ولا تحسبن الذین قتلوا فی سبیل اللہ امواتا بل احیاء عند ربھم یرزقون ۩ فرحین بماء اتھم اللہ من فضلہ و یستبشرون بالذین لم یلحقوا بھم من خلفھم ألاخوف علیھم ولا ھم یحزنون ۩ ویستبشرون بنعمۃ من بنعمۃ من اللہ و فضل وان اللہ لایضیع اجر المومنین ۩ (آل عمران ۔ ۱۶۹، ۱۷۱)
,, اور خبردار راہ خدا میں قتل ہونے والوں كو مردہ خیال نہ كرنا وہ زندہ ہیں اور اپنے پروردگار كے یہاں رزق پارہے ہیں۔ خدا كی طرف سے ملنے والے فضل و كرم سے خوش ہیں اور ابھی تك ان سے ملحق نہیں ہوسكتے ہیں ان كے بارے میں یہ خوش خبری ركھتے ہیں كہ ان كے واسطے بھی نہ كوئی خوف ہے اور نہ حزن۔ وہ اپنے پروردگار كی نعمت اس كے فضل اور اس كے وعدہ سے خوش ہیں كہ وہ صاحبان ایمان كے اجر كو ضائع نہیں كرتا ۔ ٬٬
اللہ كی راہ میں شہید ہوجانا یعنی ,, القتل فی سبیل اللہ ٬٬ ایك ایسا بلند ارفع اور اعلی ہدف ہے كہ جس كی جستجو میں ایك با ایمان شخص كہ جو اسلام كی نسبت، پختہ، مضبوط اور غیر متزلزل عقیدے كا حامل انسان ہواكرتا ہے اپنے پورے سرمایہ حیات كو داؤ پر لگاتا دیتا ہے ۔ لہذا شاید اسی وجہ سے اگر تاریخ انبیاء، آئمہ طاہرین (ع)، اولیا كرام كو ملاحظہ كریں تو ان پاك ہستیوں كا بھی ہدف، یہی شہادت (القتل فی سبیل اللہ ) دكھائی دیتا ہے ۔ اس كی وجہ یہ ہے كہ (شہادت) وہ راستہ ہے كہ جو مختلف قسم كی مشكلات اور درد والم كے سایے میں زندگی اور حیات كو اس كا صحیح مفہوم عطا كرتا ہے ۔ یہ مشكلات اور دردو الم كے سایہ میں زندگی اور حیات كو اس كا صحیح مفہوم عطا كرتا ہے ۔ یہ مشكلات اور دردو الم وہ مشكلات ہیں كہ جنھیں اللہ كے مومن بندے اس روئے زمین پر اللہ كے مقصد اور ہدف كو تحقق بخشنے كے لئے تحمل اور برداشت كرتے ہیں ۔ اور شاید اس كی وجہ یہ بھی ہوسكتی ہے كہ شہادت ایك ایسا راستہ ہے كہ جس پر چلتے ہوئے اللہ كے مخلص بندے اپنے نفس كو پاك اور پاكیزہ كرتے اور اسے اس بات پر آمادہ كرتے ہیں كہ ہمیشہ ہوی و ہوس اور دنیا كی ان لذتوں سے بیزاری كا اظہار كرے كہ جو انھیں اپنے معبود حقیقی سے اور اس كی رضا و خوشنودی سے دور ركھتی ہیں ۔
1۔ قرآن ،حدیث اور شہادت
اگر ہمیں شہادت كی عظمت و اہمیت اور اس كے فلسفے كو قرآن اور حدیث كی نگاہ سے دیكھنا اور سمجھنا ہو تو پھر سب سے پہلے ہمیں زندگی كا مفہوم اور جودو بقا كے مفہوم اور اس كے فلسفے كو سمجھنا ہوگا ۔ دوسرے الفاظ میں ہمیں یہ دیكھنا ہوگا كہ خدا كو انسان كو وجود پسند ہے یا اس كا عدم ؟ كیا خدا كو اس كا (ہونا) پسند ہے یا (نہ ہونا) ؟ اس كی (بقا) پسند ہے یا اس كا (فنا) ہونا پسند ہے ؟ كیا خدا انسان كی نابودی اور ہلاك كے درپے ہے ؟ ان مندرجہ بالا سوالوں كا جواب اگر یہ دیاجائے كہ خدا كو اس كا ( نہ ہونا) نابودی اور فنا پسند ہے تو پھر یہ سوال پیدا ہوتا ہے كہ اسے پھر خدا نے كیوں (خلق) كیا ؟ كیوں اسے (وجود) عطاكیا ؟
یہ مذكورہ جواب قرآن وحدیث اور عقل كے مطابق صحیح نہیں ۔ لہذا اس كا سوالوں كا جواب جاننے كے لئے ہمیں قرآن اور كلام رسول (ص) وآئمہ طاہرین (ع) كی طرف رجوع كرنا ہونا ۔ خداوند عالم نے قلب پیغمبر (ص) پر سب سے پہلے جس سورہ كی آیات كو نازل كیا وہ سورۃ علق كی ابتدائی (۵) آیات ہیں ۔
اقرا باسم ربك الذی خلق۩ خلق الانسان من علق ۩
ان مذكورہ آیات میں خداوند عالم نے انسان كو عطا كردہ مختلف نعمتوں كا تذكرہ كیا ہے ۔ سب سے پہلے جس نعمت كا تذكرہ كیا ہے وہ اس انسان كی ( خلقت اور تكوین ) ہے اگر یہ نعمت الہی نہ ہوتی تو ہرگز انسان كا وجود نہ ہوتا ۔ كیونكہ یہ خداوند عالم كی ہی ذات ہے كہ جو اس بات پر قدرت ركھتی ہے كہ (وجود) كی عظیم نعمت سے سرفراز كرسكے ۔
اس كے بعد جس نعمت كا تذكرہ كیا ہے وہ (علم اور معرفت) كی نعمت ہے كہ جس كی ہدایت انسان كو اس بات كا علم ہوا كہ خدا نے اسے وجود كی نعمت سے نواز ہے ۔ اور وہ یوں اس دینوی زندگی میں اپنے وجود كی حیثیت اور اہمیت كو جان كر الہی اہداف اور مقاصد كی بنیاد پر زندگی گزارتاہے ۔ اسی طرح خداوند عالم كا (سورہ مومنون میں آیت نمبر ۱۱۵ ) میں ارشاد ہے كہ
,, افحسبتم انما خلقنكم عبثا و انكم الینا لاترجعون ٬٬
,,كیا تم گمان كرتے ہو كہ تمہیں بے كار پیدا كیا گیا ہے ۔ اور تم ہماری جانب واپس نہیں پلٹائے جاؤگے ۔ ٬٬
اس آیت كریمہ پر معمولی سے غور اور قائل كے بعد یہ بات سامنے آتی ہے كہ خدانے اس انسان كو (وجود) جیسی عظیم نعمت سے سرفراز كیا ہے یہ كوئی معمولی نعمت نہیں ۔ خدا نے اسے (وجود) عطا كیا یعنی اسے (ہونا) عطا كیا ہے نہ (نہ ہونا) كہ جو ,, عدم ٬٬ ہے ۔ بلكہ خدا نے اسے ,, كتم عدم ٬٬ سے نكال كر ,, عالم وجود امكانی ٬٬ كا محور قرار دیا ہے ۔ خدا نے اسے خلق كركے اور وجود عطا كركے كوئی عبث اور بے ہودہ كام انجام نہیں دیا ۔ بلكہ اس ( وجود) كو عطا كركے اسے (بقا) كی نعمت سے نوازا ہے ۔
اس كے لئے (فنا مطلق) كی نفی كردی ۔ اس مطلب پر اس آیت كا دوسرا حصہ یعنی (۔ ۔وانكم الینا لاترجعون )دلالت كرتا ہوا نظر آرہا ہے ۔ یعنی كیا تمہیں ہماری جانب پلٹ كر نہیں آنا ؟ واپس جانا ،خود ( وجود) اور (بقا) كی دلیل ہے ۔ ,, رجوع٬٬ كا لفظ (وجود) سے تعلق ركھتا ہے ۔ نہ (عدم ) سے ۔
ان مذكورہ آیات كریمہ سے یہ معلوم ہوا كہ جب خدا كی نگاہ میں انسان كی نسبت اس كا بہترین تحفہ اور نعمت، اس كا خلق ہونا ہے تو پھر كیونكر خدا اس كے لئے فنا اور نابودی كو پسندیدہ قرار دے كر اسے ( شہادت اور قتل فی سبیل اللہ ) پر اكسا كر متحرك كرسكتا ہے ۔ لہذا خدا انسان كے لئے زندگی چاہتا ہے وجود چاہتا ہے، بقا چاہتا ہے، نہ فنا، نابودی اور ہلاكت ۔
حدیث قدسی میں ہے كہ یابن آدم خلقت الاشیاء لاجلك و خلقتك لاجلی ,, یعنی اے آدم كے فرزند میں نے دنیا اور اس كون ومكان كی تمام چیزوں كو تیرے لئے خلق كیا ہے ۔ جب كہ تجھے میں نے اپنے لئے خلق كیا ہے ۔
اس مذكورہ حدیث قدسی كو دقت كے ساتھ ملاحظہ كرنے كے بعد اگر ہم اسماء الہیہ قدسیہ كو ملاحظہ كریں تو اسماء الہیہ كے درمیان ایك اہم بنام ( باقی ) دكھائی دیتا ہے ۔ یعنی ( اسی كی ذات كو بقا حاصل ہے ) اب اگر ہم غور كریں تو معلوم ہوگا كہ مگر وہ ذات كہ جو باقی ہو اور فنا، اس كی ذات میں نہ ہو تو كیا یہ ممكن ہےكہ جس (وجود) كواس نے اپنے لئے خلق كیا ہو ۔ وہ فنا ہوجائے اور خود باقی رہے !؟
یہاں پر آكر كوئی ہماری اس مذكورہ بات اور گفتگو كو سن كر اور دیكھ كر ہم سے سوال كرے كہ سورۃ ( رحمن آیت ۲۶ ) میں خداوند عالم صاف اور واضح طور پر ہرچیز كے فنا اور نابود ہونے كا تذكرہ كررہا ہے ۔
,, كل من علیھا فان ۩ ویبقی وجہ ربك ذوالجلال والاكرام ۩ فبائ الاء ربكما تكذبین ۩
,, یعنی ہر چیز كہ جو اس روئے زمین پر ہے اسے فنا ہونا ہے جب كہ باقی رہنے والی ذات، خدا كی ذات ہے ۔ تو پھر تم ( اے جنوں اور انسانوں ) اپنے رب كی كون كون سی نعمتوں كو جھٹلاؤ گے ۔ ٬٬
اس آیت كا ظاہر یہ بتلارہا ہے كہ انسان ,, فانی ,, ہے ۔ تو پھر كس طرح سے ہم یہ یقین كریں كہ وہ (باقی ) رہنے كے لئے ( وجود) میں ایا ہے ؟
جواب: اس آیت كریمہ پر اگر مزید غور كریں تو معلوم ہوگا (فنا) خدا كی نعمتوں میں سے
ایك نعمت ہے ۔ ! وہ كس طرح ؟
وہ اس طرح سے كہ خدا نے جب یہ كہا (كل من علیھا فان ) اس كے فورا بعد یہ كہا ( فبائ الاء ربكما تكذبن ) یعنی یہ (فنا) ایك نعمت ہے تم دونوں ( جنوں اور انسانوں ) كس طرح سے اس نعمت كو جھٹلاؤ گے ۔
اب سوال یہ ہے كہ یہ (فنا) كس طرح س نعمت ہے ؟ مگر (فنا) نعمت ہوسكتی ہے ؟ علامہ طباطبائی اپنی تفسیر تیم (المیزان ) میں اس آیت كے ذیل میں فرماتے ہیں دنیا كا ختتام، آخرت كا آغاز ہے ۔ كہ جو خدا كی نعمتوں میں سے ایك نعمت ہے ۔ كیونكہ دنیوی زندگی، اخروی زندگی كے لئے مقدمہ ہے ۔ جب كہ یہ بدیہی امر ہے كہ مقدمہ سے نتیجے اور غرض كی جانب حركت كرنا اور منتقل ہونا، نعمت ہے ۔
لہذا (فنا) ایك نعمت ہے، كہ جس كے ذریعے سے ( آخرت ) یعنی نتیجے كی جانب پیش قدمی شروع ہوتی ہے ۔ اور خدائے متعال كی جانب انتقال ہے ۔
دوسرا الفاظ میں یہ بات صحیح ہے كہ انسان (عدم ) سے (وجود) میں آیا ہے ۔ لیكن فلاسفہ اور محققین كی رائے كے مطابق ( وجود) فنا اور عدم كے قابل نہیں ۔ ورنہ ایك شئے كا اس كی ضد كے ساتھ متصف ہونا لازم آئے گا ۔ اور یہ محال ہے ۔ ہاں موجودات، عدم اور فنا كو قبول كرتے ہیں ۔ لیكن اپنے اپنے اعتبار سے ۔ نہ موجودات ہونے كے عنوان سے عدم اور فنا سے متصف ہوتے ہیں ۔ (فكركریں )
لہذا اس وجہ سے شاید خداوند عالم نے سورہ آل عمران (۱۶۹۔ ۱۷۱) میں یہ فرمایا كہ !
,, ولا تحسبن الذین قتلوا فی سبیل اللہ امواتا بل احیاء ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اجر المومنین ۔
,, اور خبردار راہ خدا میں قتل ہونےوالوں كو مردہ خیال نہ كرنا وہ زندہ ہیں اور اپنے پروردگار كے یہاں رزق پارہے ہیں ۔ خدا كی طرف سے ملنے والے فضل و كرم سے خوش ہیں اور جو ابھی تك ان سے ملحق نہیں ہوسكے ہیں ان كے بارے میں یہ خوش خبری ركھتے ہیں كہ ان كے واسطے بھی نہ كوئی خوف ہے اور نہ حزن ۔ وہ اپنے پروردگار كی نعمت اس كے فضل اور اس كے وعدہ سے خوش ہیں كہ وہ صاحبان ایمان كے اجر كو ضائع نہیں كرتا ۔ ٬٬
مندرجہ بالا بیان سے معلوم ہوا كہ دنیا سے چلاجانا، ظاہری طور پر دكھائی نہ دینا، یعنی موت كا طاری ہوجانا، انسان كے لئے فنا اور نابودی نہیں ۔ بلكہ (موت) آئمہ طاہرین (ع) كے اقوال كے مطابق (پل ) ہے جس سے ایك جہاں (دنیا) سے دوسرے جہاں (آخرت ) تك پہنچا جاسكتا ہے ۔ (موت ) اللہ سے ملاقات (بقا) كا ذریعہ ہے ۔ (موت ) متقین كے لئے اور اولیاء خدا كے لئے بہترین چیز ہے ۔ مولائے كائنات خطبہ (۱۹۳ خطبہ ) فرماتے ہیں ۔كہ !
,, ہعنی اگر خدا كی جانب سے مقرر كردہ (موت ) ان كے لئے نہ ہوتی تو ہرگز ان كی روحیں ثواب الہی كے حصول اور عقاب سے محفوظ رہنے كی خاطر ایك لحظہ بھی ان كے جسموں میں باقی نہ رہتی ۔,,
خداوند عالم كا ارشاد ہے سورہ ملك كی آیت ۲ میں ,, الذی خلق الموت والحیوۃ لیبلوكم ایكم احسن عملا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ٬٬ یعنی خدا نے موت اورحیات كو (خلق) كیا تا كہ تمہیں آزمائے كہ تمہارے درمیان بہترین عمل كس كا ہے ؟
اس آیت پر غور كركے معلوم ہورہا ہے كہ (موت ) فنا كا نام نہیں ۔ بلكہ (وجود اور تكوین ) كا نام ہے ۔ (ہونے ) كا نام ہے ۔ نہ ( نہ ہونے) كا یعنی خدا نے جس طرح سے ,, حیات ,, كو خلق كیا اس طرح ,, موت ,, كو بھی خلق كیا ۔ یعنی دونوں خدا كی مخلوق ہیں ۔
2۔ موت كی بہترین صورت
خداوند عالم كا ارشاد ہے ۔ ( ,, كل نفس ذائقۃ الموت و نبلوكم بالشر والخیر فتنۃ ,,
,, یعنی ہر نفس كو موت كا ذائقہ چكھنا ہے ۔ ٬٬ ( سورہ انبیاء آیت نمبر ۳۵)
جب خدا كے اس فرمان كے مطابق موت كا ذائقہ لازمی طورپر چكھنا قراردیا ہے تو پھر آیا موت كی كوئی ایسی صورت یا انداز ہے جو شیرین ہو لذت آور ہو ۔ ؟ رسول خدا (ص) كا ارشاد ہے ( اشرف الموت قتل الشھادۃ ) یعنی اشرف ترین موت، شہادت كی موت ہے ۔ ( بحار الانوار جلد ۱۰۰ صفحہ ۸ )
سورہ آل عمران كی آیت ( ۱۶۹ ۔ ۱۷۱ ) میں موت كی بہترین صورت شہادت كو قرار دے دیا ہے ۔ یعنی اس س بڑھ كر موت كی اور كون سی اچھی صورت ہوسكتی ہے كہ جس میں خدا شہیدوں كی شہادت كے بعد كی كیفیت كو بیان كررہا ہے كہ یہ لوگ شہادت كے ذریعے سے موت كو حاصل كرنے كے بعد خدا كے لطف و كرم سے رزق پاتے اور خدا كی عنایت اور فضل سے خوش اور مطمئن ہیں اور اپنے اہل خانہ، عزیزوں اور دوستوں كو پیغام دیتے ہیں ۔ كہ وہ ان كا غم اور افسوس نہ كریں ۔ اور ان كی فكر نہ كریں ۔ خدا نے انھیں بہترین نعمتوں اور فضل سے ہم كنار كیا ہے ۔
امیرالمومنین (ع) كا نھج البلاغہ خطبہ ۱۳۲ میں ارشاد ہے ,, تحقیق موت تمہاری جستجو میں ہے ۔ چاہے انسان میدان كارراز میں ہو یا میدان جنگ سے بھاگنے والا ہو بہترین اور مكرم ترین موت اللہ كی راہ میں قتل ہوجانا ہے ۔ اس ذات كی قسم كہ جس ك قبضہ قدرت میں علی ابن ابی طاہب (ع) كی جان ہے ۔ میرے لئے ہزار مرتبہ شمشیر كی ضربت كو كھانا آسان ہے ۔ اس موت سے كہ جو خدا كی مخالفت كی حالت میں بستر پر آئے ۔ ٬٬
3 ۔ شہادت، شكر كا مقام ہے نہ صبر
امیرالمومنین (ع) نھج البلاغہ خطبہ ۱۵۶ میں ارشاد ہے !
,, میں نے رسول خدا (ص) سے كہا اے پیغمبر خدا(ص) كیا آپ نے جنگ احد كے دن كہ جب چند اصحاب ( مسلمان ) درجہ شہادت پر فائز ہوئے اور مجھے شہادت نصیب نہ ہوئی كہ جو مجھ پر بڑا گراں گزرا تو آپ(ص) نے اس وقت مجھے كہا تھا كہ ( اے علی (ع) ) تمہیں آنے والے دنوں میں شہادت نصیب ہوگی ۔
اس كے بعد مولا (ع) فرماتے ہیں كہ رسول خدا (ص) نے مجھ سے فرمایا كہ ,, ایساہی ہوگا كہ تم شہادت پاؤ گے ۔ جب تم شہادت كے درجے پرفائز ہوگے تو اس وقت تمہارے صبر كا كیا عالم ہوگا ؟ میں نے رسول (ص) كو جواب دیا كہ ,, اے پیغمبر خدا (ص) شہادت، صبر كا مقام نہیں بلكہ خوشی اور شكر كا مقام ہے ٬٬
مولا امیرالمومین (ع) كا ۱۹ رمضان كی شب كوابن ملجم كے ضربت كے بعد مشہور معروف جملہ (فزت و رب الكعبۃ) اس بات پر دلیل ہے كہ موت اور شہادت اولیاء خدا كے لئے خوشی اور شادمانی اور كامیابی كی علامت ہے ۔
4 ۔ شہادت اور الہی تحفے
۱۔ تمام گناہوں كا معاف ہوجانا ۔ كنزالعمال میں رسول (ص) كی روایت ہے: ,, ہرچیز كی بخشش كا ذریعہ شہادت ہے ۔ سوائے قرض كے ۔ ,, ایك اور روایت میں ہے كہ شہید كا ہر گناہ قرضہ كے علاوہ معاف ہوجاتا ہے ۔
۲۔ قبر میں آزمائش اور امتحان سے محفوظ رہتا ہے ۔
روایت میں ہے كہ ,, جو دشمن كے ساتھ مقابلہ كرتے ہوئے صبر سے ( اور استقامت ) سے كام لے یہاں تك كہ قتل ہوجائے یا غالب آجائے تو اس سے قبر میں سوال و جواب نہیں ہوں گے ۔ ٬٬ (رسول خدا(ص) كنزالعمال )
۳۔ زندگی اور حیات كا عطا ہونا:
شہید اپنی شہادت پیش كركے موت كو حیات اور زندگی عطا كرتاہے ۔
,, ولاتحسبن الذین قتلوا فی سبیل اللہ امواتا بل احیاء عند ربھم یرزقو ٬٬
جو لوگ اللہ كی راہ میں مارے جائیں تم انھیں مردہ تصور مت كرو بلكہ وہ زندہ ہیں ۔ ( آل عمران ۔ ۱۶۹ )
" ولا تقولو المن یقتل فی سبیل اللہ اموات بل احیاء و لكن لاتشعرون "
جو اللہ كی راہ میں مار جائیں تم انھیں مردہ مت كہو بلكہ وہ زندہ ہیں مگر تم اس كا شعور نہیں ركھتے ) (بقرہ ۱۵۴ )
شہادت ایك ایسا معنوی امر ہے كہ ایك انسان مومن اسكی معرفت اور شفاعت حاصل كرنے كے بعد اس دنیا كو سیلہ سمجھتا ہے نہ ہدف جب كہ رسول خدا (ص) كا فرمان ہے ( الدنیا مزرعۃ الآخرۃ ) ,, دنیا، آخرت كی كھیتی ہے ٬٬ ۔ دنیا ایساوسیلہ ہے كہ جس سے اولیاء اللہ سہارا لیتے ہوئے منزل مقصد اور ہدف تك پہنچتے ہیں ۔ لہذا اس نظر اور منطق كا حامل شخص (مومن ) دنیا كی ظاہری نعمتوں كو اپنے ہاتھ سے جاتے ہوئے دیكھ كر شرمندگی اور افسوس كا احساس نہیں كرتا ۔ كیونكہ اس كی نگاہ ان چیزوں اور تحائف پر ہے كہ جو خدا كے پاس ہے لہذا آئمہ معصومین (ع) كے فرمان كے مطابق شہداء كے سوا كسی دوسرے مرنے والے كی دنیا میں واپس آنے كی آرزو نہیں ہوتی ) كیونكہ انھوں نے خدا كی جانب س اپنے لئے جو اكرام اور احترام اور انعامات ملاحظہ كئے ہوتے ہیں وہ باعث بنتے ہیں كہ دنیا میں جاكر دوبارہ شہادت كے مرتبے پر فائز ہوں ۔
اگر شہادت كی محبت نہ ہوتی تو دین باقی نہ رہتا اور نہ ہی دین كا درخت سرسبز و شاداب ہوتا ۔ بلكہ یہ اسی كی محبت ہے كہ جس كی وجہ سے دین ہرا اور بھرا ہے كیونكہ شہادت ہی انسان كو بلند معنوی قوت عطا كرتی ہے ۔ كیونكہ شہادت سےمحبت ركھنے والے انسان، اللہ كی عطا كردہ قوت سے جہاد كرتے ہیں اس كے ارادے سے فعالیت دكھاتے ہیں اور اس نظر سے دیكھتے ہیں ۔ لہذا انھیں اللہ كی راہ میں شہادت كا رتبہ ملتا ہے ۔ (شہادت ) یعنی گواہی دیتے ہیں كہ واقعا اللہ كی ذات حق ہے لہذا اس بنا پر شہداء گرام كی سیرت كو اگر ملاحظہ كریں تو ان كی سیرت كی بنیاد اللہ كی ذات حق ہے لہذا اس بنا پر شہداء كرام كی سیرت كو اگر ملاحظہ كریں تو ان كی سیرت كی بنیاد اللہ پر ایمان كامل اور قوی اعتماد ہے ۔ یہ ایسا ایمان ہے كہ شہادت اور شہداء كی معرفت نہ ركھنے والے انسانوں كو حیران اور ششدر ہونے پر مجبور كرتے ہیں اور وہ اس بات پر قادر نہیں ہے كہ شہداء كی عظیم حركت اور فعالیت كی تفسیر كرسكیں ۔ لہذا نا سمجھی كی بنیاد پر (شہادت ) كو ایك نامعقول اور غیر سنجیدہ حركت قرار دے كر تسمخر كی نگاہ سے ملاحظہ كرتے ہوئے دشمنان اسلام و دین و مذہب كو حق كی بنیادیں متزلزل كرنے كا موقع فراہم كرتے ہیں ۔
source : http://www.sadeqin.com