اردو
Sunday 22nd of December 2024
0
نفر 0

آؤنہج البلاغہ کی سیر کریں!

خطبہ اوّل کے مضامین کو سات حصّوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے ۔ (١)خدا شناسی  (٢) خلقت شناسی  (٣) ملائکہ شناسی  (٤) انبیاء شناسی (٥) بعثت شناسی (حضرت رسول اکرم  ۖ)  (٦) قرآن شناسی  (٧)حج شناسی ۔ اس شمارے میں اب ہم خدا کے فضل و کرم سے ان مطالب کی تفسیر میں وارد ہوجائیں گے ،سب سے پہلے ہم توحید کے بارے میں قلم فرسائی کریں گے کیونکہ توحید اسلام کی بنیاد ہے ،توحید،فکر وخیال کا سرمایہ اور انسانی عرفان وعمل کا معیار ہے یہی وجہ ہے کہ ائمہ اطہار  نے اس عقیدہ کی بنیاد کو مستحکم بناکر اس کے اصول وکلیات کی تشریح فرمائی ہے اور اس کے بہت سے جزئیات کو بھی بیان فرمایا ہے من جملہ خدا کے صفات واسمائے حسنیٰ کو بیان فرماکر خدا اور بندے کے درمیان رابطے کو واضح کیا ہے ،اسی طرح  ایسے صفات بھی بیان کئے ہیں جنہیں خدائے متعال کی ذات سے نسبت دی جاسکے اور ایسے صفات مثلاً تشبیہ ،تجسیم  اور تمثل وغیرہ بھی بیان کئے ،جن سے خدا کی ذات اقدس مبرّا ہے۔

مرحوم کلینی  اصول کافی میں اس خطبہ(خطبہ اول نہج البلاغہ) کوبیان کرنے کے بعد فرماتے ہیں:''یہ جناب امیر المؤمنین  کے خطبوں میں سے ایک خطبہ ہے یہاں تک کہ دشمنوں نے اسے حقارت کی نظر سے دیکھا ہے حالانکہ وہ کافی ہے اس شخص کے لئے جو علم توحید کا طالب ہو بشرطیکہ اس میں غور وفکر کرے اور اس کے معانی ومطالب کو سمجھے ،اگر نبی اکرم  کو چھوڑ کر دنیا کے تمام جن وانس جمع ہو کر مسائل توحید بیان کریں تو ایسا واضح اور مکمل بیان کرنے پر ہر گز قادر نہ ہوں گے، اگر امیر المؤمنین  ان مسائل کو بیان نہ فرماتے تو لوگ جانتے ہی نہیں کہ توحید کا راستہ کیا ہے۔

حضرت علی  نے اس خطبہ کا آغاز حمد الہیٰ سے کیا ہے لہٰذا ضروری ہے کہ ہم پہلے حمد کے معنی بیان کریںگے اور یہ بھی بتاتے چلیں گے کہ حمد،مدح اور شکر کے درمیان آپس میں کیا فرق ہے۔ اگر چہ بعض مفسرین نے ان کو ایک ہی معنی میں استعمال کیا ہے جو درست نہیں ہے۔

حمد کے لغوی معنی

استاد فرزانہ سید جواد نقوی دامت بر کاتہ نے نہج البلاغہ کے خطبہ دوم کی تفسیر میںحمد کے معنی یو ں بیان کیا ہے: 

حمد ،عربی زبان کا لفظ ہے جس کا متبادل اردو اور فارسی میں تحسین ،ستائش اور تعریف ہے حمد کے بنیادی معنی ثناء کرنا ہے لیکن ہر ثناء کو ''حمد '' نہیں کہہ سکتے ہیں کیونکہ ثناء دو صورتوں میں ہوتی ہے ایک حمد کی صورت میں اور دوسری مدح کے طور پر،پھر استاد محترم نے فرمایا کہ:فخرالدین طریحی مجمع البحرین میں ''حمد ''کی تعریف یو ں بیان فرماتے ہیں:   

''الحمد ھو الثناء بالجمیل علی قصد التّعظیم للمحمود'' 

''حمد ،محمود کے حسن وزیبائی کی بناء پر تعظیم کے قصد سے کی گئی تحسین وثناء کو کہتے ہیں''

اس وجہ سے ارباب لغت نے ''حمد '' کے معنی کی خصوصیات ذکر کی ہیں جس سے حمد ،شکر، مدح اورتملّق میں فرق واضح ہو جاتا ہے۔

٭حمد،اس ثناء وستائش کو کہتے ہیں جو محمود کے حسن وجمال کو دیکھنے سے بے ساختہ انسان کے دل میں پیدا ہو اگر حسن وجمال نہ ہو تو تعریف حمد نہیں کہلاتی ہے۔ 

٭جس حسن وجمال کی بناء پر ''حمد '' کی جاتی ہے وہ ایک عینی اور خارجی حقیقت ہو ،خیالی اور وہمی نہ ہو۔

٭یہ حسن وجمال ،کمال وفضیلت شمار ہو لہذا وہ جمال جو کمال کے زمرے میں شمار نہیں ہوتا اس پر ثناء کرنا ''حمد'' نہیں ہے۔

٭محمود کا جمال وکمال دوسروں کے لئے قابل مشاہدہ ہو۔

٭جس کمال وجمال پر ''حمد '' کی جائے وہ محمود کا اختیاری ہو غیر اختیاری صفات وکمالات کی حمد نہیں ہوسکتی۔

٭''حمد'' کرنے والا ستائش وثناء اپنے اختیار سے کرے اور اپنے دل کی چاہت کے ساتھ کرے ،اجباری اور دباؤ میں آکر کی جانے والی تعریف حمد نہیں ہے۔ 

٭''حمد''وہ تعریف ہے جس میں بناوٹ ، ریاکاری ،مطمع کاری اور تصنع نہ ہو بلکہ حسن وکمال کو دیکھ کر بے ساختہ انسان کے دل میں پیدا ہو اور دل سے زبان پر جاری ہو ۔

٭جس کمال وجمال پر ثناء کی جارہی ہو اس کی معرفت ہو ، شناخت کے بغیر ''حمد '' نہیں ہوسکتی لہذا تقلیداً وتلقیناً کی جانے والی ثناء حمد نہیں کہلاتی ۔ حمد ،انسان کا ایک اندرونی پاکیزہ جذبہ ہے اور یہ ہر انسان کی روح سے پھوٹتا  ہے تاکہ جمال وجلال کی تعریف کرے اور عظمت کے مقابلے میں منکسر ہو یہی وجہ ہے کہ سورہ حمد خدا کی معرفت کی مقتضی ہے یعنی جب تک انسان کو خد کی مکمل معرفت حاصل نہ ہو جائے وہ سورہ حمد کو صحیح طرح سے پڑھ نہیں سکتا ۔

 ان مذکورہ صفات کی بناء پر دوسرے الفاط مانند شکر،مدح اور تملق تعریف حمد سے خارج ہو جاتے ہیں۔ حمد، مدح سے خاص اور شکرسے عام ہے کیونکہ ان افعال پر ہوتی ہے جو انسان سے اختیاری طور پر سرزرد ہوتے ہیں اور ان افعال پر بھی جو پیدائشی طور پر اس میں پائے جاتے ہیںچنانچہ جس طرح مال کے خرچ کرنے اور علم وسخاوت پر انسان کی مدح ہوتی ہے اسی طرح اس کی درازی قد وقامت اور چہرہ کی خوبصورتی پر تعریف کی جاتی ہے ،لیکن حمد صرف افعال اختیاری پر ہوتی ہے نہ کہ اوصاف اضطرار پر، اور شکر تو صرف کسی کے احسان کی وجہ سے اس کی تعریف کو کہتے ہیں لہٰذاہر شکر حمد ہے مگر ہر حمد شکر نہیں ہے اور ہر حمدمدح ہے مگر ہر مدح حمد نہیں ہے، اگر چہ حمد ، مدح اور شکر معنی کے اعتبار سے ایک دوسرے سے نزدیک ہیں لیکن تملق کا حمد ، مدح اور شکر سے کوئی رابطہ نہیں ہے ۔ تملق کا معنی اردو میں چاپلوسی ہے،تملق اس تعریف پر بولا جاتا ہے  جس کے اندر ساختگی ہو یعنی انسان اپنے ذاتی مفادات حاصل کرنے کے لئے کسی کی تعریف کرتا ہے ۔استاد شہید مرتضی مطہریتملق(چاپلوسی) کے بارے میں فرماتے ہیں :''انسان میں کبھی تعریف کا عمل پستی کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے جسے چاپلوسی کہتے ہیں اور یہ بری صفت سمجھی جاتی ہے ،چاپلوسی اس وقت ہوتی ہے جب انسان کسی غیر حقیقی چیز کی تعریف کرے اور یہ انتہائی گھٹیا بات ہے کہ انسان کو خدا نے کمال وجمال  اور عظمت و زیبائی کی تعریف کے لئے جو قوت دی ہے اسے وہ  بے وقعت چیز کی تعریف میں لالچ کی غرض سے صرف کرے ،یہ قوت تو اسے اس لئے دی گئی ہے کہ وہ  اس سے اعلی ٰ احساسات یعنی  ایک کمال کی بزرگی ، عظمت اور نظم وضبط سمجھ سکے  نہ کہ اسے غرض وطمع کے پست جذبات میں ضایع کرے حقیقی تعریف کے لئے کسی طمع کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ وہ تو خوبصورت چیز دیکھنے پر انسا ن کا ایک فطری اور طبیعی ردّ عمل ہے''۔(آشنائی با قرآن ، ج ،٢)    

امام  حمد الھی سے اس خطبہ کو شروع کر  تے ہیں اور فرماتے ہیں: ''الحمد للّہ الذی لا یبلغ مدحتہ القائلون''  ''یعنی ساری تعریف اس اللہ کے لئے ہے جس کی مدحت تک بولنے والوں کے تکلم کی رسائی نہیں ہے ''

تو یہاں پر یہ سوال اٹھتا ہے کہ کیوں حضرت علی  نے اس خطبہ کا آغاز حمد الھی سے کیا ہے ؟

اس سوال کے جواب میں یوں کہا جاسکتا ہے کہ ممکن ہے حضرت علی  نے قرآن مجید کی پیروی کے خاطر حمد الھی سے خطبہ کا آغاز کیا ہو کیونکہ قرآن مجید کا آغاز بھی حمد الھی ہی سے ہوا ہے ''الحمد للہ رب العالمین''یاممکن ہے کہ ادب الھی کو مدنظر رکھکر یہ کام کیا ہو یعنی جب انسان خدا کی بارگاہ میں حاضر ہوجاتا ہے تو اسے چاہیے کہ ان تمام نعمتوں کے مقابلے میں شکر ادا کرے جو اسے عطاکی گئی ہیں۔

 دوسرا سوال یہاں پر یہ پیدا ہوجاتا ہے کہ کیوں خدا وند عالم کی مدحت تک بولنے والوں کے تکلم کی رسائی نہیں ہے؟

مفسرین نہج البلاغہ اس سوال کا جواب یوں بیان فرماتے ہیں:کیونکہ خدا وند عالم کی ذات کی کوئی حد نہیں ہے دوسرے لفظوں میں یوں کہا جاسکتا ہے خدا وند عالم کے صفات عین ذات ہیں جس طرح سے خدا وند عالم کی کنہ ذات تک کسی کی رسائی نہیں ہے اسی طرح سے اس کے صفات تک بھی کسی کی رسائی نہیں ہے ،موجودات عالم اپنی معرفت کے مطابق خدا وند عالم کی مدحت وثناگوئی کرتے ہیں اور در حقیقت خدا وند عالم کی ذات اور کمالات کی معرفت کے مقابلے میں عجز وناتوانی کا اعتراف کرنا ہمارے لئے بہترین حمد ہے یعنی حمد الھی کا حق ہم سے ادا ہی نہیں ہوسکتا ہے لیکن اس کے مقابلے میں یہ اعترا ف کرنا کہ اے ہمارے پالنے والے ہم تیری حمد کی ادائیگی میں ناتوان وعاجز ہیں یہ ہمارے لئے افضل ترین حمد شمار ہوتی ہے۔پس ''الحمد للّہ الذی لا یبلغ مدحتہ القائلون '' سے ہم یہ نتیجہ حاصل کر سکتے ہیں کہ یہ اعتراف کر لینا چاہیے کہ ہم خدا وند متعال کی کنہ ذات اور اس کے کمالات کے ادراک کرنے سے عاجز ہیں یعنی ہم ایسی ذات کے ادراک پر قادر نہیں ہیں جس کی ذات اور صفات کی کوئی حد نہیں ہے ،ذات لامحدود کو محدود مخلوق درک نہیں کر سکتی ہے۔

  حضرت رسول اکرم ۖ فرماتے ہیں : ''ماعبدناک حقّ عبادتک وما عرفناک حقّ معرفتک'' ''یعنی اے پروردگار !ہم نے تیری عبادت کا حق ادا نہیں کیا اور تیری معرفت کا جو حق تھا وہ ادا نہیں کیا''  

   یہ حقیقت بھی نا قابل تردید ہے کہ ہم جس وقت ہم شکر الھی بجالا تے ہیں چاہے وہ فکر ونظر سے ہو ،چاہے زبان سے ہو اور چاہے عمل سے ہو، شکر کی یہ توانائی خود ہر مر حلے میں ایک نئی نعمت ہے  اور اس طرح سے شکر کرنا ہمیں اس کی نئی نعمتوں کا مرہون منت قرار دیتا ہے اور یوں یہ ہرگز ہمارے بس میں نہیں کہ اس کے شکر کا حق ادا کر سکیں ،جیسا کہ امام سجاد  کی پندرہ مناجاتوں میں سے مناجات شاکرین میں ہے :

 ''کیف لی بتحصیل الشّکر وشکری ایاک یفتقر الی شکر فکلما قلت لک الحمد وجب علیّ لذلک ان اقول لک الحمد'' ''میں تیرے شکر کا حق کیسے ادا کر سکتا ہوں جب کہ میرا یہ شکر ایک اور شکر کا محتاج ہے اور جب میں ''لک الحمد '' کہتا ہوں تو مجھ پر لاز م ہے کہ اس شکر گزاری کی توفیق پر کہوں ''لک الحمد'' لہٰذا انسا ن کے لئے مرحلہ شکر کا افضل ترین مقام یہ ہوسکتا ہے کہ اس کی نعمتوں پر شکر سے عاجزی کا اظہار کرے جیسا کہ ایک حدیث میں امام صادق سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا:

''فیما اوحی اللّہ عزّ وجلّ الی موسی اشکرنی حق شکری ،فقال یارب وکیف اشکرک حق شکرک ولیس من شکر اشکرک بہ الا وانت انعمت بہ علی ،قال یا موسی الآن شکرتنی حین علمت ان ذلک منی''

''خدا نے موسی کی طرف وحی کی کہ میرا حق شکر ادا کرو تو انھوں نے عرض کیا ،پرودگارا میں تیرا حق شکر کس طرح ادا کروں جب کہ میں جب بھی تیرا شکر بجالاؤں تو یہ توفیق بھی خود میرے لئے ایک نعمت ہوگی ،اللہ نے فرمایا :اب تونے میرا حق شکر ادا کیا جب کہ تو نے جانا کہ حتی یہ توفیق بھی میری طرف سے ہے''۔( اصول کافی ،ج ٤باب الشکر)

 آخر میں خدا وند متعال کی بارگاہ میں دعا کرتے ہیں کہ اے پر وردگارا !  ہمیں بھی حقیقی حامدین و شاکرین میں شمار فرما۔  تحریرمظفر حسین بٹ  

منابع ومدارک    

 ١۔تفسیر المیزان،علامہ محمد حسین طباطبائی  

 ٢۔تفسیر نمونہ،حضرت آیت اللہ مکارم شیرازی دام ظلہ   

٣۔پیام امام،حضرت آیت اللہ مکارم شیرازی دام ظلہ

٤۔آشنائی با قرآن ج٢،استاد شہید مرتضی مطہری   

٥۔اصول کافی،ج١، مرحوم شیخ یعقوب کلینی          

٦۔درس تفسیر نہج البلاغہ،استاد سید جواد نقوی دام ظلہ          

٧۔جہان بینی امام علی در خطبہ اول نہج البلاغہ،حضرت آیت اللہ زین العابدین قربانی لاہیجی   

٨۔مفردات القرآن ،مرحوم راغب اصفہانی  

٩۔صحیفہ سجادیہ ،ترجمہ علامہ ذیشان حیدر جوادی

 


source : http://rizvia.net
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

حضرت زهراء سلام الله علیها کی شخصیت کے کونسے ...
میاں بیوی کا ہم کفو ہونا
اسلامي سوسائٹي ميں تربيت کي بنياد ۔۔ امام جعفر ...
زبان قرآن کی شناخت
استشراق اور مستشرقین کا تعارف
دس رمضان حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہاکا یوم وفات
اخلاق کے اصول- پہلی فصل ہدایت کرنے والی نفسانی صفت
اولیاء سے مددطلبی
فضائلِ صلوات
حسین شناسی

 
user comment