ابن عبد ربہ اور ”عقد الفرید“ کا ایک بار پھر جائزہ
ابن عبد ربہ اندلسی ، کتاب العقد الفرید(م ۴۶۳) کا موْلف اپنی کتاب میں عبدالرحمن بن عوف سے نقل کرتا ہے :
جب ابوبکر بیمار تھا تو میں اس کی عیادت کیلئے گیا اس نے کہا : اے کاش کہ تین کام جو میں نے اپنی زندگی میں انجام دئیے ، ان کو انجام نہ دیتاان تین کاموں میں سے ایک کام یہ ہے ”وددت انی لم اکشف بیت فاطمة عن شئی وان کانوا اغلقوہ علی الحرب “ ۔ اے کاش حضرت فاطمہ کے گھر کی بے حرمتی نہ کرتا اور اس کو اس کے حال پر چھوڑ دیتا اگر چہ انہوں نے جنگ کرنے ہی کے لئے اس دروازہ کوکیوں نہ بند کر رکھا ہو ۔
آئندہ کی بحثوں میں بھی ان لوگوں کے نام اور ان شخصیتوں کی عبارات کو بیان کیا جائے گا جنہوں نے خلیفہ کی اس بات کو نقل کیا ہے
کتاب ”الوافی بالوفیات“ میں نظام کی گفتگو
ابراہیم بن سیار نظام معتزلی (۱۶۰۔۲۳۱) جو نظم و نثر میں اپنے کلام کے حسن کی وجہ سے نظام کے نام سے مشہور ہے اس نے اپنی مختلف کتابوں میں حضرت فاطمہ کے گھر پر حاضر ہونے کے بعد والے واقعہ کو نقل کیا ہے وہ کہتا ہے :
ان عمرضرب بطن فاطمة یوم البیعة حتی القت المحسن من بطنھا۔
عمر نے جس روز ابوبکر کی بیعت لی اس روز حضرت فاطمہ کے شکم مبارک پرایک ضرب ماری، ان کے شکم میں جو بچہ تھا جس کا نام محسن تھا وہ ساقط ہوگیا!۔
مبرد اور کتاب ”کامل“
ابن ابی الحدید لکھتا ہے : محمد بن یزید بن عبدالاکبر بغدادی(۲۱۰۔ ۲۸۵) مشہور ادیب اور لکھنے والا، مشہور کتابوں کا مالک، اپنی کتاب الکامل میں عبدالرحمن بن عوف سے خلیفہ کی آرزووں کی داستان کو نقل کرتا ہے اور اس طرح یاد دہانی کراتا ہے :
وددت انی لم اکن کشفت عن بیت فاطمة و ترکتہ و لو اغلق علی الحرب۔
مسعودی اور ”مروج الذہب“
مسعودی (متوفی ۳۲۵) اپنی کتاب مروج الذہب میں لکھتا ہے : جس وقت ابوبکر احتضار کی حالت میں تھا اس نے یہ کہا :
اے کاش تین کام جو میں نے اپنی زندگی میں انجام دئیے ان کو انجام نہ دیتاان میں سے ایک کام یہ ہے ”فوددت انی لم اکن فتشت فاطمة و ذکر فی ذلک کلاما کثیرا “ ۔ اے کاش حضرت فاطمہ کے گھر کی بے حرمتی نہ کرتا اس نے اس سلسلہ میں اور بہت سی باتیں بیان کی ہیں۔
مسعودی اگر چہ اہل بیت سے محبت رکھتا ہے لیکن یہاں پر اس نے خلیفہ کی باتوں کو بیان نہیں کیا ہے اور کنایہ کے ساتھ آگے بڑھ گیا ہے البتہ سبب کو خدا جانتا ہے لیکن اس کے بندے بھی اجمالی طور سے جانتے ہیں۔
عبدالفتاح عبدالمقصود اور کتاب ”امام علی“
اس نے حضرت فاطمہ کے گھر پر حملہ سے متعلق اپنی کتاب میں دو جگہ بیان کیا ہے اور ہم اس میں سے ایک کو نقل کرنے پراکتفاء کرتے ہیں :
عمر نے کہا : والذی نفس عمر بیدہ، لیخرجن او لاحرقنھا علی من فیھ...! قالت لہ طائفة خافت اللہ و رعت الرسول فی عقبہ: یا اباحفص، ان فیھا فاطمة...! فصاح: لایبالی و ان...! و اقترب و قرع الباب، ثم ضربہ و اقتحمہ... و بدالہ علی... و رن حینذیک صوت الزھراء عند مدخل الدار... فانی ھی الا طنین استغاثة۔
اس کی قسم جس کے قبضہ میں عمر کی جان ہے یا گھر سے باہر نکل جاؤ یا اس گھر کے رہنے والوں سمیت اس میں آگ لگا دوں گا۔
کچھ لوگ جو خدا سے ڈرتے تھے اور پیغمبر(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ) کی وفات کے بعد آپ کا احترام کرتے تھے انہوں نے کہا: اے حفصہ کے باپ، اس گھر میں فاطمہ بھی ہیں، اس نے بغیر کسی کی پروا کئے ہوئے پکارا: ہوا کرے! اس کے بعد دروازے کو کھٹکھٹایا اور پھر گھر میں داخل ہوگیا، علی علیہ السلام ظاہر ہوگئے... حضرت زہرا کی آواز گھر میں گونجی... یہ ان کے نالہ و شیون کی آواز تھی!
اس بحث کو دوسری حدیث کے ذریعہ جس کو مقاتل بن عطیہ نے اپنی کتاب میں ”الامامة والخلافة“ میں بیان کیا ہے ختم کرتے ہیں(اگر چہ ابھی بہت کچھ کہنا باقی ہے!)۔
وہ اس کتاب میں اس طرح لکھتا ہے : ان ابا بکر بعد ما اخذ البیعة لنفسہ من الناس بالارھاب والسیف والقوة ارسل عمر و قنفذ و جماعة الی دار علی و فاطمة (علیھما السلام) و جمع عمر الحطب علی دار فاطمة و احرق باب الدار...
جس وقت ابوبکر لوگوں سے رعب و وحشت اور تلوار کے زور پر بیعت لے رہا تھا ، عمر ، قنفذ اور ایک گروہ کو حضرت علی و فاطمہ (علیھما السلام) کے گھر کی طرف بھیجا ، عمر نے لکڑیاں جمع کرکے گھر میں آگ لگا دی۔
اس روایت کے ذیل میں اور بھی بہت سی تعبیریں ہیں جن کو بیان کرنے سے قلم عاجز ہے۔
نتیجہ:
ان سب واضح دلیلوں کے باوجود جو اہل سنت کی کتابوں سے نقل ہوئی ہیں پھر بھی بہت سے لوگ اس واقعہ کو ”افسانہ شہادت“ کے نام سے یاد کرتے ہیں اور اس تلخ و ناگوار حادثہ کو جعلی بتاتے ہیں اگر یہ لوگ اس واقعہ کے انکار پر اصرار نہ کرتے تو ہم بھی اس سے زیادہ اس کی وضاحت نہ کرتے۔
سوئے ہوئے افراد کو ان حقائق کے ذریعہ بیدار کیا جائے تاکہ تاریخی حقیقت کو تعصبات کے اندر نہ چھپایا جائے اور اس کا انکار نہ کریں۔
source : http://www.tebyan.net/