قمر بنی ہاشم حضرت ابو الفضل العباس (ع) بن علی بن ابی طالب (ع)کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ علی (ع) جیسے امام معصوم نے آپ کی تمنا کی اور اپنے بھائی عقیل سے فرمایا کہ میرے لئے عرب کے بہادر اور اصیل خاندان سے ہمسری کے لئے خاتون کا پتہ بتادیجئے تاکہ اس سے بہادر بیٹا پیدا ہو ،جناب عقیل نے کہا: قبیلۂ کلاب سے فاطمہ نام کی خاتون سے شادی کرلو.ایسا نہیں ہے کہ علی (ع) عرب کے قبیلوں اور ان کے حسب و نسب سے ناواقف تھے ،صحابی رسول (ص)حضرت ابوذرغفاری(رض)کہتے ہیں کہ ایک روز میں اور علی (ع) بیابان کی طرف گئے وہاں پر چیونٹیاں بہت زیادہ تھیں ،ابو ذر (رض)نے کہا کہ پاک ہے وہ خدا جس نے ان چیونٹیوں کو پیدا کیا ،علی (ع) نے فرمایا کہ میں ان کی تعداد جانتاہوں کہ یہ کتنی ہیں اور یہ بھی جانتا ہوں کہ ان میں نر کتنی ہیں اور مادہ کتنی ہیں ،جو علی (ع) حشرات الارض کے بارے میں اتنی تفصیل سے جانتے تھے تو کیا وہ عرب کے قبیلوں کے بارے میں نہ جانتے ہوں گے؟ بے شک سب سے بہتر جانتے تھے لیکن آپ نے اپنے اس عمل سے ہمیں دو درس تعلیم فرمائے ،۱۔ہمسر کی تلاش میں بزرگوں سے مشورہ ضروری ہے ،انسان چاہے خود کتنا ہی عظیم کیوں نہ ہو لیکن اسے ہمسر کی تلاش میں بزرگوں سے مشورہ ضرور کرنا چاہئے ،۲۔جناب عقیل اپنے زمانے کے بہترین نساب تھے لہٰذا حضرت علی (ع) نے اس مسئلہ میں اُن کی طرف رجوع کرکے بتادیاکہ انسان سماج میں جو کام بھی انجام دے اُس میں اس کے متخصص ﴿ماسٹر﴾ سے رجوع کرے اور معجزے پر آس لگاکر نہ بیٹھے اور انہیں راستوں سے اپنے مسائل کا حل ڈھونڈے جو فطری ہیں ،بہر حال امام علی (ع) نے فاطمہ کلابیہ سے عقد فرمایا اور 4شعبان 26ہجری کو تمنائے علی (ع) نے حضرت عباس (ع) کی شکل میں حقیقت کا جامہ پہنا ،حضرت عباس (ع) کی تربیت حضرت علی (ع) نے فرمائی ،حضرت علی (ع) حضرت عباس (ع) کو بار بار یہ احساس دلاتے تھے کہ تمہیں کربلا کے لئے مہیا کیاگیا ہے ،حضرت علی (ع) نے حضرت عباس (ع) کو فن سپہ گری میں بھی مہارت کرادی تھی ،لہٰذا مشہور ہے کہ جنگ صفین میں حضرت عباس (ع) بڑے بڑے پہلوانوں کو اُن کے گھوڑے سمیت دو ٹکڑے کردیتے تھے جس سے شامی پہلوان آپ کے مقابلہ پر آنے سے کترانے لگے، جب کہ اس وقت آپ نے اپنی عمر کی صرف 15بہاریں ہی دیکھی تھیں ،حضرت عباس (ع) بہت ہی باکمال اور ایسی فضیلتوں کے مالک تھے جو غیر معصومین میں بہت کم ہوتی ہیں ، امام حسین (ع) جیسے عظیم امام نے آپ (ع) کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا : ’’بنفسی انت یا اخی‘‘یعنی اے میرے بھائی تم پر میری جان فدا ہوجائے،امام حسین (ع) کا کوئی جملہ غیر سنجیدہ نہیں ہوسکتا، لہٰذا حضرت عباس (ع) پر امام حسین (ع) جیسا معصوم امام (ع) اپنی جان فدا کرنے کوکہے تو حضرت عباس (ع) کی عظمت کا اندازہ لگانا مشکل ہے .امام زین العابدین (ع) فرماتے ہیں کہ : روز قیامت خدا کے نزدیک عباس (ع)کی وہ قدر و منزلت ہوگی جسے دیکھ کر تمام شہدأ غبطہ کریں گے،اس کا مطلب یہ ہے کہ حضرت عباس (ع) کا مرتبہ خدا کے نزدیک دوسرے شہدأ سے زیادہ ہوگا جبھی تو وہ غبطہ کریں گے.امام صادق (ع) فرماتے ہیں کہ ہمارے چچا عباس (ع) بن علی (ع) بن ابی طالب (ع) قوی ایمان اور نفوذ کرنے والی فکر رکھتے تھے ، جس کے ایمان کے قوی ہونے کی سند امام معصوم عطا کردے پھر کون اس کے بارے میں شک کرسکتا ہے .امام زمانہ (ع) فرماتے کہ : سلام ہو عباس (ع) بن علی (ع) پر کہ جنھوں نے اپنی دنیا کو آخرت حاصل کرنے پر صرف کیا اور اپنی جان کو اپنے بھائی کی حفاظت پر نچھاور کردیا اور اپنے بھائی کے بہترین ہمدرد تھے. امام سجاد (ع) کربلا میں شہدأ کودفن کرنے تشریف لائے تو آپ (ع) نے امام حسین (ع) اور حضرت عباس (ع) کے بدن کو خود دفن کیا اور بقیہ شہدأ کے دفن کی اجازت بنی اسد کے لوگوں کو دی ،معصوم کے بدن کو معصوم ہی دفن کرتا ہے لیکن حضرت عباس (ع) غیر معصوم ہوتے ہوئے کتنے با عظمت ہیں کہ امام معصوم نے آپ کو دفن کیا. امام حسین (ع) نے کربلا میں علمداری اور سقائت کا منصب دے کر حضرت عباس (ع) کو فضیلتوں کی معراج عطا کردی ،یہ دونوں منصب اتنے اہم ہیں کہ انہیں حاصل کرنے کے لئے عرب ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کرتے تھے ،لیکن حضرت عباس (ع) کویہ دونوں منصب بغیر کوشش کے ہی مل گئے ،سقائت کا منصب بنی ہاشم کا مرہون منت ہے ،عرب میں پانی پر جھگڑے ہونا عام بات تھی ،اور پانی پر چھڑنے والی جنگ کئی کئی سال تک جاری رہتی تھی جس میں طرفین کی بہت خونریزی ہوتی تھی،لہٰذا بنی ہاشم نے سقائت کا سلسلہ شروع کرکے پانی پر ہونے والے جھگڑوں کا سد باب کردیا ،بھلا جب مفت پانی پلایا جانے لگے اور وہ بھی معاشرے کے شریف ترین لوگوں کے ہاتھوں ،تو پھر پانی پر جنگ کون کرے گا ،حج میںہاشم، عبد المطلب(ع) اور ابوطالب (ع)و عباس(رض)نے سقائی کی،صفین میں فرات پر شامیوں نے جب قبضہ کرلیا اور لشکرعلی (ع) کو پانی سے محروم کردیاگیا تو آپ نے اپنے جانبازوں کے ذریعہ فرات کو شامیوں کے قبضے سے آزاد کرایا اور فرات کے گھاٹ کو بشمول لشکر شام تمام جانداروں کے لئے کھول دیا ،امام حسین (ع) جب مکہ سے کربلا کے لئے روانہ ہوئے تو حر اپنے 1000سپاہیوں کے ساتھ امام کا راستہ روک کر انہیں گرفتار کرنے آپہنچا تو امام نے دیکھا کہ اس کے پورے لشکر کا پیاس کے مارے برا حال ہے ،امام حسین (ع) نے یہ جانتے ہوئے بھی کہ حر میرا دشمن بن کر آیا ہے حضرت عباس (ع) کو حکم دیا کہ حر کے لشکر کو مع حیوانات کے سیراب کردو ،یہ تمام واقعات بنی ہاشم کی اُس سقائی کو بیان کررہے ہیں کہ جس کا سلسلہ اگر بنی ہاشم نے شروع نہ کیا ہوتا تو آج تک پانی کے لئے خونریزی ہوتی ،یہ بنی ہاشم کی حکمت عملی ہے جنھوں نے پانی جیسی اہم چیز کو جانداروں کے لئے اتنا آسان بنادیا کہ پانی پر سب کی دسترس ہوجائے اور انسان کسی سے بھی پانی کا سوال کرتے ہوئے نہ شرمائے،یہی وجہ ہے کہ انسان کتنا ہی بھوکا کیوں نہ ہو وہ کسی سے کھانے کا یا روٹی کا سوال نہیں کرتا لیکن اگر تھوڑی سی بھی پیاس محسوس ہوتی ہے تو پانی کاسوال ہر ایک سے کرلیتا ہے،اب نہ پانی پلاتے وقت کسی کا قبیلہ دریافت کیا جاتا ہے اور نہ مذہب معلوم کیاجاتا ہے بلکہ مقصد صرف یہ ہوتا ہے کہ پیاؤ یا سبیل سے پیاسے انسانوں کے کلیجے ٹھنڈے ہوتے رہیں .میڈیا کے ذریعہ اس بات کی تشہیر ہورہی ہے کہ تیسری عالمی جنگ پانی پر ہوگی ،اگر دنیا کے تمام ممالک بنی ہاشم خصوصاً اہل بیت (ع) کی پیروی کرلیں تو پانی پر قیامت تک جنگ نہیں ہوسکتی .لوگوں کو پانی پلانے کا بے حد ثواب ہے اور اتنی ہی تاکید بھی ہے ،واجب نماز کے لئے وضو کرنا بھی واجب ہوتا ہے لیکن اگر کوئی جاندار پیاس کی شدت سے تکلیف محسوس کررہاہو اور پانی صرف اتنا موجود ہو جس سے وضو ہوسکتا ہے تو پانی جاندار کو پلا کر تیمم سے نماز ادا کی جائے گی ﴿دیکھئے توضیح المسائل ،آیت اللہ سیستانی، مسئلہ نمبر682،صفحہ111 ﴾،رسول اسلام فرماتے ہیں کہ جب بھی تمہارے گناہ زیادہ ہوجائیں پیاسے لوگوں کو خوب پانی پلاؤ،بہر حال سقائی قریش کا وہ اعلیٰ منصب تھا جس پر عرب فخر کرتے تھے ،البتہ قریش میں اس منصب کے متولی بنی ہاشم ہی تھے ،لیکن سقا کا لقب بنی ہاشم میںصرف حضرت عباس (ع) ہی کو ملا ،حضرت عباس (ع) کے اجداد کو سقائی میں نہ تو خود پیاسا رہنا پڑا ،نہ ہاتھوں کو قلم کرانے کی نوبت آئی اور نہ پانی کے بدلے خون بہانا پڑا ،حضرت عباس (ع) کی سقائی اسی لئے اہم اور مشہور ہے کہ آپ نے نہ صرف تین دن کی بھوک و پیاس میں پانی پر قبضہ کرکے سقائی کو معراج عطا کردی یعنی خود پانی نہیں پیا بلکہ بچوں کو سیراب کرنے کی خاطر بدن کے خون کا آخری قطرہ تک بہادیا اور سیرت بنی ہاشم کو ملحوظ رکھتے ہوئے آپ نے پانی پر جنگ بھی نہیں کی بلکہ آپ نے ان یزیدیوں سے دفاع ضرورکیا جو آپ کی سقائی میں سد راہ ہورہے تھے،اسی طرح جب دو محرم کو یزیدی فوجوں نے امام حسین (ع) کے خیام کو فرات کے کنارے سے ہٹانے کی بات کہی تو حضرت عباس (ع) کے ہوتے ہوئے اسے عملی جامہ پہنانا یزیدیوں کے بس کی بات نہ تھی لیکن حضرت عباس (ع) نے اسی لئے خاموشی اختیار کرلی کہ اگر پانی پر جنگ ہماری طرف سے شروع ہوگئی تو اجداد کی ساری محنت اکارت ہوجائے گی اور پانی پر دوبارہ خونریزی کا سلسلہ شروع ہوجائے گا ،یہی وہ خصوصیتیں ہیں جن کی بناپر آپ سقائے سکینہ کے لقب سے مشہور ہیں ،سکینہ امام حسین (ع) کی کمسن بچی اور حضرت عباس (ع) کی چہیتی بھتیجی کانام ہے ،حضرت عباس (ع) سے جب سکینہ (ع) کی پیاس نہ دیکھی گئی تو آپ سقائی کے واسطے نہر فرات پر تشریف لے گئے اور اس راہ میں اپنی بیش قیمتی جان کا نذرانہ پیش کردیا ،اس لحاظ سے آپ کی شہادت بہت ہی درد ناک ہے کہ نہ تو آپ کی جنگ کی حسرت پوری ہوئی اور نہ سقائی کی آرزو ،چونکہ اس راہ میں آپ کے بازو قلم ہوچکے تھے لہٰذا کس طرح زین سے زمین پر تشریف لائے ہوں گے ؟
source : http://www.fazael.com