اردو
Monday 23rd of December 2024
0
نفر 0

سیرت النبی میں نرمی اور رواداری

حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات گرا می اس خصوصیت کی حامل تھی کہ آپ لوگوں کے ساتھ نر می اور رواداری سے پیش آیا کر تے تھے اور ساتھ ہی تشر یع احکا م میں سہو لت وآسا نی کو بھی پیش نظر رکھتے تھے اور آپ کو ان دونوں صفات کو اپنانے کا حکم بھی دیا گیاتھا یہ دونوں خصوصیتیں آپ کے بہت سے خصائل وصفات، معا شرت کے بہت سے آداب اور دیگر اوا مر و نوا ہی میں سب سے زیادہ ممتا ز ہیں جیسا کہ خدا وند عا لم نے بھی اس کے متعلق ارشاد فر ما یا ہے:وَاِنَّکَ لَعَلٰی خُلَق عظیم:میرے حبیب!واقعاًتم خلق عظیم کے در جہ پر فا ئز ہو۔(قلم:۴)

آپصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ساد گی وآسا نی کے بہت سے شوا ہد ودلا ئل ، قر آ نی آیا ت اور اسلا می روا یا ت میں ملتے ہیں:

قرآن مجید میں رواداری کے نمو نے:

متعدد آ یا ت میں اس با ت کا ذ کر مو جو د ہے: 

پہلی آ یت: فَبِمَا رحمۃ مِنَ اللہِ لِنۡتَ لَھُمۡ وَلَوۡ کُنۡتَ فَطّاًغَلِیظَ الۡقَلۡبِ لَانُفَضُّوا مِنۡ حَولِکَ فَاعۡفُ عَنۡھُمۡ وَاسۡتَغۡفِرۡ لَھُمۡ وَشَاوِرۡھُمۡ فِیۡ الۡامۡرِ فَاِذَاعَزَمۡتَ فَتَوَکّلۡ عَلَی اللہِ اِنَّ اللہَ یُحِبُّ الۡمُتَوَکِّلِیۡنَ: (تو اے رسو ل!یہ بھی)خدا کی ایک مہر با نی ہے کہ تم (سا)نر م دل (سر دار)ان کو ملا اور تم اگر بد مزا ج اور سخت دل ہو تے تب تو یہ لوگ (خدا جا نے کب کے)تمھا رے گر د سے تتر بتر ہو گئے ہو تے پس( اب بھی) تم ا ن سے در گذر کرو اور ان کے لئے مغفرت کی دعا ما نگو اوران سے کا م کا ج میں مشورہ کر لیا کرو(مگر)اس پر بھی جب کسی کا م کوٹھان لو تو خدا ہی پر بھرو سہ ر کھو۔جو لو گ خدا پر بھرو سہ ر کھتے ہیں خدا ان کو ضرو ر دو ست رکھتا ہے۔(آل عمرا ن:۱۵۹)

اس آیت میں اعما ل و اخلاق میں رواداری کے متعدد عنا صر جمع ہیں ان میں سے ہر ایک پر نہا یت تو جہ اور غو ر و فکر کرنے کی ضرو رت ہے یہ سارے نکا ت قا بل تحقیق ہیں:

۱۔لوگوں کے سا تھ گزر بسر کر نے میں گفتا ر و کردا ر میں نرمی ، دو سری أٓ یا ت کی طرح اس آ یت میں جو نکتہ قا بل غور ہے وہ یہ ہے کہ اس میں نر می کی خصوصیت جمع ہے ، نر م خو ئی کی تشو یق و تر غیب کی گئی ہے اور اس کی ضد یعنی سختی و سنگد لی سے روکا گیا ہے ، نر م خو ئی کے مقا بلہ میں جو دو(۲) چیزیں ہیں ان میں سے صرف ایک ہی چیز پر اکتفانہ کی اور دونوں مفہو م یعنی درشتخو ئی اور سنگد لی(جو اندرونی غصےاور سختی کا با عث ہو تی ہے )کو بیا ن کیا ہے ایسا طر یقہ یعنی کسی چیز کا حکم دینا اور اس کی ضد سے رو کنا ایک ایسا قرآ نی طر یقہ ہے جس کے با رے میں اسی مقالہ میں اسلامی احکا م کے خصوصیا ت کی بحث میں بیا ن آنے وا لاہے۔

۲۔عمل کے نتیجہ کو اس کے بر عکس نتا ئج کے سا تھ بیا ن کیا ہے یعنی لوگوں کا پیغمبرصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اطرا ف سے پرا کندہ و منتشر ہو نے کو بیا ن کیا ہے اس کا بر عکس یہ ہے کہ لوگوں کا پیغمبرصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پا س جمع ہونا اور آپصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی با توں کا سننا اسی وقت ممکن ہو گا جب آ پ کے مزاج میں نر می ہو ۔

۳۔اگر لوگوں سے کو ئی غلطی ہو جا ئے وہ لو گ لغزش کر جائيں تو انھیں معا ف کر دینے کا حکم دیا گیا ہے اسی لئے مغفرت و بخشش کو حسن معا شرت کے اسباب و عوا مل میں شما ر کیا گیا ہے اور اسے رواداری کا سبب بتا یا گیا ہے۔

۴۔آیت میں جو مغفرت و بخشش کی تعبیر آ ئی ہے اس سے یہ اندا زہ ہو تا ہے کہ عوا م قصوروار ہیں ان سے کو تا ہی اور غلطی ہوتی ہے۔ان با توں سے یہی پتہ چلتا ہے کہ خطا کا ر کے ساتھ اچھا بر تاؤ کر نا چا ہئے۔

۵۔جن لوگوں نے خطا کی ہے ان سے مشورہ کر نے میں اعلیٰ درجے کی خو ش رفتاری کا اعلا ن ہے، برا ئی کا جوا ب نیکی سے دیا جارہا ہے کیو نکہ رائےاور مشورہ ،صلح وصفائي کی علا مت ہے اور اس با ت کی نشا نی ہے کہ اندرو نی وبیرونی طو ر پر کو ئی عداوت و دشمنی نہیں ہے جیسا کہ دو(۲)دوستوں کے در میا ن یہ خصوصیت پا ئی جا تی ہے،مشورہ، طرفین کے در میان برا دری و دوستی اور اعتماد کی حکا یت کر تا ہے نیز اس با ت پر دلا لت کر تا ہے کہ سارے کینے دشمنیاں اور خصو متیں اب ختم ہوچکی ہیں۔

۶۔آیت کے آخری حصہ میں نرمخوئی ،بخشش ومغفرت اور رائے و مشورے کے تمام مراحل میں خدا پر تو کل کا حکم دیا گیا ہے ، اس کے معنی یہ ہیں کہ اے رسولصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم !اگر آپ نے خدا پر تو کل کیا تو نہ صرف یہ کہ آ پ کا ذراسابھی نقصان نہ ہو گا بلکہ توکل کر نے والوں کو خدا دو ست ر کھتا ہے۔بنا بر ایں آیت کا سیا ق ان تمام اہم عنا صر وخصوصیات کے سا تھ عوا م کے سا تھ نہایت نرمی اور رواداری سے پیش آنےپر دلا لت کرتا ہے۔

دو سری آیت: خُذِ الۡعَفۡو و اۡمُرۡ بِالۡعُرۡفِ وَ اَعۡرِضۡ عَنِ الۡجَاھِلِیۡنَ (اے رسو ل!)تم درگزرکرنا اختیار کرو اور اچھےکا م کا حکم دو اور جا ہلوں کی طرف سے منھ پھیر لو۔(اعراف:۱۹۹)

خداوندعالم نے اس آیت میں بھی تین (۳)عملی خصوصیات کو بیان فر مایاہے ان میں سے ہر ایک خصوصیت، حسن خلق اور رواداری کی مستلزم ہے:

۱۔اخلاق اور لوگوں کی ضرو ریات سے زا ئد اموا ل کے سلسلہ میں عفو وبخشش اور گذ شت کا حکم دیا گیا ہے، یہ نکتہ ایک دوسری آ یت میں بھی بیا ن کیا گیا ہے:وَ یَسالُونَکَ مَاذَا یُنۡفِقُونَ قُلِ الۡعَفۡوَ:اے پیغمبرصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! لوگ تم سے یہ پو چھتے ہیں کہ کیا انفا ق کر یں؟ تم کہہ دو کہ اپنی سا لا نہ ضرو ریا ت سے زا ئد چیزوں کا انفا ق کر یں۔(بقرہ :۲۱۹)اس آ یت کی تفسیر میں سالانہ اخرا جا ت کے علا وہ نیز اسراف و امساک کے در میا ن جو مصرف واستعما ل کا معیا ر ہے اس کو پیش نظر ر کھتے ہو ئے بیا ن کیا گیا ہے بہر حا ل اس میں جو لفظ "العفو" آیا ہے وہ لین دین میں آسا نی وسہو لت پر دلالت کرتا ہے۔

۲۔عرف میں جو امور نیک ہیں ان کا حکم دیا گیا ہے یعنی عوام کی جو عا دتیں پسندیدہ ہیں اور وہ عقلی و شر عی طو ر پر نیک شما ر ہوتی ہیں اور جو چیزیں عوا م کے در میا ن متعا رف ہیں۔

۳۔نا دان افرا د سے روگر دانی یعنی اگر چہ جہا لت و نا دا نی اور بے وقو فی یہ سب ایسے گنا ہ ہیں جن پر سزا ملے گی لیکن اس کے با وجود بھی آپ انھیں معذور سمجھیں انھیں معا ف کر دیں ان کی سفا ہت و جہا لت کا جوا ب حلم و بردبا ری کےساتھ دیں۔

تیسری آیت:وَلاتَسۡتوِی الۡحَسََنۃُ وَلَا السَّیِئَۃُ اِدۡفَعۡ بِالَّتِی ھِیَ اَحۡسَن فَاِذَا لَّذِیۡ بَیۡنَکَ وَ بَیَۡنہ عَدَاوَۃٌ کَاَنّۃ وَلِیُ حَمِیۡمٌ ،وَمَا یَُلقَّاھَا اِلَّا الَّذِیَۡن صَبَرُوا وَ مَا یُلَقَّاھَا اِلَّا ذُوۡحَظِِّ عَظِیۡمِِ:اچھائی اور برائی یہ دونوں برابر نہیں ہو سکتی ہیں بہترین طر یقہ سے دوسرو ں کو دفع کروتا کہ تمھا رے اور جس شخص کے در میا ن دشمنی ہے وہ ایک مہر با ن دو ست بن جا ئے، اور اس چیز کو جو لوگ صبر کر تے ہیں اور وہ عظیم بہر ہ رکھتے ہیں ان کے علا وہ کو ئی بھی قبو ل نہیں کرسکتا۔(فصلت : ۳۴، ۳۵)

ان دونوں آ یتوں میں بھی برائی اور برے لوگوں کے ساتھ مدارا اور رواداری اور جو کچھ ان دونوں کا لا زمہ ہے وہ سا ری با تیں جمع ہیں:

۱۔ایک با ت جس کو عقلاء عالم نے تسلیم کیا ہے اسی کو یا د دلا تے ہوئے کلا م کا آغا ز ہوا ہے اور وہ یہ ہے : نیکی کے سا تھ برائی یہ دونوں چیزیں برائی اور اچھا ئی میں برا بر نہیں ہیں نیز لین دین اور سزا واجر میں بھی برا بر نہیں ہیں کیو نکہ یہ بات تسلیم شدہ ہے کہ برائی کا بد لہ برا ئی ہے اور نیکی کا بد لہ نیکی ہے اس کا بر عکس نہیں ہے۔

۲۔اس مسلم اصل کو تسلیم کر تے ہو ئے اس نکتہ پرتاکیدکی گئی ہے کہ حضرت پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (اور کلام الٰہی کے ہر مخاطب)کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ الٹے بد لے دیں برا ئی کا بد لہ مزید نیکی سے دیں ( نہ صرف نیکی سے بلکہ بہتر نیکی سے دیں)عظیم نیکی اور سب سے بلند نیکی سے اس کا جوا ب دیں یہ با ت برے افراد کے سلسلہ میں نرمی اور رواداری کوعروج پرلے جاتی ہے۔ اور اس بڑھکر نیکی اور حسن خلق کیا ہوسکتاہے ۔

۳۔پھر آخر میں اس کا م کے نتیجہ کی طر ف اشا رہ کیا ہے اور یہ یاد دہانی کرائی ہے کہ ایسا ہو سکتا ہے کہ جب دشمن کا سا منا ہو تو وہ یکا یک مہر با ن دو ست میں بد ل سکتا ہے لیکن آيت کا سیا ق اس نتیجہ کو بیا ن کر نے میں بھی نہا یت بلاغت پر مشتمل ہے کیو نکہ حرف"اِذَا"(یعنی یکا یک)فجائیہ سےآغاز ہو تا ہے کیو نکہ اس نکتہ کا اعلا ن کیا جا ر ہا ہے کہ یکا یک ایسی با ت وا قع ہو سکتی ہے کہ کسی کو بھی اس کی توقع نہ رہی ہو اور اس حا لت میں بھی آ یت میں یہ ار شا د نہیں ہے کہ تمھا رادشمن تمہارا دوست بن جا ئے گا بلکہ یوں ارشاد ہو تا ہے :وہ شخص تمھارے اور جس کے در میا ن تھو ڑی سی دشمنی ہے وہ ایک مہر با ن دو ست بن جا ئے گا۔

بنا بر ایں ان کے اور ان کے دشمن کے در میان جو دشمنی تھی اسے دو ستی اور وہ بھی ایسی دو ستی میں بد ل دیا جودو مہربان دوستوں کی دوستی ہے اور یہ دو ستی و محبت اور مہربانی کا بہت عظیم در جہ ہے۔ خدا نے پہلی آ یت اور دوسری آ یت میں بھی یہ بتا دیا کہ یہ بد لہ صرف ان لوگوں کو دیا جا ئے گا جو صبرو تحمل سے کام لیتے ہیں، برائی پراور برے لوگوں سے غصہ نہیں ہو تے بلکہ ان کی برا ئیوں کو بردا شت کرتے ہیں، بردبا ری سے کا م لیتے ہیں اور اپنے او پر کنٹرو ل کرتے ہیں۔

دو سری آ یت اسی پر اکتفا نہیں کر تی چنا نچہ وہ اپنے نفس پر قا بو پا نے کی خصوصیت کے علا وہ مز ید یہ بتا تی ہے کہ صرف وہی لوگ اس نفسیاتی جنگ کو بر دا شت کر نے کاحوصلہ رکھتے ہیں جو بردبا ری کے عظیم در جہ پر فا ئز ہوں اور وہ لو گ اندرو نی لحاظ سے بھی عظیم قدرت و توا نا ئی رکھتے ہوں اور اپنے جذبات پر مکمل طو ر سے غا لب ہوں بہرحال ان دونوں آیتوں کی طرح کچھ دوسری آیات بھی ہیں جن میں ارشاد ہوتا ہے:

۱۔وَالَّذِیۡنَ صَبَرُوا ابۡتِغَاءَ وَجۡہِ رَبِّھِمۡ وَ اَقَامُوا الصَّلوٰۃَ وَ اََنۡفَقُوا مِمَّا رَزَقۡنَاھُمۡ سِرّاً وَّعَلَانِیَۃً وَّ یَدۡرَءُوۡنَ بِالۡحَسَنَۃِ السَّیِّۃَ اَوۡلٰئکَ لَھُمۡ عُقۡبَی الدَّارِ:(یہ)وہ لو گ ہیں جو اپنے پر ور دگا ر کی خوشنودی حاصل کر نے کی غرض سے(جو مصیبت ا ن پر پڑی)اسے جھیل گئے اور پا بند ی سے نما ز اداکی اور جو کچھ ہم نے انھیں روزی دی تھی اس میں سے چھپا کر اور دکھلا کر(خدا کی را ہ میں)خرچ کیا اور یہ لو گ برائی کو بھی بھلائی سے دفع کر تے ہیں یہی لو گ ہیں جن کے لئے آخرت کی خو بی مخصوص ہے۔(رعد:۲۲)

یہ ان مو منین کے صفات ہیں جو ایما ن کے کا مل درجہ پر فائز ہیں کیو نکہ برا ئیوں کا جوا ب نیکی سے دینا یہ پر ہیزگار افرادکے عظیم فضائل میں سے ہے۔

اسی آ یت میں اس حقیقت کا صبر و شکیبائی اور طلب رضائے الٰہی، نما ز کی بر قراری اور خدا کی عطا کی ہو ئی روزی کا کھلم کھلا اور پو شیدہ طو ر پر بخشنا ان سارے امو ر کے سا تھ مقابلہ کیا گیا ہے، اس آ یت میں بھی اور اسی سو ر ہ کی چوبیسویں آیت میں بھی اس با ت کی تکرا رہےکہ ایسےہی افراد کا انجام نیک ہوگا۔

۲۔اُولٰئِکَ یُوتَونَ اَجۡرَھُمۡ مَرَّتَیَۡنِ بِمَا صَبَرُوا وَ یَدُرَءُونَ بِالۡحَسَنَۃِ السَّیِّئۃَ وَ مِمَّا رَزَقۡنَاھُمۡ یُنۡفِقُوۡنَ:یہ وہ لو گ ہیں جنھیں(ان کے اعما ل خیر کی)دوہری جزادی جائےگی چونکہ ان لوگوں نے صبر کیا اور بدی کو نیکی سے دفع کر تے ہیں اور جو کچھ ہم نے انھیں عطا کیا ہے اس میں سے(ہما ری راہ میں)خرچ کر تے ہیں۔(قصص:۵۴)

یہ آیت اور اس سے پہلی والی آ یت اہل کتا ب کے با رے میں نازل ہوئی ہے ان کے کچھ اوصاف بیا ن کئے گئے ہیں یہاں تک کہ ار شاد ہوتا ہے:"انھوں نےجوصبرکیا اورتحمل سے کام لیا ہے انھیں دوہرا اجر دیاجائےگا وہ لوگ برائی کو نیکی کے ذریعہ دور کرتے ہیں ۔"

انھیں دوہرا اجر دینے کی علت دو(۲) چیزیں ہیں اور دونوں کا تعلق نرمی اور رواداری سے ہے :

 

صبر و تحمل اوربرائیوں کا جواب نیکی سے دینا

۳۔اِدۡفَعُ بِالَّتِیۡ ھِیَ اَحسَن السیئۃ نَحنُ اَعلَمُ بِمَا یَصِفُونَ:بری بات کے جوا ب میں ایسی با ت کہو جو نہا یت اچھی ہو جو کچھ یہ لو گ (تمھا ری نسبت)بیا ن کر تے ہیں اس سے ہم خوب واقف ہیں۔( مو منون:۹۶)

سب سے زیادہ تعجب تو اس با ت پر ہے کہ یہ آ یت مشر کین کے ان اعمال و اوصاف کے بعد آئی ہے جن کی وجہ سے وہ لوگ عقاب وسزا کے مستحق ہوئے ہیں اس کے با و جو د بھی خدا وند عا لم نے اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حکم دیا ہے کہ ان کی برا ئیوں کا جوا ب بہت اچھے طر یقہ سے دو پھر آخر میں یہ اطمینا ن بھی دلا رہا ہے کہ مشر کین جو خدا کے لئے فر زند و شر یک کے قا ئل ہیں خدا اس سے اچھی طرح باخبر ہے۔

۴،۵۔وَالَّذِیۡنَ اِذا اَصَابَھُمُ الۡبَغۡیُ ھُمۡ یَنۡتصُرون وَ جَزَآءُ سَیِّئَۃٍ سَیِّئَۃٌ مِثۡلُھَا فَمَنۡ عَفَا وَ اَصۡلَحَ فَاَجۡرُہ عَلَی اللہِ اِنَّہ لَایُحِبُّ الظَّالِمِیۡنَ ، وَ لَمَنِ انتَصَرَبَعدَ ظُلۡمِہ فَاُولٰٓئِکَ مَاعَلَیۡھِمۡ مِنۡ سَبِیۡلٍ ، اِنَّمَا السّبِیۡلُ عَلَی الَّذِیۡنَ یَظلِمُوَن النَّاسَ وَ یَبۡغُونَ فِی الاَرضِ بِغیرِ الۡحَقِّ اُولٰٓئِکَ لَھُم عَذَابٌ اَلِیۡمٌ ، وَ لَمن صَبَرَ وَغَفَرَ اِنَّ ذٰلِکَ لَمِنۡ عَزۡمِ الۡاُمُورِ:اور(وہ ایسے ہیں کہ)جب ان پر(کسی قسم کی)زیا دتی ہوتی ہے تو وہ بس واجبی بدلہ لےلیتےہیں اوربرائی کا بدلہ تو ویسی ہی برائی ہے اس پر بھی جوشخص معا ف کر دے اور(معاملہ کی)اصلاح کردے تو اس کا ثوا ب خدا کے ذ مہ ہے بیشک وہ ظلم کر نے وا لوں کو پسند نہیں کرتا اور جس پر ظلم ہوا ہو اگر وہ اس کے بعد انتقام لے تو ایسے لوگوں پر کوئی الزام نہیں، الزام تو بس انھیں لوگوں پر ہوگا جو لوگوں پر ظلم کر تے ہیں اور رو ئے زمین میں ناحق زیادتیاں کر تے پھر تے ہیں ان ہی لوگوں کے لئے درد ناک عذاب ہے اور جو صبر کرے اور قصور معاف کر دے تو بیشک یہ بڑے حوصلے کا کام ہے۔(شوریٰ:۳۹۔ ۴۳)

ان آیات شر یفہ کے متن کو بیا ن کر کے اور ان کے متعلق گفتگو وتحقیق کو ذ کر کر کے ہم اپنی گفتگو کو طو لا نی نہیں کر نا چاہتے لہٰذا آپ خود عفو ، تو بہ، غفران،ر حمت،صبر وشکیبائی اور احسان و نیکی سے متعلق تما م آیات کا مطا لعہ فر ما سکتے ہیں آپ کو یہ اندازہ ہو جا ئے گا کہ ان آیا ت میں کس قدر نرمی اوررواداری پرتاکید پائی جاتی ہے۔ ہما را صرف یہ عرض کر دینا کا فی ہے کہ سر ور کا ئنا تصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پو ری دنیا کے لئے رحمت بنا کر بھیجا گیا ہے:وَمَا اَرسَلنَاکَ اِلَّا رَحمَۃً لِّلعَالَمِیۡنَ:ہم نے تمھیں پو ری کائنات کے لئے مجسم رحمت بنا کر بھیجا ہے۔(انبیاء:۱۰۷)

اگر آپ حضرت رسو ل اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحمت و مہر با نی کا اندا زہ لگا نا چا ہتے ہیں تو اس آ یت پر غو ر کر یں:لَقَد جَآءَکُمۡ رَسولٌ مِّنۡ اَنۡفُسِکُمۡ عَزِیزٌ عَلَیہِ مَاعَنِتُّمۡ حَرِیۡصٌ عَلیکُمۡ بِالمُومِنِیۡنَ رَؤفٌ رَّحِیۡمٌ:(اے لوگو)تم ہی میں سے(ہما را)ایک رسو ل تمھا رے پا س آچکا ہے(جس کی شفقت کی یہ حا لت ہے کہ )اس پر شاق ہے کہ تم تکلیف اٹھاؤ اور اسے تمھا ری بہبودی کا ہو کا ہے وہ ایمانداروں پر حد درجہ شفیق و مہربان ہے۔(تو بہ: ۱۲۸)

روایات میں نرمی و رواداری کا تذ کر ہ بڑی کثرت سے ملتا ہے ہم یہاں پر حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت سے صرف دو(۲)واقعات کو بیا ن کر یں گے کہ آپ نے اپنے سب سے بڑے دشمنوں کے سا تھ کیسا بر تاؤ کیا۔

ایک وا قعہ مکہ میں مشر کین سے متعلق ہے اور دوسرا وا قعہ مدینہ میں منا فقین سے متعلق ہے یہ دونوں وا قعات ہجرت کے بعد پیش آئے۔

مشر کین مکہ کی اکثریت قر یش کی تھی اور ان میں سے اکثر افرا د حضرت رسو ل اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے رشتے دار تھےاگر پیغمبرصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زند گی کا مطالعہ کیا جا ئے اور مکی سوروں اور آیات پر غور کیا جائے تو اندازہ ہو جائے گا کہ وہ لوگ آپصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کس قدر آزار واذیت دیتے تھے ،آپ کو جھٹلاتے تھے، مذاق اڑاتے تھے نیز آپ کی ملامت اور آپ کوطرح طرح سے اذیت دیا کرتے تھے ان کی اذ یت وآزاراس قدر بڑھ گیا تھا کہ آپ کو مجبو ر ہو کر مکہ سے مدینہ کی جا نب ہجرت کر نی پڑی چنا نچہ آپ سے پہلے بھی کچھ اہل ایمان پریشان ہو کر حبشہ ہجرت کر چکے تھے لیکن اس کے با و جود بھی پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فتح مکہ کے بعد ہجرت کے آٹھویں سا ل میں مشر کین سے خطاب کرتے ہوئے فر مایا:"ہجرت سے پہلے تم لوگوں نے مکہ میں میرے ساتھ جو برا سلو ک کیا ہے اور مدینہ ہجرت کر نے کے بعد بھی جو کچھ کیا ہے اور مجھ سے جو جنگیں کی ہیں یہ بتاؤ کہ تمھیں کیا توقع ہے کہ میں تمھا رے سا تھ کیا بر تاؤ کروں گا؟" مشرکین نے کہا: ہمیں تو آپ سے یہی امید ہے کہ آ پ ہما رے ساتھ ایک بزرگوار بھا ئی اور سرفراز بھتیجے کی طرح پیش آئيں گے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:جاؤ تم سب لوگ آزاد کیا۔

مدینہ کےمنافقین نے آپ کے مدینہ ہجرت کر تے ہی منا فقت شروع کردی منا فقین کا سر دا ر "عبد اللہ بن اُبی "تھا اس کے بہت سے ساتھی بھی اس کے ہمنوا تھے یہ لو گ را ت دن اور خصوصاً جنگ کے دو ران ہمیشہ سازش کر تے ر ہتے تھے چنا نچہ انھوں نے غزوۂ احد سے غزوۂ تبو ک تک صرف یہی کیا۔حضرت رسو ل اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور دو سرے مومنین ان لوگوں سے بالکل تنگ آچکے تھے چنا نچہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت اور تا ریخ کی کتا بیں نیز بہت سی مدنی آیتیں سورۂ بقرہ کی ابتدائی آیات اور پورا سورۂ منافقون اس نفاق اور سا زش کوآشکار کررہا ہے لیکن اس کے باوجود بھی حضرت رسو ل اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عبد اللہ بن ابی جیسے منا فق اور اس کے ہمنواؤں کوآخری لمحات تک برداشت کیا یہاں تک کہ جب وہ مرگيا توآپ نے اس کے جنا زہ میں شر کت کی اور نما ز جنا زہ بھی پڑھائی جب کہ آپ کے اصحاب برا بر عبد اللہ بن ابی کو قتل کر نے کا مشورہ دیا کر تے تھے اور اس کی نما ز جنا زہ پڑھانے سے بھی منع کر تے تھے مگر آپ نے کسی صحا بی کی با ت نہ ما نی بلکہ آپ کے اصحاب یہ چا ہتے تھے کہ تما م منا فقین کو قتل کر دیا جائے لیکن آنحضرتصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمیشہ ان منا فقین کے ساتھ نیک بر تاؤ کر تے رہے اور ان کے سا تھ مدارا کر تے ر ہے کیونکہ آپ کے بلند اخلا ق وصفات کا یہی تقاضا تھا اور اس میں ذرا بھی شک نہیں کہ مصلحت بھی اسی میں تھی کہ آپ ان کے سا تھ ایسا ہی نیک بر تاؤ کریں کیو نکہ جب نیک برتاو اور ایسے اعلیٰ در جہ کے اخلا ق کے ذ ریعہ مشکل کو حل کیا جا سکتا ہے تو منا سب نہیں کہ کو ئی اور طر یقہ اختیا ر کیا جائے۔یہ حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نرمی اورروادا ری کا ایک نمو نہ تھا جو بیا ن کیا گیا چنا نچہ ایسے بہت سے نمو نے پیش کئے جا سکتے ہیں۔

روادا ری و نرمی کا دو سرا پہلو احکا م کی تشر یع کے سلسلہ میں ہے چا ہے وہ احکا م، قرآنی آیات سے اخذ کئے گئے ہوں یاسنت شریف نبوی سے استخراج کئے گئے ہوں یا فقہی قواعد ہوں یا فقہ کے کلی احکا م ہوں :تمام قرآنی آیا ت سے عسرویسر(دشواری وآسانی)کے متعلق صرف ایک آیت اور حرج کے با رے میں دو(۲)آیتوں کو بیا ن کر رہے ہیں:

۱۔یُریدُ اللہ بِکُمُ الیُسۡرَ وَ لَایُرِیۡدُ بِکُمُ العُسرَ:خداتمھا رے لئے آسا نی چا ہتا ہے اور وہ تمھا رے لئے دشوا ری نہیں چا ہتا۔ (بقرہ:۱۸۵)آیت کا یہ حصہ رو زہ سے متعلق آ یت کے ضمن میں آیا ہے جس میں خدا نے مسلما نوں کے دو(۲) گرو ہ بیماروں اور مسافروں کو رو زہ ر کھنے سے مستثنٰی کرتے ہوئے فرمایا ہے:وَمَن کَانَ مَرِیضاً اَوعَلٰی سَفرٍ فَعِدَّۃٌ مِّن اَیَّامٍ اُخَر یُرِیدُ اللہ بکُمُ الیُسرَ وَ لَایُرِیدُ بِکُمُ الۡعُسرَ(بقرہ:۱۸۵)پس جو بیمار ہو یا سفر میں ہو تو وہ دو سرے دنوں میں رو زہ رکھے بعد میں دوسرے دنوں میں اس پر رو زہ ر کھنا وا جب ہے ، خدا تمھا رے لئے'''۔لوگوں کی دشوا ری کو دور کرنے اور ان کی شر عی ذ مہ داری کوآسان کر نے کے لئے انھیں یہ حکم دیا گیا ہے کہ ما ہ رمضا ن المبا رک کے بعد روزہ کی قضا کریں۔

۲۔مَا یُرِیدُ اللہُ لِیجعَلَ عَلَیکُم مِّن حَرَجٍ:(دیکھو تو خدا نے کیسی آسا نی کر دی)خدا تو یہ چا ہتا ہی نہیں کہ تم پر کسی طرح کی تنگی کرے۔(مائدہ:۶)

۳۔وَ جَاھِدُوا فِی اللہِ حَقَّ جِھَادِہ ھُوَ اجۡتَبَاکُم وَ مَاجَعَلَ عَلَیۡکُم فِی الدِّینِ مِن حَرََجٍ:اور جو حق جہا د کرنے کا ہے خدا کی را ہ میں جہاد کرو اسی نے تم کو بر گزیدہ کیا اور امور دین میں تم پر کسی طرح کی سختی نہیں کی۔(حج:۷۸)خدا نے جہا د کا حکم دینے کے بعد یہ تا کید بھی کر دی کہ جو جہا د کا حق ہے اس طرح سے جہا د کر یں ۔

اس آ یت سے بھی خدا نے یہ با ت واضح کر دی کہ اس نے اس امت کو دو سری تما م امتوں کے در میا ن سے منتخب کیا ہے اور ان کے دین میں کسی طرح کی کو ئی دشوار با ت نہیں قرار دی ہے۔ان تین(۳)آیات سے ایک فقہی قا عدے کا استنباط کیا گیا ہے جو تما م فقہی احکا م میں جا ری و ساری ہے وہ مذ کو رہ قاعدہ "قاعدۂ عسروحرج"ہے جسے فقہاء نے اصول فقہ میں اور فقہی قواعد میں بھی بیا ن کیا ہے پھر انھوں نے موضو ع، حکم و شرائط اور اس کے تما م پہلوؤں کے با رے میں مفصل طور پر بحث کی ہے۔

سب سے زیادہ قابل غور بات یہ ہے کہ تینوں آیات میں جو عسروحرج کی نفی کی گئی ہے وہ احکا م طہارت ورو زہ اور جہاد کے لئے استثنا کے عنوا ن سے ہے لیکن اسلا می شر یعت میں یہ نفی تما م اصو ل پر عمو میت پیدا کئے ہوئے ہے خدا کا ارشادہوتا ہے : یُرِیدُ اللہُ بِکُمُ الیُسر وَ لَایُریدُ بِکُمُ الۡعُسر(بقرہ:۱۸۵) اس کے اندر جو ایجابی وسلبی معنی پایاجا تا ہے وہ در حقیقت اس اصل پر تا کید ہے جسے ہم آئندہ بیا ن کر یں گے۔ اس کی زبان و بیان اور سیاق اسلامی احکا م کی طبیعت کو بیا ن کر نا ہے اور یہ صرف سارے استثنااور اضطراری حا لات سے مختص نہیں ہے یہ با لکل ٹھیک ایک دوسری آیت کے مانند ہے جس میں ارشا د ہوتا ہے :مایُریدُ اللہُ لِیَجۡعَلَ عَلََیۡکُم مِن حَرَجٍ(مائدہ:۶)بلکہ اس سے بھی زیا دہ وضاحت کے سا تھ اس آیت میں دین کو بیا ن کیا گیا ہے:و مَاجَعَلَ عَلَیکُم فِی الدِّیۡنِِ مِنۡ حَرَجٍ(حج:۷۸)

اس میں جو لفظ"دین" آیا ہے یہ تمام احکام کو شامل ہے یہاں تک کہ اصل تشریع میں تمام عقائد و معارف اور آداب و سنن نیز اضطراری موارد کو شامل ہے۔جن آیات میں رواداری کا تذکرہ ہے اور وہ اسلامی احکام میں رواداری پر دلالت کرتی ہیں ان میں سے ایک آیت حضرت رسو ل اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کےاوصاف کے با رے میں ہے توریت میں بھی اس کا ذ کر ہے اور بہت سے تشر یعی احکا م میں بھی ہیں:وَیَضَعُ عَنھُم اِصرَھُم وَالاَغۡلَالَ الَّتِی کَاَنَتۡ عَلَیۡھِم''':اور سنگین ذ مہ داریوں کا بوجھ جو ان کی گر دن پر تھا اور وہ پھندے جو ان پر پڑے ہوئے تھے ان سے ہٹا دیتا ہے(اعراف:۱۵۷)یعنی یہ آخری پیغمبرصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شرعی احکا م میں جو بہت سخت ودشوار ہیں انھیں اپنے پیرو کا روں کے کندھے سے اٹھا لیتے ہیں جب کہ یہ دشوار احکا م یہودیوں کی گر دن پر غل وزنجیر کے ما نند سنگین تھے۔ نیز اس آ یت میں ار شا د ہو تا ہے۔یُریدُ اللہُ اَن یُّخَفَّفِ عَنۡکُم وَ خُلِقَ الۡاِنۡسَانُ ضَعِیفاً:خدا تمھا رے لئے آسا نی چا ہتا ہے اورا نسا ن کمزو ر پیدا کیا گیا ہے۔(نساء:۲۸)

اسلا می شر یعت کے خصوصیات میں سے ایک چیز یہ بھی ہے کہ ایک طر ف سہو لت و سا د گی بھی ہے اور دو سری طرف مصلحت بھی ہے یہ با ت آغاز سے لے کر آخر تک پا ئی جا تی ہے ہم بہت سے فقہی احکام میں اس با ت کا مشا ہدہ کررہے ہیں کہ وہ لوگوں کی حا لت کی رعا یت کر تے ہوئے وضع کئے گئے ہیں لیکن جب کو ئی عذ ر یا مجبو ری سا منے آ جا تی ہے تو انھیں بدل دیا جا تا ہے یا سا قط کر دیا جا تا ہے یا ان کے بد لے میں آسا ن حکم صادر کیا گیا ہے جیسے :وضو اور غسل کے بدلے میں تیمم قرار دیا گیا ہے یا وقت معین و مخصوص میں اگر کو ئی کا م انجا م نہ پا سکے تو بعد میں اس کی قضا و تدارک کا موقع فراہم کیا ہے یاحائض عو رت سے نما ز کو معا ف کیا ہے اور اس کے لئے ما ہ رمضا ن کے بعد اگر چہ تا خیر ہی سے سہی روزہ کو واجب قرار دیا ہے۔اسی طرح محتا ج و بیما راور کمزو ر افراد سے حج و جہا د کو معا ف کیا ہے نیز اگر نابیناو گو نگے اور بیما ر افرا د اپنے رشتے دا روں کے گھر سے کچھ کھا لیں تو ان کے لئے چھوٹ ہے کوئی گنا ہ نہیں ہے''': لَیسَ عَلَی الاعمٰی حَرَجٌ وَ لَاعَلَی الۡاَعۡرَجِ حَرَجٌ وَ لَا عَلَی المَرَیضِ حَرَجٌ وَ لا عَلیٰٓ اَنۡفُسِکُم اَنۡ تَاکُلُوا مِن بُیُوتِکُم او بُیُوتِ آبَآئِکُم اَوۡ بُیُوتِ اَمَّھَاتِکُم اَو بُیُوتِ اِخۡوَانِکُم اَو بُیُوتِ اَخَوَاتِکُم اَو بُیُوتِ اَعۡمَامِکُم''':اس با ت میں نہ تو اند ھے آدمی کے لئے مضائقہ ہے اور نہ لنگڑے آ دمی پر کچھ الزام ہے اور نہ بیما ر پر کوئی گناہ ہے اور نہ خو د تم لوگوں پر کہ اپنے گھروں سے کھا نا کھاؤ یا اپنے با پ دادا،نانا کے گھروں سے یا اپنی ماں ،دادی، نانی کے گھروں یا اپنے بھائیوں کے گھروں سے یا اپنی بہنوں کے گھروں سے یا اپنے چچا ؤں کے گھروں سے'''(نور:۶۱)یا وہ با تیں جو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور مو منین کے با رے میں ان کے منھ بو لے بیٹوں کی مطلقہ بیویوں کے متعلق ہیں ان تما م امو ر کا بیا ن سو رۂ احزا ب کی آیا ت ۳۷، ۳۸ میں ہے۔

اس امر یعنی سہو لت و سا دگی اور تشریع میں مصلحت کے در میا ن جمع کر تے ہوئے عبا دات اور دوسرے امو ر کی طرف بھی اشا رہ کیا جا سکتا ہے جن میں فرا ئض اور مستحبات کو بیا ن کیا گیا ہے، ہر عبا دت بلکہ ہر عمل میں کچھ چیزیں فریضہ(واجب) ہو تی ہیں اور کچھ چیزیں سنت یعنی مستحب ہو تی ہیں چنا نچہ ہر نما ز میں کچھ اذکار وافعا ل وا جب ہو تے ہیں اور کچھ مستحب ،حج اور دو سری عبا دتوں کا بھی یہی حال ہے۔

اسلامی قوا نین کی دو سری خصوصیت یہ ہے کہ ایک چیز کے امر اور اس کی ضد کے در میا ن جمع یا اس کے بر عکس یہ ہے کہ یہ ایک قرآ نی اصل ہے اور قرآن نے بہت سی آیات میں تا کید و توضیح اور امو ر میں تسہیل کے عنوا ن سے بیا ن فر مایا ہے:

امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو مکی اور مد نی نو(۹)آیات میں بیا ن فر مایا ہے وہ آیا ت مندر جہ ذیل ہیں:

۱۔وَ لتکُن مِّنکُمۡ اُمّۃٌ یَدعُونَ اِلی الخیروَ یَامُرُونَ بِالۡمَعروفِ وَ یَنۡھُونَ عَنِ المُنکَرِ وَ اُولٰٓئِٓکَ ھُمُ المُفلِحُونَ:اورتم میں سے ایک گروہ(ایسے لوگوں کا بھی) توہونا چا ہئے جو(لوگوں کو)نیکی کی طرف بلا ئے اور اچھے کا م کا حکم دیے اور برے کا موں سے روکے اور ایسے ہی لو گ (آخرت میں)اپنی دلی مرا دیں پائیں گے۔(آل عمران:۱۰۴)

۲۔کُنتُم خیر امَّۃٍ اَخرجت للنَّاس تَامُرُونَ بِالمعروفِ وَ تَنۡھونَ عَنِ المُنۡکَرِ و تُومِنُونَ بِاللہ:تم کیا اچھے گروہ ہو کہ لوگوں کی ہدا یت کے وا سطے پیدا کئے گئے ہو تم(لوگوں کو)اچھے کا م کا حکم کرتے ہو اور برے کا موں سے روکتے ہواور خدا پر ایما ن ر کھتے ہو۔(آل عمران:۱۱۰)

۳۔یُومِنُونَ باللہ وَ الیومِ الآخِرِ وَ یَامُرُونَ بِالمَعۡرُوفِ وَ ینھَونَ عَنِ المُنکَرِ وَ یُسَارعُُونَ فِی الخَیراتِ وَ اُولٰٓئِکَ مِنَ الصَّالِحِینَ:خدااور روز آخرت پر ایما ن ر کھتے ہیں اور اچھے کا م کا حکم کرتے ہیں اور برے کاموں سے رو کتے ہیں اور نیک کا موں میں دوڑ پڑتے ہیں اور یہی لوگ تو نیک بندوں میں سے ہیں ۔(آل عمران:۱۱۴)

یہ تینوں آیات سورۂ آل عمران میں نا زل ہوئی ہیں ، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر دونوں کو ایک ساتھ بیا ن کیا گیا ہے ان آیات میں خیرو نیکی کی طر ف دعوت دی گئی ہے ، نیک کا موں کو جلد انجا م دینے کا حکم دیا گیا ہے، خدا وقیامت پر ایمان لانے کے لئے زوردیا گیا ہے نیز یہ اعلا ن کیا گیا ہے کہ جو لوگ ان اعما ل کو انجا م دیں گے وہ صالح و نیک افرا د ہوں گے اورآخر کا ر نجا ت پا کر ر ہیں گے ۔ ان سارے اعما ل کو اسلا می امت کے اہم خصوصیا ت کے عنوا ن سے بیان فر ما یا ہے اور پھر آخر ی آ یت میں ا ہل کتا ب مو منین کے خصوصیات کو بھی بیا ن کیا گیا ہے۔ سب سے زیا دہ قا بل غو ر با ت یہ ہے کہ اسی طرح سو رۂ تو بہ کی مسلسل تین(۳) آ یتوں میں امر با لمعروف اور نہی عن المنکر کو بیا ن کیا گیا ہے چنانچہ پہلی آیت میں اس کے بر عکس یعنی امر بہ منکر و نہی عن المعروف کومنافقین کے خصوصیات میں سے بتا یا گیا ہے:

۱۔اَلمُنَافِقُونَ وَ المُنَافِقَاتُ بَعۡضُھُم مِن بَعضٍ یَامُرُوَن بِالۡمُنکَرِ وَ یَنھَونَ عَنِ المَعرُوفِ وَ یَقبِضُونَ اَیدِیَھُم نَسُوا اللہ فَنَسِیَھُم اِنَّ المَُنافِقِینَ ھُمُ الفَاسِقُونَ:منافق مر د اور منا فق عو رتیں ایک دو سرے کے ہم جنس ہیں کہ (لوگوں کو)برے کا م کا حکم کر تے ہیں اور نیک کا موں سے رو کتے ہیں اور اپنے ہا تھ (را ہ خدا میں خر چ کر نے سے)بند ر کھتے ہیں (سچ تو یہ ہے کہ یہ لو گ خدا کو بھو ل بیٹھے تو خدا نے بھی (گو یا)انھیں بھلا دیا بیشک منا فقین بدچلن ہیں۔(تو بہ:۶۷)

۲۔وَ الۡمُوۡمُِنونَ وَ الۡمُوۡمِنَاتِ بَعۡضُھُمۡ اَوۡلِیَاءُ بَعۡضٍ یَاۡمُرُوَۡن بِالۡمَعۡرُوۡفِ وَ یَنۡھَوۡنَ عَنِ الۡمُنۡکَرِ وَ یُقِیۡمُونَ الصَّلٰوۃَ وَ یُوتُونَ الزَّکَوٰۃَ وَ یُطِیۡعُونَ اللہَ وَ رَسُولَہ اُولٰٓئکَ سَیَرۡحَمُھُمُ اللہُ:اور ایما ندار مر د اور ایما ندا ر عو رتیں ان میں سے بعض کے بعض رفیق ہیں لوگوں کو اچھے کا م کا حکم دیتے ہیں اور برے کا م سے رو کتے ہیں اور نماز پا بندی سے پڑ ھتے ہیں اور زکوۃ دیتے ہیں اور خدا اور اس کے رسو لصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی فر ما نبر دا ری کر تے ہیں یہی لو گ ہیں جن پر خدا عنقر یب رحم کرے گا۔( توبہ:۷۱)

۳۔التَّٓائِبُونَ الۡعَابِدُونَ الۡحَامِدُونَ السَّآئِحُونَ الرَّاکِعُونَ السَّاجِدُونَ الآٓمِرُونَ بِالۡمَعۡرُوفِ وَ النَّاھُونَ عَنِ الۡمُنۡکَرِ وَ الۡحَافِظُونَ لِحُدُودِ اللہِ وَ بَشِّرِ الۡمُومِنِینَ:(یہ لو گ)توبہ کرنے والے ، عبادت گزار( خدا کی ) حمد و ثنا کر نے و الے(ا س کی را ہ میں)سفر کر نے وا لے ، رکوع کر نے وا لے،سجدہ کرنے والے،نیک کا م کا حکم کر نے والے اور برے کا م سے رو کنے والے اور خدا کی (مقرر کی ہوئی)حدوں کو نگاہ میں ر کھنے وا لے ہیں اور(اے رسولصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم !ان)مو منین کو (بہشت کی )خو شخبر ی دے دو ۔(تو بہ:۱۱۲)

آپ نے ملا حظہ کیا کہ پہلی آ یت میں نیکی سے رو کنا اور برائی کا حکم دینا یہ نفا ق و بخل ،خدا کو فرا مو ش کر نے ، اس کی نا فر ما نی کر نے اور فسق کالا زمہ بتا یا گیا ہے لیکن دوسری اور تیسری آ یتوں میں امر با لمعرو ف و نہی عن المنکر کو کچھ نیک خصلتوں کا لازمہ بتا یا گیا ہے ان میں سے بعض یہ ہیں:خدا پر ایما ن ، اقامۂ نماز، ادا ئے زکو ٰۃ،اطا عت خدا ورسولصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، اسی طرح تو بہ کر نے والوں ، عبا دت کر نے وا لوں ، حمدو ثنا کر نے وا لوں ، رو زہ رکھنے والوں ، جہا د کر نے وا لوں،سجدہ او ررکو ع کر نے وا لوں ، حدود الٰہی کی رعا یت کر نے وا لوں کے خصوصیات کو بھی بیان کیا گیا ہے اور یہ بتا یا گیا ہے کہ یہ سارے لو گ رحمت الٰہی کے سا یہ میں ہوں گے اور ان سب کا انجا م بہت اچھا ہوگا انھیں یہ بشا رت دی جا چکی ہے ۔

ان کے علا وہ قرآ ن میں دو سرے مقا ما ت پر اس کا حکم دے کر اس کی ضد سے ایک ہی ساتھ منع بھی کیا ہے ان میں سے ایک مو رد یہ ہے کہ اتحاد کی تا کید کر تے ہوئے اختلا ف و تفر قہ سے رو کا ہے ارشا د ہو تا ہے :وَ اعۡتَصِمُوا بِحَبۡلِ اللہِ جَمِیۡعاً وَّ لاَتَفَرَّقُوا:تم سب لو گ خدا کی رسی کو مضبو طی سے پکڑ لواور تفرقہ ایجا د نہ کرو۔(آل عمرا ن:۱۰۳)

ہم یہ مشا ہدہ کرتے ہیں کہ اس قرآ نی اصل کی رعا یت بہت سے اہم موارد کے لئے ایک ہی آ یت میں یا پھر مسلسل کئی آیات میں کی گئی ہے: کفر و ایما ن، توحید و شر ک، اما نت و خیا نت ،عدا لت وظلم ، صلاح و فساد ، الفت ونفا ق، دو ستی ودشمنی ، سرکشی و سربراہی، اطا عت و نا فر ما نی ، خطر ہ سے خبر دا ر کر نا اور احتیا ط کر نا ، خوشنو دی و نفرت، خو بی و بد ی، ہدا یت و گمرا ہی ، راہ راست و گمرا ہی اچھائي اور برائي ، بدبختی وخوش بختی ، خدا وراہ خدا سے روکنا ، نفا ق ووفاق ، خیرو شر، اسراف و تنگدستی، استواری و نا پائیدا ری ، نفرت و محبت ،کوری وبینائی، عہدو پیما ن کی وفا داری اور نقض پیما ن ہما ری نظر میں قرآ ن نے جو اس اصل کو اپنی توجہ کا مر کز قرار دیا ہے یہ وہی اصل ہے جو علم اصو ل میں اس صورت میں تجلی پیدا کئے ہو ئے ہے :"جب کسی چیز کا حکم دیا جا تا ہے تو اس کا لا زمہ ہو تا ہےکہ اس کی ضد سے بھی روکا جائے "۔

قرآن کی تشر یعی آ یا ت کے خصوصیات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ا ن میں سے بعض آیا ت میں کسی حکم کی مصلحت یا مضرت کے با رے میں اشا رہ مو جو د ہو تا ہے تا کہ بندے مکمل طو ر سے اس مسئلے کے با رے میں با خبر ر ہیں اور اس سلسلے میں کہیں کہیں مصلحت و مضرت کے در میا ن ایک توازن ایجاد ہوا ہے جو فقہا ء کو ایک دستاویز دیتا ہے تا کہ حکم شرعی کو بیان کر نے کے سلسلہ میں اور مسئلہ کے ایک رخ کو دو سرے رخ پر تر جیح دینے میں خصوصاً قائلین کے نظر یہ کے مطابق "قیاس منصوص وغیر منصوص"کے لحاظ سے اس سے استفادہ کر یں۔

اس سلسلے میں آ یت"الخمر و المیسر" کوبیان کیا جا سکتا ہے: یَسۡئالُونَکَ عَنِ الۡخَمۡرِ وَ الۡمَیۡسِرِ قُلۡ فِیۡھِمَا اِثۡمٌ کَبِیۡرٌ وَّ مَنَافِعُ لِلنَّاسِ وَ اِثۡمُھُمَا اَکۡبَرُ مِنۡ نَّفۡعِھِمَا:(اے رسولصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم !)تم سے لوگ شرا ب اور جو ئے کے با رے میں پو چھتے ہیں تو تم ا ن سے کہہ دو کہ ان دونوں میں بڑا گناہ ہے اور( کچھ)فائدے بھی ہیں اور ان کے فائدے سے ان کا گنا ہ بڑھ کے ہے۔(بقرہ: ۲۱۹)

پھر سورۂ مائدہ کی آیت نمبر ۹۱،۹۰میں بھی تقریباً ایسی ہی باتیں ہیں: یٰٓاَیُّھَا الَّذِیۡنَ آمَنُوا اِنَّمَا الۡخَمُر وَ الۡمَیۡسِرُ وَ الاَۡنصَابُ وَ الاَزۡلَامُ رِجۡسٌ مِّنۡ عَمَلِ الشَّیۡطَانِ فَاجۡتَِنبُوہُ لَعَلَّکُمۡ تُفۡلِحُوَنَ ، اِنَّمَا یُرِیۡدُ الشَّیۡطَّاُن اَن یُّوقِعَ بَیۡنَکُمُ الۡعدَاوَۃَ وَ البَغۡضَآءَ فِی الۡخَمۡرِ وَ الۡمَیۡسِرِ وَ یَصُدُّکُمۡ عَنۡ ذِکۡرِاللہِ وَعَنِ الصَّلوۃِ فَھَلۡ اَنۡتُمۡ مُّنۡتَھُونَ:اے ایما ندا رو!شراب اور جو ااور بت اور پا نسے تو بس نا پا ک(برے)شیطانی کا م ہیں تو تم لو گ اس سے بچے رہو تا کہ تم فلاح پاؤ شیطا ن کی تو بس یہی تمنا ہے کہ شرا ب اور جو ئے کی بدو لت تم میں با ہم عدا وت ودشمنی ڈلوا دے اور خدا کی یا د اور نما ز سے با ز رکھے تو کیا تم اس سے با ز آ نے و الے ہو؟(تو بہ:۹۱،۹۰)

احادیث نبو ی میں تشریع کے با رے میں نرمی رواداری کے متعلق کا فی تاکید کی گئي ہے ۔ حضرت رسو ل اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس مشہو ر حدیث پر غو ر کیا جا ئے: بعثت علی الشریعۃ السمحۃ السھلۃ:میں آسان اور سہل شر یعت پر مبعوث کیا گیا ہوں۔آنحضرتصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی شر یعت کی توصیف میں دو(۲)خصوصیات کو ایک ساتھ بیا ن کیا ہے:سا دگی اور آسا نی۔ ہماری نظر میں یہ دونوں ایسی صفتیں ہیں جن سے ایک ہی چیز یعنی"سادگئ شر یعت" کا بیا ن کر نا مقصو د ہے یہ دونوں الفاظ مترادف ہیں لیکن تھوڑا سا غو ر کر نے کے بعد اندا زہ ہو جا ئے گا کہ دونوں میں کیا فر ق ہے:

تسامح : لغت میں اس کے معنی یہ ہیں:نر می، دو سرے مطلو ب کے سا تھ موا فقت ، گنا ہ کو معا ف کر نا اور کسی کا م میں آسانی پیدا کر نا۔ بنا بر ایں آسا نی لا زمہ ہے تسا مح کا اور یہ اس کے معنی کے ایک حصہ کو تشکیل دیتا ہے اور لفظ تسا مح ، معنی کے لحاظ سے سہو لت و سادگی سے زیادہ جا معیت رکھتا ہے۔

کتا ب"فی فقہ الاولویات"میں ڈاکٹر قر ضاوی نے ص۷۲،۷۱ پر اس سلسلے میں آنحضرتصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی چند روایات کو کتا ب "صحیح الجا مع الصغیر"کے حوا لہ سے نقل کیا ہے ان میں سے بعض یہ روا یا ت ہیں:

آنحضرتصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فر مایا:خدا کے نز دیک پاک اور آسا ن اد یان بہت زیا دہ محبو ب ہیں۔ نیز آپصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فر ما یا:سب سے اچھا دین وہ ہے جو سب سے زیا دہ سا دہ ہے ۔ عا ئشہ کہتی ہیں:جب آنحضرتصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دو(۲) چیزوں کے با رے میں اختیا ر دیا جا تا تھا تو ان میں سے جو چیز آسان ہو تی تھی آپ اسی کو اختیا ر فر ما تے تھے(بشر طیکہ گنا ہ کا با عث نہ ہو تی تھی)اور اگر گنا ہ کابا عث بنتی تھی تو آپ لوگوں کو پر ہیز کی تاکیدفرماتے تھے۔ جس وقت آنحضرتصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ابو مو سیٰ اور معاذ کو یمن بھیجا تو دونوں سے یہ تا کید کردی:وہاں لوگوں کے لئے آسا نی پیدا کر نا سختی نہ کر نا اور ہمیشہ انھیں خو شی کی خبر یں سنانا نیز دوسرو ں کو اپنے سے دور نہ کرنا'''۔

ڈاکٹر قرضا وی نے کہا ہے :اس کتا ب کے ایک حصہ میں "آسا نی وسادگی کو سختی و دشواری پر تر جیح حاصل ہے "کے عنوا ن سے جا مع و مفصل بحث کی ہے۔

تشریع احکا م کے سلسلے میں تسا مح اوررواداری پر دلا لت کر نے وا لی انھیں روا یات پر ہم اکتفا کر تے ہیں اس سلسلے میں فقہی قواعد کے صرف چند نمو نے بیا ن کر رہے ہیں:

۔آیات عسروحرج کے سلسلے میں"قا عدۂ عسروحرج" کو نہا یت جا معیت کے سا تھ بیا ن کیا گیا۔

۔"قا عدۂ ضرر"جوحضرت رسو ل اکر م صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حدیث سے ما خوذ ہے اس میں آپ نے فر مایا ہے: لاضرر و لاضرار فی الاسلام:اسلام میں نقصان پہنچانا اور نقصا ن اٹھا نا کچھ بھی نہیں ہے۔

اس کے با رے میں بہت سی تفسیر یں وارد ہو ئی ہیں اور بزرگ علما ء نے اس قا عدہ کی شرح میں مفصل رسا لے لکھے ہیں اور یہ بتا یا ہے کہ کن موارد میں یہ قا عدہ جا ری ہو گا۔ یہ قا عدہ دلا لت کر تا ہے کہ دو سرو ں کونقصا ن نہ پہنچا یا جا ئے اور ضرر کے معنی یہ ہیں کہ دو(۲) افرا د ایک دو سرے کو نقصان نہ پہنچائیں یہ دونوں چیزیں اسلا م میں جا ئز نہیں ہیں البتہ بعض لوگوں نے اس قا عدہ کو بہت زیا دہ وسعت دی ہے اور یہ کہا ہے کہ جس طرح دو سروں کو نقصا ن پہنچا نا ٹھیک نہیں ہے اسی طرح خود اپنے کو بھی نقصا ن پہچا نا ٹھیک نہیں ہے بہر حا ل نقصا ن پہنچا نا تشدد اور جارحیت کا با عث بنتا ہے اور یہ تسا مح ، نرمی اور واداری کے بر خلاف ہے۔

۔قاعدۂ برائت : جب انسا ن بے اطلا ع و نا دا ن ہو ،یہ قا عدہ عبا دات و اعما ل اور خوردوخورا ک میں بہت سی آسا نیاں پیدا کر تا ہے اس قا عدہ کی بنیا د پر جس کا م کی حر مت کا علم نہ ہو وہ حلال ہے اور جس کا م کے وا جب ہو نے کا علم نہ ہو وہ مبا ح وجائز ہے اسے تر ک کیا جا سکتا ہے اور یہ برائت عقلی و شر عی دونوں کو شا مل ہے( یعنی انجا م دینے والے کو کا با عث ہے)اور یہ قاعد"حدیث رفع"(رفع عن امتی تسع:میری امت سے نو(۹) چیزیں معا ف کی گئی ہیں)سے اخذ کیا گیا ہے ان سارے امور میں لوگوں کے لئے آسا نی پیدا کی گئی ہے۔

۔ایک قاعدہ، نما ز میں شک کے با رے میں ہے کہ جب کسی کو کثرت کے ساتھ شک ہو نے لگے تو وہ اپنے شک کی کو ئی اعتنا نہیں کر ے گا۔

۔ایک قا عدۂ قصاص یاحکم قصاص ہے اس کے متعلق خدا کا ارشا د ہے: وَ لَکُمۡ فِی القِصَاصِ حَیٰوۃٌ یَا اُولِی الۡاَلۡبَابِ:اے صاحبا ن عقل! تمھا رے لئے قصاص میں زند گی پو شیدہ ہے۔(بقرہ: ۱۸۹)تما م موارد میں قصاص کر نا چین و سکو ن کا باعث ہے اور اس سے مشقت و سختی ختم ہو تی ہے۔

ایک قا عدہ یہ بھی ہے کہ مو من کی با ت تسلیم کی جا ئے مگریہ کہ اس پر تہمت لگی ہوئی ہو۔

ایک قا عدہ یہ ہے کہ مو من کے ہر عمل کو صحیح تسلیم کیا جائے اس سے معا شرت ، اموا ل کے لین دین ، تجا رت میں مشارکت اور اس طرح کے دو سرے امو ر میں بہت آسا نی پیدا ہو جا تی ہے۔

ضمان کے نا م سے ایک قا عدہ ہے جسے حضرت رسو ل اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حدیث سے اخذ کیا گیا ہے:"جو شخص کسی چیز کو لیتا ہے تو وہ جیسی تھی اسی طرح وا پس کر نا ضرو ری ہے"۔اس کا فا ئدہ یہ ہے کہ جب اس قا عدہ پر عمل کیا جا ئے گا تونزا ع ودشمنی ختم ہو گی اور دو سروں کے اموال کو کوئی نقصا ن نہ ہوگا۔

۔ایک قا عدہ یہ ہے کہ مسلمانوں کی جان و ما ل اورنا مو س کااحترا م ضرو ری ہے اس پر عمل کر نے سے خا ندا نوں اور معاشرہ کے در میا ن امن و سلامتی بر قرار ہو گی اور اسلا می امت کے مختلف شعبوں میں سکو ن ہوگا۔

قض وفیصلہ کا ایک قا عدہ یہ ہے جس پر حضرت رسو ل اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یہ حدیث دلیل ہے:"مد عی کا فریضہ ہے کہ وہ دلیل پیش کرے اور منکر کا وظیفہ یہ ہے کہ وہ قسم کھائے"۔اس سے بہت سے غلط دعوے ختم ہو جا تے ہیں اور اس سے لوگو ں کے حقوق کی رعا یت ہو تی ہے۔

۔ایک قا عدہ "نفی سبیل" ہے کہ ایک دو سرے کی نسبت لوگوں کے اعما ل کی قدرت ،محدود ہو جا تی ہے۔

۔ایک قا عدۂ"مقاصد"(اغراض ومقاصد")ہے جو فقہ خصوصاً اہل سنت کی فقہ میں بہت موثر ہے ۔ ہم نے یہاں پر جو کچھ ذکر کیا یہ فقہ کے مشہو ر قواعد کو شا مل ہیں۔ ان کے علا وہ بہت سے دو سرے بھی فقہی احکا م ہیں جن سے اجما لاً یہ پتہ چلتا ہے کہ اسلا م بہت آسا ن اور سا دہ ہے اور اس کے احکا م وتشریع میں رواداری مو جو د ہے۔


source : http://www.alhassanain.com
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

عصمت پیغمبر ۖپر قرآنی شواہد
زندگي نامہ حضرت فاطمہ زہرا سلام الله عليہا
اہل بیت علیہم السلام کی دعائوں میں حبّ خدا
کربلا ميں حضرت امام حسين کے ورود سے لے کر نويں ...
امام جواد(ع) کی سیرت امت مصطفیٰ(ص) کے اسوہ حسنہ
مولا علی علیہ السلام
امام مہدی علیہ السلام کی مدت حکومت اورخاتمہ دنیا
چوتھے امام حضرت امام زين العابدين (ع)
امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام کی چالیس حدیثیں
بیعت عقبہ اولی

 
user comment