”ياايھاالرسول بلغ ماانزل اليک من ربک وان لم تفعل ممابلغت رسالتہ“ (سورہ مائدہ ۲۸) يہ ايک ايسا اہم فريضہ تھا کہ جس کا ادانہ کرنا ابلاغ رسالت ادانہ کرنے کے برابرتھا اور پھرخداوند اس آيت کے تسلسل ميں بيان فرماتاہے ”واللہ يعصمک من الناس“ يعني خداوندتم کو لوگوں کے شرسے بچائے گااس آيت کے اتني واضح وضاحت کے ساتھ نازل ہونے پرپيغمبرکے لئے ان کافريضہ روشن ہوگيا ۔
ولي امرمسلمين آية اللہ العظمي سيدعلي خامنہ اي کي نظرميں
پيغمبر اسلام کي جانشيني، شيعوں کے عقيدے کے مطابق ايک الہي منصب ہے، جوخداکي طرف سے اس کے حق دار کو ملتي ہے رسول گرامي نے اسلام کے شروع ہي سے کہ جب انہوں نے اسلام کي دعوت کو لوگوں ميں بھي عام کرنا شروع کيا اور انہوں نے اپنے عزيز و اقارب کو اپني رسالت سے آگاہ کيا، قيامت کے عذاب سے ڈرايا، انہي تبليغي محفلوں ميں اپني جانشيني کے مسئلے کوبھي بيان کيا اوربني ہاشم ميں سے ۴۵لوگوں کو بلا کر حکم الہي کوبيان کيا ۔ پيغمبراسلام نے فرماياتم ميں سے جو کوئي بھي سب سے پہلے ميري دعوت کو قبول کرے گا اور ميري مدد کرے گا ميرا بھائي، وصي اور جانشين ہوگا اور تاريخ نے بھي اس بات کي گواہي دي کہ سوائے حضرت علي عليہ السلام کے کوئي اپني جگہ سے کھڑا نہ ہوا اور کسي نے رسول اکرم کي دعوت کوقبول اورمدد کرنے کي حمايت نہيں کي، لہذا رسول اکرم نے اس مجمع ميں فرمايا کہ يہ نوجوان (حضرت علي عليہ السلام) ميراوصي اورجانشين ہے جيساکہ يہ واقعہ راويان تاريخ اورمفسرين کے درميان (يوم الدار) اور(بدء الدعوة) کے نام سے مشہورہے، اس کے علاوہ بھي رسول اللہ نے اپني ۲۳سالہ رسالت ميں مختلف مقامت اورمناسبتوں پرحضرت علي کي جانشيني کے مسئلے کوامت مسلمہ کے سامنے بيان کيااوران کے مقام کوسب سے زيادہ برتراوراہم قراردياہے اورسب سے زيادہ اہم اورخاص امتيازکہ جوحضرت علي کے ماننے والوں اوران کے دوستوں کے لئے خوشي کاباعث بنتي ہے (حديث منزلت) ہے يعني رسول خدنے حضرت علي کواپنے لئے ايسا سمجھا کہ جيسے موسي کے لئے ہارون ۔
اس کے علاوہ ايک اورحديث (حديث سدابواب) ہے مدينہ ميں ہجرت کے بعد اصحاب پيغمبر کے گھروں کے دروازے مسجدنبوي ميں کھلاکرتے تھے کچھ ہي عرصے بعدرسول خداکوحکم الہي ہوتاہے کہ اے محمدمسجدنبوي ميں کھلنے والے تمام دروازے بندکرديئے جائيں سوائے حضرت علي کے گھرکادروازہ ۔
اسي طرح ايک اورحديث کہ جسے ہم (حديث اخوت) کے نام سے پہچانتے ہيں حضرت علي کے بلندمقام کي گواہي ديتي ہے، اس حديث اخوت کاماجرہ کچھ اس طرح سے ہے کہ جب رسول خداتمام مہاجروانصارکوايک دوسرے کااورحضرت علي کواپنابھائي قرارديا ۔
اس کے علاوہ اوردوسري احاديث مثلاحديث ابلاغ (پيام برائت) کہ يہ بھي حضرت علي کے لئے بہت سے بڑے افتخاروں ميں سے ايک افتخارہے اورخاص طور پر ابوبکرکے مقابلے ميں ايک بڑا افتخارہے اورسب سے بڑھ کر روز مباہلہ کہ جس دن خداوندعالم نے (سورہ آل عمران) ميں حضرت علي کورسول خداکانفس قرارديا اور بالآخر سب سے زيادہ واضح اور مستند (حديث غدير) ہے کہ جورسول خدانے اپنے آخري حج (۱۰ھ) سے واپسي پربيان فرمائي ۔
پيغمبراسلام نے دسويں ہجري ميں ہزاروں لوگوں کے درميان کہ جوسب کے سب امت مسلمہ ميں سے تھے حج ابراہيمي کو ادا کيا اور سارے زمانہ جاہليت کے قوانين کو ايک بار پھر غلط ثابت کرکے ختم کيا اور مدينہ کي طرف واپس سفرشروع کياابھي مکہ سے کچھ ہي دورہوئے تھے کہ يہ آيت نازل ہوئي ”ياايھاالرسول بلغ ماانزل اليک من ربک وان لم تفعل ممابلغت رسالتہ“ (سورہ مائدہ ۲۸) يہ ايک ايسا اہم فريضہ تھا کہ جس کا ادانہ کرنا ابلاغ رسالت ادانہ کرنے کے برابرتھا اور پھرخداوند اس آيت کے تسلسل ميں بيان فرماتاہے ”واللہ يعصمک من الناس“ يعني خداوندتم کو لوگوں کے شرسے بچائے گااس آيت کے اتني واضح وضاحت کے ساتھ نازل ہونے پرپيغمبرکے لئے ان کافريضہ روشن ہوگيا ۔
آيت کے نازل ہونے کے فورا بعد رسول خدانے کاروان کوروکنے کاحکم ديااوروہ بھي ايسي حالت ميں کہ جب حاجي ايک ايسے مقام کے نزديک ہوچکے تھے کہ جہاں سے مدينہ، مصراورعراق کے مسافرالگ الگ ہوجاتے تھے، امين وحي فرماتے ہيں کہ آج وحي کے بيان کے ساتھ ساتھ آپ لوگوں سے کچھ اوربھي کہناچاہوں گايہ ايک ايسامقام تھا کہ جہاں رسول اللہ جو کچھ ارشادفرماتے وہاں موجود ہزاروں سننے والے واپسي پراپنے علاقوں ميں دوسروں تک پہچاتے اور پھرآخرکارمقام غديرخم پرسب قافلے جمع ہوگئے موسم بہت گرم تھا اورلوگوں کوبہت شدت سے اس بات کاانتظارتھا کہ آخرکونساحکم الہي ہے کہ جس کے لئے رسول خدا نے تمام قافلوں کو روکا ہے پيغمبراسلام ہزاروں لوگوں کے درميان ميں سے منبر پرتشريف لے گئے کہ جوپالان شترکابنا ہوا تھا رسول خدا نے ايک نظر اپنے چاروں طرف کے مجمع پرگھمائي کہ جس پرسکوت طاري تھا اور سب لوگوں کي نگاہيں پيغمبراسلام پرجمعي ہوئي تھيں ايسے عالم ميں رسول خدانے ارشاد فرماناشروع کيااورسب سے پہلے خداکي حمدوثناء کي پھراپني صداقت کے بارے ميں لوگوں سے زباني تجديدبيعت لي لوگوں نے يہ عالم ديکھ کررونا شروع کرديا اسي دوران رسول خدانے مجمع پرنظرڈالي اورحضرت علي کواپنے پاس بلاياحضرت علي رسول خدا کے پاس منبرپران کے برابرميں آکھڑے ہوئے اس کے بعدرسول خدانے لوگوں سے فرمايا ”ياايھاالناس من کنت مولاہ فھذاعلي مولاہ“ اور فرمايا کہ خدايا ان لوگوں کو دوست رکھ کہ جوعلي کو دوست رکھتے ہوں اور ان لوگوں سے دشمني رکھ کہ جوعلي سے دشمني رکھتے ہيں اورتمام باتيں پيغمبراسلام نے اس حالت ميں ارشادفرمائيں کہ جب پيغمبراسلام حضرت علي کے ہاتھ کواپنے ہاتھ ميں لے کر اوپر اٹھائے ہوئے تھے رسول اللہ کي اس گفتگو کے ختم ہوتے ہي ايک خيمہ بنايا گيا کہ جس ميں لوگوں نے قافلوں کي صورت ميں آنا شروع کيا اور لوگوں نے حضرت علي کے ہاتھ پر اس عنوان سے کہ وہ رسول اللہ کے بعد ان کے جانشين اورخليفہ برحق ہيں بعيت کي ۔
source : http://www.taghrib.ir