رجب المرجب کو ہجرت سے 13 سال قبل ، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی بعثت ، شرک ، ناانصافی ، نسلی قومی و لسانی امتیازات ، جہالت اور برائیوں سے نجات و فلاح کا نقطۂ آغاز کہی جا سکتی ہے اور صحیح معنی میں خدا کے آخری نبی نے انبیائے ما سبق کی فراموش شدہ تعلیمات کواز سر نو زندہ و تابندہ کر کے عالم بشریت کو توحید ، معنویت ، عدل و انصاف اورعزت و کرامت کی طرف آگے بڑھایا ہے ۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنے دلنشین پیغامات کے ذریعے انسانوں کو مخاطب کیا کہ "خبر دار ! خدا کے سوا کسی کی پرستش نہ کرنا اور کسی کواس کا شریک قرار نہ دینا تا کہ تم کو نجات و فلاح حاصل ہو سکے "۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی اس پر خلوص معنوی تبلیغ نے جہالت و خرافات کی دیواریں بڑی تیزی سے ڈھانا شروع کردیں اورلوگ جوق درجوق اسلام کے گرویدہ ہوتے چلے گئے ۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی بعثت در حقیقت انسانوں کی بیداری اورعلم و خرد کی شگوفائی کا دور ہے ۔ آج رسول اسلام کی بعثت کو صدیاں گزر چکی ہیں لیکن عصر حاضر کے ترقی یافتہ طاقتور انسانوں کو، پہلے سے بھی زیادہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پرامن پیغامات اور انسانیت آفریں تعلیمات کی ضرورت ہے ۔اس گفتگو میں ، ہم اسی موضوع کا جائزہ لیناچاہتے ہیں کہ بنیادی طور پر پیغمبر اسلام کی بعثت آج کے انسانوں کےلئے کن پیغامات کی حامل ہے۔اس کے جواب میں سب سے پہلے یہ دیکھنے کی ضرورت ہے ختمی مآب محمد مصطفیٰ ، صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے انسانوں کو کس چیز کی دعوت دی ہے ؟ در اصل انسان کے یہاں بعض خواہشیں اور فطری میلانات موجود ہیں ، یہ فطری میلان خود انسان کے وجود میں ودیعت ہوئے ہیں اور ان کو ختم نہیں کیا جاسکتا ۔ مثال کے طور پر اچھائيوں کی طرف رغبت اور پسند ، تحقیق و جستجو کا جذبہ یا اولاد سے محبت وہ انسانی خصوصیات ہیں جن کو اس کی ذات سے الگ نہیں کیا جا سکتا ۔ ظاہر ہے دنیا میں آنے والا ہر وہ انسان کہ جس نے فطرت کی آواز پر لبیک کہی ہو حقیقی اور جاوداں انسان بن جائےگا کیونکہ یہ وجود انسانی خواہشات کے ساتھ مطابقت رکھتا ہے اور اس کی فطری ضرورتوں کی تکمیل کرتا ہے ۔پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی بعثت ، انسان کی فطری ضروریات کی تکمیل کے لئے ہوئی ہے اوراس نے ایمان و معرفت ، آگہی و بیداری اور برادری و انسان دوستی کے چراغ روشن کئے ہیں ۔ لہذا رسول خدا کی بعثت کا دن انسانی زندگي میں ایک عظيم انقلاب اور تجدید حیات شمار ہوتا ہے وہ انقلاب جو انہوں نے بر پا کیا ہے انسان کوخود اپنے اوراپنے انجام دئے گئے برے اعمال کے خلاف جدو جہد پرآمادہ کرتا ہے اور جو بھی رسول خدا کے روشنی بخش پیغامات کو سنتا ہے اپنی اورکائنات کی حقیقی شناخت پیدا کرلیتا ہے اور پھر خود کو ہی عدل و انصاف کی عدالت میں کھڑا پا کر اپنے وجود میں ایک نئے انسان کی تعمیر پر مجبور ہوجاتا ہے ۔ یہ خصوصیات صرف مذہب کے ساتھ وابستہ ہیں کہ وہ آدمی کو ایک خالص مادی اور دنیوی قالب سے نکال کر سچائی اورانصاف کی معنوی دنیا تک پہنچادیتا ہے اور ایک نفس پرست کوانصاف پسند نیکوکار انسان میں تبدیل کردیتا ہے ۔ مذہب انسان کی حیات کےلامتناہی چشمے کی طرف رہنمائی کرتا ہے اوروحی دنیا کی باتیں اس کے دل و جان میں جگہ بنالیتی ہیں ۔ وحی کی باتیں انسان کو زندگي ، کیف و نشاط اور بیداری و آگہی عطا کرتی ہیں ، وحی کی باتیں ، معرفت کا چراغ ہیں جو انسان کو حقائق محض سےآشنا بنا دیتی ہیں ۔ ہر عہد اور ہر زمانے کا انسان اس جاوداں نور سے روشنی حاصل کر کے ، اپنے اندر معنویت کی نئی جوت جگاسکتا ہے اور پھر ترقی و کمال کی اعلیٰ معراج طے کر سکتا ہے ۔ قرآن کریم میں انبیاء(ع) کی بعثت کا فلسفہ ، انسان کی تعلیم و تربیت ، عدل و انصاف کی برقراری، تاریکیوں سے رہائی اور جبر و استبداد سے انسان کو آزادی دلانا بتایا گیا ہے ۔ سورۂ انفال کی 24 ویں آيت میں بھی بعثت کو زندگی اور حیات سے تعبیر کیا گيا ہے جو معاشروں کو ترقی عطا کر کے تقاضوں کی تکمیل کی راہ دکھاتی ہے ۔ ارشاد ہوتا ہے اے ایمان لانے والو ! خدا اور اس کے پیغمبر کی دعوت پر لبیک کہو وہ جب بھی تم کو اس پیغام کی طرف بلائیں جو تمہارے لئے سرچشمۂ حیات ہے ۔ بعض لوگ خیال کرتے ہیں کہ جہالت ، تاریخ کے محض کسی خاص دور سے مخصوص ہے اور اس کو دور جہالت کا نام دیا گيا ہے اور عالم بشریت اس دورسے گزر چکاہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہر وہ زمانہ جب انسان ، انسانیت کی حدوں سے دور ہوجاتا ہے اور نفسانی خواہشات کی پیروی کرنے لگتا ہے جہالت کے دائرے میں پہنچ جاتاہے اور دنیااسے اپنا اسیر بنا لیتی ہے چاہے وہ کوئی بھی دور اور زمانہ ہواور کسی بھی نئی شکل میں کیوں نہ جلوہ گر ہوئی ہو ۔ اس وقت بھی ، دنیا جس بحران سے دوچار ہے اور افغانستان و عراق میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے جوالمیہ بر پا کیا ہے کیااس کو عصر حاضر کے انسان کی جہالت ، خود غرضي اور وحشت کے علاوہ کوئی اور نام دیا جاسکتا ہے؟ اور آيا وہ مظالم جو فلسطین کے مظلوم عوام اور بچوں پر جاری ہیں انسانی علم و تمدن کا ثمرہ کہے جا سکتے ہیں؟ یا اس کے جہل اور اقتدار طلبی کا نتیجہ ہیں !! بلاشبہ دنیا کو انسانیت و معرفت کے دائرے میں ایک نئے انقلاب اور تغییر کی ضرورت ہے ، وہ انقلاب جو چودہ سو سال قبل ، خدا کے رسول محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے شروع کیا تھا اور جس کے راہ نما پیغامات آج بھی اضطراب و بے چینی کے شکار انسان کو عدل و انصاف اوراخلاق کی راہ دکھا سکتے ہیں ۔اس کے پیغامات میں ہمیشہ زندگي اور تازگي موجود رہی ہے ایک مسلمان عالم و دانشور کے بقول : جس طرح ایک درخت کے لئے پہلے انسان کسی مناسب زمین پر بیج ڈالتا ہے اور پھر پودا ٹہنیوں اور پتیوں میں تبدیل ہو کر جب بڑھتا ہے تو پھول اور پھل وجود میں آئے ہیں اور اس میں ویسے ہی دانے اگتے ہیں کہ جیسے بیج کی صورت میں انسان نے زمین کے حوالے کئے تھے ۔ اسی شکل میں پیغمبر اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پیغام کاایک دائرہ ہے جو گھومتا رہتا ہے اور ہمیشہ اس سے پھول اور پھل شگوفہ آور ہوتے رہتے ہیں ۔ بہر حال پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تاریخ بعثت ہر سال اس اہم حقیقت کی یاد دلاتی ہے کہ ہر انسان کا فریضہ ہے کہ اسی روز سے اپنے اندر ایک دوسرے انسان کی تعمیر شروع کردے اور عشق خدا و رسول کے ساتھ سچائی اور معنویت کی راہ پر قدم بڑھانے کے لئے تیار ہو جائے ۔
source : http://www.abna.ir