آپ کے دومشهور لقب ھیں "سجاد" اور "زین العابدین" ،آپ کی ولادت باسعادت مدینہ منورہ میں سن اڑتیس ہجری کو هوئی،آپ کا اس وقت بچپن تھا جس وقت آپ کے جد امیر المومنین علیہ السلام پر مصائب پڑے اور آپ کے چچا امام حسن علیہ السلام کے ساتھ سازش کی گئی جس کے بعد آ پ کو معاویہ سے صلح کرنا پڑی،
اور جس وقت واقعہ کربلا نمودار هوا اس وقت آپ کی جوانی کا عالم تھا آپ تمام مصائب کربلا میں شریک تھے یھاں تک کہ آپ کو اسیر کرکے شام لے جایا گیا لیکن آپ اور آپ کی پھوپھی جناب زینب سلام اللہ علیھا نے یزید کے مقصد کو ناکام بنادیا کیونکہ یزید لوگوں کو یہ بتانا چاہتا تھا کہ ایک خارجی نے حکومت وقت پر خروج کیا تھا لہٰذا اس کے ساتھ یہ سب کچھ کیا گیا (لیکن جناب سید سجاد اور جناب زینب (سلام اللہ علیھما) کے خطبوں کی وجہ سے یزید کا سارا ہدف کافور هوگیا،چنانچہ امام علیہ السلام کی زندگی میں واقعہ کربلا کے بعد جب مدینہ والوں نے یزیدی ظلم وجور کے خلاف علم بغاوت بلند کیا تو "واقعہ حرہ" پیش آیا جس میں یزید نے اپنی فوج کے لئے اھل مدینہ کے مال ودولت اور ناموس کو حلال کردیا تھا اور انھوں نے ظلم وبربریت کا وہ دردناک کھیل کھیلا کہ تاریخ شرمندہ ھے، اس واقعہ میں مروان بن حکم جیسے آپ کے دشمن کو بھی سوائے آپ کے در دولت کے علاوہ کھیں پناہ نہ ملی ۔[1]
اور ان لوگوں کو اس وجہ سے امام علیہ السلام نے اپنے گھر میں پناہ دی تھی تاکہ تاریخ اور لوگوں کے لئے ایک عظیم درس مل جائے کہ الٰھی امام کا کردار کیسا هوتا ھے۔امام علیہ السلام نے حکومت وقت کے ظلم اور اھل بیت علیھم السلام کی مظلومیت کو اپنی دعاؤں میں بیان کرنا شروع کیا اور یہ دعائیں لوگوں کو تعلیم دینا شروع کیں، چنانچہ امام علیہ السلام کی یہ دعائیں مومنین میں رائج هوتی چلیں گئیں ان دعاؤں میں حاکم وقت کی حقیقت اور اس کے ظلم وجور کی طرف اشارہ کیا گیا تھا اور لوگوں کے ذہن کو ان سازشوں کی طرف متوجہ کیا کہ حکومت وقت تعلیمات دین کو ختم کرنا چاہتی ھے اور مقام اولیاء اللہ واصفیاء اللہ پر قبضہ کرنا چاہتی ھے نیز حلال وحرام میں تحریف کرناچاہتی ھے اور سنت رسول کو نابود کرنا چاہتی ھے۔ [2]
چنانچہ امام علیہ السلام نے ان سخت حالات کا مقابلہ اپنی دعاؤں کے ذریعہ کیا ، امام (ع) کی ان دعاوٴں کے مجموعہ کو "صحیفہ سجادیہ" کھا جاتا ھے امام کی یہ عظیم میراث ھمارے بلکہ ھر زمانہ کے لئے حقیقت کو واضح کردیتی ھے، یہ عظیم کتاب مختلف تراجم کے ساتھ سیکڑوں بار چھپ چکی ھے۔
امام علیہ السلام کی عظیم میراث میں سے "حقوق" نامی رسالہ بھی ھے جس میں تمام خاص وعام حقوق بیان کئے گئے ھیں جس کے مطالعہ کے بعد معلوم هوجاتا ھے کہ عوام الناس کے حقوق کیا ھےں اور خدا کے حقوق کیا کیا ھےں انسان کو اپنے اعضاء وجوارح پر کیا حق ھے اور کیا حق نھیں ھے، چنانچہ یہ رسالہ بھی متعدد بارطبع هوچکا ھے۔ امام سجاد علیہ السلام کی شھادت ۹۵ھ کو مدینہ منورہ میں هوئی اور آپ کو "جنت البقیع" میں دفن کیا گیا۔ [3]
_________
[1] الکامل ج۳ ص ۳۱۱۔
[2] صحیفہ سجادیہ کے درج ذیل صفحات پر رجوع فرمائیں: ص ۲۵، ۳۸، ۵۶، ۸۲، ۱۰۷، ۱۶۹، ۱۹۶، ۲۳۶، ۲۶۱، ۲۶۲، ۳۰۴، اور ص ۳۰۸۔
[3] تاریخ ولادت وشھادت نقل از کتاب "الارشاد" شیخ مفید ص ۲۷۰۔
source : http://www.shiastudies.net