں اور بيٹي کي اولاد کو اولاد شمار نہيں کيا جاتا؟ ‘‘
امامٴ نے ہارون سے درخواست کي کہ جواب سے معذور رکھے ليکن ہارون نہ مانا تو امامٴ نے درجِ ذيل آيت کي تلاوت فرمائي: ’’و من ذريتہ داوود و سليمان و ايوب و يوسف و موسيٰ و ہارون و کذالک نجزي المحسنين و زکريا و يحييٰ و عيسيٰ ۔۔۔‘‘ اور فرماتے ہيں کہ يہ آيت جناب عيسيٰ کو جناب نوحٴ کي اولاد شمار کرتي ہے جب کہ جناب عيسيٰ کا کوئي باپ نہ تھا اور صرف ماں کي جانب سے انہيں نوحٴ کي جانب نسبت حاصل تھي۔ ہم بھي اپني ماں فاطمہٴ کے توسط سے اولادِ رسول۰ ہيں۔‘‘
اسي کشمکش کو ايک واقعہ مزيد روشن کرتا ہے جو کتاب احتجاج ميں منقول ہے کہ: ’’جب ہارون رشيد مدينہ پہنچا تو لوگوں کے ساتھ روضہ رسول۰ پر آيا اور قبرِ رسول۰ کے سامنے کھڑے ہوکر فخر و مباہات کرتے ہوئے کہنے لگا: السلام عليک يابن عم؛ اے چچا کے بيٹے آپ پر سلام ہو!
اس موقع پر امام موسيٰ کاظمٴ نزديک آئے اور فرمايا: السلام عليک يا رسول اللہ، السلام عليک يا ابہ؛ يعني اے اللہ کے رسول آپ پر سلام ہو، اے بابا آپ پر سلام ہو۔
يہ سُن کر ہارون کا چہرہ غصے سے سياہ ہوگيا اور اس کے چہرے پر غيض و غضب کے آثار نظر آنے لگے۔
اس طرح سے امامٴ نے ہارون کي اس دليل کا انکار کيا جس کي بنياد پر وہ اپنے آپ کو خلافت کا حقدار سمجھتا تھا اور پھر اسي دليل کو اپنے حق ميں استعمال کيا۔
نظامِ حکومت کے اندر اثر و رسوخ:
امام موسيٰ کاظم عليہ السلام نے اپني سياسي جدوجہد کو منظم کرنے اور شيعہ قوتوں کي حمايت کي غرض سے ايک کام يہ کيا کہ فعال اور قابلِ اعتماد افراد کو حکومت کے کليدي عہدوں پر کام کرنے کي اجازت دي۔ ان ميں سے ايک فعال اور سرگرم شخص جناب علي بن يقطين تھے۔ علي بن يقطين نے متعدد بار امامٴ سے درخواست کي کہ عباسي حکومت کے اندر اپنے عہدے سے سبکدوش ہو جائے ليکن امامٴ نے اجازت نہ دي اور انہيں درج ذيل کلمات کہہ کر حوصلہ ديا کہ شايد خدا تمہارے ذريعے سے شکست کا تدارک کرے اور مخالفوں کے فتنوں کي آگ کو اپنے دوستوں سے دور کرے۔
ايک اور بار اُن سے فرمايا: ’’ستمگروں کے درميان خدا کے اوليائ ہوتے ہيں کہ جن کے ذريعے سے وہ اپنے نيک بندگان کي حمايت کرتا ہے۔ اور تم ان اوليائ ميں سے ہو۔‘‘
علي بن يقطين کے کام چند امور پر مشتمل تھے:
١۔ دربار کي اندروني معلومات امامٴ تک پہنچانا:
مرحوم مجلسي کہتے ہيں کہ جب شہيدِ فخ حسين بن علي کي تحريک کچل دي گئي تو ان کے سر چند اسيروں کے ہمراہ عباسي خليفہ موسيٰ بن مہدي کے پاس بھيجے گئے۔ اس نے حکم ديا کہ اسيروں کو قتل کر ديا جائے اور دوسرے علويوں کا بھي نام ليا يہاں تک کہ امام موسيٰ کاظمٴ کا نام زبان پر آيا۔ اس نے غضبناک ہوکر کہا کہ حسين نے اسي کے کہنے پر تحريک چلائي تھي کيونکہ وہي اس خاندان کے وصي ہيں۔ خدا مجھے مار ڈالے اگر ميں اسے زندہ چھوڑ دوں۔
جناب علي بن يقطين نے اس واقعے کي اطلاع تحريري طور پر امامٴ کو دي اور آپٴ کو اس کے ارادے سے باخبر کيا۔ امامٴ نے چند شيعوں اور اپنے اہلبيت کو بلايا اور ان سے اس بارے ميں گفتگو کي۔ انہوں نے تجويز دي کہ امامٴ کچھ عرصے کے لئے روپوش ہو جائيں۔ ليکن امامٴ نے انہيں عباسي خليفہ موسيٰ کي موت کي خوشخبري سنائي۔
٢۔ امام کي مالي امداد:
مرحوم کشي اپني کتاب رجال ميں کہتے ہيں: علي بن يقطين نے چند خطوط اور وافر مقدار ميں مال دو قابلِ اعتماد افراد کے ذريعے امامٴ کے لئے بھيجا۔ ملاقات کے لئے مدينہ سے باہر ’’بطن الرمہ‘‘ نامي علاقے ميں ملاقات طے ہوئي۔ امامٴ بذاتِ خود تشريف لائے اور اموال اپني تحويل ميں لئے۔ اس کے بعد اپني آستين سے کچھ خطوط نکال کر انہيں ديئے اور فرمايا کہ يہ تمہارے پاس موجود خطوط کے جواب ہيں۔ آنے والے افراد نے بتايا کہ ان کے پاس زادِراہ کم ہے۔ امامٴ نے ايک نظر ان کے زادِراہ پر ڈالي اور فرمايا: ’’يہ تمہارے لئے کافي ہے۔ تم لوگ واپس چلے جاو، ميں نے نمازِ فجر لوگوں کے ساتھ مسجد النبي ميں ادا کي ہے۔ اب ظہر کي نماز کے لئے وہاں پہنچنا ہے۔ ‘‘
اس واقعے سے نہ صرف علي بن يقطين کے ساتھ امامٴ کے رابطے اور اس کي جانب سے مالي امداد کا پتہ چلتا ہے بلکہ امامٴ کي گہري سياسي تدبير اور امامٴ اور علي بن يقطين کے درميان منظم سسٹم کي موجودگي کي نشاندہي بھي کرتا ہے۔
٣۔ شيعوں کي مالي امداد:
علي بن يقطين شيعوں کي مالي امداد اور ان کي حمايت کے لئے ہر سال کچھ لوگوں کو اپني جانب سے حج کے لئے بھيجتے تھے اور اس بہانے سے انہيں بڑي رقم ديا کرتے تھے۔ مرحوم قمي يونس کے بقول کہتے ہيں کہ ايک سال اس نے علي بن يقطين کي جانب سے حج کے لئے بھيجے جانے والے افراد کي تعداد ١٥٠ تک شمار کي۔ اس کے علاوہ جن معاملات ميں شيعوں کو ٹيکس دينا لازمي ہوتا تھا، وہاں پر ٹيکس وصول کر کے ان کو دوبارہ لوٹا ديا کرتے تھے۔
شہيد فخ کي حمايت:
امام موسيٰ کاظم عليہ السلام کي سياسي جدوجہد کا ايک اور جلوہ شہيد فخ کي تحريک کي حمايت ميں نظر آتا ہے۔ ان کا نام حسين بن علي بن حسن مثنيٰ بن حسنٴ مجتبيٰ اور ان کي والدہ کا نام زينب بن عبد اللہ محض تھا۔ آپ مدينہ منورہ سے ايک فرسخ کے فاصلے پر واقع ’’فخ‘‘ نامي مقام پر شہيد ہوئے اسي لئے شہيدِ فخ کے نام سے معروف ہيں۔
اس عظيم شخص کي فضيلت ميں متعدد روايات نقل ہوئي ہيں۔ ان ميں سے ايک روايت يہ ہے کہ پيغمبر اکرم۰ نے ايک بار فخ کے مقام سے گذرتے ہوئے فرمايا:
’’جبرئيل مجھ پر نازل ہوئے اور کہا کہ اے محمد، اس سرزمين پر آپ کے خاندان کا ايک مرد شہيد ہوگا اور اس کے ساتھ شہيد ہونے والے شخص کو دو شہيدوں کا ثواب ملے گا۔‘‘
امام صادقٴ سے بھي منقول ہے کہ جب فخ کے مقام پر پہنچے تو دو رکعت نماز ادا کي اور جب راوي نے سوال کيا کہ کيا يہ بھي اعمال حج ميں شامل ہے تو فرمايا: نہيں، ليکن اس سرزمين پر ميرے خاندان کا ايک فرد اپنے چند ساتھيوں کے ساتھ شہيد ہوگا کہ جن کي روحيں ان کے جسموں سے پہلے جنت ميں داخل ہوجائيں گي۔
يہ بزرگ جو کہ مدينہ کے گورنر کي جانب سے علويوں پر ہونے والے ظلم و ستم سے تنگ آگئے تھے، انہوں نے مسلح تحريک کا آغاز کر ديا۔ يہ وہ موقع تھا جب بنو عباس کا ظالم خليفہ ہادي عباسي حکومت کيا کرتا تھا۔ فيصلہ ہوا کہ صبح کي اذان سے پہلے تحريک شروع کر دي جائے۔ حسين بن علي جو اس تحريک کي قيادت کر رہے تھے، امام موسيٰ کاظم عليہ السلام کي خدمت ميں پہنچے۔ امامٴ نے اسے مختلف ہدايتيں ديں:
’’تم شہيد ہو جاو گے۔ اچھي طرح اپني ضرب لگاو، اپني پوري کوشش کرو۔ يہ فاسق لوگ ہيں، بظاہر مومن ہيں ليکن اپنے باطن ميں نفاق اور شک کو چھپائے ہوئے ہيں۔ ہم سب خدا کے ہيں اور اسي کي طرف لوٹ جائيں گے۔‘‘
جو بات امام کي جانب سے شہيدِ فخ کي تحريک کي حمايت اور تائيد کو زيادہ واضح طور پر بيان کرتي ہے، امامٴ کے وہ جملات ہيں جو آپٴ نے حسين بن علي کي شہادت کے بعد فرمائے۔
’’خدا کي قسم حسين اس حالت ميں اس دنيا سے رخصت ہوئے کہ مسلمان، نيک، روزہ دار، امر بہ معروف اور نہي از منکر کرنے والے تھے اور خاندان ميں ان جيسا کوئي نہيں تھا۔‘‘
ہادي عباسي نے قيامِ حسين بن علي کے بعد کہا: خدا کي قسم حسين نے يہ تحريک موسيٰ کاظمٴ کے کہنے پر شروع کي تھي اور وہ وہي چاہتے تھے جو ان کي (يعني امام موسيٰ کاظمٴ کي) خواہش تھي کيونکہ وہي اس خاندان کے وصي ہيں۔ خدا مجھے قتل کرے اگر ميں اسے چھوڑ دوں۔
طويل اسيري:
اور امام موسيٰ کاظمٴ کي سياسي جدوجہد کا پانچواں جلوہ آپٴ کي طويل اسيري ميں ديکھا جاسکتا ہے۔ يہ خود آپٴ کي جدوجہد کي زندہ جاويد نشاني ہے اور ديني سرحدوں کے اِن لازوال محافظوں کي لازوال جدوجہد کو حق جو افراد کے سامنے راستہ کھولا جائے گا۔ اور اس بارے ميں عليحدہ طور پر تحرير ہوني چاہئے۔ اب ہم امام موسيٰ کاظمٴ کي زيارت کے الفاظ پڑھتے ہيں:
السلام علي المعذب في قعر السجون و ظلم المطامير ذي الساق المرضوض:
سلام ہو ان پر جو تاريک قيدخانوں ميں اذيتيں سہتے رہے، اور زخمي پيروں سے اس دنيا سے رخصت ہوئے۔
source : http://www.alhassanain.com/urdu/show_magazin.php?magazinname_id=22