آپ پانچویں برس میں تھے جب آپ کے والد بزرگوار امام رضا(ع) سلطنت عباسیہ کے ولی عہد ہو گئے اس کے معنی یہ ہیں کہ سن تمیز پر پہنچنے کے بعد ہی آپ نے آنکھ کھول کر وہ ماحول دیکھا جس میں اگر چاہا جاتا تو عیش و آرام میں کوئی کمی نہ رہتی مال و دولت قدموں سے لگا ہوا تھا اور تزک و احتشام آنکھوں کے سامنے تھا پھر باپ سے جدائی بھی تھی کیونکہ امام رضا(ع) خراسان میں تھے اور متعلقین تمام مدینہ منورہ میں تھے۔ اور پھر آپ کو آٹھواں ہی برس تھا کہ امام رضا(ع) نے دنیا ہی سے مفارقت فرمائی۔
سیرت امام محمد تقی(ع)
آپ پانچویں برس میں تھے جب آپ کے والد بزرگوار امام رضا(ع) سلطنت عباسیہ کے ولی عہد ہو گئے اس کے معنی یہ ہیں کہ سن تمیز پر پہنچنے کے بعد ہی آپ نے آنکھ کھول کر وہ ماحول دیکھا جس میں اگر چاہا جاتا تو عیش و آرام میں کوئی کمی نہ رہتی مال و دولت قدموں سے لگا ہوا تھا اور تزک و احتشام آنکھوں کے سامنے تھا پھر باپ سے جدائی بھی تھی کیونکہ امام رضا(ع) خراسان میں تھے اور متعلقین تمام مدینہ منورہ میں تھے۔ اور پھر آپ کو آٹھواں ہی برس تھا کہ امام رضا(ع) نے دنیا ہی سے مفارقت فرمائی۔
یہ وہ منزل ہے کہ جہاں ہمارے تاریخی کارخانہ تحلیل و توجیہہ کی تمام دوربینیں بیکار ہو جاتی ہیں۔ کسی دینوی مکتب اور درسگاہ میں تو نہ ان کے آباؤاجداد کبھی گئے نہ یہ جاتے نظر آتے ہیں۔ ہاں ایک معصوم کے لئے معصوم بزرگوں کی تعلیم و تربیت ناقابل انکار ہے مگر یہاں معصوم باپ سے چار پانچ برس کی عمر میں جدائی ہو گئی۔ ایک توارثِ صفات رہ جاتا ہے مگر ہر ایک جانتا ہے کہ اس سے صلاحیت کا حصول ہوتا ہے۔ فعلیت کے لئے پھر اسباب ظاہری کی ضرورت ہے۔ مگر یہ تاریخی واقعہ ہے کہ امام محمد تقی(ع) نے بچپن کی جتنی منزلیں اس کے بعد طے کیں وہ ابھی شباب کی سرحد تک بھی نہ تھیں کہ آپ کی سیرت بلند کی مثالیں اور علمی کمال کی تجلیاں دنیا کی آنکھوں کے سامنے آگئیں۔ یہاں تک کہ امام رضا(ع) کی وفات کے بعد ہی شاہی دربار میں اکابر علمائے وقت سے مباحثہ ہوا تو سب کو آپ کی عظمت کے سامنے سر تسلیم خم کرنا پڑا۔
اب یہ واقعہ کوئی صرف اعتقادی چیز بھی نہیں ہے بلکہ مسلم الثبوت طور پر تاریخ کا ایک جز ہے یہاں تک کہ اس مناظرہ کے بعد اسی محفل میں مامون نے اپنی لڑکی ام الفضل کو آپ کے حبالہ عقد میں دیا۔
یہ سیاست مملکت کا ایک نئی قسم کا سنہرا جال تھا جس میں امام محمد تقی(ع) کی کمسنی کو دیکھتے ہوئے خلیفہ وقت کو کامیابی کی پوری توقع ہو سکتی تھی۔
جیسا کہ میں نے اپنے رسالہ ”نویں امام“ (شائع کردہ امامیہ مشن) میں لکھا ہے۔
”بنی امیہ کے بادشاہوں کو آلِ رسول کی ذات سے اتنا اختلاف نہ تھا جتنا ان کے صفات سے۔ وہ ہمیشہ اس کے درپے رہتے تھے کہ بلندی اخلاق اور معراج انسانیت کا وہ مرکز جو مدینہ میں قائم ہے اور جو سلطنت کے مادی اقتدار کے مقابلہ میں ایک مثالی روحانیت کا مرکز بنا ہوا ہے یہ کسی طرح ٹوٹ جائے اسی کے لئے وہ گھبرا گھبرا کر مختلف تدبیریں کرتے تھے۔ امام حسین(ع) سے بیعت طلب کرنا اسی کی ایک شکل تھی اور پھر امام رضا(ع) کو ولی عہد بنانا اسی کا دوسرا طریقہ۔
فقط ظاہری شکل میں ایک کا انداز معاندانہ اور دوسرے کا طریقہ ارادت مندی کے روپ میں تھا مگر اصل حقیقت دونوں باتوں کی ایک تھی۔ جس طرح امام حسین(ع) نے بعیت نہ کی تو وہ شہید کر ڈالے گئے اسی طرح امام رضا(ع) ولی عہد ہونے کے باوجود حکومت کے مادی مقاصد کے ساتھ نہ چل سکے تو آپ کی شمع حیات کو زہر کے ذریعہ سے ہمیشہ کے لئے خاموش کردیا گیا۔
اب مامون کے نقطہٴ نظر سے یہ موقع انتہائی قیمتی تھا کہ امام رضا(ع) کا جانشین آٹھ نو برس کا ایک بچہ ہے جو تین چاربرس پہلے ہی باپ سے چھڑا لیا جا چکا تھا۔ حکومت وقت کی سیاسی سوجھ بوجھ کہہ رہی تھی کہ اس بچے کو اپنے طریقہ پر لانا نہایت آسان ہے اور اس کے بعد وہ مرکز جو حکومت وقت کے خلاف ساکن اور خاموش مگر انتہائی خطرناک، قائم ہے ہمیشہ کے لئے ختم ہو جائے گا۔
مامون امام رضا(ع) کی ولی عہدی کی مہم میں اپنی ناکامی کومایوسی کا سبب تصور نہیں کرتا تھا اس لئے کہ امام رضا(ع) کی زندگی ایک اصول پر قائم رہ چکی تھی اس میں تبدیلی نہیں ہوئی تو یہ ضروری نہیں کہ امام محمد تقی(ع) آٹھ برس کے سن میں خاندان شہنشاہی کا جز بنا لئے جائیں تو وہ بھی بالکل اپنے بزرگوں کے اصول زندگی پر برقرار رہیں۔
سوا ان لوگوں کے جو ان مخصوص افراد کے خداداد کمالات کو جانتے تھے اس وقت کا ہر شخص یقیناً مامون کا ہم خیال ہو گا۔ مگر حضرت امام محمد تقی(ع) نے اپے کردار سے ثابت کر دیا کہ جو ہستیاں عا م جذبات کی سطح سے بالاتر ہیں اور یہ بھی اسی قدرتی سانچے میں ڈھلے ہوئے ہیں جن کے افراد ہمیشہ معراج انسانیت کی نشاندہی کرتے آئے ہیں آپ نے شادی کے بعد محل شاہی میں قیام سے انکار فرمایا اور بغداد میں جب تک قیام رہا آپ ایک علیحدہ مکان کرایہ پر لے کر اس میں قیام پذیر ہوئے او رپھر ایک سال کے بعد ہی مامون سے حجاز واپس لے جانے کی اجازت لے لی۔ اور مع ام الفضل کے مدینہ تشریف لے گئے اور اس کے بعد حضرت کا کاشانہ گھرکی ملکہ کے دینوی شاہزادی ہونے کے باوجود بیت الشرف امامت ہی رہا۔ قصر دنیا نہ بن سکا۔ ڈیوڑھی کا وہی انداز رہا جو اس کے پہلے تھا۔ نہ پہرے دار اورنہ کوئی خاص روک ٹوک۔ نہ تزک نہ احتشام۔ نہ اوقات ملاقات کی حدبندی۔ نہ ملاقاتیوں کے ساتھ برتاؤ میں کوئی فرق۔ زیادہ تر نشست مسجد نبوی میں رہتی تھی جہاں مسلمان حضرت کے وعظ و نصیحت سے فائدہ اٹھاتے تھے۔ راویان حدیث احادیت دریافت کرتے تھے۔ طلاب علم مسائل پوچھتے تھے اور علمی مشکلات کو حل کرتے تھے۔ چنانچہ شاہی سیاست کی شکست کا نتیجہ یہ تھا کہ آخر آپ کا بھی زہر سے اسی طرح خاتمہ کیا گیا جس طرح آپ کے بزرگوں کا اس سے پہلے کیا جاتا رہا تھا۔
source : http://www.alhassanain.com