قرآن وہ فرقانِ عظیم ہے جس نے انسان پر دنیا اور آخرت کی حقیقتوں کو بہت ہی واضح انداز میں کھول کر رکھ دیا، جم غفیر جن تاریکیوں میں مبتلا تھی اس کے سامنے وہ روشنی منور کی جس کے ذریعہ صراط مستقیم عیاں ہو گئی، کامیابی اور ناکامی کی راہیں متعین کیں اور ذلت و رسوائی سے نکال کر عزت و شرف کا مقام بخشا۔ اس عظیم تبدیلی کا لازمی تقاضا تھا کہ انسانوں کے گروہوں پر قرآن کے کچھ حقوق لازم کر دیئے جائیں۔ قرآن حکیم اللہ تعالٰی کا وہ حقیقی کلام ہے جو اس کے بندوں کی طرف نازل کیا گیا ہے، اب جو شخص اور قوم اس کو مضبوطی سے تھامے گی وہ کامیاب ٹھہرے گی اور جو اس کو پس پشت ڈالے گا وہ ہلاک ہو جانے والا ہے۔ اسی بات کا تذکرہ کرتے ہوئے اللہ کے رسول (ص) نے حج الوداع کے موقعہ پر ایک عظیم مجمع کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا:
’’میں تم میں دو گراں قدر چیزیں: اللہ کی کتاب اور اہل بیت چھوڑ کر جا رہا ہوں، اللہ کی کتاب اور میری اہل بیت زمین و آسمان کے درمیان اللہ کی دراز رسی ہے اور مجھے لطیف الخبیر نے خبر دی کہ یہ حوض کوثر پر میرے پاس آنے تک ہرگز ایک دوسرے سے جدا نھیں ہونگے‘‘
قرآن ہماری آزادی کا منشور ہے، قرآن ہماری آزادی کی راہ کا تعین کرنے والا ہے، اس کتاب میں توحید و رسالت کی تلقین بھی ہے، طریقہ بندگی کے اطوار بھی۔ طہارت و پاکیزگی کے دروس بھی ہیں، انبیاء علیہم السلام کی پاکیزہ زندگیاں بھی، مغرور و متکبر اقوام کے قصے بھی ہیں اور ان کے عروج و زوال کی تاریخ بھی، حکومت و اقتدار کے داو پیچ بھی ہیں، اور سیاست کی تعلیم بھی۔ اس میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ والدین اور اولاد کے درمیان کس قسم کا تعلق مطلوب ہے۔ تعلق زن و شوہر کے دوامی اصول بھی سکھائے گئے ہیں، رشتہ داروں اور قرابت داروں کے حقوق کے متعلق احکامات بھی ہیں، نافرمانی کرنے والوں کے لیے تہدید و وعید بھی ہے، شیطان مردود کی چالوں سے محفوظ رہنے کی تدبیریں بھی بتائی گئی ہیں۔ یہ خلاف قانون عمل کرنے والوں کو سزائیں تجویز کرنے والی کتاب بھی ہے۔ زندگی بعدِ از موت میں آدمی کی کامیابیوں کی ضمانت کا زرین نسخہ بھی ہے۔
یہ وہ کتاب ہے جو اپنی طرف رجوع کرنے والوں کے لیے جسم و روح کی بیماریوں کے لیے علاج ہی نہیں بلکہ ذہن و دل کی پراگندگی اور اخلاق و کردار کی کمزوری کے ليے اکسیر بھی ہے۔ یہ انسان کو ایک عظیم الشان شخصیت کی حامل بنانے والی کتاب ہے، قرآن انصاف و ناانصافی، اچھائی اور برائی میں فرق کرنے والا فرقان ہے۔ غرضیکہ یہ کتاب موجودہ زندگی کے مسائل کا حل بھی پیش کرتی ہے اور اگلی زندگی کی کامیابیوں کی ضامن بھی ہے۔ لاقانونیت کے شکار لوگوں کے لیے رہنما اور صحیح راستے کی طرف نشاندہی کرنے والی ہے، اندھیروں میں بھٹکتے ہوئے مسافروں کے لیے مشعل راہ بھی ہے۔ قرآن دلوں کی بہار، مريضوں کی شفا، علم و دانش کا سر چشمہ، شناخت خدا اور معرفتِ پروردگار کے لئے سب سے محکم، مستدل، اور متقن دليل منبع شناخت اسرار و رموز ِ کردگار مرجعِ فہم و ادراک منشا پروردگار، وہ سرچشمہ آب زلال جو زنگ لگے دلوں کو اس طرح صاف کرتا ہے کہ پھر انہيں ملکوت کي سير کے سوا کچھ اچھا نہيں لگتا۔
ليکن افسوس! پیغمبر اسلام محمد مصطفٰی (ص) کی نصیحت کے باوجود قرآن کو تنہا کر دیا، وہ قرآن جو تہجر کے يخ زدہ پہاڑوں کو پگھلانے کے لئے نازل ہوا تھا آج وہی کتاب تہجر کا شکار ہے اور آواز دے رہی ہے مجھے کس طرح ميرے ماننے والوں نے خود اپنے ہی وجود ميں منجمد کر ديا۔ ميں تو منجمد شدہ پيکروں کو آوازِ حق کی گرمی سے پگھلا کر اشرف المخلوقات انسان کو کمال کی انتہا پر پہنچانے آئي تھی، ليکن آج ميرا وجود ہی ايک حرف بن کر رہ گیا ہے۔
پیغمبر اسلام محمد مصطفٰی (ص) کی چھوڑی جانے والی دوسری چیز تھی اہل بیت علیھم السلام ۔۔۔۔ علی علیہ السلام اہل بیت کا محور ۔۔۔ علی (ع) تاريخ بشريت کی مظلوم ترين شخصيت، اتنی بڑی کائنات ميں وہ اکيلا انسان جو صدياں گزر جانے کے بعد آج بھی اکيلا اسی جگہ کھڑا ہے جہاں صديوں پہلے کھڑا تھا۔ اس انتظار ميں کہ شايد کچھ ايسے افراد مل جائيں جو اسے سمجھ سکيں اور پھر اسکا اکيلا پن دور ہو جائے، ليکن زمانہ جيسے جيسے آگے بڑھ رہا ہے وہ اور زيادہ اکيلا ہوتا چلا جا رہا ہے، بالکل قرآن کی طرح۔ علی (ع) اور قرآن، کتنی يکسانيت ہے دونوں ميں؟ سچ کتنی اپنائيت ہے دونوں ميں؟ جيسے دونوں کا وجود ايک دوسرے کے لئے ہو، دونوں ايک دوسرے کے درد کو سمجھتے ہوں۔ يہ بھی کيا عجيب اتفاق ہے امت محمدی کو مالک کی طرف سے دو عظيم عطيے ملے، ليکن دونوں مظلوم، دونوں تنہا، دونوں درد کے مارے، مگر آپس ميں ہماہنگ اس جہت سے کہ دونوں پر ظلم کرنے والے اور کوئی نہيں بلکہ خود اپنے ہی ماننے والے ہيں۔ کیا حاصل کیا ہم نے پیغمبر (ص) کی نصیحت سے؟ ہم نے تو دونوں چیزوں سے صرف نظر کرلیا ۔۔۔۔۔ دعویٰ محبت کا کرتے ہیں ۔۔۔۔ عمل الٹ کرتے ہیں۔
جس طرح آج کروڑوں لوگ اپنی زندگی ميں صبح و شام قرآن کا ورد کرتے ہيں ليکن نہ تو وہ قرآنی معارف کا علم رکھتے ہیں اور نہ ہی ان مفاہیم کو سمجھنے کی سعی کرتے ہیں اور اگر جانتے بھی ہیں تو عمل نہیں کرتے اور نہ وہ يہ جانتے ہيں کہ قرآن ان سے کيا چاہتا ہے۔ اسی طرح علی علیہ السلام کی ذات بھی ہے۔ لوگ علی (ع) کا تذکرہ کرتے نہيں تھکتے، صبح و شام علی علی کرتے ہيں، انکی محفلوں ميں علی (ع) کا نام ہے، مجلسوں ميں علی (ع) کا ذکر ہے، تقريبوں ميں علی (ع) کا چرچا ہے، خلوت کدوں ميں علی (ع) کے نام کا ورد ہے، ليکن صرف نام لینے تک محبت محدود ہے۔۔۔۔۔ انہيں نہيں معلوم کہ يہ شخصيت کن اسرار کی حامل ہے اور خود يہ ذات اپنے چاہنے والوں سے کيا چاہتی ہے، انہيں تو اس بات کا بھی علم نہيں ہے کہ جن فضيلتوں کا تذکرہ وہ دن بھر کرتے رہتے ہيں وہ تمام فضيلتيں تو فضائل ِ علی (ع) کے سمندر کا ايک قطرہ ہيں اور بس! علی کی ذات تو کچھ اور ہی ہے۔
آج قرآن کے نام پر نہ جانے کتنی محفليں ہوتی ہيں۔ نہ جانے کتنی نشستوں کا اہتمام کيا جاتا ہے، نہ جانے دنيا ميں کن کن طريقوں سے قرآن کی قرآت کے مختلف اساليب کا مسابقہ ہوتا ہے، نہ جانے کتنی جگہ قرآن فہمی کے دروس رکھے جاتے ہيں، بالکل اسی طرح علی (ع) کے نام پر بھی محفليں سجتی ہيں، بے شمار تقريبيں ہوتی ہيں، لاتعداد سيمينارز ہوتے ہيں، ليکن صبح و شام نہ قرآن کے ورد کرنے والوں کو قرآن کے مفاہيم کا اندازہ ہے اور نہ ہی اس کے آفاقی پيغامات پر کوئي غور و خوض کرنے پر اپنے آپ کو آمادہ کر پاتا ہے۔ نہ ہی علی (ع) کے نام کو صبح سے شام تک اپنی زبان پر لينے والے افراد يہ جانتے ہيں کہ علی (ع) کی شخصيت کيا ہے اور رفتار علوی کسے کہتے ہيں۔؟
قرآن و علی علیہ السلام کا پیغام ایک ہے، علی علیہ السلام قرآن ناطق ہیں ۔۔۔۔۔ قرآن کی بات علی کی بات ہے ۔۔۔۔۔ قرآن سے دوری، علی علیہ السلام سے دوری ہے ۔۔۔۔ اگر علی سے محبت کا دم بھرتے ہیں تو قرآن و اہل بیت علیھم السلام ہماری زندگی کا محور ہونے ضروری ہیں ۔۔۔۔ ہمارے قول و فعل سے قرآن و اہل بیت (ع) کی جھلک نظر آنا ضروری ہے، ان دونوں میں سے ایک بھی ہماری زندگی سے رہ گیا تو سمجھ لینا چاہئے کہ ہم کم از کم اس صراط مستقیم پر نہیں، جس پر چلنے کی ہم ہر نماز میں تکرار کرتے ہیں۔
آئیں اس مہینے میں علی علیہ السلام کی تنہائی کو دور کرنے کی کوشش کریں، سمجھنے کی کوشش کریں کہ علی (ع) تنہا کیوں ہے؟ علی (ع) تنہا ہوتا ہے تو کربلا وجود میں آتی ہے، علی و قرآن تنہا ہوتے ہیں تو یزید جیسے حاکم بن جاتے ہیں ۔۔۔۔ آئیں اس بابرکت مہینے میں اس بات کا عہد کریں کہ علی و قرآن کی تنہائی کو دور کریں گے۔ خود مولا علی علیہ السلام نہج البلاغہ میں لوگوں کو اس طرح وصیت فرماتے ہیں:
قرآن کی بنیاد پر اپنے اعمال کی کھیتی کرنے والے اور اس کے پیرو ہو جاؤ، قرآن کو اپنے پروردگار پر دلیل و گواہ قرار دو، خدا کو خود اسی کے کلام سے پہچانو! اوصاف پروردگار کو قرآن کے وسیلہ سے سمجھو! قرآن ایسا رہنما ہے جو خدا کی طرف تمھاری رہنمائی کرتا ہے۔ اس الٰہی رہنما سے اس کے بھیجنے والے (خدا) کی معرفت کے لئے استفادہ کرو اور اس خدا پر جس کا تعارف قرآن کرواتا ہے ایمان لاؤ۔ اے لوگو! تم سب کو ایک خیر خواہ اور مخلص کی ضرورت ہے، تاکہ ضروری موقعوں پر تمھیں نصیحت کرے، قرآن کو اپنا ناصح اور خیر خواہ قرار دو اور اس کی خیر خواہانہ نصیحتوں پر عمل کرو، اس لئے کہ قرآن ایسا ناصح اور دلسوز ہے، جو ہرگز تم سے خیانت نہیں کرتا ہے اور سب سے زیادہ اچھی طرح سے صراط مستقیم کی طرف تمھاری ہدایت کرتا ہے۔
source : http://www.islamtimes.org