اگر ہم کسی چیز کو دل سے چاہتے ہیں اور اس سے والہانہ محبت کرتے ہیں تو اس کا ذکر صبح و شام ہماری زبان پر رہتا ہے ، بار بار ہم اس کو دہراتے رہتے ہیں ، اس مطلب کو ثابت کرنے کے لئے دلائل و براہین قائم کرنے یامثالیں دینے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ اس کوہر شخص اپنے اندر محسوس کر سکتا ہے،لیکن قہراً یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر ہم خدا سے محبت کرتے ہیں تو اپنی زندگی میں اس کے ذکر کو کتنی جگہ دیتے ہیں ؟ ہونا تو یہ چاہئے کہ تمام اذکار سے زیادہ ہماری زبان پر اسی کا ذکر ہو بلکہ صرف اور صرف اسی کا ذکر ہو کیونکہ حقیقی محبت کی حقدار صرف اسی کی ذات اقدس ہے ،مزید بر آن یہ کہ آیا ت و روایات بھی ذکر خدا کی تاکید سے بھری پڑی ہیں اور اس کے آثار و فوائد اور برکات بھی مفصل طور پر بیان کر دئے گئے ہیں ،قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے ۔الا بذکر اللہ تتطمئن القلوب ۔ رعد ۔ ٢٨ ۔ آگاہ ہو جائو کہ اطمینان قلب یاد الٰہی سے ہی حاصل ہوتا ہے ۔
فاذکرونی اذکُرُکم بقرہ ۔ ١٥٢ تم ہم کو یاد کرو تاکہ ہم تمہیں یاد رکھیں
اُذکُرو اللہ ذکراً کثیراً احزاب۔ ٤١ اللہ کا ذکر بہت زیادہ کیا کرو
واذکرو االلہ کثیراً لعلکم تفلحون جمعہ ۔ ١٠ اور خدا کو بہت یاد کرو شاید اسی طرح تمہیں نجات حاصل ہو جائے ۔
مولائے کائنات دعائے کمیل میں ارشاد فرماتے ہیں : أن تَجْعَلَ أَو قاتی مِن اللیل والنھار بذکرک معمورة ۔ خدایا ! تو میرے دن اور رات کو اپنے ذکر سے معمور و منور فرما۔
اسی طرح وقت آخر وصیت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ : یا بُنَیَّ کُن اللہ َ ذاکراً علیٰ کُلِّ حال ١ :
اے میرے فرزند ہر حال میں خدا کا ذکر کرتے رہو ۔
تو معلوم ہوا کہ ذکر خدا ایک اہم مسئلہ ہے جس کو فراموش نہیں کیا جا سکتا ۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اس کا ذکر کیسے کیا جائے ؟ الفاظ کہاں سے لائے جائیں ؟ کون سے کلمات ہوں جو اس کی شان اقدس اور بارگاہ پر عظمت کے مطابق ہوں اور بر ترین و بالا ترین کلمات شمار کئے جاتے ہوں ۔ جب ہم روایات کی طرف نگاہ اٹھاتے ہیں تو ہمیں مختلف چیزیں نظر آتی ہیں ۔ اگر تمام روایات کی کلی طور پر تقسیم بندی کی جائے تو یہ روایتیں چند حصوں میں تقسیم ہو جاتی ہیں ۔ جنکو مختصراً یوں بیان کیا جا سکتا ہے ۔
١ بحار الانوار ج٩٠ ۔ ص ١٥٢
(١) بعض روایات وہ ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ تسبیحات اربعہ ٫٫ سبحان اللہ والحمد للہ ولا الہ الا اللہ واللہ اکبر ،، بہترین ذکر ہے ۔
(٢) بعض روایات سے ثابت ہوتا ہے کہ : لا حول ولا قوة الا باللہ العلی العظیم بہترین و بالا ترین ذکر ہے ۔
(٣) بعض روایات سے ثابت ہوتا ہے کہ : لا الہ الا اللہ بہترین اور افضل ترین ذکر ہے ۔
(٤) بعض روایات دلالت کرتی ہیں کہ صرف الحمد للہ بہترین اور افضل ترین ذکر ہے ۔
(٥) بعض روایات دلالت کرتی ہیں کہ اللہ اکبر بہترین ذکر ہے ۔
(٦) بعض روایات دلالت کرتی ہیں کہ محمد ۖ وآل محمد پر صلوات بھیجنا بہترین ذکر ہے ۔
(٧) بعض روایات دلالت کرتی ہیں کہ تسبیح حضرت فاطمہ زھراء سلام اللہ علیہا بہترین اور افضل ترین ذکر ہے ١
روایات کے مطالعہ سے اتنا بہر حال واضح ہو جاتا ہے کہ یہ تمام اذکار اپنی اپنی جگہ ایک اہمیت اور عظمت کے حامل ہیں اور ان کا ورد فضیلت سے خالی نہیں ہے لیکن تسبیح حضرت فاطمہ زھراء ۖ اس لئے اپنے اندر عظمت کا پہلو رکھتی ہے کیونکہ یہ نبی اکرم ۖ کی لخت جگر ، سیدہ نساء عالمین سے منسوب ہے اور خود آپ ۖ نے جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا کویہ ذکر تعلیم فرمایا تھا جس پر آپ ساری عمر مداوت فرماتی رہیں ۔
١ ان تمام روایات کے مطالعہ کے لئے کتاب بحار الانوار ج٩٠ باب ذکر اللہ تعالیٰ ، کتاب الترھیب والرغیب ج٢ وغیرہ کی طرف رجوع کیا جاسکتا ہے ۔
ویسے تو کتابوں میں آپ کے بارے میں کئی تسبیحات کا تذکرہ ملتا ہے جن کو تفصیلی طور پر بحار الانوار ج٨٩ ، کامل الزیارات وغیرہ میں دیکھا جا سکتا ہے لیکن مشہور و معروف تسبیح وہی ہے کہ جو ہم اور آپ نماز کے بعد پڑھتے ہیں اور جس کے بارے میں حضرت علی اور امام جعفر صادق سے روایت ہے کہ تسبیح فاطمہ ھو اللہ اکبر اربع و ثلاثون مرّة ، سبحان اللہ ثلاث و ثلاثون مرّة ، و الحمد للہ ثلاث و ثلاثون مرّة ١
یعنی تسبیح فاطمہ یہ ہے : ٣٤ مرتبہ اللہ اکبر ٣٣ مرتبہ سبحان اللہ ٣٣ مرتبہ الحمد للہ ۔
اس روایت سے اگر چہ ظاہراً یہ سمجھ میں آتا ہے سبحان اللہ کو الحمد للہ پر مقدم کیا جائے لیکن سبحان اللہ کو بعد ہی میں پڑھنا چاہئے کیونکہ اکثر روایات میں وارد ہوا ہے کہ سبحان اللہ کو الحمد للہ کے بعد پڑھا جائے ۔ مثلاً جب امام جعفر صادق علیہ السلام سے تسبیح فاطمہ ۖ کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ ۖ نے فرمایا کہ تبدأ بالتکبیر ثم التحمید ثم التسبیح یعنی پہلے اللہ اکبر کہو پھر الحمد للہ اور پھر سبحان اللہ ۔
١ زندگانی حضرت زھراۖ ص ١٠٠١ بحوالہ من لا یحضرہ الفقیہ ج١ و ثواب الاعمال ص ١٩٦ و………
آثار و فوائد تسبیح زھراء (س)
ہماری اس عظیم ذکر سے غفلت یا تغافل کا سبب خود اس کے فضائل و فوائد سے نا واقف ہونا بھی ہے ۔ اگر ہم ان اسرار و رموز سے واقف ہو جائیں جو ان الفاظ کے دامن میں چھپا دئے گئے ہیں تو ہم کسی حد تک خواب غفلت سے بیدار ہو کر اپنی زندگی کو ان جواہرات سے سنوار سکتے ہیں ۔ ذکر تسبیح حضرت فاطمہ ۖ کے لئے بہت سے فوائد ذکر ہوئے ہیں جن میں سے بعض یہ ہیں (١) گناہوں کی بخشش (٢) شیطان سے دوری (٣) رضائے خدا
حضرت امام محمد باقر علیہ السلام نے ارشاد فرمایا کہ :مَن سبَّح َ تسبیحَ الزھراء ۖ ثم استغفر غفر لہ و ھی مائة با للمان والف فی المیزان و تُطردُ الشیطان و تُر ضِی الرحمن ۔
ترجمہ : جو بھی تسبیح حضرت زھرا ۖ پڑھکر استغفار کریگا خدا اس کے گناہوں کو بخش دے گا ۔ اس تسبیح میں ظاہراً سو ذکر ادا ہوتے ہیں لیکن انسان کے نامہ اعمال کو ہزار گناوزنی بنا دیتا ہے ۔ اور ساتھ ہی شیطان کو دور بھگا دیتی ہے اور رضائے احمن کو جلب کرتی ہے ١
١ ثواب الاعمال ص ٣٦٣
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے ارشاد فرمایا !
مَن سَبَّح تسبیح َفاطمہ قبل ان یثنی رجلیہ مِن صلاة الفریضة غفر لہ ۔
جو شخص نماز واجب کے بعد قبلہ سے منحرف ہونے سے قبل تسبیح حضرت فاطمہ ۖ پڑھتا ہے خدا اس کو بخش دیتا ہے ۔
یہاں پر یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ کوئی یہ خیال نہ کرے کہ صرف تسبیح بخشش کا ذریعہ بنتی ہے اور کسی دیگر امر کی ضرورت نہیں ہے ۔ جب کہ پہلی روایت سے صاف واضح ہو جاتا ہے کہ تسبیح کے ساتھ ساتھ خود انسان کا استغفار کرنا بھی ضروری ہے ٫٫ ثم استغفر غفر لہ ،، جس کا واضح مطلب یہ ہے کہ تسبیح حضرت فاطمہ زھراء انسان کے قلب میں احساس استغفار پیدا کرتی ہے اور جب دل میں ایک مخصوص کیفیت پیدا ہو جاتی ہے کہ بندہ گناہوں کی تکرار نہ کرنے کا پختہ ارادہ کر لیتا ہے تو خدا بھی اسے معاف کر دیتا ہے ۔ جیسا کہ قرآن مجید میں اس مسئلہ کو صاف صاف بیان کر دیا گیا ہے ۔
(١) من تاب بعد ظلمہ و اَصلحَ فانَّ اللہ یتوب علیہ انَّ اللہ غفور رحیم۔ مائدہ ٣٩
پھر ظلم کے بعد جو شخص توبہ کرے اور اپنی اصلاح کرے تو خدا اس کی توبہ قبول کریگا کہ اللہ بڑا بخشنے والا اور مہربان ہے ۔
(٢) مَن عمل منکم مؤئا بجھالة ثم تاب من بعدہ و اصلح فانہ غفور رحیم انعام ١٥٣
(٣) الذین تابوا مِن بعد ذالک و اصلحو ا فانّ ربّہ غفور رحیم۔ نور ٥
(٤) انّی لغفّار لِّمن تاب و آمن و عمل صالحا ثم اھتدیٰ طہ ٨٢
ترجمہ : (گذر چکا ) (١)
(٢) تم میں جو بھی از روئے جہالت برائی کریگا اور اس کے بعد توبہ کر کے اپنی اصلاح کرے گا تو خدا بہت زیادہ بخشنے والا اور مہربان ہے ۔
(٣) ( علاوہ ان افراد کے ) جو اس کے بعد توبہ کر لیں اور اپنے نفس کی اصلاح کر لیں کہ اللہ بہت زیادہ بخشنے والا اور مہربان ہے ۔
(٤) اور میں بہت زیادہ بخشنے والا ہوں اس شخص کے لئے جو توبہ کر لے اور ایمان لے آئے اور نیک عمل کرے پھر راہ ہدایت پر ثابت قدم رہے ۔
ان آیات میں غور کرنے سے معلوم ہو جاتا ہے کہ گناہوں کی بخشش کے لئے تو بہ کے ساتھ اعمال صالحہ کی پابندی اور حتی المقدور گناہوں کے تکرار سے اجتناب کرنا ضروری ہے ۔
(٥) وجوب جنت : ۔ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے ارشاد فرمایا کہ ٫٫ مَن سَبَّح تسبیح فاطمہ فی دبر المکتوبة مِن قَبل ان یسبط اِجلیہ او جب اللہ لہ الجنة ١ یعنی جو شخص نماز فریضہ سے فارغ ہو کر قبلہ سے منحرف ہونے سے پہلے تسبیح فاطمہ ۖ پڑھتا ہے خدا وند عالم اس کے اوپر جنت واجب کر دیتا ہے ۔
یہاں سے معلوم ہو جاتا ہے کہ تسبیح حضرت فاطمہ ۖ کتنا پر عظمت اور با فضیلت ذکر ہے اور یقیناً اگر اس سے زیادہ فضیلت والا کوئی ذکر ہوتا تو پیغمبر اکرم ۖ اپنی بیتی کو وہی تعلیم فرماتے ۔ جیسا کہ امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ہیں ۔
ما عُبد اللہ ُ بشیٔ افضل من تسبیح الزھراء ۖ لو کان شیء افضل منہ لَنَخلہ رسول اللہ فاطمہ ٢ یعنی تسبیح فاطمہ زھراء ۖ سے بہتر کسی اور طریقے سے خدا کی عبادت نہیں کی گئی بے شک اگر کوئی چیز اس سے بھی زیادہ افضل ہوتی تو رسول اکرم اپنی بیٹی فاطمہ کو وہی تعلیم فرماتے ۔ امام جعفر صادق علیہ السلام سے اس آیت کے بارے میں واذکروا للہ ذکراً کثیراً احزاب ٤١ سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایاکہ:
ا زندگانی حضرت زھراء ۖ ص ٩٨٩ ٢ زندگانی حضرت زھراء ۖ ص ٩٨٤
من تسبیح فاطمہ فَقَد ذَکَرَ اللہ الذِکر الکَثیر ١ جس نے تسبیح فاطمہ کو پڑھ لیا گویا اس نے خدا کے لئے ذکر کثیر انجام دیدیا ۔
ان روایات کے بعد ذکر تسبیح حضرت فاطمہ زھراء ۖ کی عظمت و فضیلت اور دوسرے اذکار پر اس کی بر تری روز روشن کی طرح واضح ہو جاتی ہے اور اگر اس پر مداومت کر لی جائے تو انسان دنیا و آخرت کی برکتیں اور نعمتیں سمیٹ سکتا ہے ۔ اور کل قیامت میں حضرت فاطمہ ۖ کے محضر میں سر خرو ہو سکتا ہے ۔ ہم سب شہزادی کونین کو وسیلہ قرار دیتے ہوئے بارگاہ خدا وندی میں دعا کرتے ہیں کہ ہماری زندگی کو تسبیح حضرت زھراء ۖ کے ساتھ ساتھ اپنے دیگر محبوب افکار کے سہارے معمور و منور فرما آمین یا رب العالمین ۔
١ زندگانی حضرت زھراء ۖ ص ٩٨٥
source : http://www.shianet.in