اردو
Wednesday 25th of December 2024
0
نفر 0

امام محمد باقر عليہ السلام کا عہد

اب امام محمد باقر عليہ السلام کا دور آتا ہے۔ امام محمد باقر ٴ ميں بھي ہم اسي طريقہ کار کا مشاہدہ کرتے ہيں، جس پر امام سجاد ٴ گامزن ہيں۔ اب حالات نسبتاً کچھ بہتر ہوچکے ہيں چنانچہ امام محمد باقر ٴ بھي معارف اسلامي اور تعليمات ديني پر زيادہ زور ديتے ہيں۔ اب لوگ خاندان پيغمبر ۰ کي طرف سے پہلے جيسي بے اعتنائي و سرد مہري نہيں برتتے لہذا جب امام ٴمسجد ميں داخل ہوتے ہيں تو کچھ لوگ ہميشہ ان کے ارد گرد حلقہ کرکے بيٹھ جاتے ہيں اور آپ ٴ سے مستفيد ہوتے ہيں۔ راوي کہتا ہے کہ ميں نے امام محمد باقر عليہ السلام کو مسجد مدينہ ميں اس عالم ميں ديکھا کہ خراسان کے دور دراز علاقوں اور دوسرے مقامات سے تعلق رکھنے والے افراد آپ ٴ کے چاروں طرف جمع تھے۔ اس بات سے پتہ چلتا ہے کہ تبليغات کا اثر اب کسي موج کي مانند پوري اسلامي دنيا ميں پھيل رہا تھا اور دور دور کے لوگ اہل بيت ٴ سے نزديک ہورہے تھے ۔ ايک دوسري روايت يوں ہے: اہل خراسان آپ ٴ کو اپنے گھيرے ميں لئے بيٹھے تھے اور حضرت ٴ ان لوگوں سے حلال و حرام سے متعلق گفتگو فرمارہے تھے۔

اس وقت کے بڑے بڑے علمائ آپ ٴ سے درس ليتے اور مستفيد ہوتے تھے۔ عکرمہ جيسي مشہور و معروف شخصيت جو ابن عباس کے شاگردوں ميں سے تھے جس وقت امام ٴ کي خدمت ميں پہنچتے ہيں تاکہ آپ ٴ سے حديث سنيں تو ان کے ہاتھ پاو ں ميں ايک تھرتھري سے پڑي جاتي ہے اور امام ٴ کي آغوش ميں گرپڑتے ہيں۔ بعد ميں اپني اس حالت پر تعجب کا اظہار کرتے ہوئے عکرمہ کہتے ہيں: ميں نے ابن عباس جيسے بزرگ کي خدمت ميں حاضري دي ہے اور ان سے حديث بھي سني ہے، مگر اے فرزند رسول ۰ ! آپ کي خدمت ميں پہنچ کر ميري جو کيفيت ہوئي اس حالت سے ميں کبھي بھي دوچار نہيں ہو اتھا۔ ملاحظہ فرمائيں جواب ميں حضرت ٴ کيسے دو ٹوک الفاظ ميں فرماتے ہيں:

و يحک يا عبيد اھل الشام ، انک بين يدي بيوت اذن اللہ ان ترفع و يذکر فيھا اسمہ ۔‘‘

’’ اے اہل شام (حکومت )کے بندہ بے دام ! اس وقت تو ايک معنوي عظمت کے رو برو کھڑا ہے يہي وجہ ہے کہ تيرے ہاتھ پاو ں تيرے قابو ميں نہيں ہيں۔‘‘

ابو حنيفہ جيسي شخصيت جن کا اپنے دور کے صاحب نظر فقہا ميں شمار ہوتا ہے، احکام دين اور معارف اسلامي کي تحصيل کے لئے امام ٴ کي خدمت ميں حاضري ديتي نظر آتي ہے۔ ان کے علاوہ بھي بہت سے دوسرے بڑے بڑے علمائ کے نام حضرت ٴ کے شاگردوں کي طويل فہرست ميں نظر آتے ہيں۔

حضرت ٴ کا علمي شہرہ اطراف و اکناف عالم تک پہنچ چکا تھا اسي وجہ سے آپ ٴ باقر العلوم کے نام سے مشہور ہوئے۔

پس آپ نے ديکھا کہ امام محمد باقر ٴ کے زمانہ ميں معاشرے کي حالت کس قدر بدل گئي تھي اور آئمہ کے بارے ميں لوگوں کے محبت و احترام کے جذبات ميں کس قدر اضافہ ہوگيا تھا۔ اسي نسبت سے امام محمد باقر ٴ کي سياسي جدوجہد ميں بھي تيزي نظر آتي ہے۔ يعني عبدالملک بن مروان کے مقابلہ ميں امام سجاد ٴ کا کوئي سخت اور درشت کلام اور کوئي ايسا جملہ نہيں ملتا جسے آپ ٴ کي طرف سے اس کي مخالفت کي علامت کہا جاسکے۔ اگر عبدالملک سيد سجاد ٴ کو کسي موضوع پر خط لکھتا ہے اور حضرت ٴ اس کا جواب ديتے ہيں تو اگرچہ فرزند نبي ٴ کا جواب ہميشہ ہر رخ سے محکم و متين اور دندان شکن ہوتا ہے پھر بھي اس خط ميں اس کي کوئي صريح مخالفت اور اعتراض دکھا ئي نہيں ديتا ۔ ليکن امام محمد باقر عليہ السلام کا مسئلہ دوسرے ہي انداز کا ہے۔ آپ ٴ کا طرز عمل ايسا ہے کہ اس کے سامنے ہشام بن عبدالملک خوف و وحشت محسوس کرتا ہے اور يہ سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ امام ٴ پر نظر رکھنا ضروري ہے ۔ چنانچہ وہ آپ ٴ کو شام لے جانا چاہتا ہے۔

اس ميں کوئي شک نہيں کہ سيد سجاد ٴ کو بھي آپ ٴ کي امامت کے دوران (حادثہ کربلا اور اسيري اہل حرم کے بعد دوبارہ)قيد کرکے پابہ زنجير شام لے جايا گيا ہے ليکن وہ دوسري نوعيت تھي اور سيد سجاد ٴ ہميشہ بڑا ہي محتاط طرز عمل اپناتے تھے جبکہ امام محمد باقر ٴ عليہ السلام کي گفتگو کا لہجہ سخت تر نظر آتا ہے۔ ميں نے امام محمد باقر ٴ کي اپنے اصحاب کے ساتھ گفتگو پر مشتمل چند روايتيں ديکھي ہيں جن ميں امام ٴ حکومت اور خلافت و امامت کے لئے انہيں آمادہ کرتے ہيں حتيٰ انہيں مستقبل قريب کے لئے خوشخبري ديتے نظر آتے ہيں ، ان ميں سے ايک روايت بحارالانوار ميں اس مضمون کے ساتھ نقل کي گئي ہے : حضرت ابي جعفر (امام محمد باقر ٴ)کا در دولت لوگوں سے بھرا ہوا ہے۔ ايک بوڑھا شخص عصا ٹيکتا ہوا آتا ہے اور سلام و اظہار محبت کے بعد حضرت کے نزديک بيٹھ جاتا ہے اور کہتا ہے :

’’ خدا کي قسم ميں آپ کو دوست رکھتا ہوں اوراس کو بھي دوست رکھتا ہوں جو آپ کو دوست رکھتا ہے ، اور خدا کي قسم يہ دوستي دنياوي مفادات کي لالچ کي خاطر نہيں ہے۔ اور بے شک ميں آپ کے دشمنوں سے بغض رکھتا ہوں اور ان سے برا ت چاہتا ہوں ، اور بے شک ميں آپ کے دشمنوں ان سے ذاتي عداوت يا بدلہ کے باعث نہيں ہے۔ خدا کي قسم ميں نے اس شئے کو حلال سمجھا ہے جس کو آپ نے حلال قرار ديا ہے اور اس کو حرام سمجھا ہے جس کو آپ نے حرام قرار ديا ہے، ميں آپ کے امر کا منتظر ہوں۔ پس ميں آپ پر فدا ہوجاو ں کيا ميں اپني آنکھوں سے آپ کي کاميابي کے دن ديکھ سکوں گا؟‘‘

اس روايت ميں آخري جملہ غور طلب ہے، آنے والا امام ٴ سے سوال کرتا ہے: کيا آپ ٴ يہ سمجھتے ہيں کہ ميں اپني آنکھوں سے آپ ٴ کي کاميابي کے دن ديکھ سکوں گا ؟ کيونکہ ميں آپ ٴ کے امر ، يعني آپ ٴ کي حکومت ديکھنے کا منتظر ہوں۔ اس دور ميں امر يا ھذا الامر يا امرکم کي تعبيريں حکومت کے معني ميں استعمال ہوتي تھيں۔ اس طرح کي تعبير کيا آئمہ ٴ اور ان کے اصحاب اور کيا ان کے مخالفين ہر ايک کے درميان ان ہي معنوں ميں مستعمل تھيں۔ مثلاً مامون رشيد سے گفتگو کرتے ہوئے ہارون کہتا ہے: واللہ لو تنازعت معي في ھذا الامر ۔‘‘ (بخدا اس امر ( خلافت)کے سوا ان سے ہمارا کوئي تنازع نہيں ہے۔)

ظاہر ہے کہ يہاں ’’ ھذا الامر ‘‘ سے خلافت و امامت ہي مراد ہے۔ لہذا مذکورہ بالا روايت ميں ’’ انتظر امرکم ‘‘ کا مطلب امام کي حکومت و خلافت کا انتظار ہے۔ بہرحال وہ شخص سوال کرتا ہے کہ مولا! کيا آپ ٴ کو اميد ہے کہ ميں اس وقت تک زندہ رہوں گا اور آپ ٴ کي حکومت کو اپني آنکھوں سے ديکھ سکوں گا؟

امام ٴ نے اس کو اپنے قريب بلايا اور اپنے پہلو ميں جگہ عنايت فرمائي ، پھر فرمايا :

’’ايھا الشيخ ان علي بن الحسين اتاہ رجل فسالہ عن مثال الذي سئلتني عنہ‘‘

’’ اے شيخ علي بن الحسين ٴ کے پاس ايک شخص آيا تھا اوراس نے بھي ان سے يہي سوال کيا تھا جو تو نے مجھ سے کيا ہے ۔‘‘

البتہ مجھے سيد سجاد ٴ سے مروي روايتوں ميں يہ سوال نہيں مل سکا ۔ چنانچہ اگر سيد سجاد ٴ کے سامنے اس قسم کي گفتگو مجمع عام ميں ہوئي ہوتي تو دوسرے بھي اس سے واقف ہوتے اور بات ہم تک بھي ضرور پہنچتي لہذا گمان غالب ہے کہ امام سجاد ٴ نے جو بات رازدارانہ طور پر فرمائي ہے يہاں امام محمد باقر عليہ السلام نے وہي بات عليٰ الاعلان ارشاد فرمائي ہے۔ امام ٴ فرماتے ہيں:

’’ ان تمت ترد عليٰ رسول اللہ و عليٰ علي والحسن والحسين وعليٰ علي بن الحسين و يثلج قلبک و يبرد فوادک و تقرعينک و تستقبل الروح والريحان مع الکرام الکاتبين وان تعيش تري ما يقر اللہ بہ عينک و تکون معنا في السنام لاعليٰ۔‘‘

پس امام ٴ اس صحابي کو مايوس نہيں کرتے ، فرماتے ہيں :اگر موت آگئي تو پيغمبر اسلام ۰ اور اوليائے کرام کي ملاقات سے شرفياب ہوگئے اور اگر زندہ رہے تو ہمارے ساتھ رہو گے۔

امام محمد باقر عليہ السلام کے کلام ميں اس طرح کي تعبيريں موجود ہيں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ امام ٴ اپنے شيعوں کو مستقبل کے بارے ميں پر اميد رکھنا چاہتے ہيں۔ کافي ميں نقل ہونے والي ايک روايت ميں قيام کے لئے وقت کا تعين بھي ہوا ہے اور بظاہر يہ چيز بڑي عجيب سي لگتي ہے:

عن ابي حمزہ الثمالي بسند عال، قال سمعت ابا جعفر (ع) يقول :

يا ثابت ، ان اللہ تبارک و تعاليٰ قد وقت ھذا الامر في السبعين فلما ان قتل الحسين (ع) اشتد غضب اللہ تعاليٰ عليٰ اھل الارض فاخرہ اليٰ اربعين و مائۃ و حد ثناکم و اذعتم الحديث فکشفتم قناع الستر ولم يجعل اللہ لہ بعد ذلک و قتا عندنا و يمحو االلہ و يثبت و عندہ ام الکتاب ۔‘‘

’’ خدا وند عالم نے ٧٠ ھ کو حکومت علوي کي تشکيل کے لئے مقدر فرمايا تھا ليکن امام حسين عليہ السلام کے قتل نے خدا وند عالم کو لوگوں سے اتنا ناراض کرديا کہ اس نے اس وقت کو ١٤٠ ھ تک ملتوي کرديا اور پھر ہم نے تم کو اس وقت کي خبردي اور تم نے اس کو افشائ کرديا اور پردہ راز کو اس سے اٹھاديا لہذا اب پروردگار عالم نے ہم کو اس وقت کي کوئي خبر نہيں دي ہے اور خدا کسي بھي چيز کے بارے ميں جيسا چاہتا ہے محو يا اثبات کرديتا ہے، دفتر تقدير اسي کے پاس ہے ۔‘‘

ابو حمزہ ثمالي کہتے ہيں:فحدثت بذلک ابا عبدا للہ (ع) فقال : قد کان کذلک ۔‘‘

’’ ميں نے امام صادق ٴ کي خدمت ميں اس کا تذکرہ کيا ، آپ ٴ نے فرمايا : ہاں ايسا ہي تھا ۔‘‘

١٤٠ ھ امام صادق عليہ السلام کي زندگي کے اواخر کا سال تھا ۔ اور يہ وہي چيز ہے جو اس حديث مبارکہ کے ديکھنے سے قبل ہي آئمہ عليہم السلام کے حالات زندگي سے ميں نے اخذ کر لي تھي۔ چنانچہ ميري نظر ميں وہ ممکنہ حکومت جس کے لئے امام سجاد ٴ نے اس انداز سے اور امام محمد باقر ٴ نے اس دوسرے طريقے سے جدوجہد کي اصولي طور پر امام جعفر صادق ٴکے زمانے ميں قائم ہوجاني چاہئيے تھي کيونکہ امام صادق ٴ کي شہادت ١٤٨ ھ ميں ہوئي ہے اورخدا کي طرف سے تاسيس حکومت کا وعدہ ١٤٠ھ کے لئے تھا اور ١٤٠ ھ کي اہميت ١٣٥ ھ کے بعد کے دنوں کي اہميت کے ذيل ميں ہمارے پيش کئے گئے،مفروضہ برسر اقتدار نہ آتا اور بنو عباس کي حکومت نہ بنتي تو حالات يقيناً کچھ اور ہوتے۔ گويا حالات کے تحت تقدير الہي يہي تھي کہ ١٤٠ ھ ميں ايک الہي اسلامي حکومت قائم ہوجاني چاہئيے تھي۔

اب يہ ايک دوسري بحث ہے کہ آيا اس آئندہ کے سلسلہ ميں خود آئمہ عليہم السلام کي بھي توقعات بندھي ہوئي تھيں اور وہ اس دن کے منتظر تھے يا يہ کہ وہ پہلے سے جانتے تھے کہ قضائ الہي کچھ اور ہي ہے ؟ في الحال ہم اس بحث کو چھيڑنا نہيں چاہتے ممکن ہے ايک دوسرے مستقبل باب ميں اس پر بحث کي جائے۔ سر دست ہماري بحث امام محمد باقر عليہ السلام کے حالات کے سلسلہ ميں ہے کہ آپ ٴ نے واضح الفاظ ميں تصريح کي تھي کہ ١٤٠ ھ حکومت الہي کي تشکيل کے لئے معين تھا ليکن چونکہ ہم نے اس کي تم کو خبر دے دي اور تم اس کو پردہ راز ميں نہ رکھ سکے لہذا خداوند عالم نے اس ميں تاخير کردي۔ اس طرح کي اميد بندھانا اور وعدے کرنا امام محمد باقر ٴ کے دور کا اہم امتياز ہے۔

امام محمد باقر عليہ السلام کي زندگي کے بارے ميں گھنٹوں بحث کي ضرورت ہے تاکہ آپ ٴ کي زندگي کي تصوير واضح ہوسکے۔ ميں اس سلسلے ميں بھي طولاني بحثيں کرچکا ہوں۔ مختصر يہ کہ حضرت ٴ کي زندگي ميں سياسي جدوجہد کا عنصر بالکل واضح ہے، البتہ آپ ٴ گرم مسلح جدوجہد کے حق ميں نہ تھے ۔ چنانچہ جب آپ ٴ کے بھائي زيد ابن علي آپ ٴ سے مشورہ کرتے ہيں تو حضرت ٴ انہيں قيام سے منع فرماتے ہيں اور جناب زيد آپ ٴ کي اطاعت کرتے ہوئے خاموش ہوجاتے ہيں۔

يہ جو ديکھنے ميں آتا ہے کہ کچھ لوگ جناب زيد کي اہانت پر اتر آتے ہيں کہ امام ٴ نے تو انہيں قيام سے منع کيا تھا پھر بھي جناب زيد اٹھ کھڑے ہوئے اور امام ٴ کي اطاعت نہيں کي، يہ ايک غلط تصور ہے۔ جب امام محمد باقر عليہ السلام نے جناب زيد کو قيام سے منع فرمايا تو انہوں نے امام ٴ کي اطاعت کي اور قيام نہ کيا۔ پھر جب امام صادق عليہ السلام کا دور آيا تو انہوں نے امام صادق ٴ سے مشورہ کيا اور امام ٴ نے نہ صرف قيام سے منع نہيں فرمايا بلکہ اس سلسلے ميں ان کي حوصلہ افزائي بھي کي۔ يہي وجہ ہے کہ جناب زيد کي شہادت کے بعد امام صادق ٴ آرزو کرتے ہيں کہ کاش ميں بھي زيد کے ساتھيوں ميں ہوتا۔ لہذا جناب زيد کے ساتھ يہ اہانت آميز برتاو کسي طور درست نہيں ہے۔

بہر حال ، امام محمد باقر عليہ السلام نے مسلحانہ قيام کيوں قبول نہ کيا ليکن آپ ٴ کي زندگي ميں سياسي ٹکراو واضح طور پر نظر آتا ہے اور اسے آپ ٴ کي سيرت ميں سے سمجھا جاسکتا ہے جبکہ سيد سجاد ٴ کي زندگي ميں واضح سياسي ٹکراو کا احساس نہيں ہوتا۔

جب اس عظيم ہستي کا دور حيات آخري منزلوں پر پہنچنے لگتا ہے تو ہم ديکھتے ہيں کہ حضرت اپني سياسي جدوجہد کو ميدان منيٰ ميں عزاداري کے ذريعے جاري رکھتے ہيں۔ آپ ٴ وصيت کرتے ہيں کہ دس برس تک منيٰ ميں آپ ٴ پر گريہ کيا جائے (تند بني النوادب بمنيٰ عشر سنين)يہ دراصل اسي سياسي جدوجہد کو جاري رکھنے کا ايک طريق ہے۔

امام محمد باقر عليہ السلام کي زندگاني ميں عام طور پر امام حسين عليہ السلام پر گريہ کے سلسلہ ميں حکم ملتا ہے چنانچہ اس ذيل ميں مسلمہ روايات موجود ہيں ليکن اور کسي کے سلسلہ ميں مجھے ياد نہيں کہ اس طرح کا حکم ديا گيا ہو سوائے اس کے کہ امام رضا عليہ السلام کے بارے ميں اتنا ملتا ہے کہ جب آپ ٴ وطن سے رخصت ہونے لگے تو اپنے اہل خاندان کو جمع کيا تاکہ آپ ٴ پر گريہ کريں اور يہ اقدام مکمل طور پر سياسي مقصد کا حامل ہے۔ البتہ يہ امام ٴ کي رحلت سے قبل کا واقعہ ہے۔ (امام حسين ٴ کے سوا )محض امام محمد باقر عليہ السلام کي شہادت کے بعد گريہ کا حکم نظر آتا ہے اور امام ٴ وصيت کرتے ہيں اور اپنے مال ميں سے آٹھ سو درہم ديتے ہيں کہ ان کے ذريعہ منيٰ ميں يہ عمل انجام ديا جائے۔

منيٰ عرفات و مشعر بلکہ خود مکہ سے بھي مختلف جگہ ہے۔ مکہ ميں حاجي متفرق رہتے ہيں، ہر شخص اپنے اپنے کام ميں مشغول ہوتا ہے۔ عرفات کا قيام زيادہ سے زيادہ صبح سے عصرتک رہتا ہے۔ صبح لوگ تھکے ماندے پہنچتے ہيںاور عصر کے وقت واپسي کي جلدي رہتي ہے تاکہ اپنا کام انجام دے سکيں۔ مشعر ميں رات کے وقت چند گھنٹوں کا قيام رہتا ہے اس کي حيثيت منيٰ جاتے ہوئے ايک گزرگاہ کي سي ہے۔ ليکن منيٰ ميں مسلسل تين راتيں، گزارني ہوتي ہيں۔ ايسے بہت کم لوگ ہوتے ہيں جو اس دوران ميں مکہ چلے جاتے ہوں اور رات کو منيٰ لوٹ آتے ہيں۔

 

زيادہ تر لوگ وہيں ٹھہرتے ہيں۔ خاص طور سے اس زمانے ميں جبکہ وسائل سفر بھي آساني سے مہيا نہ ہوتے تھے۔ حقيقت تو يہ ہے کہ اس وقت عالم اسلام کے مختلف گوشوں سے تعلق رکھنے والے ہزاروں افراد تين شبانہ روز ايک ہي جگہ جمع رہتے تھے۔ ہر شخص با آساني درک کرسکتا ہے کہ تبليغات کے لئے اس سے بہتر کوئي دوسري جگہ نہيں مل سکتي۔ جو پيغام بھي پورے عالم اسلام ميں پہنچانا مقصود ہو وہ يہاں سے بخوبي نشر کيا جاسکتا ہے۔ خصوصاً اس دور ميں جبکہ آج کي طرح ريڈيو، ٹيلي ويژن ، اخبارات يا اسي طرح کے دوسرے ذرائع ابلاغ موجود نہ تھے۔

جب کچھ لوگ اولاد پيغمبر ۰ ميں سے ايک فرد پر گريہ و زاري کرتے نظر آتے ، تو لازماً وہاں موجود لوگوں کے دلوں ميں سوال اٹھتا کہ ان لوگوں کي اشک ريزي کا کيا سبب ہے؟ کسي مرنے والے پر اتني مدت تک اس شدت کے ساتھ گريہ وزاري نہيں ہوتي، کيا اس متوفي پر کوئي ظلم ہوا ہے؟ کيا اسے ظالموں نے قتل کيا ہے؟ کس نے اس پر ظلم کيا ہے؟۔۔۔ اس طرح کے بے شمار سوالات لوگوں کے ذہنوں ميں پيدا ہوتے۔ اور يہ ايک انتہائي گہرا ، سوچا سمجھا اور جچا تلا سياسي اقدام ہے۔

امام محمد باقر عليہ السلام کي سياسي زندگي کا مطالعہ کرتے وقت ايک اور نکتہ کي طرف ميري توجہ مبذول ہوئي اور وہ يہ کہ اپني خلافت کے حق ميں استدلال کا جو طريقہ پہلي صدي ہجري کے نصف اول ميں اہل بيت عليہم السلام کي زبان پر جاري رہا ہے امام محمد باقر عليہ السلام بھي اسي کي تکرار کرتے نظر آتے ہيں۔ اس استدلال کا خلاصہ يہ ہے کہ پيغمبر ۰ اسلام کے عرب ہونے کي وجہ سے عرب عجم پر فخر کرتے ہيں، آنحضرت کي قربت کي وجہ سے قريش غير قريش پر فخر کرتے ہيں۔ اگر ان لوگوں کا فخر کرنا صحيح ہے تو ہم تو پيغمبر ۰ کے خاندان اوراولاد سے ہيں لہذا سب پر اولويت رکھتے ہيں، اس کے باوجود ہم کو اس حق سے محروم کرکے دوسرے اپنے آپ کو پيغمبر ۰ کي حکومت کا وارث قرار دئيے بيٹھے ہيں۔ اگر پيغمبر ۰ کي قربت قريش کے غير قريش پر اور عرب کے غير عرب پر امتياز و افتخار کي وجہ ہے تو يہ دوسروں پر ہماري برتري اور اولويت کو بھي ثابت کرتي ہے۔ يہ وہ استدلال ہے جو ابتدائي دور ميں بارہا اہل بيت عليہم السلام کي زبان سے بيان ہوا ہے اور اب دوبارہ ٩٥ ھ سے ١١٤ ھ کے درميان امام محمد باقر ٴ اپنے عہد امامت ميں ان کلمات کي تکرار فرماتے ہيں۔ اور اپني خلافت کے لئے اس استدلال کو سامنے لانا بڑي معنويت رکھتا ہے۔


source : http://www.alhassanain.com
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

انتظار مہدي(عج) اور مہدويت کے دعويدار
تسبیح فاطمہ روایات کے آئینہ میں
ائمہ معصومین علیہم السلام نے ایسے دورحکومت -5
سیرت امام علی (ع) میں آداب معاشرت کے چند اصول
باغ فدک کے تعجبات
حضرت فاطمۃ الزہرا ؑ بطور نمونہ عمل
امام جعفر صادق علیه السلام
ولایت علی ع قرآن کریم میں
امام ابومحمد حسن عسکری علیہ السلام کی ولادت ...
پیغمبر اکرم (ص) کے دلنشین پیغامات

 
user comment