اردو
Sunday 22nd of December 2024
0
نفر 0

حدیث منزلت کے بارے میں مناظرہ

مکتوب نمبر ۱۴ حدیث منزلت صحیح بھی ہے اور مشہور بھی لیکن مدقق آمدی کو ( جو اصول میں استاد الاساتیذ تھے) اس حدیث کے اسناد میں شک ہے اور وہ اس کے طرق میں شک و شبہ کرتے ہیں ۔ آپ کے مخالفین آمدی کی رائے کو درست سمجھیں تو آپ انھیں کیونکر قائل کریں گے؟
حدیث منزلت کے بارے میں مناظرہ

 
مکتوب نمبر ۱۴


حدیث منزلت صحیح بھی ہے اور مشہور بھی لیکن مدقق آمدی کو ( جو اصول میں استاد الاساتیذ تھے) اس حدیث کے اسناد میں شک ہے اور وہ اس کے طرق میں شک و شبہ کرتے ہیں ۔ آپ کے مخالفین آمدی کی رائے کو درست سمجھیں تو آپ انھیں کیونکر قائل کریں گے؟
                                س

جواب مکتوب
حدیثِ منزلت صحیح ترین حدیث ہے


آمدی یہ شک کر کے خود اپنے نفس پر ظلم کے مرتکب ہوئے کیونکہ حدیث منزلت تمام احادیث سے صحیح تر اور  تمام روایات سے زیادہ پایہ ثبوت کو پہنچی ہوئی ہے۔

اس کی صحت پر دلائل بھی موجود ہیں


سوائے آمدی کے آج تک اس کے اسناد میں کسی کو شک نہ ہوا ۔ نہ اس کے ثابت و مسلم الثبوت ہونے میں کسی کو لب کشائی کی جرائت ہوئی ۔ علامہ ذہبی جیسے متعصب تک نے تلخیص مستدرک میں اس کے صحت کی صراحت کی ہے۔(1)  اور ابن حجر ایسے دشمن تشیع شخص نے صواعق محرقہ کے صفحہ۲۹ پر اس حدیث کو ذکر کیا ہے اور اس کی صحت کے متعلق ان ائمہ حدیث کے اقوال درج کیے ہیں جو فن حدیث میں حضرات اہل سنت کے ملجا و ماوی سمجھے جاتے ہیں ۔(2) اور یہ حدیث ایسی ہی ثابت و ناقابل انکار نہ ہوتی تو امام بخاری ایسا شخص کبھی اپنی صحیح بخاری میں ذکر نہ کرتا۔

وہ علمائے اہل سنت جنھوں نے اس حدیث کی روایت کی ہے


امام بخاری کی تو یہ حالت ہے کہ امیرالمومنین(ع) یا اہلبیت(ع) کے فضائل و خصائص کسی حدیث میں دیکھ لیتے ہیں تو اس کو یوں اڑا جاتے ہیں جیسے رسول(ص) نے فرمایا ہی نہ ہو۔ تو جب امام بخاری تک مجبور ہوگئے اور صحیح بخاری میں درج کر کے رہے تو اب اس کے متعلق شک وشبہ کرنا زبردستی ہے۔
معاویہ جو دشمنان امیرالمومنین(ع) اور آپ سے بغاوت کرنے والوں کے سرغنہ تھے۔ جنھوں نے امیرالمومنین(ع) سے جنگ کی ۔ بالائے منبر آپ کو گالیاں دیں۔ لوگوں کو سب وشتم کرنے پر مجبور کیا لیکن باوجود اتنی بد ترین عداوت کے وہ بھی اس حدیث منزلت سے انکار نہ کرسکے اور نہ سعد بن ابی وقاص کو جھٹلانے کی انھیں ہمت ہوئی۔
چنانچہ صحیح مسلم میں یہ روایت موجود ہے کہ:
“(4) جب سعد بن ابی وقاص معاویہ کے پاس (3) آئے اور معاویہ نے ان سے فرمائش کی کہ منبر پر جاکر امیر المومنین(ع) پر لعنت کریں۔۔۔۔۔۔ اور انھوں نے انکار کیا تو معاویہ نے پوچھا کہ آخر وجہ انکار کیا ہے ؟ انھوں نے جواب دیا کہ رسول(ص) نے علی(ع) کے متعلق تین باتیں ایسی کہی ہیں کہ جب تک وہ باتیں یاد رہیں گی میں ہرگز انھیں سب وشتم نہیں کرسکتا۔ اگر ان تین باتوں سے ایک بات بھی مجھے نصیب ہوتی تو وہ سرخ اونٹوں کی قطار سے زیادہ میرے لیے محبوب ہوتی ۔ میں نے خود رسول اﷲ(ص) کو علی(ع) سے کہتے سنا ہے جب کہ آپ کسی غزوہ میں تشریف لے جارہے تھے اور حضرت علی(ع) کو اپنی جگہ چھوڑے جارہے تھے تو آپ نے فرمایا کہ کیا تم اس پر راضی نہیں ہو کہ تمہیں مجھ سے وہی منزلت ہے جو موسی (ع) سے ہارون کو تھی۔ سوائے اس کے کہ باب نبوت میرے بعد بند ہے ۔”
معاویہ کے لی بہت آسان تھا کہ جھٹلا دیتے سعد کو ، کہہ دیتے ک نہیں ، رسول(ص) نے ایسا فرمایا ہی نہیں ہے۔لیکن یہ حدیث ان کے نزدیک بھی اس قدر ثابت و مسلم تھی کہ اس کے متعلق چوں چرا کی گنجائش ہی نہیں پائی۔ انھوں نے بہتری اسی میں دیکھی کہ خاموش ہوجائیں۔ سعد کو مجبور نہ کریں۔
اس سے بڑھ کر مزے کی بات سناؤں آپ کو۔ معاویہ نے خود اس حدیث منزلت کی روایت کی ہے۔ ابن حجر صواعق محرقہ میں تحریر فرماتے ہیں:
“ (6)امام احمد حنبل نے روایت کی ہے کہ کسی شخص نے معاویہ سے ایک مسئلہ دریافت کیا۔ معاویہ نے کہا کہ اسے علی(ع) سے پوچھو۔ اس شخص نے کہا(5)  آپ کا جواب مجھے علی(ع) کے جواب سے زیادہ پسندیدہ ہے۔ معاویہ نے جھڑک کر کہا کہ یہ بدترین بات تمھارے منہ سے سن رہا ہوں۔ تم اس شخص سے کراہت ظاہر کررہے ہو جسے رسول اﷲ(ص) نے علم یوں بھرایا ہے جس طرح طائر اپنے بچے کو دانہ بھراتا ہے۔ اور جس کے متعلق یہ ارشاد و فرمایا کہ تمھیں مجھ سے وہی نسبت حاصل ہے جو موسی(ع) سے ہارون کو تھی سوائے اس کے کہ میرے بعد نبوت کا سلسلہ ختم ہے۔ اور حضرت عمر کو جب کسی معاملہ میں پیچیدگی در پیش آتی تھی تو انھیں کی طرف رجوع کرتے ۔۔۔۔الخ ”
مختصر یہ کہ حدیثِ منزلت اتنی ثابت و مسلم ہے جس کے ثبوت میں کسی شک و شبہ کی گنجائش ہی نہیں۔ تمام مسلمان خواہ وہ کسی فرقہ یا جماعت سے تعلق رکھتے ہوں اس حدیث کی صحت پر اجماع و اتفاق کیے بیٹھے ہیں۔
اس حدیث منزلت کو صاحب الجمع الصحاح الستہ نے باب مناقب علی میں اور صاحب الجمع بین الصحیحین نے باب فضائل اور غزوہ تبوک کے تذکرہ میں ذکر کیا ہے۔
صحیح بخاری میں غزوہ تبوک (7) کے سلسلہ میں موجود ہے۔
صحیح مسلم میں فضائل علی(ع) کے ضمن(8)  میں مذکورہ ہے۔
سنن ابن ماجہ(9)  میں اصحاب نبی(ص) کے فضائل کے ضمن میں موجود ہے۔ مستدرک امام حاکم میں(10)  باب فضائل کے تحت موجود ہے۔
اور امام احمد (11) نے اپنی مسند میں سعد کی روایت سے بکثرت طریق سے روایت کی ہے نیز اسی مسند میں امام موصوف نے مندرجہ ذیل حضرات میں سے ہر بزرگ کی حدیث میں ذکر کیا ہے۔
ابن عباس (12) ، اسماء بن عمیس (13) ، ابوسعید خدری(14) ، معاویہ بن ابی سفیان(15)  اور دیگر صحابہ کی ایک جماعت سے روایت کیا ہے۔
طبرانی نے اسماء بنت عمنیس ، ام سلہ، جیش بن جنادہ، ابن عمر، ابن عباس ، جابر بن سمرہ، زید بن ارقم، براء بن عازب اور علی بن ابی طالب(ع)(16)  وغیرہ ہم سے ہر ہر شخص کی حدیث میں روایت کی ہے۔
بزار  (17)نے اپنی مستدرک میں روایت کی ہے۔
ترمذی نے اپنی صحیح میں ابو سعید خدری کی حدیث میں لکھا ہے۔
ابن عبدالبر نے استیعاب میں بسلسلہ حالات امیرالمومنین(ع) اس حدیث کو ذکر کیا ہے اور ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں۔ خود ان کے الفاظ ہیں :
“ وهو من اثبت الآثار و اصحها ، رواه عن النبی سعد بن ابی وقاص”
“ یہ حدیث تمام احادیث پیغمبر(ص) میں سب سے زیادہ ثابت و مسلم اور ہر ایک سے صحیح تر ہے، اس حدیث کو سعد بن ابی وقاص نے پیغمبر(ص) سے روایت کیا ہے۔”
پھر فرماتے ہیں کہ:
“ سعد کی حدیث بکثرت طریقوں سے مروی ہے جسے ابن ابی خیثمہ و غیرہ نے لکھا ہے۔”
آگے جل کر تحریر فرماتے ہیں :
“ اس حدیث کی روایت ابن عباس نے کی ہے، ابو سعید خدری نے کی ہے ، ام سلمہ (رض) نے کی ہے، اسماء بنت عمیس نے کی ہے۔ جابر بن عبداﷲ نے کی۔ ان کے علاوہ ایک پوری جماعت اصحاب ہے جس نے اس حدیث کی روایت کی ہے۔ جن کے ذکر میں طول ہوگا۔”
علماء محدثین اور اہل سیر و اخبار نے جس جس نے غزوہ تبوک کا ذکر کیا ہے انھوں نے اس حدیث کو بھی ضرور لکھا ہے اور جس جس نےحضرت علی(ع) کے  حالات و سوانح مرتب کیے ہیں خواہ وہ کسی فرقہ و جماعت کے ہوں متقدمین و متاخرین سب نے اس حدیث کا ذکر کیا ہے۔
اور مناقب اہل بیت(ع) و فضائل صحابہ میں جتنی کتابیں لکھی گئی ہیں سبھی میں یہ حدیث موجود ہے۔ مختصر یہ کہ حدیثِ منزلت وہ حدیث ہے کہ خلف و سلف سب کے نزدیک ثابت و محقق ہے کسی نے اس کی صحت میں شک نہیں کیا۔
آمدی کے شک کرنے کی وجہ
لہذا جب اس کی اہمیت کی حالت یہ ہے تو آمدی کو اس کے اسناد میں شک ہوتو ہوا کرے ان کے شک سے کیا ہوتا ہے ۔ علم حدیث میں انھیں دخل ہی کیا حاصل تھا؟ طرق و اسناد کے متعلق ان کا حکم لگانا تو بالکل ایسا ہی ہے جیسے عوام کا حکم لگانا۔ جنھیں کسی بات کے سمجھنے کی صلاحیت ہی نہیں ہوتی ۔ بات یہ ہے کہ جیسا آپ نے کہا کہ اصول میں انھیں تبحر حاصل تھا تو اسی تبحر نے انھیں اس دلدل میں پھنسایا ۔ انھوں نے دیکھا کہ بمقتضائے اصول یہ حدیث نص صریح ہے۔ امیرالمومنین(ع) کی خلافت پر اصول کے بموجب حضرت علی(ع) خلیفہ ماننے کے سوا کوئی چارہ کار باقی نہیں رہتا۔ مفر کی صورت نہیں لہذا راہ فراریوں نکالی جائے کہ اس حدیث کے اسناد ہی مشکوک قرار دے دیے جائیں کہ اس طرح شاید اس حدیث کے نہ ماننے اور حضرت علی(ع) کو خلیفہ رسول(ص) نہ تسلیم کرنے کی سبیل پیدا ہو۔
                                    ش

مکتوب نمبر۱۵
سندِ حدیث کی صحت کا اقرار


اس حدیثِ منزلت کے ثبوت میں جو کچھ آپ نے فرمایا بالکل صحیح ذکر کیا ہے اس کے مسلم الثبوت ہونے میں مطلقا شک و شبہ کی گنجائش نہیں آمدی نے اس حدیث میں ایسی ٹھوکر کھائی جس سے ان بھرم کھل گیا ۔معلوم ہو گیا کہ انھیں علم حدیث سے دور کا بھی لگاؤ نہیں تھا۔میں نے ان کے قول کو ذکر کر کے ناحق آپ کو ان کے رد کی زحمت دی۔ معافی کا خواہاں ہوں۔

عموم حدیث منزلت میں شک


مجھے خیال ہوتا ہے کہ آمدی کے علاوہ آپ کے دیگر مخالفین اس حدیث کے متعلق یہ کہتے ہیں کہ س حدیث منزلت میں عموم نہیں بلکہ یہ اپنے مورد کے ساتھ مخصوص ہے۔ یعنی رسول(ص) کا حضرت علی(ع) کو اپنا جانشین اور اپنی وفات کے بعد تمام مسلمانون میں اپنا خلیفہ بنانا مقصود نہیں تھا بلکہ صرف غزوہ تبوک کے موقع پر مدینہ سے جتنے دن آپ (ص) غائب رہے اتنے دن ہی آپ کو جانشین بنانا مقصود تھا۔ جیسا کہ سیاق حدیث سے پتہ چلتا ہے۔ اس لیے کہ یہ حدیث آپ نے اس موقع پر فرمائی ہے ۔ جب آپ عازم سفر ہوئے اور حضرت علی(ع) کو مدینہ میں اپنا قائم مقام بنا کر جانے لگے اور اس پر حضرت علی(ع) نے عرض کیا :
“یا رسول اﷲ(ص) آپ مجھے بچوں اور عورتوں میں چھوڑے جاتے ہیں؟”
تورسول(ص) نے کہا:
“ کیا تمہیں یہ پسند نہیں کہ تمھیں مجھ سے وہی نسبت ہے جو موسی(ع) سے ہارون کو تھی؟ سوائے اس کے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں۔”

 اس حدیث کے حجت ہونے میں شک


و یا رسول (ص) یہ کہنا چاہتے تھے کہ جس طرح کوہ طور پر جانے کے وقت جناب ہارون جناب موسی(ع) کے جانشین تھے اسی طرح غزوہ تبوک پر جانے کے وقت تم میرے جانشین ہو۔ لہذا مقصود پیغمبر(ص) کا یہ نکلا کہ میں جتنے دن غزوہ تبوک میں مشغول رہوں تم مسلمانوں میں میرے جانشین ہو جس طرح جناب موسی کی غیبت اور مناجات کے دنوں میں جناب ہارون جانشین موسی(ع) تھے۔ بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ اس حدیث کو اگر عام مان بھی لیا جائے تب بھی یہ حدیث حجت نہیں کیونکہ یہ حدیث مخصوص ہے اور وہ عام جس کی تخصیص کردی جائے وہ باقی میں حجت نہیں ہوسکتا۔
                                    س

جواب مکتوب
عرب کے اہل زبان عموم حدیث کے قائل ہیں


مخالفین کا یہ کہنا کہ حدیث منزلت میں عموم نہیں پایا جاتا۔ اسے ہم اہلِ زبان اور عرب والوں کے عرف کے فیصلہ پر چھوڑتے ہیں۔ وہ جو کہیں وہی ہم بھی کہتے ہیں۔ آپ خود حجت عرب میں اپنا جواب نہیں رکھتے ۔ آپ کی بات نہ رد کی جاسکتی ہے نہ آپ کے فیصلہ میں چون و چرا کی گنجائش ہے۔ آپ خود فرمائیں آپ کیا کہتے ہیں؟
آپ اپنی قوم ( عرب) کے متعلق فرمائیے کیا انھیں بھی اس کے عموم میں شک ہوا ؟ نہیں اور ہرگز نہیں۔ ناممکن ہے کہ آپ جیسا ماہر زبان اسم جنس مضاف کے عموم اور اپنے تمام مصادیق کو شامل ہونے میں شک کرے۔
اگر آپ مجھ سے فرمائیں کہ منحتکم انصافی۔ میں نے تمھیں انصاف بخشا۔ تو کیا آپ کا یہ اںصاف بعض  امور سے متعلق ہوگا اور بعض امور سے نہیں۔ ایک معاملہ میں میرے ساتھ انصاف کیجیے گا اور دوسرے معاملہ میں نا انصافی فرمائیے گا؟  یا انصاف عام اور اپنے تمام مصادیق کو شامل ہوگا۔ خدا نہ کرے کہ آپ اسے عام ہونے کے علاوہ اور کچھ سمجھیں اور سوائے استغراق کے کچھ سمجھ میں آئے ۔ فرض کیجیے کہ خلیفہ المسلمین اگر اپنے حاکم و افسر سے کہیں کہ میں نے لوگوں پر اپنی جگہ تمھیں بادشاہ بنایا مجھے جو منزلت حاصل ہوئی ہے وہ تمہاری منزلت قرار دی یا رعایا میں جو منصب میرا ہے وہ تمھارا منصب مقرر کیا ، یا میں نے اپنا ملک تمھارے حوالہ کیا تو کیا یہ سنکر عموم کے علاوہ اور کوئی چیز سمجھ میں آئے گی اور اگر دعوی کرنے والا تخصیص کا دعوی کرے یہ کہے کہ صرف بعض حالات میں معاملات میں اقتدار و اختیار دیا گیا ہے بعض میں نہیں تو کیا وہ شخص مخالف اور نافرمان نہ سمجھا جائے گا۔ اور اگر وہ اپنے کسی وزیر سے فرمائیں کہ میرے زمانہ سلطنت میں تمھاری وہی منزلت رہے گی جو عمر کی منزلت تھی ابوبکر کےزمانہ میں بجز اس کے کہ تم صحابی نہیں ہو تو یہ فقرہ بلحاظ عرف منازل و مراتب کےساتھ  مخصوص ہوگا یا عام سمجھا جائےگا۔ میرا تو یہی خیال ہے کہ آپ عام ہی سمجھیں گے اور مجھے  تو یقین ہے کہ آپ بھی اس حدیث میں عموم ہی کے قائل ہوں گے۔ جس طرح مذکورہ بالا مثالوں میں عرف و لغت کے قاعدہ پر سوائے عموم ماننے کےکوئی دوسری صورت نہیں۔
خصوصا استثنا نبوت کےبعد تو اور بھی عموم اچھی طرح واضح ہوجاتا ہےکیونکہ جب رسول نے صرف نبوت کو مستثنی کیا تو ثابت ہوا کہ سوائے درجہ نبوت کے اور جتنے منازل تھے جناب ہارون کے وہ سب حضرت علی(ع) کو حاصل ہوئے کوئی ایک نہیں چھوٹا۔ ورنہ رسول(ص) صرف نبوت ہی کو مستثنی نہ فرماتے بلکہ جہاں نبوت کو مستثنی کیا وہاں دوسری باتوں کا بھی استثنا فرماتے۔ آپ خود عرف ہیں۔ عربوں میں رہتے ہیں آپ خود سوچیے عربوں سے پوچھیے کہ انکا کیا فیصلہ ہےاس کےمتلعق ؟

 اس کا ثبوت کہ حدیث کسی مورد کے ساتھ مخصوص نہیں


مخالت کا یہ کہنا کہ یہ حدیث مورد کے ساتھ مخصوص ہے دو وجہوں سے غلط ہےپہلی وجہ یہ ہےکہ حدیث فی نفسہ عام ہے جیسا اوپر میں بیان کرچکا ہوں لہذا اس کا مورد اگر اسے ہم خاص تسلیم بھی کر لیں اس کو عام ہونے سے مانع نہیں ہوسکتا۔کیوںکہ مورد وارد کا مخصوص نہیں ہوا کرتا جیسا کہ طے شدہ مسئلہ ہے۔
دیکھیے اگر آپ کسی جنب شخص کو آیت الکرسی چھوتے  ہوئے دیکھیں۔ اور آپ اس سے کہیں کہ محدث ( جس میں جنب غیر جنب سب شامل ہیں) کو آیات قرآن چھونا جائز نہیں تو آپ کا یہ اشارہ مورد کے ساتھ مخصوص ہوگا یا آپ کا یہ کہنا عام ہوگا اور تمام آیات قرآن اور ہر محدث کو شامل ہوگا۔ خواہ وہ محدث جنب ہو یا غیر جنب ۔ آیت الکرسی کو چھوئے یا دیگر آیات کو۔ میں تو خیال نہیں کرتا کہ کوئی شخص بھی یہ کہے گا کہ یہ حکم صرف جنب کے ساتھ مختص ہے۔ہر محدث کو شامل نہیں اور صرف آیت الکرسی ہی چھونے کی ممانعت ہے دیگر آیات کی نہیں ۔ اگر معالج مریض کو کھجور کھاتے ہوئے دیکھے اور اسے میٹھا کھانے کو منع کرے تو کیا طبیب کی میٹھے سے ممانعت عرف عام میں مورد  کے ساتھ مخصوص سمجھی جائے گی۔ صرف کھجور سےممانعت سمجھی جائے گی یا یہ ممانعت عام ہوگی ۔ اور ہر میٹھے کو شامل ہوگی؟
میرا تو خیال یہ ہےکہ کوئی بھی اس کا قائل نہ ملے گا جو یہ کہے کہ یہ ممانعت مخصوص ہے مورد کے ساتھ، صرف کھجور سے مریض کو روکا گیا ہے یہ تو وہ ہی کہے گا جسے اصول سے کوئی لگاؤ نہ ہو۔ زبان کے قواعد سے بالکل بے بہرہ ہو۔ فہم عربی سے دور ہو اور ہم لوگوں کی دنیا سے اجنبی ہو۔ لہذا جس طرح ان مثالوں میں مورد کے خاص ہونے کی وجہ سے حکم خاص نہیں اسی طرح حدیثِ منزلت کا مورد اگر چہ خاص ہے یعنی آپ نے غزوہ تبوک میں جاتے وقت فرمایا ، لیکن حکم عام ہی ہے ۔ حدیث منزلت اور ان مثالوں میں کوئی فرق نہیں۔

اس قول کی تردید کہ یہ حدیث حجت نہیں


دوسری وجہ بطلان یہ ہے کہ یہ کہنا ہی غلط ہے کہ حدیث کا مورد خاص ہےکیونکہ رسول(ص) نے صرف غزوہ تبوک ہی کے موقع پر حضرت علی(ع) کو مدینہ میں اپنا جانشین بناتے ہوئے نہیں فرمایا کہ تمھیں مجھ سے وہی منزلت حاصل ہے جو موسی(ع) سے ہارون کو تھی تاکہ مخالف کا یہ کہنا صحیح ہوکہ صرف غزوہ تبوک ہی کے موقع پر حضرت علی(ع) کو منزلت ہارونی حاصل ہوئی اور آپ رسول(ص) کے جانشین ہوئے بلکہ آپ نے اس حدیث کو بارہا مختلف مواقع پر ارشاد فرمایا ہے چنانچہ ہمارے یہاں ائمہ طاہرین(ع) سے بکثرت صحیح اور متواتر احادیث مروی ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ رسول(ص) نے اور دوسرے مواقع پر بھی اس حدیث کو فرمایا ہے۔ تحقیق کے جویا ہماری کتابوں میں دیکھ سکتے ہیں۔ حضرات اہلسنت کے سنن بھی اس کے موئد و شاہد ہیں جیسا کہ ان کی تلاش و جستجو سے معلوم ہوسکتا ہے لہذا معترض کا یہ کہنا کہ سیاق حدیث دلیل ہے صرف اس کے غزوہ تبوک کے ساتھ مختص ہونے کی۔ بالکل ہی غلط اور نا قابل اعتنا ہے۔
رہ گیا یہ کہنا کہ وہ عام جن کی تخصیص کردی جائے وہ باقی میں حجت نہیں۔ بالکل مہمل لغو اور صریحی طور پر باطل ہے۔ اور خاص کر اس حدیث کے متعلق جو ہماری آپ کی موضوع بحث ہے ایسا خیال تو محض زبردستی ہے۔
                                ش

مکتوب نمبر۱۶
 حدیث منزلت و مقامات


آپ نے یہ تو فرمایا کہ رسول اﷲ(ص) نے صرف غزوہ تبوک ہی نہیں بلکہ اور بھی متعدد مواقع پر یہ حدیث ارشاد فرمائی لیکن آپ نے ان متعدد مواقع کی تصریح نہیں کی۔
بڑی عنایت ہوگی ان موارد کی بھی تفصیل فرمائیے۔ غزوہ تبوک کے علاوہ اور کب آںحضرت(ص) نے ایسا ارشاد فرمایا۔
                                    س

جوابِ مکتوب
من جملہ مقاماتِ حدیثِ منزلت ملاقاتِ ام سلیم ہے


ان مواقع میں سے ایک وہ موقع ہے جب آںحضرت صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم نے ام سلیم (18) سے فرمایا تھا ۔ ام سلیم سب سے پہلے اسلام لانے والوں میں سے تھیں۔ اور بڑی زیرک و دانا خاتون تھیں۔ سابقیت اسلام ، خلوص و خیر خواہی اور شدائد میں ثابت قدمی کی وجہ سے ان کی رسول(ص) کے نزدیک بڑی منزلت تھی۔ آںحضرت(ص) ان کی ملاقات کو جاتے ، ان کے گھر میں بیٹھ کر ان سے گفتگو کرتے۔ آپ نے ایک دن ان سے ارشاد فرمایا :
“ (19)اے ام سلیم! علی (ع) کا گوشت میرے گوشت سے ہے، ان کا خون میرے خون سے ہے اور انھیں وہی منزلت حاصل ہے جو موسی سے ہارون کو تھی۔  ”
یہ بالکل ظاہر ہے کہ رسول اﷲ (ص) نے یہ حدیث کسی خاص جذبہ کے ماتحت نہیں فرمائی بلکہ برجستہ طور پر سلسلہ کلام میں یہ جملے زبانِ مبارک سے ادا ہوئے جس سے مقصود صرف یہ تھا کہ میرے ولی عہد اور میرے جانشین کی منزلت سے لوگ آگاہ ہوجائیں۔ اتمام حجت ہوجائے۔ احکام الہی کے پہنچانے میں تاخیر نہ ہو۔ لہذا اس حدیث کو صرف غزوہ تبوک  کے موقع سے مخصوص کر دینا ، حضرت علی(ع) کو صرف غزوہ تبوک کے موقع پر جانشین رسولص) تسلیم کرنا صریحی ظلم ہے۔
اسی جیسی حدیث دختر حمزہ کے قضیہ میں بھی آںحضرت (ص) نے ارشاد فرمائی ۔ جبکہ حضرت امیرالمومنین(ع) جناب جعفر اور زید میں اختلاف پیدا ہوا۔  تو آںحضرت (ص) نے ارشاد فرمایا :
“(20) اے علی(ع) تم کو مجھ سے وہی منزلت حاصل ہے جو موسی(ع) سے ہارون کو تھی۔ ”
اسی طرح یہ حدیث اس دن آںحضرت(ص) نے ارشاد فرمائی جبکہ ابوبکر و عمر اور ابو عبیدہ بن الجراح رسول(ص) کی خدمت میں بیٹھے تھے اور رسول (ص) حضرت علی(ع) پر تکیہ کیے تھے۔ آںحضرت (ص) نے اپنا ہاتھ حضرت علی(ع) کے کاندھے پر رکھا اور ارشاد فرمایا :
“ (21)اے علی(ع) ! تم مومنین میں سب سے پہلے ایمان لانے والے ہو اور سب سے پہلے اسلام قبول کرنے والے ہو اور تم کو مجھ سے وہی نسبت حاصل ہے جو موسی(ع) سے ہارون کو تھی ۔”
پہلی مواخات جو ہجرت کے قبل مکہ میں صرف مہاجرین کے درمیان رسول(ص) نے قائم کی تھی۔ اس دن بھی رسول(ص) نے یہ حدیث ارشاد فرمائی۔
نیز دوسری مواخات جو مدینہ میں ہجرت کے پانچ مہینہ بعد رسول (ص) نے انصار و مہاجرین کے درمیان قائم کی دونوں موقعوں پر آپ نے حضرت علی(ع) کو اپنےلیے منتخب کیا اور اپنا بھائی بنا کر سب پر فوقیت بخشی اور ارشاد فرمایا کہ :
“   وَ أَنْتَ‌ مِنِّي‌ بِمَنْزِلَةِ هَارُونَ مِنْ مُوسَى إِلَّا أَنَّهُ لَا نَبِيَّ بَعْدِي ۔”
(22)“ تم میرے لیے ایسے ہو جیسے ہارون کے لیے موسی(ع) تھے سوائے اس کے کہ میرے بعد کوئی نبی نہ ہوگا ۔”
واقعہ مواخات کے متعلق بطریق ائم طاہرین(ع) ایک دو نہیں متواتر حدیثیں ہیں۔ ائمہ طاہرین(ع) کےعلاوہ غیروں کی روایتوں کو دیکھنا ہو تو پہلی مواخات کے متعلق صرف ایک زید بن ابی اوفی ہی کی حدیث کے لے لیجیے جسے امام احمد بن حنبل نے کتاب  مناقب علی(ع) میں، ابن عساکر نے اپنی تاریخ میں بغوی (23) و طبرانی نے اپنی معجم میں، بارودی نے اپنی کتاب معرفہ میں اور ابن عدی (24) و غیرہ نے  اپنی اپنی کتابوں میں درج کیا ہے۔
حدیث بہت طولانی ہے اور پوری کیفیت مواخات پر مشتمل ہے آخر کی عبارت یہ ہے کہ :
“ فَقَالَ قَالَ عَلِيٌّ لَقَدْ ذَهَبَ‌ رُوحِي‌ وَ انْقَطَعَ ظَهْرِي حِينَ رَأَيْتُكَ فَعَلْتَ بِأَصْحَابِكَ مَا فَعَلْتَ غَيْرِي فَإِنْ كَانَ هَذَا مِنْ سَخَطٍ عَلَيَّ فَلَكَ الْعُتْبَى وَ الْكَرَامَةُ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ص وَ الَّذِي بَعَثَنِي بِالْحَقِّ مَا اخْتَرْتُكَ إِلَّا لِنَفْسِي فَأَنْتَ مِنِّي بِمَنْزِلَةِ هَارُونَ مِنْ مُوسَى إِلَّا أَنَّهُ لَا نَبِيَّ بَعْدِي وَ أَنْتَ أَخِي وَ وَزِيرِي وَ وَارِثِي قَالَ قَالَ وَ مَا أَرِثُ مِنْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ مَا وَرَّثَ الْأَنْبِيَاءُ قَبْلَكَ كِتَابَ اللَّهِ وَ سُنَّةَ نَبِيِّهِمْ وَ أَنْتَ مَعِي فِي قَصْرِي فِي الْجَنَّةِ مَعَ ابْنَتِي فَاطِمَةَ وَ أَنْتَ أَخِي وَ رَفِيقِي ثُمَّ تَلَا رَسُولُ اللَّهِ ص‌ إِخْواناً عَلى‌ سُرُرٍ مُتَقابِلِينَ‌ الْمُتَحَابُّونَ فِي اللَّهِ يَنْظُرُ بَعْضُهُمْ إِلَى بَعْضٍ.”
“ امیر المومنین(ع) نے رسول اﷲ(ص) سے کہا : یا رسول اﷲ(ص) میری تو جان نکل گئی، کمر شکستہ ہوگئی ۔ یہ دیکھ کر کہ آپ نے اصحاب میں تو مواخات قائم کی، ایک کو دوسرے کا بھائی بنایا مگر مجھے چھوڑ دیا ۔ مجھے کسی کا بھائی نہ بنایا۔ اگر یہ کسی ناراضگی و خفگی کی وجہ سے ہے تو آپ مالک و مختار ہیں ۔ آپ ہی عفو فرمائیں گے او آپ ہی عزت بخشیں گے۔ رسول(ص) نے فرمایا : قسم ہے اس معبود کی جس نے  مجھے حق کے ساتھ مبعوث فرمایا میں نے تمھیں خاص اپنے لیے اٹھا رکھا ہے۔ تم میرے لیے ایسے ہی ہو جیسے موسی (ع) کے لیے ہارون تھے سوائے اس کے  کہ میرے بعد کوئی نبی نہ ہوگا۔ تم میرے بھائی ہو، میرے وارث ہو۔ امیرالمومنین(ع) فرماتے ہیں کہ میں نے پوچھا کہ میں آپ کا کس چیز کا وارث ہوں گا؟ آپ نے فرمایا : کہ اسی چیز کے جس کے انبیاء وارث ہوئے یعنی کتاب خدا، سنت نبی(ص)۔ اور تم میرے ساتھ جنت میرے قصر میں رہوگے۔ میری پارہ جگر فاطمہ(س) کے ساتھ ۔ تم میرے بھائی ہو، میرے رفیق کار ہو۔ پھر آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی: إِخْواناً عَلى‌ سُرُرٍ مُتَقابِلِينَ‌ ۔”
اور دوسرے مواخات کے سلسلہ میں صرف اسی ایک حدیث کو لے لیجیے جو طبرانی نے اپنی معجم کبیر میں ابن عباس سے روایت کی ہے :
(25)“ رسول اﷲ(ص) نے امیرالمومنین(ع) سے فرمایا کہ کیا تم ناراض ہوگئے کہ میں نے مہاجرین و اںصار کے درمیان تو مواخات کی اور تم کو ان میں سے کسی کا بھائی نہ بنایا۔ کیا تم یہ پسند نہیں کرتے کہ تم کو مجھ وہی نسبت حاصل ہے جو موسی(ع) سے ہارون کو تھی۔”  

ش

 

مکتوب نمبر۱۷


ہم آپ کے اس جملہ کا کہ رسول اﷲ (ص) علی(ع) و ہارون(ع) کو فرقدین ( دوستارے ہیں جو ایک ساتھ رہتے ہیں) سے تشبیہ دیتے تھے مطلب نہیں سمجھے۔
                                        س

جواب مکتوب


رسول اﷲ(ص) کی سیرت کا مطالعہ فرمائیے تو آپ کو نظر آئے گا کہ پیغمبر(ص) جناب ہارون(ع) اور امیرالمومنین(ع) کو آسمان کے فرقدین اور دونوں آنکھوں سے مثال دیا کرتے تھے۔ دونوں اپنی اپنی امت میں ایک جیسے تھے ۔ کسی کو کسی پر امتیارز نہیں حاصل تھا۔

یومِ شبر و شبیر و مبشر


ملاحظہ فرمائیے کہ رسول اﷲ(ص) نے علی(ع) کے جگر گوشوں کے نام ہارون کے فرزندوں کے نام جیسے رکھے۔ حسن(ع) و  حسین(ع) و محسن(ع) اور ارشاد فرمایا کہ :
“ میں نے یہ نام فرزندان ہارون شبر وشبیر و مبشر کے نام پر رکھے۔”
رسول اﷲ(ص) کا مقصد یہ تھا کہ دونوں ہارونوں میں مشہابت گہری ہو جائے اور وجہ مشابہت تمام حالات  ومنازل میں عام ہو کے رہے۔

یوم مواخات


محض اس وجہ سوے رسول(ص) نے علی(ع) کو اپنا بھائی بنایا اور دوسروں پر ترجیح دی۔ غرض یہ تھی کہ دونوں کو اپنے بھائی کے نزدیک جو منزلت حاصل ہے وہ بالکل ایک رہے دونوں کی منزلوں میں مشابہت پوری پوری ہوجائے اور یہ تمنا بھی تھی کہ دونوں کے درمیان کوئی بھی وجہ فرق نہ رہے۔ رسول(ص) نے اپنے اصحاب میں دو مرتبہ بھائی چارہ قائم کیا پہلی مرتبہ ابوبکر و عمر بھائی بھائی ہوئے۔ عثمان و عبدالرحمن بن عوف بھائی بھائی مقرر کیے گئے دوسری مرتبہ ابوبکر و خارجہ بن زید میں بھائی چارہ ہوا۔ عمرو عتبان بن مالک میں بھائی چارہ ہوا۔ لیکن امیرالمومنین(ع) دونوں مرتبہ رسول(ص) کے بھائی بنے۔
اس مسئلہ میں تو اتنے محکم نصوص صحیح طریقوں سے ابن عباس ، ابن عمر، زید بن ارقم، زید بن ابی اوفیٰ، انس بن مالک، حذیفہ بن یمان ، مخدوج بن یزید، عمر بن خطاب، براء بن عازب، علی بن ابی طالب(ع) سے وارد ہیں۔
کہ سب کو لکھنا مشکل ہے۔
پیغمبر(ص) نے امیرالمومنین(ع) سے فرمایا :
 “ «أَنْتَ‌ أَخِي‌ فِي الدُّنْيَا وَ الْآخِرَةِ».”
(26)“ تم دنیا و آخرت میں میرے بھائی ہو۔”
ابھی اوپر آپ یہ حدیث ملاحظہ فرماچکے ہیں:
 “ فأخذ برقبت علی و قال: انّ‌ هذا أخي‌ و وصيي‌ و خليفتي‌ فيكم فاسمعوا له و أطيعوا ”
“ پیغمبر(ص) نے علی(ع) کے سر پر ہاتھ رکھ فرمایا : یہ میرا بھائی ہے، میرا وصی ہے ۔ تم میں میرا جانشین ہے۔ اس کی بات سننا ، اس کی اطاعت کرنا۔”
ایک دن پیغمبر(ص) اصحاب کے پاس تشریف لائے ۔ آںحضرت کے چہرے کا رنگ کھلا ہوا تھا۔ عبدالرحمن بن عوف نے اس خوشی کی وجہ پوچھی  آپ نے فرمایا :
“ بِشَارَةٌ أَتَتْنِي مِنْ رَبِّي فی أَخِي وَ ابْنِ عَمِّي وَ ابْنَتِي بِأَنَّ اللَّهَ زَوَّجَ‌ عَلِيّاً بِفَاطِمَةَ ”
(27)“ میرے پرودگار کی جانب سے میرے بھائی میرے چچا کے بیٹے اور میری جگر پارہ فاطمہ(س) کے متعلق خوشخبری آئی ہے کہ خود خداوند عالم نے علی(ع) کا عقد فاطمہ(س) سے کردیا ۔”
جب جناب سیدہ امیرالمومنین(ع) کے گھر آئیں تو آںحضرت(ص) سے ام ایمن سے کہا کہ میرے بھائی کو بلاؤ
ام ایمن نے کہا کہ : علی(ع) آپ کے بھائی بھی ہیں اور آپ ان سے اپنی بیٹی بھی بیاہتے ہیں۔
آپ نے فرمایا: “ہاں اے ام ایمن ایسا ہی ہے۔”
ام ایمن ، امیرالمومنین(ع) کو بلا لائیں۔(28)”
نہ جانے کتنی مرتبہ آںحضرت(ص) نے امیرالمومنین(ع) کے بھائی ہونے کی طرف اشارہ فرمایا ۔ چنانچہ ارشاد فرمایا کہ:
         (29)“ یہ علی(ع) میرے بھائی ہیں۔ میرے چچا کے بیٹے ہیں، میرے داماد ہیں، میرے بچوں کے باپ ہیں ۔”
ایک مرتبہ امیر المومنین علیہ السلام سے دورانِ گفتگو فرمایا :
 “ أَنْتَ‌ أَخِي‌ وَ صَاحِبِي‌ ”
(30)“ تم میرے بھائی ہو میرے ساتھی ہو۔”
دوسری مرتبہ دورانِ گفتگو فرمایا :
“ أَنْتَ‌ أَخِي‌ وَ صَاحِبِي‌ وَ رَفِيقِي‌ فِي الْجنةِ.”
(31)“ تم میرے بھائی ہو میرے ساتھی ہو اور جنت میں میرے رفیق ہو۔”
ایک معاملہ میں جناب جعفر و زید اور امیرالمومنین(ع) کے درمیان اختلاف پیدا ہوا تو آپ نے امیرالمومنین(ع) سے خطاب کر کے فرمایا :
 “ و اما انت يا علی فاخی و ابو ولدی و منی الیَ۔”
(32)“ لیکن تم اے علی(ع) میرے بھائی ہو، میرے بچوں کے باپ ہو ، مجھ سے ہو اور مجھ تک ہو ۔”
ایک دن آپ نے امیرالمومنین(ع) سے فرمایا کہ :
        (33)“ تم میرے بھائی ہو، میرے وزیر ہو، تم ہی میرے دین ادا کرو گے۔ میرے کیے ہوئے وعدوں کو پورا کرو گے، مجھے فارغ الذمہ کروگے ۔”
جب آن حضرت(ص) کی وفات کا وقت قریب آیا تو آپ نے لوگون سے کہا کہ میرے بھائی کو بلاو۔(34)
 لوگوں نے امیرالمومنین(ع) کو بلایا۔ آپ نے امیرالمومنین(ع) سے فرمایا :
 “ میرے قریب آؤ۔”
امیرالمومنین(ع) قریب ہوئے ۔ رسول(ص) کا سر زانو پر رکھے رہے اور رسول(ص) آپ سے گفتگو کرتے رہے یہاں تک کہ آںحضرت(ص) کی روح نے جسم سے مفارقت کی اور آںحضرت(ص) نے فرمایا کہ جنت کے دروازے پر لکھاہوا ہے:
 “ لا إله إلّا اللّه، محمّد رسول اللّه، عليّ‌ أخو رسول‌ اللّه‌ ”
(35)“ کوئی معبود نہیں سوا اﷲ کے محمد(ص) خدا کے رسول ہیں اور علی(ع) رسول کے بھائی ہیں ۔”
شب ہجرت جب امیرالمومنین(ع) بستر رسول(ص) پر آرام فرمارہے تھے خداوندِ عالم نے جبریل و میکائیل پر وحی نازل فرمائی کہ میں نے تمھیں بھائی بھائی بنایا ہے اور تم میں سے ایک کی عمر دوسرے سے زیادہ طولانی کی ہے۔ تم میں سے کون اپنی زندگی دوسرے کو دینے پر آمادہ ہے۔ دونوں نے عذر کیا زندگی دینا گوارا نہ کیا۔ تو خداوند عالم نے وحی فرمائی کہ تم دونوں علی جیسے کیوں نہیں ہوجاتے۔ دیکھو میں نے علی(ع) و محمد(ص) کو ایک دوسرے کا بھائی بنایا اور علی(ع) بستر رسول(ص) پر سو کر اپنی جان فدا کررہے ہیں اور اپنی زندگی ہلاکت میں ڈال کر رسول(ص) کی زندگی کی حفاظت کررہے ہیں۔ تم دونوں زمین پر جاؤ اور علی(ع) کو ان کے دشمنوں سے بچاؤ۔
دونوں ملک اترے جبریل سرہانے ،م میکائیل پائینی کھرے ہوئے جبریل کہتے جاتے کہ :
“ مبارک ہو، مبارک ہو، کون آپ کا مثیل ہوسکے گا ۔ اے علی ابن ابی طالب(ع) ۔ اﷲ کے سبب ملائکہ  پر فخر و مباہات کررہا ہے۔”
اور اسی موقع پر خداوند عالم نے ی آیت نازل فرمائی کہ :
(36)“ لوگوں میں کچھ ایسے بھی بندے ہیں جو اپنے نفس کو راہ خدا میں بیچ ڈالتے ہیں ۔”
امیرالمومنین(ع) فرمایا کرتے :
(37)“ میں خدا کا بندہ ہوں، میں رسول(ص) کا بھائی ہوں۔ میں صدیق اکبر ہوں۔ میرے علاوہ ایسا کہنے والا جھوٹا ہے ۔”
امیرالمومنین(ع) نے فرمایا :
(38)“ قسم بخدا میں رسول(ص) کا بھائی ہوں، ان کا ولی عہد ہوں، فرزند عم ہوں، ان کے علوم کا وارث ہوں، مجھ سے زیادہ کون حقدار ہے اس کا ۔”
شوریٰ والے دن آپ نے عثمان و عبدالرحمن بن عوف، سعد اور زبیر سے خطاب کر کے فرمایا تھا کہ :
“ میں تمہیں خدا کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کیا تم میں میرے علاوہ کوئی ایسا ہے جسے رسول(ص) نے اپنا بھائی بنایا ہو۔ اس دن جس دن مسلمانون میں بھائی چارہ کیا تھا۔”
لوگوں نے کہا : نہیں، آپ کے علاوہ کوئی نہیں  ۔(39)
جنگ بدر میں جب امیرالمومنین(ع) ولید کےمقابلے کو نکلے تو اس نے پوچھا : کون ہو تم ؟
امیرالمومنین(ع) نے فرمایا :
(40)“ میں خدا کا بندہ ہوں، اس کے رسول(ص) کا بھائی ہوں ۔”
امیرالمومنین(ع) نے ایک دن عمر بن خطاب سے ان کے زمانہ خلافت میں پوچھا کہ :
    “ یہ فرمائیے(41)  اگر بنی اسرائیل کی کوئی قوم آپ کے پاس آئے اور ان میں کوئی شخص آپ سے کہے کہ میں موسی(ع) کے چچا کا فرزند ہوں، تو کیا آپ اسے اس کے ساتھیوں پر کچھ ترجیح دیں گے؟”
انھوں نے کہا : “ ہاں ” امیرالمومنین(ع) نے فرمایا :
“ تو سنیے میں خدا کی قسم ! رسول(ص) کا بھائی ہوں۔ ان کے چچا کا بیٹا ہوں۔”
حضرت عمر نے ردا کاندھے سے اتار کر بچھائی اور بولے:
“ خدا کی قسم ! آپ اس جگہ کے علاوہ اور کہیں نہیں بیٹھ سکتے جب تک ہم لوگ جدا نہ ہوں ۔”
امیرالمومنین(ع) اس ردا پر تشریف فرما ہوئے اور اس وقت تک کہ لوگ متفرق ہوئےعمر سامنے بیٹھے رہے۔ یہ رسول اﷲ(ص) کے بھائی اور فرزندِ عم ہونے کی تعظیم تھی ۔ سرجھکانا تھا۔

سد ابواب


میرا قلم کہاں سے کہاں بہک گیا ۔ ذکر اس کا تھا کہ رسول(ص) نے تمام صحابہ کے دروازے بند کرادیے اور حضرت علی(ع) کو دروازہ مسجد کی طرف کھلا چھوڑ دیا۔ صحابہ کے دروازے اس لیے بند کرادیے کہ مسجد کے اندر بحالت جنب جانا جائز نہیں ۔لیکن جس طرح ہارون کے لیے بحالت جنب ہوتے ہوئے بھی مسجد سے ہوکر گزرنا جائز تھا اسی طرح حضرت علی(ع) کے لیے بھی رسول(ص) نے جائز و مباح قرار دیا۔ لہذا یہ بھی ثبوت ہے کہ دونوں حضرات باکل ایک جیسے تھے اور ہر حیثیت اور ہر جہت سے ایک دوسرے کے نظیر تھے پوری پوری مشابہت تھی دونوں بزرگواروں میں۔ ابن عباس فرماتے ہیں :
(42)“ رسول اﷲ(ص) نے مسجد کی طرف کھلتے ہوئے سب کے دروازے بند کرادیے صرف حضرت علی(ع۹ کا دروازہ کھلا رکھا۔ حضرت علی(ع) حالت جنب میں بھی مسجد سے ہوکر گزرتے۔ کیونکہ وہی ایک راہ تھی کوئی دوسرا راستہ تھا ہی نہیں  ۔”
عمر بن خطاب سے ایک حدیث صحیح مروی ہے جو مسلم و بخاری کے معیار پر بھی صحیح ہے۔ وہ فرماتے ہیں:
(43)“ رسول(ص) نے علی(ع) کو تین چیزیں ایسی مرحمت فرمائیں کہ اگر ان میں سے ایک بھی مجھے ملی ہوتی تو سرخ اونٹوں کی قطار سے بڑھ کر ہوتی۔ ایک یہ کہ علی(ع) کی زوجہ فاطمہ(س) ایسی دختر رسول(ص) ہوئیں دوسرے مسجد میں رسول(ص) کے ساتھ ان کی سکونت اور رسول(ص) کے لیے جو امور مسجد میں جائز تھے ان کے لیے بھی مباح ہونا۔ تیسرے جنگ خیبر میں علم ملنا ۔”
ایک دن سعد بن مالک نے ایک حدیث صحیح بیان کی جس میں امیرالمومنین(ع) کی بعض خصوصیات کا ذکر تھا اسی میں فرماتے ہیں کہ :
(44)“ رسول اﷲ(ص) نے اپنی مسجد سے جہاں اور سب کو ہٹایا وہاں اپنے چچا عباس کو بھی۔ اس پر عباس نے کہا : کہ ہمیں تو آپ ہٹا رہے ہیں اور علی(ع) کو رہنے دیتے ہیں؟ رسول(ص) نے فرمایا : کہ میں نے اپنی طرف سے نہ سب کو ہٹایا نہ علی(ع) کو رکھا۔ بلکہ خدا نے ایسا کیا ہے ۔”
زید بن ارقم کہتے ہیں :
“ چند اصحاب کے دروازے مسجد کی طرف کھلتے تھے۔ رسول(ص) نے حکم دیا کہ تم سب اپنےاپنے دروازے بند کر دو۔ صرف علی(ع) کا دروازہ کھلا رہے۔ لوگوں نے اس پر چہ میگوئیاں شروع کیں تو رسول(ص) نے خطبہ ارشاد فرمایا :
بعد حمد و ثنائے الہی کے ارشاد ہوا کہ یہ دروازے بند کرا دوں اور علی(ع) کا دروازہ کھلا رہنے دوں۔ اس پر کچھ لوگوں کو اعتراض ہے حالانکہ قسم بخدا میں نے اپنی طرف سے لوگوں کے دروازے بند نہیں کیے اور نہ اپنی خواہش سے علی(ع) کا دروازہ کھلا رکھا ۔ مجھے حکم دیا گیا میں نے حکم کی پابندی کی ۔(45)”
طبرانی نے معجم کبیر میں ابن عباس سے روایتکی ہے، وہ کہتے ہیں کہ :
(46)“ رسول اﷲ(ص) اس دن کھڑے ہوئے اور ارشاد فرمایا کہ میں نے اپنی طرف سے تم لوگوں کو مسجد سے نہیں ہٹایا۔ نہ اپنے جی سے علی(ع) کو باقی رکھا۔ بلکہ خود خداوند عالم سے ایسا کیا ہے۔میں تو بندہ وہوں اور حکم کا تابع ، جو مجھے حکم دیا گیا وہ میں نے کیا۔ میں تو وحی ہی کی پابندی کرتا ہوں ۔”
رسول اﷲ(ص) نے ارشاد فرمایا کہ “ اے علی(ع) ! سوا میرے اور تمھارے کسی اور کے لیے جائز نہیں کہ حالتِ جنابت میں مسجد میں رہے ۔(47)”
سعد بن ابی وقاص ، براء بن عازب ، ابن عباس ، ابن عمر، حذیفہ بن اسید غفاری ان میں سے ہر ایک سے مروی ہے کہ :
(48)“ رسول اﷲ(ص) مسجد میں آئے اور ارشاد فرمایا : کہ خدا نے مجھ پر وحی نازل فرمائی ہے کہ میں طاہر مسجد بناؤں جس میں صرف میں اور میرے بھائی علی(ع) رہیں ۔”
اس مکتوب میں گنجائش ہی نہیں کہ ہم بکثرت ان صریحی و ثابت نصوص کو درج کریں جو اس باب میں ابن عباس ، ابو سعید خدری، زید بن ارقم، قبیلہ خثعم سے ایک صحابی پیغمبر(ص)، اسماء بنت عمیس ، ام سلمہ ، حذیفہ بن اسید، سعد بن ابی وقاص ، براء بن عازب، علی بن ابی طالب(ع)، عمر، عبداﷲ بن عمر، ابوذر، ابوالطفیل، بریدہ اسلمی ابی رافع غلامِ رسول اﷲ(ص)، اور جابر بن عبداﷲ ایسے کبار صحابہ میں سے ہرہر بزرگ سے مروی ہیں۔
رسول اﷲ (ص) کی مشہور دعاؤن میں یہ ہے آپ نے دعا فرمائی تھی :
(49)“ میرے معبود! میرے بھائی موسی(ع) نے تجھ سے سوال کیا تھا میرے سینہ کو کشادہ کردے اور میرے معاملہ کو سہل بنادے زبان کی گرہ کھول دیے کہ لوگ میری بات سمجھ سکیں اور میرے اہل سے ہارون میرے بھائی کو میرا وزیر بنا۔ ان کے ذریعہ میری کمر کو مضبوط کر اور انھیں میرا شریک کار بنا، تو تونے اے معبود! ان پر وحی نازل فرمائی کہ عنقریب میں تمھارے بھائی ہارون کے ذریعہ تمھارے بازوؤں کو قوی کردوں گا اور تم دونوں کے لیے غلبہ قرار دوں گا اے معبود! میں تیرا بندہ اور تیرا رسول محمد(ص) ہوں، میرے سینہ کو کشادہ کر میرے معاملہ کو آسان بنا اور میرے اہل سے علی(ع) میرے بھائی کو میرا وزیر قرار دے ۔”
اسی جیسی ایک حدیث بزار نے روایت کی ہے۔
(50)“ رسول اﷲ(ص) نے علی (ع) کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر ارشاد فرمایا کہ : موسی(ع) نے خدا سے سوال کیا تھا کہ ہارون کی مدد و معیت میں مسجد کو پاک بنائیں اور میں نے اپنے پروردگار سے سوال کیا ہے کہ تمھاری مدد اور تمھاری معیت میں مسجد کو پاکیزہ کروں۔ پھر آپ نے ابوبکر کو کہلا بھیجا کہ اپنا دروازہ بند کرو۔ اس پر انھوں نے “ انا ﷲ و انا الیه راجعون ” پڑھا اور کہا سمعا و طاعتا ۔ پھر عمر کو حکم دیا۔ پھر عباس کو ایسا ہی حکم فرمایا ۔ پھر ارشاد فرمایا : کہ میں نے اپنے جی سے تم لوگوں کے دروازے بند نہیں کرائے اور علی کا دروازہ کھلا نہیں چھوڑا بلکہ خدا نے ایسا کیا ہے ۔”
حضرت علی(ع) کے جناب ہارون سے تمام حالات اور جمیع منازل میں پورے پورے مشابہ ہونے کے لیے غالبا اتنی حدیثیں جو ذکر کی گئی کافی ہوں گی۔
                                ش
------------
1:-      ـ آپ اس سے پہلے صفحہ۱۹۴ پر ملاحظہ فرماچکے ہیں کہ علامہ ذہبی نے خود اس حدیث کی صحت کی تصریح کی ہے۔
2:-  ـ صواعق محرقہ، صفحہ۲۹۔
3:-  ـ صحیح مسلم، جلد۲، صفحہ ۳۲۴ باب فضائل علی(ع)
4:-  ـ امام حاکم نے بھی اس حدیث کو مستدرک جلد۲، صفحہ۱۰۹ پر درج کیا ہے۔ اور کہا ہے کہ یہ حدیث بخاری و مسلم کے شرائط کے معیار پر بھی صحیح اور علامہ ذہبی نےبھی تلخیص مستدرک میں اس حدیث کو درج کیا ہے اور اعتراف کیا ہے کہ یہ حدیث امام مسلم کے معیار پر صحیح ہے۔
5:-  ـ صواعق محرقہ باب ۱۱ صفحہ ۱۰۷
 6:- ـ علامہ ابن حجر فرماتے ہیں کہ بعض لوگوں نے یہ بھی لکھا ہے کہ معاویہ نے اس شخص سے یہ بھی کہا کہ کہاں سے چلے جاؤ۔ خدا تمھارے پیروں کو استوار نہ کرے اور اس شخص کا نام دفتر سے کاٹ دیا اور بھی بہت سی باتیں علامہ ابن حجر نے صواعق محرقہ صفحہ۱۰۷ پر نقل کی ہیں جس سے پتہ چلتا ہے کہ علامہ احمد بن حنبل کے علاوہ محدثین کی ایک اچھی خاصی جماعت نے بسلسلہ اسناد معاویہ سے اس حدیث کی روایت کی ہے۔ امام احمد ہی تنہا معاویہ سے روایت کرنے والے نہیں۔
 7:- ـ جلد ۳ ص۵۸
  8:-ـ جلد ۲ ص۳۲۳
 9:- ـ جلد اول ص۲۸، جلد ۳ ص۱۰۹ اس کے علاوہ اور بھی مقامات پر امام مذکور نے اس حدیث کو ذکر کیا ہے جیسا کہ چھان بین کرنے سے معلوم ہوتا ہے۔
 10:- ـ مسند احمد جلد اول ص۱۷۳، ص۱۷۵، ۱۷۷، ۱۷۹، ۱۸۲، ۱۸۵۔
  11:-ـ مسند ج ۱، ص۲۳۱۔
  12:-ـ مسند ج ۶ ، ص۴۶۹، ص۴۳۸
  13:-ـ مسند ج۳، ص۳۲
 14:- ـ جیسا کہ ہم نے اس کتاب کے شروع میں صواعق محرقہ باب ۱۱ ص ۱۰۸ سے نقل کیا ہے۔
 15:- ـ صواعق محرقہ باب۹ سیوطی نے تاریخ الخلفاء میں بسلسلہ حالات امیرالمومنین(ع) نقل کیا ہے کہ طبرانی نے اس حدیث کو ان تمام اشخاص سے نقل کیا ہے سیوطی نے ایک نام اسماء بنت عمیس اور زیادہ کرے کے لکھا ہے۔
  16:-ـ تاریخ الخلفاء ص۶۵ حالات امیرالمومنین(ع)۔
  18:-ـ کنز العمال جلد۶ ص۱۵۲، کی حدیث ۲۵۰۴۔
19:-  ـ  یہ ملحان بن خالد انصاری کی بیٹی اور حرام بن ملحان کی بہن تھیں۔ ان کے باپ اور بھائی دونوں رسول اﷲ(ص) کی حمایت میں لڑتے ہوئے شہید ہوئے۔ یہ بڑی صاحب ِ فضیلت اور زیرک و دانا خاتون تھیں۔ رسول اﷲ(ص) سے بہت سی حدیثیں روایت کی ہیں اور ان سے انس ابن عباس، زید بن ثابت ، ابو سلمہ بن عبدالرحمن اور دوسرے لوگون نے حدیثیں روایت کی ہیں اور سابقین میں ان کا شمار ہے۔ اسلام کی طرف دعوت دینے والو میں سے ایک یہ بھی تھیں۔ زمانہ جاہلیت میں مالک بن نضر کی زوجیت میں تھیں۔ مالک سے انس بن مالک پیدا ہوئے۔ جب اسلام آیا تو انھوں نے سبقت کی۔ اسلام قبول کیا اور اپنےشوہر سے بھی کہا لیکن اس نے اسلام لانے سے انکار کیا تو انھوں نے قطع  تعلق کرلیا۔ شوہر غضبناک ہو کر شام کی طرف چلا گیا اور وہیں بحالت کفر مرگیا انھوں نے اپنے  بیٹے انس کو جب کہ وہ صرف دس سال کے تھے رسول اﷲ(ص) کی خدمت گزاری پر مائل کیا رسول (ص) نے بھی ان کے خیال سےقبول کیا۔ اسی وجہ سے انس کہا کرتے تھے کہ خدا جزائے خیر دے میری والدہ کو انھوں نے میری اچھی سرپرستی کی ، انھیں کے ہاتھوں ابو طلحہ اںصاری اسلام لائے ابو طلحہ نے جب کہ اسلام نہ لائے تھے ان سے شادی کی خواہش کی انھوں نے مسلمان ہونے کی شرط لگائی۔ ابو طلحہ نے اسلام قبول کیا اور ان کا اسلام لانا ہی مہر ہوا۔ یہ ام سلیم آںحضرت(ص) کے ساتھ جنگ میں شریک ہوئی تھیں جنگ احد میں ان کے ہاتھ میں خنجر تھا کہ جو کہ مشرک ان کے پاس آئے اس سے ہلاک کردیں۔ تاریخ اسلام میں تمام عورتوں سے زیادہ اسلام کی خڈمت گزار حامی محافظ مشکلات میں ثابت قدم یہی خاتون تھیں انھیں کو بس یہ شرف حاصل تھا کہ رسول(ص) ان سے ملنے ان کے گھر جاتے ۔ یہ معظمہ اہل بیت کی معرفت رکھنے والی اور ان کے حقوق کو پہچاننے والی خاتون تھیں۔
20:-  ـ ام سلیم کی یہ حدیث کنزالعمال جلد ۶ صفحہ۱۵۴ میں موجود ہے بلکہ منتخب کنزالعمال میں بھی مذکور ہے۔ چنانچہ مسند احمد بن حنبل جلد۵ صفحہ ۳۱ کے حاشیہ کی آخری سطر ملاحظہ ہو۔ بعینہ انھیں الفاظ میں یہ حدیث موجود ہے۔
21:-  ـ خصائص علویہ امام نسائی صفحہ۱۹۔
22:-  ـ حسن بن بدر حاکم نے باب کنیت میں اور شیرازی نے باب الالقاب میں لکھا ہے ۔ ابن نجار نے بھی ذکر کیاہے اور کنزالعمال جلد۶ کے ایک ہی صفحہ ۳۹۵ پر دو جگہ موجود ہے۔ حدیث ۶۰۲۹، ۶۰۳۲۔
23:-  ـ علامہ بن عبدالبر نے استیعاب میں بسلسلہ حالات امیرالمومنین(ع) لکھا ہے کہ رسول(ص) نے مہاجرین میں مواخات قرار دی پھر دوبارہ مہاجرین و انصار میں مواخات فرمائی اور دونوں موقعوں پر امیرالمومنین(ع) سے فرمایا کہ تم دنیا و آخرت میں میرے بھائی ہو۔ ابن عبدالبر کہتے کہ رسول(ص) نے اپنے اور علی(ع) کے درمیان مواخات فرمائی۔ پوری تفصیل کتب سرو اخبار میں موجود ہے۔ سیرہ حلبیہ جلد دوم ص۲۶ پر مواخات اول کی تفصیل ملاحظہ فرمائیے اور مواخات ثانیہ کی تفصیل بھی اسی سیرة حلبیہ ج۲ کے ص۱۲۰ پر موجود ہے۔ آپ کو نظر یہ آئے گا کہ سول اﷲ(ص) نے دونوں موقعوں پر علی(ع) کو اپنا بھائی بنا کر سب پر فضیلت عطا کی۔ سیرہ و حلانیہ مین بھی مواخات اولی و ثانیہ کی تفصیل وہی ہے جو سیرہ حلبیہ میں ہے۔ انھوں نے تصریح کی ہے کہ دوسری مواخات ہجرت کے پانچ ماہ بعد ہوئی۔
24:-  ـ امام احمد و ابن عساکر سے بکثرت معتبر وموثق علماء نے نقل کیا ہے من جملہ ان کے علامہ متقی ہندی بھی ہیں۔ انھوں نے کنزالعمال میں دو جگہ یہ حدیث درج کی ہے ایک کنزالعمال جلد۵ ص۴۰ پر پھر جلد۶ ص۳۹۰ پر باب مناقب علی (ع) میں امام احمد سے نقل کر کے لکھا ہے۔
25:-  ـ ان تمام ائمہ اہل سنت سے ایک جماعت ثقات نے یہ حدیث نقل کی ہے ۔ منجملہ ان کے ایک علامہ متقی ہندی ملاحظہ ہو کنزالعمال جلد۵ صٰفحہ۴۱ حدیث ۹۱۹۔
26:-  ـ ملاحظہ ہو کنزالعمال بر حاشیہ مسند احمد بن حنبل جلد۵ ص۳۱ پیغمبر(ص) کے اس فقرہ میں کہ “ کیا تم مجھ سے ناراض ہوگئے؟” جو پیار و محبت ، دلدہی اور پدرانہ شفقت و ناز برداری مترشح ہے وہ مخفی نہیں۔ اگر آپ فرمائیں کہ جب پہلی مرتبہ رسول (ص) علی(ع) کو اپنے لیے مخصوص کرچکے تھے تو دوسری مواخات کے موقع پر تمام اصحاب میں مواخات کرنے اور علی(ع) کو کسی کا بھائی نہ جانے سے علی(ع) کو تردد اور شک و شبہ نہ کرنا چاہیے تھا۔ اس مرتبہ ان کو مطمئن رہنا چاہیے تھا کہ جس طرح رسول(ص) نےپہلی مرتبہ تجھے اپنے لیے مخصوص کر رکھا اس مرتبہ بھی رسول(ص) کا ایسا ہی ارادہ ہے۔ آخر حضرت علی(ع) کو شبہ کیوں ہوا؟ اور آپ نے دوسری مواخات کو بھی پہلی مواخات پر قیاس کیوں نہ کیا۔ تو میں عرض کروں گا۔ دوسری مواخات کو پہلی مواخات پر قیاس کیا ہی نہ جاسکتا تھا اس لیے کہ پہلی مواخات خاص کر مہاجرین کے درمیان ہوئی تھی بر خلاف دوسری مواخات کے کہ وہ مہاجرین و اںصار کے درمیان ہوئی تھی ۔ دوسری مواخات  میں مہاجر کا بھائی اںصاری کو بنایا گیا تھا اور انصاری کا بھائی مہاجر کو۔ اس مرتبہ چونکہ پیغمبر(ص) اور علی(ع) دونوں کے دونوں مہاجر تھے لہذا قیاس یہ کہتا ہے کہ اب کی مرتبہ دونوں بھائی بھائی نہ ہوں گے۔ لہذا حضرت علی(ع) نے دوسرے لوگوں کے دیکھتے ہوئے قیاس کیا ک اب کی مرتبہ میرا بھائی کوئی اںصاری ہی ہوگا جس طرح ہر مہاجر کا بھائی انصاری مقرر کیا گیا ہے۔ اور جب رسول(ص) نے کسی اںصاری کو کو علی(ع) کا بھائی نہ بنایا تو علی(ع) کو اضطراب ہوا مگر خدا و رسول(ص) دونوں اس مرتبہ حضرت علی(ع) کو ہر ایک پر فضیلت ہی دینا چاہتے تھے اور قیاس کے برخلاف اس مرتبہ بھی رسول(ص) نے اپنا بھائی علی(ع) ہی کو بنایا۔
27:-  ـ امام حاکم نے مستدرک ج۳ س۱۴ پر دو صحیح طریقوں سے جو شیخین بخاری ومسلم کے معیار پر صحیح ہے درج کیا ہے۔ علامہ زہبی نے تلخیص مستدرک میں اس کی صحت کو تسلیم کرتے ہوئے لکھا ہے۔ علامہ ابن حجر مکی نے صواعق محرقہ صفحہ۷۳ پر ترمذی سے نقل کیا ہے۔ اہل سیر و اخبار میں سے جس نے واقعہ مواخات کا ذکر کیا ہے ؟؟؟ نے بطور مسلمات ذکر کیا ہے۔
28:-  ـ ابوبکر خوارزمی نے اس کی روایت کی ہے۔ ملاحظہ ہو صواعق محرقہ ص۱۰۳۔
29:-  ـ مستدرک ج۳ ، ص۱۵۹ علامہ ذہبی نے بھی تلخیص مستدرک میں اس حدیث کی صحت کو تسلیم کرتے ہوئے لکھا ہے ۔ علامہ ابن حجر نے صواعق باب ۱۱ میں نقل کیا ہے۔ ان کے علاوہ جس جس نے جناب سیدہ کی شادی کا تذکرہ کیا ہے ہر ایک نے اس حدیث کو بھی ضرور ذکر کیا ہے۔
30:-  ـ شیرازی نے کتاب الالقاب میں اس کی روایت کی ہے۔ ابن نجار نے ابن عمر سے اس کی روایت کی ہے اور علامہ متقی ہندی نے کنزالعمال نیز منتخب کنزالعمال بر حاشیہ مسند احمد جلد۵ ص۳۴ پر نقل کیا ہے۔
31:-  ـ ابن عبدالبر نے استیعاب میں بسلسلہ حالات امیرالمومنین(ع) بسلسلہ اسناد ابن عباس اس حدیث کی روایت کی ہے۔
32:-  ـ خطیب نے اس حدیث کی روایت کی ہے کنزالعمال جلد۶ ص۴۰۲ پر نمبر۶۱۰۵ یہی حدیث ہے۔
33:-  ـ امام حاکم نے مستدرک جلد۳ ص۲۱۴ پر یہ حدیث نقل کی جو امام مسلم کی شرائط صحت پر صحیح ہے۔
34:-  ـ طبرانی نے معجم کبیر میں ابن عمر سے اس حدیث کی روایت کی ہے اور علامہ متقی ہندی نے کنزالعمال نیز منتخب کنزالعمال میں اسے نقل کیا ہے۔ ملاحظہ ہو حاشیہ مسند احمد حنبل جلد۵ ص۳۴۔
34:-  ـ طبقات بن سعد جلد۲ قسم ثانی اور کنزالعمال جلد۴ ص۵۵۔
35:-  ـ طبرانی نے اس حدیث کو اوسط میں خطیب نے کتاب المتفق والمفترق میں لکھا ہے اور علامہ متقی ہندی نے کنزالعمال و منتخب کنزالعمال میں نقل کیا ہے۔ ملاحظہ ہو حاشیہ مسند احمد حنبل جلد۵ ص۳۵۔
36:-  ـ اصحاب سنن نے اپنے اپنے مسانید میں اس حدیث کو درج کیا ہے نیز امام فخرالدین رازی نے اس آیت کی تفسیر کے ذیل میں ذکر کیا ہے ملاحظہ ہو تفسیر کبیر ج۲ صفحہ ۱۷۹ تفسیر سورہ بقرہ نیز ملاحظہ ہو اسد الغابہ جلد۴ ص۲۵۔
37:-  ـ امام نسائی نے خصائص علویہ میں امام حاکم نے مستدرک جلد۳ ص۱۱۲ کے شروع میں ابن ابی شیبہ و ابن عاصم نے السنہ میں درج کیا ہے اور علامہ متقی ہندی نے کنزالعمال و منتخب کنزالعمال میں نقل کیا ہے۔ ملاحظہ ہو منتخب کنزالعمال بر حاشیہ مسند احمد بن حںبل جلد۵ ص۴۰۔
38:-  ـ ملاحظہ فرمائیے مستدرک جلد۳ ص۱۲۶ علامہ ذہبی نے بھی تلخیص مستدرک میں اس حدیث کی صحت کا اعتراف کرتے ہوئے لکھا ہے۔
39:-  ـ علامہ ابن عبدالبر نے بسلسلہ حالات امیرالمومنین(ع) استیعاب میں اس حدیث کی روایت کی ہے اور بھی اکثر علمائے اعلام نے لکھا ہے۔
40:-  ـ ابن سعد نے اپنی کتاب طبقات جلد۲ قسم اول ص۱۵ بسلسلہ تذکرہ غزوہ بدر ذکر کیا ہے۔
41:-  ـ دار قطنی نے اس کی روایت کی ہے ملاحظہ ہو صواعق محرقہ باب ۱۱ ص۱۰۷۔
42:- ـ یہ بہت طولانی حدیث ہے جس میں امیرالمومنین(ع) کی دس(۱۰) خصوصیات مذکور ہیں پوری حدیث بر صفحہ ۱۹۳ تا صفحہ۱۹۹ بیان کی جاچکی ہے۔
43:-  ـ مستدرک جلد۳ ص۱۲۵ نیز ابو یعلیٰ نے بھی اس حدیث کی روایت کی ہے ملاحظہ ہو صواعق محرقہ فصل ۲ باب۹ ص۷۶ تقریبا انھیں الفاظ و معنی میں امام احمد بن حنبل نے عبداﷲ بن عمر کی حدیث میں ذکر کیا ہے۔ ملاحظہ ہو مسند ج۲ ص ۲۹ حضرت عمر اور عبداﷲ بن عمر دونوں میں سے ہر ایک سے کئی اشخاص نے  مختلف اسناد سے اس حدیث کی روایت کی ہے۔
44:-  ـ مستدرک ج۳ ،ص۱۱۷ یہ حدیث صحاح سنن سے ہے اور متعدد و ثقات و اعلام اہلسنت نے اس حدیث کی روایت کی ہے۔
45:-  ـ مسند احمد بن حنبل جلد۴ صفحہ ۳۶۹ و کنزالعمال بر حاشیہ مسند جلد۵ ، صفحہ ۲۹۔
46:-  ـ منتخب کنزالعمال بر حاشیہ مسند جلد۵ صفحہ۲۹۔
47:-  ـ ترمذی نے اس حدیث کو اپنے صحیح میں روایت کیا اور ان سے متقی ہندی نے کنزالعمال ، منتخب کنزالعمال برحاشیہ مسند جلد۵ صفحہ۲۹ پر نقل کیا ہے۔ بزاز نے اس حدیث کو سعد سے روایت کیا ہے۔ ملاحظہ ہو صواعق محرقہ باب ۹ فصل ۲ صفحہ ۷۳۔
 48:- ـ ان سب سے روایت کرکے محمد خطیب ، فقیہہ شافعی معروف بہ ابن مغازلی نے اپنی کتاب مناقب میں مختلف واسطوں سے لکھا ہے اور علامہ بلخی نے ینابیع المودة باب ۱۷ میں نقل کیا ہے۔
  49:-ـ امام ابو اسحاق ثعلبی نے بسلسلہ تفسیر آیہ انما ولیکم جناب ابوذر غفاری سے اپنی تفسیر کبیر میں روایت کی ہے اور صاحب ینابیع المودة نے مسند احمد سے نقل کیا ہے۔
50:-  ـ کنزالعمال جلد۶ صفحہ۴۰۸ حدیث ۶۱۵۶۔


source : alhassanain
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

ميري اہل بيت ميں حسن و حسين (ع) سے سب سے زيادہ محبت ...
رجعت امام حسین علیہ السلام، قرآن و حدیث کی روشنی ...
مصحف امام علی علیه السلام کی حقیقت
غدیر عدالت علوی کی ابتدا
( دوسرا حصہ ) حضرت امام محمد مہدی علیہ السلام
نبوت پرامامت کی برتری کا معیار
امام حسن مجتبی (ع) کی شہادت کے بعد اسلامی معاشرے ...
امام موسیٰ کاظم کی ماں حضرت حمیدہ
امام کاظم علیہ السلام کی مجاہدانہ زندگی کے ...
تسبیح حضرت فاطمہ زھراء سلام اللہ علیہا

 
user comment