اردو
Thursday 18th of July 2024
0
نفر 0

اهل بیت علیہم السلام آسمانی فرش نشین

اهل  بیت علیہم السلام کی معرفت اور پہچان کی ضرورت اور ان حضرات کی پیروی (جیسا کہ پیغمبر اکرم   نے آیہٴ مودت() کی بنیاد پر اپنی آخری عمر تک امت کو ان حضرات کی معرفت اور شناخت اور ان کے احکام کی پیروی کی تاکید فرماتے رہے ہیں) اور قرآن مجید اور صحیح اور متین روایات میں ان حضرات کی عظمت و مقام کی معرفت کی ایک ایسی حقیقت ہے کہ اگر انسان اس پر توجہ کرے تو دنیا و آخرت کی سعادت حاصل ہونے کا سبب بن جائے اور اگر اس سے غفلت کی جائے تو ابدی شقاوت و بدبختی اور ہلاکت کی سبب ہے اور انسان کے تمام اعمال اور زحمتیں رایگاں ہوجاتی ہیں۔

()سورہٴ شوری، آیت ۲۳،  <ذَلِکَ الَّذِی یُبَشِّرُ اللهُ عِبَادَہُ الَّذِینَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ قُلْ لاَاٴَسْاٴَلُکُمْ عَلَیْہِ اٴَجْرًا إِلاَّ الْمَوَدَّةَ فِی الْقُرْبَی وَمَنْ یَقْتَرِفْ حَسَنَةً نَزِدْ لَہُ فِیہَا حُسْنًا إِنَّ اللهَ غَفُورٌ شَکُورٌ >

حضرت امام صادق علیہ السلام ”معلیٰ بن خُنیس“ سے فرماتے ہیں:

”یا معلی! لو ان عبد الله مائة عام بین الرکن والمقام یصوم النھار ویقوم اللیل حتی یسقط حاجباہ علی عینیہ، وتلقی تراقیہ ھرماً، جاھلاً لحقّنا، لم یکن لہ ثواب“.([1])

”اے معلی! اگر کوئی انسان رکن و مقام (خانہ کعبہ) میں خدا کی سو سال تک عبادت کرے، دن میں روزے رکھے اور رات پر نماز تہجد پڑھتا رہے، یہاں تک پڑھاپے کی شدت کی وجہ سے اس کی بھنویں..اس کی آنکھوں پر آجائیں اور اس کی گردن کی ہڈی اس کے سینے تک پہنچ جائے، لیکن وہ ہمارے حق سے جاهل  ہو اور ہماری عظمت کو نہ پہچانتا ہو، تو ایسے شخص کو کوئی ثواب نہیں ملے گا“۔

اهل  بیت علیہم السلام کی معرفت اور شناخت (البتہ ایسی شناخت جو قرآنی آیات اور معتبر روایات کے مطابق ہو) کے بعد اهل  بیت علیہم السلام سے دور رکھنے والے باطل پردے درمیان سے اٹھ جاتے ہیں، اور ان کے وجودی آثار و برکات اور ان حضرات کی راہ و روش اور ان کی ثقافت انسانی زندگی پر بہترین نقش پیدا کرلیتے ہیں۔

یہ صحیح اورحقیقی شناخت ہی ہے جو ان حضرات کی عظمت سبھی کو عالم وجود اور انسانی زندگی کی ہر پہلو میں ان حضرات کی اطاعت اور پیروی کی طرف راہنمائی کرتی ہے۔

جب ہم کو حقیقی طور پر یہ معلوم ہوجائے کہ قرآن مجید ، روایات اور اسلامی بلند تعلیمات میں جو بیان ہونے والے عناوین کا سب سے کامل و مکمل مصداق اهل  بیت علیہم السلام ہی ہیں، جیسے اهل  الذکر، صادقین، محسنین، متقین،مجاہدین، مومنین، صابرین، اولو الالباب، صراط، سبیل، ثار اللہ، وجہ اللہ، عین اللہ، جنب اللہ، اذن اللہ، لسان اللہ اور ولی اللہ،چنانچہ ان سے رابطہ اور ان کی سعادت بخش تعلیمات سے فیضیاب ہونے کا ایسا راستہ ہمارے لئے کھل جاتا ہے کہ ان حضرات کے علاوہ کسی غیر کو چراغ زندگی، کشتیٴ نجات اور حقیقی رہبر نہیں مانتے، اور دنیا و آخرت کی مشکلات، وسوسوں کے ہجوم اور گمراہیوں سے نجات نیز دینی شک و شبہات میں ان کے علاوہ کسی غیر کی طرف رجوع نہیں کرتے کیونکہ یہی حضرات ”راسخون فی العلم“ ()ہیں، اپنی عقل اور دل و جان کو ان کی تعلیمات کی شراب طہور سے سیراب ہوتے ہیں، کیونکہ انہی حضرات کی پیروی کا حکم ہوا ہے:

()سورہٴ آل عمران، آیت ۷.

< قُلْ إِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللهَ فَاتَّبِعُونِی یُحْبِبْکُمْ اللهُ...>()

()سورہٴ آل عمران، آیت ۳۱.

لہٰذا مذکورہ آیہٴ شریفہ کے پیش نظر ہم اپنے پورے وجود سے ان کی پیروی کرتے ہیں تاکہ خداوندعالم کے محبوب قرار پائیں اور اهل  بیت علیہم السلام کی خشنودی کے ذریعہ خداوندعالم ہم سے راضی و خوشنود ہوجائے۔

اهل  بیت علیہم السلام کی معرفت اور شناخت خدا، قرآن اور کائنات کی شناخت ہے اور دل سے حقائق سے پردہ اٹھنے اور دل کے نورانی ہونے کا سبب ہے، تزکیہ نفس کی باعث اور ظاہری و باطنی طور پر تربیت کا سبب اور اخلاق حسنہ سے آراستہ ہونے کی باعث ہے، بے شک یہی اهل  بیت علیہم السلام کی معرفت اور شناخت نار جہنم سے آزادی دلاتی ہے اور ان حضرات سے حقیقی محبت انسان پُل صراط سے گزرنے کا سرٹیفکٹ دیتی ہے اور ان حضرات کی ولایت اور امامت کو قبول کرنا عذاب (جہنم) سے جھٹکارا ہے۔

پیغمبر اکرم  (ص) ایک اہم روایت میں (جس کو شیخ سلمان قُندوزی حنفی نے معتبر سند کے ساتھ ذکر کیا ہے) فرماتے ہیں:

”معرفة آل محمد براء ة من النار، وحبّ آل محمد جواز علی الصراط، و الولایة لا ٓل محمد اٴمان مِن العذاب“.()

()ینابیع المودة، ج ۱، ص ۷۸، باب ۳، حدیث ۱۶؛ فرائد السمطین: ج ۲، ص ۲۵۶، باب ۴۹، حدیث ۵۲۵.

”آل محمد  کی معرفت اور شناخت جہنم سے نجات کا باعث، آل محمد سے محبت اور دوستی پُل صراط سے گزرنے کا سرٹیفکٹ اور آل محمد کی ولایت عذاب سے امان ہے“۔

جی ہاں! اگر ہم اهل  بیت علیہم السلام کو قرآن اور صحیح سنت نبوی کی زبانی پہچانیں تو ہم دنیا و آخرت کی سعادت اور کامیابی کا راستہ اپنے لئے کھول رہے ہیں، اور ہمیشگی شقاوت و بدبختی کا راستہ اپنے لئے بند کر رہے ہیں۔

شیخ سلیمان قُندوزی اور ابراہیم بن محمد جوینی جو اهل  سنت کے برجستہ اور منصف مزاج علماء ہیں یہ روایت رسول اکرم  (ص) سے امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام اور آپ کے بعد آنے والے ائمہ علیہم السلام کی معرفت اور شناخت کے بارے میں نقل کرتے ہیں:

یا علی! اٴنا مدینة العلم و اٴنت بابھا، ولن توتیٰ المدینة إلاَّ من قبل الباب، وکذب من زعم انہ یحبُّنی ویبغضک؛ لا نک منی وانا منک؛ لحمک من لحمی، و دمک من دمی، و روحک من روحی، وسریرتک من سریرتی، وعلانیتک من علانیتی، وانت امام امتی وخلیفتی علیھا بعدی. سعد من اطاعک وشقی من عصاک، وربح من تولاک وخسر من عاداک، و فاز من لزمک وھلک من فارقک. مثلک ومثل الائمة من ولدک بعدی مثل سفینة نوح، من رکبھا نجا ومن تخلف عنھا غرق؛ ومثلکم کمثل النجوم، کلمّا غاب نجم طلع الی یوم القیامة“.()

()ینابیع المودة، ج ۱، ص ۹۵، باب ۴، حدیث ۶؛ فرائد السمطین، ج ۲، ص ۴۲۳، حدیث ۵۱۷. جامع الاخبار، ص ۱۴، الفصل الخامس، اس حدیث کی وضاحت الامالی صدوق میں ۴۵ ویں جلسہ کی حدیث نمبر ۱۸،  میں بیان ہوئی ہے لیکن ”مدینة العلم“ کے بجائے مدینة الحکمة ذکر ہوا ہے.

”یا علی! میں شہر علم ہوں اور آپ اس کا دروازہ، اور شہر میں صرف دروازہ سے ہی داخل ہوا جاتا ہے، جو شخص یہ گمان کرتا ہے کہ وہ مجھ سے محبت کرتا ہے لیکن وہ آپ کا دشمن ہو تو اس نے میری دوستی کا جھوٹا دعویٰ کیا ہے، کیونکہ آپ مجھ سے ہیں اور میں آپ سے، تمہارا گوشت میرا گوشت، تمہارا خون میرا خون، تمہاری روح میری روح ، تمہارا باطن میرا باطن ہے اور آپ کا ظاہر میرا ظاہر ہے، اور آپ میری امت میں میرے جانشین اور میرے بعد میرے خلیفہ ہیں، جو آپ کی پیروی کرے وہ کامیاب ہے اور جو آپ کی نافرمانی کرے وہ بدبخت اور خانہ خراب ہے، جو آپ سے محبت کرتا ہے وہ فائدہ میں ہے اور جو آپ کا دشمن ہو وہ گھاٹے میں ہے، اور جو آپ سے وابستہ ہے وہ کامیابی تک پہنچ چکا ہے، اور جو آپ سے جدا اور الگ ہوگیا وہ ہلاکت کے دلدل میں پھنس گیا ہے، آپ کی اور آپ کی نسل سے آنے والے ائمہ کی مثال کشتی نوح کی طرح ہے جو اس میں سوار ہوگیا وہ نجات پاگیا اور جس نے اس سے روگردانی کی وہ غرق ہوگیا، اور تم اهل  بیت کی مثال ستاروں کی طرح ہے کہ روز قیامت تک جب کوئی ستارہ غروب کرتا ہے تو دوسرا ستارہ طلوع کرتا ہے “۔

خداوندعالم نے اپنے بندوں کو ”ریسمان الٰہی“ سے متمسک ہونے کا حکم دیا ہے جس کا لازمہ یہ ہے کہ انسان ”حبل اللہ“ کی معرفت اور شناخت حاصل کرلے، چنانچہ ارشاد ہوتا ہے:

<وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللهِ جَمِیعًا وَلاَتَفَرَّقُو...>()..

()آل عمران، آیت ۱۰۳.

حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے ”حبل اللہ“ کے بارے میں منقول ہے:

”آل محمد صلوات اللهعلیہم، ھم حبل الله المتین الذی اٴمر بالاعتصام بہ فقال: <وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللهِ جَمِیعًا وَلاَتَفَرَّقُو...>()

()تفسیر عیاشی، ج ۱، ص ۱۹۴، حدیث ۱۲۳؛ تفسیر صافی ج ۱، ص ۳۶۵؛ بحار الانوار، ج ۶۵، ص ۲۳۳، باب ۲۴.

”اهل  بیت علیہم السلام خداوندعالم کی مستحکم رسی ہے جن کے بارے میں خداوندعالم نے تمسک کا حکم دیا جیسا کہ خدا نے فرمایا: ترجمہ آیت بال..؟

جی ہاں ! یہ حضرات معرفت اور علم و عمل کا ٹھاٹے مارتا ہوا دریا ہے، اور تمام ہی فضائل و کمالات کے مالک ہیں، ان کی مثال کائنات میں نہیں ملتی، خداوندعالم کے حکم سے مقام امامت لئے مخلوق کے درمیان آگئے ہیں تاکہ ایک گروہ کو نار جہنم سے ڈرائیں اورایک گروہ کو ایمان و عمل کی شرط پر عالم آخرت میں جنت میں پہنچادیں اوربعض کوبہشت مثالی اور بعض کو جنت عقلانی اور ایک گروہ آسمان قداست و معنویت اور شائستہ لوگوں کو مقام یقین تک پہنچائیں۔

خدا اور قیامت کی حقیقی معرفت ، معنوی مفاہیم کا ادراک، قرآن کے حقیقی معنی تک رسائی، سنت نبوی سے آگاہی حاصل کرنا، فضائل اور کمالات کا حاصل کرنا ، دنیا و آخرت کی سعادت اور خوش بختی حاصل کرنا، شقاوت اور بدبختی سے نجات حاصل کرنا، نیکیوں سے آراستہ ہونا، برائیوں سے محفوظ رہنا، حضرت حق (خداوندعالم کے مقام قرب و لقاء پر پہنچنا،جنت میں داخل ہونے کی صلاحیت پیدا کرنا، اور آتش جہنم سے امان حاصل کرنا، شیطان کے بہکانے اور وسوسوں سے مقابلہ کرنا، عبادت کی لذت اور گناہوں سے دوری کے مزے کو چھکنا، حقیقت تقویٰ کو محسوس کرنا، ورع اور پاکدامنی ، پارسائی، صدق و صفا وغیرہ جیسی زینت سے مزین ہونا یہ تمام کی تمام اهل  بیت علیہم السلام کی معرفت اور ان کے احکام کی پیروی کی صورت میں ہی ممکن ہے۔

جی ہاں! اهل  بیت علیہم السلام (جیسا کہ قرآنی آیات اور معتبر روایات و احادیث سے نتیجہ نکلتا ہے) تمام مادی اور معنوی برکتوں کا سرچشمہ ہے، جب تک انسان ان حضرات کی معرفت اور شناخت نیز ان کی پیروی نہ کرے اور ان سے وابستہ نہ ہو تو نہ صرف یہ کہ کسی برکت تک نہیں پہنچ سکتا بلکہ تمام برکتوں سے محروم رہتا ہے۔

شیخ سلیمان قُندُوزی حنفی اور ابراہیم بن محمد جوینی حضرت علی علیہ السلام کے ذریعہ پیغمبر اکرم  (ص)سے نقل کرتے ہیں کہ پیغمبر اکرم  (ص) نے فرمایا:

”یا علی! جو چیزیں آپ لکھائی جار ہی ہے اس کو لکھ لیں، میں نے کہا: یا رسول اللہ(ص)! کیا آپ کو ڈر ہے کہ میں بھول جاؤں گا؟ تو آنحضرت  (ص) نے فرمایا: نہیں، میں نے خداوندعالم سے طلب کیا ہے کہ آپ کو تمام ہی حقائق کا حافظ قرار دے، لیکن اپنے شریکوں کے لئے لکھ لیجئے ، میں نے کہا: یا رسول اللہ(ص)! میرے شریک کون ہیں؟ آنحضرت  (ص) نے فرمایا: آپ کی نسل سے ہونے والے ائمہ،جن کی وجہ سے امت کے لئے بارش ہوتی ہے اور ان کی دعا قبول ہوتی ہے، خدا ان کے ذریعہ سے بلاؤں کو دور کرتا ہے، اور ان کے وجود کی برکت سے آسمان سے رحمت نازل کرتا ہے، اور یہ ان میں سے پہلے ہیں (اور امام حسن علیہ السلام کی طرف اشارہ کیا) اور اس کے بعد فرمایا: یہ ان میں سے دوسرا ہے، اور پھر (امام حسین علیہ السلام کی طرف اشارہ کیا) اور فرمایا :اور حسین ﷼کے بعد دوسرے امام“۔()

()ینابیع المودة، ج ۱، ص ۷۳، باب ۳، حدیث ۸؛ فرائد السمطین، ج ۲، ص ۲۵۹، باب ۵۰، حدیث ۵۲۷.

اهل  بیت کے معنی و مصداق

بعض ایسے علماء جو ظالم و جابر حکومتوں اور بادشاہوں کے زر خرید تھے انھوں نے اپنی علمی اور معاشرتی موقع سے اس ظالم حکومت وقت کی شرعی حیثیت دینے کے لئے غلط فائدہ اٹھائیں، تاکہ اپنی روزی اور شہرت تک حاصل کریں اور شیاطین وقت سے بہت سا مال و دولت حاصل کرلیں، ہمیشہ خاص دشمنی، حسد کی بنا پر ہونے والے تعصب اور قدرت طلب لوگوں کی دل کو خوش کرنے نیز مسلمانوں میں کجی اور انحراف پیدا کرنے کے لئے دینی حقائق اور معنوی الفاظ کو تحریف کیا ہے، اس لئے انھوں بہت سے حقائق کی ایسے معنی کئے ہیں جن کی قرآن مجید اور احادیث سے کوئی دلیل نہیں ہے، بلکہ ان حقائق کے بارے میں قرآن مجید اور روایات میں ایسے معنی اور مصادیق بیان ہوئے ہیں جو ان لوگوں کی گفتار اور تحریر کے مخالف ہے۔

ان حقائق اور الفاظ میں سے لفظ ”اهل  بیت“ بھی ہے جو آیہٴ شریفہ تطہیر میں خداوندعالم کے مخاطب قرار پائے ہیں۔

اهل  بیت آیہ تطہیر کی نظر میں 

خداوندعالم قرآن مجید کی آیہ تطہیر میں ارشاد فرماتا ہے :

<... إِنَّمَا یُرِیدُ اللهُ لِیُذْہِبَ عَنْکُمْ الرِّجْسَ اٴَہْلَ الْبَیْتِ وَیُطَہِّرَکُمْ تَطْہِیرًا>()..؟

()سورہٴ احزاب، آیت ۳۳.

ان جاهل  و متعصب اور دل کے اندھوں نے مسلمانوں کے عقائد و نظریات کو منحرف کرنے کے لئے نحوی قواعد پر توجہ کئے بغیر بے بنیاد معنی و تفسیر ذکر کئے. کیونکہ آیہ شریفہ میں ضمیریں ”مذکر“ کی استعمال ہوئی ہیں لیکن انھوں نے اهل  بیت سے مراد پیغمبر اکرم  (ص) کی ازواج قرار دی ہیں، اور اهل  بیت کا مصداق صرف اور صرف ازواج آنحضرت  (ص) قرار دیا ہے!

زید بن علی بن الحسین علیہما السلام نے فرمایا: جو جاهل  لوگ گمان کرتے ہیں خداوندعالم نے آیہ تطہیر میں ازواج پیغمبر مراد لی ہیں؛ بے شک ان لوگوں نے جھوٹ کہا ہے، اور ایک عظیم گناہ کے مرتکب ہوئے ہیں. خدا کی قسم اگر خداوندعالم اس آیت میں ازواج پیغمبر کو مراد لیتا تو پھر آیت میں ادبی لحاظ سے اس طرح ذکر کرتا: < إِنَّمَا یُرِیدُ اللهُ لِیُذْہِبَ عَنْکُنّ الرِّجْسَ اٴَہْلَ الْبَیْتِ وَیُطَہِّرَکُنَّ تَطْہِیرًا>، جیسا کہ قبل و بعد کی آیات میں ازواج پیغمبر سے خطاب ہوا ہے جن میں تمام ضمیریں مونث کی استعمال ہوئی ہیں، جیسے: منکن، اذکرن، بیوتکن، تبرجن، لستن، قرن، اقمن، آتین، اطعن“۔()

()تفسیر قمی، ج ۲، ص ۱۹۳؛ بحار الانوار، ج ۳۵، ص ۲۰۶، باب ۵، حدیث ۱.

درج ذیل روایت بھی جو کہ اهل  سنت کے مہم ترین کتاب یعنی صحیح مسلم سے نقل ہوئی ہے، ان بے تقویٰ علماء کا جواب ہے جو بنی امیہ اور بنی عباس کے حکّام کی خاطر آیہٴ تطہیر کے معنی کی تحریف کی ہے، اور اهل  بیت کو قرآن مجید اور ان بہت سے روایات کے مخالف معنی کیا ہے جو اهل  سنت کے حدیث کی کتابوں میں نقل ہوئی ہے ، انھوں نے ان سب کی مخالفت کرتے ہوئے آیت سے مراد ازواج پیغمبر کو لیا ہے!!

”یزید بن حیان، عن زید بن ارقم (بعد ذکر حدیث الثقلین: انی تارک فیکم الثقلین کتاب اللہ... واھل بیتی) فقلنا:مَن اهل  بیتہ؟ نساء ہ؟ قال :لا وایم اللہ، ان المراٴة تکون مع الرجل العصر من الدھر ثم یطلقھا فترجع الی ابیھا وقومھ. اھل بیتہ اصلہ وعصبتہ الذین حرموا الصدقة بعدہ“.()

()صحیح مسلم، ج ۴، ص ۱۴۹۳، باب ۴، حدیث ۲۴۰۸.

”ترجمہ روایت..؟

وہ لوگ جبکہ اس بات کو جانتے تھے کہ خود ازواج پیغمبر منجملہ عائشہ () اور اصحاب و خود اهل  سنت کے علماء اهل  بیت علیہم السلام کے مصداق حضرت علی، حضرت فاطمہ، امام حسن اور امام حسین علیہم السلام اور امام حسین علیہ السلام کی نسل سے باقی ائمہ علیہم السلام کو مانتے ہیں، لیکن ان کی باطنی خباثت اور شیعوں سے دشمنی نے ان کو منحرف کردیا اور اس بات پر آمادہ کردیا کہ اپنے نفس کی غلامی اور بنی امیہ اور بنی عباس کے حکام کی پرستش کے لئے حقائق کی تحریف کے لئے قدم بڑھائیں۔ 

()صحیح مسلم، ج ۴، ص ۱۵۰۱، باب ۹، حدیث ۲۴۲۴.

اهل  بیت روایات کی روشنی میں 

بہت سے روایوں نے پیغمبر اکرم  (ص) سے منقول بہت سی روایات میں اهل  بیت علیہم السلام کے مصداق حضرت علی، حضرت زہرا اور امام حسن و امام حسین اور امام حسین علیہ السلام کی نسل سے دیگر ائمہ معصومین علیہم السلام ذکر کیا ہے، چنانچہ ان رایوں کے نام کچھ اس طرح ہیں:

ام سلمہ، عائشہ، ابوسعید خدری، ابوبرزہ اسلمی، ابو الحمراء، ہلال بن حارث، ابولیلیٰ انصاری، انس بن مالک، براء بن عازب، ثوبان بن بجدد، جابر بن عبد اللہ انصاری، زید بن ارقم، زینب بن ارقم، زینب دختر ابوسلمہ مخزومی ، سعد بن ابی وقاص، صبیح، عبد اللہ بن عباس، عمر بن ابی سلمہ، عمر بن خطاب، واثلة بن اسقع۔

اهل  سنت کی معتبر کتابوں میں اهل  بیت علیہم السلام کے حقیقی مصداق کو ان روایات سے نقل کیا ہے ، اور شیعوں نے قرآن و روایات اور ان روایوں نیز اپنی معتبر کتابوں پر بھروسہ کرتے ہوئے اپنے پورے وجود سے اهل  بیت علیہم السلام سے اپنے دل کو وابستہ کیا ہے اور ان کو پیغمبر اکرم  (ص) کے حقیقی جانشین اور رہبر مانتے ہیں، ان کی اطاعت کو واجب اور اس کی اقتدا کو دنیا و آخرت کی سعادت اور کامیابی کا ذریعہ اور ہمیشگی نجات کا سبب شمار کرتے ہیں۔

مناسب ہے کہ اهل  بیت علیہم السلام کے عاشقوں اور محبوں کے قلبی اطمینان کے لئے تبرکاً چند روایات کے بیان کو کافی سمجھتے ہیں، کیونکہ اس مختصر کتاب میں سب روایات کی تفصیل بیان نہیں کی جاسکتی۔

پہلی روایت:

”العوام بن حوشب عن التمیمی قال:دخلت علی عائشة، فحدثتنا: إنھا راٴت رسول الله دعا علیاً وفاطمة والحسن والحسین فقال: اللھم ھولاء اهل  بیتی فاذھب عنھم الرجس وطھرھم تطھیراً“.()

()الامالی صدوق، ص ۳۸۲.

”عوام بن حوشب ، تمیمی سے روایت کرتے ہیں کہ تمیمی نے کہا: میں عائشہ کے پاس گیا، انھوں نے ہم سے کہا: رسول اکرم  (ص) نے علی، فاطمہ، حسن اور حسین علیہم السلام کو طلب کیا اور فرمایا: خداوندا! یہ میرے اهل  بیت ہیں، ان سے ہر قسم کے رجس اور برائی کو دور کردے، اور ان کو ایسے پاک و پاکیزہ قرار دے جو پاک و پاکیزہ رکھنے کا حق ہے“۔

دوسری روایت:

”جمیع بن عمیر کہتے ہیں:میں اپنی والدہ کے ساتھ جناب عائشہ کی خدمت میں پہنچے؛ میری والدہ نے ان سے سوال کیا کہ آپ یہ بتائےے کہ پیغمبر اکرم  (ص) حضرت علی علیہ السلام سے کس طرح محبت کیا کرتے تھے؟ چنانچہ عائشہ نے میری والدہ سے کہا: وہ مَردوں کے درمیان پیغمبر اکرم  (ص) کے سب سے زیادہ محبوب شخص تھے، میں نے خود دیکھا ہے کہ انھوں نے ان کو فاطمہ، حسن و حسین (علیہم السلام) کے ساتھ ایک چادر میں جمع کیا اور پھر فرمایا: خداوندا! یہ میرے اهل  بیت ہیں، خدا یا! ان سے ہر قسم کے رجس اور برائی کو دور فرما، اور ان کو مکمل طور پر پاک و پاکیزہ قرار دے. میں بھی ان کے پاس گئی تاکہ میں بھی چادر کے نیچے داخل ہوجاؤں، لیکن پیغمبر اکرم  (ص) نے مجھے واپس کردیا ! میں نے کہا: کیا میں اهل  بیت میں سے نہیں ہوں؟ تو پیغمبر اکرم  (ص) نے فرمایا: تم خیر پر ہو، تم خیر پر ہو“۔()

()شواہد التنزیل، ج ۲، ص ۶۱، حدیث ۶۸۲.

تیسری روایت: 

عیسی بن عبد اللہ بن مالک، عن عمر بن الخطاب: سمعت رسول الله  (ص) یقول: ایھا الناس، انی فرط لکم وانکم واردون علی الحوض، حوضا اعرض مما بین صنعاء وبصری، فیہ قدحان عدد النجوم من فضة، و انی سائلکم حین تردون علی عن الثقلین، فانظروا کیف تخلفونی فیھما، السبب الاکبر کتاب الله طرفة بید الله وطرفہ بادیکم، فاستمسکوا بہ ولا تبدلوا، وعترتی اهل  بیتی فانہ قد نبانی الطیف الخبیر انھما لن یفترقا حتی یرد علی الحوض. فقلت: یا رسول الله! من عترتک؟ قال: اهل  بیتی ومن ولد علی وفاطمة والحسن والحسین وتسعة من صلب الحسین، ائمة ابرار ھم عترتی من لحمی و دمی.()

()تفسیر برہان، (تھوڑے فرق کے ساتھ)، ج ۱، ص ۹؛ کفایة الاثر، ص ۹۱؛ بحار الانوار، ج ۳۶، ص ۳۱۷، باب ۴۱، حدیث ۱۶۵. 

”عیسیٰ بن عبد اللہ بن مالک نے عمر بن خطاب سے روایت کی ہے کہ میں نے پیغمبر اکرم  (ص) سے سنا ہے کہ آپ نے فرمایا: میں تمہارا پرچم دار ہوں، اور تم لوگ حوض کوثر پر میرے پاس حاضر ہوگے، ایسی حوض جو صُنعا سے بُصری تک کے برابر ہوگی اور ستاروں کی تعداد کے برابر اس کے جام زرین ہوں گے، اور جب تم لوگ میرے پاس آؤ گے تو میں تم سے ثقلین کے بارے میں سوال کروں گا، لہٰذا تم دھیان رکھو کہ تم ان دونوں سے کیسا سلوک کرتے ہو، جن میں سے پہلی ریسمان بزرگ قرآن مجید، ہے جس کا ایک سرا خدا کے ہاتھ میں اور دوسرا سرا تمہارے ہاتھ میں ہے، لہٰذا اس سے متمسک رہو اور اس کو کسی چیز سے (بھی) نہ بدلو، اور دوسری چیز میری عترت اور میرے اهل  بیت ہیں، کیونکہ خداوند لطیف و خبیر نے مجھے آگاہ کیا ہے کہ یہ دونوں ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوں گے، یہاں تک کہ حوض کوثر پر میرے پاس وارد ہوں۔

عمر بن خطاب کہتے ہیں: میں نے پیغمبر اکرم  (ص) سے سوال کیا: یا رسول اللہ! آپ کی عترت کون لوگ ہیں؟ فرمایا: میرے اهل  بیت علی و فاطمہ (علیہم السلام) کی نسل سے حسن و حسین اور نو امام حسین (علیہ السلام) کی نسل سے ہوں گے جو نیک حضرات ہوں گے اور یہ میری عترت میرے گوشت و خون سے ہیں۔....؟

چوتھی روایت:

موسیٰ بن عبد ربّہ: سمعت الحسین بن علی یقول فی مسجد النبی - و ذالک فی حیاة ابیہ علی علیہ السلام:- سمعت رسول اللہ یقول: اٴلا ان اھل بیتی امان لکم فاحبوھم لحُبّی، وتمسکوا بھم لن تضلو. قیل: فمن اهل  بیتک یا نبی الله؟ قال: علی وسبطای وتسعة من ولدالحسین، ائمة امناء معصومون، الا انھم اھل بیتی وعترتی من لحمی ودمی.()

()کفایة الاثر، ص ۱۷۰؛ بحار الانوار، ج ۳۶، ص ۳۴۱، باب ۴۱، حدیث ۲۰۷ (تھوڑے سے فرق کے ساتھ).

”موسیٰ بن عبد ربّہ کہتے ہیں: حسین بن علی (علیہ السلام) کو اپنے والد بزرگوار حضرت علی علیہ السلام کے زمانہ میں مسجد نبوی میں فرماتے ہوئے میں نے سنا:میں نے حضرت رسول اکرم  (ص) سے سنا کہ آپ نے فرمایا: آگاہ ہوجاؤ کہ میرے اهل  بیت (علیہم السلام) تمہارے لئے امان و پناہ گاہ کا سبب ہیں، لہٰذا ان کو میری محبت کی وجہ سے ان سے بھی محبت کرو، اور ان سے متمسک رہو تاکہ کبھی گمراہ نہ ہو، سوال کرنے والے نے سوال کیا: (یا رسول اللہ!) آپ کے اهل  بیت کون ہیں؟ فرمایا: علی اور میرے دو نواسے، اور نو امام حسین کی نسل سے جو معصوم اور امین امام ہوں گے؛ آگاہ ہوجاؤ کہ وہ میری عترت اور اهل  بیت میرے گوشت اور خون سے ہوں گے“۔

یہاں تک یہ بات واضح اور روشن ہوچکی ہے کہ شیعہ اثنا عشری قرآن و سنت کے پیش نظر اهل  بیت علیہم السلام سے متمسک ہیں، ان کی پیروی کو واجب جانتے ہیں، اور ان کی امامت و ولایت کو مانتے ہیں نیز حقیقی اسلام کو انہی حضرات سے حاصل کرتے ہیں، اور مستحکم دلائل اور واضح حجت اور پائیدار برہان کے ذریعہ یہ اعلان کرتے ہیں: اهل  بیت علیہم السلام کے مصداق فریقین کی معتبر کتابوں میں نقل ہونے والی روایات کی بنیاد پر سوائے حضرت امیر المومنین علی بن ابی طالب، حضرت فاطمہ زہرا، حضرت امام حسن اور حضرت اباعبد اللہ الحسین (علیہم السلام) اور امام حسین کی نسل سے نو امام معصوم و پاک و پاکیزہ کے کوئی نہیں ہے، اور تحریف کرنے والوں، وسوسہ پیدا کرنے والوں اور بنی امیہ و بنی عباس کے زر خرید غلاموں (جو علم دانش کے لباس میں ان کی حکومت اور ان کے مکتب کی بے بنیاد دلیلیں پیش کرنے کی ناکام کوششیں کرتے رہے ہیں اور ان حکام کی وجہ سے حقائق میں تحریف کرتے رہے ہیں) ان سب سے بیزار ہیں اور کسی بھی قیمت پر اهل  بیت علیہم السلام کی ولایت سے دور نہ ہوں گے اور ان حضرات سے عشق و محبت اور ان کے مصائب پر عزاداری کو ترک نہیں کریں گے۔

اهل  بیت علیہم السلام کی معرفت کی ضرورت ، روایات کی روشنی میں

علم منطق اور ”معرِّف“ کی بحث میں سبھی اهل  منطق بالاتفاق یہ کہتے ہیں: معرِّف (یعنی تعریف کرنے والا) جب کسی حقیقت کی شناخت اور پہچان کرائے تو اس کا معرَّف (جس کی تعریف کی جائے) سے اجلیٰ اور اعلیٰ ہونا چاہئے تاکہ اس حقیقت کی کما حقہ تعریف کرسکے ۔

لہٰذا اهل  بیت علیہم السلام کی امامت کے اثبات کے لئے اور ان حضرات کے وارث علم پیغمبر ہونے نیز ان حضرات پر خدا کی طرف سے الہام ہوتا ہے، کہنا چاہئے کہ اس عالم کائنات میں خداوندعالم کے بعد اهل  بیت علیہم السلام کو پہچاننے کے لئے خود اهل  بیت علیہم السلام سے اجلیٰ و اعلیٰ کون ہوسکتا ہے؟ ہم اهل  بیت علیہم السلام کی وجودی اور معرفتی شناخت اور پہچان کے لئے اهل  بیت علیہم السلام کی طرف رجوع کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں رکھتے، کیونکہ کوئی بھی شخص ان حضرات کی جامع اور مکمل شناخت نہیں رکھتا، اور جو کچھ بھی دوسرے لوگوں نے اهل  بیت علیہم السلام کی تعریف کی ہے وہ ناقص تعریف ہے یا منطق کی اصطلاح میں ”جامع افراد و مانع اغیار“ نہیں ہے، یعنی اهل  بیت علیہم السلام کی جو عظمت ہے اس کو بیان نہیں کرسکتے۔

چنانچہ مذکورہ باتوں سے یہ چیز روشن ہوجاتی ہے کہ اهل  بیت علیہم السلام کی شناخت اور ان حضرات کی معرفت ایک لازم و ضروری چیز ہے، جو نجات کی باعث، قرب خدا کی موجب اور حقیقی و صحیح اسلام کو حاصل کا سبب ہے، بلکہ در حقیقت خداوندعالم کی صراط مستقیم کی شناخت اور پہچان ہے. مطلب کی عظمت اور اس کے حساس ہونے اور اس پر تاکید کی وجہ سے نیز اس پر مزید توجہ کے لئے دوسری چند روایات کی طرف اشارہ کرتے ہیں:

حضرت امیر المومنین علیہ السلام فرماتے ہیں:

”اسعد الناس من عرف فضلنا، وتقرب الی اللہ بنا، واخلص حبنا، وعمل بما الیہ ندبنا، و انتھی عمّا عنہ نھینا، فذاک منّا وھو فی دار المقامة معنا“.()

()غررالحکم، ص ۱۱۵؛ فی ضرورة الامامة، حدیث ۱۹۹۵.

”سب سے زیادہ خوش قسمت وہ شخص ہے جو (دوسری مخلوقات پر) ہماری برتری اور فضیلت کو پہچان لے، اور اس کے ذریعہ خدا کا قرب حاصل کرے، ہماری محبت کو خالص کرے، ہمارے بتائے ہوئے احکام پر عمل کرے اور ہماری منع کی ہوئی چیزووں سے دور رہے، ایسا شخص ہم سے ہے اور ایسا شخص ہمیشہ ہمیشہ کے لئے بہشت ہمارے ساتھ رہے گا“۔

زرعہ کہتے ہیں: میں نے حضرت امام صادق علیہ السلام کی خدمت میں عرض کیا:

”ای الاعمال ھو افضل بعد المعرفة؟ قال: ما من شیء بعد المعرفة یعدل ھذہ الصلاة، ولا بعد المعرفة والصلاة شیء یعدل الزکاة، ولا بعد ذالک شیء یعدل الصوم، ولا بعد ذلک شیء یعدل الحج؛ وفاتحة ذالک کلہ معرفتنا وخاتمتہ معرفتنا“.()

()الامالی طوسی، ص ۶۹۴، مجلس یوم الجمعة، حدیث ۱۴۷۸؛ وسائل الشیعة، ج ۱، ص ۲۷، باب ۱، حدیث ۳۴.

”خداوندعالم کی معرفت اور شناخت کے بعد کونسا عمل افضل ہے؟ امام علیہ السلام نے فرمایا: معرفت کے نماز سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں ہے، اور شناخت نماز کے بعد کوئی بھی چیز زکوٰة کے برابر نہیں ہے، ان کے بعد کوئی بھی چیز روزہ کے برابر نہیں ہے، اور ان کے بعد کوئی بھی چیز حج کے برابر نہیں ہے، (لیکن) ان سب کی شروعات اور اختتام ہماری معرفت ہے“۔

جی ہاں! نماز، زکوٰة، روزہ اور حج اور ان عبادات کو صحیح انجام دینے کے طریقہ کو اهل  بیت علیہم السلام سے سیکھا جائے کہ جن کے گھر میں قرآن نازل ہوا ہے اور جو علم پیغمبر  کے وارث ہیں، اور جب تک ان حضرات کی صحیح شناخت اوران کے احکام کی پہچان کے بغیر کچھ نہیں سیکھا جاسکتا۔

حضرت رسول اکرم  (ص) سے منقول ہے:

”مَنْ مَنَّ الله علیہ بمعرفة اھل بیتی وولایتھم فقد جمع الله لہ الخیر کلہ“.()

()بشارة المصطفی، ص ۱۷۶؛ الامالی صدوق، ص ۴۷۴، مجلس ۷۲، حدیث ۹؛ بحار الانوار، ج ۲۷، ص ۸۸، باب ۴، حدیث ۳۶.

”جس شخص پر خداوندعالم نے میرے اهل  بیت (علیہم السلام) کی شناخت کی منت اور احسان کیا ہو بے شک اس کے لئے تمام خیر و نیکیاں جمع ہوگئی ہے“۔

ابو بصیر نے حضرت امام صادق علیہ السلام سے آیہ شریفہ: <... وَمَنْ یُؤْتَ الْحِکْمَةَ فَقَدْ اٴُوتِیَ خَیْرًا کَثِیرً...>() کی تاویل میں روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا:

()سورہٴ بقرہ، آیت ۲۶۹...؟ ترجمہ

”طاعة الله ومعرفة الامام“.()

()اصول کافی، ج ۱، ص ۱۸۵، باب معرفة الامام، حدیث ۱۱؛ المحاسن، ج ۱، ص ۱۴۸، باب ۱۹، حدیث ۶۰؛ بحار الانوار، ج ۱، ص ۲۱۵، باب ۶، حدیث ۲۲.

”(جس کو حکمت دی گئی ہے بے شک اس کو خیر کثیر عنایت ہوا ہے اور خیر کثیر) اطاعت خدا اور شناخت امام ہے“۔

اهل  بیت علیہم السلام سب سے افضل اور سب سے بہتر ہیں

کائنات کی ہر چیز سے چاہے پیدائشی لحاظ سے صرف مادی ہوں یا مکمل طور پر معنوی ہوں یا ایسی مخلوق جو مادی اور معنوی دونوں چیزوں سے مل کر بنے ہیں سب سے افضل اور سب سے بہتر ہیں۔

ان تینوں قسموں میں ان کے افضل اور سب سے بہتر ہونے کی دلیل یا تو خدا وندعالم کا انتخاب ہے، یا ان کی معنوی توجہ، یا ان کی وجودی وسعت، یا ان کا کامل ایمان، مکمل یقین اور شائستہ عمل، یا ایسی علت اور سبب ہے جو ہمارے لئے واضح نہیں ہے۔

مطلب کی وضاحت کے لئے ان تینوں قسموں میں افضل و بہتر ہونے کے لئے چند نمونوںکی طرف اشارہ کرتے ہیں:

بہترین مقامات 

قرآن مجید اور روایات میں بہت سے مقامات اور زمینوں کو نام لیا گیا ہے کہ جو خداوندعالم کی بارگاہ میں مخصوص اہمیت کے حامل ہیں، اور اسی مخصوص اہمیت نے اس کو دوسرے مقامات سے افضل و بہتر بنادیا ہے، اور انسان کے لئے خداوندعالم کے لطف و کرم کی وجہ سے ان مقامات پر جانا اور وہاں عبادات کرنے کا ایک عظیم ثواب مقرر کیا گیا ہے، اور ان مقامات کی توہین و بے ادبی کرنا سبھی پر ممنوع اور حرام قرار دیا گیا ہے۔

کعبہ اور اس کی سر زمین

جس سر زمین پر کعبہ مکرمہ واقع ہے اس کو خداوندعالم نے انتخاب کیا ہے اور اس انتخاب کی وجہ سے اس مقام کو عظمت اور فضیلت حاصل ہوئی ہے، اور اسی چیز نے اس کو دوسرے مقامات سے برجستہ اور ممتاز قرار دیا ہے۔

حضرت امام صادق علیہ السلام سے منقول ہے:

”ان الله اختار من کل شیء شیئا، و اختار من الارض موضع الکعبة“.()

”خداوندعالم نے ہر چیز سے کسی ایک چیز کا انتخاب کیا ہے، اور تمام زمینوں میں سے زمین کعبہ کو انتخاب کیا ہے“۔

()من لایحضرہ الفقیہ، ج ۲، ص ۲۴۳، باب ابتداء الکعبة و فضلھا، حدیث ۲۳۰۶؛ وسائل الشیعة، حدیث ۱۷۶۴۹.

خانہ کعبہ، روئے زمین پر سب سے پہلا خداوندعالم کا گھر بنایا ہوا ہے، اور وہ مبارک اور پُر منفعت سر زمین ہے جس کے تمام پروگرام پوری اهل  کائنات کی ہدایت کے لئے ہے. خداوندعالم کی واضح اور معنوی نشانیاں اور مقام ابراہیم علیہ السلام وہیں پر موجود ہے، اور اس سر زمین میں داخل ہونے والوں کے لئے امن و امان کا پیغام ہے، جیسا کہ خداوندعالم کا ارشاد ہے:

< إِنَّ اٴَوَّلَ بَیْتٍ وُضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِی بِبَکَّةَ مُبَارَکًا وَہُدًی لِلْعَالَمِینَ . فِیہِ آیَاتٌ بَیِّنَاتٌ مَقَامُ إِبْرَاہِیمَ وَمَنْ دَخَلَہُ کَانَ آمِنً...>()..

()سورہٴ آل عمران، آیت ۹۶، ۹۷.

حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا:

”من اٴتی الکعبة فعرف مِن حقھا وحرمتھا، لم یخرج من مکة اِلَّا وقد غفر الله لہ ذنوبہ کفاہ الله ما یھمہ من اٴمر دنیاہ وآخرتہ“.()

()وسائل الشیعہ، ج ۱۳، ص ۲۴۲، باب ۱۸، حدیث ۱۷۶۵۲.

اس کے علاوہ ایک روایت میں وارد ہوا ہے :

ما خلق الله  تعالیٰ بقعة فی الارض اٴحب الیہ منھا  (واو ما بیدھہ الی الکعبة ) ولا اٴکرم علی الله عزّوجلّ منھا، لھا حرم الله الا شھر الحُرُمَ فی کتابہ یوم خلق السماوات والارض.

خدا وندعالم کے نزدیک سب سے پسندیدہ زمین کوئی نہیں ہے (اور حضرت نے اپنے دست مبارک سے کعبہ کی طرف اشارہ کیا) اور خدا کے نزدیک اس سے بہتر اور قیمتی کوئی جگہ نہیں ہے ، اور زمین وآسمان کی خلقت کے دن سے چار مہینوں کو حرام قرار دیا ہے جیسا کہ قرآن مجید میں اشارہ کیا ہے خانہ کعبہ کی وجہ سے ان مہینوں کو محترم شمار کیا ہے، (وسائل الشیعہ، ج ۱۳، ص ۲۴۲، باب ۱۸، حدیث ۱۷۶۵۱)

بہترین تاریخیں 

قرآن مجید نے لوگوں کو بہترین تاریخوں جیسے شب قدر() ذی الحجہ کے پہلے دس دن() اور ایام اللہ() کی طرف متوجہ کیا ہے، تاکہ ان سنہری اور بے نظیر فرصتوں سے بہترین ثواب حاصل کریں۔

()سورہٴ قدر، آیت ۱.

()سورہٴ فجر، آیت ۱.

()سورہٴ ابراہیم، آیت ۵.

شب قدر 

عظیم الشان تفسیر ”الصافی“ میں ابن عباس سے روایت ہے کہ پیغمبر اسلام  (ص) کے خدمت میں بنی اسرائیل کے ایک شخص کے بارے میں نقل کیا کہ وہ راہ خدا میں جہاد کے لئے ایک ہزار مہینوں تک اپنے کاندھوں پر اسلحے لئے رہتا تھ. جب پیغمبر اکرم  (ص) نے یہ سنا تو آپ کو بہت تعجب ہوا، اور آپ کے دل میں ایک آرزو پیدا ہوئی کہ اے کاش میری امت کے لئے بھی ایسا ثواب معین کیا جاتا! اس کے بعد آنحضرت  (ص) نے اپنے ہاتھوں دعا کے لئے اٹھایا اور بارگاہ خداوندی میں عرض کی: پروردگارا!  میری امت کو عمر کے لحاظ سے سب سے کم عمر والی اور عمل کے لحاظ سے بھی کم سے کم عملی والی امت قرار دی ہے. چنانچہ خداوندعالم نے آپ کو شب قدر عنایت فرمائی اور اعلان کیا: شب قدر اپنے کم وقت کے باوجود اس بنی اسرائیل کے شخص کی عبادت اور ثواب سے بہتر ہے جو راہ خدا میں جہاد کے لئے ہزار مہینوں تک اسلحہ اٹھائے ہوئے تھا، اور یہ شب قدر آپ کے لئے اور آپ کی امت کے لئے روز قیامت تک ہر رمضان میں قرار دی ہے۔()

()مجمع البیان، ج ۱۰، ص ۶۶۵؛ تفسیر الصافی، ج ۵، ص ۳۵۲.

شب قدر میں دعا و استغفار، قرآن کریم کی تلاوت، علمی بحث و گفتگو، مستحب نمازیں، شب بیداری اور زیارت حضرت امام حسین علیہ السلام پڑھنا مسلسل ہزار مہینے عبادت سے بہتر و افضل ہے۔

ذی الحجہ کے پہلے دس دن 

جیسا کہ قرآن مجید کی بیان ہوا ہے: ذی الحجہ کے پہلے دس دن ”ایام معلومات“ (عظیم الشان دن) ہیں()اور ان بہترین دنوں میں سے ہیں جن میں عمرہ تمتع اور حج انجام دیا جاتا ہے، جس کا نواں دن روز عرفہ ہے اور جس کی دسویں رات مشعر الحرام میں ”بیتوتہ واجب“ (رات گزارنا) ہوتا ہے، اور جس کا دسواں دن عید قربان کا دن ہوتا ہے۔

()سورہٴ بقرہ، آیت ۱۹۷.

جب ذی الحجہ کا مہینہ آتا ہے، امت کے صالح اور متقی افراد خدا کی عبادت و بندگی کے لئے ایک مخصوص اہتمام کرتے ہیں. یہ دن بہت ہی فضیلت و برکت رکھتے ہیں؛ جیسا کہ حضرت رسول اکرم  (ص) سے منقول ہے: ان دنوں میں عبادت اور نیک عمل ہر دوسرے دنوں کی نسبت بہت زیادہ محبوب ہے“!()

()مفاتیح الجنان، ص ۴۱۳.

ایام اللہ

ایام اللہ ان دنوں کو کہا جاتا ہے کہ جن میں خداوندعالم مومن و مسلمان امتوں کو کامیابی اور فتح عنایت کرتا ہے یا جن میں شکست ہوتی ہے ، یا خداوندعالم امت مسلمہ پر اپنی وسیع رحمت نازل کرتا ہے یا خداوندعالم گروہ منافق پر اپنے غیظ و غضب نازل کرتا ہے۔

ایام اللہ پر توجہ کرنا (ان دنوں میں رونما ہونے والا حوادث سے عبرت حاصل کرنا) ایک بہت نیک عمل اور ایک ایسی حقیقت ہے جس کو خداوندمہربان نے متوں کی شد و بیداری کے لئے قرآن مجید میں حکم دیا ہے:

<وَلَقَدْ اٴَرْسَلْنَا مُوسَی بِآیَاتِنَا اٴَنْ اٴَخْرِجْ قَوْمَکَ مِنْ الظُّلُمَاتِ إِلَی النُّورِ وَذَکِّرْہُمْ بِاٴَیَّامِ اللهِ...>()..تر

()سورہٴ ابراہیم، آیت ۵. 

اور گزشتہ مطلب کے علاوہ گناہوں سے دوری اختیار کرنا، عبادت، نیک کام اور خدا کی بارگاہ میں توبہ کرنے کو روایات اور الٰہی تعلیمات میں بہترین تاریخوں اور افضل زمانوں میں شمار کیا گیا ہے۔

بہترین انسان

ایک انسان کی فضیلت و قدر قیمت دوسرے انسان کی نسبت اس کا ایمان، علم اور تقویٰ ہے۔

ہر مومن انسان دوسرے تمام انسانوں کی نسبت افضل ہے اور علماء اور اهل  عمل دانشور مومنین سے چند درجے افضل اور برتر ہیں، اور اهل  تقویٰ جن کا تقویٰ اپنی بلندی پر ہو وہ دوسروں سے افضل و برتر ہیں. قرآن مجید اور احادیث میں ان تینوںکے سلسلہ میں لطیف اشارے اور دقیق تحریریں ملتی ہیں:

اهل  ایمان 

خداوندعالم قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے:

<... یَرْفَعْ اللهُ الَّذِینَ آمَنُوا مِنْکُمْ وَالَّذِینَ اٴُوتُوا الْعِلْمَ دَرَجَاتٍ وَاللهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِیرٌ>()..

()سورہٴ مجادلہ، آیت ۱۱.

مومن شخص کی فضیلت اس قدر ہے کہ قرآن مجید کی آیات اور روایات میں کسی مومن سے محبت کرنا، خداو رسول کی محبت اور کسی مومن کی مدد کرنا خداو رسول کی محبت، اور کسی مومن کو خوش کرنا، خدا و رسول کو خوش کرناہے، اسی طرح کسی بھی طرح سے کسی مومن کو تکلیف پہنچانا خداو رسول کو تکلیف پہنچانا قرار دیا ہے!

امام محمد باقر علیہ السلام ، حضرت رسول خدا  (ص) سے روایت فرماتے ہیں کہ آنحضرت  (ص) نے فرمایا:

”من سر مومنا فقد سرنی ومن سرنی فقد سر اللہ“.()

()اصول کافی، ج ۲، ص ۱۸۸، باب ادخال السرور علی المومنین، حدیث ۱؛ وسائل الشیعة، ج ۱۶، ص ۳۴۹، باب ۲۴، حدیث ۲۱۷۳۳.

”جو شخص کسی مومن کو خوش کرے، بے شک اس نے مجھے خوش کیا، اور جس نے مجھے خوش کیا یقینا اس نے خدا کو خوش کیا“۔

نیز حضرت امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا:

”ما عبد الله بشیء احب الی اللہ من ادخال السرور علی المومن“.()

”خداوندعالم کے نزدیک اس سے زیادہ محبوب کوئی شئے نہیں ہے کہ انسان کسی مومن بندہ کو خوش کرے“۔

()اصول کافی، ج ۲، ص ۱۸۹، باب ادخال السرور علی المومنین، حدیث ۲؛ وسائل الشیعة، ج ۱۶، ص ۳۴۹، باب ۲۴، حدیث ۲۱۷۳۴.

امام صادق علیہ السلام نے فرمایا:

”لقضاء حاجة امری مومن، احب الی اللہ من عشرین حجة، کل حجة ینفق فیھا صاحبھا مائة الف.()

()اصول کافی، ج ۲، ص ۱۹۳، باب قضاء حاجة المومن، حدیث۴؛ وسائل الشیعة، ج ۱۶، ص ۳۶۳، باب ۲۶، حدیث ۲۱۷۶۹.

”بے شک کسی مومن کی حاجت روائی کرنا خدا کے نزدیک ایسے بیس حج سے زیادہ بہتر ہے جن میں ہر حج میں ایک لاکھ درہم صدقہ دیا گیا ہو“۔

نیز امام صادق علیہ السلام نے فرمایا:

”ان اشبع رجلا من اخوانی، احب الی من ان ادخل سوقکم ھذا فابتاع منھا راساً فاعتقہ.()

()اصول کافی، ج ۲، ص ۲۰۳، باب اعطام المومن، حدیث ۱۴؛ المحاسن، ج ۲، ص ۳۹۴، باب ۱، حدیث ۵۲؛ وسائل الشیعہ، ج ۲۴، ص ۳۰۲، باب ۲۹، حدیث ۳۰۶۰۸.

”بے شک اگر کوئی شخص میرے مومن بھائیوں کو کھانا کھلائے، وہ میرے نزدیک اس سے زیادہ بہتر ہے کہ میں اس بازار میں جاؤں اور ایک غلام خرید کر راہ خدا میں آزاد کردوں“۔

اهل  علم اور علماء 

حضرت رسول خدا  (ص) عالم کی فضیلت کے بارے میں ارشاد فرماتے ہیں:

”فضل العالم علی سائر الناس کفضلی علی ادناھم“.()

()تفسیر الصافی، ج ۲، ص ۶۷۵.

”دوسرے لوگوں کی نسبت عالم کی فضیلت ایسی ہے جیسے میری فضلیت بندوں میں پست ترین لوگوں کی نسبت ہے“۔

نیزآنحضرت  (ص) نے فرمایا:

”فضل العالم علی العابد کفضل القمر لیلة البدر علی سائر الکواکب“.()

()عوالی اللئالی، ج ۱، ص ۳۵۷، حدیث ۲۸؛ تفسیر الصافی، ج ۲، ص ۶۷۵.

”عالم کی فضیلت (جاهل )عابد کی نسبت چودھویں رات کی نسبت دوسرے ستاروں کی طرح ہے“۔

”ثلاثة یشفعون الی اللہ عز وجل فیشفعون: الانبیاء، ثم العلماء، ثم الشھداء“.()

()تفسیر الصافی، ج ۲، ص ۶۷۶.

”روز قیامت میں تین گروہ شفاعت کریں گے جن کی شفاعت بارگاہ خداوندی میں قبول ہوگی: انبیاء علیہم السلام، علماء اور شہیدان راہ خدا“۔

حضرت امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا:

”عالم ینتفع بعملہ ،افضل من سبعین الف عابد“.()

”جو عالم اپنے علم سے فائدہ اٹھائے وہ ستر ہزار (جاهل ) عابدوں سے افضل ہے“۔

()اصول کافی، ج ۱، ص ۳۳، باب صفة العلم وفضلہ، حدیث ۸؛ تحف العقول، ص ۲۹۴؛ تفسیر الصافی، ج ۲، ص ۶۷۶.

اهل  تقویٰ

خداوندعالم اهل  تقویٰ کے سلسلہ میں فرماتا ہے:

<... إِنَّ اٴَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللهِ اٴَتْقَاکُمْ...>()..

()سورہٴ حجرات، آیت ۱۳.

پیغمبر اسلام  (ص) فرماتے ہیں کہ خداوندعالم قیامت کے دن خطاب فرمائے گا:

”امرتکم فضیعتم ما عھدت الیکم فیہ، و رفعتم انسابکم فالیوم ارفع نسبی واضع انسابکم، این المتقون؟ <إِنَّ اٴَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللهِ اٴَتْقَاکُمْ>()

()مجمع البیان، تفسیر سورہٴ حجرات؛ بحار الانوار، ج ۶۷، ص ۲۷۸، باب ۵۶.

”میں نے تم (عبادت و بندگی اور طاغوت سے دوری کا) حکم دیا، لیکن تم نے اس حقیقت کو جس کے سلسلہ میں تمہارا عہد و پیمان بھی تھا تم نے پورا نہ کیا، اور تم نے اپنے حسب و نسب اور خاندان کو ہوا دی (جو دنیا و آخرت میں کچھ بھی کام نہیں آیا)؛ آج میں اپنے ان بندوں کو جو مجھ سے نسبت رکھتے تھے اس کے ذریعہ ان کو سرفرازی اور رفعت دوں گا اور تم کو (تمہارے آباؤ و اجداد کے ساتھ موجود نسب کو) ختم کرتا ہوں، (اور اس کے اعتبار کو ختم کرتا ہوں) کہاں ہیں اهل  تقویٰ؟ ترجمہ آیہ گزتشہ..؟

اهل  بیت علیہم السلام مخلوقات میں سب سے افضل

چونکہ میزان حق اور عدل کی ترازو میں انسان کی فضیلت کا معیار ایمان و معرفت اور تقویٰ ہے ، اور آیات و روایات کے پیش نظر اهل  بیت علیہم السلام کا ایمان، معرفت اور تقویٰ دوسری تمام صاحب عقل مخلوقات (جیسے ملائکہ، جن اور انسان) میں سب سے زیادہ، مستحکم اور وسیع تر ہے، اور ان حضرات کا ایمان، معرفت کے بلند ترین درجہ پر ہے، اور ان کا علم (کائنات کے ظاہر و باطن میں گزشتہ اور آئندہ زمانہ کی نسبت)سب پر شامل ہے، اور ان کا حضرات کا تقویٰ اور پرہیزگاری بلند ترین درجے پر ہے، اسی وجہ سے یہ حضرات تمام مخلوقات سے افضل و برتر ہیں، (لہٰذا) ان کی ولایت و امامت کو قبول کرنا قیامت تک سب پر واجب ہے، اور کوئی (چاہے کوئی بھی ہو) ان حضرات کی اقتداء اور ان کی اطاعت کئے بغیر کسی جگہ نہیں پہنچ سکتا، اور دل کے اندھے،([2]) حیوانوں کی طرح([3])اور مردہ([4]) باقی رہے گا، اگرچہ ظاہری طور پر زندہ ہو اور یہ دعویٰ کرتا ہو کہ میں انسان ہوں، میرے پاس علم و معرفت ہے اور میں دیکھتا ہوں۔

________________________________________

[1] ثواب الاعمال وعقاب الاعمال، ص ۴۵۵؛ المحاسن، ج ۱، ص ۹۰، باب ۱۶، حدیث ۴۰؛ بحار الانوار، ج ۲۷، ص ۱۷۷، باب ۷، حدیث ۲۴.

[2] سورہٴ فاطر، آیت ۱۹.

[3] سورہٴ اعراف، آیت ۱۷۹.

[4] سورہٴ نمل، آیت ۸۰.


source : http://www.fazael.com
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

عصمت امام کا اثبات
حسین شناسی یعنی حق پرستی
عفو اہلبیت (ع(
فدک ، ذوالفقار فاطمہ (سلام اللہ علیہا)
ولایت علی ع قرآن کریم میں
قاتلان حسین(ع) کا مذہب
''عاشورا ''وجود میں آنے کے اسباب
فاطمہ علیھا السلام ،عالم ہستي کا درخشاں ستارہ
عزم راسخ اور سعی مستقل
نبی (ص) کی ذات محور اتحاد

 
user comment