اردو
Thursday 28th of March 2024
0
نفر 0

دسویں معصوم آٹھویں امام حضرت رضا (ع)

آلِ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ کے اس سلسلہ میں ھر فرد خدا وند عالم کی طرف سے بلند ترین علم کے درجہ پر قرار دیا گیا تھا جسے دوست اور دشمن سب کو ماننا پڑتا تھا , یہ اور بات ھے کہ کسی کو علمی فیوض پھیلانے کا زمانے نے کم موقع دیا اور کسی کو زیادہ ۔ چنانچہ ان حضرات میں سے امام جعفر صادق علیہ السّلام کے بعد اگر کسی کو موقع حاصل ھوا ھے تو وہ امام رضا علیہ السلام ھیں . جب آپ امامت کے منصب پر نھیں پھنچے تھے اس وقت بھی حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السّلام اپنے تمام فرزندوں اور خاندان کے لوگوں کونصیحت فرماتے تھے کہ تمھارے بھائی علی رضا عالمِ الِ محمد ھیں . اپنے دینی مسائل کو ان سے دریافت کرلیا کرو اور جو کچہ وہ کھیں اسے یاد رکھو اور پھر حضرت موسیٰ کاظم علیہ السّلام کی وفات کے بعد جب آپ مدینہ میں تھے اور روضئہ رسول پر تشریف فرما تھے تو علمائے اسلام مشکل مسائل میں آپ ھی کی طرف رجوع کرتے تھے . محمد ابن عیسیٰ القطینی کا بیان ھے کہ میں نے ان کے جوابات تحریر کیے تھے اور جب اکٹھے کیے تو اٹھارہ ھزار کی تعداد میں تھے.

دسویں معصوم

آٹھویں امام حضرت رضا (ع)

نام ونسب

اسم گرامی : علی (ع)

لقب : رضا

کنیت : ابو الحسن

والد کا نام : موسیٰ

والدہ کانام : نجمہ اور دوسری روایت کے مطابق تکتم

تاریخ ولادت : ۱۱/ ذیقعدہ ۱۴۸ھء

جائے ولادت : مدینہ منورہ

مدت امامت : ۲۰/ سال

عمر : ۵۵/سال

تاریخ شھادت : ۱۷ / ماہ صفردوسری روایت کے مطابق آخر ماہ صفر ۲۰۳ھء

شھادت کی وجہ : مامون رشید نے آپ کو زھر دیکر شھید کر دیا

روضہ اقدس : ایران ( مشھد مقدس )

اولاد کی تعداد : ۵/ بیٹے اور ۱/ بیٹی

بیٹوں کے نام : (۱) محمد قانع (۲) حسن (۳) جعفر (۴) ابراھیم (۵) حسین

بیٹی کا نام : عائشہ

بیویاں : ۱

انگوٹھی کے نگینے کا نقش : ” ما شاء اللہ لا قوة الّا باللہ “

ولادت 

تربیت 

آپ کی نشوونما اور تربیت آپ کے والد بزرگوار حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السّلام کے زیر سایہ ھوئی اور اس مقدس ماحول میں بچپنا اور جوانی کی متعدد منزلیں طے ھوئیں ۔ اس طرح پینتیس برس کی عمر پوری ھوئی. اگرچہ آخری چند سال اس مدت کے وہ تھے جب امام موسیٰ علیہ السّلام کاظمین ،عراق میں قید وظلم کی سختیاں برداشت کررھے تھے ۔

جانشینی 

امام موسیٰ کاظم کو معلوم تھا کہ حکومت وقت آپ کو آزادی سے سانس لینے نہ دے گی اور ایسے حالات پیش آجائیں گے کہ آپ کے آخری عمر کے حصے میں دوستانِ اھلبیت علیہ السّلام کا آپ سے ملنا یا بعد کے لئے رھنما کا دریافت کرنا غیر ممکن ھوجائے گا . اس لئے آپ نے انھی آزادی کے دنوں اور سکون کے اوقات میں جب کہ آپ مدینہ میں تھے، پیروانِ اھلیبت علیہ السّلام کو آپ نے بعد ھونے والے امام سے روشناس کرنے کی ضرورت محسوس فرمائی . چنانچہ اولاد علی علیہ السّلام وفاطمہ(س) میں سے سترہ آدمیوں کو جو ممتاز حیثیت رکھتے تھے ،جمع فرما کر آپ نے اپنے فرزند علی رضا علیہ السّلام کی وصایت وجانشینی کااعلان فرمایااور ایک وصیت نامہ تحریراً بھی مکمل فرمایا , جس پر مدینہ کے معزز ین میں سے ساٹھ آدمیوں کی گواھی لکھی گئی , یہ اھتمام دوسرے آئمہ کے یھاں نظر نھیں آتا مگر صرف ان خصوصی حالات کی بنا پر جن سے دوسرے آئمہ اپنی شھادت کے موقع پر دوچار نھیں ھونے والے تھے .

دور امامت

پینتیس برس کی عمر میں جب آپ کے والد بزرگوار حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السّلام کی وفات ھوئی اور امامت کی ذمہ داری آپ کی طرف منتقل ھوئی تو یہ وہ وقت تھا کہ جب بغداد میں ھارون رشید تخت خلافت پر تھا اور بنی فاطمہ(س) کے لئے حالات بھت ناساز گار تھے . اس ناخوشگوار ماحول میں حضرت نے خاموشی کے ساتھ شریعت حقہ کے خدمات انجام دینا شروع کر دیے.

علمی کمال

آلِ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ کے اس سلسلہ میں ھر فرد خدا وند عالم کی طرف سے بلند ترین علم کے درجہ پر قرار دیا گیا تھا جسے دوست اور دشمن سب کو ماننا پڑتا تھا , یہ اور بات ھے کہ کسی کو علمی فیوض پھیلانے کا زمانے نے کم موقع دیا اور کسی کو زیادہ ۔ چنانچہ ان حضرات میں سے امام جعفر صادق علیہ السّلام کے بعد اگر کسی کو موقع حاصل ھوا ھے تو وہ امام رضا علیہ السلام ھیں . جب آپ امامت کے منصب پر نھیں پھنچے تھے اس وقت بھی حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السّلام اپنے تمام فرزندوں اور خاندان کے لوگوں کونصیحت فرماتے تھے کہ تمھارے بھائی علی رضا عالمِ الِ محمد ھیں . اپنے دینی مسائل کو ان سے دریافت کرلیا کرو اور جو کچہ وہ کھیں اسے یاد رکھو اور پھر حضرت موسیٰ کاظم علیہ السّلام کی وفات کے بعد جب آپ مدینہ میں تھے اور روضئہ رسول پر تشریف فرما تھے تو علمائے اسلام مشکل مسائل میں آپ ھی کی طرف رجوع کرتے تھے . محمد ابن عیسیٰ القطینی کا بیان ھے کہ میں نے ان کے جوابات تحریر کیے تھے اور جب اکٹھے کیے تو اٹھارہ ھزار کی تعداد میں تھے.

زندگی کے مختلف دور

حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السّلام کے بعد دس برس ھارون کادور رھا ۔ یقیناً وہ امام رضا علیہ السّلام کے وجود کو بھی دنیا میں اسی طرح برداشت نھیں کرسکتا تھا جس طرح اس کے پھلے آپ کے والد بزرگوار کا رھنا اس نے گورا نھیں کیا . مگر یا تو امام موسیٰ کاظم علیہ السّلام کے ساتھ جو طویل مدت تک تشدد اور ظلم ھوتا رھا اور جس کے نتیجہ میں قید خانہ ھی کے اندر آپ دنیا سے رخصت ھوگئے ،اس سے حکومت وقت کی عام بدنامی ھوگئی تھی اور یا واقعی ظالم کو اپنی بد سلوکیوں کا احساس ھوا اور ضمیر نے ملامت کی ہو جس کی وجہ سے کھلم کھلا امام رضا علیہ السّلام کے خلاف کوئی کاروائی نھیں کی گئی , یھاں تک کھا جاتا ھے کہ ایک دن یحییٰ ابن خالد برمکی نے اپنا اثرو رسوخ بڑھانے کے لئے یہ کھا کہ علی ابن موسیٰ بھی اب اپنے باپ کے بعد امامت کے اسی طرح دعویدار ھیں تو ھارون نے جواب دیا کہ جو کچہ میں نے ان کے باپ کے ساتھ کیا وھی کیا کم ھے جواب تم چاھتے ھو کہ میں اس نسل ھی کا خاتمہ کردوں پھر بھی ھارون رشید کااھل بیت رسول سے شدید اختلاف اور سادات کے ساتھ جو برتاؤ اب تک تھا اس کی بنا پر عام طور سے عمال حکومت یا عام افراد بھی جنھیں حکومت کو راضی رکھنے کی خواھش تھی ،اھل بیت کے ساتھ کوئی اچھا رویّہ رکھنے پر تیار نھیں ھوسکتے تھے اور نہ امام کے پاس آزادی کے ساتھ لوگ استفادہ کے لئے آسکتے تھے، نہ حضرت کو سچے اسلامی احکام کی اشاعت کے مواقع حاصل تھے .

ھارون کا آخری زمانہ اپنے دونوں بیٹوں امین اور مامون کی باھمی رقابتوں کی وجہ سے بھت بے لطفی میں گزرا . امین پھلی بیوی سے تھا جو خاندان شاھی سے منصور دوانقی کی پوتی تھی اور اس لئے عرب سردار سب اس کے طرفدار تھے اور مامون ایک عجمی کنیز کے پیٹ سے تھا . اس لئے درباد کاعجمی طبقہ اس سے محبت رکھتا تھا . دونوں کی آپس میں رسہ کشی ھارون کے لئے سوھانِ روح بنی رھتی تھی , اس نے اپنے خیال میں اس کا تصفیہ مملکت کی تقسیم کے ساتھ یوں کردیا کہ دارالسلطنت بغداد اور اس کے چاروں طرف کے عربی حصے جیسے شام ,مصرحجاز , یمن وغیرہ محمد امین کے نام کئے گئے اور مشرقی ممالک جیسے ایران , خراسان , ترکستان وغیرہ مامون کے لئے مگر یہ تصفیہ تو اس وقت کار گرھوسکتا تھا جب دونوں فریق»جیو اور جینے دو« کے اصول پر عمل کرتے ھوتے ! لیکن جھاں اقتدار کی ھوس کار فرماھو ،وھاں اگر بنی عباس کے ھاتھوں بنی فاطمہ(س) کے خلاف ھر طرح کے ظلم وتعدی کی گنجائش پیدا ھوسکتی ھے تو خود بنی عباس میں ایک گھر کے اندر دو بھائی اگر ایک دوسرے کے مدمقابل ھوں تو کیوں نہ ایک دوسرے کے خلاف جارحانہ کاروائیاں کرنے کے لئے تیارنظر نہ آتے . اور کیوں نہ ان طاقتوں میں باھم تصادم ھو ۔جب ان میں سے کوئی اس ھمدردی اور ایثار اورخلقِ خدا کی خیر خواھی کا بھی حامل نھیں ھے جسے بنی فاطمہ اپنے پیش نظر کر اپنے واقعی حقوق سے چشم پوشی کرلیا کرتے تھے . اسی کانتیجہ تھا کہ ادھر ھارون کی آنکھ بند ھوئی اور ادھر بھائیوں میں خانہ جنگی کے شعلے بھڑک اٹھے . آخر چار برس کی مسلسل کشمکش اور طویل خونریزی کے بعد مامون کو کامیابی ھوئی اور اس کا بھائی امین محرم891 ھ میں تلوار کے گھاٹ اتار دیا گیا اور مامون کی خلافت بنی عباس کے تمام حدودسلطنت پر قائم ھوگئی .

ولی عھدی

امین کے قتل ھونے کے بعد سلطنت تو مامون کے نام سے قائم ھوگئی مگر یہ پھلے کھا جاچکا ھے کہ امین ننیھال کی طرف سے عربی النسل تھا اور مامون عجمی النسل ۔.امین کے قتل ھونے سے عراق کی عرب قوم اور ارکان سلطنت کے دل مامون کی طرف سے صاف نھیں ھوسکتے تھے بلکہ ایک غم وغصہ کی کیفیت باقی تھی . دوسری طرف خود بنی عباس میں سے ایک بڑی جماعت جو امین کی طرف دار تھی ،سے بھی مامون کو ھر وقت خطرہ لگا رھتا تھا ۔ اولادفاطمہ(س) میں سے بھت سے لوگ جو وقتاً فوقتاً بنی عباس کے مقابل میں کھڑے ھوتے رھتے تھے وہ خواہ قتل کردیئے گئے ھوں یا جلاوطن کئے گئے ھوں یاقید رکھے گئے ھوں ،ان کے بھی ایک حامی جماعت تھی جو اگر حکومت کا کچہ بگاڑ نہ بھی سکتی تب بھی دل ھی دل میں حکومت بنی عباس سے بیزار ضرور تھی ۔

ایران میں ابو مسلم خراسانی نے بنی امیہ کے خلاف جو اشتعال پید اکیا تھا وہ ان مظالم ھی کو یاد دلا کر جو بنی امیہ کے ہاتھوں حضرت امام حسین علیہ السّلام اور دوسرے بنی فاطمہ کے ساتھ ھوئے تھے . اس سے ایران میں اس خاندان کے ساتھ ھمدردی کا پیدا ھونا فطری تھا , درمیان میں بنی عباس نے اس سے غلط فائدہ اٹھایا مگر اتنی مدت میں کچہ نہ کچہ تو ایرانیوں کی آنکھیں بھی کھلی ھی ھوں گی کہ ھم سے کیاکھاگیا تھا اور اقتدار کن لوگوں نے حاصل کرلیا ۔ ممکن ھے کہ ایرانی قوم کے ان رجحانات کاچرچا مامون کے کانوں تک بھی پھنچا ھو . اب جس وقت کہ امین کے قتل کے بعد وہ عرب قوم پر اور بنی عباس کے خاندان پر بھروسہ نھیں کرسکتا تھا اور اسے ھر وقت اس حلقہ سے بغاوت کااندیشہ تھا تو اسے سیاسی مصلحت اسی میں معلوم ھوئی کہ عرب کے خلاف عجم اور بنی عباس کے خلاف بنی فاطمہ کو اپنا بنایا جائے اور چونکہ طرزِعمل میں خلوص سمجھا نھیں جاسکتا اور وہ عالمِ طبائع پر اثر نھیں ڈال سکتا . اگر یہ نمایاں ھوجائے کہ وہ سیاسی مصلحتوں کی بنا پر ھے ا س لئے ضرورت ھوئی کہ مامون مذھبی حیثیت سےاپنی شیعیت اور ولائے اھل بیت علیھم السّلام کے چرچے عوام کے حلقوں میں پھیلائے اور یہ دکھلائے کہ وہ انتھائی نیک نیتی سے اب »حق بحق دار رسید « کے مقولے کو سچا بنانا چاھتا ھے .

اس سلسلے میں جیسا کہ جناب شیخ صدوق اعلٰی الله مقامہ , نے تحریرفرمایا ھے کہ اس نے اپنی نذر کی حکایت بھی نشر کی کہ جب امین کااور میرا مقابلہ تھا اور بھت نازک حالت تھی اور عین اسی وقت میرے خلاف سیستان اور کرمان میں بھی بغاوت ھوگئی تھی اور خراسان میں بے چینی پھیلی ھوئی تھی اور میری مالی حالت بھی ابتر تھی اور فوج کی طرف سے بھی اطمینان نہ تھا تو اس سخت اور دشوار ماحول میں میں نے خدا سے التجا کی اور منّت مانی کہ اگر یہ سب جھگڑے ختم ھوجائیں اور میں خلافت تک پھنچوں تو اس کو اس کے اصلی حقدار یعنی اولادِ فاطمہ میں سے جو اس کااھل ھو اس تک پھنچادوں گا. اسی نذر کے بعد سے میرے سب کام بننے لگے اور آخر تمام دشمنوں پر مجھے فتح حاصل ھوئی..

یقیناً یہ واقعہ مامون کی طرف سے اس لئے بیان کیا گیا کہ اس کا طرزِ عمل ،خلوص قلب اورحسن نیّت پر مبنی سمجھا جائے . یوں تو اھلیبت علیھم السّلام کے جو کھلے ھوئے سخت سے سخت دشمن تھے وہ بھی ان کی حقیقت اور فضیلت سے واقف تھے ھی اور ان کی عظمت کو جانتے تھے مگر شیعیت کے معنیٰ صرف یہ جاننا ھی تو نھیں ھیں بلکہ محبت رکھنا اوراطاعت کرنا بھی ھیں اور مامون کے طرزِ عمل سے یہ ظاھر ھے کہ وہ اس دعوائے شیعیت اور محبت اھلیبت علیھم السّلام کاڈھنڈورا پیٹنے کے باوجود خود امام کی اطاعت نھیں کرنا چاھتا تھا بلکہ عوام کو اپنی منشا کے مطابق چلانے کی کوشش کرتا تھا ۔.ولی عھدبننے کے بارے میں آپ کے اختیارات کو بالکل سلب کردیا گیا اور آپ کو مجبور بنا دیا گیا تھا . اس سے ظاھرھے کہ ولی عھدی کی تفویض بھی ایک حاکمانہ تشدد تھا جو اس وقت شیعیت کے بھیس میں امام کے ساتھ کیا جارھا تھا .

امام کا اس ولی عھدی کوقبول کرنا بالکل ایسا ھی تا جیسا ھارون کے حکم سے امام موسیٰ کاظم کا جیل خانہ چلے جانا۔ اسی لئے جب امام رضا علیہ السّلام مدینہ منورہ سے خراسان کی طرف روانہ ھورھے تھے تو آپ کے رنج وصدمہ اور اضطراب کی کوئی حد نہ تھی روضئہ رسول سے رخصت کے وقت آپ کا وھی عالم تھا جوحضرت امام حسین علیہ السّلام کا مدینہ سے روانگی کے موقع پر تھا .دیکھنے والوں نے دیکھا کہ آپ بیتابانہ روضئہ کے اندر جاتے تھے اور نالہ و آہ کے ساتھ امت کی شکایت کرتے ھیں . پھر باھر آتے نکل کر گھر جانے کا ارادہ کرتے اور پھر دل نھیں مانتا , پھر روضہ سے جاکر لپٹ جاتے . یھی صورت کئی مرتبہ پیدا ھوئی . راوی کابیان ھے کہ میں حضرت کے قریب گیا تو آپ نے فرمایا: اے محول! میں اپنے جدِ امجد کے روضہ سے بجبر جُدا کیا جارھا ھوں . اب مجہ کو یھاں واپس آنا نصیب نہ ھوگا .

200 ھ میں حضرت مدینہ منورہ سے خراسان کی طرف روانہ ھوئے , اھل وعیال اور متعلقین سب مدینہ ھی میں رہ گئے . اس وقت امام محمد تقی علیہ السّلام کی عمر پانچ برس کی تھی . آپ بھی مدینہ میں ھی رھے . جب حضرت مرو پھنچے جو اس وقت دارالسلطنت تھاتو مامون نے چند روز ضیافت وتکریم کے مراسم ادا کرنے کے بعد قبول خلافت کاسوال پیش کیا.حضرت نے اس سے اسی طرح انکار کیا جس طرح امیر المومنین علیہ السّلام چوتھے موقع پر خلافت پیش کیے جانے کے وقت انکار فرمارھے تھے , مامون کو خلافت سے دست بردار ھونا درحیقیقت منظور نہ تھا ورنہ وہ امام کو اسی پر مجبور کرتا . چنانچہ جب حضرت نے خلافت قبول کرنے سے انکار فرمایا تو اس نے ولی عھدی کا سوال پیش کیا. حضرت اس کے بھی انجام سے واقف تھے . نیز بخوشی جابر حکومت کی طرف سے کوئی منصب قبول کرنا آپ کے مذھبی اصول کے خلاف تھا. حضرت نے اس سے بھی انکار فرمایا مگر اس پر مامون کااصرار جبر کی حد تک پھنچ گیا اور اس نے صاف کھہ دیا کہ اگر آپ اس کو منظور نھیں کرسکتے تو آپ کو اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑے گا . جان کا خطرہ قبول کیا جاسکتا ھے جب مذھبی مفاد کا قیام جان دینے پر موقوف ھو ورنہ حفاظت جان شریعت اسلام کا بنیادی حکم ھے .امام نے فرمایا یہ ھے تو مجبوراً قبول کرتا ھوں مگر کاروبار سلطنت میں میں دخل نہ دوں گا . اس کے بعد یہ ولی عھدی صرف برائے نام تھی اور سلطنت وقت کے ایک ڈھکوسلے سے زیادہ کوئی وقعت نہ رکھتی تھی . جس سے ممکن ھے کچہ عرصہ تک کسی سیاسی مقصد میں کامیابی حاصل ھوگئی ھو مگر امام کی حیثیت اپنے فرائض کے انجام دینے میں بالکل وھی تھی جو ان کے پیش روحضرت علی مرتضی علیہ السّلام اپنے زمانہ کی بااقتدار طاقتوں کے ساتھ اختیار کرچکے تھے۔ جس طرح ان کا کبھی کبھی مشورہ دے دینا ان حکومتوں کو صحیح اور نا جائز نھیں بنا سکتا تھا ویسے ھی امام رضا علیہ السّلام کا اس نوعیت سے ولی عھدی کاقبول فرمانا اس سلطنت کے جواز کا باعث نھیں ھوسکتا تھا ,.صرف مامون کی ایک راج ھٹ تھی جو اس طرح پوری ھوگئی مگر امام نے اپنے دامن کو سلطنت ظلم کے اقدامات اور نظم ونسق سے بالکل الگ رکھا .

بنی عباس مامون کے اس فیصلے سے قطعاً متفق نہ تھے انھوں نے بھت کچھ دراندازیاں کیں مگر مامون نے صاف کھہ دیا کہ علی رضا سے بھتر کوئی دوسرا شخص تم بتادو ،اس کا کوئی جواب نہ تھا . اس سلسلے میں بڑے بڑے مناظرے بھی ھوے مگر ظاھر ھے کہ امام کے مقابلہ میں کس کی علمی فوقیت ثابت ھوسکتی تھی , مامون کافیصلہ اٹل تھا اور وہ اس سے ھٹنے کے لئے تیار نہ تھا کہ وہ اپنے فیصلہ کو بدل دیتا .

یکم رمضان 201ھ بروز پنجشنبہ جلسئہ ولی عھدی منعقد ھوا .بڑی شان وشوکت اور تزک واحتشام کے ساتھ یہ تقریب عمل میں لائی گئی . سب سے پھلے مامون نے اپنے بیٹے عباس کو اشارہ کیا اور اس نے بیعت کی . پھر اور لوگ بیعت سے شرفیاب ھوئے ، سونے چاندی کے سکے سرمبارک پر نثار کیے گئے اور تمام ارکانِ سلطنت وملازمین کو انعامات سے نوازا گیا , مامون نے حکم دیا کہ حضرت کے نام کا سکّہ تیار کیا جائے , چنانچہ درھم ودینار پر حضرت کا نام نقش ھوا اور تمام قلمرو میں وہ سکّہ چلایا گیا نیز جمعہ کے خطبہ میں حضرت کانام بھی داخل کیا گیا .

اخلاق واوصاف

"مجبوری اور بے بسی کانام قناعت یادرویشی , عصمت بی بی از بے چادری ,, کے مقولہ کے موافق اکثر ابنائے دنیا کا یھی شعار رھتا ھے مگر ثروت واقتدار کے ساتھ فقیرانہ زندگی اختیار کرنابلند مرتبہ مردانِ خدا کا ھی کا حصہ ھے.اھل بیت معصومین علیھم السّلام میں سے جو بزرگوار اتفاقات روزگار سے ظاھری اقتدار کے درجہ پر پھنچ گئے انھوں نے اتنا ھی فقر اور سادگی کے مظاھرہ میں اضافہ کردیا کہ ان کی زندگی غریب مسلمانوں کی تسلی کاذریعہ بنے اور ان کے لئے نمونہ عمل ھو جیسے امیر المومنین حضرت علی المرتضی علیہ السّلام چونکہ شھنشاہ اسلام مانے جارھے تھے ا س لئے آپ کالباس اور طعام ویسا زاھدانہ تھا جس کی مثال دوسرے معصومین علیہ السّلام کے یھاں نھیں ملتی .یھی صورت حضرت علی رضا علیہ السّلام کی تھی , آپ مسلمانوں کی اس عظیم الشان سلطنت کے ولی عھد بنائے گئے تھے جس کی وسعت مملکت کے سامنے روم وفارس کاذکر بھی طاقِ نسیاں کی نذر ھوگیا تھا . جھاں اگر بادل سامنے سے گزرتا تھا تو خلیفہ کی زبان سے آواز بلند ھوتی تھی کہ »جا جھاں تجھے برسنا ھو برس , بھتر حال تیری پیداواری کا خراج میرے پاس ھی آئے گا .,,

حضرت امام رضا علیہ السّلام کا اس سلطنت کی ولی عھدی پر فائز ھونا دنیا کے سامنے ایک نمونہ تھا کہ دین والے اگر دنیا کو پاجائیں تو ان کارویہ کیا ھوگا , یھاں امام رضا علیہ السّلام کو اپنی دینی ذمہ داری کو محسوس کرتے ھوئے ضرورت تھی کہ زھد اور ترک ُدنیا کے مظاھرے اتنے ھی نمایاں تربنادیں جتنے تزک و احتشام کے دینی تقاضے زیادہ ھیں ۔ چنانچہ تاریخ نے اپنے کو دھرایا اور علی رضا علیہ السّلام کے لباس میں علی المرتضی علیہ السّلام کی سیرت دنیا کی نگاھوں کے سامنے آگئی .آپ نے اپنے دولت سرا میں قیمتی قالین بچھوانا پسند نھیں کیا بلکہ جاڑے میں بالوں کا کمبل اور گرمی میں چٹائی کا فرش بچھا رھاکرتا تھا , کھانا سامنے لایا جاتا تو دربان سائیس اور تمام غلاموں کو بلا کر اپنے ساتھ کھانے میں شریک فرماتے تھے . آداب شاھی کے خوگر ایک بلخی شخص نے ایک دن کھہ دیا کہ حضور اگر ان لوگوں کے کھانے کا انتظام الگ ھوجایا کرے تو کیا حرج ھے? حضرت نے فرمایا سب کاالله خالق ھے . ماں سب کی حواّ اور باپ سب کے آدم ھیں . ھر ایک کی جزاوسزا اس کے عمل کے مطابق ھوگی , پھر دنیا میں تفرقہ کس لئے ھو.

اسی عباسی سلطنت کے ماحول کا ایک جز بن کرجھاں صرف پیغمبر کی طرف ایک قرابتداری کی نسبت کے سبب اپنے کو خلق خدا پر حکمرانی کاحقدار بنایا جاتا تھا اور اس کے ساتھ کبھی اپنے اعمال وافعال پر نظر نہ کی جاتی تھی کہ ھم کیسے ھیں اور ھم کو کیا کرنا چاھیئے . یھاں تک کہ یہ کھاجانے لگاکہ بنی عباس ظلم وستم اور فسق وفجور میں بنی امیہ سے کم نہ رھے بلکہ بعض باتوں میں ان سے آگے بڑھ گئے اور اس کے ساتھ پھر بھی قرابتِ رسول پر افتخار تھا اس ماحول کے اندر داخل ھو کرامام رضا علیہ السّلام کا اس بات پر بڑا زور دینا کہ قرابت کوئی چیز نھیں اصل انسان کا عمل ھے بظاھر صرف ایک شخص کا اظھار فروتنی اور انکسار نفس تھا جو بھرحال ایک اچھی صفت ھے لیکن حقیقت میں وہ اس سے بڑھ کر تقریباً ایک صدی کی عباسی سلطنت کی پیدا کی ھوئی ذھنیت کے خلاف اسلامی نظریہ کااعلان تھااور اس حیثیت سے بڑا اھم ھوگیا تھا کہ وہ اب اسی سلطنت کے ایک رکن کی طرف سے ھورھا تھا . چنانچہ امام رضا علیہ السّلام کی سیرت میں اس کے مختلف شواھد ھیں , ایک شخص نے حضرت کی خدمت میں عرض کی کہ »خدا کی قسم آباؤ اجداد کے اعتبار سے کوئی شخص آپ سے افضل نھیں ۔حضرت نے فرمایا: میرے آباواجداد کو جو شرف حاصل ھوا ھے وہ صرف تقویٰ , پرھیز گاری اوراطاعتِ خدا کی وجہ سے ھے ۔ ایک شخص نے کسی دن کھا کہ والله آپ بھترین مخلوق ھیں .۔حضرت نے فرمایا: اے شخص حلف نہ اٹھا, جس کاتقویٰ وپرھیز گاری مجھ سے زیادہ ھو وہ مجہ سے افضل ھے .,,. 

ابراھیم بن عباس کابیان ھے کہ حضرت فرماتے تھے کہ میری تمام لونڈی اور غلام آزاد ھوجائیں اگر اس کے سوا کچہ اور ھو کہ میں اپنے کو محض رسول الله کی قرابت کی وجہ سے اس سیاہ رنگ غلام سے بھی افصل نھیں جانتا (حضرت نے اپنے ایک غلام کی جانب اشارہ کیا ) ھاں جب عملِ خیر بجا لاؤں گا تو الله کے نزدیک اس سے افضل ھوں گا .,,

یہ باتیں کو تاہ نظر لوگ صرف ذاتی انکسار ی پر محمول کرلیتے ھوں مگر خود حکومت عباسیہ کا فرماں روا یقیناً اتنا کند ذھن نہ ھوگا کہ وہ ان تازیانوں کو محسوس نہ کرے جو امام رضا علیہ السّلام کے خاموش افعال اور ا س طرح کے اقوال سے اس کے خاندانی نظامِ سلطنت پر برابر لگ رھے تھے . اس نے تو بخیال خود ایک وقتی سیاسی مصلحت سے اپنی سلطنت کو مستحکم بنانے کے لئے حضرت کو ولی عھد بنایا تھا مگر بھت جلد اسے محسوس ھوا کہ اگران کی زندگی زیادہ عرصہ تک قائم رھی تو عوام کی ذھنیت میں یک لخت انقلاب آجائے گا اور عباسی سلطنت کاتخت ھمیشہ کے لئے الٹ جائے گا.

عزائے حسین کی اشاعت

اب امام رضا علیہ السّلام کو تبلیغ حق کے لئے نام حسین کی اشاعت کے کام کو ترقی دینے کا بھی پورا موقع حاصل ھوگیا تھا جس کی بنیاد اس کے پھلے حضرت امام محمد باقر علیہ السّلام اور امام جعفر صادق علیہ السّلام قائم کرچکے تھے مگر وہ زمانہ ایسا تھا کہ امام کی خدمت میں وھی لوگ حاضر ھوتے تھے جو بحیثیت امام اور بحیثیت عالم دین آپ کے ساتھ عقیدت رکھتے تھے اور اب امام رضا علیہ السّلام تو امام روحانی بھی ھیں اور ولی عھد سلطنت بھی . اس لئے آپ کے دربار میں حاضر ھونے والوں کا دائرہ وسیع ھے .مرو وہ مقام ھے جو ایران کے تقریباً وسط میں واقع ھے.ھر طرف کے لوگ یھاں آتے ھیں اور یھاں یہ عالم ھے کہ ادھر محرم کا چاند نکلا اور آنکھوں سے آنسو جاری ھوگئے . دوسروں کو بھی ترغیب وتحریص کی جانے لگی کہ آلِ محمد(س) کے مصائب کو یاد کرو اور تاثرات غم کو ظاھر کرو.یہ بھی ارشاد ھونے لگا کہ جو اس مجلس میں بیٹھے جھاں ھماری باتیں زندہ کی جاتی ھیں اس کا دل مردہ نہ ھوگا ، اس دن کہ جب سب کے دل مردہ ھوں گے .

تذکرہ 

امام حسین علیہ السّلام کے لئے جو مجمع ھو اس کانام اصطلاحی طو ر پر مجلس رکھا جائے ، یہ امام رضا علیہ السّلام کی حدیث ھی سے ماخوذ ھے . آپ نے عملی طور پر خود مجلسیں کرنا شروع کر دیں , جن میں کبھی خود ذاکر ھوئے اور دوسرے سامعین جیسے ابان بن شیب کے سامنے آپ نے مصائب امام حسین علیہ السّلام بیان فرمائے اور کبھی عبدالله بن ثابت یادعبل خزاعی ایسے کسی شاعر کی حاضری کے موقع پر اس شاعر کو حکم ھوا کہ تم ذکر امام حسین علیہ السّلام میں اشعار پڑھو وہ ذاکر ھوا اور حضرت سامعین میں داخل ھوئے .

دعبل کو حضرت نے بعدمجلس ایک قیمتی حلّہ بھی مرحمت فرمایا جس کے لینے میں دعبل نے یہ کھہ کرعذر کیاکہ مجھے قیمتی حلّہ کی ضرورت نھیں ھے ۔اپنے جسم کااترا ھوا لباس مرحمت فرمایئے تو حضرت نے ان کی خوشی پوری کی وہ حلّہ تو انھیں دیا ھی دیا مگر اس کے علاوہ اپنے پھننے کا ایک جبّہ بھی مرحمت فرمایا .

اس سے ذاکر کابلند طریقہ کار کہ اسے کسی دنیوی انعام کی خاطر یا معاذ الله پھلے سے طے کرکے ذاکری نھیں کرنا چاھیے اور بانی مجلس کاطریقہ کار کہ وہ بغیر طے کیے ھوئے کچہ بطور پیشکش ذاکر کی خدمت میں پیش کرے دونوں امرثابت ھوتے ھیں ۔

وفات

مامون کی توقعات غلط ثابت ھونے ھی کا نتیجہ تھا کہ وہ آخر امام کی جان لینے کے درپے ھوگیا اور وھی خاموش حربہ جوان معصومین علیھم السّلام کے ساتھ اس کے پھلے بھت دفعہ استعمال کیا جاچکا تھا، کام میں لایا گیا . انگور میں جو بطور تحفہ امام کے سامنے پیش کیے گئے تھے ،زھر دیا گیا اوراس کے اثر سے17صفر 203میں حضرت نے شھادت پائی ۔ مامون نے بظاھر بھت رنج وماتم کااظھار کیا اور بڑی شان وشکوہ کے ساتھ آپ کو اپنے باپ ھارون رشید کے قریب دفن کیا . جھاں مشھد مقدس میں حضرت کا روضہ آج بھی تاجدارانِ عالم کی جبہ سائی کا مرکز بناھوا ھے وھیں اپنے وقت کا بزرگ ترین دنیوی شھنشاہ ھارون رشید بھی دفن ھے جس کانام ونشاں تک وھاں جانے والوں کو معلوم نھیں ھوتا ۱۱ذی القعد۱۴۸ھ میں مدینہ منورہ میں آپ کی ولادت ھوئی .اس کے تقریباً ایک ماہ قبل ۱۵شوال کو آپ کے جدِ بزرگوار امام جعفر صادق علیہ السّلام کی وفات ھوچکی تھی ۔ اتنے عظیم حادثہ کے بعد جلد ھی اس مقدس مولود کے دنیا میں آجانے سے یقینًاگھرانے میں ایک سکون اور تسلی محسوس کی گئی.


source : http://www.shiastudies.com
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

کیوں تشہد میں علی ولی اللہ پڑھنے کی اجازت نہیں؟
عفو اہلبيت (ع)
عہد امیرالمومنین میں امام حسن کی اسلامی خدمات
حضرت امام رضا (ع) کا کلام
حضرت امام زین العابدین علیہ السلام(حصہ دوم)
حضرت امیر المؤمنین علیہ الصلوٰة والسلام کی والدہ ...
کربلا کے روضوں کے منتظمین کے لیے مشہد میں ہوٹل کی ...
ارشادات نبوی
قرآن کریم میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ...
امام محمد تقی علیہ السلام کی سیاسی سیرت

 
user comment