تاريخ اسلام گواہ ہے کہ متعدد اقتدار پرست اور منفعت طلب لوگوں نے مہدويت کے دعوے کئے ہيں يا پھر بعض نادان افراد نے کسي ايک خاص فرد کو مہدي سمجھا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ مہدويت کا موضوع اور ايک غيبي اور الہي نجات دہندہ کا اعتقاد مسلمانوں کے درميان مسلّمات ميں سے ہے اور چونکہ بعض افراد کے نام يا بعض خصوصيات حضرت مہدي (عج) کے نام اور اوصاف سے مشابہت رکھتے تھے لہذا ان لوگوں نے ناجائز فائدہ اٹھايا ہے اور اپنے آپ کو مہدي کے عنوان سے متعارف کرايا ہے؛ بسا اوقات ان لوگوں نے کوئي دعوي نہيں کيا ہے ليکن بعض عوام الناس نے ناداني يا پھر حکومتوں کے ظلم و ستم کي بنا پر ـ يا پھر ظہور مہدي ميں عجلت کي خواہش يا دوسرے امور کے بموجب حضرت مہدي (عج) کے ظہور کے قطعي اور حتمي علائم ميں غور کئے بغير ـ انہيں مہدي موعود تصور کر بيٹھے ہيں-
مثال کے طور پر: مسلمانوں کي ايک جماعت نے اميرالمۆمنين (ع) کے فرزند محمد بن حنفيہ کو ـ رسول اللہ (ص) کے ہم نام اور ہم کنيت ہونے کے بموجب ـ مہدي قرار ديا اور ان کا خيال ہے کہ محمد دنيا سے رخصت نہيں ہوئے بلکہ غائب ہوئے ہيں اور بعد ميں ظاہر ہوکر دنيا پر حکومت کريں گے-
اسماعيليوں ميں سے بعض کا خيال تھا کہ اسمعيل بن امام صادق (ع) نہيں مرے بلکہ ان کي موت کا اعلان ايک مصلحت کي بنا پر ہوا تھا اور وہ نہيں مريں گے بلکہ وہي قائم موعود ہيں جو قيام کرکے دنيا پر مسلط ہونگے-
امام حسن (ع) کے فرزندوں ميں محمد بن عبداللہ بن حسن (ع) ـ المعروف نفس زکيہ ـ نے عباسي بادشاہ منصور دوانيقي کے دور ميں قيام کيا اور چونکہ ان کا نام محمد تھا ان کے والد نے دعوي کيا کہ وہ مہدي موعود ہيں ہيں اور اسي دعوے سے اپنے بيٹے کے لئے افرادي قوت فراہم کي-
نفس زکيہ کے قيام کے دور ميں مدينہ کے فقيہ و عابد محمد بن عجلان نے ان کي مدد کي ليکن جب وہ جنگ کے دوران مارے گئے تو مدينہ کے عباسي گورنر جعفر بن سليمان نے انہيں بلوايا اور کہا: تو نے اس قيام ميں اس جھوٹے شخص کا کيوں ساتھ ديا؟ اور حکم ديا کہ ان کا ايک ہاتھ کاٹ ديا جائے-
مدينہ کے فقہاء اور اشراف نے جعفر بن سليمان سے ابن عجلان کے لئے عفو و درگذر کي درخواست کي اور کہا: اے امير! محمد بن عجلان مدينہ کے فقيہ و عابد ہيں اور موضوع ان پر مشتبہ ہوا ہے اور انھوں نے گمان کيا ہے کہ گويا محمد بن عبداللہ مہدي موعود ہيں، جن کي بشارت احاديث ميں آئي ہے-
يہي مسئلہ مدينہ کے مشہور عالم و محدث عبداللہ بن جعفر کے لئے بھي پيش آيا اور انھوں نے مدينہ کے حاکم کي بازخواست کے جواب ميں کہا:
ميں نے محمد بن عبداللہ کا ساتھ ديا کيونکہ مجھے يقين تھا کہ وہ وہي مہدي موعود ہيں جن کي بشارت ہماري حديثوں ميں آئي ہے؛ وہ جب تک زندہ تھے مجھے اس سلسلے ميں کوئي شک نہ تھا اور جب وہ قتل ہوئے تو ميں سمجھ گيا کہ وہ مہدي نہيں ہيں، اور اس کے بعد کسي کے دھوکے ميں نہيں آۆں گا-
منصور کا نا بھي عبداللہ اور اس کے بيٹے کا نام محمد تھا چنانچہ اس نے اپنے بيٹے کو مہدي کا لقب ديا اور دعوي کيا کہ "مہدي موعود نفس زکيہ نہيں بلکہ ميرا بيٹا ہے"-
نيز بعض فرقے بعض سابقہ ائمہ (ع) کي مہدويت پر يقين رکھتے تھے؛ مثال کے طور پر فرقہ ناۆوسيہ کا خيال تھا کہ امام صادق (ع) مہدي اور زندہ ہيں اور غائب ہوئے ہيں-
فرقہ واقفيہ امام موسي کاظم (ع) کے بارے ميں يہي عقيدہ رکھتے تھے اور کہتے تھے کہ آپ (ع) زندہ رہيں گے حتي کہ دنيا کے مشرق و مغرب پر مسلط ہوجائيں اور زمين کو عدل و انصاف سے بھر ديں جس طرح کہ يہ ظلم و جور سے بھري ہوئي ہوگي اور آپ (ع) قائم المہدي ہيں- اور بالآخر بعض لوگوں نے امام حسن عسکري (ع) کي شہادت کے بعد آپ (ع) کي شہادت کا انکار کيا اور کہا کہ آپ (ع) ہي قائم المہدي ہيں-
يہ وہ نمونے ہيں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ عقيدہ مہدويت رسول اللہ (ص) کے زمانے سے مسلمہ اسلامي عقيدہ تھا اور مسلمان ابتداء ہي سے منتظر تھے اس شخصيت کے جو ظلم کے خلاف جدوجہد کرے اور عدل و انصاف کا پرچم لہرائے-
ظاہر ہے کہ بعض بازيگروں نے تاريخ کے بعض حصوں ميں اگر اس اسلامي عقيدے سے ناجائز فائدہ اٹھايا ہے تو اس کا مطلب انکار مہدويت نہيں ہونا چاہئے کيونکہ بہت سوں نے الوہيت اور نبوت کے دعوے کئے ليکن ان کے دعوے خدا اور انبياء کے انکار کا جواز نہ بن سکے؛ جيسا کہ علم و دانش اور صنعت اور سائنس و ٹيکنالوجي سے بھي ہمارے زمانے ميں غلط فائدہ اٹھايا گيا ہے اور انہيں انسانيت کے خلاف استعمال کيا گيا ہے ليکن کسي نے بھي سائنس اور ٹيکنالوجي کي نفي روا نہيں رکھي ہے-
source : http://www.abna.ir