رسول اکرم (ص) اپنے چند با وفا مھاجر اور انصار اصحاب کے ساتھ اس شادی کے جشن میں شریک تھے ۔ تکبیروں اور تہلیلوں کی آوازوں سے مدینہ کی گلیوں اور کوچوں میں ایک خاص روحانیت پیدا ھو گئی تھی اور دلوں میں سرور و مسرت کی لہریں موج زن تھیں ۔
یہ بات شروع سے ہی سب پر عیاں تھی کہ علی (ع) کے علاوہ کوئی دوسرا دختر رسول (ص) کا کفو و ہمتا نھیں ہے ۔ اس کے باوجودبھی بہت سے ایسے لوگ، جو اپنے آپ کو پیغمبر (ص) سے نزدیک سمجھتے تھے اپنے دلوں میں دختر رسول (ص) سے شادی کی امید لگائے بیٹھے تھے ۔
مورخین نے لکھا ھے : جب سب لوگوں نے قسمت آزمائی کر لی تو حضرت علی (ع) سے کہنا شروع کر دیا : اے علی (ع) آپ دختر پیغمبر (ص) سے شادی کے لئے نسبت کیوں نہیں دیتے ۔ حضرت علی (ع) فرماتے تھے : میرے پاس ایسا کچھ بھی نھیں ھے جس کی بنا پر میں اس راہ میں قدم بڑھاؤں ۔ وہ لوگ کہتے تھے : پیغمبر (ص) تم سے کچھ نہیں مانگیں گے ۔
آخر کار حضرت علی (ع) نے اس پیغام کے لئے اپنے آپ کو آمادہ کیا ۔ اور ایک دن رسول اکرم (ص) کے بیت الشرف میں تشریف لے گئے لیکن شرم و حیا کی وجہ سے آپ اپنا مقصد ظاھر نہیں کر پا رہے تھے ۔
مورخین لکھتے ھیں کہ :آپ اسی طرح دو تین مرتبہ رسول اکرم (ص) کے گھر گئے لیکن اپنی بات نہ کہہ سکے۔ آخر کار تیسری مرتبہ پیغمبر اکرم (ص) نے پوچھ ہی لیا : اے علی کیا کوئی کام ھے ؟
حضرت امیر (ع) نے جواب دیا : جی ، رسول اکرم (ص) نے فرمایا : شاید زھراء سے شادی کی نسبت لے کر آئے ھو ؟ حضرت علی (ع) نے جواب دیا، جی ۔ چونکہ مشیت الٰھی بھی یہی چاہ رہی تھی کہ یہ عظیم رشتہ برقرار ھو لھذا حضرت علی (ع) کے آنے سے پہلےہی رسول اکرم (ص) کو وحی کے ذریعہ اس بات سے آگاہ کیا جا چکا تھا ۔ بہتر تھا کہ پیغمبر (ص) اس نسبت کا تذکرہ زھراء سے بھی کرتے لھذا آپ نے اپنی صاحب زادی سے فرمایا : آپ ، علی (ع) کو بہت اچھی طرح جانتیں ھیں ، وہ مجھ سے سب سے زیادہ نزدیک ھیں ، علی (ع) اسلام سابق خدمت گذاروں اور با فضیلت افراد میں سے ھیں، میں نے خدا سے یہ چاہا تھا کہ وہ تمھارے لئے بھترین شوھر کا انتخاب کرے ۔
اور خدا نے مجھے یہ حکم دیا کہ میں آپ کی شادی علی (ع) سے کر دوں آپ کی کیا رائے ھے ؟
حضرت زھراء (س) خاموش رھیں ، پیغمبر اسلام (ص) نے آپ کی خاموشی کو آپ کی رضا مندی سمجھا اور خوشی کے ساتھ تکبیرکہتے ھوئے وھاں سے اٹھ کھڑے ھوئے ۔ پھر حضرت امیر (ع) کو شادی کی بشارت دی ۔
حضرت فاطمه زهرا کا مهر
حضرت فاطمہ زھرا (س) کا مھر ۴۰ مثقال چاندی قرار پایا اور اصحاب کے ایک مجمع میں خطبہ نکاح پڑھا دیا گیا ۔قابل غور بات یہ ھے کہ شادی کے وقت حضرت علی (ع) کے پاس ایک تلوار ، ایک ذرہ اور پانی بھرنے کے لئے ایک اونٹ کے علاوہ کچہ بھی نہیں تھا ، پیغمبر اسلام (ص) نے فرمایا : تلوار کو جھاد کے لئے رکھو ، اونٹ کو سفر اور پانی بھرنے کے لئے رکھو لیکن اپنی زرہ کو بیچ ڈالو تاکہ شادی کے وسائل خرید سکو ۔ رسول اکرم (ص) نے جناب سلمان فارسی سے کھا : اس زرہ کو بیچ دو جناب سلمان نے اس زرہ کو پانچ سو درھم میں بیچا ۔ پھر ایک بھیڑ ذبح کی گئ اور اس شادی کا ولیمہ ھوا ۔ جھیز کا وہ سامان جو دختر رسول اکرم (ص) کے گھر لایا گیا تھا ،اس میں چودہ چیزیں تھی ۔
شھزادی عالم، زوجہ علی (ع)، فاطمہ زھراء (ع) کا بس یہی مختصر سا جہیز تھا ۔ رسول اکرم (ص) اپنے چند با وفا مھاجر اور انصار اصحاب کے ساتھ اس شادی کے جشن میں شریک تھے ۔ تکبیروں اور تہلیلوں کی آوازوں سے مدینہ کی گلیوں اور کوچوں میں ایک خاص روحانیت پیدا ھو گئی تھی اور دلوں میں سرور و مسرت کی لہریں موج زن تھیں ۔ پیغمبر اسلام (ص) اپنی صاحب زادی کا ہاتھ حضرت علی (ع) کے ھاتھوں میں دے کر اس مبارک جوڑے کے حق میں دعا کی اور انھیں خدا کے حوالے کر دیا ۔ اس طرح کائنات کے سب سے بہتر جوڑے کی شادی کے مراسم نہایت سادگی سے انجام پائے ۔
حضرت فاطمہ (س) کا اخلاق و کردار
حضرت فاطمہ زھرا اپنی والدہ گرامی حضرت خدیجہ کی والا صفات کا واضح نمونہ تھیں جودوسخا ، اعلیٰ فکری اور نیکی میں اپنی والدہ کی وارث اور ملکوتی صفات و اخلاق میں اپنے پدر بزرگوار کی جانشین تھیں ۔ وہ اپنے شوھر حضرت علی (ع) کے لئے ایک دلسوز، مھربان اور فدا کار زوجہ تھیں ۔آپ کے قلب مبارک میں اللہ کی عبادت اور پیغمبر کی محبت کے علاوہ اور کوئی تیسرا نقش نہ تھا۔ زمانہ جاھلیت کی بت پرستی سے آپ کوسوں دور تھیں ۔ آپ نےشادی سے پہلے کی ۹ سال کی زندگی کے پانچ سال اپنی والدہ اور والد بزرگوار کے ساتھ اور ۴ سال اپنے بابا کے زیر سایہ بسر کئے اور شادی کے بعد کے دوسرے نو سال اپنے شوھر بزرگوار علی مرتضیٰ (ع) کے شانہ بہ شانہ اسلامی تعلیمات کی نشر و اشاعت، اجتماعی خدمات اور خانہ داری میں گذارے ۔ آپ کا وقت بچوں کی تربیت گھر کی صفائی اور ذکر و عبادت خدا میں گذرتا تھا ۔ فاطمہ (س) اس خاتون کا نام ھے جس نے اسلام کے مکتب تربیت میں پرورش پائی تھی اور ایمان و تقویٰ آپ کے وجودکے ذرات میں گھل مل چکا تھا ۔
فاطمہ زھرا (س) نے اپنے ماں باپ کی آغوش میں تربیت پائی اور معارف و علوم الھٰی کو، سر چشمہ نبوت سے کسب کیا۔ انہوں نے جو کچہ بھی ازدواجی زندگی سے پھلے سیکھا تھا اسے شادی کے بعد اپنے شوھر کے گھر میں عملی جامہ پھنایا ۔ وہ ایک ایسی مسن و سمجھدار خاتون کی طرح جس نے زندگی کے تمام مراحل طے کر لئے ھوں اپنے اپنے گھر کے اموراور تربیت اولاد سے متعلق مسائل پر توجہ دیتی تھیں اور جو کچھ گھر سے باہر ہوتا تھا اس سے بھی باخبر رھتی تھیں اور اپنے اور اپنے شوھر کے حق کا دفاع کرتی تھیں ۔
حضرت فاطمہ(س) کا نظام عمل
حضرت فاطمہ زہرا نے شادی کے بعدجس نطام زندگی کا نمونہ پیش کیا وہطبقہ نسواں کے لئے ایک مثالی حیثیت رکھتا ہے۔ آپ گھر کا تما م کام اپنے ہاتھ سے کر تی تھیں ۔ جھاڑو دینا، کھانا پکانا، چرخہ چلانا، چکی پیسنا اور بچوں کی تربیت کرنا۔یہ سب کام اور ایک اکیلی سیدہ لیکن نہ توکبھی تیوریوں پر بل پڑے اورنہ کبھی اپنے شوہر حضرت علی علیہ السّلام سے اپنے لیے کسی مددگار یا خادمہ کے انتظام کی فرمائش کی ۔ ایک مرتبہ اپنے پدر بزرگوار حضرت رسولِ خدا سے ایک کنیز عطا کرنے کی خواہش کی تو رسول نے بجائے کنیز عطا کرنے کے وہ تسبیح تعلیم فرمائی جو تسبیح فاطمہ زہرا کے نام سے مشہورہے .۳۴ مرتبہ الله اکبر،33 مرتبہ الحمد الله اور 33 مرتبہ سبحان الله۔ حضرت فاطمہ اس تسبیح کی تعلیم سے اتنی خوش ہوئی کہ کنیز کی خواہش ترک کردی ۔ بعد میں رسول نے بلاطلب ایک کنیز عطا فرمائی جو فضہ کے نام سے مشہور ہے۔ جناب سیّدہ اپنی کنیز فضہ کے ساتھ کنیز جیسابرتاؤ نہیں کرتی تھیں بلکہ اس سے ایک برابر کے دوست جیسا سلوک کرتی تھیں. وہ ایک دن گھر کا کام خود کرتیں اور ایک مدن فضہ سے کراتیں ۔ اسلام کی تعلیم یقیناً یہ ہے کہ مرد اور عورت دونوں زندگی کے جہاد میں مشترک طور پر حصہ لیں اور کام کریں . بیکار نہ بیٹھیں مگر ان دونوں میں صنف کے اختلاف کے لحاظ سے تقسیم ُ عمل ہے . اس تقسیم کار کو علی علیہ السّلام اور فاطمہ نے مکمل طریقہ پر دُنیا کے سامنے پیش کر دیا۔ گھر سے باہر کے تمام کام اور اپنی قوت ُ بازو سے اپنے اور اپنے گھر والوں کی زندگی کے حرچ کاسامان مہیا کرنا علی علیہ السّلام کے ذمہ تھے اور گھر کے اندر کے تمام کام حضرت فاطمہ زہرا انجام دیتی تھیں ۔
حضرت زہرا سلام اللہ کا پردہ
سیدہ عالم نہ صرف اپنی سیرت زندگی بلکہ اقوال سے بھی خواتین کے لیے پردہ کی اہمیت پر بہت زور دیتی تھیں. آپ کا مکان مسجدِ رسولِ سے بالکل متصل تھا۔ لیکن آپ کبھی برقع وچارد میں نہاں ہو کر بھی اپنے والدِ بزرگوار کے پیچھے نماز جماعت پڑھنے یا اپ کا وعظ سننے کے لیے مسجد میں تشریف نہیں لائیں بلکہ اپنے فرزند امام حسن علیہ السّلام سے جب وہ مسجد سے واپس جاتے تھے اکثر رسول کے خطبے کے مضامین سن لیا کرتی تھیں. ایک مرتبہ پیغمبر نے منبر پر یہ سوال پیش کر دیا کہ عورت کے لیے سب سے بہتر کیا چیز ہے یہ بات سیدہ کو معلوم ہوئ تو آپ نے جواب دیا عورت کے لئے سب سے بہتر بات یہ ہے کہ نہ اس کی نظر کسی غیر مرد پر پڑے اور نہ کسی غیر مرد کی نظر ا س پر پڑے .رسول کے سامنے یہ جواب پیش ہوا تو حضرت نے فرمایا . "کیوں نہ ہو فاطمہ میرا ہی ایک ٹکڑا ہے۔"
source : http://www.taghrib.ir