دنیا میں کوئی ایسی قوم نہیں جو یہ دعو ی کر سکے کہ وہ دستور حیات اورآئین زندگی جو ایک مذہبی ، قومی یا وطنی نوشتہ کی صورت میں ہمارے پاس ہے یہ وہی منشور حیات ہے جسکو اس کائنات کے پیدا کرنے والے خالق اکبر نے ہمارے لئے بھیجا تاکہ ہم اس تیرہ وتا ر دنیا میں اسکے نور سے اچھی اور بری راہوں میں تمیز کرسکیں، یہ وہ دستور ہے جس میں نہ کسی چیز کا اضافہ ہوا ہے اور نہ ہی کسی چیز کو اس سے کم کیا گیا ہے یہ ہر طرح کے نقص و عیب سے مبرہ ہے ۔
یہ وہ منشور زندگی ہے جسکی روشنی میں اقوام عالم ترقی کی منزلوں کو طے کرتے ہوئے آگے بڑھ سکتی ہیں ،یہ وہ دستور حیات ہے جسکی پاپندی بنی نوع بشر کو اس ڈگر پر گامزن کر سکتی ہے جو کامیابی و فلاح پر منتہی ہوتی ہے ۔
یہ حق صرف مسلمانوں کو حاصل ہے کہ وہ یہ دعوی کر سکتے ہیں کہ وہ کتاب جس پر انکا یقین اور ایمان ہے وہی کتاب ہے جسے خدا وند متعال نے اپنے آخری رسول حضرت محمدصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر نازل کیا تھا اسکے زمانہ نزول سے لیکر اب تک چودہ سو سال گزر جانے کے باوجود بھی نہ اسمیں کوئی ایک حرف کم ہوا ہے نہ ایک حرف زیادہ، یہ آج بھی اسی طرح باقی ہے جس طرح اس وقت تھی جب قلب پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر نازل ہوئی تھی ، یہ ایک ایسی حقیقت ہے جسکا اظہاردیگر مذاہب کے منصف مزاج دانشور خود ہی کرتے آئے ہیںچنانچہ معروف مستشرق سنڈ بارلی ۔ M.r .balrle اس حقیقت کا اعتراف کرتے ہوئے کہتے ہیں''قرآن ہی ایک ایسی کتاب ہے جس میں چودہ سو برس سے کوئی تبدیلی نہیں ہوئی ، یہودی اور عیسائی مذہب میں کوئی ایسی چیز نہیں ہے جو معمولی طور سے بھی قرآن کے مقابلہ میں پیش کی جا سکے'' ( ١)
قرآن کی آفاقیت اور مستشرقین و مفکرین کے نظریات :
یوں تو ہر قوم اپنے علمی سرمایہ اور ملی تشخص کو بیان کرنے والی کتاب پر افتخار کرتے ہوئے سر دھنتے نہیں تھکتی اور اسکی ثنا خوانی کرتی نظر آتی ہے لیکن قرآن کاطرہ امتیاز یہ ہے کہ اپنے تو کیا غیروں نے بھی اس سے استفادہ کیا اور دیگر مکاتب فکر سے متعلقہ دانشوروں نے اسکی عظمت کو سراہا اور اسکی آفاقیت کو سلام کیا ہے چنانچہ قرآن کی آفاقیت کے سلسلہ میں چند معروف ہستیوں کے نظریات ملاحظہ ہوں :
٭ایڈون یوک ۔ Adwan yok .قانون محمدی یعنی قرآن ایک ایسا قانون ہے جس میں سربراہ مملکت سے ادنی رعیت تک کا قانون موجود ہے جو محکم ترین اور جدید ترین قانون قضاوت پر مشتمل ہے ، یہ قانون اپنی جگہ ایک موزون اور درخشان قانون ہے ایسا قانون کہ جس سے پہلے کبھی کوئی دوسرا وجود میں نہیں آیا ، (٢)
٭استنجاس ہوز ۔ Istenjasshos ''ہم انتہائی قوت اور قدرت سے کہہ سکتے ہیں کہ قرآن تاریخ بشریت میں لکھی گئی سب سے بڑی کتاب ہے لہذا اس کتاب سے کسی دوسری کتاب کا موازنہ یا مقابلہ کرنا صحیح نہیں ہے یہ کتاب اپنے سننے والوں کی تمام قوت ، سماعت ، اور قناعت میں نفوذ کر چکی ہے ۔ اسنے انکے اندر جگہ لینے سے تمام نا پائدار اور غلط و بیہودہ افکار و نظریات کو اکھاڑ پھینکا ہے ۔ اور اپنی سادہ بیانی و بلاغت سے ایک وحشی و درندہ صفت سے ایک متمدن قوم کو وجود بخشا ہے (٣)
٭جارج ثوف۔ Jeorgesdaf قرآن ایک ایسی اساس اور بنیاد پر واقع ہے جس پر عالم تمدن مسنتند ہے قرآن کے مضامین ان بنیادوں اور اصولوں پر قائم ہیں جن پر دنیا کا وزن قائم ہے ۔(٤)
٭لئون ٹولسٹیو {Leon tolstio}روس کے معروف اسکالر :
جو بھی یہ چاہتا ہے کہ وہ اسلام کی سادگی اور آسانی کو سمجھے تو اسے قرآن میں غور کرنا چاہیے اس لیئے کہ یہ وہ کتاب ہے جس میں ایسے مفاہیم پائے جاتے ہیں جو دین اسلام کی عظمت کے ساتھ اس کتاب کے لانے والے پیغمبر (ص) کی پاک اور مقدس روح کے ترجمان ہیں
درآمدی بر قرآن ،رژی بلاشر ، ترجمہ اسداللہ مبشری ، ص ١١۔
٭ویلز : {Wells} ہماری دنیا کو جتنا قرآن نے متاثر کیا ہے آج تک کوئی کتاب اتنا متاثر نہ کر سکی
تمدن و علوم اسلام ١٠
٭ڈاکٹر مارڈیل{DR:Mardril} ، فرانس کے اسکالر :
قرآن کا طرز بیان آسمانی و ملکوتی ہے جو ہرگز فکر بشر کی تخلیق نہیں ہے جو کچھ قرآن میں ہے وہ کسی کتاب میں نہیں مل سکتا
بیان حقیقت ، ص ٣٣
٭ڈاکٹر گرینہ {dr:Grineh} :
میڈیکل اور فزکس سے متعلقہ میں نے تمام قر آنی آیات کو پڑھا ان پر ریسرچ کی بچپن سے میں ایسی آیات کو پڑھتا اور ان پر تحقیق کرتا انجام کار جب میں نے اپنی تمام تحقیقات کو قرآنی معارف سے ہماہنگ پایا تو میں مسلمان ہو گیا ۔
اسلام چیست ١٨
٭شیر فلس Sherflas مجھے امید ہے کہ میں دنیا کے تمام دانا اور باشعور لوگوں کو یکجا کر کے قرآن تعلیمات کی روشنی میں ایک لاثانی نظام قائم کروں گا کیونکہ یہی تعلیمات انسانوں کو مسرتوں سے روشناس کر سکتی ہیں ۔ (٥)
٭ڈاکڑ رابندر ناتھ ٹیگور ۔ Dr: Rabandhanath tagorوہ وقت دور نہیں جب قرآن کریم اپنی مسلمہ صداقتوں اور اپنے روحانی کرشموں کے سے سب کو اپنے اندر جذب کر لے گا ، وہ زمانہ بھی دور نہین جب اسلام ہندو مذہب پر غالب آ جائیگا اور ہندوستان م یں ایک ہی مذہب ہوگا ۔(٦)
٭مسز سروجنی نائیڈو Miss srogeninaiedo لندن میں تقریر کے دوران کہتی ہیں '' قرآن شریف غیر مسلمانوں سے بے تعصبی اور رواداری سکھاتا ہے اسکے اصولوں کی پیروی سے دنیا خوشحال ہو سکتی ہے ، دنیا کا آئندہ مذہب اسلام ہوگا ۔(٧)
قرآن کے سلسلہ میں دیگر مذاہب سے متعلقہ مفکرین اور مستشرقین کے نظریات اس قدر ہیں کہ انکے جائزہ کے لئے کئی مستقل کتابیں درکار ہیںاور اس سلسلہ میں پیشتر بھی کافی کام ہوا ہے اسکے باوجود بھی یہ میدان اب بھی تشنہ تحقیق ہے اگرچہ علمی اور تحقیقی میدان میں اس کام کی اپنی جگہ ایک اہمیت ہے لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ صرف قرآن کے سلسلہ میں دیگر مذاہب سے متعلقہ دانشوروں کے نظریات کو پیش کرنے سے نہ تو مسلمانوں کی کوئی فضیلت آشکار ہوتی ہے اور نہ ہی اپنی کتاب کے سلسلہ میں خود کی لن ترانیوں سے انکے شرف میں کوئی اضافہ ہوتا ہے جو کچھ بھی فضیلت ہے وہ خود قرآن کی ہے جو شرف ہے وہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا شرف ہے ۔
مسلمانوں کی فضیلت تو اس وقت ہوتی جب وہ اسی کتاب کے مطابق اپنی زندگی بسر کرتے اسی کی روشنی میں اپنی زندگی کے مسائل کا حل ڈھونڈتے اسی کے احکامات پر عمل کر کے اقالیم سبعہ کو تسخیر کرتے اسی سے سبق لیکر دوسری قوموں کے لئے باعث رشک قرار پاتے..
. ہونا تو یہی چاہئے تھا کہ زندگی کے ہر شعبہ میں قرآن پر ایمان رکھنے والے تہذیب و ہنر، فرہنگ و ثقافت ،سیاست وتدبیر و نظم و نسق کے طلایہ دار ہوتے معیشت کا میدان ہو کہ فرہنگ و ہنر کا سیاست کا موضوع ہو کہ عمرانیات و اجتماع کے مسائل حقوق کی بات ہو یا طرز حیات کی گفتگو چاند و مریخ پر کمندیں ڈالنے کا مسئلہ ہوتا یا کائنات کو تسخیر کرنے کا ہر ایک مرحلہ میں قرآنی فکر کی چھاپ نظر آنی چاہیے تھی کوئی بھی شعبہ زندگی قرآن سے خالی نظر ہیں آنا چاہیے تھا زندگی کی ہر ایک سانس میں قرآنی خوشبو نظر آنا چاہیے تھی لیکن افسوس کہ ایسا کچھ نہیں ہے اقتصاد ، سیاست اجتماع فرہنگ و ہنر تو دور خود مسلمانوں کی اپنی عملی اور انفرادی زندگی میں قرآن نظر نہیں آتا بلکہ مسلمان تو اس قدر ابتری کا شکار ہے کہ قرآن اسکے پاس ہے لیکن وہ قرآن ہونے کے باوجود دوسری قوموں کو ترقی کی راہوں پر گامزن دیکھتے ہوئے مات و مبہوت ان کی دن دونی رات چوگنی چشم گیر ترقی کو دیکھ کر عش عش کر رہا ہے اور خود اپنی جگہ ساکت و دم بخود ہے مانو کسی نے اسکو یوں پابند سلاسل بنا دیا ہو کہ اس میں آگے بڑھنے کی توانائی ہی ختم ہو گئی ہو کسی نے اسکے گلے میں ایسا طوق گراں ڈال دیا ہو کہ وہ سر کو جنبش بھی اگر دینا چاہے تو نہیں دے سکتا تاریکیوں کے پاتال میں اسے یوں قید کر دیا گیا ہو کہ وہ کبھی روشنی و سحر کا منھ نہیں دیکھ سکتا ۔
یہی وجہ ہے کہ آج کولہو کے بیل کی طرح عام مسلمان قرآن کے گرد چکر لگا رہا ہے لیکن سے کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوتا اور صوت و لحن کی رنگینیوں نے بچی کچی بصیرت بھی چھین لی ہے ۔قرآن کے عالی مفاہیم و معانی سے تہی دست صوت و لحن کے گوناگوں اسالیب اور اصول قرات کے یاد کر لینے سے اگر کوئی مشکل حل ہونے والی ہوتی تو عرب ریاستوں کی تقدیریں جانے کب کی بدل چکی ہوتیں اور وہ امریکہ کے چشم و ابرو کے منتظر نہ رہتے ۔
افسوس کا مقام تو یہی ہے کہ نہ صرف یہ کہ آج کا مسلمان یہ جاننے کی واقعی کوشش نہیں کرتا کہ اسکی پسماندگی ِ، جوامع بشری اور اقوام عالم میں حقارت کے کیا اسباب ہیں؟ بلکہ ان سب کو طاق نسیاں پر رکھ کر کر اس بات کا درپے ہے کہ کس طرح اپنے مغربی آقائوں کی ادائوں کو اپنائے تا کہ اسے بھی مہذب کہا جا سکے لہذا آج بڑی ڈھٹائی کے ساتھ کچھ نافہم مسلمان یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ اگر ترقی کرنی ہے تو مغرب کی پیروی کرنی ہی ہوگی ۔
اگر آگے بڑھنا ہے تو مغربی کلچر کو اپنانا ہی ہوگا جب کے انہیں نہیں معلوم وہ فرہنگی قبا اسے کیا دے گی جس نے قبائے حیا و عفت کو تار تار کر رکھا ہے وہ فرہنگ و ثقافت اسے کیا دے گی جو خود اپنی قبر کھودے منوں مٹی کے اندر دفن ہوا چاہتی ہے مسلمان مغربی تہذیب و ثقافت کی تقلید میں اندھا ہوا جا رہا ہے اس سے بے خبر کہ
زندہ کر سکتی ہے ایران و عرب کو کیونکر
یہ فرنگی مدنیت کہ جو ہے خود لب گور
اسی لئے جو مغربی تہذیب کی تہہ تک پہونچ گیا ہے وہ جانتا ہے کہ اسکی ظاہری چمک دھمک محض فریب نظر ہے حقیقت میں ا نسانیت کے لئے یہ تہذیب کسی ناسور سے کم نہیں ہے اسکی نوائے دلبری میں نغمہ موت نہاں ہے اسکی آوازوں کے زیر و بم نوع بشر کی بربادی کا استعارہ ہیں اور حقیقت میں یہ تہذیب مقتل انسانیت ہے
الحذر این نغمہ موت است و بس ۔
نیستی در کسوت صوت است و بس ،
حقیقت تو یہ ہے مغرب کی ظاہری چمک دھمک کسی زہریلے سانپ کے رنگ برنگے کیچلوں سے کم نہیں جن کو دیکھ کر کبھی عقل مند انسان دھوکہ نہیں کھاتا اور خود کو اسکی گزند سے محفوظ رکھنے کے لئے کبھی اس سے قریب نہیں ہوتا ، چنانچہ اس تہذیب کو خود وہاں کے باشندے قاتل تہذیب کا نام دیتے نظر آتے ہیں فرانزفتن '' کے بقول'' ہمیں مکروہ نقالی میں وقت ضائع نہیںکرنا چاہیے ، یورپ کو اپنے حال پر چھوڑ دو کہ وہاں کے لوگ انسان کے موضوع پر بات کرنے نکلتے ہیں لیکن انسان جہاں نظر آتا ہے اسے قتل کر دیتے ہیں'' (٨) ۔
چوڑی شاہراہوں فلک بوس عمارتوں اور جگمگاتے شہروں کی تعمیر میں کتنے انسانوں کا قتل ہوتا ہے کون جانتا ہے ؟ کیا تہذیب کی علامت یہی ظاہری ترقی ہیں جہاں کہیں تو روشنیوں میں ڈوبے شہروں میں رقص و سرور کی محفلیں گرم ہوں اور کہیں اپنے وجود کی تاریکیوں میں ڈوبی ہوئی روحیں تڑپ تڑپ کر انساننی اقدار کا ماتم کر رہی ہوں ؟ کیا محض مادہ کی ترقی کو کمال کہا جا سکتا ہے کیا سنگ و خشت کے بل پر ہونے والی کرشماتی ہنر نمائیوں کو عروج انسانیت سے عبارت قرار دیا جا سکتا ہے
یقینا بغیر جودت و جولانی فکر جو چیز سامنے آئے گی اسکا نتیجہ و خس و خاشاک و سنگ و خشت کی صورت ہی ہو سکتا ہے جہان آرزو میں رنگ و بوکی صورت سامنے نہیں ہو سکتا ہے ۔
جہان تازہ کی افکار تازہ سے ہے نمو
کہ سنگ و خشت سے ہوتے نہیں جہاں پیدا ۔
جہاں فکر کی ساری پرواز مادہ سے شروع ہو کر مادہ پر ختم ہو جاتی ہو جہاں تن آسانی بدن پروری ہی مقصد حیات ہو وہاں ہر چیز گھوم پھر کر اپنی پہلی منزل پر نظر آئیگی یہ وہ مقام ہے جہاں باہری دنیا کے انکشافات تو ہو سکتے ہیں لیکن اپنے وجود کی کائنات میں اندھیرا ہی رہتا ہے چاند اور سورج پر کمندیں ڈالنے کے باوجود انسان اپنے وجود کی تاریکیوں کو ختم نہیں کر سکتا انسان کی اس سے زیادہ بے بسی اور کیا ہوگی ؟
ڈھونڈنے والا ستاروں کی گزر گاہوں کا
اپنے افکار کی دنیا میں سفر کر نہ سکا ۔
جس نے سورج کی شعاعوں کو گرفتار کیا
زندگی کی شب تاریک سحر کر نہ سکا ۔
اپنی تمنائوں اور آرزئوں کے خود ساختہ کنج قفس میں قید موت سے ہم کنار زندگی حیات آفریں روشنی سے عاری ہی رہتی ہے اور انجام کار زندگی کی شب تار میں انسانیت ایڑیاں رگڑ رگڑ کر دم توڑ دیتی ہے
جبکہ اسلام زندگی کی تاریکیوں میں جا بجا ان چمکتے ستاروں سے آشنا کرتا ہے جو نوید سحر دیتے ہوئے انسانیت کو جد جہد اور لگن کے ساتھ آگے بڑھنے کا حوصلہ دیتے نظر آتے ہیں
اسلام انسان کو قرآنی تعلیمات کی روشنی میں اس سرچشمہ حیات تک لے کر جاتا ہے جہاں انسانیت دوام و بقا سے ہمکنارہوتی ہے جہاں انسانی قدروں کو جلا ملتی ہے۔
بقول چانڈل '' اسلام ایک ایسا عقیدہ ہے جس نے مذہب کو آخرت کے ہاتھوں سے چھین کر دنیا کو اسی طرح لوٹایا ہے جیسے سقراط نے فلسفہ کو آسمانوں سے زمین پر اتارا تھا ، مسلمان نہ صرف سماجی ذمہ داری کا تصور رکھتے ہیں بلکہ شر کے خلاف نبرد آزما ہونے اور انسانیت ، آزادی، انصاف اور خیرکی فتح کی کوشش کے آفاقی مقصد کا بوجھ اٹھاتے ہیں مزید بر آں مسلم معاشرے تمدن، قوت، دانشورانہ سائنسی اور فنی تخلیقیت، احترام ، فتح اور آزادی سے مالا مال ہیں ، انکی تہذیب روحانی ، تصوراتی ، زندگی بخش ، حرکت خیز مثبت اور منور کرنے والے وسائل سے بھی معمور ہے اور خود مختار جیتے جاگتے وسائل سے بھی ، یہ ایک ایسا سمندر ہے جو جذباتی ذہانت کی طوفانی لہروں سے بھرا ہوا ہے کہ جو روح کی پاکیزگی اخلاق اور انسانی طرز ہائے احساس میں اضافہ کرتا ہے(٩)
کاش کوئی مسلمانوں کو سمجھاتا کہ آج انکی پسماندگی کا علاج نہ مغرب کے پاس ہے نہ مشرق کے، بلکہ خود انکے اپنے پاس ہے اس لئے کہ مغرب ظاہری لذتوں سے انسان کو آشنا کرا کر اسے اس خواجگی کی چرنوں میں پھول چھڑھانے کی منزل تک لے جاتا ہے جہاں آزادی کو غلامی کی بھینٹ چڑھایا جاتا ہے جبکہ قرآن نہ صرف یہ کہ انسان کو مشرب حریت سے آشنا کرتا ہے بلکہ ایسا مذاق فکر پیدا کر دیتا ہے جہاں انسان اپنے ضمیر کی آوازوں کو درھم و دینار کی جھنکار میں کبھی نہیں دبنے دیتا ۔
وہ سرمایہ دار طبقہ ہے جواسی خواجگی کی آڑ میں مختلف حیلوں بہانوں اور اپنی مکاریوں سے مزدوروں کے لہو کا قطرہ قطرہ اپنے کاسہ اقتدار کی ملکیت سمجھتا ہے جبکہ قرآنی تعلیمات ان بتوں کو توڑتی نظر آتی ہیں جنہیں خواجگی نے اسی لئے بنایا کہ انسانیت کومختلف طبقوں میں بانٹ کر ان پر اپنا تسلط قائم کیا جائے
نسل ، قومیت، کلیسا، سلطنت ، تہذیب ، رنگ
خواجگی نے خوب چن چن کر بنائے مسکرات
مکر کی چالوں سے بازی لے گیا سرمایہ دار
انتہائے سادگی سے کھا گیا مزدور مات ۔
جہاں خواجگی مختلف بت بنا کر پیش کرتی ہے کہ انسانیت کبھی نہ پنپے وہیں انسانیت کی بقا کے لئے قرآن نے سب سے زیادہ جنگ اسی خواجگی سے کی ہے جو انسانیت کی قدروںکی پامالی کا باعث ہے اور اسی لئے شاعر مشرق علامہ اقبال نے قرآن کو خواجگی کے لئے پیغام مرگ سے تعبیر کیا ہے
چیست قرآن خواجہ را پیغام مرگ
دستگیر بندہ ای بے سازد و برگ
ھیچ خیر از مردک زرکش مجو
با مسلماں گفت جاں بر کف بنہ
ھر چہ از حاجت فزوں داری بدہ
قرآن کیا ہے آقا کے لئے پیغام مرگ ہے یہ بے سرو ساماں مسلمانوں کا سہارا ہے زر کش انسان سے کسی خیر کا جویا نہ ہو ،مسلمان سے اس نے کہا جان ہتھیلی پر رکھ اور جو کچھ زائد ہے اسے بانٹ دے ۔(١٠)
مسلمانوں کی قرآن کی طرف بازگشت ہی انہیں انکے درخشان دور کو واپس دے سکتی ہے اس لئے کہ قرآن کو چھوڑ کر تو مسلمان مسلمان بھی نہیں ہیںبلکہ رسم و رواج کی زنجیروں میں جکرے ہوئے ایسے بہروپیے ہیں جو خود کو مسلمان کہہ کر اسلام و مسلمانوں کا استحصال کرتے ہیں وہ زندگی ہی کیا ہے جو قرآن کے بغیر ہو وہ مسلمان کیا مسلمان کہے جانے کے لائق ہے جس کی زندگی میں سب کچھ ہو لیکن قرآن نہ ہو ، کیا قرآن کے بغیر جینے کو بھی جینا کہا جا سکتا ہے ؟ بقول علامہ اقبال
گر تو می خواہی مسلمان زیستن
نیست ممکن جز بہ قرآن زیستن
یہ قرآن کی سحر انگیزی ہے کہ جہاں بھی اسکے نقوش نظر آئیں گے وہاں ایک انقلاب نظر آئے گا فردی زندگی میں انقلاب ،اجتماعی زندگی میں انقلاب ، اقتصادو معیشت میں انقلاب فرہنگ و ہنر میں انقلاب اس لئے کہ یہ وہ کتاب ہے جو اکسیر زندگی ہے یہ کتاب حرکت و آگے بڑھنے کا درس دیتی ہے انحطاط و جمود کا نہیں جس روح میں اسکی تعلیمات اتر جائیں اسکی ماہیت بدل جاتی ہے بقول علامہ اقبال
نقش قرآن تا در این عالم نشست
نقشہائے کہن پاپا راشکست
فاش کوئم آنچہ در دل مضمر است
این کتابی نیست چیز دیگر است
چوں بہ جاں در رفت جاں دیگر شود
جاں چوں دیگر شد جہان دیگر شود
انسان کا ضمیر آزاد ہو تو وہ خود سمجھ سکتا ہے کہ قرآن انسانیت کو کہاں لے کر جانا چاہتا ہے اور مغربی تہذیب انسانی قدروں کو کہاں پہونچانا چاہتی ہے
فیشن ہو ، یا زمانے کے تقاضے اور انکے ہتھکنڈے انسان اگر خود پر قابو نہ رکھ سکے تو کہاں جائے گا اسکی ضمانت کون لے سکتا ہے ؟ اب مسلمان خود فیصلہ کرے کہ کیا اسکی تقدیراس مغرب کی مٹھی میں بند ہے جو انسان کو خود سے بیگانہ کرنے کے در پے ہے یا اس قرآن میں جو انسان کو خود اسکے وجود سے آشنا کرنا چاہتا ہے تاکہ وہ خود محوری سے نکل کر اس منزل پر پہونچے کے اپنی ضرورت پر دوسروں کی ضرورت پر مقدم رکھے تاکہ انسانیت کے بہتر مستقبل کی تعمیر ہو سکے اب یہ تو مسلمانوں کی کم مائگی ہے کہ قرآن جیسی کتاب انکے پاس ہے لیکن وہ دوسروں کا دست نگر بنے ہوئے ہیں ۔
یہ تو خود انکی اپنی بد بختی ہے کہ ایسا شفا بخش نسخہ جو انکی تقدیر بدل سکتا تھا ایک بے سود تحریر کی شکل میں انکے گلوں میں لٹک رہا ہے اور وہ غیروں کی چوکھٹ پر سر جھکائے انکی چشم و ابرو کے اشاروں کے منتظر ہیں کہ وہاں سے فرمان آئے تو انکی کچھ تقدیر بنے !جبکہ انہیں یہ نہیں معلوم جن چوکٹھوں پر یہ جبین نیاز جھکائے کھڑے ہیں خود انہوں نے جو کچھ حاصل کیا ہے قرآن سے حاصل کیا ہے ایک معروف اسکالرکے بقول :''بحر اطلس سے دریائے گنگا تک قرآن صرف فقہی قوانین تک محدود نہیں بلکہ یہ ایک ایسا قانون اساسی اور آئین زندگی ہے جسمیں قضاوت ، شہر داری ، تجارت، مالی اور رفاہی امور سبھی شامل ہیں ۔
زندگی سے متعلقہ ہر شعبہ کا تذکرہ قرآن میں ہے .....یہ ایک ایسا عمومی دستور ہے جسمیں تمام دینی ، اجتماعی ،بلدیاتی،تجارتی،عدالتی،دستورات شامل ہیں(١ا)
نہ صرف یہ کہ قرآن کے اندر زندگی کے ہر شعبہ کے لئے ایک خاطر خواہ حل موجود ہے بلکہ بقول اڈوارمونٹ } Edvarmontet {''سیکڑوں اور ہزاروں لوگوں کی زندگی قرآن سے وابستہ ہے '' (٢ا)شاید اس قول کو بعض لوگ قرآن کے بارے میں ایک مغربی دانشور اور مستشرق کی جزباتی مدح سرائی سے تعبیر کریں لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ اگر زندگی کو حقیقت کے پیرایہ میں دیکھا جائے تو وہ قرآن سے وابستہ ہی نظر آئے گی اسلئے کہ ظلمتوں کے اس دور میں قرآن ہی وہ چراغ ہدایت ہے جسکی روشنی میں زندگی کے واقعی مقصد تک پہونچا جا سکتا ہے اور اسکے دستورات پر عمل کر کے اپنی زندگی کو شیریں بنایا جا سکتا ہے اسلئے کہ اس تاریک دور میں اگر کوئی چیز خوب و بد کو واضح کر رہی ہے تو وہ قرآن ہے ۔امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں ''و ان القرآن ظاہرہ انیق وباطنہ عمیق لاتفنی عجائبہ ولاتنقضی غرائبہ ولا تکشف الظلمات الا بہ''قرآن کا ظاہر خوبصورت و حسین اور باطن عمیق ہے اسکے عجائب فنا نا پذیر اور غرائب(ہمیشہ نکھرتا ہوا نئے پن کے ساتھ) اختتام نا پذیر ہیں ظلمتوں میں اجالا ہو ہی نہیں سکتا سوائے قرآن کے (٣ا) اب ظاہر ہے قرآن نور ضرور ہے، چراغ ہدایت ضرور ہے، اچھائی اور برائی کی راہوں کو واضح کرنے والی کتاب ضرور ہے لیکن اگر کوئی اس سے ہدایت حاصل ہی نہ کرناچاہے اور ظلمتوں کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لے تو اسکے لئے کون کیا کر سکتا ہے ؟
سوچیں اور غور کریں!کیا قرآن اسی لئے نازل ہوا تھاکہ ہم اسپر پھول پتیوں کے بوٹوں سے بنے جزدان چڑھا کر اسے طاق پر سجا دیں تاکہ جو بھی آئے ہمارے سلیقہ کی داد دیئے بنا نہ رہ سکے؟
کیا قرآن اسی لئے آیا تھا کہ ہم اس سے جن اور بھوت، پریت بھگانے کا کام لیں ؟
کیا قرآن اسی لئے نازل ہوا تھا کہ ہم اسکی آیات اسلئے گھول گھول کر پیتے رہیں کہ ہم پر کوئی بلا نازل نہ ہو ؟
کیاقرآن اسی لئے نازل ہوا تھا کہ ہم ہر وقت اسکا تعویذ اسلئے گلے میں لٹکا کر ٹہلیں کہ کسی کی نظر بد نہ لگ جائے ؟...
کیا قرآن اسی لئے نازل ہوا تھا کہ جب ہم گھر سے نکلیںتو کسی ناخشگوار حادثہ سے بچنے کے لئے گھر سے نکلتے وقت اسکے نیچے سے ہو کر نکلیں تا کہ ہر گزند سے محفوظ رہیں ؟...
کیا قرآن اسی لئے نازل ہوا تھا کہ اگر کوئی مر جائے تو اسکے کفن کو مختلف قرآنی آیات سے مزین کر دیا جائے اوربس...!!!؟
کیا قرآن اسی لئے نازل ہوا تھا کہ کسی کے دار فانی سے انتقال کی صورت میں اسکو پڑھ کر اسکا ثواب مرنے والے کو ہدیہ کر دیا جائے ...
؟کیا قرآن اسی لئے نازل ہوا تھا کہ ہم اگر اسکی تلاوت کریں تو یہ سوچ کر کریں کہ ہمیں ثواب ملے گا اور اسکا ورد کریں تو یہ سوچ کر کہ آخرت کے لئے کچھ توشہ راہ جمع کر لیاجائے ....؟
اگر قرآن انہیں چیزوں کے لئے نازل ہوا تھا تو بالکل ٹھیک ہے جو توقع ہم قرآن سے رکھتے ہیں قرآن اسے پورا کر رہا ہے جو چیز ہم قرآن سے مانگ رہے ہیں وہ ہمیں مل رہی ہے لیکن اگر قرآن ان سب باتوں کے لئے نہیں تھا بلکہ اسلئے نازل ہوا تھا کہ ہمیں زندگی گزارنے کا سلیقہ سکھائے ،ہم پر راہ ہدایت کو واضح کرے ہماری زندگی میں انقلاب لے کر آئے تو پھر ہمیں اسکا جواب دینا ہوگا کہ ہماری عملی زندگی میں قرآن کا کتنا دخل ہے ؟
ہماری اجتماعی زندگی میں قرآن کس جگہ ہے؟
ہر ایک خود سے یہ سوال کر سکتا ہے کہ اگر قرآن کا تعلق مسلمانوں کی عملی زندگی سے ہے تو پھر انکی عملی زندگی میں قرآن نظر کیوں نہیں آتا؟
!قرآن کہاں ہے مسلمان کون ہیں ؟ !
کیا مسلمانوں اور قرآن میں کوئی ربط ہے ..یا نہیں !سب ڈھکوسلہ ہے، فریب ہے، دھوکہ ہے.؟، نہ کوئی قرآن کو مانتا ہے نہ اس پر کسی کا ایمان ہے... ۔
حیف کا مقام ہے کہ ایک طرف تو ہم شارٹ کٹ سے جنت کی وادیوں کی سیر کرنا چاہتے ہیں اور دوسری طرف قرآن سے یہ بھی امید کرتے ہیں کہ اسکی چند آیات کا ورد کرنے سے ہی ہماری زندگی میں انقلاب آجائے اس میں کوئی شک نہیں کہ قرآنی آیات کے ورد سے بھی بڑی بڑی مشکلیں آسان ہوئی ہیں اور ہمارے پاس ایسی مثالیں بہت ہیں جہاں قرآن نے اپنا اعجاز دکھا یا ہے یقینا قرآن کے الفاظ کا ورد بھی فوائد و مثبت آثار سے خالی نہیں، اس سے بھی بہت کچھ ملتا ہے لیکن اسکے لئے طینت کی پاکیزگی شرط ہے، طبیعت کی شفافیت شرط ہے قرآن کی ایک آیت کے ورد سے نہ حل ہونے والی مشکلات کو حل کرنے کے لئے ریاضت کی ضرورت ہے جدو جہد کی ضرورت ہے سعی و تلاش کی ضرورت ہے قرآن کے معنی میں غور خوض کی ضرورت ہے اسکے مفاہیم میں تامل کی ضرورت ہے اپنا باطن ویسا بنانے کی ضرورت ہے جیسا قرآن چاہتا ہے و گرنہ ہمارا بھی حال یہی ہوگا کہ ...
جو میں سر بسجدہ ہوا کبھی تو زمیںسے صدا یہ آنے لگی
تر ا دل تو ہے صنم آشنا، تجھے کیا ملے گا نماز میں ؟
لہذا جہاں ضرورت ہے دلوں میں گداز پیدا ہو قلوب میں تڑپ ہو وہیں یہ بھی ضروری ہے کہ یہ دیکھا جائے کہ ہم نے قرآن سے کس قدر درس حاصل کیا ہے ؟ہماری عملی زندگی میں قرآن کا کردار کیا رہا ہے لہذا اپنی روز مرہ کی زندگی کو قرآنی سانچہ میں ڈھالنے کی ضرورت ہے قرآن کو کتاب زندگی بنانے کی ضرورت ہے اسکی تعلمیات کو روح کی گہرائیوں میں اتار نے کی ضرورت ہے ۔ قرآنی تعلیمات کے لا متنا ہی سمندر میں غواصی کی ضروت ہے اس لئے کہ اسکے بغیر وہ کردار سامنے نہیںآ سکتے جو دنیا کے لئے نمونہ عمل بن سکیں ،کردار میں وہ جدت پیدا نہیں ہو سکتی جو زمانہ کے لئے مشعل راہ بن سکے
قرآن میں ہو غوطہ زن ائے مرد مسلماں
اللہ کرے تجھکو عطا جدت کردار ۔
رب کریم ہمیں قرآن کی زیادہ سے زیادہ خدمت کرنے کی توفیق عنایت فرمائے
اور محشر میں قرآن کو ہمارا شفیع قرار دے (آمین)
حواشی ۔
(١) قرآن اور مستشرقین ص ١٧٠
(٢) قرآن اور مستشرقین ، ص ١٥٩
(٣) قرآن و مستشرقین ص ١٦٠
(٤)ایضا ص ١٦٥،
(٥) بونا پارٹ اور اسلام ، ص ١٠٥
(٦)ایضا ،ص ،١٧٦
(٧)اقرآن اور مستشرقین ، ١٧٦
(٨)افتادگان خاک ، از فرانزفتن ، ترجمہ ، سجاد باقر رضوی ، مطبوعات ، لاہور
(٩) ۔ اقبال ایک ثقافتی تناظر ، ص١١، نقل از تہذیب ، جدیت، اور ہم ( مضامین ) ڈاکٹر علی شریعتی ۔
(١٠)اقبال ایک ثقافتی تناظر ، ڈاکٹر سعادت ،سعید ، ص ٢٦۔
(١ا) ایضا ،ص ١٧
(٢ا) ایضا ص ١٨
(٣ا)نھج البلاغہ خطبہ ١٨
.......................
source : http://alhaider.net