اردو
Wednesday 4th of December 2024
0
نفر 0

ذکرِولادتِ امیرالموٴمنین

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم 

قَالَ اللّٰہُ تَبَارَکَ وَتَعَالیٰ فِیْ کِتَابِہِ الْمَجِیْد وَ فُرْقَانِہِ الْحَمِیْد۔

"وَاِذْیَرْفَعُ اِبْرٰھمُ الْقَوَاعِدَمِنَ الْبَیْتِ وَ اِسْمٰعِیْلُ۔رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا۔اِنَّکَ اَنْتَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ"۔

"رسول وہ وقت یاد آیاجب ابراہیم اور اسماعیل خانہ کعبہ کی بنیادوں کو اٹھا رہے تھے تو یہ کہتے جاتے تھے اے ہمارے رب ہماری خدمت کو قبول کر لینا۔بے شک تو بڑا سننے والا، جاننے والا ہے"۔

کیا مبارک اور مقدس وہ گھر ہے جو خدا کے نام پر بنا اور ابراہیم اور اسماعیل جیسے مقدس نبیوں نے بنایاگیا جب ہی تو اس گھر کی تعریف میں کہا گیا ہے:

"مُبٰرَکًاوَّھُدًے لِّلْعٰلَمِیْنَ"۔

وہ تمام عالموں کے لئے سرتاپا ہدایت اور باعث برکت ہے ۔ دنیا میں کوئی ایسا گھر بھی نہ ملے گا جس کی یہ خصوصیت ہو :

"وَمَنْ دَخَلَہ کَانَ اٰمِنًا"۔

" جو اس گھر میں داخل ہو گیا وہ امن و امان میں ہو گیا" (آل عمران ۹۷/۳)۔

یعنی کیسا ہی جرم و قصور کرنے کے بعد کوئی اس گھر میں داخل ہو جائے جب تک وہ خود ہی نہ نکلے کسی حکومت کی طاقت نہیں کہ اس کو اس گھر کے اندر سے نکال سکے۔ دنیا میں بے شمار عبادت خانے مختلف مذاہب و ادیان کے پیروؤں نے بنائے لیکن جو خصوصیت مسلمانوں کے اس عبادت خانے کو حاصل ہے وہ ابتدائے آفرینش سے آج تک نہ کسی معبد کو حاصل ہوئی ہے اور نہ ہو گی اور کیوں نہ ہو جب اللہ کے گھر میں بھی کسی گنہگار کو پناہ نہ مل سکے تو بھلا پھر کہاں مل سکتی ہے اس گھر کی ایک صفت یہ بھی ہے:

"سَوَآئَنِالْعَاکِفُ فِیْہِ وَالْبَاد"۔

"اس میں شہری اور بدوی سب برابر ہیں کیوں نہ ہوں جبکہ سب ایک ہی خدا کے بندے ہیں"۔(سورہ الحج ۲۵/۲۲) 

چنانچہ اس گھر کا طواف کرتے وقت اگر کوئی غلام اپنے آقا سے، غریب کسی امیر سے، رعایا بادشاہ سے آگے ہو تو کسی کی مجال نہیں کہ اسے پیچھے کر دے یا حجر اسود کو بوسہ دینے کیلئے اگر کوئی غریب کسی امیر سے آگے بڑھا ہو تو اس کو آگے سے پیچھے نہیں ہٹایا جا سکتا۔

غور کرنے کے قابل بات ہے کہ ہر قوم نے اپنے عبادت خانے بڑے بڑے عالی شان بنوائے اور طرح طرح سے ان کو آراستہ کیا۔ سونے چاندی کے در و دیوار اور گنبد وغیرہ بنوائے اور ان میں جا بجا جواہرات لگوائے لیکن مسلمانوں کے خدا نے جو اپنا گھر بنوایا وہ بہت سیدھا سادھا اور چھوٹا معمولی ان گھڑے پتھروں کا جن پر نہ پلاسٹر تھا نہ پچی کاری نہ کوئی آرائش نہ زیبائش۔ اگر وہ چاہتا تو جواہرات کا بنوا لیتا اس کے خزانے میں کمی کس چیز کی تھی۔ مگر وہ غنی مطلق بے نیاز ذات جس کی مخلوق دنیا کی ہر شے ہے ایسی ادنیٰ چیزوں کی طرف کیوں توجہ کرتا، اس نے گوارا نہ کیا کہ میرے بندوں پر عمارت کی عظمت و جلال کا

اثر پڑے۔                             

لکھا ہے کہ جناب ابراہیم نے خانہ کعبہ کی بنیادیں اونچی کر لیں، دیواریں اتنی بلند ہو گئیں کہ کسی چیز پر کھڑے ہو کر ان کو بنایا جائے تو حضرت اسماعیل کی مدد سے ایک پتھر اٹھا کر لائے اور اس پر کھڑے ہو کر دیواروں کو بلند کیا۔ پتھر مقام ابراہیم کہلاتا ہے یعنی حضرت ابراہیم کی کھڑے ہونے کی جگہ جس وقت جناب ابراہیم پیر اس پتھر پر رکھے گئے تو اس نے سرکار الٰہی میں عرض کی کہ اے پالنے والے! چند لمحوں کیلئے میرے اندر موم کی خاصیت پیدا کردے تاکہ اس وقت میں تیرے خلیل کے مبارک پیروں کا نقش اپنے سینہ پر لے لوں اس کی یہ دعا قبول ہوئی اور حضرت ابراہیم کے پائے مبارک کا نقش اس پر جم گیا خدا کو اس پتھر کی حق شناسی اور خلیل نوازی پسند آئی اور اس کے صلہ میں اس کو حرم کعبہ کے اندر جگہ دی اور حاجیوں کو حکم دیا کہ جب حج کرنے کے لئے یہاں آؤ تو دو رکعت نماز اس پتھر پر بھی پڑھا کرو۔

"وَاتَّخِذُوْامِنْ مَّقَامِ اِبْرٰہِیْمَ مُصَلًّی"۔(سورہ البقرہ ۱۲۵/۲)

اس طرح ایک پتھر اور بھی تھا جس نے ذکر الٰہی کی پسندیدگی کے صلہ میں اس مبارک گھر میں جگہ پائی ہے اور وہ حجر اسود ہے جب حضرت آدم جنت میں تھے تو اس پتھر پر بیٹھ کر ذکر الٰہی کیا کرتے تھے جب جنت سے چلے تو یہ پتھر رونے لگا خطاب رب العزت ہوا تو کیوں روتا ہے اس نے عرض کی خداوند!مجھ پر بیٹھ کر تیرا ذکر کرنے والا اب یہاں سے جارہا ہے۔ اب میں کس سے تیری تسبیح و تہلیل سنوں گاجب اس کو اپنے نبی کا ایسا قدردان اور اپنے ذکر کا ایسا والہ و شیفتہ پایا تو اس کو اپنے گھر میں جگہ دے کر حاجیوں کو حکم دیا کہ جب یہاں آیا کریں تو بغیر اس کو بوسہ دیئے نہ جایا کریں۔ خدا کی سرکار میں محبت اور خلوص کی قدر ہے جب اس نے پتھروں کو بے اجر کرکے نہ رکھا تو بھلا کسی انسان کو کیوں رکھنے لگا چونکہ وہ بے جان تھے معرفت میں پست تھے لہذا ان کو حرم میں جگہ دی اور اس ذات کو جو آگے چل کر نفس اللہ کا لقب حاصل کرنے والی تھی اپنے گھر کے اندر جگہ دی اور اس کو مولودِ کعبہ

قرار دیا۔

ہر شخص جانتا ہے کہ کوئی گھر کسی مکین کے لئے اور کوئی بیت کسی اہل بیت کیلئے بنایا جاتا ہے۔ پس خدا کی طرف یہ منسوب ہے وہ تو اس کا مکین قرار نہیں پاسکتاکیونکہ وہ جسم و جسمانیت اور مکان و مکانیت سے مبرا اور منزا ہے، لہٰذا ضرورت ہوئی کہ اس کے سوا اور گھروں کے مکین اور ہوں۔ اس بیت کا کوئی اور اہل بیت ہو،یہ ظاہرہے کہ یہ گھر جناب ابراہیم علیہ السلام نے اپنے لئے تو بنایا نہ تھا پس لامحالہ اس کا اہل بیت کوئی اور ہے اور وہ اس کے سوا اور کوئی دوسرا نہیں ہوسکتا جو اس گھر میں پیدا ہوا ہو جس کا نام اس گھر پر ثبت ہو جس کو اس گھر نے خود اپنے اندر بلایا ہو دنیا جانتی ہے کہ یہ شرف روزِ اوّل سے خالق عالم نے ہمارے اور آپ کے مولا آقا امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام کے لئے مخصوص فرمادیا تھا۔

خوشا ما خوشا دین دنیائے ما

کہ ہمچو علی ہست مولائے ما

یاد رکھئے صدف کی قدر موتی سے ہوتی ہے نافہ کی مشک سے پھول کی خوشبو سے چمن کی پھول سے گھر کی گھر والے سے پس اس اصول کے لحاظ سے بیت اللہ اہل بیت کی وجہ سے معظم و مکرم بنا۔

مطلب از انشائے کعبہ بہر میلاد تو بود

ورنہ شخصے لامکاں را خانہ کے باشد ردا

بیت اللہ کی صفت :

اِنَّ اوَّلَ بَیْتٍ وُّضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِیْ بِبَکَّةَ مُبٰرَکًاوَّھُدًی

لِّلْعٰلَمِیْنَ۔ (سورہ آل عمران ۹۶/۳)

سے ظاہر ہے کہ ہدایت کسی مکان کے اینٹ پتھر یا درو دیوار کا خاصہ نہیں بلکہ اس کی یہ صفت مکین کے لحاظ سے قرار پاتی ہے۔ ایک عالم کسی گھر میں رہتا تو لوگ اس کو دارالعلم اور دارالشریعت کہتے ہیں اور اس کی تعظیم کرتے ہیں یہ سب تعظیم گھر والے کی وجہ سے ہوتی ہے نہ کہ بہ لحاظ درو دیوار کے۔ خدا نہ کسی جگہ سماتا ہے نہ کسی مکان میں رہتا ہے۔ مکانات کے مالک وہی ہو سکتے ہیں جو اس میں رہنے کی اہلیت رکھتے ہوں جو مکان گورنمنٹ ہاؤس کہلاتے ہیں ان میں بادشاہ خود نہیں رہتا بلکہ اس کے مخصوص لوگ رہا کرتے ہیں مگر رعایا پر ان کا احترام اس لئے واجب ہوتا ہے کہ رہنے والا سرکاری عملہ ہوتا ہے۔ پس ان کی عزت کرنا خود بادشاہ کی عزت کرنا ہوتا ہے۔

دوسرے لفظوں میں ہم اس مطلب کو یوں ادا کرتے ہیں کہ کعبہ خدا کا گھر ہے چونکہ خدا خود اس میں رہتا نہیں لہذا ضرورت ہوئی اس کا کوئی محافظ بھی ہوتا کہ خانہ خالی پاکر کسی غیر مستحق کا اس پر قبضہ مخالفانہ نہ ہوجائے مثل مشہور ہے کہ خانہ خالی رادیو میگرد۔ اس کعبہ کو دو طرح کے محافظوں کی ضرورت تھی۔ اول ایسے لوگ جو اس کے مادی تعلقات کی حفاظت کریں دوسرے ایسے لوگ جو اس کی ہدایت اور روحانی برکات کی حفاظت کریں بس پہلی قسم کے محافظوں کا تعین بندوں سے متعلق ہوا کہ وہ جس کو چاہیں خانہ کعبہ کا کلید بردار بنادیں اور دوسری قسم کے محافظوں کا تقرر خدا نے اپنی قدرت میں لے لیا اس میں بندوں کو کوئی دخل نہیں مادی محافظ ان دروازوں میں داخل ہونے کا مجاز ہوتا ہے جو پہلے سے بنائے جاتے ہیں روحانی محافظ عام گزرگاہوں سے داخل نہیں ہوتا بلکہ اس کے لئے ایک نیا راستہ بنتا ہے تاکہ وہ اس کی شہادت ہو کہ اس کو خدا نے بلایا ہے اور یہ خدا کا نامزدکردہ ہے بندوں کے انتخاب کا اس سے کوئی تعلق نہیں بسی یہی ایک دلیل اس کے فضل و شرف کے لئے کافی ہوتی ہے۔ روح کو مادہ پر جو فضیلت ہوتی ہے وہی اس روحانی محافظ کو مادی محافظ پر

ہوتی ہے۔

کعبہ جب سے بنا بے شمار حاملہ عورتیں اس کے اندر داخل ہوئیں اور صاحبان حکومت کی ازواج داخل ہوئیں اگر وہ چاہتے تو خانہ کعبہ میں کسی بچے کی ولادت کرادیتے لیکن اوّل تو یہ فضیلت کسی کے خیال میں نہ آئی اور اگر آئی تو اس کو حاصل کرنے کی جرات نہ ہوئی، اگر جرأت کرتے بھی تو یہ پیدائش مولود کے لئے باعث شرف نہ بنتی کیونکہ وہ اپنا ایک اختیاری امر ہوتا۔ خدائی انتخاب کو اس میں کوئی دخل نہ ہوتا۔ بت پرستوں نے بے شمار بت کعبہ میں جارکھے تھے پس ان سے ان بتوں کو کیا فضیلت ثابت ہوئی اسی طرح اگر کوئی عورت وہاں جاکر جنم دیتی تو یہ امر نہ اس عورت کے لئے وجہ فضیلت ہوتا اور نہ اس مولود کے لئے۔ ہاں جس کے لئے دیوار کعبہ شق ہوئی اور ہاتف ِغیب کو اس کو اندر آنے کی ہدایت دے وہ عورت ہی صاحب شرف کہلا سکتی ہے اور اس کا بچہ بھی:

ایں سعادت بزور بازو نیست

تانہ بخشد خدائے بخشندہ

چناچہ منقول ہے کہ جب فاطمہ بنت اسد، مادرِ امیرالمومنین علیہ السلام ایک رو ز بغرض طواف بیت اللہ تشریف لائیں، اثنائے طواف میں آپ کو دردِ زہ عارض ہوا آپ نے دعا کی پروردگار! میں تجھے اپنے جد جنابِ خلیل کا واسطہ دیتی ہوں کہ اس مشکل کو میرے اوپر آسان کر اس کے بعد آپ دیوار کعبہ کو اپنے بطن مبارک سے مس کرنے کے لئے آگے بڑھیں جوں ہی قریب پہنچیں یکایک دیوار کعبہ شق ہوگئی اور اتنا راستہ بن گیا کہ آپ اس سے کعبہ کے اندر تشریف لے جائیں۔آپ کو یہ دیکھ کر تعجب ہوا اور خائف ہوکر پیچھے ہٹیں۔ ناگاہ ایک ہاتف ِغیب کی آواز آئی :

"اُدْخُلِیْ فِی الْبَیْتِ"۔

"اے فاطمہ !گھر کے اندر داخل ہوجاؤ"۔

یہ آواز سنتے ہی آپ گھر کے اندر داخل ہوگئیں اور دیوار بدستور ویسی ہوگئی۔ جب وقت ولادت آیا تو آپ نے کچھ نورانی پیکر بیبیوں کو وہاں موجود پایا۔ ان میں سے ایک بی بی نے یوں تعارف کرایا: میں سارا زوجہ ابراہیم ہوں، یہ آسیہ بنت مزاحم زوجہ فرعون ہیں ،یہ معظمہ بڑی کامل ایمان یہ مریم مادرِ عیسیٰ علیہ السلام ہیں ہم سب اس لئے آئے ہیں کہ اس مولود مسعود کی ولادت کے وقت موجود رہیں اور دایہ گری کا کام انجام دیں۔

الغرض جب امیرالمومنین علیہ السلام شکم مادر سے آغوش میں آئے تو آپ نے فوراً اپنی جبین مبارک خاک پر رکھدی اور سجدہ خالق ادا کیا فاطمہ بنت اسد نے دیکھا کہ بچہ کے پیدا ہوتے ہی وہ تمام بت جو کعبہ کے اندر طاقوں میں رکھے تھے سرنگوں ہوکر زمین پر گرگئے سمجھیں کہ میرا بچہ غیر معمولی بچہ ہے اس پر تو بہت خوش ہوئیں مگر دو باتیں دیکھ کر سخت متفکر و پریشان ہوئیں اول یہ کہ بچے کی آنکھیں بالکل بند پائیں دوسرے دودھ کی طرف راغب نہ پایا۔ ہرچند کوشش دودھ پلانے کی مگر بچے نے اپنا منہ ہی نہ کھولا۔

یہاں تو یہ ہورہا تھا، وہاں رسول پر اِلقاء ہوا کہ خانہٴ کعبہ میں جاؤ اور اپنے چچا زاد بھائی اور وصی کو دیکھو۔آپ نے اپنے چچا ابوطالب کو ساتھ لیا اور خانہ کعبہ میں پہنچے تو دروازہ بند تھا حیرت ہوئی کہ جب دروازہ باہر سے بند ہے تو میری چچی اس کے اندر داخل کیسے ہوسکتی ہیں۔

الغرض جناب ابوطالب نے دروازہ کھلوایا اور دونوں بزرگ اندر گئے تو دیکھا فاطمہ بنت اسد وہاں موجود ہیں اور مولود مسعود ان کی گود میں ہے آپ نے فرمایاچچی لاؤ میرے بھائی اور میرے وصی کو مجھے دو فرمایا!بیٹا اس بچے نے نہ تو اب تک آنکھ کھولی ہے اور نہ دودھ پیا ہے۔ یہ کہہ کر آپ نے بچے کو آنحضرت کی گود میں دے دیا بوئے رسالت کا مشام امامت میں پہنچنا تھا کہ حضرت علی علیہ السلام نے پٹ سے آنکھیں کھول دیں اور دنیا میں سب سے پہلے جس چیز کی زیارت کی وہ جمال جہاں آرائے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تھا، کیوں نہ آنکھیں کھولتے کیونکہ جس در مدعا کی تلاش تھی وہ نظر کے سامنے تھا اس کے بعد حضور سرور انبیاء نے اپنی زبان مبارک علی کے منہ میں دے دی سب سے پہلی غذا جو مولود کعبہ نے دنیا میں حاصل کی وہ لعابِ رسول تھا۔ لعابِ رسول کہوں یا سرچشمہ علم و ہدایت کہوں جس کا دھارا ایک سینہ سے دوسرے سینہ میں جارہا تھا اس کے بعد امیرالمومنین نے آسمانی کتابوں کی تلاوت کرکے اس کا ثبوت دیا کہ میں خدا کی طرف سے مسلمان بنا ہوا آیا ہوں پھر آنحضرت کی رسالت کی آپ نے تصدیق کی۔

میری یہ بات منصب امامت کے ناقدر شناس کو پسند نہ آئے گی وہ اس پر ناک بھوں چڑھائے گا کہ نوزائیدہ بچہ بول کیسے سکتا ہے؟ وہ کہے گا عاقلانہ کلام کیسے کرسکتا ہے؟ وہ یہ اعتراض کرے گا کہ آسمانی کتب کا ایک بچہ بغیر پڑھے لکھے کیسے عالم ہوسکتا ہے؟ بالخصوص قرآن کا جو ابھی نازل بھی نہ ہوا تھا میں کہوں گا یہ عدم تدبر کا نتیجہ ہے یہ قرآن سے بے خبری کی علامت ہے۔ بیت اللہ میں پیدا ہونے والے بچہ کا تو ذکر ہی کیا جو بچہ بیت المقدس سے باہر پیدا ہوا تھا وہ کیا نہ بولا تھا۔ پڑھو قرآن میں حضرت عیسیٰ کا قصہ دیکھو، وہ پیدا ہوتے ہی یہودیوں سے کس طرح بے باکی سے کلام کر رہے تھے:

"اِنِّیْ عَبْدُاللّٰہِقفاٰتٰنِیَ الْکِتٰبَ وَجَعَلَنِیْ نَبِیًّا"۔(مریم:۳۰/۹۱)

"میں اللہ کا بندہ ہوں، اس نے مجھے کتاب دی ہے اور نبی بنایا ہے"۔

پس اگر پیدا ہوتے ہی حضرت عیسٰی علیہ السلام ایسا عاقلانہ کلام کرسکتے تھے، یہودیوں سے ہم سخن ہو سکتے تھے تو مولود کعبہ جیسی برگزیدہ ہستی اور یہاں ایک امام اور ایک پیغمبر تھے اگر نزول انجیل سے قبل حضرت عیسیٰ انجیل کے عالم ہوسکتے ہیں تو یہ مولودِ کعبہ نزولِ قرآن سے پہلے اس کا عالم کیوں نہیں ہوسکتا ؟بہ مصداق:

’اَلرَّحْمٰنُ۔عَلَّمَ الْقُرآنَ۔خَلَقَ الْاِنْسَانَ۔عَلَّمَہُ الْبَیَانَ‘

"رحمن وہ ہے جس نے اپنے ایک خاص بندے کو پہلے تعلیم کی، پھر پیدا کیا، پھر اس کو بیان کرنے کی تعلیم دی"۔(سورہ رحمٰن ۲تا۴)

جب ہمارے رسول کو اس وجودِ مادّی سے پہلے بوجودِ نورانی قرآن کی تعلیم دی جا چکی تھی تو علی کو کیوں نہ دی جاتی کیونکہ آپ اس نور کا ایک جزو تھے۔ اس کے بعد رسول نے قرآن کی تعلیم لوگوں کو دی، تو وہ مقام بیان تھا اور علی نے جو سب سے پہلے تصدیق رسالت کی وہ وقت اظہارِایمان تھا، نہ کہ وقت حصول اسلام کیونکہ مسلمان تو آپ بنے بنائےآئے تھے۔

افسوس ہے کہ لوگ مولود کعبہ کے بولنے اور تصدیق رسالت کرنے پر ناک بھوں چڑھاتے ہیں لیکن اس بچہ پر کبھی تعجب نہیں کرتے جس نے گہوارہ میں یوسف علیہ السلام کی عصمت کی گواہی دی تھی۔ قصہ اصحاب اخدود کوپڑھ کر اس بچہ پر تعجب نہیں کرتے جس نے ایک حبشی نبی کی صداقت کی تصدیق کی تھی۔ جناب یحییٰ بن زکریا پر تعجب کیوں نہیں کرتے جو چند مہینہ بحالت حمل رہ کر پیدا ہوئے اور اپنے پدر بزرگوار جناب زکریا سے ہمکلام ہوئے اور جن کو خلاق عالم نے بچپن ہی میں صاحب کتاب بنادیا تھا۔

"یٰحْیٰی خُذِالْکِتٰبَ بِقُوَّةٍ"۔

"اے یحییٰ! اس کتاب کو قوت کے ساتھ لے لو"۔(سورہ مریم ۱۲/۱۹)

یہ قوت کا لفظ ہی بنارہا ہے کہ بچپن میں ان کو قوت عطا کردی گئی تھی جو ایک کتاب کیلئے ضروری ہے۔

جناب ابراہیم پر تعجب نہیں ہوتا جنہوں نے پیدا ہوتے ہی اپنے والد گرامی سے پوچھا: میری قوم کس کی عبادت کرتی ہے؟ خدا نے معیار فضیلت واصطفا طالوت کے قصہ میں دو چیزوں کو بیان فرمایا ہے’ اَلْعِلْم وَالْجِسْم‘ یعنی علم اور شجاعت ہم دونوں باتیں مولود کعبہ میں دکھانا چاہتے ہیں تاکہ منکرین فضائل علی کو معلوم ہوجائے کہ اگر بچپن میں خلاقِ عالم نے ان کا اصطفا کرلیا تو کوئی حیرت انگیز بات نہ تھی۔

مشہور روایت ہے کہ جناب امیر علیہ السلام کے زور بازو کا یہ حال تھا کہ آپ نے گہوارے میں کلہ اژدر کو چیر ڈالا تھا۔کچھ لوگوں کو ہمارا یہ بیان مضحکہ خیز معلوم ہوتا ہے ان کو یہ فضیلت مبالغہ کی ایک قابل افسوس داستان نظر آتی ہے ،اس وجہ سے کہ انہوں نے حالات انبیاء کو ذرا بھی غور سے نہیں پڑھا۔ ایسے لوگ حضرت عیسٰی کا یہ واقعہ تاریخوں میں غور و خوض سے کیوں نہیں پڑھتے کہ جب یہودی حضرت مریم سے ازراہ طنز کہنے لگے:

"یٰٓاُخْتَ ھٰرُوْنَ مَاکَانَ اَبُوْکِ امْرَاَسَوْءٍ وَّمَاکَانَتْ اُمُّکِ بَغِیًّا"۔

"اے نیک بی بی (ازراہِ طنز)!نہ تو تمہاراباپ برا آدمی تھا نہ تمہاری ماں ہی بدکار تھی) پھر یہ بچہ بے شوہر کے کیسے پیدا ہوا؟"(سورہ مریم ۲۸/۱۹)

بحکم الٰہی جناب مریم نے حضرت مریم نے حضرت عیسیٰ کی طرف اشارہ کرکے بتایا کہ اس سے پوچھو۔ انہوں نے ازراہ تعجب کہا:

"قَالُوْاکَیْفَ نُکَلِّمُ مَنْ کَانَ فِی الْمَھْدِصَبِیًّا"۔(مریم :۲۹/۱۹ )

"یہ بچہ کیسے بولے گا؟ وہ تو گہوارہ میں پڑا ہوا ہے یعنی نوزائیدہ ہے"۔

غرض کہ یہودی حضرت عیسیٰ کے پاس آئے اور دریافت کیا آپ جھولے میں لیٹے ہوئے تھے ان کی لغویات کا جواب دینے کے لئے گہوارہ میں اٹھ کر بیٹھ گئے کیوں جناب ایک نوزائیدہ بچہ میں جو منہ سے مکھی اڑانے کی طاقت نہیں رکھتا اتنی قوت کس نے دے دی کہ پیدا ہوتے ہی گہوارہ میں اٹھ بیٹھا پس اگر حضرت علی نے گہوارہ میں کلہ اژدو چیر ڈالا، کیوں تعجب ہے؟

اسے چھوڑیئے، حضرت موسیٰ کا قصہ تاریخوں میں پڑھ لیجئے جب حضرت موسیٰ کا صندوق محل فرعون میں پہنچا اور اس نے کھول کر باہر نکالا تو اس نے اور اس کی بی بی جناب آسیہ نے بیحد پسند کیا چونکہ فرعون بے اولاد تھا اس لئے میاں بیوی کی رائے ہوئی کہ جناب موسٰی کو اپنا متبنیٰ کرلیں۔ پہلے جناب آسیہ نے پیار کیا پھر فرعون نے اپنی گود میں لے کر پیار کرنا چاہا جناب موسیٰ نے ایک ہاتھ سے اس کی داڑھی پکڑی اور دوسرے ہاتھ سے ایسا طمانچہ مارا کہ مردود کا منہ پھر گیا۔ جلدی سے موسیٰ کو رکھ کر دونوں ہاتھوں سے اپنا رخسار پکڑ لیا جناب آسیہ نے کہا تم بھی کیسے کمزور دل ہوکہ بچہ کا ہاتھ لگتے ہی بلبلا گئے۔

فرعون نے کہا: تمہیں کیا معلوم کہ یہ طمانچہ کیسا تھا یہ معلوم ہوا کہ ایک فولادی ہتھوڑا پڑ گیاجس نے میرا جبڑا تک ہلادیا۔ کیوں جناب! جس خدا نے حضرت موسٰی کو اتنی طاقت ان کے بازو میں بخشی تھی کہ فرعون جیسے موذی کا جبڑا ہلادیں اگر وہ خدا حضرت علی کے بازو میں یہ زور دے دے کہ گہوارہ میں کلہ اژدر چیر ڈالیں، تو کیا محل تعجب ہے؟

مہد میں کلہ اژدر کو چیرنے والے

یہ بچپنا ہے تو عہد شباب کیسا ہو گا

اللہ نے یہ زور جسے پچپن میں بخشا تھا۔ اگر وہ جوانی میں خیبر کا دروازہ اکھاڑلے اور سپر کی طرح اسے ہاتھ میں لے کر خندق میں کود پڑے تو کیا بعید از عقل ہے۔

یہ تو حضرت کی شجاعت کا مختصر سا بیان تھا اب اصطفا کی دوسری شرط کو لیجئے یعنی علم۔ اس کا حال بھی سن لیجئے سوائے امیرالمومنین علیہ السلام کس کے علم میں یہ زور تھا کہ منبر رسول پر بیٹھ کر دعوی کرسکے :

"سَلُوْنِیْ قَبْلَ اَنْ تَفْقِدُوْنِیْ"۔

"پوچھ لو مجھ سے جو کچھ پوچھنا چاہو قبل اس کے کہ تم مجھے نہ پاؤ"۔

پھر فرمایا: واللہ! اگر میرے لئے مسند حکومت بچھا دی جائے اور میں اس پر بٹھا دیا جاؤں تو میں اہل توریت کے درمیان توریت سے حکم کروں گا اور اہل زبور کے درمیان زبور سے اور اہل انجیل کے درمیان انجیل سے اور اہل قرآن کے درمیان قرآن سے یہاں تک کہ ہر کتاب اپنی زبان سے بول اٹھے گی کہ علی نے میرے بارے میں وہی فیصلہ کیا ہے جو خدائی فیصلہ ہے۔

ابن عباس بیان کرتے ہیں کہ ایک شب حضرت علی نے مجھ سے سورہ فاتحہ کی تفسیر بیان کی یہاں تک کہ صبح نمودار ہوئی۔ آپ نے فرمایا اے ابن عباس اگر رات اور طولانی ہوتی تو میں اسی طرح بیان کرتا رہتا:

لَوْشِئْتُ لَاَ وْقَرْتُ سَبْعِیْنَ بعَیْراًمِنْ تَفْسِیْرِفَاتِحَةِ الْکِتَابِ۔

"اگر میں چاہوں تو تفسیر سورہ فاتحہ سے سو اونٹ لاددوں"۔

اے ابن عباس! آگاہ ہوکہ جو کچھ تمام قرآن میں ہے وہ سورہ فاتحہ میں ہے اور سورہ فاتحہ میں ہے اور جو سورہ فاتحہ میں ہے وہ بسم اللہ میں ہے اور جو بسم اللہ میں ہے۔ وہ نقطہ بائے بسم اللہ میں ہے:

"وَاَنَاالنُّقْطَةُ تَحْتَ ھٰذَاالبٰآءِ"۔

" اور میں وہی نقطہ ہوں جو اس ب کے نیچے ہے"۔

یعنی کل قرآن کا علم میرے سینہ میں ہے۔ آپ ہی کی وہ ذات ہے جس کی تعریف قرآن میں یوں کی گئی ہے:

"وَمَنْ عِنْدَہ عِلْمُ الْکِتٰبِ"۔

"جس کے پاس پوری کتاب کا علم ہے"۔(سورہ الرعد ۴۳/۱۳)

انہی کی مدح سرائی یوں بھی کی گئی ہے:

"وَکُلَّ شَیٴ اَحْصَیْنٰہُ فِیْ اِمَامٍ مُّبِیْنٍ"۔

"ہم نے ہر شے کا احاطہ امام مبین میں کردیا ہے"۔(سورہ یٰسین ۱۲/۳۶)

امیرالمومنین علیہ السلام اپنے سینے کی طرف اشارہ کرکے فرمایا کرتے تھے:

’ھٰذا سَقطُ الْعِلمِ ھٰذا لْعٰابُ رَسُوْلِ اللّٰہِ ھٰذَامَازقَنِیْ رَسُوْل اللّٰہ زَقًا"۔

"یہ علم کا صندوق ہے یہ لعاب رسول چوسنے کا اثر ہے یہ اس کا اثر ہے کہ رسول اللہ نے مجھے اس طرح بھرایا ہے جیسے طائر اپنے بچے کو بھراتے ہیں"۔

آپ نے یوں نہیں فرمایا کہ رسول اللہ نے مجھے علم اس طرح پلایا جیسے ماں بچہ کو دودھ پلاتی ہے کیونکہ دودھ تو غذا سے بہت سے تغیرات کے بعد بنتا ہے اور طائر اپنے بچے کو بجنسہ وہی غذا بھراتا ہے جو خود کھاتا ہے مطلب یہ تھا کہ آنحضرت نے جو کچھ خدا سے لیا وہی بے کم وکاست مجھے دیا۔

حضرت یہ بھی فرمایا کرتے تھے مجھے حضرت رسول خدا نے ایک ہزار باب علم کے تعلیم کئے اور مجھ پر ہر باب سے ایک ایک ہزار باب علم کے اور منکشف ہوگئے۔ حضرت نے یہ بھی فرمایا کہ مجھے حضور نے اس طرح تعلیم دی۔

"وَاِذَاسَئَلْتُہ فَانبأنِیْ وَاِذسَکَتُّ فَابتَدَ أَنِیْ"۔

"جب میں نے پوچھا تو حضرت نے جواب دیا اور جب میں چپ رہا تو اپنی طرف سے بتانے کی ابتداء کی"۔

ابن عباس کہا کرتے تھے کہ علی ایسے عالم ہیں کہ ان کو رسول اللہ نے سکھایا ہے۔ پس میرا اور تمام اصحابِ محمد کا علم، علی کے مقابلہ میں ایسا ہے جیسے ایک قطرہ سات سمندروں کے مقابل۔

حضرت کے علم قرآن کا یہ حال تھا کہ جو کوئی سوال بھی آپ سے کیا جاتا تھا آپ اس کا جواب فوراً قرآن سے دے دیا کرتے تھے۔ ایک بار ایک شخص نے ازراہِ طنز کہا یاعلی ! آپ ہر بات کا جواب بے سوچے سمجھے قرآن سے دیا کرتے ہیں۔ آپ کو یہ خوف نہیں ہوتا کہ مبادا کہیں غلط بیانی ہوجائے۔ حضرت نے فرمایا ذرا بتاؤ تمہارے ہاتھ میں کتنی انگلیاں ہیں۔ اس نے فوراً جواب دیا پانچ۔ آپ نے فرمایا تم نے اتنی جلدی جواب کیوں دیا؟

اس نے کہا میں اس میں سوچنے کی کیا بات تھی؟ ہاتھ میری نظر کے سامنے ہے انگلیوں کا علم پہلے سے مجھے حاصل ہے۔ حضرت نے فرمایا اے شخص جس طرح یہ پانچوں انگلیاں تیری نظر کے سامنے ہیں اوراِن کا علم تجھے ہے اسی طرح کائنات کا ورق میری نظر کے سامنے ہے اور اس کے متعلق مجھے پہلے سے علم ہے۔

حضرت رسول خدا نے ایک روز صحابہ کے بھرے مجمع میں فرمایا:

"لَا تُعَلِّمُوْاعَلِیًّا فَاِنَّ عِنْدَہ عِلْمُ الْاَ وَّلِیْنَ وَالْاٰخِرِیْنَ"

"تم علی کو کچھ سکھانے کی کوشش مت کرو کیونکہ ان کے پاس اوّلین آخرین کا

علم ہے"۔

ابن عباس کہتے ہیں کہ میں نے قضا یا فیصل کرنے میں علی سے زیادہ مشاق کسی کو نہ پایا۔ ایک دن حضرت عمر کے سامنے یہ قضیہ آیا کہ دو عورتوں نے ایک ہی وقت میں دو بچے جنے۔ ایک نے لڑکا اور دوسری نے لڑکی۔ رات کے وقت لڑکے والی کو غافل پاکر لڑکی والے نے اس کا لڑکا اتھا کر اپنے پہلو میں رکھ لیا، اور اپنی لڑکی کو اس کے پاس لٹادیاجب صبح ہوئی اور لڑکے والی نے پہلو میں لڑکی دیکھی تو اپنے ساتھ والی سے کہنے لگی تم نے میرا لڑکا کیوں اٹھالیا اس نے کہا تو دیوانی تو نہیں ہوئی لڑکا میرا ہے۔ غرض کہ اس بارے میں ان دونوں کے درمیان نزاع ہوا اور یہ قضیہ حضرت عمر کے پاس آیا وہ متعجب ہوکر رہ گئے اور کوئی حل سمجھ میں نہ آیا۔ آخر آپ نے تجویز کیا کہ اس کا حل امیرالمومنین سے کرایا جائے۔

جب وہ دونوں عورتیں امیرالمومنین کے سامنے آئیں تو آپ نے ایک غلام کو حکم دیا کہ دو شیشیاں ایک ہی قدر اور ایک ہی وزن کی لائے اور ہر ایک شیشی میں ایک ایک عورت کا دودھ بھرکے تولے جس کا دودھ وزنی ہو لڑکا اس کو دے دیا جائے اور جس کا دودھ ہلکا ہو اس کو لڑکی، حضرت عمر نے دریافت کیا کہ یہ فیصلہ آپ نے اپنی رائے سے کیا ہے یا قرآن حکیم سے ؟ فرمایا :قرآن حکیم سے کیا تم نے یہ آیت نہیں پڑھی:

"لِلذَّکَرِمِثْلُ حَظِّ الْاُ نْثَیَیْنِ"۔

"مرد کا حصہ عورت سے دوگنا ہوتا ہے"۔(سورہ النساء ۱۱/۴)

جب خدا نے میراث ہی میں لڑکے کا حصہ لڑکی سے دونا قرار دیا ہے تو ضرور ہے کہ دودھ میں بھی اس کا لحاظ رکھا ہو۔

ایسے قضیئے حضرت نے بہت سے عہد ِحضرت عمرمیں فیصلہ فرمائے اور حضرت عمر

کا یہ کہنا :

"لَوْلَاعَلِیٌّ لَھَلَکَ عُمَرُ"۔

"اگر علی نہ ہوتے تو عمر اپنے غلط فیصلے کی بناء پرہلاک ہوجاتا" اسی وجہ سے تھا۔

آج تیرہ ماہِ رجب روز ولادت امیرالمومنین علیہ السلام ہے۔ ہم جتنی خوشیاں منائیں کم ہے۔ آج دنیا میں اس ذات کا ظہور ہوا ہے جس کی زندگی رضائے خدا کیلئے وقف تھی، جو خدا ہی کے گھر میں پیدا ہوا اور خدا ہی کے گھر میں مرا اور اپنی زندگی کا تمام حصہ خدائی کاموں میں، دین اسلام کی خدمت میں صرف کیا۔

کیا ٹھکانہ ہے اُس ذات کے فضائل کا جو بزمِ نور میں شریک ِنورِ رسالت تھا۔ محفل وجود میں نفس ختمی مرتبت، جانشین شہنشاہِ نبوت، جس کے نفس کو اللہ نے اپنا نفس کہا۔ کبھی رسول نے اپنا، جبرئیل نے جس کو اپنا اُستادبنایا۔ رسول نے جس کو اپنے شانوں پر چڑھایا۔ منبر غدیر پر جس کو رسول نے تمام موٴمنوں کا مولا بنایا، جو ہمیشہ شجاعت کا اسد اللہ الغالب تھا۔ جو بلحاظِ فضائل و مناقب مطلوب، کل طالب تھا۔ یتیموں کا والی، بیواؤں کا وارث، مصیبت زدوں کا مشکل کشا، پریشان حالوں کو عقدہ کشا، موٴمنوں کا امیر، درماندوں کا دستگیر، رسول کا قوتِ بازو، اسلام کا محافظ و مددگار، متقیوں کا سردار، سرکارِ الٰہی کا مختار، قسیم جنت و نار، اللہ کا ولی، میرا آقا اور مولا علی ۔

علی امام من است ومنم غلام علی

ہزار جان گرامی فدائے نام علی

کعبہ آج خوشی میں پھولا نہیں سماتاکہ میرا مولود و امام المتقین سیدالوجہین خلیفہ ختم المرسلین قائدالغرالمحجلینہے اس میں خدائی صفات اس حد تک جھلکیں گی کہ بہت سے گمراہوں کو اس پر خدائی کا دھوکا ہونے لگے گا، یہ وہ ذات ہے جس کی نسل سے گیارہ معصوم پیدا ہوں گے اور وہ سب میرے اہل بیت کہلائیں گے۔


source : http://naqvi2.blogfa.com
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

میراث فاطمہ علیہا السلام اور حدیث لا نورث کے بارے ...
حضرت علی (ع) سے شادی
امام جعفر صادق علیہ السلام کی چالیس منتخب حدیثیں
ائمہ معصومین علیہم السلام نے ایسے دورحکومت -8
معرفت امام حسین علیہ السلام
نوجوانان حسيني
حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیھا کی زندگی پر ایک ...
کیا یہ حدیث صحیح ہے کہ پیغمبر خدا (ص) نے دایہ نہ ...
ذکرِولادتِ امیرالموٴمنین
خاک شفا کی عظمتیں

 
user comment