اردو
Monday 22nd of July 2024
0
نفر 0

اثبات ولایت امیر المومنین

انما ولیکم اللہ و رسولہ والذین آمنوا الذین یقیمون الصلوة و یوتون الزکوٰة و ھم راکعون من یتول اللہ و رسولہ والذین آمنوا فان حزب اللہ ھم الغلبون “ (سورہ مائدہ ، آیہ ۵۵و۵۶)

ہم سب انسان ایک طویل مدت سے اس زمین پر زندگی بسر کررہے ہیں ، ہم نے توالد و تنامل کا ایک سلسلہ اس دنیا میں قائم کیا اور اجتماعی اور تمدنی زندگی بسر کرنے کی راہ اختیار کی ۔ 

اور پورے معاشرے کی فلاح و بہبود کے لیے مل جدو جہد کی اور ہر شخص کو اپنی اہمیت و شخصیت کے مطابق اس اجتماعی محنت کے اچھے نتائج کا حصہ ملتا رہا، اب تک جو ہم نے حاصل کیا ، وہ ہماری اجتماعت کا نتیجہ ہے ، افراد کی طرف سے اپنی انفرادیت اورمکمل خود مختاری کے خاتمے کے بغیر نہ آگیا معاشرہ وجود میں آسکتا ہے ، اور نہ ہی انسان ترقی کی ہر منزلیں طے کر سکتا ہے ۔ 

انسان معاشرے کا رکن سے اور باہمی تعاون سے اور شرکت کی راہ اختیار کرنے کے لیے بعد کو ئی بھی شخص نہ مطلق العنان ہوسکتا ہے ، نہ ایسے ایسی آزادی مل سکتی ہے ، کہ جو چاہے کرے ۔ اور اسے کوئی روکنے والا نہ ہو ، اس سبب کے باوجود ۔ اگر انسان زندگی تھوڑی بہت انفرادیت کو حاصل نہ ہو ، تو اس کی اصلیت ثابت نہیں ہوتی ، انسان کی انفرادیت ہی معاشرہ ہے ۔ 

انسان اور معاشرہ لازم و ملزوم ہے ۔

معاشرے کا انحصار انسان کے انفرادی شعور و ارادے پر ہے ، اگر انفرادی شعورو ارادے کو انسان سے سلب کرلیا جائے تو معاشرہ بھی تباہ ہوجائے گا ، اور اس کے اور ارکان بھی ختم ہوجائیں گے ۔ وہ چاہتے ہیں جیسے ہی معاشرہ ہو ، ہر شخص معاشرتی زندگی کو گود میں پلتے بڑھتے ہوئے ایسے کام بھی انجام دیتا ہے جو اس کی اپنی ذات اور شخصیت سے متلق ہو ۔ 

لیکن بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ بعض افراد اپنے ذاتی کام انجام دینے کے قابل نہین رہتے جیسے وہ بیمار جو ذہنی مرض کا شکار ہو ، اور جن کے حواس پرگندہ ہو ، یا وہ دوسرے کی بانسبت ارادہ اور شعور کی کم طاقت رکھتے ہوں ۔ ایسی صورت میں دوسرے انسانوں کو ان کی دیکھ بھال کا کام انجام دینا پڑتا ہے اور ان کی حدمت کرنے پڑتی ہے ۔ اور اس طرح بچے جب تک بڑے اور بالغ نہیں ہوجاتے ، ان کے بڑوں کو ان کا نگران رہنا پڑتا ہے ، اور ان کی تعلیم اور تربیت کا انتظام کرنا پڑتا ہے تاکہ وہ مکمل مرد و عورت بن کر معاشرہ میں اپنا کردار ادا کرے اسی طرح ہر انسان معاشرے ہیں ۔ 

ایسے ادارے بھی ہوتے ہیں ، جن سے نہ کوئی خاص طبقہ استفادہ کرتا ہے اور نہ کوئی خاص طبقہ ان اداروں کا سر براہ ہوتا ہے بلکہ یہ ارادے عام لوگوں کے لیے ہوتے ہیں ، جیسے اوقات عامہ کے ارادے ۔ 

اصل چیر یہ ہے کہ ․․

کسی بھی انسانی معاشرے کے لیے نگہبانی اور تحفظ کا ایک نظام ضروری ہوتا ہے ، چونکہ کوئی بھی معاشرہ اس وقت تک قائم اور باقی نہیں رہ سکتا جب تک اس کے افراد متفقہ طور پر یا اکثریت کے ذریعے کچھ قوانین و ضوابط اور طریقے وضع نہ کریں ، اور سب مل کر ان کا احترام نہ کریں ۔ مثلاً خرید و فروخت کے معاملات کو لیجئے ۔ 

جس میں خریدار کو اور فروخت کرنے والے کو کچھ شرائط کی پابندی کرنے پرتی ہے ، اگر یہ طے کرلیا جائے کہ دونوں کو کسی بات کی پابندی نہیں کرنی ہوگی ، تو شاید ہی کوئی عقل و فہم رکھنے والا ایسے کسی تجارتی معاملہ ہیں فریق نہیں پسند کرے ۔ اس طرح کے وسائل زندگی کا حصہ ہے ۔ 

اجتماعی زندگی بسر کرنے والا شخص بے شمار وسائل استعمال کرکے ہی اور معاشرے کی ضرورت پوری کرسکتا ہے ، ان وسائل کے استعمال کے لیے ایسے قوانین و ضوابط کی ضرورت ہوتی ہے ، جو متفقتہ طور پر با اکثریت کی منظوری سے وضوع کیے گئے ہوں ، کوئی بھی معاشرہ قوانین اور رسول و رواج کے بغیر زندہ و باقی نہیں رہ سکتا ۔ 

قوانین اور رسول و رواج کی اس اہمیت کے باوجود یہ کہنا درست ہوگا ، کہ کسی بھی معاشرے کی بقا کے لیے رسوم و رواج اور قوانین کا فی نہیں ہوتے ۔ 

کیونکہ کوئی دو آدمی بھی اپنے مزاج ․․․ سمجھ بوجھ ․․․ قوت ارادی اور اس طرح اپنے طرز عمل میں ہر اعتبار سے ثلث نہیں رکھتے ۔ 

بنیادی انکار ہیں اتفاق رکھنے کے باوجود لوگوں کا اس کی تفصلات میں قطعی طور رپ ایک دوسرے سے اختلاف رکھتے ہیں ، اور اسی لیے ان کے فیصلے بھی ایک جیسے نہیں ہوتے ۔ 

نتیجہً وہ مختلف سمتوں کا رخ کرتے ہیں ، اور پھر تمام قوانین اور رسم ورواج درہم برہم ہوجائیں گے ۔ 

اس زمین پر ہرانسانی زندگی کی تاریخ کا مطالعہ اور مختلف معاشروں اور ان میں قائم ہونے والی حکومتیں کامشاہدہ بھی اس بات کی تائید کرتا ہے کہ معاشرے کو اپنی بقا کے لیے ․․․․ ایک ایسے بااختیار شخص یا بااختیار ارادے کی ضرورت ہوتی ہے ۔ جس کا شعور اور ارادہ ․․․ دیگر افراد کے شعور و ارادے پر غالب رہے ، اور نگہبانی و تحفظ کے اس نظام کو چلائے جو اس معاشرے میں قائم کیا گیا ۔ 

ہم نے انسانی زندگی کے جن گوشوں اور شعبوں کا ذکر کیا ہے ، وہ تمام انسان معاشرے ہیں دیکھے جاسکتے ہیں ، اور انسان اپنی خداداد فطرت کی بنا پر ان سے بے توجہی نہیں برت سکتا ۔ اور مطمئن ہوکر نہیں بیٹھ سکتا ۔ 

وہ زندگی کے ہر شعبہ میں کسی شخص یا کسی ارادے کو ذمہ دار قرار دے گا ، تاکہ وہ اس کو دیکھ بھال کرے اور اس کے تمام امور کو انجام دے ۔ 

مثلاً کسی یتیم خانے کا سر براہ یتیموں کا سرپرست ہوتا ہے ․․․ اور خاندان کا سربراہ گھر کے تمام کھن بچوں کو بہبود کا ذمہ دار اسی طرح وزارت اوقات یا محکمہ اوقات یا محکمہ اوقات․․․ اوقات عامہ کے امور کا انجام دینا ہے ۔ بادشاہ یا صدر جمہوریہ کا روبار حکومت چلاتا ہے ․․․ ہم ایسے شخص یا ارادے کو ولدیت کا نام دیتے ہیں ۔ 

جو عام لوگوں کے امور کا ذمہ دار ہوتا ہے ، اور ان کی فلاح و بہبود کے لیے خدمات انجام دیتا ہے جو لوگوں کی فلاح کے لیے ہوں ۔ 

بحث انداز 

ولدیت پاپی معنی و مفہوم ہے جو ہمارے مقالے کی بحث کا موضوع ہے ، ہم اس کے بارے ․․ اسلام کے مقدس آئین کا نقطہ نظر کو پیش کرنا چاہتے ہیں ، لیکن جو کچھ پیش کریں گے وہ اسلام کے فلسفہ اجتماعی کو پیش کریں گے ۔ 

اور ہمارا طرز استدلال اسلامی فقہ خصوصاً شیعہ فقہ کا طرز استدلال نہیں ہوگا ، جو لوگ شیعہ فقہ سے واقف ہیں ، وہ دیکھیں گے کہ اس مقالہ کی بحث انداز اس طرز عمل سے مختلف ہوگا ۔ جو لوگ شیعہ فقہ سے واقف ہیں وہ دیکھیں گے کہ اس مقالہ کے بحث انداز اس طرز استدلال سے بہت مختلف ہوگا ۔جو احکام شریعت سے متعلق فقہی مباحث کے اندر اختیار کیا جاتا ہے ۔ 

ولایت فطری مسئلہ 

جیسا کہ ہم پہلے وضاحت کرچکے ولدیت کا تعلق انسان کے لیے ضروری اور بنیادی امور میں سے ہے کہ ان امور سے غفلت نہیں برتنی چاہیئے اور نہ سکتی ہے حکومت کی خاص شخص کی جاگیر نہیں ہے ، کہ وہ اس کا اہل و مستحق نہ بھی ہو ،اور پھر بھی امور عامہ کی بھاگ دوڑ اپنے ہاتھ میں لے لے ۔

جیسے یتامیٰ اور مساکین کا اموال کا انتظام ․․․ مجنون اور پاگل افراد کی دیکھ بھال حکومت سے تعلق رکھنے والے ایسے امور عامہ جنھیں کسی اہل منتظم کے نہ ہونے کی بناپر پراگندگی اور بدنظمی کے حوالے نہیں کیا جاسکتا ۔ 

کوئی بھی معاشرہ چاہے ترقی یافتہ ہو یا پسماندہ ․․․ بڑا ہو یا چھوٹا اس طرح مفاد عامہ کے امور سے غفلت نہیں برت سکتا ۔ چنانچہ ہر معاشرہ اپنے حالات کے مطابق ایک ولدیت کو وجود میں لاتا ہے ۔ 

ولدیت و رہبری کے فطری ہونے کے لیے ایک بڑا ثبوت یہ ہے کہ انسان اپنی خداداد فطرت کی بنا پر ․․․ ہر ایسے ضروری کام لے لیے ․․․ جس کا کوئی منتظم نہ ہو ایک سر پرست مقرر کرتا ہے ۔ 

ولایت اسلامی نقطہ نظر سے 

اسلام دین فطرت ہے ․․․ اس کے احکام و قوانین کی بنیاد فطرت پررکھی گئی ہے ۔ 

ظاہر ہے ، ایک دن فطرت ، ولایت جسے فطری مسئلے سے کس طرح بے توجہی برت سکتا ہے ، اور اسے کس طرح مسترد کرسکتا ہے ․․․؟ 

قرآن نیاس مسئلہ کو اہمیت واضح کرنے کے لیے ایک فرمان جاری کیا ۔ اور واضح اشارہ کیا : 

”فاقم وجھک للذین حنیفاً فطرت اللہ التی فطر الناس علیھا الا تبدیل لخلق اللہ ذالک الدین قیم ولکن اکثر النا لایعلمون “ 

پوری طرح یک ہو کر اپنا رخ دین اسلام کی طرف جمادو ۔ اور قائم ہوجاوٴ ، اس فطرت پر جس پر اللہ تعالیٰ نے انسان کو پیدا کیا ہے اللہ کی بنائی ہوئی ساخت بدل جاسکتی ، یہی بالکل راست اور درست دین ہے ، مگر اکثر لوگ نہیں جانتے ۔ 

توضیح 

جیسا کہ بعض آیات قرآن میں آچکا ہے کہ حیرت انگیز وسعت و عظمت رکھنے والی کائنات اپنا ایک وجود رکھتی ہے ․․․ یہ ایک ایسی اکائی ہے اور ․․․ ایسی وحدت کی حامل ․․․ کہ․․․ اس کے تمام اجزاء ․․․ ایک ننھے ذرے سے لے کر ․․․ بڑے بڑے سیاروں اور عظیم سے عظیم کہکشاں تک سب ایک دوسرے سے بندھے ہوتے ہیں ، اور باہم مربوط اور ایک دوسرے کے ساتھ پیوست ہیں ․․․ اور وہ ایک دوسرے سے متاثر ہوتے رہتے ہیں ۔ 

اس دائرہ زندگی میں جو بھی چھوٹی یا بڑی چیز داخل ہوتی ہے یا اس میں جو بھی تبدیلی رونما ہوتی ہے ، اس میں کائنات کے ان اجزاء کا ایک جز ہے اس لیے وہ دوسرے اجزاء سے الگ نہیں ہوسکتا ، اس کی حیثیت سمندر کے ایک قطرے سی ہے ، وہ سمندر کی موجوں اور طوفان کے ہاتھ مجبور و محکوم ہے ۔ وہ اس کائنات کے اجزاء سے کٹ کر کوئی انفرادی استقلال لو استحکام نہیں رکھتا نہ سب سے الگ ہوکر اپنا کوئی منفرد کام انجام دے سکتا ہے ۔ 

اس وسیع کائنات کا نظام جو مسلسل حرکت و عمل میں ہے ، ہر لمحہ عمومی تبدیلیاں رونما ہوکر کے موجودات و مخلوقات میں سے ہر مخلوق کو اس کے لیے نقطہ کمال تک پہنچاتا ہے ، اور اس مقصد کی جانب رہنمائی کرتا ہے ، اس لیے اس کو وجود عطا کیا گیا ہے ، جیسا کہ ہم دیکھتے ہیں ۔ 

ہر مخلوق کو فطرت کی طرف سے خاص قوتوں اور وسائل کے ساتھ پس کیا گیا ہے ، اور یہ قوتیں اور یہ وسائل اس کے مقصد زندگی کے ساتھ بڑی مناسبت رکھتے ہیں ، چنانچہ تمام مخلوقات اس قوتوں اور وسائل کو کام میں لاکر اپنی ضروریات پوری کرتی ہیں ، اور اپنے نقائص دور کرکے درجہ کمال تک پہنچنے کی کوشش کرتی ہے ۔ 

مندرجہ ذیل آیات جو بات عمومی طور پر کہی گئی اس سے ہمارے اس بیان کی بہتر تائید مل سکتی ہے ۔ 

”قال ربنا الذی اعطیٰ کل شیءٍ خلقہ ثم ھدیٰ“

ہمارا رب وہ ہے جس نے ہر چیز کو اس کی شناخت بخشی پھر اس کو راستہ بتایا سورہ طہٰ آیت ۵۰ ، پھر سورہ اعلیٰ کی آیت ۲/۳ میں ارشاد پروردگار ہوتا ہے ، جس نے پیدا کیا اور تناسب قائم کیا ، جس نے تقدیر بنائی پھر راہ دیکھائی ۔ انسان کو ہمیشہ فطری الہام و ہدایت کے ذریعے خیر خیر و شر اور اپنے نفع ونقصان کو سمجھنا چاہیئے ۔ کیونکہ انسان کائنات کو مستقل جز ہے اور اس تخلیق عامہ سے الگ نہیں بلکہ اس کا حصہ ہے اور یہ عالم فطرت اپنے ہر جز کو اس منزل کمال تک پہنچاتا ہے ، جو کہ اس کے لائق ہیں چونکہ انسان کا تعلق ایک ایسی خاص نوع ہے ، جو اپنے شعور اور ارادے کے ساتھ اپنے مقاصد زندگی کے لیے جدو جہد کرتی ہے ․․․ یہی وجہ ہے کہ ․․․ فطری الہام ، علوم و افکار کی صورت میں اس ہر جلوہ گر ہوتا ہے ۔ جیسا کہ آیت کریم میں ہے ، سورہ شمش آیت ۷ یا ۱۰ میں ارشاد ہوتا ہے اور نفس انسان کی اور اس کی ذات کی قسم جس نے اسے ہموار کیا اور پھر اس کی بدی اور پرہیزگاری اس پر الہام کردی ۔ یقینا فلاح پاگیا ۔ وہ جس نے نفس کا تزکیہ کیا ۔ اور نامزد ہو وہ جس نے اس کو دیادیا ۔ گذشتہ بحث سے یہ بات واضح ہوگی کہ انسدان کو فطری الہام و ہدایت اور علم وافکار سے آراستہ کیا گیا ہے ۔ جو زندگی کی جدو جہد میں اسے کامیاب کی ضمانت دیتے ہیں ۔ اورا ن کی رہنمائی میں راستہ طے کرکے انسان نظام فطرت کے ساتھ ہم آہنگی پیدا کرتا ہے ۔ 

اس صورت میں اس کے عمل اور کائنات کی ․․․ عمومی حرکت کے درمیان ․․․ کوئی ایسا اختلاف و تضاد باقی نہیں رہتا ۔ جو خود اس کے وجود کے لیے تباہ کن ثابت ہو ، یہی وہ بات ہے جو آیت میں آئی ہے سورة روم آیت ۳۰ میں ہے پہلی بات تو یہ ہے کہ جب انسان خوش نصیب حقیقت و فطرت کی راہ اختیار کرنے سے وابستہ ہے تو پھر معاشرہ میں اس طریق زندگی کا رواج ہونا چاہیئے جو کائنات کی عام خلقت اور انسان کی خصوصی فطرت کو اپچا سر چشمہ بنائے ، اور ان دونوں سے وہ پوری طرح ہم آہنگ ہو۔ 

دوسری بات یہ ہے کہ ․․․ نظام فطرت محکم و مضبوط ہے اس لیے جو کامل دین اور طریقہ زندگی اپنے سرچشمہ بنائے گا اور سبھی اپنی جگہ محکم اور مضبوط ہوچاہیئے اس کے برعکس ․․․جس طریق زندگی کی بنیاد خواہش نفس ہوگی ․․․ وہ ہر روز ایک نیا رنگ اختیار کرے ، نتیجتاً انسان راہ راست سے فطرتاً واقف ہونے کے باوجود غلط راہ پر پڑجائے گا ، اور شعوری یا غیر شعوری طور پرپستی اور بدبختی کے گڑھے میں جاکر گرے گا ۔ 

جیسا کہ سورہ حاشیہ آیت ۲۳ پھر کیا تم نے اس شخص کے حال پر بھی غور کیا جس نے اپنی خواہش کو اپنا خدا بنالیا ۔ 

اور اللہ کے علم کے باوجود اسے گمراہی میں پھینک دیا ۔ اسی طرح دوسری چند آیات انسان کو آگاہ کرلی ہے ، کہ اس کا طریق زندگی حق کے تابع ہونا چاہیئے ۔ ہویٰ ہوس کے تابع نہیں ہونا چاہیئے ۔ 

اسے عقل سلیم کا حکم ماننا چاہیئے ، نہ کہ نفسانی خواہشات کا سورہ یونس آیت نمبر ۳۲ اور پھر حق کے بعد گمراہی کے سوا اور کیا باقی رہ گیا پھر تیری بات یہ ہے ، قوانین فطرت کی مخالفت در اصل کائنات کی نظام تخلیق و ربوبیت کے ساتھ جنگ ہے ۔ 

یہ عظیم الشان اور طاقتور نظام با آخر اپنے ساتھ پنجہ آزمائی کرنے والے انسان کو یا تو نیست و نابود کردیتا ہے ․․․ یا ․․․ اسے مغلوب کرکے اپنی راہ پر لے آتا ہے ․․․ دین فطرت کی مخالفت کرنے والے انسان کو ․․․ ایک سخت دن کا ․․․ اور المناک عذاب کا منتظر رہنا چاہیئے ۔ 

سورہ روم کی متذکرہ بالا آیت کے بعد جو آیات آتی ہے ، ان میں سے اس بات کی طرف اشارہ ہے ۔ 

اصل موضوع : 

اسلام کی بنیاد فطرت پر رکھی گئی ہے اس کلی اصول کی بنا پر اسلام نے ضروری فطری احکام جاری کیے ہیں ، فطری ضروریات میں ایک ضروری مسئلہ کا تعلق ولدیت سے ہے ، یہ بات باکل واضح ہورہی ہے کہ رسول اکرم ﷺ کی حیات مبارکہ کہ دوران ․․․ خصوصاً ہجرت کے بعد ․․․ ولدیت کے تمام امور عامہ ․․․ گورنروں ․․․ قاضیوں کا تقرر ․․․ صداقت اور اوقات کے تمام شعبے جیسے امور عامہ عام تعلیم و تربیت اور مبلغین کو مختلف علاقوں میں بھیجا․․․ ایسے ہی دوسرے تمام کام اور شعبے ایک نظم کے تحت منظم تھے ، اس لیے مسلمانوں نے اجتماعی زندگی کے اس لازمی اصول و لدیت کے بارے میں حضور اکرم (ص)سے کوئی سوال نہ کیا ․․․ جب کہ وہ اس سے کم اہمیت رکھنے والی ․․․ متعدد چیزوں کے بارے میں پوچھتے رہے ، جیسے حیض ․․․ رویت ہلال ․․․ اور اتفاق کے مسائل کے بارے میں انھوں نے سوالات کیے ۔ اور ان کے بارے میں قرآن آیات نازل ہوئی ۔ ․․․ اس طرح سقسقیہ کا واقعہ بھی اس اصول کی تائید کرتا ہے ۔ 

اس اجتماع مین متعدد تجویزیں پیش کی گئی ۔ کسی نے کہا خلیفہ کو انصار سے ہونا چاہیئے ۔ کسی نے کہا کہ نہیں مہاجرین سے ہونا چاہیئے ، اور کسی مجالی نے کہا ، انصار میں ایک کو امیر بنادو اور ایک مہاجرین ہیں ۔ 

کسی نے یہ نہیں کہا ، کہ خلیفہ کا منتخب کرنا ضروری نہیں ہے تاکہ اسلام کا کوئی لازمی اصول نہیں ہے ۔ 

اس لیے اسلامی معاشرے کا پہیہ خود بخود حرکت نہیں کرسکے گا ۔ جب تک کوئی گھمانے والا موجود نہ ہو ۔

مسلمانوں کے درمیان ایک حکومت قائم ہونی چاہیئے ۔ 

ایک آیت قرآن دلیل ہے ، سورہ آل عمران آیت نمبر ۱۴۴ شان نزول کے بارے میں احد میں نازل ہوئی اور شکست کے بارے پر صدمہ ہے کہ جب رسول اکرم (ص)کے قتل کی افواہ پھیلی چند نے یہ سوچا کہ جنگ کے بعد از رسول جاری رکھتا بیکار ہے ، ہاتھ روک لیے اور شکست خوردہ ہوکر فرار ہوگئے ۔ اللہ نے اس آیت کریم سے سرزنش کی ہے ، محمد (ص)ان دوسرے پیغمبروں کو طرح پیغمبر ہے ․․․جو پہلے آئے تھے چلے گئے ۔ ․․․ اور لوگوں کو اسلام کی طرف بلایا تھا ، پھر وہ اس دنیا سے رخصت ہوگئے ۔․․ محمد (ص)بھی اس طرح رخصت ہوجائیں گے ۔ 

اور ہمیشہ ہمارے درمیان نہیں رہے گے اور دین خدا کا ہے ، محمد (ص)کا دین نہیں ہے ، کہ ان کے رخصت ہوجانے کے بعد سے دین بھی رخصت ہوجائے ، اگر وہ چلے جائیں تو دین سے روگردانی کرلوگے ۔ 

جیسا کہ آپ کو معلوم ہے شکست کی وجہ سے ایک جماعت نے نماز اور روزہ چھوڑ دیا ۔ اور بتوں پرستش شروع کردی تھی پھر انھوں نے یہ کہا تھا ، رسول اکرم (ص)واپس چلے گئے ہیں تو ہمیں بھی واپس چلا جانا چاہیئے ۔ اور ترک کردینا چاہیئے ۔ 

اللہ نے سرزنش کی کہ وہ طبعی موت یا شہادت کی موت کی وجہ سے رخصت ہوجائیں تو دین باقی ہے ۔ 

رسول اکرم (ص)کے بعد ولایت کا نظام قیامت تک رہے گا ، اسلامی معاشرے کافرین ہے کہ وہ ایک رہنما اطاعت کرے جو اس نظام کو قائم رکھے ۔ اور اس کے تحت حکومتی نظام چلنا چاہیئے ۔ 

آیت کریمہ نے ولایت کا نظام لازم قراردیا ہے ، اس طرح نظام زندہ رہنا چاہیئے ۔ اسلام کا نظام چلنے کے لیے ایک فرد کی ضرورت ہے ۔ 

اسلامی حکومت میں ایک حاکم 

گذشتہ بیان سے معلوم ہوا کہ اسلامی تہذیب میں معاشرے کے لیے ایک حاکم و سرپرست کی کتنی ضرورت ہے ، اور خدا کے علاوہ کسی وہ یہ حق نہیں ہے کہ وہ حاکمیت کا حق رکھتا ہوں ۔ 

کائنات اور انسان کی پوری ہستی خداداد عالم کی مرہوں منت ہے ، اسی لیے ہی سزاوار ہے ، کہ وہ خدا کے اوامر و نواہی کا بے چوں وچرا مطیع و فرمانبردار ہو ، اب اگر خداتعالیٰ ہم سے کسی خاص گروہ کا مطالبہ کرے تو ہم بھی اس کے حکم کی اطاعت کریں گے ، ہاں اگر حاکم کے لیے کچھ شرائط بیان کریں ، مسلمان شروع سے یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے ملت اسلامیہ کی حاکمیت پیغمبر اکرم (ص)کے ہاتھ سونپی اور ان کے بعد اہل بیت ٪ کے پیرووٴں کے اعتقاد کے مطابق یہ ذمہ داری معصوم اماموں کو سونپی گئی ، ان کو ادلہ اربعہ سے ثابت کیا جاسکتا ہے ۔ 

اور اہلسنت کا نظریہ یہ ہے کہ امام ہونا چاہیئے لیکن وہ معصوم کو امام کا عقیدہ نہیں رکھتے (یعنی خلیفہ کا ) اس لحاظ سے شیعوں کا یہ عقیدہ ہے کہ رسول خدا مقام نبوت و رسالت کے علاوہ منصب امامت پر بھی فائز تھے (یہاں پر امام سے مراد ملت اسلامیہ کی رہبری ہے ) اور امامت کے اصلی معنی ہی ہے منصب نبوت عالم تکوین اور تشریع می اسرار الہیٰ سے آگاہی کا منصب ہے ، اور منصب رسالت خدا کی طرف سے ایسے پیغمبر کو حاصل ہوتا ہے ، جو اس پر مامور ہو کہ جو کچھ جانتا ہے ، اسے لوگوں تک پہنچادے ۔ اور ان کی ہدایت کرے ، جب کہ منصب امامت کے معنی حکومت اور معاشرے میں نظم برقرار رکھنا ہے ۔ 

اس دلیل کے لیے بعض نے قاعدہ لطف کو سند بنایا ہے ، اور اس سے مطلب امر کے نبوت عقلی ہیں ، کہ بنی یا امام معصوم ، معاشرے کا حاکم ہے کافی سمجھا ہے لیکن علماء کے ایک گروہ نے اس دلیل کو ناکافی جانا ہے اور دلیل حکمت کی طرف رجوع کیا ہے ۔ 

عقل خدا کے وجود اور غیر مادی عالم و معاد کو ثابت کرنے کے بعد یہ نتیجہ اخذ کرتی ہے ، کہ جو کچھ اس دنیا میں انسان سے سرزد ہوتا ہے ، اس کے مستقل اور دائمی اثرات اس کے اخروی زندگی پر سکتے ہیں ، عقل ان اثرات کا انکشاف کرنے اور ان کے دوار کو آپس میں تمیز دینے سے عاجز ہے ۔ 

اس لیے خداتعالیٰ جس نے اس عالم اور انسانوں کو پیدا کیا ہے حکمت کا تقاضا کہ انسان کو راہ سعادت کی نشاندہی اور رہنمائی کرے اور رسول کو ان کی طرف بھیجے دوسری طرف اس مقصد کے لیے ضروری ہے کہ وہ جن رسولوں کو بھیجے وہ احکام الٰہی حاصل کرکے ان لوگوں تک پہنچائے ، معصوم اور خطاسے منزہ و مبرہ ہو ۔ 

پھر مسئلہ عصمت کے تجزیے کے بعد عقل اس نتیجہ پر پہنچی ہے کہ وحی کے حاصل کرکے اسے پہنچانے نیز تمام امور حتیٰ خطا نسیان سے بھی عصمت لازم اور ضروری ہے ، لہذا رسول کو تمام امور میں معصوم ہونا چاہیئے ، اس کے بعد عقل حکم دیتی ہے ، کہ حکمت الٰہی کے تقاضے کے تحت معاشرے کی باگ ڈور اور قیادت بھی معصوم کے سپرد ہونی چاہیئے ۔ پس لازمی طور پر رسول دین کی جانب سے معاشرہ کا حاکم ہوتا ہے ۔ اب اگر عقل مقام امامت پر غور کریں ، اور امام کو نبی کے الٰہی پیغام کو منحصر پائے ۔ تو مشابہ روش کے ذریعے ویسے ہی نتیجہ لیجئے گا اس بنا پر عقل رسول ، امام کے حوالے کی جائے ، اور اس طرح ولایت ؟؟؟ معاشرے کے نظام کو چلانا بھی ان کے لیے ثابت کرتی ہے ، بنی کی ولایت ثابت کرنے کے لیے قرآن مجید کی بہت سی آیت ہیں ، اور شاید یہ واضح ترین آیت ہوگی ۔ 

النبی اولیٰ بالمومنین من انفسھم احزاب “

بیشک بنی تمام مومنین سے ان کے نفسوں کی نسبت زیادہ اولیٰ ہے ، اس آیت کا مفہوم و معنی نبی اکرم (ص)کے لیے تمام مومنین اپنے بارے میں کوئی فیصلہ کرنا چاہیں ۔ اور کوئی کام سر انجام دینا چاہیئے ۔ تو آنحضرت اس سے زیادہ ان کے نفسوں پر حاکم ہے ، اور اگر مومنین کے لیے رسول اکرم (ص)نے کوئی فیصلہ کرلیا تو مومنین کو جرأت نہیں چاہیئے کہ ھوں و حیراں یہ فیصلہ انفرادی ہو یا اجتماعی ایک آیت کریم مباحات کے دائرے میں نبی اکرم کی ولایت مطلقہ کو ثابت کرتی ہے ، کیونکہ اس دائرے میں اشخاص اپنے امور میں کوئی فیصلہ کرسکتے ہیں ۔ 

متواتر رسول اکرم نے اس آیت شریفہ کی طرف اشارہ کیا ہے ، لوگوں سے خطاب فرمایا : 

الست بکم من انفسکم “ تو لوگوں نے کہا بلی یارسول 

تو اس کے بعد فرمایا : من کنت مولاہ فعلی مولاہ “ 

اور اس طرح معصوم کی ولایت ثابت ہے ، جیسے مائدہ کی ۵۵ ، ۵۶ / آیت گزرچکی اب مثلاً ولدیت کے معنی نہیں ہے ۔ 

ولایت کے معنی 

ولایت عربی زبان میں مادہ ” ولی “ سے ہے ، اور عربی زبان کے بڑے ماہرین لغت کے بیان کے مطابق یہ مادہ ایک کاحاصل ہے ، ولی کے معنی نزدیک قرب کے معنی ۔ 

عربی زبان میں کلمہ ولی کے تین معنی ہے ۔ 

(۱) دوست 

(۲) دستدار 

(۳) پارور 

اس کے علاوہ دو معنی ذکر ہوئے ۔ 

(۱) سلطنت وقہر و غلبہ 

(۲) قیادت و حکومت لفظ ولی کے اور فارسی میں اس کے متعدد معنی ہیں ۔ 

جیسے دوست ، صاحب ، حافط وہ شخص جو کسی کی طرف سے کسی کام کا متولی ہو ۔ ولایت کو حکومت کے معنی میں استعمال کیا گیا ہے ۔ 

ولایت کے بارے دو نظریے 

 میں نے پہلے پانچ چھ ورقوں کی بات جو میری تمہیدی گفتگو تھی اس لیے پڑھنے والے کے ذہن میں عقلی اور منطقی ادلہ دینے کے بعد جب نظریے بیان ہوگئے تو خود بخود ایک انسان دیکھ لے گا کہ حق پر کون اور باطل پر کون ہے ۔ 

خلافت علماء اہل سنت کی نظر میں ایک ایسا اجتماعی و سماجی عہدہ و منصب ہے ، جس کے لیے اس سے مخصوص مقاصد کی لیاقت و شائستگی کے علاوہ کوئی اور شرط نہیں ہے جب کہ شیعہ نقطہ نظر سے امامت ایک ایسا منصب ہے جس کا یعین خدا کی طرف سے ہو ۔ 

بہت سے حالات اور ذمہ داریاں میں پیغمبر کے یکساں ہو ، لہذا امامت کی حقیقت کے سلسلے میں عطا کے دو نظریے ہیں ۔ 

علمائے اہل سنت کا نظریہ 

علمائے اہل سنت کے عقائد اور کلام کی کتابیں اس بات کی حکایت کرتی ہیں ، کہ امامت ان کی نظر میں وسیع پیمانہ ہرمسلمانوں کے دینی دنیوی امور کی سرپرستی ہے ، اور خود امام ان کی اصطلاح میں خلیفہ وہ شخص ہے ۔ 

جو پیغمبر (ص)کی رحلت کے بعد اس منصب کا ذمہ دار ہو ، اور مسلمانوں کی دینی دنیاوی امور میں مربوط پر گرہ اس کے ذریعے کھلتی ہے ، یہ علمائے امامت کی یوں تعریف کرتے ہیں ۔ 

الامامة رئاسہ عامة فی امور الدین و الدنیا خلافة عن النبی : شرح تجرید علادین قوشجی : 

اس کے علاوہ بھی تعریف کی ہے لیکن اختصار کو مد نظر رکھتے ہوئے ، دینی امور کی سرپرستی اس سے مراد یہ ہے کہ لوگوں کو دینی مشکلات خلیفہ کے ہاتھوں حل ہوں ۔ 

مثلاً پوری دنیا میں جہاد کے ذریعے اسلام کی توسیع ایک دینی امر ہے ، جس کا عہدہ دار امام ہی ہے ہونا چاہیئے ۔ 

اور اہل سنت برادران کے لیاقت اور شائستگی کے علاوہ امام یا خلیفہ کے لیے کوئی شرط نہیں ہے اسلامی احکام کے کلی اور وسیع ہوتے ہیں اور نہ سہو و خطا سے معصوم ہوتے ہیں دوسرا معاشرہ جتنا بھی پاک ہوں اس می گناہ گار تو ہوتے ہیں ۔ 

رسول اکرم (ص)کے بعد شائستہ اور لائق شخص کی ضرورت ہے جو ان کو تشنگی سے روکے ۔ تاکہ خود ایسا کام کرنے والا نہ ہو ۔ 

یہ منصب اہل سنت کی نظر اس حد تک گرگیا ، کہ قاضی با قلانی جیسا شخص پیغمبر اکرم ((ع))کے جانشین کے بارے میں اس طرح کی باتیں کرے کہ خلیفہ و امام پست ترین اخلاقی خسلتوں کی غلات اور کالے سیاسی کارناموں کے باوجود امت کی قیادت و رہبری کا منصب پر باقی رہ سکتا ہے ، یعنی امام فسق وفجور کرکے لوگوں کے مال کو غصب کرکے متحرم افراد کو قتل کرکے ایسی حدود کو باطل کرکے بھی منصب سے معزول نہیں ہوتا ۔ 

بلکہ امت آپ کی برائیوں کو درست کرے ۔ اور اس کو ہدایت کرے ۔ (التمہید ،ص ۱۸۶) 

لاور ہم تو مزید تعجب نہ ہوگا ، اگر ہم محقق تفشا زانی جیسے عالم کو خلیفہ پیغمبر کے بارے میں ایسے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہے ۔ 

یہ ہرگز ضروری نہیں کہ امام لغزش اور گناہ سے پاک ہو یا امت کی سب سے اعلیٰ فرد شمار ہو ۔ امام کی نافرمانی اور ایسے احکام سے اس کی جہالت و منصب خلافت سے اس کی معزولی کا سبب ہرگز نہیں ہوسکتی ، (شرح مقاصد ، ج۲،ص ۲۷۱ ) 

انھوں نے تو ایک عرفی انتخابی حاکم سمجھ لیا ہے ۔ 

شیعوں کا نظریہ ولایت و امامت 

ولدیت ایک طرح کی ایسی چیز ہے جو خداوند کی جانب سے بندہ کو دی جاتی ہے ۔ واضح الفاظ میں یوں کہہ (امامت نبوت کی طرح ایک انتقالی منصبہے یہ خدا کی طرف سے معین ہے ۔ 

امام وحی نزول کے علاوہ تمام مراتب ہی پیغمبر اکرم (ص)کے برابر اور قدم بقدم ہے ، اور تمام شرائط جو پیغمبر کے لیے ضروری ہے مثلاً اسلام معارف اس کے اصول و فروع اور احکام کا علم اور ہر طرح کی خطا سے پاک ہونا ، امام کے لیے لازمی اور ضروری ہے ۔ 

شیعوں کا اعتقاد ہے کہ امام کو شریعت کی تمام امور سے واقف ہونا چاہیئے ۔ امام معصوم کیون ہو ، کیوں کہ وہ مزلی ہے تو مزلی کے لیے ضروری ہے کہ خطا سے پاک ہو ، اور خود قانوں توڑے تو کہیے مثبت اثر ڈال سکے گا ۔ لہذا یہ شخص کہتے ہیں کہ امامت کے لیے ۔ 

الامة رئاسة عامة الھیة فی امور الدین و الدنیا وخلافة عن النبی (ص)

۱۰۔ شیعہ نظریہ کی صحت کے لیے دلیلیں 

 یہ ایک ایسا منصب ہے ، رسول اکرم (ص)کے چلے جانے کے بعد وہ دین کی صحیح سمت چلا سکے ۔اس کے بعد اگر کوئی لوگ یہ اعتراض کرے کہ رسول اکرم (ص)نے تو دین کو مکمل کرکے گئے تھے ، اور اب نئی کس چیز کی ضرورت یعنی دس ہجری کو دین مکمل ہوگیاتھا ۔ 

برادر من اس سے یہ مراد ہے کہ توحید و قیامت کے متعلق معارف و عقائد اور فروع کے تمام اصول و کلیات آیت کے نزول کے وقت خود پیغمبر اکرم (ص)کے ہاتھوں تکمیل ہوچکے تھے ، اور دین کے ارکان میں کوئی نقص باقی نہیں ، اور یہی کلیات صبح قیامت تک پیش آنے والے مسائل کا حل تلاش کرتے ہیں بنیاد و اساس کا کام کریں گے ۔ 

اب ضرورت اس بات کی ہے کہ کون شخص اس ان اصول و کلیات کے ذریعے اسلامی معاشرے کے تمام ضرورتوں کو اور مسائل کے حل کا جواب دے ۔ 

قرآن کریم ذکر شدہ آیات اور پیغمبر اکرم (ص)محدود احادیث کے ذریع صبح قیامت تک پیش آنے والے بے شمار مسائل کا حل اور احکام استنباط کرنا بہت ہی مشکل اور دشوار اور پیچیدہ ہے ، جو عام افراد کے بس کی بات نہیں ہے ، کیونکہ قرآن مجید میں فقھی و شرعی احکام کے متعلق آیات کی تعداد ۳۰۰ سے زیادہ نہیں اور اس طرح حرام حلال اور فرائض سے متعلق آنحضرت کے احادیث کی تعداد چار سو سے زیادہ نہیں ہے ، ایک عام انسان مسلمانوں کے مسائل کا حل نہیں نکال سکتا ۔ اس لیے ایک لائق اور شائستہ شخص کی ضرورت ہے ۔ 

جیسا کہ قرآن کی آیت جو میں نے ابتدا میں لکھی (مائدہ ۵۵) تو اس میں اہل سنت برادران نے اللہ کا معنی سرپرست (حاکم ) اور محمد کے بھی حاکم کے لیے ، مگر مولا علی (ع)کے دوست کے معنی میں لیے ، حالانکہ کہ نہ کوئی قرینہ ہے ، کہ ؟؟؟جو لوگ نماز اور زکوٰة دینے والے ہیں وہ دوست کے معنی میں ہیں اور وہ سرپرست (حاکم ) کے لے لیے ۔ 

یہ اللہ کا شکر ہے کہ سب کا اتفاق اس پر ہے کہ یہ آیت مولا کائنات کی شان میں نازل ہوئی ۔ 

اب تیرا حاکم و سرپرست انشاء اللہ ثابت کرنا کوئی مشکل نہیں ہے ۔ اور ایک ایسا کام جو میں نے پیچھے کیا کہ میں نے ولدیت کا جو حقیقی معنی حکومت ہے اس کو لیا ہے اس کے لیے بھی قرآن کی آیت بطور دلیل لکھ رہا ہوں ۔

ترجمہ : یہ ہے بنی اسرئیل کے ان ظالموں کو تم نے تین دیکھا کہ جنھوں نے موسیٰ کے بعد کہا کہ ہمارے لیے ایک حاکم (سرپرست ) مقرر کیجئے تاکہ ہم اللہ کے راستے ہیں جہاد کریں گے ۔ (بقرہ آیت ۲۴۶) 

پھر ان کے نبی کا جواب :

 ان کے نبی نے کہا کہ اللہ نے تمہارے ہے طالوت کو سرپرست (حاکم ) بنایا ہے ، تو وہ کہتے لگے کہ وہ ہم پر سرپرست کہ ہم اس سے زیادہ تو خود سرپرستی کا حق رکھتے ہیں ،اس کے پاس تو مال بھی نہیں تو نبی نے جواب دیا ۔

اللہ نے ان کو منتخب کیا ہے وہ تم سے علم اور جسم میں زیادہ ہے ۔ 

اور اللہ جسے چاہتا ہے سرپرستی عطا کرتا ہے ، اللہ وسعت اور ہرچیز کا علم رکھنے والا ہے ۔ 

اب اللہ تعالیٰ نے تو لوگوں کے سرپرست کی خصوصیات بنادی جو ہماری طرف سے اللہ اور اس کے رسول اور بعد والی ولی جو ہوگا وہ علم اور جسم میں وسعت رکھتا ہوگا دوسرے لوگوں سے تو اس لیے کے لیے ابنار ہیں کتابوں اور حوالوں کے لیکن میرے پاس اتنا کاغذ نہیں کہ ان سب کو لکھ سکوں ۔ 

اللہ اور اس کا رسول مومنین کے سرپرست ہیں اب تیراسرپرست وہی ہوگا جس کو اللہ ایسی عفتیں دے گا ۔ 

تو اس کے لیے ہم رسول کے بعد ایسی ہستی کو تاریخ کے اوراق میں ڈھونتے ہیں مولا کائنات کے علاوہ کوئی بندہ نظر نہیں آتا جس نے تمام جنگلوں میں شرکت کی اور تمام میں فتح علی (ع)کی وجہ سے ہوئی ۔ 

اب جہاں میں جنگی احوال درج نہیں کرونگا کیونکہ خیبر حندق آپ لوگ بہت زیادہ سنتے رہے ہیں ۔ ، وہ سب کے سامنے ہے کہ کوئی ایسی جنگ ہی نہیں جو مسلمانوں نے علی(ع) کے بغیر جیسی ہو سوائے ایک دو جنگوں کے ۔ 

اب تھوڑے سے علمی واقعات بیان کرنے کی سعادت حاصل کرتا ہوں ۔ 

(۱) حضرت عمر نے اصحاب کے مجمع میں ایک شوہر دار حاملہ عورت کو جو زنا کی مرتکب ہوئی سنگسار کا حکم دیا ، جب مولا کو پتہ تو مولا(ع)نے منع کیا ، اور کہا کہ قصور بچے کا نہیں اس کی ماں کا ہے اس بچے کا کیا قصور وہ بھی ساتھ مرجائے گا ۔ س

(۲) خلیفہ نے ایک ایسے شادی شدہ شوہر کو جس کی بیوی دوسرے شہر میں رہتی تھی زنا کے بعد سنگسار کرنے کا حکم دیا ۔ جب کہ ایسے شخص کے لیے جس کی بیوی دور ہو سو تازیانے سزا تھی یہ حکم مولا کے کہنے سے تبدیل ہوگیا ۔ 

(۳) تاریخ بدکار مردوں کو خلیفہ کے سامنے لایا گیا ۔اور گواہی موجود تھی کہ لوگ زنا کے مرتکب ہوئے ہیں ، عمر نے کہا کہ سب کو ایک طرف سو سو کوڑے لگائے جائیں امام بیٹھے تھے ، کیا ان سب کا حکم علیحدہ علیحدہ ہے ۔ 

ان میں پہلا کافر ذمی ہے ، اس نے شرائط پر عمل نہیں کیا قتل کیا جائے گا ۔ دوسرا شادی شدہ ہے ، سنگسار کیا جائے ۔ 

تیسرا جوان آزاد غیر شادی شدہ ہے اس کو سو کوڑے مارے جائیں ، چوتھا ، غیر شادی شدہ غلام ہے اسے آزاد کی آدھی سزا یعنی پچاس کوڑے مارے جائے ۔ 

پانچویں : بندہ مجنون ہے اس کو چھوڑ دیا جائے ، کیونکہ دیوانے پر سزا نہیں ہے ۔ 

۱۷۔ ابوبکر کے زمانہ میں ایک شخص نے شراب پی لی لیکن اس کا دعوی تھا کہ وہاں رہا ہوں ، جہاں لوگ شراب پیتے تھے ، تو عمر ابوبکر پریشان تھے ۔ آخر کار مولا کائنات کو بلایا گیا تو مولا (ع)نے کیا کہ ان کے مہاجرین اور انصار کے مجمع میں پھراوٴ اور اگر کوئی ایک کہہ دے کہ اس کو شراب کی تحریم کی آیت سنائی تھی تو حد جاری جائے ورنہ معذور سمجھ کر چھوڑ دیا جائے ۔ 

۷)ایک عورت کو سنگسار کا حکم ہوا ، تو مولا تشریف لے گئے اور کہا اس کو دوبارہ لایا جائے جب دوبارہ لایا گیا تو مولا نے کہا کہ بیان کر ، تونے کیسے زنا کیا ہے ، اس نے کہا کہ میں اپنے خاوند کے اونٹ ایک صحرا میں چرانے کے لیے گئی تھی اور وہاں مجھے پیاس لگی ۔ تو میں نے ایک شخص سے پانی مانگا اس نے کہا میرے سامنے تسلیم ہو تو میں تجھ کو پانی دونگا میں واپس آگئی ، لیکن پیاس کا اتنا غلبہ ہوا کہ میں مرنے کے دہانے اگئی تو اب میں پانی نہ پیتی تو مر جاتی ، میں اس کے سامنے تسلیم ہوئی اور اپنی جان بچائی ۔ 

مولای کائنات نے فرمایا اللہ اکبر ”فمن افطر غیر باغٍ ولا عاد فلا اثم علیہ “ جو کوئی اضطراب یا مجبوری کی حالت میں غلط کرے ۔ تو اس پر گناہ نہیں ہے اب اللہ نے قرآن میں جو ولی کی صفات بتائی ہے ، کوئی مائی کا لال کہے تو علی(ع) کے مقابلے میں کوئی ایسا شخص لے آئے ۔ 

ورنہ جہنم میں جانے سے پہلے یہ مان لے کی علی مولا ولی (حاکم ) اور ولایت (حکومت) مولا کا حق ہے رسول کے بعد ۔ 

یہ بات ہم قرآن کی آیتوں اور فلسفی عقلی اور منطقی دلیلوں کے ثابت کرچکے ۔

اضافی بات 

اکثر لوگ یہ بھی سوچتے اور کہتے ہیں کہ مولائے کائنات ان کی مشکلات حلنہ کرتے تو ہو ولایت کوچھوڑے دیتے یعنی حکومت مولا کے حوالے کردیتے تنگ آکر ۔ 

توان لوگ کا جواب ایک واقعہ سے دیتا ہوں ۔ 

ایک دفعہ جناب سلیمان اور مولاعلی مرتضیٰ جارہے تھے ، تو مولاسے صحابہ کا کوئی بندہ آگیا کہ مسئلہ درپیش ہے ۔ 

اور آپ کے بغیر حل نہیں ہوگا ۔ تو سلیمان نے کہا مولا آپ ان کی مشکل کشائی نہ کریں ، تویہ تنگ آکر یہ غصبی حکومت جو آپ اہلبیت کا حق ہے ، آپ کو واپس کردیں گے ۔ 

تو مولا نے کہا ، کہ موسیٰ نے اللہ سے یہی سوال کیا تھا ، کہ اللہ تو فرعون کو کوئی بیماری بھی نہیں دیتا اور اس کے پاس مال کی بھی وسعت ہے ۔ تو اللہ نے کہا کہ اگر ایک بندے نے اپنی بندیائی چھوڑ دی ہے تو میں تو اپنی خدائی چھوڑ دو ۔ 

تو کہا سلیمان میں بھی اللہ کا مظہرعلی ہوں اگر ایک کمینے نے شرافت چھوڑ دی تو کیا میں علی  اپنی امامت چھوڑ دوں ۔ 

اے شان کریمی مایوس نہ کرنا 

تقدیر بھی بدل جاتی ہے دعاوٴں کے اثر سے ۔ 

مصادر 

(۱)ولایت اور رہبری ۔ تالیف علامہ سید محمد حسین طباطبائی 

(۲) ولایت اور دیانت ۔ استاد مھدی ہادوی تہرانی 

(۳) فلسفہ ولایت ، شھیدمرتضیٰ 

(۴) روح ہستی ولایت اور امامت کے متعلق حدیث 

(۵) قرآن ترجمہ : ذیشان حیدر جوادی  

(۶) مولانا فرمان علی اعلی اللہ مقامہ

 

 


source : http://mahdicentre.com
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

علی(ع) اور عرفان حقیقی
امام حسن(ع) کی شہادت کے وقت کے اہم واقعات
امام باقر فقہا کی نظر میں
تسبیح حضرت فاطمہ زھراء سلام اللہ علیہا
نور علی نور
حضرت امام محمدتقی علیہ السلام کے بعض کرامات
سیرت رسول ۖکا بنیادی ماخذ،قرآن
اے پردگار تو ہي ان ستمگروں سے ہمارا انتقام لے
امام محمد باقر علیہ السلام کی حیات طیبہ کے دلنشین ...
امام علی نقی علیہ السلام کی شہادت

 
user comment