اردو
Thursday 25th of April 2024
0
نفر 0

قرآن کریم ہر طرح کی تحریف سے محفوظ ہے

 

قرآن کریم وہ آسمانی کتاب ہے جس نے انسانی ضرورتوں کو پورا کیا ہے، یہ تحریف سے محفوظ ہے اور ہر طرح کی تحریف سے محفوظ رکهنے کی خداوندعالم نے خود ذمہ داری لی ہے ۔

مقدمہ

انا نحن نزلنا الذکر و انا لہ لحافظون (سورہ حجر، آیت ۹) ۔

دین اسلام ، الہی قوانین کا آخری، کامل اور سب سے برتر نسخہ ہے جو کامل طور سے فطرت، اور انسان کی عقل کے مطابق ہے اور انسان کی سعادت و کمال کی ذمہ داری لیتا ہے ۔ اس جاوید دین کا اصیل ترین مآخذ قرآن کریم ہے ۔

گذشتہ آسمانی کتابوں میں تحریف واقع ہوئی ہے اور وہ کتابیں اس زمانہ کی ضرورتوں کو پورا نہیں کرسکتیں، لہذا اس زمانہ میں ایسی کتاب ہونا چاہئے جو انسان کی زندگی کی ضرورتوں کو پورا کرسکے اور ہر طرح کی تحریف سے محفوظ ہو۔

قرآن کریم کے نازل اور دین الہی کے کامل ہونے کے بعد ارسال رسل اور آسمانی کتابوں کا نازل ہونا متوقف ہوگیا،اس بناء پر یہاں یہ سوال باقی رہ جاتا ہے کہ کیاقرآن کریم میں بھی دوسری کتابوں کی طرح تحریف ہوئی ہے؟ یاخداوند عالم کے اس آخری نسخہ کو محفوظ رکھنے کے لئے کسی تدبیر کاانتظام کیا ہے تاکہ اس میں تحریف نہ ہوسکے ۔

ہمارا عقیدہ ہے کہ اس زمانہ میں قرآن کریم صرف ایسی آسمانی کتاب ہے جو انسان کی تمام ضرورتوں کو پورا کرتی ہے اور ہر طرح کی تحریف سے محفوظ ہے اور ہر طرح کی تحریف سے محفوظ رکھنے کے لئے خداوندعالم نے خود اس کی ذمہ داری لی ہے ۔

اسی طرح یہ بات بھی واضح ہے کہ ہمارے پاس جو قرآن کریم ہے یہ وہی قرآن ہے جس کو خداوندعالم نے ہمارے پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) پر نازل کیا ہے ۔اور پوری تاریخ میں ہمیشہ یہ تحریف سے محفوظ رہا ہے ، دوسری آسمانی کتابوں کے متعلق اس طرح کا دعوی صادق نہیں آتا، اس بناء پر اس اعتقاد کے ساتھ کہ قرآن کریم ،کلام وحی ہے ، اس کی دوسری آسمانی کتابوں سے بہت زیادہ اہمیت ہے اور یہ مسلمانوں کے لئے بہت بڑا وقار ہے ۔

فرانسوی ڈاکٹرموریس بوکایی لکھتا ہے :

قرآن کریم ، کلام وحی ہے جو جبرئیل فرشتہ کے ذریعہ حضرت محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) پر نازل ہوا ہے اور فورا مومنین کے ذریعہ تحریری صورت میں کاغذ پر لکھا گیا اور ذہنوں میں محفوظ کیا گیاہے، اسی طرح نماز کے وقت خصوصاماہ رمضان میں تلاوت کے ذریعہ اس کو محفوظ کیا گیا ․․․۔ عیسائیوں کی وحی صرف متعدد شہادتوں پر مبتنی ہے ، کیونکہ اس چیز کے برخلاف جس کابہت سے عیسائی تصور کرتے ہیں ، ہمارے پاس کوئی ایک بھی ایسی شہادت موجود نہیں ہے جو حضرت عیسی (علیہ السلام) کی زندگی میں عینی شاہد کے طور پر موجود ہو(۲) 

افسوس جب کہ بعض مسلمان، قرآن کریم کو تحریف شدہ فکر کرتے ہیں اور ان کا عقیدہ ہے کہ اس مقدس کتاب کے بعض حصہ میں تحریف اور بعض حصہ حذف ہوگیا ہے ۔

یہ باطل فکر سب پر اس موضوع کی اہمیت کو روشن کرتی ہے ، اگر چہ یہ باطل فکر بہت کم مسلمانوں کی ہے لیکن آج یہ تہمت شیعوں پر لگائی جارہی ہے جب کہ شیعوں کی اکثریت نے یقین کے ساتھ اس غلط فکر کو قبول نہیں کیا ہے ، صرف کچھ ہی لوگوں کا یہ نظریہ ہے ، جو لوگ اپنے آپ کو مسلمانوں کے دائرہ میں معرفی کرتے ہیں ان کی سعی و کوشش ہوتی ہے کہ شیعوں پر یہ الزام لگایا جائے ۔

علامہ عسکری ، ہندوستان کے عالم کا قول نقل کرتے ہیں کہ ایران کے انقلاب کے بعد صرف ہندوستان میںمختلف زبانوں میں دوسو (۲۰۰) کتابیں شیعوں کے خلاف تحریف قرآن سے متعلق لکھی گئی ہیں(۳) ۔

افسوس کہ یہ اختلاف اس قدر بڑھا کہ دشمن نے اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اسلامی ملکوں میں ایک نیا قرآن، فرقان الحق کے نام سے منتشر کیا ، لہذا یہاں پرشیعہ اور اہل سنت علماء کے نظریات کو بیان کرنا ضروری ہے تاکہ پیروان حق اور اسلام کے حقیقی مبلغین پر یہ حقیقت واضح ہوجائے تاکہ دین کے دشمن کے اس فتنہ کو برملا کیا جاسکے ۔

تحریف کے مفہوم سے آشنائی

لغت میں تحریف کے معنی متوجہ کرنے، کج کرنے اور بدلنے کے بیان ہوئے ہیں ۔ تحریف کلام یعنی غلط معنی کرنے، غلط تعبیر اور غلط تفسیر کرنے کے ہیں ۔ تحریف کلمہ یعنی کلمہ کو جابجا کرنا(۴) ۔

”حرف عن الشئی ․․․“ اذا مال الانسان عن شئی․․․

” تحریف القلم ، قطة محرفا“ و قلم محرف عدل باحد حرفیة عن الآخر․․․۔

و تحریف الکلم عن مواضعہ تغییرہ․․․(۵) ۔

اس بناء پر لغت کی کتابوں میں تحریف ، لفظ کو جابجا کرنے اور معنی میں تصرف کرنے کے بھی بیان ہوئے ہیں ۔

اصطلاح میں بھی تحریف کے معنی تبدیل اور جابجا کرنے کے ہیں اور اس کی دو قسمیں ہیں: لفظی اور معنوی ۔

تحریف لفظی : لفظ کو بدلنا، چاہے کلموں کی جگہ کو ایک دوسرے سے بدلنا ، یا یہ کہ کسی جملہ کو زیادہ یا کم کرنا ۔

تحریف معنوی : کلام کے مفہوم کو تبدیل کرنا اوربعض معنی کو چھپانا ۔

قرآن میں تحریف

قرآن کریم میں تحریف ، حروف و کلمات کو تبدیل کرنے ، یا قرآن کریم کے معنی کو تبدیل کرنے کے ہیں(۶) ۔

قرآن کریم میں اصطلاحی تحریف کی بھی دونوں قسموں کو بیان کیا گیا ہے ، لفظی اور معنوی ۔

قرآن کریم میں معنوی تحریف کو تفسیر بالرائے یاتفسیر غیر حقیقی سے تعبیر کیا گیا ہے ، ” من الذین ھادوا یحرفون الکلم عن مواضعہ ․․․“ (۷) ۔ اس آیت کے بیان کے مطابق یہودی کلام کے معنی کو سمجھنے کے بعد اس کو صریح معنی سے منحرف کردیتے تھے ،مثلا وہ کہتے تھے : اس جملہ سے مراد خاتم المرسلین نہیں ہیں، بلکہ جبرئیل ہے․․ یا کلمہ ”ھا“ کو جابجا کردیتے تھے (’) ۔

قرآن کریم میں لفظی تحریف کو کلمات کو جابجا کرنے، یا کلمات کوکم یا زیادہ کرنے سے تعبیر کیا گیا ہے ۔

مرحوم طبرسی نے اس آیت ”یحرفون الکلم عن مواضعہ“ کے ذیل میں لکھا ہے :فمعناہ من الیھود فریق یحرفون الکلم عن مواضعہ ای یبدلون کلمات اللہ و احکامہ عن مواضعھا و قال مجاھد یعنی بالکلم التوراة و ذلک انھم کتموا ما فی التوراة من صفة النبی (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)․․․(۹) ۔

چونکہ یہودی توریت میں پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے نام کی تحریف ، معنی میں تبدیلی اور کلمات خدا کو جابجا کرتے تھے ، اس لئے لفظ میں تبدیلی سے استفادہ کرتے ہیں ۔

بعض لوگوں کا عقیدہ ہے کہ قرآن کریم میں صرف تحریف معنی ہوئی ہے (۱۰) ۔ لیکن اس آیت اور دوسری آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ یہودی توریت میں معنوی تحریف کے علاوہ لفظی تحریف بھی کرتے تھے (۱۱) ۔

قرآن کریم میں لفظی تحریف کی قسمیں:

لفظی تحریف کی مختلف صورتیں ہیں، لیکن جو چیزیں اصل قرآن کریم کو نقصان پہنچاتی ہیں وہ مندرجہ ذیل ہیں:

۱۔ قرآن کریم کے حروف اور حرکات میں کم یا زیادہ کرنا: جیسے ”حم عسق“ کو ”حم سق“ پڑھنا ۔

۲۔ قرآن کریم کے کلمات کو کم یا زیادہ کرنا : جیسے ”وما خلق الذکر والانثی“ کو ” والذکر والانثی “ پڑھنا ۔

۳۔ قرآن کریم کی آیات اور سوروں کو کم یا زیادہ کرنا : جیسے یہ کہا جائے کہ فلاں آیت سے فلاں جملہ حذف ہوگیا، یایہ کہا جائے کہ فلاں آیت قرآن کریم کا جزء نہیں ہے ۔ یا یہ کہا جائے کہ فلاں سورہ کا بعض حصہ ، یا قرآن کریم کا فلاں حصہ جو آج قرآن کریم میں ہے وہ قرآن کریم کا جزء نہیں تھا، یا یہ کہا جائے کہ ہمارے پاس جو قرآن کریم موجود ہے یہ وہ قرآن نہیں ہے جوہمارے پیغمبر پر نازل ہوا ہے ۔ (۱۲) ۔

تحریف کی قسموں کی تحقیق :

۱۔ معنوی تحریف : اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اس معنی میں قرآن کریم میں تحریف ہوئی ہے ،کیونکہ فطری ہے کہ ہر کوئی قرآن کریم کی اپنی رائے کے مطابق تفسیرکرتا ہے اوراس کی تحریف معنوی کردیتا ہے، اس طرح کی تحریف کی روایات نے شدت سے مذمت کی ہے (۱۳) ۔

۲۔ لفظی تحریف : قرآن کریم کے اصلی مضمون کو محفوظ کرتے ہوئے قرآن کریم کے حروف یا کلمات کو کم یا زیادہ کرنا: اس طرح کی تحریف جو قرآن کریم کی قرآئت کے مختلف موضوعات سے مربوط ہے قرآن کریم میں واقع ہوئی ہے (۱۴) ۔

ہمارا عقیدہ ہے کہ جو قرآن کریم پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) پر نازل ہوا ہے وہ صرف ایک خاص قرائت ہے جس کو حفص از عاصم کی قرائت کہا جاتا ہے اور صرف یہی قرآئت معتبر ہے، کیونکہ یہ قرائت ، صحیح روایت کے موافق ہے اور عاصم نے اپنے استاد ابوعبدالرحمن سلمی سے اور انہوں نے امیر المومنین علی (علیہ السلام) سے اس قرآئت کوحاصل کیا ہے اور امام علی (علیہ السلام) بھی اس قرائت سے تمسک کرتے تھے جومسلمانوں کے درمیان رائج تھی اور اصل وحی سے متمسک تھی (۱۵) ۔

۳۔ تحریف لفظی یعنی قرآن کریم کے اصلی مضمون کو محفوظ کرتے ہوئے کسی سورہ، یا آیت کو کم یا زیادہ کرنا ، جیسے ”بسم اللہ الرحمن الرحیم“ کے قرآن کا جزء ہونے میں اختلاف ہے ۔ بعض ”بسم اللہ“ کو سورہ حمد کے علاوہ دوسرے سوروں کا جزء نہیں سمجھتے ،لیکن ہمارا عقیدہ ہے کہ ”بسم اللہ“ پورے قرآن کریم میں مستقل ہے (۱۶) ۔

۴۔ تحریف لفظی یعنی قرآن کریم کے کم ہونے کو اس طرح بیان کیاجائے کہ جو قرآن کریم ہمارے پاس موجود ہے یہ وہ قرآن نہیں ہے جو ہمارے پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) پر نازل ہوا ہے ،بلکہ اس کا بعض حصہ یا بعض آیات حذف ہوگئی ہیں، جس تحریف کے متعلق بہت زیادہ مقالات اور کتابیں لکھی گئی ہیں وہ تحریف کی یہی قسم ہے اور ہم بھی اس مقالہ میں اس غلط فکر کو باطل کرنے پر کچھ دلیلیں قائم کریں گے:

قرآن کریم کا تحریف سے محفوظ ہونے کے متعلق دانشورں کا نظریہ:

جیسا کہ اشارہ ہوا ہے کہ اکثر شیعہ اور اہلسنت علماء کا اعتقاد ہے کہ تحریف واقع نہیں ہوئی ہے ، لیکن شیعوں کے نظریات کی اہمیت اوران پر جو نازیبا الزام لگائے گئے ہیں ان سب کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم یہاںپر بعض علمائے شیعہ کے نظریات کو بیان کریں گے اور تمام مسلمانوں کے نظریات سے آگاہی کے لئے ہم آپ کو شیعہ اور اہل سنت کی کتابوں کی طرف راہنمائی کریں گے (۱۸) ۔

۱۔ شیعوں کے نامور فقیہ اور دانشور شیخ مفید (رہ)(۳۳۶۔ ۴۱۳) : و قد قال جماعة من اهل الامانة أنه لم ينقص من كلمة و لامن آية و لامن سورة... و اما الزيادة فيه فمقطوع علي فسادها من وجه فالوجه الذي اقطع علي فساده ان يمكن لأحد من الخلق زيادة مقدار سورة فيه علي حد يلتبس به عند من الصفحاء و اما الوجه المجوز فهو أن يزاد فيه كلمة و الكلمتان و الحرف والحرفان وما اشبه ذلك مما لايبلغ حد الاعجاز و يكون ملتبسا عند اكثر الفصحاء بكلم القرآن غير انه لابد متي وضع من أن يدل عليه و يوضع لعباده عن الحق فيه و لست اقطع علي كون ذلك بل اميل الي عدمه و سلامة القرآن منه.....19)

۲۔ شریف سید مرتضی علی علی بن الحسین علم الھدی (355-436) : ان العلم بصحة نقل القرآن كالعلم بالبلدان والحوادث الكبار والوقائع العظام والكتب المشهورة واشعار العرب المسطوره فإن العناية اشتدت و الدواعي توفرت علي نقله و حراسته .... لأن القرآن معجزة النبوة و مأخذ العلوم الشرعية .... و علماء المسلمين قد بلغوا في حفظه و حمايته..... فكيف يجوز أن يكون مغيرا او منقوصا مع العناية الصادقة والضبط الشديد...(20)

3. فقيه نامي شيخ صدوق اعلي الله مقامه الشريف( م 381): اعتقادنا انّ القرآن الذي انزل الله تعالي علي نبيّه هو ما بين الدفتين و ليس بأكثرمن ذلك و من نسب الينا إنّا نقول أنّه اكثر من ذلك فهو كاذب.(21)

4. دانشور اور فقيه بزرگ تشيع شيخ طوسي ره(385-460): (22) : اما الكلام في زيادته و نقصانه فمما لايليق به (يعني بالتفسير) ايضا لان الزيادة فيه مجمع علي بطلانها والنقصان منه فالظاهرمن مذهب المسلمين خلافه و هو لايليق بالصحيح من مذهبنا و هو الذي نصره المرتضي و هوالظاهر في الروايات غير انه رويت روايات كثيرة من جهة الخاصة والعامة بنقصان كثير من آي القرآن و نقل شيئ منه من موضع الي موضع طريقها الآحاد التي لاتوجب علما و لاعملا و الاولي الاعراض عنها(23)

5. علامه طبرسي مفسر بزرگ شيعه(470-548) : ... الكلام في زيادة القرآن ونقصانه.... فاما الزيادة فيه فمجمع علي بطلانه و اما النقصان منه فقد روي جماعة من اصحابنا و قوم من حشوية العامة أنّ في القرآن تغييرا او نقصانا والصحيح من مذهبنا خلافه... 24)

6.فاضل و دانشمند نام آور مرحوم ملامحسن فيض كاشاني ره( 1007-1091): أنّه علي هذا التقدير( تقديرالقول بالتحريف) لم يبق لنا اعتماد علي شيئ من القرآن ... فلم يبق لنا في القرآن حجة اصلا فتنتفي فائدته و فائدة الامر باتّباعه و الوصية بالتمسك به الي غير ذلك ... وقال " إنّا نحن نزّلناالذكر و إنّا له لحافظون" فكيف يتطرق اليه التحريف والتغيير...25)

7. علامه سيد شرف الدين موسوي(1290-1377) : نسب الي الشيعه القول بتحريف القرآن بإسقاط كلمات وآيات... فأقول نعوذ بالله من هذا القول و نبرأ الي الله تعالي من هذا الجهل و كل من نسب هذا الرأي الينا جاهل بمذهبنا او مفتري علينا فإنّ القرآن العظيم و الذكرا لحكيم متواتر من طرقنا بجميع آياته و كلماته و ساير حروفه و حركاته و سكناته تواتراً قطعياً عن ائمة الهدي من اهل البيت عليهم السلام لايرتاب في ذلك الاّ معتوه و ائمة اهل البيت كلهم اجمعون رفعوه الي جدهم رسول الله صلي الله عليه وآله عن الله تعالي و هذا مما لاريب فيه و ظواهر القرآن الكريم فضلاً عن نصوصه ابلغ حجج الله تعالي و اقوي ادلّة اهل الحق بحكم الضرورة الاوّلية من مذهب الامامية و صحاحهم في ذلك متواترة من طريق العترة الطاهرة و لذلك تراهم يضربون بظواهر الصحاح المخالفة للقرآن عرض الجدار و لايأبهون بها عملاً بأوامر ائمتهم عليهم السلام....26)

تحریف قرآن کے قائلین

اگر چہ شیعہ اور اہل سنت کے اکثر علماء اور دانشور تحریف قرآن کریم کے شدید مخالف ہیں لیکن بہت کم لوگ جیسے شیعوں میں سے اخباری (۲۷) اور اہل سنت سے حشویہ (۲۸) قرآن کریم کی تحریف کے قائل ہیں اور ان کی غلط فکر یہ ہے کہ قرآن کریم کا ایک حصہ حذف ہوگیا ہے ۔

شیعہ اخباریوں میں سے محدث نوری (۱۲۵۴ ۔ ۱۳۲۰) کا نام لیا جاسکتا ہے جنہوں نے کتاب فصل الخطاب فی تحریف کتاب رب الارباب لکھی ہے اور سید نعمت اللہ جزائری (۱۰۵۰ ۔ ۱۱۱۲) نے کتاب انوار نعمانیة (۲۹) میں تحریف کے متعلق لکھا ہے ۔

قرآن کریم کے کم ہونے پر جن دلائل سے انہوں نے استناد کیا ہے وہ چند روایتیں ہیں جو کو ہم یہاں پر بیان کری گے اور ان پر تنقید و تحقیق کریں گے ۔

شیعہ اور اہل سنت کی کتابوں میں تحریف کی روایات

تحریف کے قائلین نے جن روایت سے استناد کیا ہے ان کو چھے حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے :

۱۔ امیر المومنین (علیہ السلام) کے مصحف کی روایات

۲۔ وہ روایتیں جو اس مطلب کو بیان کرتی ہیں کہ جو کچھ انجیل اور توریت کے متعلق واقع ہوا ہے وہ قرآن کریم کے متعلق بھی پیش آئے گا ۔

۳۔ وہ روایتیں جن سے استفادہ ہوتا ہے کہ قرآن کریم کو جمع کرنے میں غیر معصوم کا کردار رہا ہے ۔

۴۔ وہ روایتیں جو تصریح کرتی ہیں کہ قرآن کریم سے کوئی آیت یا کوئی سورہ حذف ہوا ہے ۔

۵۔ وہ روایتیں جو قرآن کریم کے کلمات کو دوسرے کلمات سے تبدیل کرنے کی تجویز پیش کرتی ہیں ۔

۶۔ وہ روایتیں جو تصریح کرتی ہیں کہ فلاں آیت یاسورہ، قرآن کریم کا جزء نہیں ہے ۔

اس مقالہ میں ان تمام روایات کی تحقیق کی گنجائش نہیں ہے ،اس بناء پر اس میں سے بعض کی تحقیق و تنقید کی جائے گی ۔

۱۔ امیر المومنین (علیہ السلام) کے مصحف کی روایات :

ان روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کریم جو آج سب کے پاس ہے یہ وہ حقیقی قرآن نہیں ہے جو پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) پر نازل ہوا ہے، بلکہ یہ قرآن تحریف شدہ ہے اور حقیقی قرآن کریم کو حضرت علی (علیہ السلام) نے جمع کیا تھا اور وہ قرآن کریم آج بھی اہل بیت (علیہم السلام) کے پاس موجود ہے اور جب تک امام زمانہ (عجل اللہ تعالی فرجہ) ظہور نہیں کریں گے وہ ہماری آنکھوں سے اوجھل رہے گا اور امام زمانہ ظہور کے بعد اس کو سب کے سامنے پیش کریں گے ۔

ان روایتوں کی طرف توجہ فرمائیں:

۱۔ کلینی باسنادہ عن جابر عن ابی جعفر (علیہ السلام) قال : ”ما یستطیع احد ان یدعی ان عندہ جمیع القرآن کلہ ظاھرہ و باطنہ “۔ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے اوصیاء کے علاوہ کوئی دعوی نہیں کرسکتا کہ قرآن کریم کا تمام ظاہر و باطن اس کے پاس موجود ہے (۳۰) ۔

۲۔ ”شیخ کلینی باسنادہ عن جابر قال : سمعت اباجعفر (علیہ السلام) یقول ما ادعی احد من الناس من انہ جمع القرآن کلہ کما انزل اللہ کذاب و ما جمعہ و حفظہ کما نزلہ اللہ تعالی الا علی بن ابی طالب و الائمة من بعدہ (علیہم السلام)“۔ جھوٹے اشخاص کے علاوہ عوام میں سے کسی نے بھی یہ دعوی نہیں کیا ہے کہ قرآن کریم کو اسی طرح جمع کیا گیا ہے جس طرح نازل ہوا تھا اور علی بن ابی طالب اور ان کے بعد آنے والے آئمہ (علیہم السلام) کے علاوہ کسی نے بھی قرآن کریم کو اس طرح جمع اور محفوظ نہیں کیا ہے جس طرح وہ نازل ہوا ہے (۳۱) ۔

۳۔ احمد بن محمد بن ابی نصر کہتے ہیں : ” امام رضا ( علیہ السلام) نے مجھے ایک قرآن دیا اور فرمایا اس قرآن کو کھول کر نہ دیکھنا ۔ میں نے اس کو کھولا اور اس میں سورہ ”لم یکن الذین کفروا “ (سورہ بینہ) کو پڑھا تو اس میں قریش میں سے آٹھ لوگوں کے نام ان کے والد کے نام کے ساتھ لکھے ہوئے تھے ۔ امام (علیہ السلام) نے کسی کو میرے پاس بھیجا اور اس قرآن کو مجھ سے لے لیا (۳۲) ۔

۴۔ سالم بن سلمة کہتے ہیں: ایک شخص نے امام صادق (علیہ السلام) کے سامنے قرآن پڑھا اور میں نے سنا کہ اس نے بعض حروف کو اس طرح نہیں پڑھا جس طرح عام لوگ پڑھتے ہیں ، امام (علیہ السلام) نے فرمایا: اس طرح قرائت نہ کرو بلکہ جس طرح تمام لوگ پڑھتے ہیں اسی طرح پڑھو یہاں تک کہ بارہویں امام تشریف لے آئیں ۔ وہ کتاب خدا کو اپنے انداز میں پڑھیں گے اور جو قرآن حضرت علی (علیہ السلام) نے لکھا تھا اس کو لے کر آئیں گے، اور فرمایا: علی (علیہ السلام) نے قرآن کریم کوجمع کرنے کے بعد اس کو لوگوں کے سامنے پیش کیا تو لوگوں نے کہا : ہمارے پاس ایسا مصحف ہے جس میں قرآن کریم جمع کیا گیا ہے اورہمیں تمہارے قرآن کی ضرورت نہیں ہے ۔ حضرت علی (علیہ السلام) نے فرمایا: خدا کی قسم آج کے بعد تم کبھی بھی اس قرآن کو نہیں دیکھو گے (۳۳) ۔

آپ نے مشاہدہ کیا کہ مرحوم کلینی کی کافی سے جوروایات نقل ہوئی ہیں انہی روایات کی بناء پر محدث نوری نے اپنی مشہور کتاب (فصل الخطاب) میں لکھا ہے :

کلینی بھی تحریف کے قائل تھے اور اس کی دلیل ان کی مذکورہ روایات ہیں(۳۴) ۔

تنقید و تحقیق :

ان روایتوں کے متعلق متعدد جواب دئیے گئے ہیں منجملہ :

۱۔ یہ روایاتیں ، خبر واحد ہیںاور ان کو دلیل کے طور پر استعمال نہیں کیا جاسکتا ۔

۲۔ ان روایات کی سند، ضعیف ہے ۔

۳۔ ان روایات سے مراد وہ قرآن کریم ہے جو آئمہ (علیہم السلام) کے پاس موجود ہے اور وہ نزول کی ترتیب کے اعتبار سے جمع کیا گیا ہے اور اس میں آیات کی تاویل و تفسیر موجود ہے جو ہر آیت کے ذیل میں لکھی گئی ہے ۔

مذکورہ روایات کو ملاحظہ کرنے سے چند نکتے حاصل ہوتے ہیں:

۱۔ ائمہ (علیہم السلام) کے پاس ایسا قرآن موجود ہے جس میں قرآن کے علاوہ دوسرے مطالب بھی موجود ہیں ۔

۲۔ اس قرآن کریم کو حضرت امیر المومنین علی (علیہ السلام) نے کسی خاص وجہ سے جمع کیا تھا ۔

۳۔ اگر چہ امام علیہ السلام نے اس قرآن کو پیش کیا لیکن معاشرہ نے اس قرآن کو قبول نہیں کیا ۔

۴۔ اس قرآن میں کچھ چیزیں ایسی تھیں جوممکن ہے کچھ لوگوں کو اچھی نہ لگتی ۔

۵۔ مذکورہ قرآن میں اضافی مطالب ، موجودہ قرآن سے منافات نہیں رکھتے ، کیونکہ روایات سے استفادہ ہوتا ہے کہ آپ نے جو قرآن کریم کا جمع کیا تھا وہ نزول کی ترتیب کے مطابق تھا اور آیات کے ذیل میں تفاسیر اور تاویل لکھی گئی تھی (۳۵) ۔ اس بناء پر ان روایات سے یہ نہیں سمجھاجاسکتا کہ قرآن کریم میں تغییر و تحریف ہوئی ہے ۔

دوسرا گروہ : شیعہ اور اہل سنت کی کتابوں میں اس مضمون کی روایتیں موجود ہیں : جن چیزوں کا گذشتہ امتوں کو سامنا کرنا پڑا ہے اس کا مسلمانوں کو بھی سامنا کرنا پڑے گا ، جس کو شیخ حر عاملی نے اپنی کلام کی کتاب ”الایقاظ“ میں رجعت کو ثابت کرنے کے لئے بیان کیا ہے (۳۶) ۔

اس گروہ کی روایات کا ایک نمونہ : امام صادق (علیہ السلام) نے فرمایا : حضرت رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کے دفن کے تین دن بعد سلمان فارسی نے ایک خطبہ پڑھا اور اس کے ضمن میں کہا : اے لوگو ! میری بات کو سنو ، تم نے بنی اسرائیل کے طریقہ کو اپنا لیا ہے ، خدا کی قسم تمہاری حالت بھی قوم بنی اسرائیل کی طرح تبدیل ہوجائے گی اور جو کچھ ان کے لئے پیش آیااس کا تمہیں بھی سامنا کرنا پڑے گا (۳۷) ۔

استدلال کی کیفیت یہ ہے کہ اس طرح کی روایات تصریح کرتی ہیں کہ گذشتہ امتوں کے حوادث ، مسلمانوں کے لئے بھی تکرار ہوں گے ،ان حوادث میں سے ایک آسمانی کتابوں کا تحریف ہونا ہے جس کے نتیجہ میں قرآن کریم میں بھی تحریف ہوگی ۔

اس طرح کی روایات کا بھی جواب دیا گیا ہے ۔ آلوسی نے روح المعانی (۳۸)کی تفسیر میں ، حر عاملی نے ”الایقاظ“ (۳۹) میں، آیت اللہ خویی نے ”البیان“(۴۰) میں اور آیت اللہ فاضل لنکرانی نے”المدخل“ (۴۱) میں اس کا جواب دیا ہے ۔

ان تمام جوابوں کا خلاصہ یہ ہے :

۱۔ مذکورہ روایات میں جو مشابہت کا ذکر ہوا ہے اس میں ضروری نہیں ہے کہ تمام خصوصیات کو مد نظر رکھا گیا ہو اورشاید جس خصوصیت کومدنظر نہیں رکھا گیا وہ تحریف ہو۔

۲۔ اور اگر اس خصوصیت کو بھی شامل کرلیں تو شاید معنوی تحریف مراد ہو جس کے واقع ہونے میں کسی کو اختلاف نہیں ہے ۔

۳۔ اور اگر تحریف لفظی کو بھی شامل ہوجائے تو پھر زیادتی کو شامل نہیں ہوگی کیونکہ قرآن میں زیادہ ہونے سے متعلق تحریف کا نظریہ موجود ہے جو واقع نہیں ہوئی ہے پھر بھی کامل مشابہت نہیں ہے ۔

۴۔ ان روایتوں کی زبان عام ہے ان میں یہ بیان نہیں کیا گیا کہ یہ امر اسی زمانہ میں یا آئندہ زمانہ میں واقع ہوگا یہ مجمل ہے اسی وجہ سے ان روایات سے استناد نہیں کیا جاسکتا ۔

۵۔ فرض کرلیںکہ تمام اتفاقات ایک جیسے ہوں لیکن یہ کہنا ضروری ہے کہ تمام اتفاقات ایک جیسے نہیں ہیں مگر وہ اتفاقات جن میں واقع نہ ہونے کی تصریح ہوئی ہے اور قرآن کریم اس بات کی تصریح کرتا ہے کہ ہرگز تحریف نہیں ہوئی ہے (۴۲) ۔ (۴۳) ۔

چوتھا گروہ : وہ روایتیں جو اس بات کی تصریح کرتی ہیں کہ قرآن کریم سے کوئی ایک سورہ حذف ہوا ہے : نمونہ کے طور پر ان روایات کی طرف توجہ فرمائیں:

۱۔ عبداللہ بن عمر کہتے ہیں : تم میں سے کوئی ایک شخص بھی یہ نہیں کہہ سکتا کہ میرے پاس پورا قرآن موجود ہے،اس قرآن کی ایک مقدار نابود ہوگئی ہے ، لہذا کہنا چاہئے کہ جو کچھ ظاہر و آشکار ہے وہ تحریف ہوگیا ہے (۴۴) ۔

۲۔ ہشام بن سالم نے امام صادق (علیہ السلام) سے نقل کیا ہے کہ آپ نے فرمایا : جس قرآن کریم کو جبرئیل نے حضرت محمد مصطفی (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) پرنازل کیا تھا وہ سترہ ہزار آیتیں تھیں(۴۵) ۔

۳۔ عمر بن خطاب نے کہا ہے : قرآن کریم میں دس لاکھ ،ستائیس ہزار حروف ہیں جب کہ موجودہ قرآن اس مقدار کا ایک تہائی بھی نہیں ہے اس بناء پر ایک تہائی قرآن ختم ہو گیا ہے (۴۶) ۔

ان روایات کا جواب بھی گذشتہ جوابوں کی طرح ہے یہ ہے کہ اضافی چیزیں، موجودہ قرآن کریم کی تفسیر اور تاویل ہوسکتی ہے یاقرآن کا باطن ہوسکتا ہے ، اس پر یہ بات شاہدہ ہے کہ ایک روایت جو عبداللہ بن عمر سے نقل ہوئی ہے اس کے آخر میں اظہار کیا گیا ہے کہ ہمارے پاس قرآن کریم کے ظواہر تو موجود ہیں ، لیکن بطون قرآن موجود نہیں ہیں، پس وہ اضافی چیزیں ،بطون قرآن ہیں، اور ہمارے پاس جو قرآن کریم موجودہے وہ اس کا ظاہر ہے ۔

تذکر: اہل سنت کی کتابوں میں اس طرح کی روایات کا جواب دیتے ہوئے ایک تعبیر استعمال ہوئی ہے(۴۷) جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ خود ایک قسم کی تحریف کے معتقدہیں ،مثلا ایک روایت میں نقل کرتے ہیں کہ پہلے قرآن کریم میں رجم موجود تھا اور اس کی عبارت یہ تھی ” اذا زنی الشیخ و الشیخة فارجموھما البتہ فانھا قضیا الشھوة“(۴۸) لیکن اب اس کی تلاوت منسوخ ہوگئی ہے اور یہ پڑھی نہیں جاتی(۴۹) ۔

اس طرح کی روایتوں پر جو اعتراضات کئے جاتے ہیں وہ یہ ہیں:

۱۔ ان روایات کی سند معتبرنہیں ہے کیونکہ ان کی سند میں احمد بن محمد سیاری موجود ہے جس کے متعلق غیر منضبط ہونے اورروایات میں تحریف و غلوکرنے کی نسبت دی گئی ہے (۵۰) ۔

۲۔ اس بات کا خیال رہے کہ جو روایتیں ، قرآن کریم کی مخالف ہیں وہ معتبر نہیں ہیں(۵۱) ۔

۳۔ ان روایات کو پہلے والے موارد پرحمل کیا جاسکتا ہے مثلا یہ عبارتیں ،آیات کی تفسیر و توضیح بیان کرنے کے لئے کہی گئی ہیں اور یہ خود قرآن کریم کے الفاظ نہیں ہیں(۵۲) ۔

تحریف نہ ہونے کی دلیلیں:

اگرچہ تحریف قرآن سے متعلق مذکورہ دعوں کا جواب دینے کے بعد دوسری روایات کی تصریح کرنے کی ضرورت نہیں ہے لیکن قرآن کریم میں تحریف نہ ہونے کا اطمنان حاصل کرنے کے لئے عدم تحریف پر عقلی، تاریخی، روایات اور آیات کے ذریعہ کچھ دلیلیں بیان کرتے ہیں:

عقلی دلیل:

عقلی دلیلوں میں سے ایک دلیل نبوت کا ضروری ہونا ہے ،اس کی وضاحت یہ ہے کہ انسان کی خلقت کا ہدف یہ ہے کہ وہ سعادت جاوید حاصل کرلے ، اگر چہ اس سعادت تک پہنچانے کے لئے انسان کی عقل اس کی راہنمائی کرتی ہے لیکن یہ کافی نہیں ہے اورانسان خود کمال کے آخری مرحلہ تک نہیں پہنچ سکتا ، پس خداوند عالم کی حکمت اور لطف اس بات کا اقتضاء کرتی ہے کہ خداوند عالم اس راستہ کی ضمانت کے لئے انبیاء کو ان کے معجزوں کے ساتھ اور کچھ کتابوں کوانسان کی راہنمائی کے لئے نازل کرے اور ایسی کتاب نازل کرے جس میں سب کچھ موجو د ہو، ورنہ نقض غرض ،لازم آئے گااور انسان کمال تک نہیں پہنچ سکتا ، لہذا اگر اس امر کے مآخذ میں تحریف ہوجائے تو انسان کے کمال تک پہنچنے کا کوئی راستہ باقی نہیں رہے گا ، پس ضروری ہے کہ وحی الہی کا یہ آخری اور تنہا مآخذ ہر طرح کی کمی اور زیادتی سے محفوظ رہے تاکہ اس کا ہدف پورا ہوسکے ، ورنہ انسان گمراہ ہوجائے گا اور یہ خلاف حکمت ہے (۵۳) ۔

تاریخ :

تاریخ نقط نظر سے قرآن کریم کو ایک خاص اہمیت حاصل ہے جو اس کو ہر طرح کی تحریف سے محفوظ رکھے ہوئے ہے ، کلی طور پر ان خصوصیات کو مندرجہ ذیل امور میں خلاصہ کیا جائےگا:

۱۔ قرآن کریم کی فصاحت و بلاغت کے آخری کمال پر ہے اورعرب اس سے اس طرح مانوس تھے کہ مختلف طریقوں سے اس کے متن کی حفاظت اور اس کے ساتھ زندگی بسر کرتے تھے ۔

۲۔ قرآن کریم ، مسلمانوں کے دین کا بنیادی ملاک ہے اور یہی چیز اس کی حفاظت کرنے کے لئے کافی ہے ۔

۳۔ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے قرآن کریم کی بقاء اور اس کے متن کو محفوظ کرنے کیلئے ایسا منظم پروگرام مرتب کیا ہے جس کے ذریعہ وہ ہر طرح کی کمی اور زیادتی سے محفوظ ہے ،منجملہ کاتب، خاص لکھنے والے، قاریوں اور حافظوں کی اہمیت اور قرآن کریم کی تلاوت کے لئے بہت زیادہ ثواب بیان کیا گیا ہے ۔

۴۔ گذشتہ زمانہ سے قرآن کریم کی کمی یا زیادتی سے متعلق مسلمان بہت زیادہ حساس تھے ۔

۵۔ اہل بیت (علیہم السلام) نے تحریف قرآن سے متعلق خلفاء پر کوئی انتقاد نہیں کیا ہے اور ہمیشہ مسلمانوں کو موجودہ قرآن سے تمسک کرنے کی سفارش کرتے تھے (۵۴) ۔

مذکورہ تمام امور اس بات کی حکایت کرتے ہیں کہ موجودہ قرآن کریم اس قدر لوگوں کی نظروں میں تھا کہ اگر کوئی کلمہ اس سے کم یا زیادہ ہوجاتا تو سب پر آشکار ہوجاتا ۔

روایات

قرآن کریم کے تحریف سے محفوظ ہونے پر جن روایات سے اثبات کیا گیا ہے وہ نو دلیلیں ہیں:

۱۔ حدیث ثقلین : ان روایات کا مضمون یہ ہے کہ رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے سب کو خبر دی ہے کہ میں تمہارے درمیان تو گرانقدر چیزیں چھوڑے جارہا ہوں، ایک قرآن کریم اور دوسرے میری عترت، جب تک تم ان دونوں سے متمسک رہوگے،گمراہ نہیں ہوگے(۵۵) ۔ اس بناء پر اگر قرآن کریم میں تحریف ہوجائے تو پھر کس طرح اس تمسک کیا جاسکتا ہے؟

۲۔ فتنوں اور مشکلات میں قرآن کی طرف رجوع کرنا : ”فاذا التبست علیکم الفتن کقطع اللیل المظلم فعلیکم بالقرآن فانہ شافع مشفع و ماحل مصدق“․․․ جب بھی فتنے اور آشوب ، تاریکی شب کی طرح تم پر چھا جائیں تو تم قرآن سے تمسک کرو(۵۶) ۔

۳۔ حق کو باطل سے تشخیص دینے اور شیطانی تمایلات کو رحمانی تمایلات سے جدا کرنے کا معیار قرآن کریم ہے ، امیر المومنین علی (علیہ السلام)نہج البلاغہ کے خطبہ ۱۷۶ میں اس طرح فرماتے ہیں: یاد رکھو کہ یہ قرآن وہ ناصح ہے جو دھوکا نہیں دیتا ہے اور وہ ہادی ہے جو گمراہ نہیںکرتا ہے وہ بیان کرنے والا ہے جو غلط بیانی سے کام لینے والا نہیں ہے، کوئی شخص اس کے پاس نہیں بیٹھتا ہے مگر یہ کہ جب اٹھتا ہے تو ہدایت میں اضافہ کرلیتا ہے یا کم سے کم گمراہی میں کمی کرلیتا ہے(۵۷) ۔

۴۔ قرآن کریم میں غور وفکر کرنے والی روایات (۵۸) ۔

۵۔ جو ہم کہتے ہیں اس کے متعلق ہم سے سوال کرو کہ یہ قرآن کریم میں کہاں ہے تاکہ ہم تمہیں خبر دیں ۔

۶۔ لوگوں کے پاس جو موجود ہے وہ کتاب خدا ہے (۵۹) ۔

۷۔ وہ روایتیں جو قرآن کریم سے استفادہ کرنے کا طریقہ سکھاتی ہیں (۶۰) ۔

۸۔ روایات کو کتاب خدا کے سامنے پیش کرنا ۔

۹۔ قرآن کریم کے متن کا متواتر ہونا ۔ پہلے بھی بیان کیاجا چکا ہے کہ موجودہ قرآن کے تمام حروف ،کلمات ، آیات اور سورے وہی ہیں جو پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) پر نازل ہوئے ہیں اور یہی قرآن تواتر کے ساتھ ہم تک پہنچا ہے (۶۱) ۔

یہ سب روایتیں ایک اہم پیغام دیتی ہیں اور وہ یہ ہے کہ تمام امور میں قرآن کریم ہدایت کے لئے ایک منبع و مآخذ ہے اور چونکہ اہل بیت (علیہم السلام) لوگوں کو موجودہ قرآن کی طرف مراجعہ کرنے کا حکم دیتے ہیں اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ وہی قرآن کریم ہے جو پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) پر نازل ہوا ہے اور تحریف سے محفوظ ہے ۔

قرآن کریم

جن آیتوں سے استدلال کیا گیا ہے وہ مندرجہ ذیل ہیں:

الف : آیہ ذکر: ”انا نحن نزلنا الذکر و انا لہ لحافظون “ (سورہ حجر ، آیت ۹) ۔ یعنی ہم ہی نے قرآن کریم کونازل کیا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کرتے ہیں ۔

اس آیت سے استفادہ ہوتا ہے :

۱۔ خداوند عالم نے قرآن کریم کی حفاظت کی ذمہ داری خود لی ہے ۔

۲۔ ذکر سے مراد قرآن کریم ہے ۔

۳۔ ذکر کو محفوظ کرنے سے مراد اس کو نابودی، فراموشی اور ہر طرح کی کمی و زیادتی سے محفوظ کرنا ہے ۔

۴۔ خداوند عالم قرآن کریم کو ہر اس چیز سے محفوظ کرتا ہے جو صفت ذکر کے ختم ہونے کا سبب بنتی ہے ۔

۵۔ یہ آیت دلالت کرتی ہے کہ کتاب خدا ، تحریف کی تمام قسموں سے محفوظ ہے (۶۲) ۔

ب : سورہ فصلت کی اکتالیس اور بیالیسویںآیت میں فرمایا ہے : ” و انہ لکتاب عزیز لا یاتیہ الباطل من بین یدیہ و لا من خلفہ تنزیل من حکیم حمید “۔ اور یہ ایک عالی مرتبہ کتاب ہے ،جس کے قریب، سامنے یا پیچھے سے باطل نہیں آ سکتا ہے اور یہ خدائے حکیم و حمید کی نازل کی ہوئی کتاب ہے ۔

۱۔ کسی بھی طرف سے کوئی باطل قرآن کے پاس نہیں آسکتا ،اس کی کوئی آیت حتی کہ کوئی کلمہ بھی کم یا زیادہ نہیں ہوسکتا ، دوسرے لفظوں میں یہ کہا جائے کہ تحریف کرنے والوں کے ہاتھ قرآن کریم کے بلند دامن سے بہت چھوٹے ہیں ۔

۲۔ ”من بین یدیہ و من خلفہ“ کنایہ ہے کہ کسی بھی طرف سے باطل نہیں آسکتا ۔

۳۔ آیت کا آخری جملہ حقیقت میں روشن و واضح دلیل ہے کہ قرآن میں کسی بھی طرح کا باطل واقع نہیں ہوسکتا (۶۳) ۔

نتیجہ :

۱۔ تحریف کی چند قسمیں ہیں اور قرآن میں تحریف واقع ہونے سے مراد صرف کم ہونے کی تحریف مرادہے اور تمام قسموں میں شیعہ اور اہل سنت کے تمام علماء اس بات پر متفق ہیں کہ قرآن کریم میں کسی بھی طرح کی تحریف واقع نہیں ہوئی ہے ۔

۲۔ شیعوں کے درمیان اخباری اور اہل سنت کے درمیان بعض حشویہ قرآن کریم کی تحریف کے قائل ہیں جو کہ باطل عقیدہ ہے ۔

۳۔ موجودہ قرآن کریم کی قرآئت بھی معصوم تک پہنچتی ہے اور یہ متواتر طرق سے نقل ہوا ہے ۔

۴۔ تحریف کی اکثر روایتوں کو سیاری نے نقل کیا ہے جو کہ محرف اور جھوٹا تھا ۔

حوالہ جات :

1 . سوره حجر/ آيه 9

2. رجوع کریں: مقايسه ميان تورات ، انجيل،‌قرآن وعلم ، موريس بوكاي،‌ ترجمه ذبيح الله دبير، ص 8.

3. رجوع کریں: كيهان انديشه ، شماره 28، سال 1368.

4. فرهنگ نوين (عربي فارسي ) سيد مصطفي طباطبايي ، ص 143. 145.

5. رجوع کریں:‌لسان العرب ، ابن منظور؛ ج3، ص129.

6. رجوع کریں: مفردات الفاظ القرآن ، راغب اصفهاني ، ص 114.

7. سوره نساء / آيه 46

8. رجوع کریں: قاموس قرآن ، قرشي ، ج3، ط تهران ، ص 121.

9. ر. ك‌:‌ مجمع البيان ، علامه طبرسي ره ، ج3، طبع جديد، ص 85.

01. ر. ك: صيانة القرآن من التحريف ، آيت الله معرفت، ط اولي دارالقرآن ، ص 16.

11. ر. ك : مجمع البيان ، گذشتہ حوالہ .

12. ر. ك :‌ صيانة القرآن من التحريف، گذشتہ حوالہ ، ص11.

13. ر. ك‌:‌ غوالي اللئالي، ج 4،‌ط جديد قم، ص104.

14. ر.ك :‌ البيان فى تفسير القرآن ، آيت الله خويي ره، ط ثاني، ص215.

15. ر.ك :‌ التمهيد ، آيت الله معرفت، ج 2 ، ص 232 ، انتشارات اسلامى .

16. البيان ، گذشتہ حوالہ، ص 440 .

17. رجوع کریں: البيان ، گذشتہ حوالہ/ تفسير روح المعاني ، محمود آلوسي ، ج7، ص16.

18 . شیعه دانشورون کے نظریات کو زیاده جاننے کے لیے مراجعه کریں : منابع اجتهاد ، آيت الله جناتي ، ص38-39/ صيانة القرآن من التحريف ، آيت الله معرفت ره، ص70/ البيان ، آيت الله خويي ره ، ص 219/تهذيب الاصول ، آيت الله سبحاني ، ج2، ص165. اهل سنت دانشورون کے نظریات کو زیاده جاننے کے لیے مراجعه کریں :تفسير روح المعاني ، محمود آلوسي ، ج1، ص24/تفسير مراغي ، مصطفي مراغي ، ج14، ص9/معالم التنزيل في التفسير والتاويل ، بن مسعود فراء البغوي، ج5، ص69/تفسير كبير ، فخررازي ، ج19، ص161/ التسهيل لعلوم التنزيل، بن جزي الكلبي، ج1، ص144/ مناهل العرفان في علوم القرآن ، ج1، ص425.

19. . اوائل المقالات شيخ مفيد ره ص 94- 95.

20. به نقل از المدخل التفسير، آيت الله فاضل لنكراني ره ، ط اول تهران ، ص 187.

21. شيخ طوسي اعلي الله مقامه کا شمار شیعه فقهاء اور حوزه علمیه نجف کے موسس میں هوتا هے اور آپ کا ایک لقب شیخ الطائفه هے.

22. مقدمه كتاب تفسير تبيان ، شيخ طوسي ره ، ج1، ص 3.

23. ر.ك : مجمع البيان ، گذشتہ حوالہ ، ص15.

24. به نقل از مجمع البيان ، گذشتہ حوالہ ، ج1 ط قديم مقدمه كتاب ص15.

25. رجوع کریں: تفسير صافي ، فيض كاشاني ره، ج1، المقدمةالسادسة، ص 33-34.

26. اجوبة مسائل موسي جارالله ف علامة شرف الدين ره، ص 33-34.

27. اخباري ان لوگوں کو کهتے هیں جو اصولی مجتهدین اور اهل تحقیق کے مقابله میں صرف روایات کو نقل کرتے هیں اور روایات کے ظاهر سے استناد کرتے هیں.

28. حشويه گروهي بودند كه در ميان اهل سنت ظهور كرده و شباهت بسيار ي به اخباري ها درشيعه داشته و آنان نيز روايات صحيح و سقيم را نقل و به آن ها استناد مي كردند.

29. رجوع کریں: انوار نعمانيه ، ج1،ص 96 .اس کتاب میں نور القرآن کے نام سے ایک باب موجود هے جس میں تحریف کی روایات کو بیان کیا هے.

30. رجوع کریں: اصول كافي با ترجمه و شرح مرحوم مصطفوي، ج1، كتاب الحجة، باب: ائمه کے علاوه کسی اور نے قرآن کریم کو جمع نهیں کیا هے، روايت دوم.

31. كافي گذشتہ حوالہ.

32. كافي گذشتہ حوالہ كتاب فضل القرأن ج4 باب نوادر روايت 16.

33. كافي گذشتہ حوالہ روايت 23.

34. رك: فصل الخطاب ؛ گذشتہ حوالہ ، ص 25.

35. ر. ك: الاتقان‘ سيوطي ؛‌ ج 1، ص216.

36. ر. ك: الايقاذ من الهجعة بالبرهان علي الرجعة ،‌ شيخ حر عاملي ،‌ ترجمه و تصحيح سيد هاشم رسولي ص 98-112.

37. رجوع کریں: من لايحضره الفقيه ، 7صدوق ، ج 1، ص130./تفسير قمي ج2 ص413.

38. رجوع کریں: تفسير روح المعاني ، گذشتہ حوالہ ، ج20، ص27

39. الايقاذ، گذشتہ حوالہ ، ص 111و 112.

40. البيان ، گذشتہ حوالہ ، ص240.

41. المدخل في التفسير، گذشتہ حوالہ، ص235.

42. رجوع کریں: تاريخ قرآن، آيت الله معرفت، سمت، ص 87 ـ 89 / البرهان فى علوم القرآن، زركشى، ج 1ص 330./البيان فى تفسير القرآن، آية الله خويى(رحمه الله)، ص 258 نشر انوارالهدى./ الاتقان، گذشتہ حوالہ، ص 101-102.

43 . اس سے پهلے بهی اشاره هوچکا هے که موجوده قرآن وهی قرائت هے جس کو حفص نے عاصم سے نقل کیا هے اور انهو نے اس کو امیر المومنین (علیه السلام) سے نقل کیا هے.

44. رجوع کریں: الاتقان، سيوطي، ج3، ص81-82.

45. رجوع کریں: كافي ، گذشتہ حوالہ ، ج4، ص446.

46. ر.ك : حقايق هامة‌ ، سيد جعفر مرتضي، فصل اول ، روايات و اقاويل-نماذج يسيره، شماره6و7.

47. رجوع کریں:‌المحلي ، بن حزم،ج12، ص175.

48. رجوع کریں:عارضة الاحوذي بشرح صحيح ترمزي ، بن عربي مالكي، ج6، ص 204-205/ فروع كافي، ج7، ص 177. جو روایت عایشه سے نقل هوئی هے وه بهی اسی روایت کی طرح هے که قرآن کریم میں یه جمله "عشر رضعات معلومات يحرمن" موجود تها پهر یه "خمس رضعات" سے منسوخ هوگیا اور جب رسول خدا (صلی الله علیه و آله وسلم) نے اس دار فانی کو الوداع کها تو اس آیت کو قرآن میں داخل نهیں کیا گیا. رجوع کریں : التاج الجامع للاصول في احاديث الرسول، علي عاصف، ص 290.

49. رجوع کریں:‌صحيح مسلم باشرح نووي، ج11، ص 191/ المحلي ، گذشتہ حوالہ.

50. رجوع کریں: المدخل التفسيرف گذشتہ حوالہ، ص289.

51. روايات عرض علي الكتاب كه مي فرمايد هر چه مخالف قرآن باشد بر ديواربزنيد.

52. رجوع کریں:‌ المدخل في التفسير ، گذشتہ حوالہ.

53. رجوع کریں: تفسير الميزان علامه طباطبايي ره ،‌ج12، ص107/ تفسير نمونه\ آيت الله مكارم شيرازي و ديگران ، ج11 ص23/ علوم قرآن، محمدباقر سعيدي روشن، ص200-201/قرآن شناسي، ج 1، آيت الله مصباح ،تحقيق ونگارش محمود رجبي، ص216.

54. رجوع کریں: قرآن شناسي، گذشتہ حوالہ، ص 215-216/ درسنامه علوم قرآني، حسين جوان آراسته، ص322.

55. رجوع کریں: سنن دارمي ص524/ مسند احمد بن حنبل ص14و17و26و59و ج3 ص366و367و371 و ج5 ص182و189و190/كنزالعمال ص381/ بحارالانوار، ج92ص13.

56. رجوع کریں: اصول كافي ، گذشتہ حوالہ، ج4 ص398.

57. رجوع کریں: نهج البلاغه ، صبحي صالح ف ص252.

58. رجوع کریں: بحارالانوار علامه مجلسي ره ، ج92، ص211.

59. نهج البلاغه ، گذشتہ حوالہ ، ص44.

60. رجوع کریں: فروع كافي ، كليني ره ، كتاب الطهارة، ص30.

 


source : http://www.taghrib.ir
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

عزاداری امام حسین علیہ السلام
فلسفہ شہادت اور واقعہ کربلا
عید قربان اور جمعہ کی دعا
ملت اسلامیہ کے نوجوانوں کے لیے لمحہ فکر و عمل
پوری دنیا میں محرم کا آغاز، عزاداری کا سلسلہ شروع
بعثت کی حقیقت
انسان کے مقام ومرتبہ کی عظمت
حضرت معصومہ(س) آئمہ معصومين(ع) کي نظر ميں
امام موسی کاظم علیہ السلام
نوروز کی اسلام میں حیثیت پر سیر حاصل گفتگو

 
user comment