اقتباس از مصائب آل محمد چاپ مجمع جہانی شیعہ شناسی
١۔ رسول خدا(ص)نے فاطمہ سے فرمایا :
کل عین باکیة یوم القیامة الّا عین بکت علی مصاب الحسین فانّھا ضاحکة مستبشرة بنعیم الجنة
ہر آنکھ قیامت کے دن روئے گی لیکن صرف وہی آنکھ ہنستی ہو گی جو مصائب حسین پر روئی ہو گی وہ بہشت کی نعمتوں سے خنداں و شاداں ہو گی ۔ (١ )
٢۔ حضرت سید سجاد نے فرمایا:
''ایّما مومن زرفت عیناہ لقتل الحسین حتیٰ تسیل علی خدّہ ''
جو مومن امام حسین کی شہادت پر اس طرح آنسو بہائے کہ اس کے رخسار تر ہو جائیں تو خداوند عالم اس کے لئے بہشت کے دریچوں کو مخصوص قرار دے گا جس میں وہ ہزاروں سال رہے گا۔ ہمارے دشمنوں سے جو مصائب ہم پر ڈھائے گئے ان پر جو مومن ہمارے اوپر اس طرح روئے گا کہ آنسو رخسار تک ڈھلک آئیں تو خداوند عالم اسے منزل صدق ( بہشت کے بلند ترین مقام )میں ٹھہرائے گا ۔ (٢)
٣۔ امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا :
ہم پر جو ستم ڈھائے گئے ہیںان پر آہ کرنا تسبیح ہے، ہم پر غم کرنا عبادت ہے اور ہمارا راز پوشیدہ رکھنا راہ خدا میں جہاد ہے پھر فرمایا: میری اس بات کو آب زر سے لکھ لینا چاہئے ۔ (٣)
آپ نے یہ بھی فرمایا : ''لکلّ سرّ ثواب الّا الدّمعة فینا ''
ہر مصیب پر صبر کرنا اور پوشیدہ رکھنا ثواب ہے سوائے ہمارے غم میں آنسو بہانے کے ( کیونکہ اس میں اظہار و اعلان کا بہت اجر ہے )۔ (٤)
٤۔ جلیل القدر عالم سید بن طاؤوس (متوفیٰ ٦٦٤ھ)فرماتے ہیں کہ آل محمد سے منقول ہے :
جو شخص ہمارے مصائب بیان کر کے روئے یا سو آدمیوں کو رلائے ہم اس کے جنت کے ضامن ہیں اور جو پچاس آدمیوں کو رلائے اس کے لئے جنت ہے اورجو تیس آدمیوں کو رلائے اس کے لئے جنت ہے اور جو ایک آدمی کو رلائے اس کے لئے جنت ہے اور جو رونے والے کی صورت بنائے اس کے لئے بھی جنت ہے ۔ (٥ )
امام رضا نے پہلی محرم کو ریان بن شبیب سے گفتگو کے درمیان فرمایا :
اے فرزند شبیب! اگر تم پسند کرتے ہو کہ تم جنت میں ہمارے بلند درجات میں رہو تو ہمارے غم میں غمگین ہو اور ہماری خوشی میں خوش ہو اور تم پر ہماری ولایت لازم ہے ۔ اگر کوئی شخص کسی پتھر سے بھی ولایت کا دم بھرے تو خدا اس کو اسی کے ساتھ محشور فرمائےگا۔(۶)
عزائے اہلبیت میں اشعار پڑھنا
جعفر بن عفان عزائے حسین میں اشعار کہہ کے حضرت صادق آل محمد کی بارگاہ میں حاضر ہوئے امام نے ان سے کہا: میں نے سنا ہے تم نے عزائے حسین میں بڑے اچھے اشعار کہے ہیں ۔ عرض کی: جی ہاں !
فرمایا :پڑھو ۔ انہوں نے اپنے اچھے اشعار سنائے انہیں سن کر امام بھی روئے اور جو لوگ وہاں موجود تھے وہ بھی روئے، اس کے بعد امام نے فرمایا: اے جعفر !خدا کی قسم خدا کے مقرب فرشتے یہاں موجود تھے اور غم حسین میں تمہارے اشعار سن رہے تھے انہوں نے ہم سے زیادہ گریہ کیا خدا نے اسی وقت تمہیں بخش دیا اور بہشت تم پر واجب کر دی ۔
اس کے بعد فرمایا : اے جعفر کچھ اور نہیں سناؤ گے ؟
جعفر نے عرض کی : ضرور سناؤں گا ۔
امام نے فرمایا : جو شخص غم حسین میں ایک شعر کہے اور لوگوں کو رلائے خدا اس پر بہشت واجب کر دے گا اور اسے بخش دے گا ۔ (۷)
مقصد عزائے حسین
گریہ و سوگواری کی چند قسمیں :
گریہ ٔ شوق گریہ ٔدلسوزی و عاطفی ، دشمن سے نفرت کے اظہار کا گریہ ،ذلت آمیز اور ناپسندیدہ گریہ، عاجز و شکست خوردہ گریہ ۔
اسی طرح سوگواری کی بھی دو قسمیں ہیں : مثبت اور منفی
منفی سوگواری وہ ہے جو نا امیدی ، مایوسی اور جمودو عاجزی کا سبب ہواور ذلت و شکست کی پہچان ہو ۔
مثبت سوگواری وہ ہے جس میں ظلم و ستم کے خلاف فریاد اور حرکت ہو جس سے ظالموں کے خلاف نفرت کا جذبہ بھڑک اٹھے ۔
ایک دانشور نے کہا ہے کہ :
''زبان ہمیشہ عقل کی ترجمان ہوتی ہے لیکن عشق کی ترجمان آنکھ ہے ، جب بھی احساس درد کی وجہ سے آنسو ٹپکے گا عشق آموجود ہو گا ، لیکن جب زبان اپنی مرتب گردش میں آکر منطقی جملے کہے گی عقل موجود ہو گی، بنابریں جس طرح خطیب کے لا جواب کر دینے والے منطقی دلائل ان کے رہبر ان مکتب کے مقاصد کو اجاگر کرتے ہیں اسی طرح آنسوؤں کے قطرے بھی جذباتی اعلان جنگ کر کے دشمنان مکتب کے خلاف شمار کئے جاتے ہیں ۔ '' (۸)
اسی بنیاد پر رسول خدا (ص)اور اماموں نے ان لوگوں کو جو نہیں رو سکتے ''تباکیٰ'' ( رونے والوں کی صورت بنانے )کی دعوت دی ہے تاکہ یاد حسین ہر عہد اور ہر عصر میں دلوں کے اندر زندہ رہے، صادق آل محمد نے فرمایا ''من تباکیٰ فلہ الجنة '' جو رونے والوں کی صورت بنائے وہ جنت کا مستحق ہے۔ (۹ )
ظاہر ہے کہ تباکیٰ اسی وقت ہوتا ہے جب انسان کی آنکھ سے آنسو نہ گرے لیکن مطالب سن کر متاثر ہو ۔
نتیجہ یہ نکلا کہ
حضرت زینب اور اہلبیت کا گریہ جذباتی اور تبلیغ سے بھر پور گریہ تھا، نہی از منکر، شور انگیز طاغوت کو بھسم کرنے والا، ظالموں کو رسوا کرنے والا گریہ تھا ،یہ گریہ ہمیشہ جذباتی جنگ کے عنوان سے ستمگروں اور طاغوتوں کے خلاف جاری ہے اور انقلابی زمانوں میں کسی وقت بھی اس جذباتی حرکت و تڑپ کو فراموش نہیں کرنا چاہئے ۔ اس تڑپ کو شعائر اور شعار کے عنوان سے برتنا چاہئے کیونکہ اصولی طور سے شعار و شعور جد و جہد کی سمت متعین کرتے ہیں اور انسانوں کو اسی سمت میں متحرک رکھتے ہیں ۔
حوالہ جات
١۔بحار الانوار ،ج٤٤،ص ٢٩٣
٢۔اللہوف ص٩
٣۔ترجمہ نفس المہموم ص١٧
٤۔بحار الانوار ،ج٤٤،ص ٢٨٧
٥۔ اللہوف ،ص١١
۶۔عیون الاخبار ،ج١،ص ٢٩٩،بحارالانوار ،ج ٤٤،ص ٢٧٨۔٢٩٦ ، نفس المہموم باب اول فصل دوم
۷۔رجال کشّی ص١٨٧
۸۔ شرح کتاب انگیزۂ پیدائش مذہب ص١٥٠
۹۔ امالی صدوق ،مجلس ص٢٩
source : http://www.alhassanain.com