موجودہ انسانی مصائب سےنجات ملنےکی واحد صورت یہی ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس دنیا کےحکمران (رہنما) بنیں ۔ یہ مشہور مغربی محقق و مفکر جارج برناڈشاہ کا قول ہےاور یہ نبی اکرم کی ذات والاصفات کےبارے میں غیر متعصب اور غیر مسلم محققین اور مفکرین کی بےشمار آراء میں سے ایک ہے ۔ جارج برناڈ شاو ان لوگوں میں سے ہیں جو نبی اکرم (ص) کی نبوت پر ایمان نہیں لائے پھر بھی وہ آپ کی عظمت کو تسلیم کرتا دکھائی دیتا ہے۔ آپ کی سچائی اور صداقت کا اعتراف صرف عرب تک محدود نہیں رہا بلکہ ساری دنیا کےدانشور اور مفکر جو اسلام کے ماننےوالےبھی نہیں ہیں وہ بھی حضور کی عظمت و رفعت کا برملا اعتراف اور آپ کی عمدہ تعریف پر مجبور ہیں ، کارلائل ، نپولین ، رائٹر ، ٹالسائی ، گوئٹے، لینن پول اور دیگر بےشمار ہندو دانشور آپ کی شان میں رطب اللسانہیں، غیر مسلم دانشوروں کو مختلف آفاقی اور الہامی وغیر الہامی ، مذہبی تعصب کےباوجود وہ پیغمبر اسلام کو تمام پیغمبروں اور مسلمین میں کامیاب ترین پیغمبر اور مصلح تسلیم کرنا اور انسان کامل ماننا ہے۔ یہ ہےعظمت رسول کا ایک پہلو۔
آپ کا نام مبارک اور ان کی تعریف کا ذکر نہ صرف قرآن حکیم میں ہے بلکہ تمام آسمانی کتابوں میں بھی آپ کا تذکرہ آیا ہے۔
ہم مسلمانوں کا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظمت و صفت ، حرمت و تقدس ، رفعت وناموس کےخلاف کسی بھی قسم کا سمجھو تہ یا چپ سادہ لینا تو دور کی بات ہے بلکہ حقیقت حال یہ ہے کہ آپ کی شان کے خلاف سوچ کا ایک لمحہ بھی ہماری دینی حمیت و غیرت کےمنافی ہونے کے ساتھ ساتھ کسی مسلمان کا دائرہ کفر اور ارتداد میں داخلہ کےلیےکافی ہوتا ہے۔ ہمارےعقیدے اور ایمان کےمطابق ایسا کوئی بھی شخص خواہ وہ کتنا ہی متقی اور پرہیز گار مسلمان ہی کیوں نہ ہو اور اندہ درگاہ رب العالمین اور ہمیشہ کےلیےجہنم کا ایندھن بننے کا سزاوار ٹھہرتا ہےاور ہم مسلمانوں کےنزدیک نبی اکرم کی ذات مبارکہ ہمارےایمان و عقیدہ کی پہلی بنیادی اساس ہونےکےساتھ ساتھ بعد از بزرگ توئی کا نعرہ حق و صداقت ہے یہ ہے دوسرا پہلو۔
سوال پیدا ہوتا ہےکہ کیا حقوق انسانی یا آزادی صحافت کی آڑ میں عالمی سطح پر معتبر تسلیم شدہ ہستی ، بے داغ کردار والی شخصیت اور انسان کامل کا سوقیانہ انداز میں ذکر اور کسی بھی استہزائی پیرائےسے اس پر اظہار خیال کیا جا سکتا ہے؟
اور کیا کسی ایسی قبیح حرکت کو محض چند خود حیض وضع کردہ نام نہاد اصطلاحوں کی بھینٹ چڑھایا جا سکتا ہے؟ بالخصوص ایسی صورت میں آپ کے ہر مذہب و فکر و نظریہ کےغیر متعصب عالمی دانشور اس شخصیت کو انسانیت کا نجات دہندہ ، بہترین انسان اور رہنما تسلیم کرنے میں ہچکچاتے نہ ہوں اور ایسی شخصیت نبی کی ہو، ارب ہا انسان اس کے پیروکار ہوں اور جو اس ذات گرامی سےغیرمشروط وابستگی ، عشق اور شیفتگی رکھتے ہوں اور حقیقت بھی یہی ہےکہ تاجدار ختم نبوت کی غلامی اور ان کی حرمت و ناموس پر کٹ مرنا ہر مسلمان کی زندگی کی سب سےبڑی آرزو ہے، وہ حضور کےنام اور ناموس پر مر مٹنےاور اس کی خاطر دنیا کی ہر چیز قربان کرنےکو اپنی زندگی کا ماحاصل سمجھتے ہیں۔ تاریخ گواہ ہےکہ مسلمان ملکوں کی عدالتوں نےشاتم رسول کو سزائےموت کا فیصلہ سنایا اور جن ملکوں میں مسلمانوں کی حکومت نہیں وہاں مسلمانوں نےرائج الوقت قانون کی پرواہ کیےبغیر گستاخان رسول کو کیفر کردار تک پہنچایا اور خود ہنستےمسکراتے تختہ دار پر چڑھ گئی۔
مسلمانوں کےدلوں اور ذہنوں میں عظمت رسول کا تصور اور اطاعت رسول کا عمل ہی وہ بنیاد ہےجو امت مسلمہ کے ہر فرد کی رگوں میں خون بن کر دوڑ رہا ہے اور یہ حقیقت بھی ہےمسلمانوں کا یہی جذبہ اور اپنےنبی سےوالہانہ لگاؤ ہے غیر مسلم اقوام کےدلوں میں کانٹا بن کر چبھتا چلا آ رہا ہے۔ غیر مسلم اقوام کسی نہ کسی طریقے سےمختلف حیلوں اور بہانوں سےامت مسلمہ کےافراد کےدلوں میں حب رسول کو کم سےکم کرنےکے درپے رہتی ہیں ۔ تاریخ اس بات کی شہاد ت دیتی ہے۔
دور نہ جائیے گزشتہ چند سالوں کےعالمی واقعات سےصاف معلوم ہوتا ہے کہ آج کےمہذب دور میں بوجود خاتم النبیین ہمارے آقا و رہبر حضرت اور ہمارے دین اسلام کے بارے میں ایک نیا عالمی انسانی اور مذہبی رویہ تخلیق کرنےکی سازش ہو رہی ہے۔ غیر مسلم ذرائع ابلاغ اسلام کےخلاف میڈیائی جارحیت سےمسلح نظر آتے ہیں۔ اغیار کی چالاکیوں کا عمل دخل تو واضح طور پر نظر آتا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ اپنوں کی کوتاہیوں ، بھول پن جو بھی نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔
اندریں حالات مسلم ممالک کی حکومتوں، دانش مندوں، اہل عمل و فکر اور مقتدر طبقات کی ذمہ داریوں کا یہ برملا تقاضا ہےکہ وہ لیت و لعل کےبغیر حرمت اور عظمت رسول کےلیےسرگرم ہوجائیں اور انسان کامل حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عزت اور تقدس مآبی پر انگشت نمائی کرنے والوں کے ہوش حکمت اور تدبیر سےٹھکانے پر لانےکا اہتمام کریں اور باز نہ آنےوالوں سےباز پرس کا عملاً بندوبست بھی کریں۔
عالمی سطح پر واضح کیا جائےکہ اسلام ایک مکمل دین ہے۔ اسلام کے ہاں حقوق انسانی کا جس انداز میں خیال رکھا ہےدوسرےمذاہب اور نظریات اور نام نہاد خود ساختہ اصلاحات اس سےعاری دکھائی دیتی ہیں۔
اور مادر پدر آزادی نہ انسان کا حق ہےاور نہ ہی حیوانوں جیسی آزادی ہےاس کو منزل مقصود حاصل ہوسکتی ہے۔ اسلام سلامتی، خیر خواہی ، محبت اخوت اور امن و سکون کا دین ہے۔ تعلیمات قرآن اور نبی پاک کی سیرت مطہرہ اس کا عملی مظہر ہےذات رسول جسےخالق کائنات نےتمام جہانوں اور سب دنیاؤں کےلیے رحمت قرار دیا ہے، ہی کی سیرت پاک ، وہ بنیادی کلید ہےجو گلوبلائزیشن کےدور سےگزرتی ہوئی انسانیت کےلیے راہبری اور راہنمائی کا کام دےسکتی ہے۔ یہ مہتم بالشان کام اسلامی سربراہی کانفرنس کے پلیٹ فارم سے ہونا چاہئے۔
ہم مسلمان ہیں ، ہمارےلیےخوشی غمی اور اپنےجذبات کےاظہار کا ایک طریق کار ہےجو ہمیں تعلیمات اسلام اور ہمارےنبی پاک کےعمل اور اسوہ مبارکہ سےحاصل ہوا ہے۔ اس کا برملا تقاضا ہےکہ امت مسلمہ کو اپنےافکار و اعمال کو پیش کرتےوقت حکمت اور موعظہ حسنہ یعنی بہترین انداز اور طریقہ کو اپنانا ہوگا۔ یہی سنت رسول اور حکم رسول ہے۔
ہمیں یہ جان لینا چاہیےکہ آج علم اور دلیل کی دنیا اور جمہوریت کا دور ہےایسےمیں ہم مسلمانوں کو جوش کےساتھ ساتھ ہوش کی بھی پہلےسےکہیں زیادہ ضرورت ہے۔ نبی اکرم کی ذات گرامی اور اسلامی تعلیمات کو مغرب اور غیر مسلم دنیا کےسامنے پیش کرتے وقت اعلیٰ اسلامی تعلیمات کو اجاگر کرتے رہنا ہوگا۔ آج کا دانشور یہ کہہ رہا ہےکہ انسانی حقوق ، انسانوں کی برابری کا مسئلہ نہیں ہےبلکہ یہ انسانی برادری اور انسانوں کےمابین تفریق کو ختم کرنےکا مسئلہ ہے۔
source : http://www.islaminurdu.com