اھل حق کا اتحاد وقت کی ضرورت بھی ھے اور مجبوری بھی ، اگر انھوں نے اتحاد نہ کیا تو اھل باطل انھیں ایک ایک
کرکے ختم کر ڈالیں گے ، کبھی ایک جماعت پر ھاتھ ڈالا جائے گا کبھی دوسری پر ، کبھی ایک مدرسے کو طوق سلاسل
میں جکڑا جائے گا اور کبھی دوسرے کو ، کبھی ایک ملک پر آتش وآھن کی بارش ھوگی اور کبھی دوسرے پر ، اتحاد واتفاق
وقت کی مجبوری ہی نھیں بلکہ اسلام کا دائمی حکم ہے ، اسلام نے اتحاد کی تعلیم دی ہے اور اختلاف سے بھی بچنے کی
تلقین کی ہے ۔ اتحاد طاقت کا راز ہے اور اختلاف کمزوری کا سبب ہے ، اتحاد سے شجاعت ، ایثاراور محبت واخوت
جیسے جذبات پیدا ھوتے ھیں اور اختلاف سے بزدلی ، خود غرضی ، منافقت اور عداوت جیسی بیماریاں جنم لیتی ھیں
مگر یہ بات ابتداء میں ہی جان لیجیئے کہ ہر اختلاف مذموم نھیں ، اگر اختلاف حدود کے دائرہ میں ھو ، تو نہ صرف اس
کی اجازت ھے بلکہ وہ امت کیلئے رحمت ھے ۔ خود انبیاء کرام علیھم الصلاۃ والسلام کا یھ حال ھے کہ وہ اصول پر تو
متحد ھیں مگر فروع میں ان کے درمیان بھی اختلاف رھا ھے ، حضرت داؤد اور حضرت سلیمان علیھما السلام دونوں نبی
بھی ھیں اور باپ بیٹے بھی ،لیکن کئی فیصلوں میں ان کا اختلاف ھوا ۔ اس کے باوجود اللہ تعالی نے قرآن کریم میں اسی
اختلاف کے پس منظر میں دونوں کی تعریف فرمائی ہے ۔
اصل میں انسانی طبیعتیں مختلف ھوتی ھیں کچہ لوگ مزاج کے اعتبار سے شدت پسند ھوتے ھیں اور کچہ سھولت پسند
ھوتے ھیں ، نبی کریم صلی اللہ علیہ آلہ سلم کا ارشاد ھے کہ آسمان میں دو فرشتے ھیں ایک سختی کا حکم کرتا ھے
اور دوسرا نرمی کا ،اور دونوں حق پر ھیں ۔ ایک جبرائیل علیہ السلام اور دوسرا میکا ئیل علیہ السلام ، اور دو نبی ھیں
ایک نرمی کا حکم کرتا ھے اور دوسرا سختی کا اور دونوں درستگی پر ھیں ۔ ایک ابراھیم علیہ السلام اور دوسرا نوح
علیہ السلام ، اور میرے دو ساتھی ھیں ایک نرمی کا حکم کرتا ھے اور دوسرا سختی کا اور دونوں صواب پر ھیں ۔
انسانی مزاجوں ، طبیعتوں ،اور عقل وفھم میں اختلاف کا نتیجہ ، آراء اور رجحانات کے اختلاف کی صورت میں نکلتا ھے
امت کا کوئی طبقہ ایسا نھیں جس میں اختلاف نہ ھوا ھو ، صحابہ کرام میں بھی اختلاف ھوا ، اور بعض اوقات یہ اختلاف بڑی
شدت اختیار کر گیا ۔ لیکن ایک تو صحابہ کرام میں اخلاص ، للہیت انتھا درجہ کی تھی ، دوسرے ان کا مقصد حضور
علیہ الصلاۃ والسلام کی اطاعت تھی ، صحابہ کے علاوہ تابعین
تبع تابعین ،فقھاء اور مجتھدین کے درمیان ھزاروں فقھی اور سیاسی مسائل میں اختلاف رھا ھے لیکن ان اختلافات کے باوجود
وہ ایک دوسرے کا ادب واحترام ملحوظ رکھتے تھے ، یہ ان کے باھمی ادب واحترام ھی کا نتیجھ ھے کہ آج تک امت کے
سمجھدار لوگ ان کا تذکرہ ادب واحترام ہی سے کرتے ھیں ، اور کسی کو ان کی شان میں گستاخی کی جرآت نھیں ھو تی ،
عرض کرنے کا مقصد یھ ھے کہ نہ ھر اختلاف مذموم ھے، نہ ممنوع ایسا اختلاف جو اخلاص ، للھیت ، اور اصولوں پر
مبنی ھو ، اس کی نہ صرف یھ کہ شریعت نے اجازت دی ھے بلکہ اس کی حوصلہ افزائی کی ھے مذموم اور ممنوع
وہ اختلاف ھے جس کی بنیاد اخلاص اور للھیت کے بجائے ریا اور نفسانیت پر ھو اور شر اور فساد کا سبب بنے ، یھی
وہ اختلاف ھے جو ھلاکت اور تباھی کا زریعہ بنتا ھے ، ایسا اختلاف جماعت، ملک اورادارہ کی بنیادیں ھلا دیتا ھے ، اللہ
کی رحمت اٹھ جاتی ھے اور مختلف صورتوں میں عذاب کا نزول شروع ھو جاتا ھے ، مسلما نوں کی ھوا اکھڑ جاتی ھے
اور کافروں کے حوصلے بلند ھونے لگتے ھیں ۔
اگر چہ آج کل ھر شخص اپنے اختلاف کو ،، اصولی ،، اختلاف اور اخلاص پر مبنی قرار دیتا ھے لیکن اگر غور کیا جائے
تو امت مسلمہ کی جماعتوں ، ملکوں اور افراد کے درمیان پائے جانے والے اختلافات کے گیارہ بڑے اسباب سامنے آتے
ھیں ،، کاش ھم ان اسباب سے چھٹکارا پا کر امت کو بنیان مرصوص ( سیسہ پلائی ھوئی دیوار ) بننے میں مدد دے سکیں
1۔)اختلاف کا پھلا سبب نفس پرستی ھے ، جب افراد اور جماعتیں خدا پرستی کی بجائے نفس پرستی شروع کر دیتی ھیں
تو تنازعات کاپنڈورا بکس کھل جاتا ھے ، بہت سے گروہ اور لیڈر ایسے ھیں جو محض اپنی نفسانی اغراض کی وجہ
سے امت کو ایک پلیٹ فارم پر متحد نھیں ھونے دیتے ،
2) ۔اختلاف کا دوسرا سبب ضد اور عناد ھے جو کہ نفس پرستی ھی کا لازمی نتیجہ ھے ، ھمارے ھاں بعض مسائل کا التزام
صرف دوسروں کی ضد اور عناد میں کیا جاتا ھے ،
(3) اختلاف کا تیسرا سبب حسد ھے ۔ بہت سے بے وقوف دوسروں کی عزت اور شہرت کو دیکھ کر جلتے ھیں ، اور پھر
ان سے اصولی اختلاف شروع کر دیتے ھیں ،
(4) چوتھا تشخص ھے یعنی یہ خواھش کہ ھم اپنے لباس ، ٹوپی اور جھنڈے کے رنگ اور ڈیزائن کے اعتبارسے دوسروں
سے جدا اور ممتاز نظر آئیں اور ھم امت کے سمندر کی موجیں بن کر اسی میں کہیں گم نہ ھوجایئں ،
کاش ؛ کہ وہ جان سکتے کہ وہ ،
موج ھیں دریا میں اور بیرون دریا کچھ بھی نھیں ۔
(5) پانچواں سبب اجزا اور رسموں پر اصرار ھے ، بعض بھولے بھالے لوگ دین کے کسی ایک جزء اورخاندان کی ایک
رسم کو اس قدر اھمیت دیتے ھیں ۔ کہ اسے کفر اور ایمان کے درمیان حد فاصل ٹھرا لیتے ھیں اور اس کےلئے ھر
کسی سے لڑنے اور مرنے کے لئے تیار ھوتے ھیں ، ان لوگوں کا حال ان اندھوں جیسا ھوتا ھے جن میں سے کسی نے
ھاتھی کے کان کو ،کسی نے سونڈ کو ، کسی نے پیٹ کو ، کسی نے ٹانگوں اور کسی نے دم ھی کو پورا ھاتھی سمجھ لیا
تھا ،
(6) چھٹا سبب خوش خیا لی اور خوش فھمی ھے ، ھر شخص اپنی کھال اور حال میں مست ھے ، اس کے ذھن میں بات
کوٹ کوٹ کر بٹھا دی گئی ھے ، کہ صرف ھماری جماعت ھی دین ،ملک اور قوم کی صحیح خدمت کر رھی ھے ، باقی
سارے لوگ کھانے پینے اور دین کی بیخ کنی میں مصروف ھیں ،
(7) ساتواں سبب حد سے بڑھتی ھوئی شخصیت پرستی ھے ، ایسےلوگ اپنے حضرات کے فرمودات کے مقابلے میں قرآنی
آیات اور سرور عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارشادات کو بھی ٹھکرا دیتے ھیں ، نعوذ باللہ
(8) آٹھواں سبب کم ظرفی اور تنگ نظری ھے ، جس کی وجہ سے ایک گروہ دوسرے گروہ کے وجود تک کو برداشت
کرنے کیلئے آمادہ نھیں ھوتے ،
(9) نواں سبب معاشی مجبوری ھے ، بعض بد بخت امت کو اس لئے متحد نھیں ھونے دیتے ، کیونکہ اختلافی مسائل ھی ان
کا ذریعہ معاش ھے ، انھیں ان مسائل کے علاوہ کچھ نھیں آتا ، جاھل عوام میں ان کی طلب اور شھرت صرف اور صرف
ان کی اختلافی تقریریوں کی وجھ سے ھوتی ھے ، جن کا وہ منہ مانگا معاوضہ وصول کرتے ھیں ،
(10) اختلاف کا دسواں سبب ، نسلی اور لسانی تعصبات ھیں ، اسلام دشمنوں نے ان تعصبات کو اس قدر ھوا دی ھے کہ قرآن
کریم کے جو اولین مخاطب تھے یعنی عرب، ان کے ذھنوں کو بھی ان تعصبات سے مسموم کرکے رکہ دیا اور ان میں
سے بعض نے کفار کے پروپیگنڈا کے نتیجہ میں عجمی مسلمانوں کو عربوں سے کم تر سمجھنا شروع کر دیا ،
(11) امت کے درمیان پائے جانے والے اختلافات کا گیارھواں اور آخری سبب ملکی سرحدیں ھیں جنھیں بعض وطن پرست
ایمان سے بھی زیادہ اھمیت دیتے ھیں ، جب کہ قرآنی حقائق اور نبوی فرمودات پر ایمانی نظریں رکھنے والے خوب
جانتے ھیں کہ ملکی ، قومی ، لسانی، نسلی ، خاندانی، جماعتی ، اور گروھی تعلقات اور رشتوں سے کھیں زیادہ
اھمیت ایمانی رشتہ کو حاصل ھے ،
یہی رشتہ ھے جس نے فارس کے سلمان رضی اللہ عنہ ، حبشہ کے بلال رضی اللہ عنہ ، روم کے صہیب رضی اللہ عنہ
نینوا کے عداس رضی اللہ عنہ ، غفار کے ابو ذر رضی اللہ عنہ ، دوس کے طفیل رضی اللہ عنہ ، طائی کے عدی رضی اللہ عنہ اور جعشم کے سراقہ رضی اللہ عنہ کو بھائی بھائی بنا کر قیصر وکسری کے
سامنے ایمان اور استقامت ، جرآت اور شجاعت کا مضبوط پھاڑ بنا کر کھڑا کر دیا تھا ، جس سے ٹکرا کروقت کے
فرعون اورنمرود اپنی موت آپ مر گئے تھے ،
اے کاش؛ ملکی اور بین الاقوامی سطح پر ایک بار پھر اھل حق اسی اتحاد کا مظاھرہ کر سکیں تاکہ دور حاضر کے دجال
اور نمرود ان کے سامنے ناک رگڑنے پر مجبور ھو جائیں ،
source : http://www.taghrib.ir