اردو
Wednesday 4th of December 2024
0
نفر 0

رازِ طہارت

 ہم جب بھی انہیں یاد کرتے ہیں ‘خواہ ان کی ولادت اور ان کے دنیا میں آنکھیں کھولنے کے دن کی مناسبت سے ان کے بارے میں گفتگو ہو‘ خواہ ان کی وفات اور رسول کریم (ص)   کی رحلت کے بعد ایک انتہائی مختصر عرصے میں ان کی خدا سے ملاقات کے لۓ روانگی کی مناسبت سے ان کا ذکرہو۔ بی بی نے ایام جوانی بھی پورے نہ کۓ تھے‘ راہ حیات کے عین درمیان آپ اس دنیا سے کوچ فرما گئیں تھیں۔

ہم جب بھی ان کا ذکر کرتے ہیں‘ انہیں ایک ایسا انسان پاتے ہیں جو اپنی روح ‘ فکر‘ علم و دانش اورزہد و عبادت میںثابت قدمی اور استقلال کے ساتھ اپنے مشن پر گامزن ہو۔

ہم انہیں صدیقۂ طاہرہ کے عنوان سے یاد کرتے ہیں ۔آپ اس لفظ میں موجود تمام معنی میں طہارت ‘عصمت اور حقانیت کی مالک تھیں۔

آپ وہ ہستی ہیں جنہوں نے اپنے بچپنے ہی سے شدید ترین مشکلات کا سامنا کیا اور ان کی یہ دشوار زندگی گھر یلو اور معاشرتی زندگی میں ان کے کاندہوں کو جھکادینے والے سنگین بوجھ کے ہمراہ اس زمانے میں بھی جاری رہی جبکہ علی (ع) ان کے ہمسر تھے۔

اپنے والد گرامی کا فراق‘ ایک اور رنج تھا جس نے انہیں آزردہ کیا ۔وہ والد گرامی جو خود عقل و روح اور پیغمبرانہ زندگی کے آئینہ دار تھے ۔یہ دونوں ہستیاں انسانیت کے لۓ دردمندی اور الٰہی مشن سے وابستگی کے اعتبار سے ایک دوسرے سے پیوستہ تھیں۔یہی وابستگی و پیوستگی تھی جس کی بنا پر فاطمہ زہرا (س) نے پیغمبر کی رحلت کے بعدانتہائی ممکنہ صورت میں امامت کے دفاع کی کوشش کی اور اس قضیے میں بھی بہت سے رنج و غم ‘مصائب و مشکلات کا سامنا کیا۔ آپ کی زندگی کے بارے میںمختصراً یہ کہا جا سکتا ہے کہ آپ حتیٰ ایک لمحے کے لۓ بھی اپنی ذات کےلۓ زندہ نہ رہیں‘بلکہ آپ نے اپنی پوری زندگی اپنے پدرِ بزرگوار پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفی (ص) ‘اپنے شوہرنامدارامیر المومنین علی مرتضیٰ  اوراپنے فرزندوں حسن و حسین ( جوچاہے قعود کی حالت میں ہوں چاہے قیام کریںدونوںصورتوں میں مسلمانوں کے امام ہیں) کی خدمت کے لۓ وقف رکھی۔ آپ نے ان ہستیوںکی خدمت صرف اس لۓ نہیں کی تھی کہ یہ آپ کے اقربا اور رشتے دار تھے بلکہ اس کا سبب وہ احساس ذمے داری تھاجسے آپ اپنے کاندھوں پر محسوس کرتی تھیں۔ ذمے داری کا یہ احساس ہمیشہ اور ہر جگہ آپ کے ہمراہ رہا کرتا تھا ۔ یہاں تک کہ آپ کا یہ احساس ذمے داری تمام مسلمانوں کو اپنے ساۓ میں ڈھانپ لیتاہے۔ وہ اس احساس ذمے داری کی بنیاد پر اپنے دکھوں‘غموں اور مسائل و مشکلات کے بارے میں سوچنے سے پہلے دوسروں کے درد وغم‘ مسائل و مشکلات کی فکر کرتی ہیں۔یہی وجہ ہے کہ وہ جس طرح نسبی تعلق کے لحاظ سے دختر رسول (ص)  ہیں‘ رسالت کے لحاظ سے بھی ان کی دختر ہیں۔ پس ان کے بارے میں رسول اللہ(ص)  کے فرامین(جنہیں مسلمانوں کے دونوں بڑے مکاتب کے علماومحققین نے اپنی کتب میں تحریر کیا ہے )کی روشنی میں ان کی شخصیت کا مطالعہ کریں‘ وہ رسول  جنہوں نے انہیں اپنی ماں کہہ کر پکارا۔

حضرت زہرا (س) کے بارے میں شاید بہترین شعر‘ امیر الشعراء احمد شوقی کا یہ شعر ہے کہ  

ما تمنی غیر ھانسلا ومن             یلد الزھراء یز ھد فی سواھا

(پیغمبر نے زہرا کے سوا کسی نسل کی تمنا نہ کی کیونکہ جس کے پاس زہرا ہو اسے کسی دوسرے سے رغبت نہیں رہتی)

عزیزو! حضرت زہرا (س) کی یاد منانے کے سلسلے میں ہمارے اہتمام کی وجہ یہی ہے ۔جب ہم ان کاذکر کرتے ہیں تو رسالت اور اپنے مشن سے وابستگی کا ذکر ہوتا ہے ۔ حضرت زہرا (س) نے کس انداز سے اپنا مشن جاری رکھا اور کس طرح اپنی ذمے داری ادا کی اسے دیکھ کرہم انکے ذکر کے ساتھ ساتھ اسلامی معاشرے کے بدلتے اور ہردم تغیر پذیرامور میںاسلامی تحریک کے دستور عمل کا ذکر کرتے ہیں‘وہ تحریک جس میں حضرت زہرا (س) ایک زندہ اور فعال عنصرکی حیثیت سے شامل رہیں۔ ہم ان تمام امور میں ان کی یاد کو زندہ رکھتے ہیں۔

تاریخ بشریت بکثرت ایسے انسانوں کے ذکر سے بھری پڑی ہے جو اپنی موت کے بعد ختم ہو گۓ ۔کیونکہ ان کی زندگی خود ان کی ذات تک محدود اور منحصر تھی۔ نیز تاریخ ایسے انسانوں کے ذکرسے بھی معمورہے جن کی حیات ان کے مشن اور پیغام کے دوام کی بنا پر جاویداں رہی ہے۔ جب تک ان کا پیغام باقی ہے‘ اس وقت تک انہیں بھی بقا رہے گی۔ فاطمہ زہرا (س)  ایسے ہی ثانی الذکرانسانوں میں سے ہیں۔

پیغمبر اسلام ا (ص) کا تذکرہ‘ فاطمہ زہرا  (س) کے ذکر کے بغیرممکن نہیں ‘اسی طرح حضرت علی (ع) کا تذکرہ ہو اور اسمیں فاطمہ (س) شامل نہ ہوں‘ہو نہیں سکتا۔ یہی حال حسن و حسین اور زینب (س) کے تذکروں کا ہے‘کہ ان کے دوران بھی ان کی مادرِ گرامی فاطمہ (س)  کا ذکر لازم ہے ‘جو ان کی طہارت کا راز ہیں۔

لہٰذا ہم سب کو دعوت دیتے ہیں کہ آیۓ یہ کوشش کریں کہ زہرا (س)  نہ صرف ہمارے آنسوؤں میں ‘بلکہ ہماری فکر اور روح میں ایک پیغام اور ایک طرز فکر کے بطور ہمیشہ ہمیش کے لۓ زندہ ہو جائیں۔ کیونکہ ہم صرف اپنے اشکوں کے ذریعے ان کی معرفت حاصل نہیں کر سکتے ان کی راہ پرنہیں چل سکتے اور ان کی اقدارکو زندہ نہیں کر سکتے‘ بلکہ بڑا کام یہ ہو گا کہ ہم اپنی نظریں ان کے پیغام اور اس ذمے داری پر لگاۓ رکھیںجسے وہ محسوس کرتی تھیں۔ ان کے اشک اپنے مشن‘ پیغام اور ذمے داری کے لۓ بہے‘ اور حتیٰ ایک لمحے کے لۓ بھی وہ اپنی ذات کے لۓ زندہ نہ رہیں ۔ یہی اہل بیت (ع) کی جاویدانی کا سبب ہے ‘وہ صرف اسلام کے لۓ جۓ ۔لہٰذا ہمیں ان کی یاد مناتے ہوۓ احیاۓ اسلام کا مقصدپیش نظر رکھنا چاہۓ۔


source : http://www.bayenat.net
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

معرفت امام حسین علیہ السلام
نوجوانان حسيني
حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیھا کی زندگی پر ایک ...
کیا یہ حدیث صحیح ہے کہ پیغمبر خدا (ص) نے دایہ نہ ...
ذکرِولادتِ امیرالموٴمنین
خاک شفا کی عظمتیں
نمازِ جمعہ کی قنوت میں امام رضا علیہ السلام کی دعا
امام محمد تقی علیہ السلام کے فضائل کا مختصر جائزہ
حسنین کے فضائل صحیحین کی روشنی میں
حدیث منزلت کے بارے میں مناظرہ

 
user comment