دريچہ
مغرب اپني تاريخ کے مختلف ادوار ميں خواتين کے بارے ميں شديد قسم کے افراط کا شکار رہا ہے اور اب اِس مسئلے ميں تفريط کي سياہ گھٹاوں نے اُسے آگھيرا ہے ۔ ہم بہت دورکي بات نہيں کررہے ہيں ۔ اقتصادي ، اجتماعي اور تحصيل علم کے مسائل ميں حقوقِ نسواں کو کبھي رسمي نگاہ سے نہيں ديکھا گيا اور وہ ظلم و ستم کا نشانہ بنتے رہے اورآج جبکہ مغربي تمدن کي اوج کا زمانہ ہے تو خواتين اورنوجوان لڑکيوں پر جنسي تشدد کے نتيجے ميں پيدا ہونے والي مشکلات، گھرانے ( ميں عدم تربيت و عدم محبت) کے بُحران اور فيمين ازم (حقوق نسواں) کے کھوکھلے نعروں نے مغربي معاشرے کا جنازہ نکال ديا ہے۔
مرد و خواتين کے باہمي تعلقات ميں آزادانہ ميل ملاپ اور لا اُبالي پن ، مردوں کي لذت و شہوت کي تکميل کيلئے خواتين کا وسيلہ بننا، خواتين کا فضول خرچي، عيش پرستي اور زينت پرستي کي دوڑ ميں شريک ہونا، عرياني، بے پردگي اور برائيوں کا عام ہونا، مردوں کي جنسي آزادي اور حقوقِ نسواں کے بارے ميں مرد اورخواتين کے درميان اختلافات اُن جملہ اجتماعي اور ثقافتي اختلافات ميں سے ہيں کہ جس نے مغرب کو تباہي کے دہانے پر لاکھڑا کيا ہے۔ دنيا کے انسان اور مسلمان ، اِن ظلم وستم کي وجہ سے مغربي ثقافت کو عدالت کے کٹہرے ميں لے آئے ہيں اور مغرب کو اب ملامت و سرزنش کا نشانہ بننا چاہيے۔
خواتين اور گھرانے کے بارے ميں مغرب کا افراط و تفريط
مغربي ادب ميں عورت کي مظلوميت
سب سے پہلے مغربي معاشرے کي مشکلات اورمغربي ثقافت کے بارے ميں گفتگو کرنا چاہتا ہوں، اُس کے بعد اسلام کي نظر بيان کروں گا۔ اہل مغرب ، عورت کے مزاج کي شناخت اور صنفِ نازک سے برتاو ميں افراط و تفريط کا شکار رہے ہيں ۔ بنيادي طور پر عورت کے بارے ميں مغرب کي نگاہ دراصل غير متوازن اورعدم برابري کي نگاہ ہے۔ آپ مغرب ميں لگائے جانے والے نعروں کو ملاحظہ کيجئے، يہ کھوکھلے نعرے ہيں اور حقيقت سے کوسوں دور ہيں۔ ان نعروں سے مغربي ثقافت کي شناخت ممکن نہيں بلکہ مغربي ثقافت کو اُن کے ادب ميں تلاش کرنا چاہيے۔ جو لوگ مغربي ادب ، يورپي معاشرے کے اشعار، ادبيات،ناول، کہانيوں اور اسکرپٹ سے واقف ہيں ، وہ جانتے ہيں کہ مغربي ثقافت ميں قبل از قرون وسطيٰ کے زمانے سے لے کر اس صدي کے آخر تک عورت کو دوسرا درجہ ديا گيا ہے۔ جو فرد بھي اس حقيقت کے خلاف دعويٰ کرتا ہے وہ حقيقت کے خلاف بولتا ہے۔ آپ شيکسپيئر کے ناول کو ديکھئے،آپ ملاحظہ کريں گے کہ اس ناول ميں اور بقيہ مغربي ادب ميں صنف نازک کو کن خيالات ، کس زبان اور کس نگاہ سے ديکھا جاتا ہے۔ مغربي ادب ميں مرد،عورت کا سرادر،مالک اورصاحب اختيار ہے اور اس ثقافت کي بعض مثاليں اور آثار آج بھي باقي ہيں۔
آج بھي جب ايک عورت ، مرد سے شادي کرتي ہے اور اپنے شوہر کے گھر ميں قدم رکھتي ہے تو حتي اُس کا خانداني نام (يا اُس کے اصلي نام کے ساتھ اُس کا دوسرا نام )تبديل ہوجاتا ہے اور اب اُس کے نام کے ساتھ شوہر کا نام ليا جاتا ہے ۔ عورت جب تک شادي نہيں کرتي وہ اپنے خانداني نام کو اپنے نام کے ساتھ استعمال کرتي ہے ليکن جب وہ شوہر دار ہوجاتي ہے تو عورت کا خانداني نام، مرد کے خانداني نام ميں تبديل ہوجاتا ہے، يہ ہے اہل مغرب کي رسم! ليکن ہمارے ملک ميں نہ تو يہ رسم کبھي تھي اور نہ آج ہے۔ (ہمارے معاشرے ميں ) عورت اپنے خاندان (ميکے) کے تشخص کو اپنے ساتھ شادي کے بعد بھي محفوظ رکھتي ہے۔ يہ مغرب کي قديم ثقافت کي نشاني ہے کہ مرد، عورت کا آقا اور مالک ہے۔
يورپي ثقافت ميں جب ايک عورت اپنے تمام مال و منال کے ساتھ شادي کرتي تھي اور شوہر کے گھر ميں قدم رکھتي تھي تو نہ صرف يہ کہ اُس کا جسم ، مرد کے اختيار ميں ہوتا تھا بلکہ اُس کي تمام ثروت و دولت جو اُس کے باپ اور خاندان (ميکے) کي طرف سے اُسے ملتي تھي، شوہر کے اختيار ميں چلي جاتي تھي۔ يہ وہ چيز ہے کہ جس کا انکار خود اہلِ مغرب بھي نہيں کرسکتے کيونکہ يہ مغربي ثقافت کا حصہ ہے۔ مغربي ثقافت ميں جب عورت اپنے خاوند کے گھر ميں قدم رکھتي تھي تو در حقيقت اُس کے شوہر کو اُس کي جان کا بھي اختيار ہوتا تھا! چنانچہ آپ مغربي کہانيوں ، ناولوں اور يورپي معاشرے کے اشعار ميں ملاحظہ کريں گے کہ شوہر ايک اخلاقي مسئلے ميں اختلاف کي وجہ سے اپني بيوي کو قتل کرديتا ہے اورکوئي بھي اُسے سرزنش نہيں کرتا! اسي طرح ايک بيٹي کو بھي اپنے باپ کے گھر ميں کسي قسم کے انتخاب کا کوئي حق حاصل نہيں تھا۔
البتہ يہ بات ضرور ہے کہ اُسي زمانے ميں مغربي معاشرے ميں مرد و خواتين کاطرززندگي ايک حد تک آزادتھا ليکن اِس کے باوجود شادي کااختيار اورشوہر کا انتخاب صرف باپ کے ہاتھ ميں تھا۔ شيکسپيئر کے اِسي ناول ميں جو کچھ آپ ديکھيںگے وہ يہي کچھ ہے کہ ايک لڑکي کو شادي پر مجبور کيا جاتا ہے، ايک عورت اپنے شوہر کے ہاتھوں قتل ہوتي ہے اور آپ کو ايک ايسا گھر نظر آئے گا کہ جس ميں عورت سخت دباو ميں گھري ہوئي ہے، غرض جو کچھ بھي ہے وہ اِسي قسم کا ہے۔ يہ ہے مغربي ادب وثقافت !موجودہ نصف صدي تک مغرب کي يہي ثقافت رہي ہے۔ البتہ انيسويں صدي کے اواخر ميں وہاں آزادي نسواں کي تحريکيں چلني شروع ہوئي ہيں۔
يورپي عورت کي آزادي کے مغرضانہ مادّي عوامل
محترم خواتين اور خصوصاً جوان لڑکياں کہ جو اِس مسئلے ميں فکر کرنا چاہتي ہيں ، انہيں چاہيے کہ وہ بھرپور توجہ کريں۔ سب سے اہم نکتہ يہ ہے کہ جب يورپ ميں خواتين کا ’’حق ِ مالکيت‘‘ معين کيا گيا جيسا کہ يورپي معاشرتي ماہرين کي تحقيقاتي سروے رپورٹ سے پتہ چلتا ہے ، اس ليے تھا کہ مغرب ميں صنعت و جديد ٹيکنالوجي کي آمد کے زمانے ميں کارخانوں اور ملوں نے رونق حاصل کي تھي اور انہيں مزدوروں کي سخت ضرورت تھي مگر مزدور کم تھے اور کارخانوں کو مزدوروں کي ايک بڑي تعدار درکار تھي۔ اِسي ليے انہوں نے خواتين کو کارخانوں کي طرف کھينچا اور اُن کي طاقت و توانائي سے استفادہ کيا۔ البتہ خواتين مزدوروں کو دوسروں کي بہ نسبت کم تنخواہ دي جاتي تھي ، اُس وقت اعلان کيا گيا کہ عورت کو مالکيت کا حق حاصل ہے ! بيسويں صدي کے اوائل ميں يورپ نے خواتين کو ’’حق مالکيت‘‘ ديا۔ يہ ہے خواتين کے بارے ميں مغرب کا افراطي، غلط اور ظالمانہ رويہ۔
جلتا ہوا مغربي معاشرہ!
اس قسم کے افراط کے مقابلے ميں تفريط بھي موجود ہے ۔ جب اُس گھٹن کے ماحول ميں خواتين کے حق ميں اس قسم کي (ظاہراً )پُرسود تحريک شروع ہوتي ہے تو ظاہري سي بات ہے کہ دوسري طرف سے خواتين تفريط کا شکار ہوتي ہیں ۔ لہٰذا آپ ملاحظہ کريں گے کہ ان چند دہائيوں ميں خود آزادي نسواں کے نام پر مغرب ميں کئي قسم کي برائيوں ، فحاشي و عرياني اور بے حيائي نے جنم ليا اور يہ سب برائياں بتدريج رواج پيدا کرتي گئيں کہ جن سے خود مغربي مفکرين بھي حيران و پريشان ہيں۔ آج مغربي ممالک کے سنجيدہ ، مصلح،خردمند اور سينے ميں دل و تڑپ رکھنے والے افراد اِس جنم لينے والي موجودہ صورتحال سے حيران و پريشان اور ناراض ہيں ليکن وہ اِس سيلاب کا راستہ روکنے سے قاصر ہيں ۔ انہوں نے خواتين کي خدمت کرنے کے نام پر اُن کي زندگي پر ايک بہت کاري ضرب لگائي ہے ، آخر کيوں؟ صرف اِس لئے کہ مرد و عورت کے درميان تعلقات ميں اس لا اُبالي پن، برائيوں اور فحاشي و عرياني کو فروغ دينے اور ہر قسم کي قيد وشرط سے دور مرد وخواتين کي آزادي اور طرز معاشرت نے گھرانے کي بنيادوں کو تباہ و برباد کرديا ہے۔ وہ مرد جو معاشرے ميں آزادانہ طور پر اپني شہوت کي تشنگي کو بجھا سکے اور وہ عورت جو سماج ميں بغير کسي مشکل اور اعتراض کے مردوں سے مختلف قسم کے روابط برقرار کرسکے، گھر کي چارديواري ميں يہ مرد نہ ايک اچھا شوہر ثابت ہوگا اور نہ ہي يہ عورت ايک اچھي اور بہترين و وفادار بيوي بن سکے گي۔ يہي وجہ ہے کہ وہاںگھرانے کي بنياديں مکمل طور پر تباہ ہوگئيں ہيں۔
موجودہ زمانے کي سب سے بڑي بلاوں ميں سے ايک بلا وآفت ’’ گھرانے کے مسائل‘‘ ہيں کہ جس نے مغربي ممالک کو اپنے پنجوں ميں جکڑا ہوا ہے اور انہيں ايک بدترين قسم کي نامطلوب حالت سے دُچار کرديا ہے۔ لہٰذا ايسے ماحول و معاشرے ميں اگر کوئي خاندان اور گھرانے کے بارے ميں نعرہ لگائے (اور اپني منصوبہ بندي کا اعلان کرے) تو وہ اہل مغرب خصوصاً مغربي خواتين کي نگاہوں ميں وہ ايک مطلوب ومحبوب شخص ہے ، ليکن کيوں؟ اس لئے کہ يہ لوگ مغربي معاشرے ميں خاندان اور گھرانے کي بنيادوں کے تزلزل سے سخت نالاں اور پريشان ہيں اور افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ وہاں کے عائلي نظام نے وہ چيز جو مرد و خواتين بالخصوص خواتين کيلئے امن و سکون کاماحول فراہم کرتي ہے ، اپنے ہاتھوں سے کھودي ہے ۔ بہت سے گھرانے اور خاندان تباہ و برباد ہوگئے ہيں ، بہت سي ايسي خواتين ہيں جو زندگي کے آخري لمحات تک تنہا زندگي بسر کرتي ہيں، بہت سے مرد ايسے ہيں جو اپني پسند کے مطابق خواتين حاصل نہيں کر پاتے اور بہت سي ايسي شادياں ہيں کہ جو اپنے نئے سفر کے ابتدائي چند سالوں ميں ہي جدائيوں اور طلاق کا شکار ہوجاتي ہيں۔
ہمارے ملک ميں موجود خاندان اور گھرانے کي جڑيں اور محکم بنياديں ، آج مغرب ميں بہت کم مشاہدہ کي جاتي ہيں۔ مغربي معاشرے ميں ايسے خاندان بہت کم ہيں کہ جہاں دادا، دادي ، نانا ، ناني ،نواسے ، نواسياں ، پوتے، پوتياں،چچا زاد بہن بھائي اور خاندان کے ديگر افراد ايک دوسرے سے واقف ہوں ، ايک دوسرے کو پہچانتے ہوں اور آپس ميں تعلقات رکھتے ہوں۔ وہاں ايسے خاندان بہت کمياب ہيں اور وہ ايسا معاشرہ ہے کہ جہاں مياں بيوي بھي ايک گھر کيلئے لازمي و ضروري پيار ومحبت سے عاري ہيں۔ يہ وہ بلا ہے جو غلط کاموں کو انجام دينے اور ايک طرف سے افراط اور دوسري طرف سے اُس کے مقابل سراٹھانے والي تفريط کے نتيجے ميں اُس معاشرے پر مسلط ہوئي ہے اور اِس کا سب سے زيادہ نقصان مغربي خواتين کو ہوا ہے۔١
١ تہران کے آزادي جيم خانہ ميں خواتين کي ايک بڑي کانفرنس سے خطاب
source : http://www.alhassanain.com